Archive for اکتوبر 5th, 2009

Articles

فوجیوں کا بزرگوں پر تشدد؛ میڈیا اور سیاست دان خاموش کیوں ہیں؟

In پاکستان on اکتوبر 5, 2009 منجانب ابو سعد

چند  دن قبل فیس بک اور اس کے بعد یوٹیوب کے ذریعے سوات میں باریش بزرگوں پر پاک 46479867_kick226فوج کے’’ جوانوں‘‘ کی طرف سے بدترین تشدد کی ویڈیو کے منظر عام پرآنے کے بعد  کئی ہفتوں تک جعلی ویڈیوز دکھانا والا میڈیا مجرمانہ طور پر خاموش رہا۔ میری معلومات کی حد تک اب تک سیاسی قیادت میں سے صرف جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر اسلم سلیمی صاحب کا بیان آیا ہے ۔ اس کے علاوہ انگریزی روزنامہ’’ڈان‘‘ ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ اور ’’دی نیوز ‘‘ کے علاوہ اردو روزنامہ ’’جسارت‘‘ کو صرف اتنی توفیق ہوئی کہ بین الاقوامی میڈیا میں شائع آئی ایس پی آر کا وضاحتی بیان شائع کیا جائے اور وہ بھی انتہائی غیر نمایاں۔ اردو پریس اور ٹی وی چینلز پر مکمل بائی کاٹ۔ شاید کل روزنامہ جسارت نے اس پر شذرہ بھی لکھ ڈالاہے۔ اتنے شاندار ’’ کوریج‘‘ پر معروف صحافی حامد میر نے قوم کو مبارک بعد  دی ہے۔ حسب معمول سوسائٹی میڈیا نے بتادیا کہ mattagirl608وہی اصل میڈیا ہے۔ اور پیپلز ریزسٹنس کے تحت پرسوں شام پانج بجے کراچی پریس کلب پر مظاہرہ کا اہتممام کیا گیا ہے۔ معاشی مفادات کے لیے کام کرنا والا میڈیا تو میڈیا نہیں بلکہ ایک صعنت ہے بالکل دیگر سرمایہ دارانہ صنعتوں کی طرح۔ اس مسئلہ پر میرے خیالات انگریزی بلاگ میں ملاحظہ کریں۔ فی الحال حامد میر کا کالم بعنوان ’’ کافر تو صرف ہم ٹھیرے‘‘ پڑھیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوری قوم کو مبارک ہو۔ ایک قومی مجرم گرفتار کر لیا گیا۔ یہ وہ شخص ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں صرف پاکستان نہیں بلکہ مسلمان بھی بدنام ہوئے۔ اس شخص نے سوات میں ایک لڑکی پر سرعام کوڑے برسا کر انسانیت کی تذلیل کی۔ لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو فلم کو پاکستانی میڈیا نے کئی دن تک ٹیلیویژن اسکرینوں اور اخبارات کی زینت بنائے رکھا۔ اس ویڈیو فلم نے سوات میں مولانا صوفی محمد اور حکومت کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کی اہمیت بھی ختم کر دی اور صرف چند دنوں کے اندر اندر نہ صرف امن معاہدہ ختم ہو گیا بلکہ سوات میں ایک بڑا فوجی آپریشن بھی شروع ہوگیا۔ ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی فلم مارچ 2009ء میں منظر عام پر آئی تو سپریم کورٹ نے بھی اس کا از خود نوٹس لیا تھا۔ چھ ماہ کے بعد حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارنے والا الیاس نامی شخص ڈیرہ اسماعیل خان سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس شخص پر جلد از جلد مقدمہ درج کر کے عدالتی کارروائی شروع کی جانی چاہئے اور جرم ثابت ہونے پر اسے سخت سزا دی جانی چاہئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب پاکستانی ٹی وی چینلز لڑکی کو کوڑے مارنے کے مناظر دن رات دکھاتے تھے اور مجبور لڑکی چیخیں بار بار سنواتے تھے تو کئی سیاسی رہنماؤں نے باقاعدہ اپنی آنکھوں میں آنسو لا کر اس وحشیانہ عمل مذمت کی تھی لیکن نجانے اب یہ رہنما ایک ایسی ویڈیو فلم پر کیوں خاموش ہیں جس میں سفید داڑھیوں والے بزرگوں پر صرف کوڑے نہیں برسائے جاتے بلکہ انہیں بھاری بھر کم بوٹوں سے زوردار ٹھڈے بھی مارے جاتے ہیں۔ یہ بزرگ کوڑے کھا کر صرف ایک ہی لفظ زبان سے نکالتے ہیں اور وہ ہے ”یا اللہ“۔

اس خاکسار نے یہ ویڈیو فلم لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کو دکھائی اور پوچھا کہ کیا کسی تھانے کے اندر درجنوں حوالاتیوں کے سامنے سفید داڑھیوں والے بزرگوں کو کوڑے مارنے سے سوات میں دہشت گردی کم ہوگی یا مزید پھیلے گی؟ قیوم صاحب خاموش رہے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ انتہائی ندامت کے ساتھ آٹھ منٹ کی یہ فلم دیکھتے رہے جو بی بی سی اور یوٹیوب کے ذریعہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ اس فلم میں سوات کے ایک تھانے میں چار پانچ فوجی جوان اپنے ایک افسر کی موجودگی میں گرفتار حوالاتیوں پر تشدد کرتے نظر آتے ہیں۔ حوالاتیوں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا پشتو زبان میں ہے کوڑے مارنے والے انہیں پنجابی زبان میں گالیوں سے نواز رہے ہیں اور ایک افسر انتہائی شستہ اردو میں حوالاتیوں کو دھمکیاں دیتا ہے۔ یہ فلم ختم ہوئی تو لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا کہ گرفتار قیدیوں اور بالخصوص بزرگوں پر وحشیانہ انداز میں تشدد کرنے والے فوجی جوانوں اور افسر کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے کیونکہ اس ویڈیو فلم سے صرف فوج اور پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اس ویڈیو فلم میں فوجی جوانوں کی طرف سے بزرگ قیدیوں پر جو تشدد نظر آتا ہے وہ طالبان کی طرف سے ایک لڑکی پر کئے جانے والے تشدد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق افواج پاکستان کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ بی بی سی اور یوٹیوب پر موجود فلم میں نظر آنے والے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یہ کارروائی جتنی جلد کی جائے اتنا بہتر ہوگا۔ چند دن قبل مولانا فضل الرحمن نے ایک محفل میں ایسے ہی کئی واقعات سنائے جو ڈیرہ اسماعیل خان کے آس پاس پیش آئے۔ اس محفل میں مولانا عبدالمجید ندیم شاہ، مولانا ظہور احمد علوی، مولانا نذیر فاروقی، مولانا عبدالجبار، پیپلز پارٹی کے رہنما زمرد خان، مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے انجم عقیل خان، حمید گل، سلیم صافی اور یہ خاکسار بھی موجود تھا۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ فوج اور طالبان کی لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان عام لوگوں کا ہو رہا ہے۔ انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ فوج نے طالبان کی تلاش میں ایک گاؤں کو گھیرا ڈالا اور ایک بزرگ سے پوچھ گچھ شروع کی۔ فوجیوں کو شک تھا کہ گاؤں کے لوگ طالبان کے حامی ہیں ایک فوجی افسر نے بزرگ سے پوچھا کہ پاکستان آرمی کے بارے میں تمہارا کیاخیال ہے؟ بزرگ نے کہا کہ پاکستان آرمی ہماری محافظ ہے اور ہم اپنی آرمی کی بہت قدر کرتے ہیں۔ فوجی نے کہا کہ کیا تم ہمیں کافر سمجھتے ہو؟ بزرگ نے جواب میں کہا کہ استغفراللہ ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ فوجی افسر نے پوچھا کہ تم طالبان کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہو؟ بزرگ نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ طالبان نفاذ شریعت چاہتے ہیں، امریکا کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے سپاہی ہیں۔ فوجی افسر نے پوچھا کہ کیا تم طالبان کو کافر نہیں سمجھتے؟ بزرگ نے کہا کہ حضور نہ ہم آپ کو کافر سمجھتے ہیں نہ طالبان کو کافر سمجھتے ہیں۔ یہ سن کر فوجی افسر جھنجھلا اٹھا اور اس نے غصے سے بزرگ کو پوچھا کہ اگر طالبان بھی مسلمان اور ہم بھی مسلمان ہیں تو پھر کافر کون ہے؟ بزرگ نے بڑی عاجزی سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ جناب کافر توہم عام لوگ ہیں جنہیں آپ دونوں سے مار پڑتی ہے۔

یہ قصہ سنا کر مولانا فضل الرحمن اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے جبکہ محفل میں موجود بزرگوں نے کیری لوگر بل، این آر او اور توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کی خبروں کے حوالے سے اپنے تمام سوالوں کا رخ میری طرف موڑ دیا۔ سوالوں میں شدت اور حدت اتنی زیادہ تھی کہ میرے پسینے چھوٹ گئے اور میں نے برادرم سلیم صافی کے ہمراہ یہاں سے فرار میں عافیت سمجھی۔ خبر یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے جنوبی وزیرستان میں مجوزہ فوجی آپریشن کے بارے میں حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی مسلسل ٹیلی فون پر ایک دوسرے کے رابطے میں ہیں۔ نواز شریف کیری لوگر بل اور این آر او پر رائے عامہ کی مخالف سمت میں نہیں چلیں گے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پاکستان کو ایک ایسے موڑ ہر لے آئے ہیں جہاں کیری لوگر بل اور این آر او پر پارلیمینٹ کو وہ فیصلہ کرنا پڑے گا جو عوام کی خواہشات کے مطابق ہو۔ پارلیمینٹ کے فیصلے سے پاکستان بھی مضبوط ہوگا اور جمہوریت بھی مضبوط ہوگی۔ اگر ان معاملات پر پارلیمینٹ نے فیصلہ نہ کیا تو پھر معاملات نہ تو آصف زرداری اور نواز شریف کے کنٹرول میں رہیں گے اور نہ ہی فوج کنٹرول کر سکے گی۔ پھر تمام فیصلے سڑکوں پر ہوں گے اس لئے ہوش کے ناخن لئے جائیں اور قوم کی تقدیر کے فیصلے صرف پارلیمینٹ میں کئے جائیں۔