Archive for ستمبر 12th, 2009

Articles

آئینہ تصویر : تین ہزار امریکی اور لاکھوں مسلمان

In پاکستان,حقوق انسانی,دہشت گردی on ستمبر 12, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

بشکریہ :  جسارت میگزین کراچی اور سلیمان کھوکھر صاحب جو بڑی محبت سے اسے پبلیش کرنے کے لیے ای میل کر دیتے ہیں۔

بشکریہ : جسارت میگزین کراچی اور سلیمان کھوکھر صاحب جو بڑی محبت سے اسے پبلیش کرنے کے لیے ای میل کر دیتے ہیں۔

Articles

علی خان صاحب قائد تحریک سے مخاطب ہیں

In پاکستان on ستمبر 12, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

Ali KHan

یہ علی خان صاحب کا مضمون مطبوعہ جسارت میگزین ہے جسے ہم نے  کوئی شکریہ ادا کیے بغیر اُٹھا لیا ہے کیوں کہ میگزین  ایڈیٹرالیاس بن زکریا صاحب اور ان کا ادارہ کاپی رائٹ کے چکروں میں نہیں پڑھتا۔ البتہ ہم ان کے اوریجنل آرٹیکل کا لنک دے کر غیر رسمی شکریہ ادا کیے دیتے ہیں ۔ گرافک ویو کے لیے یہاں کلک کریں(تلخابہ)۔


ہمیں ایم کیو ایم کے کئی رہنما اچھے لگتے ہیں۔ ان میں ایک جناب حیدر عباس رضوی بھی ہیں۔ کیا خوب بولتے ہیں۔ متحدہ کے بہت تیزی سے ابھرتے ہوئے رہنما ہیں۔ ان کو نظر نہ لگے کیونکہ متحدہ میں جو بھی تیزی سے ابھرا وہ اس سے زیادہ تیزی سے غروب ہوگیا۔ ایسے کتنے ہی ستارے ٹوٹ کر بکھر گئے۔ جناب الطاف حسین کے ابتدائی ساتھیوں اور ایم کیو ایم کے بانیوں میں سے کتنے رہ گئے؟ زیادہ تر قتل کردیے گئے یا نکال دیے گئے۔ سامنے کی مثال عامر لیاقت حسین کی ہے جو اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگانا پسند کرتے ہیں۔ وہ بھی خوب بولتے تھے اور پھر یہ زعم ہوگیا تھا کہ وہ الطاف حسین سے زیادہ قابل اور ان سے زیادہ اچھا بولتے ہیں۔ اور پھر وہ الطاف بھائی کا فکر وفلسفہ بھلا بیٹھے۔ چنانچہ اب زیادہ تر پاکستان سے باہر رہتے ہیں۔تاہم حیدر عباس رضوی کو تخصص حاصل ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ گزشتہ دنوں وہ الطاف حسین کو ”مرد بچہ“ کہنے پر برا مان گئے، نجانے کیوں؟

Box1
ہم اب تک یہ سمجھتے آرہے تھے کہ کسی کو مرد بچہ کہنا اس کی تعریف کرنا ہے لیکن رضوی صاحب نے اس کا کچھ اور ہی مطلب نکال لیا، ہوا یوں کہ ایک ٹی وی چینل پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے حوالہ دیا کہ متحدہ کے رہنما وسیم اختر نے بریگیڈیئر(ریٹائرڈ) امتیاز کے ”انکشافات“ پر ان کو مرد بچہ قرار دیا ہے، الطاف حسین بھی مرد بچہ بنیں اور پاکستان تشریف لے آئیں۔ اس پر رضوی صاحب بھڑک اٹھے اور یہ شبہ ظاہر کیا کہ خواجہ آصف نے الطاف حسین کو نامرد کہا ہے۔ بہر حال ٹی وی چینل پر تو خواجہ آصف نے انہیں مرد بچہ قرار دینے پر معذرت کرلی لیکن ہم اب تک حیران ہیں، ہمارے خیال میں تو انسان کا ہر بچہ،مرد کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
الطاف حسین کی مردانگی اور جرا¿ت اظہار میں کوئی شک نہیں۔ اسی لیے تو انہوں نے ایک ٹی وی چینل کو بڑی تفصیل سے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مجھ پر تو پہلے بھی کفر کے فتوے لگ چکے ہیں اور اب ایک بار پھر یہ کفر کرنے جارہا ہوں۔ اور پھر انہوں نے اپنے کیے پر عمل بھی کردکھایا۔ کافروں، مرتدوں، شاتمان رسول اور اسلام کے باغیوں کی کھل کر حمایت کرنا اور ان کی تعظیم کرنا، پھر اپنے کہے سے پھر جانا جرا¿ت ہی کی تو بات ہے۔

Box4
الطاف حسین کے نظریات و خیالات تو بدلتے ہی رہتے ہیں کہ یہی ان کی فکر و فلسفہ ہے اور ان کے معتقدین آنکھ بند کرکے ان کی پوجا کرتے ہیں۔ الطاف حسین کا کروٹن کے پتوں اور پتھروں پر نمودار ہونا کوئی معمولی بات تو نہ تھی۔ ماننے والے جی، جان سے ان کرامات پر ایمان لائے۔ ایک مسجد کے صحن میں لگے پتھر پر الطاف بھائی نمودار ہوئے تو ان کے حواریوں نے صحن کا پتھر ہی اکھاڑ کر الطاف بھائی کے دروازے پر رکھ دیا۔ صحن حرم میں ایک بزرگ نے اچانک نمودار ہو کر الطاف بھائی کو آشیر واد دی اور غائب ہوگئے۔ اب یہ کہانیاں کچھ کم ہوگئی ہیں لیکن آمنا و صدقنا کہنے والے کم نہیں۔ عقیدت بھی عجیب رنگ دکھاتی ہے۔ انتہائی پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ ہندو بھی تو بلا سوچے سمجھے اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے گئے بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور شجر و حجر کو نفع، نقصان کا باعث قرار دیتے ہیں۔ قادیانیوں میں کیسے کیسے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام تو نوبل انعام یافتہ تھے، پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ بھی بڑے ذہین تھے لیکن یہ سب اس پر ایمان رکھتے تھے اور رکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد نبی تھے، ان پر وحی نازل ہوتی تھی اور جو انہیں نبی ماننے سے کتراتے ہیں وہ کم از کم مسیح موعود تو قرار دیتے ہی ہیں، یعنی حضرت عیسیٰ ؑ، جن کو دنیا میں واپس آنا ہے۔ غلام احمد نے کہا اور انہوں نے مانا کہ مسیح دنیا میں واپس آگئے۔ ویسے تو دجال کو بھی مسیح دجال کہا جاتا ہے۔ انگریز بھی اپنے خود کاشتہ پودے کے اس دعوے سے پریشان ہوگئے تھے کہ وہ مسیح بھی ہے۔ غلام احمد نے بھی اپنے درجات کو رفتہ رفتہ بلند کیا اور اس کی فکر و فلسفہ بھی کروٹیں بدلتی رہی۔
الطاف حسین قادیانیوں کے مبلغ، ہمدرد، سرپرست یا جو کچھ بھی ہیں وہ ان کے انٹرویو سے ظاہر ہوچکا ہے لیکن یہ مرزا مبشر لقمان کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور قادیانی مسئلہ میں ان کی دلچسپی کا اصل سبب کیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ قادیانی ہیں یا مسلمان، لیکن قادیانیوں کو مسلمان قرار دلوانے میں ان کی کاوشیں قابل توجہ ہیں۔ قادیانی مسئلہ پر الطاف حسین سے انٹرویو” مبشر ڈاٹ کام“ کا پہلا کارنامہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ ڈاکٹر اسرار احمد، محمد علی درانی اور نذیر ناجی تک سے اسی موضوع پر انٹرویو کرچکے ہیں۔ چلیے، ڈاکٹر اسرار احمد تو بہر حال ایک عالم ہیں لیکن ایک علمی مسئلہ پر محمد علی درانی اور نذیر ناجی سے انٹرویو اور ان کے خیالات نشر کرنے کی کیا حیثیت ہے۔ نذیر ناجی کی جو شہرت ہے وہ سب کے علم میں ہے۔ جب ہوش میں نہیں ہوتے تو کیس کیسی گالیاں ایجاد کرتے ہیں، یہ ریکارڈ پر ہے اور اتفاق سے دی نیوز اخبار کے ایک رپورٹر ہی نے یہ گالیاں ریکارڈ کی ہیں۔ ایسے شخص سے عقیدہ ختم نبوت پر بات کرنا اور اسے نشر کرنا مسلمانوں کے خلاف سازش نہیں تو اور کیا ہے۔ نذیر ناجی نے اپنے انٹرویو میں قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کو مسلمان قرار دیا اور حسب عادت علماءکو برا بھلا کہا۔ ملا ملا کہہ کر طنز و تحقیر کرنا آگرہ کے مفتی کے پوتے کی بھی عادت ہے۔ نذیر ناجی کو شکایت تھی کہ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی ہونے کی وجہ سے پاکستان میں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ لیکن یہ سلوک تو بہت سے مسلمان زعماءکے ساتھ بھی روا رکھا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے ایٹمی نظام کے خالق ڈاکٹر عبدالکلام بھی پاکستان آئے تھے لیکن پذیرائی نہ ہونے پر واپس چلے گئے۔ مولانا حسرت موہانی پاکستان آئے تو ان کے پیچھے انٹیلی جنس لگا دی گئی۔ پاکستان کا نام دینے والے چودھری رحمت علی بھی ناراض ہو کر واپس چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کوئی واحد مثال نہیں۔ پھر نذیر ناجی یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں کتنے ہی قادیانی اہم مناصب پر کام کرتے رہے اور کررہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی ناک کا بال اور اہم مشیر طارق عزیز کے نام سے تو واقف ہوں گے۔ قادیانی فوج میں اہم مناصب پر رہے۔ صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کے بارے میں ہمارے پاس معلومات نہیں ہیں۔ پطرس بخاری اور ان کے بھائی زیڈ اے بخاری سے کون واقف نہیں، پطرس کے مضامین کو رس میں شامل ہیں اور وہ ایک عرصہ تک اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ ان کے والد پشاور میں قادیانی مبلغ تھے۔ دوسری طرف پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے قائد اعظم کی نماز جنازہ پڑھنے سے اس بنا پر انکار کردیا تھا کہ وہ ان کو مسلمان ہی نہیں مانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یا تو وہ مسلمان نہیں یا میں مسلمان نہیں۔اور یہ صرف ان کا عقیدہ نہیں بلکہ مرزا غلام احمد نے اپنے پیرو کاروں کے سوا تمام مسلمانوں کو مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور یہ ان کی تحریروں میں موجود ہے۔ الطاف حسین صاحب کو بھی قادیانی مسلمان نہیں مانتے۔ اب شاید کوئی تبدیلی آگئی ہو، تاہم یہ سوال قابل توجہ ہے کہ مرزا مبشر لقمان قادیانی مسئلہ پر اتنے سرگرم کیوں ہیں اور اپنے مطلب کی باتیں اگلوانے میں کیوں مصروف ہیں۔ ان کے لیے گئے انٹرویوز سے قادیانیوں کی ویب سائٹ خوب فائدہ اٹھا رہی ہے۔ مبشر لقمان اس سے پہلے جس چینل سے وابستہ تھے وہ چینل ایک اور جھوٹے نبی یوسف کذاب کے خلیفہ¿ اول زید حامد کو بھی پروجیکٹ کرکے اتنا معتبر بنا چکا ہے کہ جو اس کی اصلیت سے واقف نہیں وہ اس کو اسلام کا سپاہی اور بڑا دانشور سمجھ بیٹھا ہے۔کیا مذکورہ چینل نادانستگی میں اسلام کے دشمنوں کو آگے بڑھا رہا ہے؟
اب آیئے الطاف حسین کی طرف۔ موصوف نے پہلے تو قادیانیوں کی عبادت گاہوں کو مسجد قرار دیا اور اعلان کیا کہ اگر وہ برسر اقتدار آگئے تو ایسا کمپاﺅنڈ بنائیں گے جس میں مندر، کلیسا اور احمدیوں کی مسجد ایک جگہ ہوگی۔ وہ نجانے کیوں، یہودیوں کا صومعہ بھول گئے۔ اگر غیر مسلم قادیانیوں، احمدیوں کی عبادت گاہ مسجد کہلائی جاسکتی ہے تو پھر ہندوﺅں کی مسجد، عیسائیوں کی مسجد اور یہودیوں کی مسجد کہنے میں کیا ہرج ہے؟ الطاف حسین ایک عالم ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ مساجد صرف مسلمانوں کی ہوتی ہیں اور یہ قرآنی اصطلاح ہے، یقین نہ آئے تو آگرہ کی مسجد میں رکھے گئے اپنے دادا مفتی رمضان کے فتاویٰ سے رجوع کرلیں، دادا زندہ نہیںلیکن آگرہ میں کوئی تو ان کا جانشین ہوگا، الطاف بھائی کے اپنے فرمودات کے بعد جب بھی ان کے عقائد کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں تو وہ جھٹ یہ دلیل لے آتے ہیں کہ وہ آگرہ کے مفتی کے پوتے ہیں۔ آگرہ کے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے وہاں یہ نام نہیں سنا تھا۔ لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔
الطاف حسین نے اپنے علم کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ احمدیوں کا کلمہ ایک، ان کی نماز ایک، انہیں تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے قادیانیوں کی ویب سائٹ پر کہا جارہا ہے کہ احمدیوں کے مخالف یہ کہتے ہیں کہ احمدی جب کلمہ پڑھتے ہیں تو محمد رسول اللہ سے ان کی مراد غلام احمد قادیانی سے ہوتی ہے۔ الطاف بھائی کہتے ہیں کہ انہوں نے احمدیوں کا لٹریچر خوب پڑھا ہے اور ان کی مجالس میں بھی شرکت کی ہے۔ لیکن مذکورہ ویب سائٹ پر تو کوئی قادیانی ہی یہ اعتراض کررہا ہے۔ کیا اس نے بھی غلام احمد قادیانی کی کتابیں نہیں پڑھیں۔ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ ” میں محمد ہوں، میں احمد ہوں۔ قرآن کریم میں احمد کا لفظ میرے لیے ہی آیا ہے“۔ پھر اگر مسلمان یہ سمجھیں کہ قادیانی کلمہ پڑھتے ہوئے اپنے نبی کا تصور کرتے ہیں تو غلط کیا ہے۔
Box2

بنیادی بات یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی نبی آئے ان کے دور میں ان کی امت نے انہی کا کلمہ پڑھا اور لا الہ الا اللہ کے بعد ان کا نام شامل کیا۔ اب اگر مرزا غلام احمد نبوت کا دعویدار ہے تو اس کے امتی اسی کا کلمہ پڑھیں گے نہ کہ محمد رسول اللہ کا۔ مرزا غلام احمد نے کھل کر اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جو ریکارڈ پر ہے۔ مثلاً اپنی وفات سے صرف تین دن پہلے 23مئی 1908ءکو ایڈیٹر اخبار عام لاہور کے نام خط میں لکھا” میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں، اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیوں کر اس سے انکار کرسکتا ہوں، میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک کہ میں اس دنیا سے گزر جاﺅں“ ایک اور جگہ(5مارچ 1908ئ) لکھتا ہے” ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں“۔ ان کا خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود اپنی کتاب حقیقتہ النبوت، صفحہ 172 میں لکھتا ہے” پس شریعت اسلامی نبی کے جو معنی کرتی ہے اس کے معنی سے حضرت صاحب(مرزا غلام احمد)ہرگز مجازی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں“۔
نبوت کے دعوے کا لازمی نتیجہ ہے کہ جو شخص بھی اس نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیا جائے۔ چنانچہ قادیانیوں نے یہی کیا۔ وہ ان تمام مسلمانوں کو اپنی تحریر و تقریر میں اعلانیہ کافر قرار دیتے ہیں جو مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ مثلاً” کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں“۔(آئنہ صداقت، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود خلیفہ قادیان، صفحہ 35)قادیانی صاحبزادہ بشیر کی سنیے” ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا یا محمد کو مانتا ہے مگر ” مسیح موعود“ کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے“۔ مرزا بشیر الدین محمود نے سب جج عدالت گورداسپور میں بیان دیا جو ان کے رسالے الفضل میں 26تا29جون 1922ءمیں شائع ہوا” ہم چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں اور غیر احمدی آپ کو نبی نہیں مانتے اس لیے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کہ کسی ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے، غیر احمدی کافر ہیں“۔

غیر احمدیوں کو کافر قرار دینے سے متعلق قادیانیوں کی تحریریں بھری پڑی ہیں۔ الطاف حسین فرماتے ہیں کہ ان کا کلمہ اور ان کی نماز ایک ہے تو اس کے بارے میں بھی سن لیجیے، شاید توبہ کی توفیق ہوجائے۔
21اگست 1917ءکے اخبار الفضل میں خلیفہ صاحب کی ایک تقریر ”طلباءکو نصائح “کے عنوان سے شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے کہا’ ہمارا خدا، ہمارا اسلام، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا روزہ غرض ہماری ہر چیز مسلمانوں سے الگ ہے۔ وہ فرماتے ہیں” ورنہ حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا(یعنی مسلمانوں کا) اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور، ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور، اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے“۔یہ قادیانی اور احمدی تو الطاف حسین کو بھی کافر قرار دیتے ہیں اور وہ ہیں کہ ان کی وکالت فرما رہے ہیں۔ قادیانی خود تسلیم کررہے ہیں کہ ان کا خدا، ان کا نبی، ان کا حج، سب کچھ عام مسلمانوں سے مختلف ہے اور الطاف حسین فرما رہے ہیں کہ ان کا کلمہ ان کی نماز سب ہمارے جیسی ہے، کیا بات ہے! پتا نہیں کونسا لٹریچر پڑھ رکھا ہے۔ نذیر ناجی جیسے لوگوں کی تو کوئی اہمیت نہیں لیکن الطاف حسین کے خلفاءاور معتقدین فرمائیں کہ ان کا کیا خیال ہے۔ ان کی تحریروں کے مطابق کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے نہ اس کو لڑکی دی جاسکتی ہے۔ فرمایا” ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔“ الطاف حسین فخریہ فرماتے ہیں کہ ایک جھوٹے نبی کے خلیفہ اور رسول اکرم کی توہین کے مرتکب شخص کے آنجہانی ہوجانے پر انہوں نے تعزیتی پیغام بھیجا۔ پیغام میں یقینا درجات کی بلندی، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا بھی کی ہوگی۔ جو شخص بھی رسول اکرم کو آخری نبی نہیں مانتا اور ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ شاتم رسول بھی ہے اس کے لیے تعزیت خود رسول اکرم کی توہین ہے۔ ایسا شخص بھی شاتم رسول اور کفر کا مرتکب ہے۔ الطاف بھائی فرماتے ہیں کہ احمدیوں کو تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے۔ ٹھیک ہے، وہ اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دے کر تبلیغ کریں۔ لیکن وہ تو خود کو مسلمان قرار دے کر دھوکا دیتے ہیں اور ان کی تبلیغ کے نتیجے میں جو لوگ ان کا مذہب اختیار کرتے ہیں وہ مسلمان بھی نہیں رہتے۔ عیسائی اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں تو دھوکے سے کام نہیں لیتے۔ الطاف حسین صاحب آپ کس راستے پر جارہے ہیں اور اپنے حواریوں کو کہاں لے جارہے ہیں؟ موصوف نے سب کچھ کہہ کر اعلان فرمایا ہے کہ وہ ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں جس پر ایک ٹی وی چینل سے کچھ علماءکا یہ مشترکہ بیان نشر ہورہا ہے کہ” الطاف حسین نے بروقت شرپسندوں کے منہ بند کردیے“۔ اگر واقعی یہ علماءکا بیان ہے تو وہ یہ وضاحت بھی کردیتے کہ شرپسند کون ہیں، قادیانیوں کی عبادت گاہ کو مسجد، ان کے کلمہ اور نماز کو مسلمان کا کلمہ اور نماز قرار دینے والے ، ان کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دینے والے یا ان کفریا خیالات کی تشہیر کرنے والے؟ شرپسند کون ہیں اور مسلمانوں میں شر پھیلانے والے کون ؟
الطاف بھائی مرد بچہ بنیے۔
box3

Articles

قادیانیوں کا حمایتی زندیق ہے،الطاف حسین نے کفر کیا، مفتیان کرام

In پاکستان on ستمبر 12, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

الطاف حسین نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں قادیانیوں سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کے بعد شریعت کی نظر میں وہ کیا ہے؟ یہ تھریڈ اس سوال کے جواب کے لیے الگ شروع کیا جارہا ہے کیوں کہ ’’ایم کیو ایم قادیانی وٹہ سٹہ ؛الطاف حیسن کا انٹرویو‘‘ خاصہ طویل ہوگیا اس لیے اس کے بارے میں مختلف حلقوں خصوصا علمائے کرام کے موقف کو یہاں پیش کیا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ اس کے بارے صرف علمائے کرام ہی نہیں بلکہ قوم پرست جماعتوں کا بھی ردعمل آیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ الطاف حسین جس قادیانی کشتی میں بیٹھ رہے ہیں وہاں بیٹھنے کے لیے سیکولر لوگ بھی کو تیار نہیں۔ دوسرا پہلو اس کا یہ بھی کہ یہ واحد قوم پرست جماعت ہے جو سیکولر ہی نہیں بلکہ اسلام دشمن بھی ہے۔

 ردعمل ملاحظہ کریں ۔ سب سے پہلا مولانا اللہ وسایا صاحب کا موقف پیش کیا جارہا ہے۔ ان سے منسوب ایک خبر کل ٹی وی چینلز پر چل رہی تھی اور آج کے روزنامہ جنگ میں چھپی ہے جو غلط ہے۔ مولانا کا موقف اور مفتی منیب الرحمن صاحب کا موقف ذیل میں ملاحظہ کریں۔

الطاف حسین بتائیں کہ قادیانیوں کو کافر سمجھتے ہیں یا نہیں

کراچی ( وقائع نگار خصوصی) عالمی تحفظ ختم نبوت کے رہنماءمولانا اللہ وسایا نے کہا ہے کہ الطاف حسین کا یہ کہنا کہ میں نے مرزا طاہر کی وفات پر تعزیت کی تھی جس پر لوگوں نے مجھ پر کفر کے فتوے لگائے اور اب میں دوبارہ کفر کرنے جارہاہوں ‘اس جملے سے رضا بالکفر ثابت ہوتا ہے اور فقہا کہتے ہیں کہ رضا بالکفر بھی کفر ہے۔ انہوں نے ایک ایسا جملہ کہا ہے جو ان کے ایمان اور آخرت کے لیے نقصان دہ ہے ‘ اس کے لیے ان کو وضاحت اور صراحت کے ساتھ کھلے دل سے توبہ کرنا چاہیے۔ ان کی خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے کہ ان سے یہ مطالبہ کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جسارت سے خصوصی گفتگو میں کیا۔مولانا وسایا نے وضاحت کی کہ ٹی وی چینلز پر جو ٹیکر چل رہا ہے اس ضمن میں میری درخواست ہے کہ مجھ سے کسی نے سوال کیا تھا کہ الطاف حسین کی تازہ وضاحت آئی ہے ‘ اس پر میں نے اتنا کہا کہ انہیں اگر اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور انہوں اپنے آپ کو مسلمان کہلوایا ہے کہ میرے عقائد یہ ہیں اس حد تک تو صحیح ہے لیکن ان کی وضاحت اس وقت تک قابل قبول نہیں ہے کہ جب تک وہ واضح طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کرکے وعدہ نہ کریں کہ میں آئندہ قادیانیوں کی حمایت نہیں کروں گا۔ تو اس بیان کا پہلا حصہ لیا گیا اور دوسرا حصہ نشر نہیں کیا گیا۔ جہاں تک اس جملے کا تعلق ہے کہ الطاف حسین نے بروقت وضاحت کرکے شرپسندوں کے منہ بند کردیے ہیں تو میں نے ایسا کوئی جملہ نہیں کہا ہے۔مولانا وسایا نے مزید کہا کہ الطاف حسین کہتے ہیں کہ قادیانیوں کو تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے تو ہم درخواست کرتے ہیں کہ قادیانی قادیانیت کے نام سے اپنے عقائد کی تبلیغ کریں ‘ اپنی اصطلاحات استعمال کریں ‘ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ قادیانی یہ کہتے ہیں مرزا غلام احمد محمد رسول اللہ تھا ‘ تو کیا ہم قادیانیوں کو یہ اجازت دے دیںکے مرزا قادیانی محمد رسول اللہ تھا؟ یہ کہ مرزا قادیانی کی بیوی ام المومنین تھی اور یہ کہ وہ سید النسا تھی اور یہ کہ مرزا قادیانی کے دیکھنے والے صحابی تھے اور یہ کہ غلام قادیانی کا پہلا خلیفہ نورالدین ابوبکر صدیق تھا ‘ کیا قادیانیوں کو یہ سب کچھ کہنے کی اجازت دے دیں ؟ کیا ایک سادہ سا جملہ ان کو تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے کہہ کرخلاف اسلام عقائد کی ترویج کی اجازت دی جائی؟الطاف حسین یہ شاید بھول گئے کہ قادیانیت اور اسلام میں مشرق و مغرب کا فرق ہے اور قادیانیوں کے عقائد سراسر اسلام کی نفی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر قادیانیت سچی ہے تو پھر معاذاللہ اسلام غلط ہوگا۔ ان کو تبلیغ کی اجازت دینے کا مطالبہ کرنا الطاف حسین کی لاعلمی کی دلیل ہے۔انہوں نے کہا کہ الطاف حسین ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیںجو دین ودنیا کی خسارے والی بات ہے تو الطاف حسین کو یہ خوش فہمی ہوگی کہ میرے کچھ کہنے سے قادیانیت بچ جائے گی تو انہیں یہ یقین کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسی کشتی میں سوار ہورہے ہیں جس کو یہ بچانے کی کوشش کررہے ہیں ‘ ہمارا موقف یہ ہے کہ قادیانیت خود بھی ڈوبے گی اور جو اس کو بچانے کی کوشش کرے گا وہ بھی انشااللہ ڈوبے گا۔ اب یہ کہنا کہ میں فلاں مفتی کا پوتا ہوں‘یہ سارے عذرلنگ ہیں۔ کاش ان کے دادا زندہ ہوتے تو ان کا بھی وہی موقف ہوتا جو علامہ اقبال کا تھا‘ جو پاکستان کی پارلیمنٹ کا تھا اور جو پاکستان کے سارے مکاتب فکر کے علمائے کرام کا ہے۔ افسوس کہ الطاف حسین کو قادیانیوں کی حمایت کرتے ہوئے اپنے آباواجدا د کا خیال رہا اور نہ ہی محمد عربی کی عزت و ناموس کا۔دوسری جانب تنظیم المدارس پاکستان کے صدر اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ قادیانیوں کے ارتداد اور کفر پر اُمت کا اجماع ہے‘ ختم نبوت کا عقیدہ ‘ قرآن و سنت اور اجماع قطعی سے ثابت ہے لہٰذا الطاف حسین یہ نہ بتائیں کہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں بلکہ یہ بتائیں کہ کیا وہ قادیانیوں کو کافر ومرتد سمجھتے یا نہیں ۔ 

 http://www.jasarat.com/epaper/mmdetails.php?date=12-09-2009&file=05&category=nation

05

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/story1.html

story1

http://ummatpublications.com/2009/09/11/story1.html

story1

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/lead20.html

news-20

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/lead27.html

news-27

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/lead21.html

news-21

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/lead28.html

news-28

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/lead25.html

news-

news-25

news-26