ایک فلم میں دیکھا تھا کہ ایک عورت غنڈوں سے بچنے کے لیے بھاگتے ہوئے اس خیال سے تھانے کے اندر چلی جاتی ہے کہ قانون کے رکھوالے اور شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے ذمہ دار پولیس والے‘ غنڈوں سے اس کی جان بچا لیں گے۔ لیکن وہاں پہنچ کر اُسے پتا چلتا ہے کہ یہ تھانہ ویسے تو سرکاری ہے لیکن اصل میں یہ ان غنڈوں کا ایک یونٹ آفس ہے۔ آج پشاور سے تعلق رکھنے والا صحافی سید فواد علی شاہ بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے کہ وہ بھاگے تو کہاں بھاگے، چھپے تو کہاں چھپے، کس سے پناہ مانگے‘ کس پر اعتبار کرے اور کس کو اپنا محافظ سمجھے!
فواد علی شاہ کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے تحفظ کے لیے آئی جی سرحد پولیس ملک نوید خان کو درخواست دی کہ وہ اس کو بلیک واٹر صلیبی ملیشیا سے بچالیں‘ لیکن وہ بھی امریکیوں سے اپنی دوستی نبھا رہے ہیں۔ دسمبر 2007ء کے سرد دنوں میں پشاور کے مقامی اخبار کے اس انویسٹی گیٹو رپورٹر نے جب 83 طالبان کی ایک فہرست مرتب کردی تو ناموں اور پتے کی تفصیلات پر مبنی یہ فہرست امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد تو جیسے اس کی ”لاٹری“ نکل آئی اور امریکیوں نے اس کو سونے کی چڑیا سمجھ کر اسے اپنے قبضے میں لینے کی کوششیں شروع کردیں۔ طالبان کے خلاف خبریں چھاپنے پر پشاور میں امریکی قونصل خانے کے چار سفارت کاروں اسٹیون‘ کیش روڈرک‘کرسٹوفر اور ایشاکمبلی نے اس سے رابطہ قائم کیا۔ یہ چاروں سفارت کار اس سے ملاقات کرکے پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرنے کی ترغیب دیتے۔ انہوں نے فواد کو ہزاروں ڈالر کی پیش کش کی جبکہ ہر ملاقات میں اسے ایک ہزار ڈالر بطور انعام بھی دیتے تھے۔
فواد سے ان افراد کی ملاقاتیں پشاور میں یونیورسٹی ٹاﺅن کے مختلف گھروں میں ہوتی تھیں‘ اور ہر ملاقات میں اسے ایک ہزار ڈالر کے ساتھ شراب کی دو بوتلیں بھی دی جاتیں۔ شراب وہ واپس کردیتا لیکن رقم رکھ لیتا تھا۔ اس طرح ایک سال کے عرصے میں اس کی ان امریکیوں سے تقریباً14ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات میں ان افراد نے اسے کھانا کھلایا اور ملکی مفاد کے خلاف کام کی پیشکش کی۔ (بقول فواد)اس نے جواب دیا کہ سوچ کر بتاﺅں گا۔ دوران ملاقات امریکی اس سے پشاور کی مختلف شخصیات کے بارے میں کوائف بھی حاصل کرتے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ فواد نے پہلی ملاقات کے فوراً بعد ہی پاکستان کے حساس اداروں کو اس بارے میں آگاہ کردیا۔ تاہم انہوں نے ان امریکیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان کے ساتھ ملاقاتیں جاری رکھنے اور اس کی تفصیلات فراہم کرنے کا کام لینا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا جب فواد نے امریکیوں کی پراسرار سرگرمیوں کی خبریں اخبارات میں رپورٹ کرنا شروع کردیں۔
بلیک واٹر کے موضوع پر بنیادی معلومات رکھنے والے شاید یہ جانتے ہوں گے کہ اس بدنام زمانہ دہشت گرد صلیبی فوج کے خلاف سب سے پہلی خبر یہ شائع ہوئی تھی کہ اس نے پشاور کے یونیورسٹی ٹاﺅن میں ایک این جی او کے روپ میں کام کرنا شروع کردیا ہے اور سیکڑوں پاکستانیوں کو بھرتی کرنے کے بعد صوبہ سرحد اور خصوصاً قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں انہیں استعمال کررہی ہے۔ یہ خبر فواد علی شاہ نے ہی بریک کی تھی جس کے بعد ملک کے کئی حصوں خصوصاً اسلام آباد میں بلیک واٹر کی سرگرمیوں کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے۔ بلیک واٹر کے بارے میں ان اہم انکشافات کی بناءپر ہی امریکی قونصل خانہ فواد کی جان کے درپے ہوا اور اس کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔
پشاور میں امریکی قونصل خانہ جو قونصل خانے سے زیادہ صلیبی دہشت گردوں کا عسکری ہیڈکوارٹر بنا ہوا ہے‘ کی طرف سے دھمکیاں ملنے کے بعد ایک پاکستانی کیا کرسکتا ہے؟ پولیس سے تحفظ مانگ سکتا ہے‘ حکومت کے پاس جاسکتا ہے۔ لیکن پشاور میں طالبان ، بلیک واٹر اور دہشت گردی کی اس پوری امریکی جنگ کے بارے میں بنیادی معلومات رکھنے کے سبب اس کو ادراک ہوا کہ پولیس کے پاس جانا شاید امریکی قونصل خانے کے ہتھے چڑھنے سے بھی زیادہ خطرنا ک ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ یہاں سے ایران چلا گیا اور وہاں مو ¿قف اختیار کیا کہ چونکہ اس نے امریکا کے خلاف کام کیا ہے‘ اس لیے امریکی اس کی جان کے درپے ہوگئے ہیں لہٰذا حکومت ِایران اس کو پناہ دے۔ لیکن وہاں اس کو معلوم ہوا کہ ایرانی حکومت ایسی کوئی خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی ایرانی قوانین میں اس بات کی گنجائش ہے کہ اپنے ملک میں جان کے خطرے کے سبب بھاگ کر آنے والے کو پناہ دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جان بچانے کے لیے آرمینیا جانے کا فیصلہ کیا اور غیر قانونی طریقے سے سرحد عبور کرکے وہاں چلا گیا‘ تاہم پکڑا گیا اور نتیجتاً واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ گزشتہ روز اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کرکے اس نے حکومت سے اپنے تحفظ کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ اگر اسے کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری امریکیوں کے علاوہ پشاور پولیس پر بھی عائد ہوگی۔
سید فواد علی شاہ اس وقت اپنے ملک کے اپنے ہی شہر میں امریکی درندوں سے جان بچانے کے لیے چھپتا پھر رہا ہے۔ اس کو ادراک ہے کہ جنگل کی شکل لیے اس ملک میں یہاں کے شہریوں کی جان کے تحفظ کے قوانین معطل ہیں اور یہاں کے لوگوں کو چیڑ پھاڑ کر کھانے والے آدم خور امریکی درندے قانون سے بالاتر ہیں۔ پشاور کے نامعلوم مقام سے جسارت میگزین سے فون پر بات کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ میں اس حکومت اور اس کی پولیس پر کیسے اعتبار کروں جو اسلحہ سمیت پکڑے گئے امریکی سفارت کاروں کے روپ میں دندناتے پھرنے والے امریکیوں کو ایک فون کال پر چھوڑ دیتی ہے!
اس کا کہنا تھا کہ رحمن ملک نہ یہ بات ماننے پر تیار ہیں کہ ملک میں بلیک واٹر ہے‘ اور نہ ہی امریکیوں کو قانون کے دائرے میں لانے کے بارے میں سنجیدہ ہےں۔ اس نے بتایا کہ اِس وقت اُس کے پاس ان بنگلوں کی مکمل تفصیلات موجود ہیں جو بلیک واٹر نے کرایہ پر لیے ہوئے ہیں۔ لیکن ثبوتوں کے باوجود اگر ہمارے وزیر داخلہ بلیک واٹر اور صلیبی فوجوں کی موجودگی سے انکار کریں تو اسے کیا قرار دیا جاسکتا ہے؟ فواد کا دعویٰ ہے کہ اس وقت اسلام آباد میں 278، پشاور میں 62 اور کراچی میں 35 بنگلوں میں بلیک واٹر کے اہلکار رہ رہے ہیں۔ یہ بنگلے مختلف فائیو اسٹار ہوٹلوں کے علاوہ ہیں جہاں بدنام زمانہ بلیک واٹر کے اعلیٰ افسران رہ رہے ہیں اور پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو یقینی بنانے کے لیے اس کی نگرانی کرتے ہیں۔
بلیک واٹر کے طریقہ واردات کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ سب سے پہلے کرپٹ، عیاش اور شرابی افسران، خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کے اہلکاروں کی فہرست مرتب کرتی ہے‘ پھر ان سے رابطہ کرکے ڈالرز، شراب اور لڑکیوں کی پیشکش کی جاتی ہے۔ فواد کا کہنا ہے کہ ان افسران سے ملک کے اہم رازوں کے علاوہ متعلقہ اداروں کی پوری کارروائیوں کی تفصیلات حاصل کی جاتی ہیں۔ فواد کا کہنا ہے کہ امریکی بعض دفعہ افراد کو پہچاننے میں غلطی بھی کرجاتے ہیں۔ ایک واقعہ یوں ہوا کہ انہوں نے ڈی آئی جی اشرف نور کو پیشکش کی کہ وہ ڈالرز کے بدلے ان کے لیے کام کریں۔لیکن اشرف نور نمازی پرہیزگار پولیس آفیسر ہیں‘ اس لیے انہوں نے نہ صرف امریکیوں کی پیشکش مسترد کردی بلکہ اپنے اعلیٰ افسر کو اس بارے میں مطلع کردیا۔ جس پر اس اعلیٰ افسر نے امریکیوں سے رابطہ کرکے بتادیا کہ آپ نے غلط آدمی کو پیشکش کی ہے۔ اس کے بعد امریکی پشاور پولیس پر بہت زیادہ اثرانداز ہونے لگے۔ فواد علی شاہ کا دعویٰ ہے کہ اب امریکی ہر وقت پشاور کے سینٹرل پولیس آفس میں موجود ہوتے ہیں۔ انہوں نے اکثر پولیس اہلکاروں کو خرید لیا ہے۔
معتوب مگر نڈر صحافی کا یہ بھی کہنا ہے کہ پشاور میں اس وقت بلیک واٹر کے زیر تربیت 6 بیچز فارغ ہوچکے ہیں۔ ہر بیچ میں دو سو سے تین سو افراد کو تربیت دی جاتی ہے۔ تربیت حاصل کرنے والوں میں اکثر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سابق افسران ہوتے ہیں۔ فواد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ایک بڑی تعداد کو بھرتی کرکے پورے سرحد میں پھیلادیا گیا ہے جن کے ذریعے تباہی پھیلائی جارہی ہے۔ پشاور بم دھماکے کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ سو فیصد امریکیوں کی کارروائی ہے۔ اس نے بتایا کہ امریکیوں کی سرگرمیاں قریب سے دیکھنے کے علاوہ میں جلال آباد اور کابل میں امریکی قونصل خانوں میں بھی جاچکا ہوں اور میں وہاں کی صورت حال دیکھنے کے بعد وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ قونصل خانے دراصل امریکی جنگی مراکز ہےں جن کا استعمال پاکستان کے خلاف ہوتا ہے اور جہاں سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کے علاوہ ان کے ہونے کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا پشاور کا واقعہ امریکیوں نے خود کیا ہے یا انہوں نے مقامی لوگوں کے ذریعے کروایا ہے؟ فواد کا کہنا تھا کہ اس وقت پشاور میں غربت نے لوگوں کو اس حد تک پہنچادیا ہے کہ آپ کو پانچ ہزار میں ایک تجربہ کار کرایہ کا قاتل بآسانی مل سکتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اسے جیل میں طالبان کے رہنما مولوی رفیع الدین سے ملنے کا اتفاق ہوا‘ اور ان کے ساتھ طویل گفتگو سے یہ اندازہ ہوا کہ طالبان سخت امریکا مخالف ہےں اور ان کا ایجنڈا صرف اور صرف امریکیوں کا خاتمہ ہے، ہاں طالبان اُن شخصیات اور اداروں کو بھی نشانہ بنانا درست سمجھتے ہیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ امریکیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ طالبان عوام کو نشانہ بناسکتے ہیں اور نہ ہی عوامی مقامات پر دھماکا کرسکتے ہیں۔ پشاور کا واقعہ سو فی صد امریکی کارروائی ہے اور اس کو پشاور میں موجود بلیک واٹر نیٹ ورک کے ذریعے کرایا گیا ہے۔
سرحد حکومت کی کارکردگی کے بار ے میں فواد کا کہنا ہے کہ اسے اس جنگی حالت میں بھی عوام سے کوئی سروکار نہیں۔آپ پشاور کے ہر صحافی اور عام باخبر شخص سے پوچھیں کہ ”بابا کو ایزی لوڈ کرادو“ کا کیا مطلب ہے؟ تو وہ بتادے گا کہ ’بابا‘ حیدر خان ہوتی اور’ایزی لوڈ‘ پیسوں کو کہتے ہیں۔ فواد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ایسی کرپٹ حکومت کا عوام اور ان کے جان ومال کے تحفظ سے بھلا کیا سروکار ہوسکتا ہے؟ وہ تو اس حالت میں بھی پیسے کمانے کے چکر میں لگی ہے‘ ایسے میں آپ سرحد پولیس سے کیا توقع کرسکتے ہیں جس کے اکثر اعلیٰ افسران امریکیوں کے ہاتھوں بک چکے ہیں۔ پشاور کے اس بہادر صحافی نے بتایا کہ اس وقت پشاور میں لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ امریکی کسی کو بھی طالبان کے نام پر اٹھا لیتے ہیں، امریکی نہ تو پشاور پولیس کو مطلع کرتے ہیں نہ ہی کسی اور حکومتی ادارے کو خاطر میں لاتے ہیں، تو ایسے میں میرے پاس چھپنے کے علاوہ کیا چارہ رہ جاتا ہے؟ اور ویسے بھی پولیس اور وزارت داخلہ کا کام اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا نہیں بلکہ یہاں گھومنے والے خونی امریکی درندوں کو پولیس سے چھڑا کر یہ پیغام دینا ہے کہ امریکی پاکستانی قانون سے بالاتر بہت ہی اعلیٰ درجے کے انسان ہیں‘ جن کے لیے کیڑے مکوڑوں یعنی پاکستانیوں کی قربانی بھی دی جاسکتی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا سرحد اور پشاور کی صحافتی برادری آپ کے ساتھ کھڑی ہے اور یہ کہ آپ نے پشاور کے بجائے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کیوں کی؟ فواد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پشاور پریس کلب دراصل امریکی کلب بنا ہوا ہے۔ وہاں ایک دن سی آئی اے کے اہلکار آتے ہیں اور تمام صحافیوں کو نکال دیا جاتا ہے۔ جس کو آپ پشاور پریس کلب کہتے ہیں اس کا کوئی رکن کلب کے اندر نہیں جاسکتا۔ پھر امریکی قونصل جنرل آتا ہے اور صحافیوں کو باہر نکال دیا جاتا ہے۔ فواد نے بتایا کہ اس وقت پشاور کے صحافیوں کے ہاتھوں میں کمائی کا ایک بڑا ذریعہ آگیا ہے اور وہ ڈالروں میں کماتے ہیں۔ پشاور پریس کلب کے ایک اعلیٰ عہدے دارکے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ اس نے امریکیوں سے دس ہزار ڈالر لیے ہیں۔ اس نے امریکا کے لیے اِپلائی کیا ہوا ہے اور کسی بھی وقت امریکا چلاجائے گا۔
فواد علی کا قصہ ایک رپورٹر پر آنے والی مصیبت کی کہانی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے محب وطن پاکستانیوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اگر اس پوری کہانی پر نظر ڈالی جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے ملک میں امریکی عسکری اور دہشت گرد ملیشیا کس حد تک اپنا نیٹ ورک قائم کرچکی ہے۔ بلیک واٹر کس طرح ہمارے ملک کے اندر بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے۔ اس کھیل میں کس حد تک پاکستانی حکمران اور یہاں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے شریک ہیں۔ کس نے ان کو آزادی دی ہے اور کون ان سے چشم پوشی کررہا ہے۔ امریکا نے کتنے لوگوں کو خرید لیا ہے اور کس کی کتنی بولی لگتی ہے۔ اس ملک میں امریکا کے لیے اور وطن کے خلاف کام کرنا کتنا آسان اور ملک کی بقا کی جنگ لڑنا کتنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہمارا میڈیا خصوصاً صوبہ سرحد کے صحافی کس حد تک درست رپورٹنگ کررہے ہیں‘ کون کتنے ڈالر وصول کررہا ہے؟ فواد علی شاہ کے ان انکشافات سے ان سارے سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ اپنے ضمیر کو بیچنے والے سیکڑوں یا ہزاروں افسران‘ صحافی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو خرید کر کیا کروڑوں پاکستانیوں کو غلام بنایا جاسکتا ہے؟ مایوسی کی خوفناک اندھیری خبروں کے بیچ میں نظر آنے والی چھوٹی سی کرن کے پیچھے ایک ایسی روشنی بھی نظر آرہی ہے جو ان کالے چہروں کو پاکستان سے بھاگنے پر مجبور کردے گی۔ گزشتہ دنوں امریکی کیری لوگر بل کے خلاف ریفرنڈم میں جوق درجوق آنے والوں کے چہروں سے صاف لگ رہا تھا کہ پاکستانی عوام امریکا اور اس کے مقامی تنخواہ دار ایجنٹوں کے خلاف جدوجہد پر نہ صرف آمادہ بلکہ اس کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ فواد علی جیسے صحافیوں کو دوڑانے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عنقریب ان کی دوڑ لگنے والی ہے، عنقریب عوامی سیلاب سے ایک ایسا انقلاب رونما ہونے والا ہے جس میں وطن کے لیے کام کرنے والوں کے لیے آسانیاں اور دشمن کے تنخواہ داروں کے لیے مشکلیں ہی مشکلیں ہوں گی۔
………………………………………………………………………………………………………….