
In پاکستان on اکتوبر 19, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: بندر، کراچی، پشاور، موبائل
پشاور سے آیا ہوا ہی نشانہ کیوں بنا؟ کیوں کہ بندر نے بھی اسے پہچان لیا۔
موبائل چھیننے کی وارداتیں یوں تو عاہم ہیں لیکن اتوار کی شام بندر نے بھی موبائل فون چھین یا۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ کراچی کے سفاری پارک میں پشاور سے تفریح کے لیے آئے ہوئے خاندان کے ایک فرد نے بندر کے پنجرے کے قریب پہنچ کر تصویر کھینچنے کی کوشش کی۔ اسی دوران بندر نے ہاتھ ڈال کر اس شخص سے موبائل چھین لیا جس کے بعد پنجرے کے قریب سیکڑوں افراد جمع ہوگئے۔ تقریبا نصف گھنٹنے کی کوشش کے باوجود بندر سے موبائل فون حاصل نہ کیا جاسکا۔ بعد ازاں سفاری پارک کے عملے پہنجرے میں پہنچا تاہم بندر نے ان کی بھی دوڑیں لگوادیں ۔ کافی جدوجہد کے بعد بندر نے موبائل زمین پر پھینک دیا جو ناقابل استعمال ہوگیا۔
رونامہ جسارت میں چھپنے والی مذکورہ خبر کی اطلاع جب خان لالا کو دے کر ان کی رائے طلب کی گئی تو انہوں نے کہا کہ حکمران اور عوام ادراک رکھتے ہو یا نہ رکھتے ہو بندر سمجھ دار ہوگئے ہیں اور ان کو پتا چل گیا ہے کہ اب پختون بھائیوں پر برا وقت آچکا ہے اور ان کو ہر طرف سے مارا پیٹا جارہا ہے اگر ایسے میں میں نے ان سے موبائل چھین لیا تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہوگی اور ویسے بھی اس حرکت پر عالمی پولیس مین امریکا مجھے ’سپورٹ‘ کرے گا لہٰذا ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین تلخابہ کو گلہ ہوتا ہے کہ یہ سیاسی بلاگ ہونے کے باعث بور ہوتا ہے۔ اگر چہ مجھے طنز کرنا آتا ہے اور نہ ہی مذاح کا کوئی خاص سنس ہے تاہم میں نے آپ کو گدگدانے کی کوشش کی ہے گو کہ میرے پاس آپ کو دینے کے ’’اومور‘‘ کی آئیس کریم نہیں ہے۔

In پاکستان on اکتوبر 19, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: امریکا ، بھارت ، پاکستان ، آزادی صحافت ، ہیلری کنٹن ، چدم برم ، ڈیلی میل نیوز، دی نیوز، ڈاکٹر شیریں مزاری ، حسین

ہم یہی سنتے چلے آرہے ہیں کہ امریکا نہ صرف یہ کہ جمہوری اقدار پر کامل یقین رکھتا ہے بلکہ آزادی¿ اظہارِ رائے اور آزادی صحافت کے لیے اس کی محبت بھی بے مثال ہے۔ امریکی بچے کو پہلا سبق ہی جمہوریت‘ دوسروں کے لیے محبت‘ امن‘ بھائی چارہ‘ انسانیت کی فلاح‘ اسلحہ اور جنگ سے نفرت‘ دوسروں کے لیے احترام اور اظہارِ رائے کی آزادی کا دیا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سیکھو نالائقو کچھ توسیکھو امریکا سے‘ اگر دنیا میں کچھ ترقی کرنا چاہتے ہو تو۔ اچھا بننا ہے یا اپنے آپ کو دنیا میں مہذب کہلوانا ہے تو امریکی معاشرے کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنا ہوںگی۔
”مدرسہ¿ تہذیب“ کے ان اساتذہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی تہذیب کے ’پریکٹیکل‘کو دیکھ کر آپ کے مرتب کردہ نصاب میں بیان کردہ تھیوری پرکوئی بھی شاگرد ِ مکتب یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اس بدتہذیبی‘ معاف کیجیے گا امریکی تہذیب کی تفصیل بیان کرنا سورج کی روشنی میں دیا جلانے کے مترادف ہوگا‘ تاہم آزادی¿ اظہارِ رائے اور آزادی¿ صحافت کے بارے میں امریکی طرزعمل کے چند شواہد امریکی سحر میں مبتلا ان کے پاکستانی ’وکیلوں‘کے گوش گزار کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ان کی وکالت سے امریکا کا مقدمہ تو نہیں جیتا جاسکتا البتہ اس سے ان کی اپنی اخلاقی پوزیشن کافی خراب ہوجاتی ہے۔
آزادی¿ صحافت کے حوالے سے معروف نام اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے ادارے ”رپورٹرز وِد آﺅٹ بارڈر“ کے2008ءکے پریس فریڈم کے حوالے سے 173ممالک کی فہرست میں 38 ویں نمبر پر آنے والے امریکا نے اسی فہرست میں 152نمبر پر آنے والے ملک یعنی کافی خراب ’پوزیشن‘ والے پاکستان کے معروف اور اہم انگریزی روزنامہ ”دی نیوز“ کو براہِ راست خط لکھ کر اخبار پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ وہ امریکی پالیسیوں کی ناقد کالم نگار ڈاکٹر شیریں مزاری کا گزشتہ ایک دہائی سے جاری مستقل ہفتہ وار کالم بند کردے۔ امریکا کو اپنی فہرست میں38 واں نمبر دینے والے ’رپورٹرز وِد آﺅٹ بارڈر‘ کا اس واقعے پر مہینے سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی ردعمل ظاہر نہ کرنا معنی خیز ہی نہیں بلکہ اس ادارے کی معتبریت پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ امریکی سفیر کا یہ انوکھا عمل عالمی قوانین اور سفارتی آداب کے خلاف ہی نہیں بلکہ آزادی¿ اظہار رائے پر قدغن لگانے کے مترادف بھی ہے۔ کیسے؟ اس سوال کا جواب واقعے کی تفصیل کے ساتھ آنے والی سطور میں زیربحث لایا جائے گا‘ تاہم اس سے قبل ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت“کی طرف سے اسی طرح کے طرزعمل کی اطلاع بھی آپ تک پہنچنا ضروری ہے۔
’خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے‘ کے مصداق بھارت نے بھی ایک پاکستانی اخبار کی ”خبر“ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کرکے بیک وقت اسلام آباد اور بیجنگ سے طلوع ہونے والے آن لائن اخبار ’ڈیلی میل نیوز‘ کو بند کرانے کے لیے دباﺅ ڈالا جائے گا۔ اس اخبار نے ایسا کیا کیا ہے جس کی وجہ سے اس کو لشکر طیبہ کی صف میں کھڑا ہونا پڑا؟ اس کی تفصیل بھی بعد میں‘ اس سے قبل امریکی سفیر کے خط بنام ’دی نیوز‘ کے بارے میں کچھ جانتے ہیں‘ لیکن اس سے پہلے اس سال آزادی¿ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کی خبر جس کو آپ امریکی بھاشن بھی کہہ سکتے ہیں‘ ذیل میں بزبانِ نیوز ایجنسی ’ثنا‘ درج کی جارہی ہے۔
……..٭٭٭……..
خبر کچھ یوں ہے:
”صحافت کے عالمی دن کے موقع پر امریکی وزارت ِخارجہ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو ان کی حکومتوں نے بنیادی حقوق سے محروم کیے رکھا۔ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنے حقوقِ انسانی کے آدرشوں پر پورا اترنے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ حقوق انسانی کا فروغ امریکی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے۔ رپورٹ میںکئی ممالک کے اندر غیر حکومتی تنظیموں اور میڈیا کے خلاف جابرانہ قوانین کو پریشان کن بتایا گیا ہے۔ رپورٹ میں اس سلسلے میں ویت نام، چین، روس، کرغزستان اور قازقستان کا نام لیا گیا ہے۔ وزارت خارجہ کے مطابق افریقہ میں کئی ملک ایسے ہیں جہاں انسانی حقوق اور جمہوری قوتوں کو شدید مسائل کا سامنا ہے، مثال کے طور پر زمبابوے، گنی اور موریطانیہ۔ رپورٹ میں آرمینیا اور روس میں انتخابات پر اور مصر، ایران‘ لیبیا اور شام میں سماجی کارکنوں کی مسلسل گرفتاری پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دراصل سیاسی نظاموں کے اندر پائی جانے والی وسیع تر خامیوں کی نشان دہی کرتی ہیں اور اکثر ان ملکوں میں ہوتی ہیں جہاں ایسے طاقت ور حکمران ہیں جو احتساب سے بالاتر ہیں۔“
امریکی وزیر خارجہ کے بیان کے آخر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سبب احتساب سے بالاتر طاقت ور حکمرانوں کو قرار دیا گیا ہے لیکن ان کو ادراک نہیں کہ خود امریکا طاقت ور ہونے کی وجہ سے کس طرح اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر سمجھ کر کسی بھی قانون یا اخلاقی ضابطے کو روند کر بداخلاقی‘ بدتمیزی اور بدتہذیبی کی مثالیں رقم کررہا ہے۔
……..٭٭٭……..
قصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں امریکی سفیر این۔ ڈبلیو۔پیٹرسن نے جنگ گروپ کے مالکان کو ایک خط لکھا ہے جس میں شکایت کی گئی ہے کہ اس کے انگریزی اخبار ”دی نیوز انٹرنیشنل“ کی کالم نگار اور امریکی پالیسیوں کی سخت ترین ناقد ڈاکٹر شیریں مزاری کے کالموں کی وجہ سے ایک امریکی شہری (جس کا نام نہیں بتایا گیا)کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے۔ واضح رہے کہ یہ خط برائے اشاعت نہیں تھا‘ جبکہ سفارتی آداب کے مطابق کوئی سفیر کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے براہِ راست خط وکتابت کرکے اس پر کسی قسم کا دباﺅ ڈال سکتا ہے نہ ہی کچھ کرنے یا نہ کرنے پر مجبور کرسکتا ہے‘ البتہ اس کے ملک سے متعلق چھپنے والے کسی مسئلے کی وضاحت مذکورہ اخبار میں خط کی اشاعت کی صورت میں کی جاسکتی ہے۔ لیکن امریکی سفیر نے یہ سفارتی رویہ نہیں اپنایا بلکہ سفارتی آداب سے ناآشنا‘ اس سفیر نے براہِ راست اخبار کو خط لکھا جس پر اخبار نے ڈاکٹر شیریں مزاری سے وضاحت طلب کرلی۔ اسی اثناءڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک اور کالم اخبارکی 3 ستمبر کی اشاعت کے لیے لکھ بھیجا جس کو بوجوہ شائع نہیں کیا گیا‘ یہی کالم اسی دن بعض دیگر ویب سائٹس پر جاری کیا گیا‘ تاہم ”دی نیوز“ نے بغیر کسی ایڈیٹنگ یعنی کاٹ چھانٹ کے اس کالم کو اگلے دن کی اشاعت میں جگہ دی۔ واضح رہے کہ دی نیوز خصوصاً اس کا انوسٹی گیشن سیل امریکی سفارت خانے کی پراسرار اور غیر سفارتی سرگرمیوں کی رپورٹنگ بغیر کوئی دباﺅ قبول کیے کرتا رہا ہے۔ 3 ستمبر 2009ءکو ہی شیریں مزاری نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں کہا کہ اگر ان کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار امریکا اور رحمن (ملک) ہوں گے۔ اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی سفارت خانہ ان کے کالم بند کرانے کے لیے اخبار پر دباﺅ ڈال رہا ہے اور اس سلسلے میں ان کا آج (یعنی 3ستمبر)کا کالم روک لیا گیا ہے۔ اس کے بعد شیریں مزاری نے مذکورہ اخبار سے اپنا ایک دہائی پر محیط تعلق ختم کرکے لاہور سے چھپنے والے ’وقت گروپ‘ کے انگریزی اخبار ”دی نیشن“ کو بحیثیت ایڈیٹر جوائن کیا۔
7ستمبر 2009ءکو دی نیوز کی ایڈیٹوریل ٹیم کی طرف سے ایک وضاحت جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ یہ خط پرائیویٹ تھا اور نہ ہی جنگ گروپ نے کسی قسم کا دباﺅ قبول کیا ہے۔ اس کا شیریں مزاری کی جانب سے جواب بھی دیا گیا جس میں جہاں کئی اور باتیں شامل تھیں وہیں انہوں نے اخبار سے دریافت کیا کہ انہوں نے میرا کالم روکنے اور مجھ سے وضاحت اور ثبوت طلب کرنے کے بجائے سفیر سے کیوں نہ پوچھا کہ اس کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ میرے کالم کی وجہ سے امریکی شہری کی جان خطرے میں پڑگئی ہے۔ اخبار اور کالم نگار کے درمیان تعلق غلط فہمی کی وجہ سے ٹوٹ چکا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس ”ڈاکٹر شیریں مزاری“اور ”دی نیوز“دونوں کی کوششوں سے ایک پاکستان اور اسلام مخالف امریکی جنرل کی اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں بطور ڈیفنس اتاشی تقرری رک پائی تھی۔
ڈاکٹرشیریں مزاری کے کالموں کو روکنے کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی۔ 2006ءمیں بھی امریکی سفیر نے حکومت ِپاکستان پر دباﺅ ڈالا تھا کہ وہ شیریں مزاری کو کالم نہ لکھنے پر مجبور کریں۔ جب تک ریاض کھوکھر سیکریٹری داخلہ تھے ‘ انہوں نے اس دباﺅ کو قبول کرنے سے انکار کردیا‘ لیکن نئی حکومت آجانے کے فوراً بعد امریکا میں پاکستان کے موجودہ سفیر حسین حقانی نے جمہوری حکومت سے پہلا کام ڈاکٹر شیریں مزاری کی انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر کے عہدے سے برطرفی کا کروایا۔
دی نیوز اور ڈاکٹر شیریں مزاری کی وضاحتوں کی تفصیل لمبی اور دلچسپ ہے‘ لیکن ہم یہاں صرف یہ عرض کریں گے کہ اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ امریکی سفیر نے معاصر اخبار کو خط لکھا۔ گو کہ اخبار نے دباﺅ قبول نہیں کیا لیکن اس نے کالم نگار اور اخبار کے دس سالہ تعلق کو ختم کردیا۔ شیریں مزاری کی آوازآج ایک اور اخبار کے ذریعے پہنچ رہی ہے (اگرچہ وہاں امریکی فارن پالیسی میگزین میں خبر شائع ہونے پر ڈاکٹر مزاری کو امریکی سفیر‘ معاف کیجیے امریکا میں بظاہر پاکستانی سفیر حسین حقانی کی طرف سے ہرجانے کا نوٹس مل گیا) لیکن یہ ثابت ہوچکا ہے کہ امریکی سفیر نے سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی‘ اور آزادی¿ صحافت کا دم بھرنے والے امریکا کے منہ پر کالک مل دی۔ اگرچہ انسانیت دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے امریکا کا چہرہ پہلے ہی کافی کالا ہوچکا ہے۔
…………٭٭٭…………
درحقیقت دہشت گردوں کا سرخیل امریکا ہی وہ ملک ہے جس نے عسکری اور معاشی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ صحافتی دہشت گردی کی بنیاد رکھی۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر دوسروں سے ”الزامات“ کے ثبوت مانگنے والی امریکی سفیر اپنے ملک کے میڈیا سے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی خبروں کا ثبوت مانگ لیتی‘ جن سے ایک عراقی شہری کی جان خطرے میں نہیں پڑی بلکہ میڈیا کی غلط رپورٹس چھپنے کے سبب شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں 1339,771 عراقی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ثبوت مانگنے ہیں تو اپنے ملک کے میڈیا سے مانگےں‘ جو بغیر کسی ثبوت کے روز ہی پاکستان کے خلاف کوئی زہر آلود خبر چھاپ دیتا ہے۔ امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام اب تک طالبان کے ہاتھ میں ہونا چاہیے تھا‘ اور ایک آدھ ایٹم بم اسرائیل پر گرجانا چاہیے تھا۔ یہ ہے صحافتی دہشت گردی کی بنیاد ڈالنے والے عالمی دہشت گرد کا رویہ۔ میڈیا صرف امریکا کا ہی دہشت گرد نہیں بلکہ ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت“ بھارت کا بھی ہے‘ جس کی دکان ہی پاکستان مخالف خبروں پر چلتی ہے۔ لیکن بھارت کو نہ تو خود اپنی ریاستی دہشت گردی نظر آتی ہے اور نہ ہی اپنے میڈیا کی صحافتی دہشت گردی۔ البتہ پاکستانی میڈیا میں بھارت سے متعلق چھپنے والی ایک خبر نے ایسا سونامی بپا کردیا ہے کہ بھارت نے تمام تر ریاستی، ملکی، بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکی روش اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
……..٭٭٭……..
خبر کچھ یوں ہے:
انڈیا اُس وقت جلنے بھننے لگا جب ایک پاکستانی اخبار نے خبر دی کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر وہاں ’وومن یونٹ‘ یعنی خواتین دستے کے نام پر طوائفوںکو بھیج رہا ہے۔ اس خبر پر بھارت اس قدر سیخ پا ہوگیا ہے کہ ’مڈ ڈے‘ کے رپورٹر انشومان گی دت کے مطابق اس نے دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کے سامنے غیر معمولی احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ It was Chidambaram’s order ( یہ چدم برم کا حکم تھا) کے نام سے اس نیوز اسٹوری میں بتایا گیا ہے کہ ”پاکستانی میڈیا کی طرف سے حال ہی میں تعینات کیے جانے والے بارڈر سیکورٹی فورسز (بی ایس ایف) کے خواتین دستے کو طوائف کہنے کا بھارتی حکومت نے نوٹس لے لیا ہے۔ وزارت ِ امورخارجہ اس سلسلے میں پڑوسی ملک کے اخبار میںشائع اس مضمون کے بارے میں حکومت ِپاکستان کے سامنے اپنی ناراضی رجسٹر کروانے کی پلاننگ کررہی ہے۔“
بھارتی اخبار مزید لکھتا ہے کہ: ”این ایچ اے نے یہ فیصلہ پاکستانی میڈیا کی طرف سے اس خبر کی اشاعت کے بعد کیا جس میں کہا گیا کہ بھارتی سیکورٹی فورسز نے اپنے مرد فوجیوں کی فطری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تقریباً دو سو طوائفوں کو بھرتی کیا ہے۔“
اخبار نے یہ بھی اطلاع دی کہ وزارت ِداخلہ کے ایک افسر نے تصدیق کی ہے کہ شکایت رجسٹر کروانے کا حکم براہِ راست یونین منسٹر پی چدم برم کے دفتر سے آیا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے 60 سال پر محیط خراب تعلقات میں ایسا پہلی دفعہ ہوگا جب نئی دلی ایک پاکستانی اخبار کے خلاف شکایت اسلام آباد سے کرے گا۔
یہ خبر دراصل کوئی ٹیبل اسٹوری نہیں تھی بلکہ 11ستمبر 2009ءکو ڈیلی میل نیوز کی نیو دہلی میں نمائندہ¿ خصوصی کرسٹینا پالمر نے یہ خبر باخبر ذرائع کے حوالے سے دی تھی۔ اس کی بنیاد بارڈر سیکورٹی فورسز کے انسپکٹر جنرل ہمت سنگھ کا ایک بیان بھی تھا۔ اس سلسلے میں جب کرسٹینا پالمر نے نئی دلی کے سینئر دفاعی تجزیہ کار روہت شرما سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ”یہ ایک شاندار پیش رفت ہے‘ کیوں کہ یہ وادی میں تعینات سپاہیوں کی طبی اور ذہنی صحت کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی اور اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔“
دراصل جب وادی میں تعینات بھارتی فوجیوں میں خودکشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا تو بھارت نے ایک اعلیٰ فوجی وفد روس بھیجا تاکہ معلوم کرسکے کہ روس نے اپنے ہاں اس مسئلے پر کیسے قابو پایا تھا۔ کرسٹینا پالمر کے ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں بھارتی حکومت کے بعض ڈیپارٹمنٹس کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ مختلف شہروں میں لائسنس یافتہ طوائف خانوں سے رابطہ قائم کرکے طوائفوں کی طرف سے فوج میں بھرتی ہونے کے میلان کو معلوم کریں۔
……..٭٭٭……..
بھارت کی طرف سے اس غیر معمولی ردعمل کی خبر سن کر ’ڈیلی میل نیوز‘کے ایڈیٹر مخدوم بابر نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ ”حیران کن طور پر بھارت کے یونین منسٹر فار ہوم مسٹر پی چدم برم نے ڈیلی میل کو سرکاری شکایت درج کرانے کی دھمکی دی ہے۔ اس پیش رفت نے پوری بین الاقومی میڈیا کمیونٹی کو سکتے میں ڈالا ہے‘ کیوں کہ پہلی دفعہ کسی ملک کے بڑے وزیر نے ایک دوسرے ملک کے آزاد اخبار کے خلاف شکایت درج کرانے کی انوکھی روایت قائم کردی ہے“۔ آگے لکھتے ہیں:”ایم ایچ اے کی طرف سے اس اقدام نے نام نہاد سیکولر بھارت کے چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی میڈیا آرگنائزیشن ’آئی بی این‘نیو دلی نے پاکستان کے واشنگٹن میں سفیر کی طرف سے آئی ایس آئی چیف کو لکھے گئے ایک بہت ہی کلاسیفائیڈ خط کو شائع کیا لیکن پاکستانی حکومت نے اس پربھارتی حکومت سے کسی قسم کی سرکاری شکایت نہیں کی تھی۔ یہ ایک کلاسیفائیڈ انفارمیشن تھی جس کو نہیں چھپنا چاہیے تھا‘تاہم ڈیلی میل نیوز نے جو رپورٹ شائع کی ہے وہ ایک تحقیقاتی رپورٹ ہے‘ جس کے ذرائع اور شواہد موجود ہیں۔
…………٭٭٭……..
مخدوم بابر صحیح کہہ رہے ہیں‘ اس اقدام سے نام نہاد بھارتی سیکولرازم کا اصلی چہرہ بے نقاب ہوتا ہے۔ جمہوریت اور آزادی¿ صحافت کی مالا جپنے والا امریکا ہو یا سیکولرازم کی دعویدار نام نہاد بڑی جمہوریت‘ دونوں کے میڈیا نے ان ممالک کی جانب سے ہونے والی دہشت گردی کو صحافت گردی میں تبدیل کرکے پاکستان اور اسلامی دنیا کے خلاف پروپیگنڈے کو معمول بنالیا ہے۔ خصوصاً جس دن بھارتی میڈیا میں پاکستان کے خلاف کوئی خبر نہیں چلتی‘ اُس دن اُن کے ناظرین کی تعداد حیرت انگیز طور پر گر جاتی ہے۔ لیکن جیسا منہ‘ ویسی بات۔ امریکا اور بھارت جن کا میڈیا پروپیگنڈا مشینری میں تبدیل ہوچکا ہے‘ پاکستانی میڈیا کی طرف سے ایک سچی رپورٹ کو پروپیگنڈے کا نام دے کر برداشت نہیں کرتے۔ اگر ایسی کوئی رپورٹ نشر ہوجاتی ہے تو عالمی دہشت گردی کے سرخیل‘ پاکستانی میڈیا پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ لیکن کیا پاکستانی میڈیا ان حملوں کی وجہ سے امریکی اور بھارتی کرتوتوں کے خلاف کچھ لکھنا یا شائع کرنا بند کردے گا؟ بظاہر ایسا نہیں لگتا۔ پاکستانی میڈیا اب میچور ہوچکا ہے‘ اور اگرچہ تاحال اس کو پوری طرح آزاد میڈیا نہیں کہا جاسکتا‘ لیکن اس نے کسی نہ کسی حد تک دباﺅ مسترد کرنا شروع کردیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا کو 173ممالک میں 38 ویں نمبر پر جگہ دینے والا ”رپورٹرز وِد بارڈر“ اور آزادی¿ صحافت کے عَلم بردار دیگر ادارے امریکی اور بھارتی اقدام کا نوٹس لیں گے؟
(بشکریہ جسارت میگزین ‘ روزنامہ جسارت کراچی)