Articles

پاکستان کی ایٹمی تنصیبات امریکی دہشت گردوں کے قبضے میں?

In پاکستان, دہشت گردی on اکتوبر 23, 2009 by ابو سعد Tagged:

G3

کیری لوگر بل پر تحفظات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے امریکا پاکستان کی مائیکرو مینجمنٹ کرے گا‘ لیکن دوسری طرف عملی صورت حال یوں ہے کہ ملک کے اعلیٰ سول اور عسکری عہدوں پر فائز شخصیات سمیت کون ہے جو امریکی پالیسیوں پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بناتا؟ بہت زیادہ محتاط ہوکر یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ مائیکرو مینجمنٹ فوجی آمر جنرل پرویزمشرف کے دور سے شروع ہوگئی تھی۔ ایسے میں کیری لوگر بل پر فوج کی مزاحمت دیکھ کر ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے عسکری قیادت کی طرف دیکھنے والوں کی سادگی پر مرنے کو جی کرتا ہے۔
 واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اُن کو بجا طور پر واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے میں امریکی سفیر کہا جانے لگا ہے‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون ہے جو امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہوا نہ نظر آرہا ہو؟ کسی ملک کی وزارت داخلہ کا بنیادی کام اس ملک کے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہی کام مملکت ِ خداداد پاکستان کی وزارت داخلہ کا بھی ہونا چاہیے‘ لیکن کیری لوگر بل کو پاکستان کی مائیکرو مینجمنٹ کا ہتھیار سمجھنے والوں کے لیے یہ خبرضرور پریشانی کا باعث ہوگی کہ وزیر داخلہ رحمن ملک نے امریکیوں کے تحفظ کے لیے ایسا اقدام اُٹھایا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ معاصر انگریزی اخبار ”دی نیشن“ کے مطابق ”وزیر داخلہ رحمن ملک نے اپنے سخت جواب میں انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب پر واضح کردیا ہے کہ امریکی سیکورٹی اہلکاروںکو[سہالہ کالج سے ] کسی اور جگہ منتقل نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے ہدایت دی ہے کہ اس [ سہالہ کالج میں امریکی مرکز] کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ بند کردیا جائے بصورت ِدیگر یہ [ناصر خان] درانی کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اخبار کے مطابق وزارت ِداخلہ نے اتنی حساس اور خفیہ معلومات میڈیا کو افشاءکرنے پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس کو ہدایت کی ہے کہ حساس معاملات کو وسیع تر قومی مفاد میں خفیہ رکھا جائے۔“
……..٭٭٭……..
وزیر موصوف کے ”وسیع تر قومی مفاد“ اور پاکستانیوں کے ”وسیع تر قومی مفاد“ شاید مختلف ہیں‘ ورنہ سہالہ کالج کے کمانڈنٹ ناصر خان درانی نے میڈیا کو جو معلومات فراہم کی ہیں ان کو پڑھ کر تو یہی لگتا ہے کہ ان کا پھیلنا قومی مفاد میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اس کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بھی ضروری تھا۔ قومی اخبارات میں چھپنے والی یہ خبر ملاحظہ کیجیے:
”انسداد دہشت گردی کی تربیت دینے کے لیے پاکستان آنے والے امریکی سیکورٹی حکام نے سہالہ پولیس ٹریننگ کالج میں بھاری مقدار میں دھماکا خیز مواد اسٹور کرلیا، کمانڈنٹ پولیس ٹریننگ کالج ناصر خان درانی سمیت کسی کو بھی اس علاقے میں جانے کی اجازت نہیں۔ کمانڈنٹ نے تمام صورت حال سے آئی جی پنجاب کو آگاہ کردیا۔ کمانڈنٹ پولیس کالج سہالہ ناصر خان درانی کی طرف سے آئی جی پولیس پنجاب کو بھیجے گئے میمورنڈم نمبر 12981 میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کے بیورو آف ڈپلومیٹک سیکورٹی نے پولیس کالج سہالہ میں انسداد دہشت گردی ریسپانس ٹیمز کی تربیت کے لیے 2003ءمیں انسداد دہشت گردی کی مدد ( اے ٹی اے) کا دفتر قائم کیا۔ وزارت داخلہ نے19جولائی 2003ءکو ایک میمورنڈم نمبر 1/41/2003 کے ذریعے اس آفس کے قیام میں اپنی رضامندی ظاہر کی اور کہا کہ امریکی سفارت خانے کو مذکورہ تربیتی مقاصد کےی لئے پولیس کالج سہالہ کی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے‘ انہیں فائرنگ رینج، آرمری اور دیگر متعلقہ سہولیات و انفرااسٹرکچر کی تعمیر کی بھی اجازت دی گئی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اس علاقے کو نہ صرف پولیس کالج سہالہ کی انتظامیہ بلکہ زیرتربیت اہلکاروں کے لئے بھی نوگو ایریا قرار دیا گیا ہے‘ اور یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کالج کی حدود میں بھاری مقدار میں دھماکا خیز مواد بھی ذخیرہ کیا گیا ہے جو کہ اس تربیتی ادارے کے لیے بہت بڑا سیکورٹی رسک ہے۔ کمانڈنٹ سہالہ پولیس نے آئی جی پنجاب سے کہا ہے کہ وہ وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو اس معاملے میں ملوث کریں تاکہ مناسب حفاظتی اقدامات کیے جاسکیں۔“ (روزنامہ جنگ‘ روزنامہ ایکسپریس‘ روزنامہ امت کراچی)
……..٭٭٭……..

کمانڈنٹ سہالہ ٹریننگ کالج نے اس خوش فہمی میںآئی جی پنجاب سے وزارت ِداخلہ کو اس معاملے میں ملوث کرنے کے لیے کہا ہوگا کہ مذکورہ وزارت کا کام پاکستانی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ ناصر خان درانی جیسے پولیس اہلکار شاید اس حقیقت سے واقف نہیں کہ ان کی طرح کے چند ایماندار آفیسرز اگر ملک و قوم کی بقاءکے لیے کبھی کوئی کردار ادا کریں گے تو ان کو میڈلز نہیں پہنائے جائیں گے‘ یہ کام نامساعد حالات میں وسیع تر قومی مفاد میں کرنا ہوگا۔ یہ وسیع تر مفاد یقینا اُس وسیع تر مفاد سے مختلف ہوگا جو رحمن ملک کا ہے۔ لیکن ناصر خان درانی یہ یقین رکھیں کہ امریکی دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی قوم ان کی پشت پر ہے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ جو اس دنیا کی اصل سپرپاور ہے‘ کا ہاتھ اُن کے اوپر۔
اگرچہ رحمن ملک جیسے لوگوں سے یہ توقع کرنا ہی غلط ہے کہ امریکیوں کی حرکتوں کا نوٹس لیں گے‘ تاہم ایک عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ کیا رحمن ملک کو امریکیوں کے دہشت گرد کیمپ کے بارے میں معلومات دینے والے پولیس کمانڈنٹ کو دھمکیاں دینے کے بجائے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا کہ وہ فوری طور پر امریکیوں کے اس مرکز پر چھاپہ مار کر وہاں سے دھماکا خیز مواد برآمد کرتے اور امریکیوں سے پوچھتے کہ انہوں نے کس مقصد کے لیے دھماکا خیز مواد یہاں ذخیرہ کیا ہے؟ یہ یہاں آیا کیسے؟ اس کا اب تک کہاں کہاں استعمال ہوچکا ہے؟ کیا اس دھماکا خیز مواد کا استعمال جی ایچ کیو اور اسلامی یونیورسٹی پر ہونے والے حملوں میں تو نہیں ہوا ہے؟ وہ وہاں سے مواد اٹھاکر اس کا موازنہ جی ایچ کیو اور اسلامی یونیورسٹی میں ہونے والے حملوں کے بعد اکٹھے کیے گئے سیمپلز سے کرتے اور اس بات کا سراغ لگاتے کہ ان حملوں میں امریکی کس حد تک ملوث ہیں؟ لیکن بھلا رحمن ملک ایسا کیوں کریں گے! یہاں ایک عام آدمی ایک اور سوال بھی اُٹھاتا ہے کہ رحمن ملک تو این آر او کی وجہ سے اس عہدے پر فائز ہیں‘ ورنہ ان کو تو کرپشن کے الزامات کے تحت جیل میں ہونا چاہیے تھا۔‘ ان کی طرف سے امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ رحمن ملک کی طرف سے کیری لوگر بل پر کابینہ کے اجلاس میں قرارداد پیش کرنے کی خبر تو طنز ومزاح کا موضوع بنی ہوئی ہے‘ لیکن کیا اسی کیری لوگر بل کے خلاف ”میدانِ عمل“ میں اُتر کر ”عوامی امنگوں“ کی ترجمانی کرنے والی فوج اس معاملے میں کود پڑے گی یا وہ فی الحال وزیرستان کے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے؟ اگر سیاست دان ناکام ہوچکے ہیں تو فوج تو پاکستان کی اصل ”محافظ“ ہے‘ وہ کیوں اس معاملے میں چپ ہے؟ کیا عالمی دہشت گرد امریکا کی جانب سے صف ِاول میں شامل ہونے والی فوج ان واقعات کو سیاسی حکومت کی بساط لپیٹنے کا بہانہ تو نہیں بنائے گی؟ عام آدمی تو پتا نہیں کیا کیا سوالات کرتا ہے۔ وہ سوالات کرے گا‘ شاید کبھی اس سے بڑھ کر بھی کچھ کرے…. میدان عمل میں اتر کر‘ احتجاج کے ذریعے امریکیوں اور ان کے حواریوں کو پیغام دے کر۔
تاہم یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ سہالہ کالج کی حدود میں قائم امریکی بیس بھی ایک فوجی آمر ہی کی دین ہے۔ پاکستانی عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے۔ لہٰذا یہاں جمعہ 23 اکتوبر 2009ءکے ”دی نیشن“ میں شائع ہونے والی اس خبر کے چند پوائنٹس درج کرکے عوام کو یہ یاد دلانا بہت ضروری ہے کہ جنرل پرویزمشرف کے نامہ اعمال میں اس ”صدقہ جاریہ“ کا ثواب ملتا رہے گا ‘ جس کا کفارہ موجودہ فوجی سربراہ کو ادا کرنا چاہیے۔

……..٭٭٭……..

1
مقامی انگریزی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ کہوٹہ میں پاکستان کی جوہری تنصیبات کے قریب واقع سہالہ کالج میں ٹریننگ سینٹر کے نام پر امریکی 2003ءسے مستقل رہ رہے ہیں۔ ذرائع سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ناصر خان درانی کی طرف سے شکایت کوئی انوکھی بات نہیں‘ کیوں کہ ماضی میں بھی کئی اعلیٰ پولیس افسران اسلام آباد کے اعلیٰ حکام کو امریکیوں کی طرف سے سینئر پولیس افسران کے لیے تربیتی کورسز پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ یہ افسران حکومت سے کہتے رہے ہیں کہ امریکی ان کو جو تربیت دے رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ بہتر تربیت مقامی پولیس افسران دے سکتے ہیں‘ اس لیے ان کو کہوٹہ کے قریب اس حساس علاقے میں ٹھیرانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ لیکن اسلام آباد کے اعلیٰ حکام پاکستان پولیس کے تحفظات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ پولیس افسران یہ سوال بھی اُٹھاتے رہے ہیں کہ اگر یہ ٹریننگ بہت ضروری ہے تو اس کے لیے اس حساس علاقے کا انتخاب ہی کیوں؟ درحقیقت امریکیوں کو پاکستانی پولیس کی ٹریننگ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے‘ بلکہ یہاں آلات نصب کرکے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی نگرانی کرناان کا مقصود ہے۔ واضح رہے کہ کالج کے اندر یہ امریکی بیس چار سے پانچ کنال پر قائم ہے جس کی دیواریں اونچی ہیں اور اس کے داخلی راستوں پر بڑے بڑے کنٹینر لگا دیے گئے ہیں‘ جبکہ کالج کی سینئر مینجمنٹ تک کو اندر جانے کی اجاز ت نہیں ہے۔
……..٭٭٭……..
مزید یہ بتاتے چلیں کہ سہالہ کالج کہوٹہ سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کالج کے ایک حصے میں قلعہ نما عمارت تعمیر کرکے اس میں بڑے پیمانے پر دھماکا خیز مواد ذخیرہ کرنا دراصل اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کے جوہری پروگرام پر قبضے کی تیاریوں کی ایک کڑی ہے۔ اس کڑی کو پرونے میں مددگار کون کون ہیں؟ یہ ایک ہم اور تحقیق طلب موضوع ہے‘ لیکن اس کڑی کو توڑنے کے لیے حکومت ِپاکستان اور فوجی قیادت پر دباﺅ ڈالنے کے لیے ایک بڑی قومی تحریک کی ضرورت ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو اپنے سیاسی رہنماﺅں کی طرف دیکھنے کے بجائے اس تحریک کو لے کر چلنے والی سیاسی جماعتوں کا ساتھ وسیع تر قومی مفاد میں دینا ہوگا۔ جی وہی وسیع تر قومی مفاد جو رحمن ملک‘ حسین حقانی اور ہماری سول سیاسی اور عسکری قیادت کے مفاد سے الگ ہے۔
یہاں امریکی مداخلت کی سنگینی کو مزید واضح کرنے کے لیے مزید دو خبریں قارئین جسارت میگزین سے شیئر کرتے چلیں۔
……..٭٭٭……..
آن لائن نیوز ایجنسی نے نیویارک کی ڈیڈلائن سے ایک خبر جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں پاکستانی سفارت خانے نے گزشتہ15مہینے کے دوران افغانستان کے لیے جانے کے نام پر 26 سفارت کاروں‘ 1200فوجیوں اور 2500 امریکی شہریوں کو ویزے جاری کیے ہیں۔ یہ ویزے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ”درخواست“ پر جاری کیے گئے ہیں۔ سفارت خانے کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ ویزے افغانستان کے لیے جاری کیے گئے ہیں لیکن ان میں ایک مختصر دورانیہ کے لیے پاکستان میں قیام کی اجازت دی گئی ہے۔ اس خبر میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ امریکی دفترخارجہ کی طرف سے مختصر نوٹس پر پاکستان جانے کے لیے ویزوں کے لیے پاکستانی دفتر خارجہ سے اجازت طلب نہیں کی جاتی۔ افغانستان جانے والے امریکی شہری آخر پاکستان سے ہی ہوکر کیوں گزرتے ہیں؟ کیا یہ سمندری راستے سے آتے ہیں اور افغانستان میں کوئی بندرگاہ نہیں ہے اس لیے کراچی اترکر یہ آگے منزل کی جانب بڑھتے ہیں؟ پٹاخے کی آواز سے ڈرنے والے عام امریکی شہری 2500 کی تعداد میں افغانستان کیا کرنے جاتے ہیں‘ اورکیا وہاں جانے کے لیے دھماکوں کے ملک پاکستان کی سیاحت کو ایک عام امریکی شہری افورڈ کرسکتا ہے؟ کیا یہ عام شہری ہیں یا بلیک واٹر کے اہلکار؟ واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار ان ویزوں سے الگ ہےں جو پاکستان کے نام پر جاری ہوتے ہیں‘ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے بھی سرزمین پاکستان پر لینڈ کرتی ہے۔

……..٭٭٭……..

3
اسلام آباد سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک ایسے مرکز کا پتا لگالیا گیا ہے جہاں دو سو سے زائد پاکستانی ریٹائرڈ نیوی، ایئر فورس اور فوجی افسران کو تربیت دی جارہی تھی۔ اس مرکز کو لوگوں کی نظر سے چھپانے کے لیے اس پر” آٹو ریپئر ورکشاپ“کا بورڈ لگایا گیا ہے۔ نوجوان صحافی اور ٹی وی اینکر احمد قریشی کے مطابق اس مرکز کو پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ افسران کو بھرتی اور تربیت دینے کے لیے استعمال کیا جارہا تھا تاکہ ایک ایسی پرائیویٹ ملیشیا تشکیل دی جائے جو پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی جاسوسی کرسکے۔ یہ مرکز ایک صنعتی علاقے میں واقع ہے۔ اس ”آٹو ریپئر ورک شاپ“ کی اونچی دیواروں پر ایسی تاریں لگا دی گئی ہیں جو کسی فوجی چھاﺅنی کے گرد لگائی جاتی ہےں‘ جبکہ اس پر ایک سیکورٹی ٹاور بھی قائم کیا گیا ہے جس طرح کے سیکورٹی ٹاور انٹیلی جنس ایجنسی کے ہیڈکوارٹر پر لگائے جاتے ہیں۔
احمد قریشی کے مطابق اگر آپ اسلام آباد سے روات کے لیے جارہے ہوں اور مین روڈ پر کسی بھی عام شہری کے سامنے ’امریکی‘ ’پرائیویٹ‘ اور ’ملٹری ٹریننگ‘ کے الفاظ کہہ دیں تو آپ حیران ہوجائیں گے کہ سب کو اس کے بارے میں پتا ہے لیکن یہ خاموش ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ ’ورک شاپ‘ دراصل امریکی دفاعی کنٹریکٹر ’ڈائن کارپ‘ کا ہے ۔ اس علاقے کی سیکورٹی بھی اس فرم کے ہاتھوں میں ہے۔ جب آپ اس بلڈنگ کے قریب جاتے ہیں تو لوگ آپ کو محتاط ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق جب پولیس نے امریکی سفارت خانے سے یہاں تربیت پانے والوں کی تفصیل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تو امریکی سفارت خانے نے نہ صرف یہ کہ لسٹ دینے سے انکار کردیا بلکہ یہ اطلاع بھی دی کہ اس مرکز کے منظرعام پر آجانے کے بعد ان دو سو پاکستانی ریٹائرڈ فوجی افسران کی جانوں کو خطرے کے پیش نظر ان کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے جس کا پتا نہیں بتایا جائے گا۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو سفات خانہ کہے گا؟ کیا اسلام آباد میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن واقعی سفیر ہیں یا ان کے ناپسندیدہ کردار کو دیکھتے ہوئے ان کے عہدے کو کوئی نیا نام دینا ہوگا؟
اس سے بھی بڑھ کر یہ سوال اہم ہے کہ کیا ہمارے حکمران پاکستانی کہلانے کے مستحق ہیں؟ کیا امریکی مطالبے پر محب وطن قبائلیوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے والی عسکری قیادت کے اندر حب الوطنی کا جذبہ ہے؟ کیری لوگر بل پر شیر کی طرح غرانے والے فوجی جرنیل پاکستان کے دل اسلام آباد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر رہائش پذیر امریکی دہشت گردوں کے خلاف کسی اقدام سے کیوں گریزاں ہیں؟

 ……..٭٭٭……..

2

ہاں پاکستانی حکمران امریکی خدمت کی تاریخ رقم کررہے ہیں‘ وہیں ترکی کے حکمرانوں نے نامساعد حالات اور ایک دین دشمن فوج کے ہوتے ہوئے اسرائیل کے اس مطالبے کو یکسر مسترد کردیا ہے کہ وہ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہونے والے اس ڈرامے کو بند کرائے جس میں اسرائیلی فوجیوں کو معصوم فلسطینیوں کو مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ترک وزیر خارجہ پروفیسر احمد داووتوغلو نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ مذکورہ ڈراما کسی صورت بند نہیں کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ماضی کی اسلام دشمن ترک حکومتوں نے اسرائیل کے ساتھ بڑے ”خوش گوار“ تعلقات قائم کررکھے ہیں جس کے تحت امریکی روش اپناتے ہوئے اسرائیل اس کو اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ ترک حکومت کو کوئی بھی حکم دے۔ لیکن غیرت مند ترک حکمرانوں نے اسے بتادیا ہے کہ ترکی کوئی اسرائیلی کالونی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اسی برس ’ورلڈ اکنامک فورم‘ کے اجلاس کے موقع پر شمعون پیریز سے گرماگرم بحث کے بعد ترک وزیراعظم نے اجلاس سے واک آﺅٹ کیا تھا۔ اور جب وزیراعظم رجب طیب ایردوغان ملک لوٹے تو کروڑوں کی تعداد میں ترکوں نے اسرائیل کے خلاف وزیراعظم کے غصے پر ان کا شاندار استقبال کیا۔
یہ تو ترکی ہے‘ اور اِدھر پاکستان سے یہ خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ امریکا نے پاکستان کے نجی چینلز اور فلم پروڈیوسرز میں بڑی رقوم تقسیم کرکے جہاد اور اسلام مخالف فلمیں بناکر نوجوانوں کو کنفیوز کرنے کے کام پر لگادیا ہے۔ اس خبر کی تصدیق کے لیے پاکستانی چینلز کے ڈراموں کو مانیٹر کیا جاسکتا ہے‘ تاہم راقم کو چند دن قبل پشتو زبان کے نجی ٹی وی چینلز پر ایسے کئی ڈرامے دیکھنے کا اتفاق ہوا جن میں نوجوانوں کو جہاد سے متنفر کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اس میں ایسے ٹی وی چینلز اور فلم پروڈیوسرز بھی ہوں گے جنہوں نے امریکی رقم لینے سے انکار کیا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکی ایجنڈے سے انکاری محب وطن پاکستانی امریکی جارحیت کے خلاف نبردآزما قوتوں کی صفوں میں آجائیں اور محب وطن سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر امریکا مخالف تحریک میں شامل ہوکر امریکا کے ساتھ ساتھ اس کے نمک خواروں کو بھی مدینہ ثانی، ملک ِخداداد پاکستان سے چلتا کردیں (بشکریہ  جسارت میگزین )

8 Responses to “پاکستان کی ایٹمی تنصیبات امریکی دہشت گردوں کے قبضے میں?”

  1. اس مضمون کے گرافک ویو کے لیے یہاں لک کریں۔
    اس موضوع پر میرا انگریزی بلاگ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
    شکریہ
    تلخابہ

  2. اللہ کی قدرت کا کرشمہ یہ ہے کہ پدی کو عقاب سے لڑا کر عقاب کو مروا دے ۔ سیّدنا داؤد علیہ السلام کا جالوت کو ایک ہی وار میں ڈھیر کر دینا اسی طرح کا واقع ہے ۔یہ ملک پاکستان اللہ نے بنايا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا مگر شرط یہ ہے کہ اس میں اللہ کے بندے کافی تعداد میں موجود ہوں

  3. گو آپ کا تعلق صحافی برادری سے ہے ، مگر میں اپنے ذرئع کی معلومات کی بنا پر کہ رہا ہوں کہ کہوٹہ اور باقی ایٹمی تنصیبات پر ابھی اتنی آسانی سے حملہ نہیں کیا جا سکتا ، روات والی ورکشاپ تو ابھی کی بات ہے ، مگر کہوٹہ کو دو اطراف سے مونیٹر کیا جا رہا ہے ، دوسری طرف کشمیر (ہری پور) وغیرہ کو بھلا دیا گیا ہے ، مگر ہمارے ایٹمی پروگرام کے محافظوں سے یہ بات چھپی نہیں ہے ۔ ۔ ۔

    ہاں دوسری خبر ٹھیک ہے کہ میڈیا کو نہ صرف جہاد بلکہ اسلام سے بھی متنفر کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے ، اسکے لئے آے آر وائی ، جیو اور ہم ٹی وی سر فہرست ہیں ۔ ۔ ۔ کاش میں اتنا بہادر ہوتا کہ ان سب لوگوں کے نام لے سکتا ۔ ۔ ۔ مگر اتنا ضرور کہوں گا ۔ ۔ ۔۔ کہ یہ لوگ جونک کی طرح ہمارا خون چوسنا چاہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔

  4. امریکہ کو ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، جبکہ انکو چلانے والے خود کب سے بکے ہوں

  5. شکر کریں عارف کہ کچہ لوگ ابھی تک نہیں بکے ورنہ آپ اپنی یہ صلاحیت کب کے کھو چکے ہوتے

  6. ہم ہم، تو آپ اور اظہر صاحبکس دن بارودی جیکٹ پہن کر امریکی سفارتخانے کو اڑانے جا رہے ہیں ۔ یا کم ازکم جیو اور اے آروائ کے ان پروگراموں کے خالقین کو تو جہنم رسید کر دیں جو نوجوانوں کو جہاد سے متنفر کروا رہے ہیں۔ یہ جان تو آنی جانی ہے۔ کم ازکم اس طرح آپ نئ نسل کے لئے ایک مثال ضرور قائم کر جائیں گے کہ جہاد دراصل کتنا ضروری ہے۔ اور خدا کا نئے انسانوں کو تخلیق کرنا محض اسی مقصد کے لئے ہے۔

  7. ابیقہ صاحبہ ! اگر ٹی وی چینلز نوجوانوں کو متنفر کررہے ہیں تو امریکا افغانستان کے طالبان کو ختم کرنے اور پاکستان پر قبضے کے لیے جعلی پنجابی اور پاکستانی طالبان کو اسلحہ فراہم کرکے بھی یہ کام کررہا ہے۔ خیر اس کا علاج خود کش دھماکہ نہیں بلکہ فدائی بلاگز ہے جس کے ذریعے اسلام دشمنوں اور پاکستان دشمنوں کے سارے منصوبے ناکام بنادیے جائیں۔

  8. تلخابہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد کیا کہہ سکتے ہیں بس یہی کہ اللہ دے زور قلم اور زیادہ آپ کو

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: