Archive for اکتوبر, 2009

In پاکستان,دہشت گردی on اکتوبر 31, 2009 منجانب ابو سعد

ایک فلم میں دیکھا تھا کہ ایک عورت غنڈوں سے بچنے کے لیے بھاگتے ہوئے اس خیال سے تھانے کے اندر چلی جاتی ہے کہ قانون کے رکھوالے اور شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے ذمہ دار پولیس والے‘ غنڈوں سے اس کی جان بچا لیں گے۔ لیکن وہاں پہنچ کر اُسے پتا چلتا ہے کہ یہ تھانہ ویسے تو سرکاری ہے لیکن اصل میں یہ ان غنڈوں کا ایک یونٹ آفس ہے۔ آج پشاور سے تعلق رکھنے والا صحافی سید فواد علی شاہ بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے کہ وہ بھاگے تو کہاں بھاگے، چھپے تو کہاں چھپے، کس سے پناہ مانگے‘ کس پر اعتبار کرے اور کس کو اپنا محافظ سمجھے!
فواد علی شاہ کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے تحفظ کے لیے آئی جی سرحد پولیس ملک نوید خان کو درخواست دی کہ وہ اس کو بلیک واٹر صلیبی ملیشیا سے بچالیں‘ لیکن وہ بھی امریکیوں سے اپنی دوستی نبھا رہے ہیں۔ دسمبر 2007ء کے سرد دنوں میں پشاور کے مقامی اخبار کے اس انویسٹی گیٹو رپورٹر نے جب 83 طالبان کی ایک فہرست مرتب کردی تو ناموں اور پتے کی تفصیلات پر مبنی یہ فہرست امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد تو جیسے اس کی ”لاٹری“ نکل آئی اور امریکیوں نے اس کو سونے کی چڑیا سمجھ کر اسے اپنے قبضے میں لینے کی کوششیں شروع کردیں۔ طالبان کے خلاف خبریں چھاپنے پر پشاور میں امریکی قونصل خانے کے چار سفارت کاروں اسٹیون‘ کیش روڈرک‘کرسٹوفر اور ایشاکمبلی نے اس سے رابطہ قائم کیا۔ یہ چاروں سفارت کار اس سے ملاقات کرکے پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرنے کی ترغیب دیتے۔ انہوں نے فواد کو ہزاروں ڈالر کی پیش کش کی جبکہ ہر ملاقات میں اسے ایک ہزار ڈالر بطور انعام بھی دیتے تھے۔
فواد سے ان افراد کی ملاقاتیں پشاور میں یونیورسٹی ٹاﺅن کے مختلف گھروں میں ہوتی تھیں‘ اور ہر ملاقات میں اسے ایک ہزار ڈالر کے ساتھ شراب کی دو بوتلیں بھی دی جاتیں۔ شراب وہ واپس کردیتا لیکن رقم رکھ لیتا تھا۔ اس طرح ایک سال کے عرصے میں اس کی ان امریکیوں سے تقریباً14ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات میں ان افراد نے اسے کھانا کھلایا اور ملکی مفاد کے خلاف کام کی پیشکش کی۔ (بقول فواد)اس نے جواب دیا کہ سوچ کر بتاﺅں گا۔ دوران ملاقات امریکی اس سے پشاور کی مختلف شخصیات کے بارے میں کوائف بھی حاصل کرتے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ فواد نے پہلی ملاقات کے فوراً بعد ہی پاکستان کے حساس اداروں کو اس بارے میں آگاہ کردیا۔ تاہم انہوں نے ان امریکیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان کے ساتھ ملاقاتیں جاری رکھنے اور اس کی تفصیلات فراہم کرنے کا کام لینا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا جب فواد نے امریکیوں کی پراسرار سرگرمیوں کی خبریں اخبارات میں رپورٹ کرنا شروع کردیں۔
بلیک واٹر کے موضوع پر بنیادی معلومات رکھنے والے شاید یہ جانتے ہوں گے کہ اس بدنام زمانہ دہشت گرد صلیبی فوج کے خلاف سب سے پہلی خبر یہ شائع ہوئی تھی کہ اس نے پشاور کے یونیورسٹی ٹاﺅن میں ایک این جی او کے روپ میں کام کرنا شروع کردیا ہے اور سیکڑوں پاکستانیوں کو بھرتی کرنے کے بعد صوبہ سرحد اور خصوصاً قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں انہیں استعمال کررہی ہے۔ یہ خبر فواد علی شاہ نے ہی بریک کی تھی جس کے بعد ملک کے کئی حصوں خصوصاً اسلام آباد میں بلیک واٹر کی سرگرمیوں کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے۔ بلیک واٹر کے بارے میں ان اہم انکشافات کی بناءپر ہی امریکی قونصل خانہ فواد کی جان کے درپے ہوا اور اس کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔
پشاور میں امریکی قونصل خانہ جو قونصل خانے سے زیادہ صلیبی دہشت گردوں کا عسکری ہیڈکوارٹر بنا ہوا ہے‘ کی طرف سے دھمکیاں ملنے کے بعد ایک پاکستانی کیا کرسکتا ہے؟ پولیس سے تحفظ مانگ سکتا ہے‘ حکومت کے پاس جاسکتا ہے۔ لیکن پشاور میں طالبان ، بلیک واٹر اور دہشت گردی کی اس پوری امریکی جنگ کے بارے میں بنیادی معلومات رکھنے کے سبب اس کو ادراک ہوا کہ پولیس کے پاس جانا شاید امریکی قونصل خانے کے ہتھے چڑھنے سے بھی زیادہ خطرنا ک ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ یہاں سے ایران چلا گیا اور وہاں مو ¿قف اختیار کیا کہ چونکہ اس نے امریکا کے خلاف کام کیا ہے‘ اس لیے امریکی اس کی جان کے درپے ہوگئے ہیں لہٰذا حکومت ِایران اس کو پناہ دے۔ لیکن وہاں اس کو معلوم ہوا کہ ایرانی حکومت ایسی کوئی خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی ایرانی قوانین میں اس بات کی گنجائش ہے کہ اپنے ملک میں جان کے خطرے کے سبب بھاگ کر آنے والے کو پناہ دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جان بچانے کے لیے آرمینیا جانے کا فیصلہ کیا اور غیر قانونی طریقے سے سرحد عبور کرکے وہاں چلا گیا‘ تاہم پکڑا گیا اور نتیجتاً واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ گزشتہ روز اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کرکے اس نے حکومت سے اپنے تحفظ کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ اگر اسے کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری امریکیوں کے علاوہ پشاور پولیس پر بھی عائد ہوگی۔
سید فواد علی شاہ اس وقت اپنے ملک کے اپنے ہی شہر میں امریکی درندوں سے جان بچانے کے لیے چھپتا پھر رہا ہے۔ اس کو ادراک ہے کہ جنگل کی شکل لیے اس ملک میں یہاں کے شہریوں کی جان کے تحفظ کے قوانین معطل ہیں اور یہاں کے لوگوں کو چیڑ پھاڑ کر کھانے والے آدم خور امریکی درندے قانون سے بالاتر ہیں۔ پشاور کے نامعلوم مقام سے جسارت میگزین سے فون پر بات کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ میں اس حکومت اور اس کی پولیس پر کیسے اعتبار کروں جو اسلحہ سمیت پکڑے گئے امریکی سفارت کاروں کے روپ میں دندناتے پھرنے والے امریکیوں کو ایک فون کال پر چھوڑ دیتی ہے!
اس کا کہنا تھا کہ رحمن ملک نہ یہ بات ماننے پر تیار ہیں کہ ملک میں بلیک واٹر ہے‘ اور نہ ہی امریکیوں کو قانون کے دائرے میں لانے کے بارے میں سنجیدہ ہےں۔ اس نے بتایا کہ اِس وقت اُس کے پاس ان بنگلوں کی مکمل تفصیلات موجود ہیں جو بلیک واٹر نے کرایہ پر لیے ہوئے ہیں۔ لیکن ثبوتوں کے باوجود اگر ہمارے وزیر داخلہ بلیک واٹر اور صلیبی فوجوں کی موجودگی سے انکار کریں تو اسے کیا قرار دیا جاسکتا ہے؟ فواد کا دعویٰ ہے کہ اس وقت اسلام آباد میں 278، پشاور میں 62 اور کراچی میں 35 بنگلوں میں بلیک واٹر کے اہلکار رہ رہے ہیں۔ یہ بنگلے مختلف فائیو اسٹار ہوٹلوں کے علاوہ ہیں جہاں بدنام زمانہ بلیک واٹر کے اعلیٰ افسران رہ رہے ہیں اور پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو یقینی بنانے کے لیے اس کی نگرانی کرتے ہیں۔
بلیک واٹر کے طریقہ واردات کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ سب سے پہلے کرپٹ، عیاش اور شرابی افسران، خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کے اہلکاروں کی فہرست مرتب کرتی ہے‘ پھر ان سے رابطہ کرکے ڈالرز، شراب اور لڑکیوں کی پیشکش کی جاتی ہے۔ فواد کا کہنا ہے کہ ان افسران سے ملک کے اہم رازوں کے علاوہ متعلقہ اداروں کی پوری کارروائیوں کی تفصیلات حاصل کی جاتی ہیں۔ فواد کا کہنا ہے کہ امریکی بعض دفعہ افراد کو پہچاننے میں غلطی بھی کرجاتے ہیں۔ ایک واقعہ یوں ہوا کہ انہوں نے ڈی آئی جی اشرف نور کو پیشکش کی کہ وہ ڈالرز کے بدلے ان کے لیے کام کریں۔لیکن اشرف نور نمازی پرہیزگار پولیس آفیسر ہیں‘ اس لیے انہوں نے نہ صرف امریکیوں کی پیشکش مسترد کردی بلکہ اپنے اعلیٰ افسر کو اس بارے میں مطلع کردیا۔ جس پر اس اعلیٰ افسر نے امریکیوں سے رابطہ کرکے بتادیا کہ آپ نے غلط آدمی کو پیشکش کی ہے۔ اس کے بعد امریکی پشاور پولیس پر بہت زیادہ اثرانداز ہونے لگے۔ فواد علی شاہ کا دعویٰ ہے کہ اب امریکی ہر وقت پشاور کے سینٹرل پولیس آفس میں موجود ہوتے ہیں۔ انہوں نے اکثر پولیس اہلکاروں کو خرید لیا ہے۔
معتوب مگر نڈر صحافی کا یہ بھی کہنا ہے کہ پشاور میں اس وقت بلیک واٹر کے زیر تربیت 6 بیچز فارغ ہوچکے ہیں۔ ہر بیچ میں دو سو سے تین سو افراد کو تربیت دی جاتی ہے۔ تربیت حاصل کرنے والوں میں اکثر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سابق افسران ہوتے ہیں۔ فواد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ایک بڑی تعداد کو بھرتی کرکے پورے سرحد میں پھیلادیا گیا ہے جن کے ذریعے تباہی پھیلائی جارہی ہے۔ پشاور بم دھماکے کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ سو فیصد امریکیوں کی کارروائی ہے۔ اس نے بتایا کہ امریکیوں کی سرگرمیاں قریب سے دیکھنے کے علاوہ میں جلال آباد اور کابل میں امریکی قونصل خانوں میں بھی جاچکا ہوں اور میں وہاں کی صورت حال دیکھنے کے بعد وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ قونصل خانے دراصل امریکی جنگی مراکز ہےں جن کا استعمال پاکستان کے خلاف ہوتا ہے اور جہاں سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کے علاوہ ان کے ہونے کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا پشاور کا واقعہ امریکیوں نے خود کیا ہے یا انہوں نے مقامی لوگوں کے ذریعے کروایا ہے؟ فواد کا کہنا تھا کہ اس وقت پشاور میں غربت نے لوگوں کو اس حد تک پہنچادیا ہے کہ آپ کو پانچ ہزار میں ایک تجربہ کار کرایہ کا قاتل بآسانی مل سکتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اسے جیل میں طالبان کے رہنما مولوی رفیع الدین سے ملنے کا اتفاق ہوا‘ اور ان کے ساتھ طویل گفتگو سے یہ اندازہ ہوا کہ طالبان سخت امریکا مخالف ہےں اور ان کا ایجنڈا صرف اور صرف امریکیوں کا خاتمہ ہے، ہاں طالبان اُن شخصیات اور اداروں کو بھی نشانہ بنانا درست سمجھتے ہیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ امریکیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ طالبان عوام کو نشانہ بناسکتے ہیں اور نہ ہی عوامی مقامات پر دھماکا کرسکتے ہیں۔ پشاور کا واقعہ سو فی صد امریکی کارروائی ہے اور اس کو پشاور میں موجود بلیک واٹر نیٹ ورک کے ذریعے کرایا گیا ہے۔
سرحد حکومت کی کارکردگی کے بار ے میں فواد کا کہنا ہے کہ اسے اس جنگی حالت میں بھی عوام سے کوئی سروکار نہیں۔آپ پشاور کے ہر صحافی اور عام باخبر شخص سے پوچھیں کہ ”بابا کو ایزی لوڈ کرادو“ کا کیا مطلب ہے؟ تو وہ بتادے گا کہ ’بابا‘ حیدر خان ہوتی اور’ایزی لوڈ‘ پیسوں کو کہتے ہیں۔ فواد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ایسی کرپٹ حکومت کا عوام اور ان کے جان ومال کے تحفظ سے بھلا کیا سروکار ہوسکتا ہے؟ وہ تو اس حالت میں بھی پیسے کمانے کے چکر میں لگی ہے‘ ایسے میں آپ سرحد پولیس سے کیا توقع کرسکتے ہیں جس کے اکثر اعلیٰ افسران امریکیوں کے ہاتھوں بک چکے ہیں۔ پشاور کے اس بہادر صحافی نے بتایا کہ اس وقت پشاور میں لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ امریکی کسی کو بھی طالبان کے نام پر اٹھا لیتے ہیں، امریکی نہ تو پشاور پولیس کو مطلع کرتے ہیں نہ ہی کسی اور حکومتی ادارے کو خاطر میں لاتے ہیں، تو ایسے میں میرے پاس چھپنے کے علاوہ کیا چارہ رہ جاتا ہے؟ اور ویسے بھی پولیس اور وزارت داخلہ کا کام اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا نہیں بلکہ یہاں گھومنے والے خونی امریکی درندوں کو پولیس سے چھڑا کر یہ پیغام دینا ہے کہ امریکی پاکستانی قانون سے بالاتر بہت ہی اعلیٰ درجے کے انسان ہیں‘ جن کے لیے کیڑے مکوڑوں یعنی پاکستانیوں کی قربانی بھی دی جاسکتی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا سرحد اور پشاور کی صحافتی برادری آپ کے ساتھ کھڑی ہے اور یہ کہ آپ نے پشاور کے بجائے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کیوں کی؟ فواد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پشاور پریس کلب دراصل امریکی کلب بنا ہوا ہے۔ وہاں ایک دن سی آئی اے کے اہلکار آتے ہیں اور تمام صحافیوں کو نکال دیا جاتا ہے۔ جس کو آپ پشاور پریس کلب کہتے ہیں اس کا کوئی رکن کلب کے اندر نہیں جاسکتا۔ پھر امریکی قونصل جنرل آتا ہے اور صحافیوں کو باہر نکال دیا جاتا ہے۔ فواد نے بتایا کہ اس وقت پشاور کے صحافیوں کے ہاتھوں میں کمائی کا ایک بڑا ذریعہ آگیا ہے اور وہ ڈالروں میں کماتے ہیں۔ پشاور پریس کلب کے ایک اعلیٰ عہدے دارکے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ اس نے امریکیوں سے دس ہزار ڈالر لیے ہیں۔ اس نے امریکا کے لیے اِپلائی کیا ہوا ہے اور کسی بھی وقت امریکا چلاجائے گا۔
فواد علی کا قصہ ایک رپورٹر پر آنے والی مصیبت کی کہانی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے محب وطن پاکستانیوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اگر اس پوری کہانی پر نظر ڈالی جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے ملک میں امریکی عسکری اور دہشت گرد ملیشیا کس حد تک اپنا نیٹ ورک قائم کرچکی ہے۔ بلیک واٹر کس طرح ہمارے ملک کے اندر بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے۔ اس کھیل میں کس حد تک پاکستانی حکمران اور یہاں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے شریک ہیں۔ کس نے ان کو آزادی دی ہے اور کون ان سے چشم پوشی کررہا ہے۔ امریکا نے کتنے لوگوں کو خرید لیا ہے اور کس کی کتنی بولی لگتی ہے۔ اس ملک میں امریکا کے لیے اور وطن کے خلاف کام کرنا کتنا آسان اور ملک کی بقا کی جنگ لڑنا کتنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہمارا میڈیا خصوصاً صوبہ سرحد کے صحافی کس حد تک درست رپورٹنگ کررہے ہیں‘ کون کتنے ڈالر وصول کررہا ہے؟ فواد علی شاہ کے ان انکشافات سے ان سارے سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ اپنے ضمیر کو بیچنے والے سیکڑوں یا ہزاروں افسران‘ صحافی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو خرید کر کیا کروڑوں پاکستانیوں کو غلام بنایا جاسکتا ہے؟ مایوسی کی خوفناک اندھیری خبروں کے بیچ میں نظر آنے والی چھوٹی سی کرن کے پیچھے ایک ایسی روشنی بھی نظر آرہی ہے جو ان کالے چہروں کو پاکستان سے بھاگنے پر مجبور کردے گی۔ گزشتہ دنوں امریکی کیری لوگر بل کے خلاف ریفرنڈم میں جوق درجوق آنے والوں کے چہروں سے صاف لگ رہا تھا کہ پاکستانی عوام امریکا اور اس کے مقامی تنخواہ دار ایجنٹوں کے خلاف جدوجہد پر نہ صرف آمادہ بلکہ اس کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ فواد علی جیسے صحافیوں کو دوڑانے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عنقریب ان کی دوڑ لگنے والی ہے، عنقریب عوامی سیلاب سے ایک ایسا انقلاب رونما ہونے والا ہے جس میں وطن کے لیے کام کرنے والوں کے لیے آسانیاں اور دشمن کے تنخواہ داروں کے لیے مشکلیں ہی مشکلیں ہوں گی۔
………………………………………………………………………………………………………….
یہ مضمون جسارت میگزین کے یکم نومبر کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس کے گرافک ویو کے لیے یہاں کلک کریں۔
اس مضمون پر میرے انگریزی بلاگ کے لیے یہاں کلک کریں۔
شکریہ(ابوسعد/تلخابہ)۔

In حقوق انسانی,دہشت گردی on اکتوبر 31, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: نریندر مودی،, گجرات، انڈیا
ہندوستان کی ریاست گجرات میں اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو سوائن فلو ہوگیا ہے۔ نریندر مودی
کو سوائن فلو کی تصدیق ان کے روس کے دورے سے واپس آنے کے ایک دن بعد ہوئی ہے۔
نریندر مودی کے چیف میڈیکل افسر ڈاکٹر آر کے پٹیل نے گاندھی نگر میں اس بات کی تصدیق کی ہے۔
نریندر مودی 25 اکتوبر کو روس کے دورے پر گئے اور تین دن کے دورے کے بعد 28 اکتوبر کو ہندوستان واپس آئے تھے۔ واپس آنے کے بعد 29 اکتوبر کو انہوں نے سینے میں درد، کھانسی اور بدن میں درد کی شکایت کی۔ اس کے بعد نریندر مودی نے کہا کہ وہ ایچ ون این ون وائرس کی جانچ کرانا چاہتے۔ طبی جانچ کے بعد پتہ چلا کہ انہیں سوائن فلو ہوا ہے۔
ڈاکٹروں نے انہیں اپنے گھر میں تنہا رہنے کی صلاح دی ہے۔
ریاستی حکومت کی جانب سے جاری کيے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مودی زیر علاج ہیں اور آئندہ ہفتے کے ان
کی ساری مصروفیات منسوخ کر دی گئی ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کے ساتھ ان کے وفد کے جو لوگ روس گئے تھے ان میں سے کسی کو بھی سوائن فلو نہیں ہوا ہے۔
ہندوستان میں گزشتہ مہنیوں میں سوائن فلو کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں اور سوائن فلو سے اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سب سے زیادہ اموات ریاست مہاراشٹر میں ہوئی ہیں۔ پونے شہر میں اب تک اس بیماری سے 44 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
پوری دنیا میں سوائن فلو سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریبا تین ہزار ہے۔

In پاکستان,بین الاقوامی تعلقات on اکتوبر 28, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: ایران، پاکستان ، سیستان دھماکہ، دہشت گردی ، الزام تراشی ،
’’ایران ہمیشہ پاکستان مخالف کارروائیوں میں ملوث رہا ہے، زاہدان اور چہار باغ میں ’’را‘‘کے اڈوں سے ہمارے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اکہتر کی جنگ کے دوران بلوچستان پر قبضے کی دھمکی دی تھی۔ ایٹمی ہتھیاروں کے معاملے میں بھارت کے مشورے ہر پاکستان کو پھنسوایا تھا، سابق سفارت کار ڈاکٹر نذیر ذاکر‘‘یہ آج روزنامہ امت کراچی کے صفحہ چھ پرشائع ہوئے ایک انٹرویو کی سرخی اور ذیلی سرخیوں کے الفاظ ہیں۔ (پورا انٹرویو پڑھنے کے یہاں کلک کریں)۔
کچھ تین برس قبل ایران کے قومی تقریبات میں شرکت کرکے واپس آنے والے ایک دانشور نے ایک نجی محفل میں جب ایران کو پاکستان کے لیے انڈیا سے زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا تو یہ بات مجھ سے ہضم نہیں ہوئی لیکن مذکورہ دانشور نہ صرف یہ کہ ایران کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوئے پائے گئے تھے بلکہ وہ اپنے مضامین اور کالموں کے سبب ان کا شمار ایران کے حمایتیوں میں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں نے ان کی اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
تاہم ۱۹ستمبر کو ایران کے صوبہ سیستان میں خودکش حملے میں پاسداران انقلاب کے کئی اعلیٰ کمانڈروں سمیت ۵۰ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس المناک حادثے کے بعد ایران کے ردعمل نے مجھ تین برس قبل اس دانشور کی بات یاد دلادی۔ حیرت انگیز طورپر ایران نے برطانیہ اور امریکا پر بھی الزام لگایا۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ پاکستان کو آخر ایران میں دھماکے سے کیا فائدہ پہنچتا ہے اور اگر ایران کے پاس پاکستان کے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اندر کچھ عناصر کے اس واقعہ میں ملوث ہونے کے ثبوت تھے بھی تو اس نے بیان بازی کے بجائے حکومت پاکستان سے شیئر کیوں نہیں کیے۔ اس نے بھارت والا طرز عمل کیوں نہ اپنا یا؟ آخر بھارت اور ایران میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران ریاست پاکستان کو بحیثیت مجموعی اپنا دشمن سمجھ کر اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے؟
اس افسوس ناک واقعہ جس میں ۵۰ سے زائد ایرانیوں کی جانیں چلی گئیں کے صرف پانچ دن بعد ایران نے بھارتی طرز عمل اپناتے ہوئے پانچ پاکستانیوں کی لاشیں پاکستان بھیج دی اور دعویٰ کیا کہ یہ سیستان دھماکے میں جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ حقائق اس دعویٰ کو جھٹلاتے نظر آتے ہیں۔
ایران نے پانچ پاکستانیوں کی میتیں حوالے کردیں، تشدد کے نشانات ، تمام افراد خودکش حملے میں مرے، ایران کا دعویٰ ۔ بم دھماکہ نہیں تشدد کے نشانات ہیں۔ پاکستانی حکام۔ گرفتاری کے بعد ہلاک کیا گیا، ورثا۔ خبر کی تفصیل کے مطابق ایرانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ تمام افراد سیستان میں ہونے والے خودکش حملے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر زاہد شاہ کے مطابق میتیوں کے ابتدائی طبی معائنے سے کسی مرنے والے کے جسم پر بم دھماکے کے زخموں کے نشانات نہیں۔ مقامی پولیس انسپکٹر عابدعلی کا کہنا ہے کہ پانچوں کے جسموں پر تشدد کے نشانات ہیں ۔ ۲ لاشوں کے کانوں سے خون نکل رہا تھا۔ ورثا نے الزام عائد کیا ہے کہ تمام افراد گرفتار کرکے ہلاک کیے گئے۔( پوری خبر کے لیے یہاں کلک کریں)
ادھر ایران کے پاسداران انقلاب نے اپنی حکومت سے درخواست کی کہ سیستان بلوچستان میں خودکش حملے میں ملوث افرادکو پاکستان سے طلب کیاجائے ورنہ انہیں اجازت دی جائے کہ وہ خود ان افراد سے نمٹ لیں۔ایرانی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے پاسدارن انقلاب کے زمینی لشکر کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد پاکپور نے کہا ہے کہ ایران کی وزارت خارجہ پاکستان سے مذاکرات کر کے دہشت گردوں کی گرفتاری اور حوالگی کا مطالبہ کرے۔یا حکام انہیں اجازت دیں کہ پاسداران انقلاب خود ان دہشت گردوں سے نمٹ لے۔
حیر ت انگیز طور پر امریکی پالیسیوں کے سب سے بڑے ناقد ایران کے پاسداران انقلاب کا یہ طرزعمل بالکل بے لگام امریکا کی طرح ہے۔ یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ پاسداران انقلاب کو پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی اجازت دی گئی ہے ہا نہیں البتہ
اس کے علاوہ فرقہ وارانہ کارروائیوں میں ملوث سپاہ محمد کے کارکن اور سزا یافتہ دہشت گرد ارشد موٹا کی ایران روپوشی کا بھی انکشاف ہوا۔( خبر کے لیے یہاں کلک کریں)
یہ ساری بری خبریں ہیں۔ چمن دھماکے میں ایران کا بڑا نقصان ہوا ہے لیکن اس واقعہ سے فائدہ کس کو ہوا ہے یہ قابل غور وقابل تحقیق موضوع ہے۔ ایران کو چوٹ پہنچی ہے لیکن وہ بھول رہا ہے کہ پاکستان اس کا ہمسایہ ہی نہیں اس کا برادر اسلامی ملک بھی ہے۔ اگر کبھی ایران پر حملہ ہوتا ہے اور پاکستانی حکمران اس کا ساتھ دیں یا نہ دیں پاکستانی عوام فرقے اور مسلک سے بالاتر ہوکر اپنے ایرانی بھائیوں کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ ایران کا سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کرنا بہت بڑا احسان ہے لیکن اس وقت حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کو اپنی صفحوں میں سے ایسے عناصر کو باہر نکالنا ہوگا جو ان برادر ممالک کے تعلقات کو کشیدہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ایران یاد رکھے کہ امریکا اور اس کے حواری تمام مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ یہ سنی عراق او ر پاکستان ہے یا شیعہ ایران۔ پھر ہم کیوں دشمنوں کو موقع دیں؟ ایران کو پاکستان کے دوست ہونے کا ثبوت دینا ہوگا اور عالمی دہشت گردوں ، امریکا اور بھارت والا طرز عمل ترک کرنا ہوگا۔

In پاکستان on اکتوبر 24, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: آئینہ تصویر

بشکریہ : الیاس بن ذکریا صدیقی اور سیلمان کھوکھر صاحب

In پاکستان on اکتوبر 24, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: بھائی لوگ، جمال دین ، روزنامہ امت

بشکریہ روزنامہ امت

In پاکستان on اکتوبر 22, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: آج کل، ڈیلی ٹائمز، اردو پریس، قادیانی، امریکی دہشت گردی، سیاست دان، مشرف میراثی
اپنے پاک ٹی ہاوس والے دیسی انگریزوں کو اردو میڈیا سے سخت شکایت ہے۔ وہ آئے دن اردو میڈیا کو موضوع بحث بناد یتے ہیں۔ اردو پریس کی بددیانتی اور بے ایمانی کے بارے میں لکھے گئے ایک کالم کے ذیل میں تبصرہ کرتے ہوئے اسی گروہ کے ایک صاحب نے اس شاندار کام پر یاسر لطیف ہمدانی کو سراہتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ لاہور سے نکلنے والے انگریزی ہفت روزہ نے تو اس کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا ہے۔ ان کی اطلاع کم از کم ہمارے لیے اس لیے خبر نہیں ہے کیوں کہ ہم ایک عرصے سے خالد احمد صاحب کا ’فرائیڈ ے ٹائمز‘ میں اردو پریس کے بارے میں چھپے اس کالم کو ’شوق‘ سے پڑھتے ہیں۔ لیکن اس کالم میں کیا ہوتا ہے؟ اردو اخبارات کے ادارتی صفحات پر قادیانیوں اور امریکیوں سے متعلق ’’منفی‘‘ خبروں اور رائے کا تجزیہ۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے لیکن جہاں تک ہم نے اس کالم کو پڑھا ہے اس کا مقصد یہی ہے۔ یہی کام کچھ ادارے بھی کرتے ہیں جو پیسے دے کر اردو پریس میں منفی خبروں کا انگریزی میں ترجمہ کرکے امریکی عوام کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ جس کو دہشت گردی کی جنگ کہنا غلط نہیں ہوگا ‘ دراصل ناگزیر ہے‘ اس کے لیے بیشک آپ کا دیوالیہ نکل جائے لیکن ’اسلامی‘ دیو کو بند کیے بغیر چارہ بھی تو نہیں۔
خیر یہ ہم کہاں پہنچ گئے۔ بات اردو میڈیا سے گلے کی ہورہی تھی۔ اور یہ شکایت ’فرائیڈے ٹائمز‘ یعنی ’ڈیلی ٹائمز‘ کے قبیلے والوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اور اس گروپ نے خیر سے اپنا اردو اخبار ’آج کل‘ بھی نکالنا شروع کردیا ہے جو باقی اردو پریس کی طرح نہیں ہے۔ اس لیے ہم اس میں شائع ایک تصویر شیئر کریں گے۔ یہ تصویر جس میں مظاہرین کا جمع غفیر نظر آرہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تصویر صفحہ اول پر نمایاں چھپی ہے۔

جب آپ نے تصویر دیکھ لی ہے تو آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ مظاہرہ اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی پر دہشت گرد حملوں کے خلاف کیا جارہا ہے۔ اس حملے کے خلاف اسلام آباد بھر میں مظاہرے ہوئے ، ظاہر سی بات ہے کہ اس کی تصویرں نہ تو ’آج کل‘ نے چھاپی اور نہ ہی اس کے انگریزی اخبار ’ڈیلی ٹائمز‘ نے اس کو جگہ دی۔ یونیورسٹی پر دہشت گرد حملوں سے متعلق لاہور کے ’’دی نیشن‘‘ کی یہ خبر اس واقعہ کے پس پردہ عناصر تک پہنچنے میں مدد دے گی۔
خبر کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ دارلاحکومت کے مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا کی ایک بڑی تعداد نے دہشت گردوں کی طرف سے دو خودکش دھماکوں میں انٹرنیشل اسلامک یونیورسٹی کے ان کے ساتھیوں کے ظالمانہ قتل کے خلاف مظاہرے کیے۔
شریعہ اور لا فیکلٹی کے طالب علم حسن جاوید نے رحمن ملک کے طرف سے اسپیشل ٹاسک فورس کے خیال کو گمراہ کن قرار دے کر اس کو خودکش حملوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس نے کہا جب قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہیں تو اسے میں طلبا اور تعلیمی اداروں کو اس میں گھسیٹنے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔ واضح رہے کہ طلبا نے رحمن ملک کو وہاں سے بھاگنے پر بھی مجبور کیا تھا۔ طلبا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو دہشت گردی کی اس امریکی جنگ سے الگ کردے۔ میری رائے میں اس واقعہ کا بنیفشری امریکا ہی ہے اور وہی یہ حملے کرسکتا ہے۔ جی وہی امریکا جو روات کے مقام پر قائم ایک خفیہ ٹریننگ سنیٹر میں دو سو ریٹائرڈ پاکستانی فوجی افسروں کو ٹریننگ دے رہا ہے اور پولیس کی طرف سے ان ریٹائرڈ فوجیوں کی تفصیل امریکا نے دینے سے انکار کردیا ہے۔ جی وہی امریکا جس کو ہماری جمہوری حکومت نے سہالہ کالج کی حدود میں ٹرننگ سینٹر کے نام پر اسلحہ ذخیرہ کرنے کی جگہ فراہم کی ہے ( واضح رہے کہ مشرف میراثی کی فوجی حکومت ہی اصل ذمہ دار ہے لیکن ہماری توقع جمہوری حکومت سے یہ نہیں تھی کہ وہ جنرل مشرف کی حکومت کی ایکسٹنش ہوگی) اور جب اس کی شکایت کالج کے پرنسیپل ناصر خان درانی نے آئی جی پنجاب کو خط لکھ کر کی تو الٹا رحمن ملک نے ان پر برس کر کہا کہ معصوم امریکی ایسا کہاں کرسکتے ہیں؟ جی ہاں وہی رحمن ملک جن کو اسلام آباد کے طلبا نے بھگا دیا لیکن اس کی خبر ہمدانی کے قبیل کے انگریزی اخبار نے لگائی اور نہ ہی اس کے اردو ورژن یعنی آج کل نے۔

In پاکستان on اکتوبر 21, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: اردو بلاگز، ٹیک کی ڈوری
برادر راشد کامران کی طرف سے برادر ابوشامل کو آئی ٹیگ کی ڈوری انہوں نے ہماری طرف بڑھا دی ہے ۔ یہ پانچ مختصر سوالات ہمیں اپنے تجزیہ کا موقع دیتے نظر آتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے ہماری زندگی پر کیا اثر ڈالا ہے؟ اس سوال کا جواب ان پانچ سوالوں کے آگے درج جوابوں میں جو قارئین تلخابہ کے یہاں دیے جارہے ہیں۔ آپ ان سوالوں کے کیا جواب دیں گے یا آپ کے ذہن میں کیا ایسے مزید سوال جن کے جواب آنے چاہیے۔ اس سے آگاہ کیجیے۔ شکریہ ۔
اب سوال وجواب؛
انٹرنیٹ پر آپ روزانہ کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟
روزانہ تقریبا چودہ گھنٹے گزارتا ہوں جس میں آفس کا کام بھی شامل ہے۔ لیکن بلاگ کے لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ تقریبا روز ۳ گھنٹے نکالتا ہوں۔
انٹرنیٹ آپ کے رہن سہن میں کیا تبدیلی لایا ہے؟
مختصر اگر کہوں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں۔ آپنے آپ کو نظریاتی کہتا ہوں لیکن یہاں آنے کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ مکالمہ کی افادیت سے آگاہ ہوا ہوں ۔ میں نے بہت سارے لوگوں کو اپنا ہم نوا بنادیا ہے اور میری سوچ اور فکر میں جو خامیاں تھیں یا جو منفی پہلو میری شخصیت میں تھے وہ ان دوستوں کے سبب ختم ہوگئے۔ میں اپنے آپ کو اسلام پسند کہتا ہوں لیکن میری نیٹ یا بلاگ سے شروع ہوئی دوستی ان لوگوں کے ساتھ بھی ہیں جن کو آپ ان درجوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ اسلام پسند، سیاسی اسلام کے حامی ، مذہبی رجحان رکھنے والے ، وہ جو اپنے آپ کو ماڈریٹس کہتے ہیں ، وہ جو لبرلز ہیں ، سوشلسٹ نظریات کے حامل ‘ مذہب مخالف اور دہریے وغیرہ۔ کئی دہریوں سے میری بہت گہری دوستی ہے۔
کیا انٹرنیٹ نے آپ کی سوشل یا فیملی لائف کو متاثر کیا ہے اور کس طرح؟
بہت زیادہ۔ اتفاق کی بات ہے جب بیچلر تھا تب انٹرنیٹ کا استعمال اتنا نہیں تھا۔ لیکن شادی کے بعد بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ البتہ میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح توازن پیدا کروں۔ اس کے لیے اب میں اپنی سوشل لائف کی قربانی دے رہا ہوں۔ عرصہ ہوا ہے کہ ہوٹلوں پر رات گئے تک بیٹھنا چھوڑ دیا ہے۔ دوستوں کے ہاں آنا جانا کم ہوگیا۔ اپنی پیاری جامعہ گئے ہوئے بھی عرصہ ہوگیا۔ اتوار کے دن کہیں نہیں جاتا مگر بیگم اور سعد خان صاحب کے ساتھ ان کو گھمانے ۔ اتوار کے روز کمپیوٹر اور انٹر نیٹ سے اتنا دور رہتا ہوں کہ جیسے یہ گناہ کبیرہ کی فہرست میں سب سے اوپر ہو۔
اس لت سے جان چھڑانے کی کبھی کوشش کی اور کیسے؟
نہیں کبھی نہیں کی۔ انٹرنیٹ پر میں زیادہ تر بلاگنگ کرتا ہوں یا پھر میگزین کے آرٹیکلز کے لیے ریسرچ ۔ فیس بک کا اکاونٹ بھی بلاگ کو مشتہر کرنے کے لیے بنایا ہے۔ مافیا گیم کیا ہوتے ہیں، چیٹ کیا چیز ہے یہ جاننے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ بلاگنگ میرا مشغلہ بھی اور ترویج خیالات کا ذریعہ بھی ہے اس لیے اس کو میں لت کہتاہوں نہ ہی اس سے جان چھڑانے کی کوشش کبھی کی ۔
کیا انٹرنیٹ آپ کی آؤٹ ڈور کھیلوں میں رکاوٹ بن چکا ہے؟
گیم کھیلنا بہت پہلے چھوڑ دیا تھا۔ سال میں ایک مہینہ آبائی گائوں میں گزرتا ہے۔ ٹی وی خبریں دن میں ایک مرتبہ ۔ اس کے علاوہ نہ اخبار اور نہ ہی نیٹ۔ گھر ، دوست اور شام کو کرکٹ خوب کرکٹ کیوں کہ یہ مہینہ کرکٹ کھیلنے کے لیے مختص ہے۔ اب سولہ نومبر سے ایک مہنے یعنی پندرہ دسمبر تک گیم ہی گیم۔
اگر میں ٹیک کی ڈوری آگے نہ بڑھاوں تو اس کی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ میں ان ہی اردو بلاگر دوستوں کو جانتا ہوں جن سے ہوتے ہوئے یہ ڈوری مجھ تک پہنچی ہے۔

In پاکستان on اکتوبر 19, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: بندر، کراچی، پشاور، موبائل
پشاور سے آیا ہوا ہی نشانہ کیوں بنا؟ کیوں کہ بندر نے بھی اسے پہچان لیا۔
موبائل چھیننے کی وارداتیں یوں تو عاہم ہیں لیکن اتوار کی شام بندر نے بھی موبائل فون چھین یا۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ کراچی کے سفاری پارک میں پشاور سے تفریح کے لیے آئے ہوئے خاندان کے ایک فرد نے بندر کے پنجرے کے قریب پہنچ کر تصویر کھینچنے کی کوشش کی۔ اسی دوران بندر نے ہاتھ ڈال کر اس شخص سے موبائل چھین لیا جس کے بعد پنجرے کے قریب سیکڑوں افراد جمع ہوگئے۔ تقریبا نصف گھنٹنے کی کوشش کے باوجود بندر سے موبائل فون حاصل نہ کیا جاسکا۔ بعد ازاں سفاری پارک کے عملے پہنجرے میں پہنچا تاہم بندر نے ان کی بھی دوڑیں لگوادیں ۔ کافی جدوجہد کے بعد بندر نے موبائل زمین پر پھینک دیا جو ناقابل استعمال ہوگیا۔
رونامہ جسارت میں چھپنے والی مذکورہ خبر کی اطلاع جب خان لالا کو دے کر ان کی رائے طلب کی گئی تو انہوں نے کہا کہ حکمران اور عوام ادراک رکھتے ہو یا نہ رکھتے ہو بندر سمجھ دار ہوگئے ہیں اور ان کو پتا چل گیا ہے کہ اب پختون بھائیوں پر برا وقت آچکا ہے اور ان کو ہر طرف سے مارا پیٹا جارہا ہے اگر ایسے میں میں نے ان سے موبائل چھین لیا تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہوگی اور ویسے بھی اس حرکت پر عالمی پولیس مین امریکا مجھے ’سپورٹ‘ کرے گا لہٰذا ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین تلخابہ کو گلہ ہوتا ہے کہ یہ سیاسی بلاگ ہونے کے باعث بور ہوتا ہے۔ اگر چہ مجھے طنز کرنا آتا ہے اور نہ ہی مذاح کا کوئی خاص سنس ہے تاہم میں نے آپ کو گدگدانے کی کوشش کی ہے گو کہ میرے پاس آپ کو دینے کے ’’اومور‘‘ کی آئیس کریم نہیں ہے۔

In پاکستان on اکتوبر 19, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: امریکا ، بھارت ، پاکستان ، آزادی صحافت ، ہیلری کنٹن ، چدم برم ، ڈیلی میل نیوز، دی نیوز، ڈاکٹر شیریں مزاری ، حسین

ہم یہی سنتے چلے آرہے ہیں کہ امریکا نہ صرف یہ کہ جمہوری اقدار پر کامل یقین رکھتا ہے بلکہ آزادی¿ اظہارِ رائے اور آزادی صحافت کے لیے اس کی محبت بھی بے مثال ہے۔ امریکی بچے کو پہلا سبق ہی جمہوریت‘ دوسروں کے لیے محبت‘ امن‘ بھائی چارہ‘ انسانیت کی فلاح‘ اسلحہ اور جنگ سے نفرت‘ دوسروں کے لیے احترام اور اظہارِ رائے کی آزادی کا دیا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سیکھو نالائقو کچھ توسیکھو امریکا سے‘ اگر دنیا میں کچھ ترقی کرنا چاہتے ہو تو۔ اچھا بننا ہے یا اپنے آپ کو دنیا میں مہذب کہلوانا ہے تو امریکی معاشرے کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنا ہوںگی۔
”مدرسہ¿ تہذیب“ کے ان اساتذہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی تہذیب کے ’پریکٹیکل‘کو دیکھ کر آپ کے مرتب کردہ نصاب میں بیان کردہ تھیوری پرکوئی بھی شاگرد ِ مکتب یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اس بدتہذیبی‘ معاف کیجیے گا امریکی تہذیب کی تفصیل بیان کرنا سورج کی روشنی میں دیا جلانے کے مترادف ہوگا‘ تاہم آزادی¿ اظہارِ رائے اور آزادی¿ صحافت کے بارے میں امریکی طرزعمل کے چند شواہد امریکی سحر میں مبتلا ان کے پاکستانی ’وکیلوں‘کے گوش گزار کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ان کی وکالت سے امریکا کا مقدمہ تو نہیں جیتا جاسکتا البتہ اس سے ان کی اپنی اخلاقی پوزیشن کافی خراب ہوجاتی ہے۔
آزادی¿ صحافت کے حوالے سے معروف نام اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے ادارے ”رپورٹرز وِد آﺅٹ بارڈر“ کے2008ءکے پریس فریڈم کے حوالے سے 173ممالک کی فہرست میں 38 ویں نمبر پر آنے والے امریکا نے اسی فہرست میں 152نمبر پر آنے والے ملک یعنی کافی خراب ’پوزیشن‘ والے پاکستان کے معروف اور اہم انگریزی روزنامہ ”دی نیوز“ کو براہِ راست خط لکھ کر اخبار پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ وہ امریکی پالیسیوں کی ناقد کالم نگار ڈاکٹر شیریں مزاری کا گزشتہ ایک دہائی سے جاری مستقل ہفتہ وار کالم بند کردے۔ امریکا کو اپنی فہرست میں38 واں نمبر دینے والے ’رپورٹرز وِد آﺅٹ بارڈر‘ کا اس واقعے پر مہینے سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی ردعمل ظاہر نہ کرنا معنی خیز ہی نہیں بلکہ اس ادارے کی معتبریت پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ امریکی سفیر کا یہ انوکھا عمل عالمی قوانین اور سفارتی آداب کے خلاف ہی نہیں بلکہ آزادی¿ اظہار رائے پر قدغن لگانے کے مترادف بھی ہے۔ کیسے؟ اس سوال کا جواب واقعے کی تفصیل کے ساتھ آنے والی سطور میں زیربحث لایا جائے گا‘ تاہم اس سے قبل ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت“کی طرف سے اسی طرح کے طرزعمل کی اطلاع بھی آپ تک پہنچنا ضروری ہے۔
’خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے‘ کے مصداق بھارت نے بھی ایک پاکستانی اخبار کی ”خبر“ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کرکے بیک وقت اسلام آباد اور بیجنگ سے طلوع ہونے والے آن لائن اخبار ’ڈیلی میل نیوز‘ کو بند کرانے کے لیے دباﺅ ڈالا جائے گا۔ اس اخبار نے ایسا کیا کیا ہے جس کی وجہ سے اس کو لشکر طیبہ کی صف میں کھڑا ہونا پڑا؟ اس کی تفصیل بھی بعد میں‘ اس سے قبل امریکی سفیر کے خط بنام ’دی نیوز‘ کے بارے میں کچھ جانتے ہیں‘ لیکن اس سے پہلے اس سال آزادی¿ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کی خبر جس کو آپ امریکی بھاشن بھی کہہ سکتے ہیں‘ ذیل میں بزبانِ نیوز ایجنسی ’ثنا‘ درج کی جارہی ہے۔
……..٭٭٭……..
خبر کچھ یوں ہے:
”صحافت کے عالمی دن کے موقع پر امریکی وزارت ِخارجہ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو ان کی حکومتوں نے بنیادی حقوق سے محروم کیے رکھا۔ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنے حقوقِ انسانی کے آدرشوں پر پورا اترنے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ حقوق انسانی کا فروغ امریکی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے۔ رپورٹ میںکئی ممالک کے اندر غیر حکومتی تنظیموں اور میڈیا کے خلاف جابرانہ قوانین کو پریشان کن بتایا گیا ہے۔ رپورٹ میں اس سلسلے میں ویت نام، چین، روس، کرغزستان اور قازقستان کا نام لیا گیا ہے۔ وزارت خارجہ کے مطابق افریقہ میں کئی ملک ایسے ہیں جہاں انسانی حقوق اور جمہوری قوتوں کو شدید مسائل کا سامنا ہے، مثال کے طور پر زمبابوے، گنی اور موریطانیہ۔ رپورٹ میں آرمینیا اور روس میں انتخابات پر اور مصر، ایران‘ لیبیا اور شام میں سماجی کارکنوں کی مسلسل گرفتاری پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دراصل سیاسی نظاموں کے اندر پائی جانے والی وسیع تر خامیوں کی نشان دہی کرتی ہیں اور اکثر ان ملکوں میں ہوتی ہیں جہاں ایسے طاقت ور حکمران ہیں جو احتساب سے بالاتر ہیں۔“
امریکی وزیر خارجہ کے بیان کے آخر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سبب احتساب سے بالاتر طاقت ور حکمرانوں کو قرار دیا گیا ہے لیکن ان کو ادراک نہیں کہ خود امریکا طاقت ور ہونے کی وجہ سے کس طرح اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر سمجھ کر کسی بھی قانون یا اخلاقی ضابطے کو روند کر بداخلاقی‘ بدتمیزی اور بدتہذیبی کی مثالیں رقم کررہا ہے۔
……..٭٭٭……..
قصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں امریکی سفیر این۔ ڈبلیو۔پیٹرسن نے جنگ گروپ کے مالکان کو ایک خط لکھا ہے جس میں شکایت کی گئی ہے کہ اس کے انگریزی اخبار ”دی نیوز انٹرنیشنل“ کی کالم نگار اور امریکی پالیسیوں کی سخت ترین ناقد ڈاکٹر شیریں مزاری کے کالموں کی وجہ سے ایک امریکی شہری (جس کا نام نہیں بتایا گیا)کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے۔ واضح رہے کہ یہ خط برائے اشاعت نہیں تھا‘ جبکہ سفارتی آداب کے مطابق کوئی سفیر کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے براہِ راست خط وکتابت کرکے اس پر کسی قسم کا دباﺅ ڈال سکتا ہے نہ ہی کچھ کرنے یا نہ کرنے پر مجبور کرسکتا ہے‘ البتہ اس کے ملک سے متعلق چھپنے والے کسی مسئلے کی وضاحت مذکورہ اخبار میں خط کی اشاعت کی صورت میں کی جاسکتی ہے۔ لیکن امریکی سفیر نے یہ سفارتی رویہ نہیں اپنایا بلکہ سفارتی آداب سے ناآشنا‘ اس سفیر نے براہِ راست اخبار کو خط لکھا جس پر اخبار نے ڈاکٹر شیریں مزاری سے وضاحت طلب کرلی۔ اسی اثناءڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک اور کالم اخبارکی 3 ستمبر کی اشاعت کے لیے لکھ بھیجا جس کو بوجوہ شائع نہیں کیا گیا‘ یہی کالم اسی دن بعض دیگر ویب سائٹس پر جاری کیا گیا‘ تاہم ”دی نیوز“ نے بغیر کسی ایڈیٹنگ یعنی کاٹ چھانٹ کے اس کالم کو اگلے دن کی اشاعت میں جگہ دی۔ واضح رہے کہ دی نیوز خصوصاً اس کا انوسٹی گیشن سیل امریکی سفارت خانے کی پراسرار اور غیر سفارتی سرگرمیوں کی رپورٹنگ بغیر کوئی دباﺅ قبول کیے کرتا رہا ہے۔ 3 ستمبر 2009ءکو ہی شیریں مزاری نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں کہا کہ اگر ان کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار امریکا اور رحمن (ملک) ہوں گے۔ اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی سفارت خانہ ان کے کالم بند کرانے کے لیے اخبار پر دباﺅ ڈال رہا ہے اور اس سلسلے میں ان کا آج (یعنی 3ستمبر)کا کالم روک لیا گیا ہے۔ اس کے بعد شیریں مزاری نے مذکورہ اخبار سے اپنا ایک دہائی پر محیط تعلق ختم کرکے لاہور سے چھپنے والے ’وقت گروپ‘ کے انگریزی اخبار ”دی نیشن“ کو بحیثیت ایڈیٹر جوائن کیا۔
7ستمبر 2009ءکو دی نیوز کی ایڈیٹوریل ٹیم کی طرف سے ایک وضاحت جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ یہ خط پرائیویٹ تھا اور نہ ہی جنگ گروپ نے کسی قسم کا دباﺅ قبول کیا ہے۔ اس کا شیریں مزاری کی جانب سے جواب بھی دیا گیا جس میں جہاں کئی اور باتیں شامل تھیں وہیں انہوں نے اخبار سے دریافت کیا کہ انہوں نے میرا کالم روکنے اور مجھ سے وضاحت اور ثبوت طلب کرنے کے بجائے سفیر سے کیوں نہ پوچھا کہ اس کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ میرے کالم کی وجہ سے امریکی شہری کی جان خطرے میں پڑگئی ہے۔ اخبار اور کالم نگار کے درمیان تعلق غلط فہمی کی وجہ سے ٹوٹ چکا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس ”ڈاکٹر شیریں مزاری“اور ”دی نیوز“دونوں کی کوششوں سے ایک پاکستان اور اسلام مخالف امریکی جنرل کی اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں بطور ڈیفنس اتاشی تقرری رک پائی تھی۔
ڈاکٹرشیریں مزاری کے کالموں کو روکنے کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی۔ 2006ءمیں بھی امریکی سفیر نے حکومت ِپاکستان پر دباﺅ ڈالا تھا کہ وہ شیریں مزاری کو کالم نہ لکھنے پر مجبور کریں۔ جب تک ریاض کھوکھر سیکریٹری داخلہ تھے ‘ انہوں نے اس دباﺅ کو قبول کرنے سے انکار کردیا‘ لیکن نئی حکومت آجانے کے فوراً بعد امریکا میں پاکستان کے موجودہ سفیر حسین حقانی نے جمہوری حکومت سے پہلا کام ڈاکٹر شیریں مزاری کی انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر کے عہدے سے برطرفی کا کروایا۔
دی نیوز اور ڈاکٹر شیریں مزاری کی وضاحتوں کی تفصیل لمبی اور دلچسپ ہے‘ لیکن ہم یہاں صرف یہ عرض کریں گے کہ اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ امریکی سفیر نے معاصر اخبار کو خط لکھا۔ گو کہ اخبار نے دباﺅ قبول نہیں کیا لیکن اس نے کالم نگار اور اخبار کے دس سالہ تعلق کو ختم کردیا۔ شیریں مزاری کی آوازآج ایک اور اخبار کے ذریعے پہنچ رہی ہے (اگرچہ وہاں امریکی فارن پالیسی میگزین میں خبر شائع ہونے پر ڈاکٹر مزاری کو امریکی سفیر‘ معاف کیجیے امریکا میں بظاہر پاکستانی سفیر حسین حقانی کی طرف سے ہرجانے کا نوٹس مل گیا) لیکن یہ ثابت ہوچکا ہے کہ امریکی سفیر نے سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی‘ اور آزادی¿ صحافت کا دم بھرنے والے امریکا کے منہ پر کالک مل دی۔ اگرچہ انسانیت دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے امریکا کا چہرہ پہلے ہی کافی کالا ہوچکا ہے۔
…………٭٭٭…………
درحقیقت دہشت گردوں کا سرخیل امریکا ہی وہ ملک ہے جس نے عسکری اور معاشی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ صحافتی دہشت گردی کی بنیاد رکھی۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر دوسروں سے ”الزامات“ کے ثبوت مانگنے والی امریکی سفیر اپنے ملک کے میڈیا سے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی خبروں کا ثبوت مانگ لیتی‘ جن سے ایک عراقی شہری کی جان خطرے میں نہیں پڑی بلکہ میڈیا کی غلط رپورٹس چھپنے کے سبب شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں 1339,771 عراقی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ثبوت مانگنے ہیں تو اپنے ملک کے میڈیا سے مانگےں‘ جو بغیر کسی ثبوت کے روز ہی پاکستان کے خلاف کوئی زہر آلود خبر چھاپ دیتا ہے۔ امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام اب تک طالبان کے ہاتھ میں ہونا چاہیے تھا‘ اور ایک آدھ ایٹم بم اسرائیل پر گرجانا چاہیے تھا۔ یہ ہے صحافتی دہشت گردی کی بنیاد ڈالنے والے عالمی دہشت گرد کا رویہ۔ میڈیا صرف امریکا کا ہی دہشت گرد نہیں بلکہ ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت“ بھارت کا بھی ہے‘ جس کی دکان ہی پاکستان مخالف خبروں پر چلتی ہے۔ لیکن بھارت کو نہ تو خود اپنی ریاستی دہشت گردی نظر آتی ہے اور نہ ہی اپنے میڈیا کی صحافتی دہشت گردی۔ البتہ پاکستانی میڈیا میں بھارت سے متعلق چھپنے والی ایک خبر نے ایسا سونامی بپا کردیا ہے کہ بھارت نے تمام تر ریاستی، ملکی، بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکی روش اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
……..٭٭٭……..
خبر کچھ یوں ہے:
انڈیا اُس وقت جلنے بھننے لگا جب ایک پاکستانی اخبار نے خبر دی کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر وہاں ’وومن یونٹ‘ یعنی خواتین دستے کے نام پر طوائفوںکو بھیج رہا ہے۔ اس خبر پر بھارت اس قدر سیخ پا ہوگیا ہے کہ ’مڈ ڈے‘ کے رپورٹر انشومان گی دت کے مطابق اس نے دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کے سامنے غیر معمولی احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ It was Chidambaram’s order ( یہ چدم برم کا حکم تھا) کے نام سے اس نیوز اسٹوری میں بتایا گیا ہے کہ ”پاکستانی میڈیا کی طرف سے حال ہی میں تعینات کیے جانے والے بارڈر سیکورٹی فورسز (بی ایس ایف) کے خواتین دستے کو طوائف کہنے کا بھارتی حکومت نے نوٹس لے لیا ہے۔ وزارت ِ امورخارجہ اس سلسلے میں پڑوسی ملک کے اخبار میںشائع اس مضمون کے بارے میں حکومت ِپاکستان کے سامنے اپنی ناراضی رجسٹر کروانے کی پلاننگ کررہی ہے۔“
بھارتی اخبار مزید لکھتا ہے کہ: ”این ایچ اے نے یہ فیصلہ پاکستانی میڈیا کی طرف سے اس خبر کی اشاعت کے بعد کیا جس میں کہا گیا کہ بھارتی سیکورٹی فورسز نے اپنے مرد فوجیوں کی فطری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تقریباً دو سو طوائفوں کو بھرتی کیا ہے۔“
اخبار نے یہ بھی اطلاع دی کہ وزارت ِداخلہ کے ایک افسر نے تصدیق کی ہے کہ شکایت رجسٹر کروانے کا حکم براہِ راست یونین منسٹر پی چدم برم کے دفتر سے آیا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے 60 سال پر محیط خراب تعلقات میں ایسا پہلی دفعہ ہوگا جب نئی دلی ایک پاکستانی اخبار کے خلاف شکایت اسلام آباد سے کرے گا۔
یہ خبر دراصل کوئی ٹیبل اسٹوری نہیں تھی بلکہ 11ستمبر 2009ءکو ڈیلی میل نیوز کی نیو دہلی میں نمائندہ¿ خصوصی کرسٹینا پالمر نے یہ خبر باخبر ذرائع کے حوالے سے دی تھی۔ اس کی بنیاد بارڈر سیکورٹی فورسز کے انسپکٹر جنرل ہمت سنگھ کا ایک بیان بھی تھا۔ اس سلسلے میں جب کرسٹینا پالمر نے نئی دلی کے سینئر دفاعی تجزیہ کار روہت شرما سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ”یہ ایک شاندار پیش رفت ہے‘ کیوں کہ یہ وادی میں تعینات سپاہیوں کی طبی اور ذہنی صحت کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی اور اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔“
دراصل جب وادی میں تعینات بھارتی فوجیوں میں خودکشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا تو بھارت نے ایک اعلیٰ فوجی وفد روس بھیجا تاکہ معلوم کرسکے کہ روس نے اپنے ہاں اس مسئلے پر کیسے قابو پایا تھا۔ کرسٹینا پالمر کے ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں بھارتی حکومت کے بعض ڈیپارٹمنٹس کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ مختلف شہروں میں لائسنس یافتہ طوائف خانوں سے رابطہ قائم کرکے طوائفوں کی طرف سے فوج میں بھرتی ہونے کے میلان کو معلوم کریں۔
……..٭٭٭……..
بھارت کی طرف سے اس غیر معمولی ردعمل کی خبر سن کر ’ڈیلی میل نیوز‘کے ایڈیٹر مخدوم بابر نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ ”حیران کن طور پر بھارت کے یونین منسٹر فار ہوم مسٹر پی چدم برم نے ڈیلی میل کو سرکاری شکایت درج کرانے کی دھمکی دی ہے۔ اس پیش رفت نے پوری بین الاقومی میڈیا کمیونٹی کو سکتے میں ڈالا ہے‘ کیوں کہ پہلی دفعہ کسی ملک کے بڑے وزیر نے ایک دوسرے ملک کے آزاد اخبار کے خلاف شکایت درج کرانے کی انوکھی روایت قائم کردی ہے“۔ آگے لکھتے ہیں:”ایم ایچ اے کی طرف سے اس اقدام نے نام نہاد سیکولر بھارت کے چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی میڈیا آرگنائزیشن ’آئی بی این‘نیو دلی نے پاکستان کے واشنگٹن میں سفیر کی طرف سے آئی ایس آئی چیف کو لکھے گئے ایک بہت ہی کلاسیفائیڈ خط کو شائع کیا لیکن پاکستانی حکومت نے اس پربھارتی حکومت سے کسی قسم کی سرکاری شکایت نہیں کی تھی۔ یہ ایک کلاسیفائیڈ انفارمیشن تھی جس کو نہیں چھپنا چاہیے تھا‘تاہم ڈیلی میل نیوز نے جو رپورٹ شائع کی ہے وہ ایک تحقیقاتی رپورٹ ہے‘ جس کے ذرائع اور شواہد موجود ہیں۔
…………٭٭٭……..
مخدوم بابر صحیح کہہ رہے ہیں‘ اس اقدام سے نام نہاد بھارتی سیکولرازم کا اصلی چہرہ بے نقاب ہوتا ہے۔ جمہوریت اور آزادی¿ صحافت کی مالا جپنے والا امریکا ہو یا سیکولرازم کی دعویدار نام نہاد بڑی جمہوریت‘ دونوں کے میڈیا نے ان ممالک کی جانب سے ہونے والی دہشت گردی کو صحافت گردی میں تبدیل کرکے پاکستان اور اسلامی دنیا کے خلاف پروپیگنڈے کو معمول بنالیا ہے۔ خصوصاً جس دن بھارتی میڈیا میں پاکستان کے خلاف کوئی خبر نہیں چلتی‘ اُس دن اُن کے ناظرین کی تعداد حیرت انگیز طور پر گر جاتی ہے۔ لیکن جیسا منہ‘ ویسی بات۔ امریکا اور بھارت جن کا میڈیا پروپیگنڈا مشینری میں تبدیل ہوچکا ہے‘ پاکستانی میڈیا کی طرف سے ایک سچی رپورٹ کو پروپیگنڈے کا نام دے کر برداشت نہیں کرتے۔ اگر ایسی کوئی رپورٹ نشر ہوجاتی ہے تو عالمی دہشت گردی کے سرخیل‘ پاکستانی میڈیا پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ لیکن کیا پاکستانی میڈیا ان حملوں کی وجہ سے امریکی اور بھارتی کرتوتوں کے خلاف کچھ لکھنا یا شائع کرنا بند کردے گا؟ بظاہر ایسا نہیں لگتا۔ پاکستانی میڈیا اب میچور ہوچکا ہے‘ اور اگرچہ تاحال اس کو پوری طرح آزاد میڈیا نہیں کہا جاسکتا‘ لیکن اس نے کسی نہ کسی حد تک دباﺅ مسترد کرنا شروع کردیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا کو 173ممالک میں 38 ویں نمبر پر جگہ دینے والا ”رپورٹرز وِد بارڈر“ اور آزادی¿ صحافت کے عَلم بردار دیگر ادارے امریکی اور بھارتی اقدام کا نوٹس لیں گے؟
(بشکریہ جسارت میگزین ‘ روزنامہ جسارت کراچی)