Archive for ستمبر, 2009

Articles

آئینہ تصویر : تین ہزار امریکی اور لاکھوں مسلمان

In پاکستان,حقوق انسانی,دہشت گردی on ستمبر 12, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

بشکریہ :  جسارت میگزین کراچی اور سلیمان کھوکھر صاحب جو بڑی محبت سے اسے پبلیش کرنے کے لیے ای میل کر دیتے ہیں۔

بشکریہ : جسارت میگزین کراچی اور سلیمان کھوکھر صاحب جو بڑی محبت سے اسے پبلیش کرنے کے لیے ای میل کر دیتے ہیں۔

Articles

علی خان صاحب قائد تحریک سے مخاطب ہیں

In پاکستان on ستمبر 12, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

Ali KHan

یہ علی خان صاحب کا مضمون مطبوعہ جسارت میگزین ہے جسے ہم نے  کوئی شکریہ ادا کیے بغیر اُٹھا لیا ہے کیوں کہ میگزین  ایڈیٹرالیاس بن زکریا صاحب اور ان کا ادارہ کاپی رائٹ کے چکروں میں نہیں پڑھتا۔ البتہ ہم ان کے اوریجنل آرٹیکل کا لنک دے کر غیر رسمی شکریہ ادا کیے دیتے ہیں ۔ گرافک ویو کے لیے یہاں کلک کریں(تلخابہ)۔


ہمیں ایم کیو ایم کے کئی رہنما اچھے لگتے ہیں۔ ان میں ایک جناب حیدر عباس رضوی بھی ہیں۔ کیا خوب بولتے ہیں۔ متحدہ کے بہت تیزی سے ابھرتے ہوئے رہنما ہیں۔ ان کو نظر نہ لگے کیونکہ متحدہ میں جو بھی تیزی سے ابھرا وہ اس سے زیادہ تیزی سے غروب ہوگیا۔ ایسے کتنے ہی ستارے ٹوٹ کر بکھر گئے۔ جناب الطاف حسین کے ابتدائی ساتھیوں اور ایم کیو ایم کے بانیوں میں سے کتنے رہ گئے؟ زیادہ تر قتل کردیے گئے یا نکال دیے گئے۔ سامنے کی مثال عامر لیاقت حسین کی ہے جو اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگانا پسند کرتے ہیں۔ وہ بھی خوب بولتے تھے اور پھر یہ زعم ہوگیا تھا کہ وہ الطاف حسین سے زیادہ قابل اور ان سے زیادہ اچھا بولتے ہیں۔ اور پھر وہ الطاف بھائی کا فکر وفلسفہ بھلا بیٹھے۔ چنانچہ اب زیادہ تر پاکستان سے باہر رہتے ہیں۔تاہم حیدر عباس رضوی کو تخصص حاصل ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ گزشتہ دنوں وہ الطاف حسین کو ”مرد بچہ“ کہنے پر برا مان گئے، نجانے کیوں؟

Box1
ہم اب تک یہ سمجھتے آرہے تھے کہ کسی کو مرد بچہ کہنا اس کی تعریف کرنا ہے لیکن رضوی صاحب نے اس کا کچھ اور ہی مطلب نکال لیا، ہوا یوں کہ ایک ٹی وی چینل پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے حوالہ دیا کہ متحدہ کے رہنما وسیم اختر نے بریگیڈیئر(ریٹائرڈ) امتیاز کے ”انکشافات“ پر ان کو مرد بچہ قرار دیا ہے، الطاف حسین بھی مرد بچہ بنیں اور پاکستان تشریف لے آئیں۔ اس پر رضوی صاحب بھڑک اٹھے اور یہ شبہ ظاہر کیا کہ خواجہ آصف نے الطاف حسین کو نامرد کہا ہے۔ بہر حال ٹی وی چینل پر تو خواجہ آصف نے انہیں مرد بچہ قرار دینے پر معذرت کرلی لیکن ہم اب تک حیران ہیں، ہمارے خیال میں تو انسان کا ہر بچہ،مرد کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
الطاف حسین کی مردانگی اور جرا¿ت اظہار میں کوئی شک نہیں۔ اسی لیے تو انہوں نے ایک ٹی وی چینل کو بڑی تفصیل سے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مجھ پر تو پہلے بھی کفر کے فتوے لگ چکے ہیں اور اب ایک بار پھر یہ کفر کرنے جارہا ہوں۔ اور پھر انہوں نے اپنے کیے پر عمل بھی کردکھایا۔ کافروں، مرتدوں، شاتمان رسول اور اسلام کے باغیوں کی کھل کر حمایت کرنا اور ان کی تعظیم کرنا، پھر اپنے کہے سے پھر جانا جرا¿ت ہی کی تو بات ہے۔

Box4
الطاف حسین کے نظریات و خیالات تو بدلتے ہی رہتے ہیں کہ یہی ان کی فکر و فلسفہ ہے اور ان کے معتقدین آنکھ بند کرکے ان کی پوجا کرتے ہیں۔ الطاف حسین کا کروٹن کے پتوں اور پتھروں پر نمودار ہونا کوئی معمولی بات تو نہ تھی۔ ماننے والے جی، جان سے ان کرامات پر ایمان لائے۔ ایک مسجد کے صحن میں لگے پتھر پر الطاف بھائی نمودار ہوئے تو ان کے حواریوں نے صحن کا پتھر ہی اکھاڑ کر الطاف بھائی کے دروازے پر رکھ دیا۔ صحن حرم میں ایک بزرگ نے اچانک نمودار ہو کر الطاف بھائی کو آشیر واد دی اور غائب ہوگئے۔ اب یہ کہانیاں کچھ کم ہوگئی ہیں لیکن آمنا و صدقنا کہنے والے کم نہیں۔ عقیدت بھی عجیب رنگ دکھاتی ہے۔ انتہائی پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ ہندو بھی تو بلا سوچے سمجھے اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے گئے بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور شجر و حجر کو نفع، نقصان کا باعث قرار دیتے ہیں۔ قادیانیوں میں کیسے کیسے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام تو نوبل انعام یافتہ تھے، پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ بھی بڑے ذہین تھے لیکن یہ سب اس پر ایمان رکھتے تھے اور رکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد نبی تھے، ان پر وحی نازل ہوتی تھی اور جو انہیں نبی ماننے سے کتراتے ہیں وہ کم از کم مسیح موعود تو قرار دیتے ہی ہیں، یعنی حضرت عیسیٰ ؑ، جن کو دنیا میں واپس آنا ہے۔ غلام احمد نے کہا اور انہوں نے مانا کہ مسیح دنیا میں واپس آگئے۔ ویسے تو دجال کو بھی مسیح دجال کہا جاتا ہے۔ انگریز بھی اپنے خود کاشتہ پودے کے اس دعوے سے پریشان ہوگئے تھے کہ وہ مسیح بھی ہے۔ غلام احمد نے بھی اپنے درجات کو رفتہ رفتہ بلند کیا اور اس کی فکر و فلسفہ بھی کروٹیں بدلتی رہی۔
الطاف حسین قادیانیوں کے مبلغ، ہمدرد، سرپرست یا جو کچھ بھی ہیں وہ ان کے انٹرویو سے ظاہر ہوچکا ہے لیکن یہ مرزا مبشر لقمان کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور قادیانی مسئلہ میں ان کی دلچسپی کا اصل سبب کیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ قادیانی ہیں یا مسلمان، لیکن قادیانیوں کو مسلمان قرار دلوانے میں ان کی کاوشیں قابل توجہ ہیں۔ قادیانی مسئلہ پر الطاف حسین سے انٹرویو” مبشر ڈاٹ کام“ کا پہلا کارنامہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ ڈاکٹر اسرار احمد، محمد علی درانی اور نذیر ناجی تک سے اسی موضوع پر انٹرویو کرچکے ہیں۔ چلیے، ڈاکٹر اسرار احمد تو بہر حال ایک عالم ہیں لیکن ایک علمی مسئلہ پر محمد علی درانی اور نذیر ناجی سے انٹرویو اور ان کے خیالات نشر کرنے کی کیا حیثیت ہے۔ نذیر ناجی کی جو شہرت ہے وہ سب کے علم میں ہے۔ جب ہوش میں نہیں ہوتے تو کیس کیسی گالیاں ایجاد کرتے ہیں، یہ ریکارڈ پر ہے اور اتفاق سے دی نیوز اخبار کے ایک رپورٹر ہی نے یہ گالیاں ریکارڈ کی ہیں۔ ایسے شخص سے عقیدہ ختم نبوت پر بات کرنا اور اسے نشر کرنا مسلمانوں کے خلاف سازش نہیں تو اور کیا ہے۔ نذیر ناجی نے اپنے انٹرویو میں قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کو مسلمان قرار دیا اور حسب عادت علماءکو برا بھلا کہا۔ ملا ملا کہہ کر طنز و تحقیر کرنا آگرہ کے مفتی کے پوتے کی بھی عادت ہے۔ نذیر ناجی کو شکایت تھی کہ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی ہونے کی وجہ سے پاکستان میں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ لیکن یہ سلوک تو بہت سے مسلمان زعماءکے ساتھ بھی روا رکھا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے ایٹمی نظام کے خالق ڈاکٹر عبدالکلام بھی پاکستان آئے تھے لیکن پذیرائی نہ ہونے پر واپس چلے گئے۔ مولانا حسرت موہانی پاکستان آئے تو ان کے پیچھے انٹیلی جنس لگا دی گئی۔ پاکستان کا نام دینے والے چودھری رحمت علی بھی ناراض ہو کر واپس چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کوئی واحد مثال نہیں۔ پھر نذیر ناجی یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں کتنے ہی قادیانی اہم مناصب پر کام کرتے رہے اور کررہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی ناک کا بال اور اہم مشیر طارق عزیز کے نام سے تو واقف ہوں گے۔ قادیانی فوج میں اہم مناصب پر رہے۔ صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کے بارے میں ہمارے پاس معلومات نہیں ہیں۔ پطرس بخاری اور ان کے بھائی زیڈ اے بخاری سے کون واقف نہیں، پطرس کے مضامین کو رس میں شامل ہیں اور وہ ایک عرصہ تک اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ ان کے والد پشاور میں قادیانی مبلغ تھے۔ دوسری طرف پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے قائد اعظم کی نماز جنازہ پڑھنے سے اس بنا پر انکار کردیا تھا کہ وہ ان کو مسلمان ہی نہیں مانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یا تو وہ مسلمان نہیں یا میں مسلمان نہیں۔اور یہ صرف ان کا عقیدہ نہیں بلکہ مرزا غلام احمد نے اپنے پیرو کاروں کے سوا تمام مسلمانوں کو مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور یہ ان کی تحریروں میں موجود ہے۔ الطاف حسین صاحب کو بھی قادیانی مسلمان نہیں مانتے۔ اب شاید کوئی تبدیلی آگئی ہو، تاہم یہ سوال قابل توجہ ہے کہ مرزا مبشر لقمان قادیانی مسئلہ پر اتنے سرگرم کیوں ہیں اور اپنے مطلب کی باتیں اگلوانے میں کیوں مصروف ہیں۔ ان کے لیے گئے انٹرویوز سے قادیانیوں کی ویب سائٹ خوب فائدہ اٹھا رہی ہے۔ مبشر لقمان اس سے پہلے جس چینل سے وابستہ تھے وہ چینل ایک اور جھوٹے نبی یوسف کذاب کے خلیفہ¿ اول زید حامد کو بھی پروجیکٹ کرکے اتنا معتبر بنا چکا ہے کہ جو اس کی اصلیت سے واقف نہیں وہ اس کو اسلام کا سپاہی اور بڑا دانشور سمجھ بیٹھا ہے۔کیا مذکورہ چینل نادانستگی میں اسلام کے دشمنوں کو آگے بڑھا رہا ہے؟
اب آیئے الطاف حسین کی طرف۔ موصوف نے پہلے تو قادیانیوں کی عبادت گاہوں کو مسجد قرار دیا اور اعلان کیا کہ اگر وہ برسر اقتدار آگئے تو ایسا کمپاﺅنڈ بنائیں گے جس میں مندر، کلیسا اور احمدیوں کی مسجد ایک جگہ ہوگی۔ وہ نجانے کیوں، یہودیوں کا صومعہ بھول گئے۔ اگر غیر مسلم قادیانیوں، احمدیوں کی عبادت گاہ مسجد کہلائی جاسکتی ہے تو پھر ہندوﺅں کی مسجد، عیسائیوں کی مسجد اور یہودیوں کی مسجد کہنے میں کیا ہرج ہے؟ الطاف حسین ایک عالم ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ مساجد صرف مسلمانوں کی ہوتی ہیں اور یہ قرآنی اصطلاح ہے، یقین نہ آئے تو آگرہ کی مسجد میں رکھے گئے اپنے دادا مفتی رمضان کے فتاویٰ سے رجوع کرلیں، دادا زندہ نہیںلیکن آگرہ میں کوئی تو ان کا جانشین ہوگا، الطاف بھائی کے اپنے فرمودات کے بعد جب بھی ان کے عقائد کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں تو وہ جھٹ یہ دلیل لے آتے ہیں کہ وہ آگرہ کے مفتی کے پوتے ہیں۔ آگرہ کے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے وہاں یہ نام نہیں سنا تھا۔ لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔
الطاف حسین نے اپنے علم کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ احمدیوں کا کلمہ ایک، ان کی نماز ایک، انہیں تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے قادیانیوں کی ویب سائٹ پر کہا جارہا ہے کہ احمدیوں کے مخالف یہ کہتے ہیں کہ احمدی جب کلمہ پڑھتے ہیں تو محمد رسول اللہ سے ان کی مراد غلام احمد قادیانی سے ہوتی ہے۔ الطاف بھائی کہتے ہیں کہ انہوں نے احمدیوں کا لٹریچر خوب پڑھا ہے اور ان کی مجالس میں بھی شرکت کی ہے۔ لیکن مذکورہ ویب سائٹ پر تو کوئی قادیانی ہی یہ اعتراض کررہا ہے۔ کیا اس نے بھی غلام احمد قادیانی کی کتابیں نہیں پڑھیں۔ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ ” میں محمد ہوں، میں احمد ہوں۔ قرآن کریم میں احمد کا لفظ میرے لیے ہی آیا ہے“۔ پھر اگر مسلمان یہ سمجھیں کہ قادیانی کلمہ پڑھتے ہوئے اپنے نبی کا تصور کرتے ہیں تو غلط کیا ہے۔
Box2

بنیادی بات یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی نبی آئے ان کے دور میں ان کی امت نے انہی کا کلمہ پڑھا اور لا الہ الا اللہ کے بعد ان کا نام شامل کیا۔ اب اگر مرزا غلام احمد نبوت کا دعویدار ہے تو اس کے امتی اسی کا کلمہ پڑھیں گے نہ کہ محمد رسول اللہ کا۔ مرزا غلام احمد نے کھل کر اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جو ریکارڈ پر ہے۔ مثلاً اپنی وفات سے صرف تین دن پہلے 23مئی 1908ءکو ایڈیٹر اخبار عام لاہور کے نام خط میں لکھا” میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں، اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیوں کر اس سے انکار کرسکتا ہوں، میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک کہ میں اس دنیا سے گزر جاﺅں“ ایک اور جگہ(5مارچ 1908ئ) لکھتا ہے” ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں“۔ ان کا خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود اپنی کتاب حقیقتہ النبوت، صفحہ 172 میں لکھتا ہے” پس شریعت اسلامی نبی کے جو معنی کرتی ہے اس کے معنی سے حضرت صاحب(مرزا غلام احمد)ہرگز مجازی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں“۔
نبوت کے دعوے کا لازمی نتیجہ ہے کہ جو شخص بھی اس نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیا جائے۔ چنانچہ قادیانیوں نے یہی کیا۔ وہ ان تمام مسلمانوں کو اپنی تحریر و تقریر میں اعلانیہ کافر قرار دیتے ہیں جو مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ مثلاً” کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں“۔(آئنہ صداقت، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود خلیفہ قادیان، صفحہ 35)قادیانی صاحبزادہ بشیر کی سنیے” ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا یا محمد کو مانتا ہے مگر ” مسیح موعود“ کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے“۔ مرزا بشیر الدین محمود نے سب جج عدالت گورداسپور میں بیان دیا جو ان کے رسالے الفضل میں 26تا29جون 1922ءمیں شائع ہوا” ہم چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں اور غیر احمدی آپ کو نبی نہیں مانتے اس لیے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کہ کسی ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے، غیر احمدی کافر ہیں“۔

غیر احمدیوں کو کافر قرار دینے سے متعلق قادیانیوں کی تحریریں بھری پڑی ہیں۔ الطاف حسین فرماتے ہیں کہ ان کا کلمہ اور ان کی نماز ایک ہے تو اس کے بارے میں بھی سن لیجیے، شاید توبہ کی توفیق ہوجائے۔
21اگست 1917ءکے اخبار الفضل میں خلیفہ صاحب کی ایک تقریر ”طلباءکو نصائح “کے عنوان سے شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے کہا’ ہمارا خدا، ہمارا اسلام، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا روزہ غرض ہماری ہر چیز مسلمانوں سے الگ ہے۔ وہ فرماتے ہیں” ورنہ حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا(یعنی مسلمانوں کا) اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور، ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور، اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے“۔یہ قادیانی اور احمدی تو الطاف حسین کو بھی کافر قرار دیتے ہیں اور وہ ہیں کہ ان کی وکالت فرما رہے ہیں۔ قادیانی خود تسلیم کررہے ہیں کہ ان کا خدا، ان کا نبی، ان کا حج، سب کچھ عام مسلمانوں سے مختلف ہے اور الطاف حسین فرما رہے ہیں کہ ان کا کلمہ ان کی نماز سب ہمارے جیسی ہے، کیا بات ہے! پتا نہیں کونسا لٹریچر پڑھ رکھا ہے۔ نذیر ناجی جیسے لوگوں کی تو کوئی اہمیت نہیں لیکن الطاف حسین کے خلفاءاور معتقدین فرمائیں کہ ان کا کیا خیال ہے۔ ان کی تحریروں کے مطابق کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے نہ اس کو لڑکی دی جاسکتی ہے۔ فرمایا” ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔“ الطاف حسین فخریہ فرماتے ہیں کہ ایک جھوٹے نبی کے خلیفہ اور رسول اکرم کی توہین کے مرتکب شخص کے آنجہانی ہوجانے پر انہوں نے تعزیتی پیغام بھیجا۔ پیغام میں یقینا درجات کی بلندی، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا بھی کی ہوگی۔ جو شخص بھی رسول اکرم کو آخری نبی نہیں مانتا اور ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ شاتم رسول بھی ہے اس کے لیے تعزیت خود رسول اکرم کی توہین ہے۔ ایسا شخص بھی شاتم رسول اور کفر کا مرتکب ہے۔ الطاف بھائی فرماتے ہیں کہ احمدیوں کو تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے۔ ٹھیک ہے، وہ اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دے کر تبلیغ کریں۔ لیکن وہ تو خود کو مسلمان قرار دے کر دھوکا دیتے ہیں اور ان کی تبلیغ کے نتیجے میں جو لوگ ان کا مذہب اختیار کرتے ہیں وہ مسلمان بھی نہیں رہتے۔ عیسائی اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں تو دھوکے سے کام نہیں لیتے۔ الطاف حسین صاحب آپ کس راستے پر جارہے ہیں اور اپنے حواریوں کو کہاں لے جارہے ہیں؟ موصوف نے سب کچھ کہہ کر اعلان فرمایا ہے کہ وہ ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں جس پر ایک ٹی وی چینل سے کچھ علماءکا یہ مشترکہ بیان نشر ہورہا ہے کہ” الطاف حسین نے بروقت شرپسندوں کے منہ بند کردیے“۔ اگر واقعی یہ علماءکا بیان ہے تو وہ یہ وضاحت بھی کردیتے کہ شرپسند کون ہیں، قادیانیوں کی عبادت گاہ کو مسجد، ان کے کلمہ اور نماز کو مسلمان کا کلمہ اور نماز قرار دینے والے ، ان کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دینے والے یا ان کفریا خیالات کی تشہیر کرنے والے؟ شرپسند کون ہیں اور مسلمانوں میں شر پھیلانے والے کون ؟
الطاف بھائی مرد بچہ بنیے۔
box3

Articles

قادیانیوں کا حمایتی زندیق ہے،الطاف حسین نے کفر کیا، مفتیان کرام

In پاکستان on ستمبر 12, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

الطاف حسین نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں قادیانیوں سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کے بعد شریعت کی نظر میں وہ کیا ہے؟ یہ تھریڈ اس سوال کے جواب کے لیے الگ شروع کیا جارہا ہے کیوں کہ ’’ایم کیو ایم قادیانی وٹہ سٹہ ؛الطاف حیسن کا انٹرویو‘‘ خاصہ طویل ہوگیا اس لیے اس کے بارے میں مختلف حلقوں خصوصا علمائے کرام کے موقف کو یہاں پیش کیا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ اس کے بارے صرف علمائے کرام ہی نہیں بلکہ قوم پرست جماعتوں کا بھی ردعمل آیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ الطاف حسین جس قادیانی کشتی میں بیٹھ رہے ہیں وہاں بیٹھنے کے لیے سیکولر لوگ بھی کو تیار نہیں۔ دوسرا پہلو اس کا یہ بھی کہ یہ واحد قوم پرست جماعت ہے جو سیکولر ہی نہیں بلکہ اسلام دشمن بھی ہے۔

 ردعمل ملاحظہ کریں ۔ سب سے پہلا مولانا اللہ وسایا صاحب کا موقف پیش کیا جارہا ہے۔ ان سے منسوب ایک خبر کل ٹی وی چینلز پر چل رہی تھی اور آج کے روزنامہ جنگ میں چھپی ہے جو غلط ہے۔ مولانا کا موقف اور مفتی منیب الرحمن صاحب کا موقف ذیل میں ملاحظہ کریں۔

الطاف حسین بتائیں کہ قادیانیوں کو کافر سمجھتے ہیں یا نہیں

کراچی ( وقائع نگار خصوصی) عالمی تحفظ ختم نبوت کے رہنماءمولانا اللہ وسایا نے کہا ہے کہ الطاف حسین کا یہ کہنا کہ میں نے مرزا طاہر کی وفات پر تعزیت کی تھی جس پر لوگوں نے مجھ پر کفر کے فتوے لگائے اور اب میں دوبارہ کفر کرنے جارہاہوں ‘اس جملے سے رضا بالکفر ثابت ہوتا ہے اور فقہا کہتے ہیں کہ رضا بالکفر بھی کفر ہے۔ انہوں نے ایک ایسا جملہ کہا ہے جو ان کے ایمان اور آخرت کے لیے نقصان دہ ہے ‘ اس کے لیے ان کو وضاحت اور صراحت کے ساتھ کھلے دل سے توبہ کرنا چاہیے۔ ان کی خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے کہ ان سے یہ مطالبہ کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جسارت سے خصوصی گفتگو میں کیا۔مولانا وسایا نے وضاحت کی کہ ٹی وی چینلز پر جو ٹیکر چل رہا ہے اس ضمن میں میری درخواست ہے کہ مجھ سے کسی نے سوال کیا تھا کہ الطاف حسین کی تازہ وضاحت آئی ہے ‘ اس پر میں نے اتنا کہا کہ انہیں اگر اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور انہوں اپنے آپ کو مسلمان کہلوایا ہے کہ میرے عقائد یہ ہیں اس حد تک تو صحیح ہے لیکن ان کی وضاحت اس وقت تک قابل قبول نہیں ہے کہ جب تک وہ واضح طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کرکے وعدہ نہ کریں کہ میں آئندہ قادیانیوں کی حمایت نہیں کروں گا۔ تو اس بیان کا پہلا حصہ لیا گیا اور دوسرا حصہ نشر نہیں کیا گیا۔ جہاں تک اس جملے کا تعلق ہے کہ الطاف حسین نے بروقت وضاحت کرکے شرپسندوں کے منہ بند کردیے ہیں تو میں نے ایسا کوئی جملہ نہیں کہا ہے۔مولانا وسایا نے مزید کہا کہ الطاف حسین کہتے ہیں کہ قادیانیوں کو تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے تو ہم درخواست کرتے ہیں کہ قادیانی قادیانیت کے نام سے اپنے عقائد کی تبلیغ کریں ‘ اپنی اصطلاحات استعمال کریں ‘ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ قادیانی یہ کہتے ہیں مرزا غلام احمد محمد رسول اللہ تھا ‘ تو کیا ہم قادیانیوں کو یہ اجازت دے دیںکے مرزا قادیانی محمد رسول اللہ تھا؟ یہ کہ مرزا قادیانی کی بیوی ام المومنین تھی اور یہ کہ وہ سید النسا تھی اور یہ کہ مرزا قادیانی کے دیکھنے والے صحابی تھے اور یہ کہ غلام قادیانی کا پہلا خلیفہ نورالدین ابوبکر صدیق تھا ‘ کیا قادیانیوں کو یہ سب کچھ کہنے کی اجازت دے دیں ؟ کیا ایک سادہ سا جملہ ان کو تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے کہہ کرخلاف اسلام عقائد کی ترویج کی اجازت دی جائی؟الطاف حسین یہ شاید بھول گئے کہ قادیانیت اور اسلام میں مشرق و مغرب کا فرق ہے اور قادیانیوں کے عقائد سراسر اسلام کی نفی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر قادیانیت سچی ہے تو پھر معاذاللہ اسلام غلط ہوگا۔ ان کو تبلیغ کی اجازت دینے کا مطالبہ کرنا الطاف حسین کی لاعلمی کی دلیل ہے۔انہوں نے کہا کہ الطاف حسین ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیںجو دین ودنیا کی خسارے والی بات ہے تو الطاف حسین کو یہ خوش فہمی ہوگی کہ میرے کچھ کہنے سے قادیانیت بچ جائے گی تو انہیں یہ یقین کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسی کشتی میں سوار ہورہے ہیں جس کو یہ بچانے کی کوشش کررہے ہیں ‘ ہمارا موقف یہ ہے کہ قادیانیت خود بھی ڈوبے گی اور جو اس کو بچانے کی کوشش کرے گا وہ بھی انشااللہ ڈوبے گا۔ اب یہ کہنا کہ میں فلاں مفتی کا پوتا ہوں‘یہ سارے عذرلنگ ہیں۔ کاش ان کے دادا زندہ ہوتے تو ان کا بھی وہی موقف ہوتا جو علامہ اقبال کا تھا‘ جو پاکستان کی پارلیمنٹ کا تھا اور جو پاکستان کے سارے مکاتب فکر کے علمائے کرام کا ہے۔ افسوس کہ الطاف حسین کو قادیانیوں کی حمایت کرتے ہوئے اپنے آباواجدا د کا خیال رہا اور نہ ہی محمد عربی کی عزت و ناموس کا۔دوسری جانب تنظیم المدارس پاکستان کے صدر اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ قادیانیوں کے ارتداد اور کفر پر اُمت کا اجماع ہے‘ ختم نبوت کا عقیدہ ‘ قرآن و سنت اور اجماع قطعی سے ثابت ہے لہٰذا الطاف حسین یہ نہ بتائیں کہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں بلکہ یہ بتائیں کہ کیا وہ قادیانیوں کو کافر ومرتد سمجھتے یا نہیں ۔ 

 http://www.jasarat.com/epaper/mmdetails.php?date=12-09-2009&file=05&category=nation

05

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/story1.html

story1

http://ummatpublications.com/2009/09/11/story1.html

story1

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/lead20.html

news-20

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/lead27.html

news-27

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/lead21.html

news-21

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/lead28.html

news-28

http://www.ummatpublication.com/2009/09/12/lead25.html

news-

news-25

news-26 

Articles

قائداعظم کی برسی: دستوریہ میں قائداعظم کی افتتاحی تقریر کا صحیح مدعا

In پاکستان on ستمبر 11, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

آج کے جسارت میں مولانا مودودی کی یہ تحریر جو غالبا ان کی کتاب’’قادیانی مسئلہ ‘‘ سے لی گئی ہے ۱۱ اگست کی تقریر کے حوالے سے  سیکولر عناصر کے پروپیگنڈے کا مدلل جواب ہے۔ آج قائداعظم کی برسی کے موقع پر قائداعظم کو یاد رکھنے کا اس سے بہتر عمل کیا ہوسکتا ہے کہ ان کی شخصیت اور خیالات کو سیاق وسباق کے مطابق سمجھا جائے۔

02

Articles

بلیک واٹر اسپیشل: یہ ہمارے رہنما

In پاکستان on ستمبر 11, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

بلیک واٹر کی پاکستان میں موجودگی کے کافی شواہد موجود ہیں  تاہم حکومت پھر بھی ڈھٹائی ( بے غیرتی پڑھ لیں) کے ساتھ کہہ رہی  ہے کہ بلیک واٹر نامی کوئی بلا پاکستان میں نہیں دیکھی گئی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب حامد میر نے اخبار جہاں میں اپنے کالم کے ذریعے اسلام آباد میں ایسے دو سو گھروں کا انکشاف کیا  تھا جو امریکا نے کرایہ پر حاصل کیے تھے تو اسے کسفریسی تھیوری  کا نام دے کر مسترد کردیا گیا۔ لیکن امریکی سفیر کے اعتراف کے بعد اس اسٹوری کو مسترد کرنے والے گدھے کے سینگ کی مانند غائب ہوگئے۔ بعید نہیں کہ چند دنوں میں امریکی سفیر کا بیان آجائے کہ پاکستان میں بلیک واٹر اہلکار موجود ہیں لیکن وہ دراصل امن کے داعی ہیں پتا نہیں اس وقت فوزیہ وہاب سمیت دیگر حکومتی سیاست دان کچھ کہنا پسند کریں گے یا نہیں تاہم آئیے بلیک واٹر سلسلے کا ہارون رشید کا ایک اور کالم پڑھتے ہیں ‘ روزنامہ جنگ کے شکریہ کے ساتھ۔

col3

col3a

Articles

میڈیا میں مبشر لقمان کی احمدیہ تحریک اور نذیر ناجی

In Uncategorized on ستمبر 10, 2009 منجانب ابو سعد

یوٹیوب بھی کیا چیز ہے یہ گڑھے مردے بلکہ بدبودار مردے اکھاڑنے کا کام اچھا کررہی۔ ہم الطاف حسین سے مبشر لقمان کا انٹرویو سن رہے تھے کہ اس نے مزید ایسی ویڈیوز کو سماعت اور بصارت کے لیے پیش کردیا جس میں مبشر لقمان صاحب کی کوشش یہی ہے کہ مذکورہ قادیانیوں کو کسی طرح مسلمان قرار دلوادیں۔ ان ویڈیوز میں محمد علی درانی کے انٹرویوز کے علاوہ کالم نگار المروف "گالم گلوچ” نذیر ناجی کا بھی انٹرویو شامل ہیں۔ مبشر لقمان کی طرف سے بار بار احمدیوں کے "حقوق” کے لیے آواز اُٹھانا، ان کی "مظلومیت” کا رونا رونااور ان کو کسی طرح مسلمان قرار دلوانا تو اس لیے باعث حیرت نہیں کیوں کہ یہ ان کا مذہب ہے اور اپنے مذہب کو بہتر ثابت کرنا ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے۔ لیکن نذیر ناجی کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اگر ڈاکٹر عبدالسلام نے نوبل انعام حاصل کیا ہے تو ایک غیر مسلم قلیت سے تعلق رکھنے والے اس پاکستانی کے لیے اس اعزاز کو کون نہیں سراہتا لیکن آپ ان کو مسلمان قرار دے کر کیا ثابت کرنا چاہتے۔ ایک لبرل مسلمان یا پھر یہ آپ کا مسلک ہے جس کا تاحال آپ نے اقرار نہیں کیا یا پھر کچھ اور ۔ میں نذیر ناجی کے انٹرویو کو ٹرانسکرائب نہیں کررہا تاکہ آپ خود سماعت فرمائیں وہ سب کچھ جو نذیر ناجی صاحب فرما رہے ہیں۔ نذیر ناجی صاحب کا اگر اپنا موقف دینا چاہیے تو یہ تلخابہ کے نام سے یہ ڈسکشن فورم ان کو خوش آمدید کہے گا۔ اسی طرح مبشر لقمان صاحب کا موقف بھی شائع کیا جائے گا۔  یہاں ایک اور سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ ہر متنازعہ اینکر پرسن "نیوزون” سے ہی فلائٹ کیوں پکڑتا ہے ? اس بارے میں طاہر علی خان صاحب کو سوچنا چاہیے۔

یہاں یہ وضاحت پیش کروں کہ پوری دنیا کے سامنے احمدیوں کو مظلوم ثابت کیا جاتا ہے اوراس میں اس قدر مبالغہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے کہ ایک سادہ لوح مسلمان کو ان پر ترس آنے لگتا ہے حالانکہ ان بدمعاشوں کی پاکستان کے خلاف سازشوں کی تفصیل اتنی خوفناک ہے کہ بندہ پریشان ہوجائے۔ اس وقت بیورکریسی اور فوج سے لے کر پولیس اور یونیورسٹی پروفیسر تک کون کون سا شعبہ ہے جہاں قادیانی نہیں ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ کسی نے زیادتی نہیں کی۔ اور پھر عبدالسلام کی پزیرانی نہ ہونے کا واویلہ مچانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر انہوں نے یہ مقام حاصل کیا ہے تو ان کو اقلیت ہونے کے مواقع فراہم تھے اس لیے یہ ممکن ہوسکا کہ وہ نوبل انعام حاصل کرسکے۔ لیکن اگر کوئی مملکت خداداد پاکستان کے مسلمان میں ایک خودساختہ مذہب کی تبلیغ کرے گا تو اس کا نہ دین اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی آئین پاکستان۔ الطاف حسین یا نذیر ناجی شوق سے اپنی عاقبت خراب  کرکے ان کو تبلیغ دینے کی اجازت دیتے رہے۔

مبشر لقمان : نذیر ناجی

 

 مبشر لقمان: محمدعلی درانی

 

Articles

واٹر اسپیشل: کیا کوئی جواب دے گا؟

In پاکستان,دہشت گردی on ستمبر 9, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

اس سے پہلے کہ امریکی سفارت خانہ ڈاکٹر مزاری کی طرح ہارون رشید کا کالم انٹی امریکا قرار دے کر بند کردے آپ ان کا بلیک واٹر سے متعلق یہ کالم ضرور پڑھ لیں اور ان واقعات کو دوستوں کے ساتھ ڈسکس کرکے امریکی عزائم اور اور وطن عزیز کو درپیش خطرات سے آگاہ کردیں۔

col4

 

col4a

Articles

ایم کیو ایم قادیانی وٹہ سٹہ ؛ الطاف حسین کا انٹرویو

In پاکستان on ستمبر 9, 2009 منجانب ابو سعد

 اسٹیبلشمنٹ نے کراچی میں زقوم کی جس فصل کی کاشت کی تھی ‘اب اس کی جڑیں لاہور تک پہنچنے والی ہیں۔ اس فصل کو نئی گوڈی اور کھاد دینے کے لیے پاکستانی اسٹلبشمنٹ میں مضبوط جڑیں رکھنے والی قادیانی لابی سرگرم ہوگئی ہے۔  اُمت اخبار کی یہ خبر کہ ’’پنجاب میں متحدہ کو فعال کرنے کے لیے قادیانی لابی سرگرم‘‘ کوایک روشن خیال دوست نے ٹیبل اسٹوری قراردے کر مسترد کردیا۔ لیکن آج الطاف گینگ اور قادیانیوں کے بیچ وٹے سٹے کی نئی شادی کی جو تفصیلات ایکپریس ٹی وی میں خود الطاف حسین کے انٹرویو کے ذریعے سامنے آئی ہیں ان سے امت کی اس خبر کی تصدیق ہوگئی ہے۔

ایکسپریس ٹی وی کو دیے گئے الطاف حسین کے انٹرویو کی خبر ایکسپر یس کراچی کے صفحہ اول پر چھپی ہے جس کے  مطابق:۔

 انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم واحد تنظیم ہے جس کے قائد نے قادیانیوں کے امیر مرزا طاہر بیگ کے انتقال پر تعزیتی بیان دیا تھا’مجھ پر کئی اخبارات نے ادارئیے لکھے کہ میں نے کفر کیا ہے‘ آج میں پھر وہ کفر کرنے جارہا ہوں جس کا دل چاہے فتویٰ دے‘ جو قادیانی پاکستان میں رہتے ہیں ان کو اپنے عقیدے اور مسلک کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے‘ یہ ان کا حق ہے ‘ پاکستان کا پہلا نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالاسلام بھی احمدی تھا‘ اگر آپ اس کا نام صرف اس لیے نہیں لیتے ہیں کہ وہ احمد ی تھا تو یہ زیادتی ہوگی‘ یہ خیالات قائداعظم اور علامہ اقبال کے خیالات کبھی نہیں تھے۔ میں جعلی ملاوں اور جعلی سیاست دانوں کا پاکستان نہیں چاہتا بلکہ قائداعظم کا پاکستان چاہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ جب ایم کیو ایم کی حکومت قائم ہوگی تو میں اس حکومت سے فرمائش کروں گا کہ مجھے ایک بڑا سا کمپاونڈ دے دو جہاں میں مسجد ‘ گوردوارہ‘ مندر ‘ چرچ بناوں گا ‘ احمدیوں کی مسجد بھی بناوں گا اور اس کمپاونڈ میں سب اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے انداز سے عبادت کریں گے۔ جس دن میرا مقصد پورا ہوگیا اور میں جو انقلاب لانا چاہتا ہوں وہ آگیا تو میں پاکستان میں دین کی تبلیغ کروں گا اور قرآن کی تفسیر پڑھایا کروں گا‘‘۔

انٹرویو کے یہ الفاظ روزنامہ ایکسپریس کی خبر کا حصہ بننے سے رہ گئے ہیں۔

اسی طرح  مبشر لقمان کے سوال کے جواب میں الطاف حسین نے کہا کہ’’ احمدیوں کو پاکستان میں اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔

اس مضمون کا مقصد جہاں الطاف حسین کے ’’مذہبی خیالات ‘‘ اور مسقتبل میں اس’’ مفسر قرآن‘‘ کی طرف سے تفسیر پڑھانے کی بریکنگ نیوز کو قارئین تلخابہ تک پہنچانا ہے‘ وہیں اس کا مقصد پنجاب کے خلاف نعرے کی بنیاد پر بننے والی اس جماعت( جس کو گروہ لکھنا زیادہ مناسب ہوگا) کی پنجاب آمد کے مضمرات پر بحث کرنا بھی مقصود ہے ۔ لاہور کے کچھ ’’دانشور‘‘ اور ٹی وی میزبان مبشر لقمان تو ایم کیو ایم کی معصومیت اور مظلومیت کی داستانیں سنا ہی رہے تھے وہیں تاہم  جرگوں کا انعقاد کرنے والے سلیم صافی بھی ایم کیو ایم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔  ان سے میں کیا کہہ سکتا ہوں اس کے علاوہ کہ ’’ خدائے دئی درتہ پخپلہ پیخہ کی چہ پتا درتا ولگی‘‘ اور لاہور کے دوستوں کے لیے پشتو کا یہ محاروہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں ’’ ھلہ بہ خبر شے چہ تالو جبے لہ ورشی‘‘ یعنی ایم کیو ایم ایک ایسی کڑوی گولی ہے جس کا پتا اسی کو چلتا ہے جس نے کبھی زندگی میں اس کو نگل لیاہو۔ اللہ کرے ‘ اللہ کرے کہ کبھی اس کڑوی گولی کا چکھنا حسن نثار‘ مبشر لقمان ‘ سلیم صافی اور دیگر کو نصیب ہو تاکہ پتا چل جائے۔ ویسے اس کا ایک فائدہ کراچی والوں کو ضرور ہوگا کہ جو سرمایہ کار اس غنڈہ گروپ کی بھتہ خوری سے تنگ آکر لاہور ‘فیصل آباد بھاگ گئے تھے وہ اس بلا کے وہاں پہنچنے پر واپس کراچی آجائیں گے اگر وہ اپنا سرمایہ لپیٹ کر باہر نہ چلے گئے تو۔ سلیم صافی صاحب فرما رہے ہیں کہ ایم کیو ایم بدل چکی ہے۔ لیکن ہم جو روز انہ اس گروہ کا مکروہ چہرہ دیکھتے ہیں اس بات سے پریشان ہیں کہ ایم کیو ایم قادیانیوں کے ساتھ مل کر کوئی نیا کھیل نہ شروع کردے کیوں کہ جس اقبال کا حوالہ لندن کے پیر نے اپنے انٹرویو میں دیا ہے ان کا ان سازشی قادیانیوں کے متعلق فرمانا ہے۔

’’سب سے پہلی بات جو پیش نظر رہنی ضروری ہے یہ ہے کہ اسلام ایک ایسی مذہبی قومیت کا علمبردار ہے‘ جس کے حدود کاملا متعین ہیں۔ اور وہ حدود ہیں:۱) اللہ کی وحدانیت‘۲) تمام انبیا علیہ السلام پر ایما ن اور حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ وسلام کے خاتم النیبین ہونے پر ایمان۔ موخر الذکر عقیدہ فی الحقیقت ایک ایسا عنصر ہے جو مسلم اور غیر مسلم کے درمیان ایک واضح خط کھینچ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری رائے میں قادیانیوں کے لیے صرف دو ہی راستے کھلے ہیں۔یا تو وہ سیدھی طرح بہائیوں کے طرز عمل کو اختیار کریں اور یا ختم نبوت کو اس کے تمام تر مضمرات کے ساتھ قبول کرلیں۔ ان کی عیارانہ  تاویلات دراصل ان کی محض اس خواہش کی بنا پر ہیں کہ واضح سیاسی مفادات کے حصول کے لیے وہ اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کا ایک حصہ شمار کراتے رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ حقیقت کہ قادیانیوں نے ابھی تک ایک الگ سیاسی وحدت کی حیثیت سے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا ہے یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ موجودہ حالت  میں وہ خود بھی اپنے آپ کو کسی مجلس مقننہ میں نمائندگی حاصل کرنے کا مستحق نہیں سمجھتے۔نیا آئین ایسی اقلیتوں (جیسی کہ قادیانی ہیں) کے تحفظ کی دفعات سے خالی نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ بات یقینی ہے کہ قادیانی حکومت سے یہ مطالبہ کرنے میں کبھی پہل نہیں کریں گے کہ انہیں ملت اسلامیہ سے الگ ایک وحدت  قرار دیا جائے۔( اس لیے) خود ملت اسلامیہ ان کو جسد ملت سے علیحدہ کرنے کے مطالبہ میں بالکل حق بجانب ہے۔حکومت کی طرف سے اس مطالبہ کو فی الفور تسلیم نہ کرنے سے ہندی مسلمانوں کے ذہن میں لازما یہ شبہ پیدا ہوگا کہ حکومت برطانیہ اس نئے مذہب جو کسی آڑے وقت کے لیے رکھنا چاہتی ہے‘ جیسا کہ وہ رکھتی رہی ہے‘ اور علیحدگی کے مسئلہ کے حل میں محض اس لیے تاخیر کررہی ہے کہ اس مذہب کے پیروکار تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے اس وقت ایک ایسی چوتھی قومیت کی حیثیت سے صوبہ کی سیاست میں نہیں ابھر سکتے جو پنجابی مسلمانوں کی مجلس مقننہ میں معمولی سی اکثریت کو کاری ضرب لگا سکے۔۱۹۱۹ میں سکھوں کی ہندووں سے علیحدگی کے معاملہ میں حکومت نے کسی رسمی مطالبہ کا انتظار نہیں کیا تھا تو پھر قادیانیوں کی طرف سے رسمی مطالبہ کا انتطار کیوں؟‘‘ روزنامہ اسٹیٹسمن ’’شمارہ ۱۰ جون ۱۹۳۵

علامہ اقبال کو قادیانیوں کی جس سازشی گندگی کا ادراک ۱۹۳۵میں تھا کاش اس کا احساس وقت کو حکمرانوں کو ہوجائے لیکن کن حکمرانوں کو۔ پیپلز پارٹی کو یا اے این پی یا پھر ایم کیو ایم جو قادیانی کندھوں پر پنجاب میں داخلے کے لیے پر تول رہی ہے؟ قادیانیوں نے اس وقت اپنے آپ کو امت مسلہ سے الگ حصہ بننا ڈیکلیر کرنے سے روکا  لیکن پاکستانیوں کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں دائرہ اسلام سے خارج تصور کیے جانے کے بعداس جماعت کی کوشش رہی کہ وہ پھر سے اپنے آپ کو مسلمان قرار دلوائے اور اس کام کے لیے ایم کیو ایم سے وٹے سٹے کی شادی ہوئی ہے جس کت تحت بلیک میلر ایم کیو ایم قادیانیوں کی شرانگیزیوں میں ان کی مددگار ہوگی جبکہ قادیانی ایم کیو ایم کو پنجاب میں جڑیں مضبوط کرنے میں مدد دیں گے۔

اَپ ڈیٹ۔1

الطاف حسین کے یہ جملے روزنامہ ایکسپریس اور روزنامہ جسارت دونوں کی خبروں میں شامل نہیں ہیں اس لیے ذیل میں درج کررہا ہوں تاکہ معلوم ہوسکے کہ الطاف حسین ڈرامہ باز ‘ دہشت گرد اور بھتہ خور ہی نہیں بلکہ انتہائی درجہ بلکہ پرلے درجہ کا جاہل آدمی بھی ہے۔ اس جاہل آدمی کے ذیل میں جملے پڑھیے اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے بارے میں دلائل ذیل میں دیے گیے لنک پر پڑھےے اور ماتم کیجیے کہ مملکت پاکستان میں ایسے جعلی لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو انتہائی جہالت کے باوجود ایک پارٹی کے سربراہ بھی ہوں۔ الطاف حسین سے ہماری اپیل ہے کہ وہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے بجائے اپنے احمدی ہونے کا اعلان کرے پھر اس کے بعد جو جی میں آئے تو بکواس کرتا رہے۔

ایسے نہیں کہہ رہا‘ میں نے احمدیوں کا لٹریچر بھی پڑھا ہے ‘ میں نے احمدیوں کے پروگرام بھی دیکھے ہیں۔میں دیکھا ہے وہی کلمہ ‘ وہی سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وسلم انہی کو آخری نبی مانتے ہیں‘ اب جھگڑا جو آتا ہے اس کی بحث میں جانا نہیں چاہتا ۔آپ ان کو مسلمان نہیں مانتے تو نہیں مانے ‘ ہندو کا اپنا خدا ہے اس کو تو آپ تسلیم کرتے ہیں تو آپ احمدیوں کو بھی تسلیم کرلیں ‘ یہ جرات پاکستان میں کسی میں نہیں ہے

 اَپ ڈیٹ۔2

 تسلسل کے ساتھ ٹی وی چینلز پر قادیانیوں کے حقوق کی بات کرنے والے اور ان کے حق میں تحریک چلانے والے مبشر لقمان کے بارے میں لوگوں کا گمان تھا کہ اس کی ہمدردیاں احمدیوں کے ساتھ ہیں لیکن اب جناب مولانا اسماعیل شجاع آبادی صاحب نے راقم سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق فرمائی ہے کہ مبشر لقمان قادیانی اور ربوہ کے رائل فیملی سے تعلق رکھنے والے مرزا لقمان کا بیٹا ہے۔

اَپ ڈیٹ۔3

عقیدئہ ختم نبوت اسلام کی اساس ہے ، انکار ارتداد ہے ، مفتی منیب الرحمن

کراچی( اسٹاف رپورٹر) ممتاز عالم دین اور اتحادِ تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کے سربراہ پروفیسر مفتی منیب الرحمن نے جیو کی ایمان رمضان نشریات کے دوران عالم آن لائن کے میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے ساتھ یوم ختم نبوت پر عالم آن لائن کے خصوصی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیدنا محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ آپ کو خاتم النبیین ، خاتم الرسل اور اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اور آخری رسول تسلیم کیا جائے ، یہ عقیدہ قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور اجماع امت بالخصوص خیر القرون صحابہ کرام کے اجماع قطعی سے ثابت ہے ، ان کا کہنا تھا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ، اللہ جل شانہ نے فرمایا: اے نبی اعلان کر دو کہ اے انسانو ! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دنیا سے وصال فرمانے کے بعد سب سے پہلا فتنہ، فتنہ انکار ختم نبوت تھا، جسے کفر و ارتداد قرار دے کر خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کچل دیا اور انہیں جہنم رسید کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں ہر نبی کی نبوت قطعی ہے ۔ دور حاضر کی تاریخ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہ اعزاز و افتخار حاصل ہے کہ 7 ستمبر 1974 کو اس کی پارلیمنٹ نے مکمل اتفاق رائے اور اجماع سے ایسا باطل عقیدہ رکھنے والوں کو مرتد اور کافر قرار دے دیا اور ساتویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس فتنے کا خاتمہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر صدیق  کے ایک فرزند جلیل قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ تعالیٰ کو یہ اعزاز عطا کیا کہ قومی اسمبلی میں ارتداد قادیانیت کی تحریک کے محرک صرف وہ تھے، اگرچہ اس تحریک کے تائید کرانے والوں میں تمام مکاتب فکر کے علماء اور دیگر ارکان قومی اسمبلی بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ باطل جب بھی مسلمانوں کو کمزور کرنا چاہتا ہے وہ اپنے گماشتے امت مسلمہ میں پلانٹ کرتا ہے اور ان کے ذریعے ناموس الوہیت جل و عالیٰ یعنی ذات باری تعالیٰ اور ناموس رسالت پر حملہ کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ مسلمان کی طاقت محبت خدا اور اطاعت و عشق مصطفی صلی اللہ وآلہ وسلم میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اطاعت و محبت رسول کی تحریک ہمیشہ جاری و ساری رہے تا کہ باطل کی سازشیں نیست و نابود ہوں، کیونکہ آج بھی اس طرح کے گماشتے موجود ہیں اور امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ کھوج لگا کر ان کا قلع قمع کرے۔

اپ ڈیٹ4

الطاف حسین کی جانب سے قادیانیوں کی حمایت پر ملک بھر کے علماء کا سخت ردعمل (روزنامہ جنگ ‘کراچی)

کراچی/لاہور(اسٹاف رپورٹر)ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے قادیانیوں کی حمایت پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مولانا عزیزالرحمن جالندھری، مولانا صاحبزادہ عزیز احمد، مولانا اللہ وسایا، مولانا محمد اکرم طوفانی، مولانا عزیز الرحمان ثانی ،مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی، مولانا سید احمد جلال پوری نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ قادیانیت سے متعلق طے شدہ مسئلہ کو متنازع نہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قادیانی اپنے عقیدہ نبوت کی وجہ سے قرآن وسنت، اجماء امت اور پاکستان کے آئین کی رو سے غیر مسلم اقلیت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک دوسرے غیر مسلموں ( ہندو، سکھ، عیسائی اور یہودیوں) کا تعلق ہے وہ اپنے آپ کو غیر مسلم مانتے ہیں جبکہ قادیانی ایسی اقلیت ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان اور مسلمانوں کو غیر مسلم مانتے ہیں لہذا دوسرے غیر مسلموں پر قادیانیوں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ مشترکہ بیان میں رہنماؤں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے 13 دن تک قادیانی اور لاہوری گروپ کے سربراہوں کو مکمل دفاع کا موقع دیتے ہوئے کلمہ  نماز پڑھنے  بظاہر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ماننے کے باوجود غیرمسلم اقلیت قرار دیا۔ الطاف حسین قادیانیوں کو مسلمان سمجھ کر آئین پاکستان سے بغاوت کا ارتکاب نہ کریں۔ رہنماؤں نے کہا کہ مسلمان اُنہیں اپنے عقیدہ و مسلک کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل حق دیتے ہیں لیکن اُمت مسلمہ کو کافر قرار دیکر خود کو مسلمان سمجھنے کی کسی صورت میں اجازت نہیں دیں گے۔
جمعیت علمائے پاکستان کی سپریم کونسل کے چیئرمین علامہ جمیل احمد نعیمی، امیر مرکزی جماعت اہلسنّت پاکستان پیر عبدالخالق بھرچونڈی، مفتی محمد شریف سرکی، مفتی محمد ابراہیم قادری، مفتی محمد جان نعیمی، مفتی محمد احمد نعیمی، امیر فدائیانِ ختم نبوّت پاکستان مفتی عبدالحلیم ہزاروی، مفتی تاج الدین نعیمی، علامہ قاضی احمد نورانی، علامہ خادم حسین رضوی، مفتی محمد خان قادری، سردار محمد خان لغاری، پیر محفوظ الحق مشہدی، علامہ شبیر احمد ہاشمی، علامہ محمد اقبال اظہری، علامہ محمد عباس قادری، علامہ سید شجاع الحق، علامہ پیر محمد چشتی، علامہ مختیار احمد چشتی، علامہ عبدالمجید نورانی و دیگر علماء مشائخ نے اپنے مشترکہ بیان میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے انٹرویو کے سلسلے میں کہا ہے کہ بات صرف مرزا طاہر کی تعزیت یا مرزا مسرور سے ملاقات کی نہیں بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ قادیانی جو خود کو احمدی کہتے ہیں وہ اپنا غیر مسلم ہونا قبول نہیں کرتے۔ سکھ، ہندو، عیسائی سمیت پاکستان میں بسنے والی دیگر غیر مسلم اقلیتیں خود کو غیر مسلم تسلیم کرتی اور پاکستان کے آئین کا احترام کرتی ہیں جبکہ قادیانی نہ صرف خود کو مسلمان سمجھتے ہیں بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو کافر گردانتے ہیں اور آئین پاکستان کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ان علمائے کرام نے کہا کہ 1984کے امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کی رُو سے قادیانی کسی بھی شعائر اسلامی کو استعمال نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کی عبادت گاہ کو مسجد کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ الطاف حسین نے قادیانی عبادت گاہ قائم کرنے کے عزم کا اظہار کرنے کے بعد اسے مسجد کا نام دے کر نہ صرف شعائر اسلام کی توہین کی ہے بلکہ امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کی خلاف ورزی کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ماہ رمضان میں ایسے بیانات، جن سے قادیانیوں کی سرپرستی ہو اور احمدیوں کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹا جائے، قابلِ مذمت فعل ہے ۔ہم الطاف حسین سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ خدارا ایمان اور کفر کے فرق کو سمجھیں اور یاد رکھیں کہ ایم کیو ایم کو لاکھوں ووٹ دینے والے صحیح عقیدہ مسلمان ہیں جو حضرت محمد مصطفی کی ختم نبوّت پر کامل یقین رکھتے ہیں اور قادیانیوں کو قعطی طور پر کافر سمجھتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ چند قادیانیوں اور ان کے آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے احمدیوں کی حمایت اور ان کی عبادت گاہیں قائم کرنے کا عہد کرتے ہیں یا عقیدہ ختم نبوّت پر کامل ایمان کا اظہار کرکے اپنے لاکھوں ووٹروں کی حمایت کرتے ہیں، وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ صرف علماء کے فتاویٰ نہیں بلکہ قرآن و حدیث کا متفقہ فیصلہ اور اجماعِ امّت ہے

news-08

 

news-10

  

news-11

 

  20

اپ ڈیٹ 5

ایم کیو ایم قادیانی گٹھ جوڑ کو ناکام بنانے کی حکمت عملی تیار

news-01

 

اپ ڈیٹ6

الطاف حسین صاحب نے اپنے ہی ویڈیو کو ان کے خلاف مہم قرار دے کر کہا ہے کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ کیا آپ ان کے اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہیں؟ ان کا بیان ملاحظہ ہو۔(حوالہ نوائے وقت کراچی)۔

scan0001scan0002scan0003 

اپ ڈیٹ 7

اب اسے کیا کہا جائے؟ ویڈیو دیکھیے اور یہ پ ر یعنی پریس ریلیز جس کو روزنامہ جنگ نے نمایاں شائع کیا ہے اس کو پڑھیے۔ کیا کوئی شکوک پیدا کررہا ہے یا الطاف حسین اپنی بات پر قائم نہیں رہے؟ 

وہ شخص مسلمان ہوہی نہیں سکتا جو ختم نبوت پر کامل یقین نہ رکھے،الطاف حسین 

کراچی(پ ر)متحدہ قومی موومنٹ کے قائدجناب الطاف حسین نے کہا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم پاکستانی کی حیثیت سے رہنے کا حق دیاجائے، انہیں اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرنے اور عزت سے رہنے کا حق ہے، میری باتوں کو غلط رنگ دیاجارہا ہے۔انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہاہے کہ میں اللہ کی واحدانیت اورسرکاردوعالم ﷺکی ختم نبوت پر کامل یقین رکھتاہوں،میراایمان ہے کہ وہ شخص مسلمان ہوہی نہیں سکتاکہ جوسرکاردوعالم کی ختم نبوت پر کامل یقین نہ رکھے۔انہوں نے یہ بات لال قلعہ گراوٴنڈ عزیزآباد میں علمائے کرام کودی جانے والی دعوت افطار سے ٹیلیفون پر خطاب کرتے ہوئے کہی۔ دعوت افطارمیں تمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے علمائے کرام ،مشائخ عظام اورذاکرین نے بڑی تعدادمیں شرکت کی ۔انہوں نے کہاکہ میں مفتیء آگرہ مولوی محمدرمضان کاسگاپوتاہوں جواپنے وقت کے جیدعالم دین ہی نہیں بلکہ مفتی بھی تھے اوران کے دیے ہوئے فتوے آج بھی جامع مسجدآگرہ میں موجودہیں۔ اپنے خطاب میں الطاف حسین نے قرآنی آیات ،احادیث مبارکہ اوراسلامی تاریخ کی روشنی میں اتحادبین المسلمین، مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورمعاشرتی ترقی کیلئے خودکو جدیدتقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور نوجوانوں کو اسلام کی اصل روح سے آگاہ کرنے اوراسلام کے نام پر دہشت گردی کی روک تھام کے بارے میں تفصیلی اظہارخیال کیا۔ الطا ف حسین نے کہاکہ میں نے ایک انٹرویومیں احمدیوں کے بارے میں کچھ اظہارخیال کیاہے توبعض لوگ میری باتوں کوغلط رنگ دے رہے ہیں،میں یہ وضاحت کرناضروری سمجھتاہوں کہ میں نے یہ کہاتھاکہ پاکستان میںآ باد احمدی پاکستانی شہری ہیں اورپاکستانی شہری کی حیثیت سے انہیں بھی عزت سے رہنے اوراپنے عقائدکے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ان خیالات کے اظہارپر بعض لوگ میرے بارے میں شکوک وشبہات کااظہارکررہے ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ جب حکومت نے قادیانیوں کوغیرمسلم قراردے دیاہے توپھرانہیں ملک میں پاکستانی شہری کی حیثیت سے رہنے کاحق دیاجائے۔میری اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ جب گنہگارالطاف حسین کواٹھائیوتوجان نکلنے سے پہلے زبان پر ” لاالہ الاللہ محمدرسول اللہ “ ضرور اداہو۔( روزنامہ جنگ کراچی ۱۱ستمبر 09)   

اپ ڈیٹ 8

کسی بھی شخص کی طرف سے اسلام اور شعائر اسلام کے خلاف بات کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ مسلمان سو نہیں رہے بلکہ زندہ ہے۔ ذیل میں اخباری بیانات پر مشتمل کلپنگز ملاحظہ کریں؛

news-22

news-27

news-25

news-26

news-01

story1

Articles

آئینہ تصویر: دہشت گرد

In پاکستان,دہشت گردی on ستمبر 9, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

1

Articles

بلیک واٹر اسپشل: طریقہ واردات ؟

In فوج,پاکستان on ستمبر 7, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

بلیک واٹر :یعنی کالا پانی‘ جو کالا ہی نہیں گندہ بھی بہت ہے اور گندہ ایسا کہ اس کی بدبوامریکا سے لے کر عراق تک اور عراق و افغانستان سے لے کر پاکستان تک چہار سو پھیل گئی ہے۔ پاکستان کے غیر ت سے عاری  حکمرانوں اور فوجی جنتا کی خاموش رضامندی کے ساتھ پاکستان میں آپریٹ کرنے والے بلیک واٹر کا طریقہ واردات کیا ہے؟ اس موضوع پر اوریا مقبول جان صاحب کا کالم بہت کچھ بتلاتا ہے۔

2