سید ابوالاعلیٰ مودودی
دوسرے گروہوں کے کوئی ایسے سیاسی رجحانات نہیں ہیں جو ہمارے لیے کسی حیثیت سے خطرناک ہوں اور ہمیں مجبورکرتے ہوں کہ ہم فوراً ان کے مسئلے کو حل کرنے کی فکر کریں۔ لیکن قادیانیوں کے اندر بعض ایسے خطرناک سیاسی رجحانات پائے جاتے ہیں، جن سے کسی طرح آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
ان کو ابتدا سے یہ احساس رہا ہے کہ ایک نئی نبوت کا دعویٰ لے کر جو شخص یا گروہ اٹھے گا اُس کا کسی آزاد و بااختیار سوسائٹی کے اندر پنپنا مشکل ہے۔ وہ مسلم قوم کے مزاج سے واقف ہیں کہ وہ طبعاً ایسے دعووں سے متنفر ہے جو ماننے اور نہ ماننے والوں کے درمیان کفر و اسلام کی تفریق کرکے نظام دین کو اور اسلامی معاشرے کے نظام کو درہم برہم کرتے ہوں۔ وہ مسلمانوں کی تاریخ سے واقف ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے دور سے لے کر آج تک اس طرح کے مدعیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ جہاں حکومت مسلمانوں کے اپنے ہاتھ میں ہو تو وہاں نئی نئی نبوتوں کے چراح نہ کبھی جلنے دیے گئے ہیں اور نہ آئندہ کبھی امید کی جاسکتی ہے کہ جلنے دیے جائیں گے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ صرف ایک غیر مسلم حکومت ہی میں آدمی کو یہ آزادی مل سکتی ہے کہ حکومت کو اپنی وفاداری و خدمت گزاری کا پورا اطمینان دلانے کے بعد مذہب کے دائرے میں جو دعویٰ چاہے کرے اور مسلمانوں کے دین، ایمان اور معاشرے میں جیسے فتنے چاہے اٹھاتا رہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ اسلام کی حکومت پر کفر کی حکومت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کی شکارگاہ مسلمان قوم ہی ہے، کیونکہ وہ اسلام کے نام پر اپیل کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کے اسلحہ سے کام لیتے ہیں۔ لیکن ان کا مفاد یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمان قوم ایک کافر اقتدار کے پنجے میں بے بس ہوکر ان کی شکارگاہ بنی رہے اور یہ اس کافر اقتدار کے پکے وفادار بن کر اس کا شکار کرتے رہیں۔ ایک آزاد وخودمختار مسلمان قوم ان کے لیے بڑی سنگلاخ زمین ہے جسے وہ دل سے پسند نہیں کرتے اور نہ ہی کرسکتے ہیں۔
اس کے ثبوت میں مرزا غلام احمد صاحب اور ان کی جماعت کے بکثرت بیانات میں صرف چند کا نقل کردینا کافی ہے:
”بلکہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو نہ ہمارا مکہ میں گزارا ہوسکتا ہے اور نہ قسطنطنیہ میں۔ تو پھر کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم اس کے برخلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں۔“
(ملفوظات ِاحمدیہ۔ جلد اول 146)
”میں اپنے کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں نہ مدینہ میں‘ نہ روم میں‘ نہ شام میں‘ نہ ایران میں‘ نہ کابل میں۔ مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لیے دعا کرتا ہوں۔“
(تبلیغ رسالت مرزا غلام احمد صاحب۔ جلد ششم ص 69)
”یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سائے سے باہر نکل جاﺅ تو پھر تمہارا ٹھکانہ کہاں ہے۔ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے لے گی۔ ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کرنے کے لیے دانت پیس رہی ہے۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں تم کافر اور مرتد ٹھیر چکے ہو۔ تم اس خداداد نعمت کی قدر کرو اور تم یقیناً سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ نے سلطنت ِانگریز تمہاری بھلائی کے لیے اس ملک میں قائم کی ہے‘ اور اگر اس سلطنت پر کوئی آفت آئے تو وہ آفت تمہیں بھی نابود کردے گی…. ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سنو‘ انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل وجان سے اس سپر کی قدر کرو اور ہمارے مخالف جو مسلمان ہیں‘ ہزار ہا درجہ اُن سے انگریز بہتر ہیں کیونکہ وہ ہمیں واجب القتل نہیں سمجھتے۔ وہ تمہیں بے عزت نہیں کرنا چاہتے۔“
(اپنی جماعت کے لیے ضروری نصیحت۔ از: مرزا غلام احمد صاحب۔ مندرجہ تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ 123)
”ایرانی گورنمنٹ نے جو سلوک مرزا علی محمد باب بانی فرقہ بابیہ اور اس کے بے کس مریدوں کے ساتھ مذہبی اختلاف کی وجہ سے کیا اور جو ستم اس فرقے پر توڑے گئے وہ ان دانشمند لوگوں پر مخفی نہیں ہیں جو قوموں کی تاریخ پڑھنے کے عادی ہیں۔ اور پھر سلطنت ِترکی نے جو ایک یورپ کی سلطنت کہلاتی ہے‘ جو برتاﺅ بہاءاللہ بانی فرقہ بابیہ بہائیہ اور اس کے جلاوطن شدہ پیروﺅں سے 1863ءسے لے کر 1892ءتک پہلے قسطنطنیہ‘ پھر ایڈریا نوپل اور بعد ازاں مکہ کے جیل خانے میں کیا وہ بھی دنیا کے اہم واقعات پر اطلاع رکھنے والوں پر پوشیدہ نہیں ہے۔ دنیا میں تین ہی بڑی سلطنتیں کہلاتی ہیں۔ اور تینوں نے جو تنگ دلی اور تعصب کا نمونہ اس شائستگی کے زمانے میں دکھایا وہ احمدی قوم کو یقین دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ احمدیوں کی آزادی تاج برطانیہ کے ساتھ وابستہ ہے…. لہٰذا تمام سچے احمدی جو حضرت مرزا کو مامور من اللہ اور ایک مقدس انسان تصور کرتے ہیں بدون کسی خوشامد اور چاپلوسی کے دل سے یقین کرتے ہیں کہ برٹش گورنمنٹ ان کے لیے فضلِ ایزدی اور سایہ¿ رحمت ہے اور اس کی ہستی کو وہ اپنی ہستی خیال کرتے ہیں۔“
(الفضل13ستمبر1914ئ)
یہ عبارات اپنی زبان سے خود کہہ رہی ہیں کہ کفار کی غلامی جو مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے، مدعیانِ نبوت اور ان کے پیروﺅں کے لیے وہی عین رحمت اور فضلِ ایزدی ہے‘ کیونکہ اسی کے زیر سایہ ان لوگوں کو اسلام میں نئی نئی نبوتوں کے فتنے اٹھانے اور مسلم معاشرے کی قطع و برید کرنے کی آزادی حاصل ہوسکتی ہے‘ اور اس کے برعکس مسلمانوں کی اپنی آزاد حکومت جو مسلمانوں کے لیے ایک رحمت ہے، ان لوگوں کے لیے وہی ایک آفت ہے‘ کیونکہ بااختیار مسلمان بہرحال اپنے ہی دین کی تخریب اور اپنے ہی معاشرے کی قطع و برید کو بخوشی برداشت نہیں کرسکتے۔
پاکستان میں قادیانی ریاست
اس مستقل رجحان کے علاوہ اب ایک نیا رجحان قادیانی گروہ میں یہ ابھر رہا ہے کہ پاکستان کے اندر ایک قادیانی ریاست کی بِنا ڈالنا چاہتے ہیں۔ قیام پاکستان کو ابھی پورا ایک سال بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ 23 جولائی 1948ءکو قادیانی خلیفہ صاحب نے کوئٹہ میں ایک خطبہ دیا جو 13 اگست کے الفضل میں بایں الفاظ شائع ہوا ہے:
”برٹش بلوچستان، جو اب پاکی بلوچستان ہے، کی کل آبادی پانچ یا چھ لاکھ ہے۔ یہ آبادی اگرچہ دوسرے صوبوں کی آبادی سے کم ہے مگر بوجہ ایک یونٹ ہونے کے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا میں جیسے افراد کی قیمت ہوتی ہے یونٹ کی بھی قیمت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کی کانسٹی ٹیوشن ہے۔ وہاں اسٹیٹس سینیٹ کے لیے اپنے ممبر منتخب کرتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس اسٹیٹ کی آبادی دس کروڑ ہے یا ایک کروڑ ہے۔ سب اسٹیٹس کی طرف سے برابر ممبر لیے جاتے ہیں۔ غرض پاکی بلوچستان کی آبادی پانچ چھ لاکھ ہے اور اگر ریاستی بلوچستان کو ملا لیا جائے تو اس کی آبادی گیارہ لاکھ ہے لیکن چونکہ یہ ایک یونٹ ہے اس لیے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ زیادہ آبادی کو تو احمدی بنانا مشکل ہے لیکن تھوڑے آدمیوں کو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں۔ پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلد احمدی بنایا جاسکتا ہے…. یاد رکھو تبلیغ اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ہماری Base مضبوط نہ ہو۔ پہلے بیس مضبوط ہو تو پھر تبلیغ پھلیتی ہے۔ بس پہلے اپنی Base مضبوط کرلو۔ کسی نہ کسی جگہ اپنی Base بنا لو۔ کسی ملک میں ہی بنا لو…. اگر ہم سارے صوبے کو احمدی بنا لیں تو کم از کم ایک صوبہ تو ایسا ہوجائے گا جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے اور یہ بڑی آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔“
یہ تقریر کسی تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ دوسرے گروہ جن کی موجودگی کا حوالہ دے کر قادیانیوں کو برداشت کرنے کا ہمیں مشورہ دیا جاتا ہے کیا ان میں سے بھی کسی کے ایسے منصوبے ہیں؟ کیا ان میں سے بھی کوئی ایسا ہے جو اپنے مذہب کے لیے غیر مسلم اقتدار کو مفید سمجھتا ہو اور مسلم اقتدار قائم ہوتے ہی ریاست کے اندر اپنی ریاست بنانے کی فکر میں لگ گیا ہو؟ اگر نہیں ہے تو پھر ان کی مثال قادیانیوں پرکیوں چسپاں کی جاتی ہے؟
عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور مدعی نبوت کی تکفیر کے باب میں علماءامت کے اقوال
امام ابوحنیفہ
ایک شخص نے امام ابوحنیفہ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں۔ اس پر امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ جو شخص اس سے علامات کا مطالبہ کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
۔ علامہ ابن حزم
”اور یقینا وحی کا سلسلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے منقطع ہوچکا ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ وحی نہیں ہوتی مگر ایک نبی کی طرف‘ اور اللہ عزوجل فرما چکا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں تم میں سے کسی کے باپ‘ مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم ہیں نبیوں کے۔“
جواب دیں