Archive for نومبر, 2009

Articles

بلتستان میں ایم کیوایم کا ’’عظیم الشان‘‘ جلسہ

In پاکستان on نومبر 11, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

ایم کیو ایم ایک ’’ملک گیر‘‘ جماعت ہے جس کا ’’پیغام‘‘ جہاں جہاں پہنچتا ہے وہاں ایک انقلاب رونما ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے جلسے اتنے بڑے نہیں ہوتے جتنے بڑے دکھائیں جاتے ہیں لیکن ہم ان لوگوں کی نیتوں کو شک کی نگاہ سے اس لیے دیکھتے ہیں کہ ایم کیو ایم ایک عوامی جماعت ہے اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کرکے ’’جاگیردارں ‘‘اپنے نظام کی بقا کی ایک ناکام جدوجہد کر رہے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ایم کیو ایم پر اعتراض کرنے والے نائن زیرو کے اندر نصب جدید ترین مانیٹرنگ نظام کی طرف توجہ دلا کرکہتے ہیں کہ ایسے نظام کی بھلا ایک پارٹی کو کیا ضرورت؟ ایسی بہکی بہکی باتیں کرنے والے اب کہتے ہیں کہ سکردو میں عوام کا ٹھاٹے مارتا ہوا سمندر دکھانے والی تصویر دراصل اسی نائن زیرو کے اندر قائم میڈیا ونگ کی حسن کارکردگی ہے جس نے بلتستان میں الطاف بھائی کے خطاب کے لیے سننے والوں کی ’’صحیح ‘‘ عکاسی کی ہے۔ ایک کیفے پیالہ والے ( بلاگ کا نام ہے) نے اس پر ایک تحریر لکھی ہے جو ہم نے اپنے انگریزی بلاگ پر ہو بہو نقل کی لیکن ضروری سمجھا کہ ہمارے اردو بلاگرز ساتھی بھی اس اہم موضوع پر اظہار خیال کریں۔ واضح رہے کہ مذکورہ بلاگر نے اس تصویر کو چھاپنے والے اخبار ایکسپریس پر بھی سخت تنقید کی ہے۔ اس کے جواب میں ایکسپریس والے بچارے کہہ رہے ہوں گے( ہمارا گمان ہے ) کہ ایسا کون نہیں کرتا؟ آخر ہمیں ہی کیوں سنگل آوٹ کیا جارہا ہے؟


mqmskardurally-pshopped

Articles

لوکھنڈوالااِٹ اسلام آباد

In پاکستان on نومبر 10, 2009 منجانب ابو سعد

جنہوں نے انڈین فلم ’’شوٹ آوٹ اِٹ لوکھنڈوالا‘‘ دیکھی ہے وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ عنوان کیا بتارہا ہے! شوٹ آوٹ اِٹ لوکھنڈ والا ممبئی پولیس کے ’انکاونٹر ‘پر بننے والی بولی ووڈ فلموں میں سے ایک ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ آپ میں سے کتنوں نے یہ فلم دیکھی ہے لیکن لگتا ہے کہ اسلام آبادپولیس کے کرتادھرتاوں نے یہ فلم ضرور دیکھی ہوگی جب ہی تو اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے پہلے سے تھانے میں بند ایک دہشت پسند جن پر الزام ثابت نہیں ہوا تھا کو پولیس نے چیک پوسٹ پر لے جاکر اُڑادیا۔ انگریزی اخبار دی نیشن کے مطابق اسلام آباد پولیس خصوصا آئی جی پر دہشت گرد واقعات کو روکنے میں ناکامی کی صورت میں سخت دباو تھا اس لیے انہوں نے پہلے سے پولیس کسٹڈی میں بند ایک ملزم کا قربانی کا بکرا بنا کر اس کا جھوٹا انکاونٹر کرواکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انہوں اس دہشت گرد کو قتل کرکے گویا پورے اسلام آباد کو بچا لیا۔ لوکھنڈوالا اب کسی رہائشی کمپلیکس کا نام نہیں بلکہ پولیس انکاونٹر کا دوسرا نام بن چکا ہے۔ اللہ پہلےہمیں ایسے آئی جی پولیس اور ایسے حکمرانوں سے اپنے امان میں رکھے۔ بھارت اور امریکا سے جانوں کو خطرہ بعد کی بات ہے۔

Articles

نیو یارکر کی رپورٹ یا امریکی خواہشات

In پاکستان on نومبر 10, 2009 منجانب ابو سعد

یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔ امریکا اور اس کے حواریوں نے اب تک پاکستان کی ایٹمی قوت کو تسلیم نہیں کیا چنانچہ پہلے ہی دن سے پاکستان پر طرح طرح سے دباﺅ ڈالا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکی پالیسی اورمعیشت یہودیوں کے شکنجے میں ہے چنانچہ امریکی زعماءوہی کچھ کرنے پر مجبور ہیں جو یہودی ان سے کرانا چاہتے ہیں اور یہودیوں نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ ایک مسلم ملک بھی ایٹمی طاقت بن سکے۔اوراب تو ایران بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کررہا ہے جس سے اسرائیل خوف زدہ ہے۔ پورے خطہ عرب میں صرف اورصرف اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے لیکن اس کی طرف سے امریکا اور اس کے حواریوں نے آنکھیں بندکررکھی ہیں۔ برعظیم میں پاکستان سے پہلے بھارت نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی اور1974ءہی میں پوکھران میں ایٹمی دھماکا کرکے پاکستان کو دھمکی آمیز پیغام دے دیا تھا‘ لیکن اس پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگی۔پاکستان نے تو بہت بعد میں ایٹمی دھماکے کیے اور وہ بھی بھارت کے جواب میں۔لیکن پاکستان کے دیرینہ ”دوست“ امریکا نے پاکستان پر پابندیاں عائد کردیں مگر پاکستان اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کرچکاتھا۔ اس کے بعد ہی سے امریکا مختلف حیلوں سے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور طاقت کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جو امریکا اپنے تمام صلیبی حواریوں کو لے کر پاکستان کے پڑوس افغانستان میں اتر آیا ہے یہ بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے اور اس کی ایٹمی تنصیبات پر قبضہ کرنے کے طویل المیعاد منصوبے کا حصہ ہے۔یہ تو سب کو نظر آرہا ہے کہ امریکا نے اپنی دہشت گردی کی جنگ پاکستان میں داخل کردی ہے اورکہا جارہا ہے کہ افغانستان سے زیادہ پاکستان خطرناک ہے۔تازہ ترین بیان برطانوی مسلح افواج کے سربراہ سرجوک اسٹریپ کا ہے کہ القاعدہ افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان کے نسبتاً ایک چھوٹے علاقہ میں منتقل ہوگئی ہے۔امریکا وبرطانیہ کو القاعدہ اورطالبان کبھی قبائلی علاقوں میں نظر آتے ہیں اور کبھی کوئٹہ میں۔ یہ محض بیانات اورقیاس آرائیاں نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جارہی ہے اورالقاعدہ وطالبان کے بہانے آئندہ کسی بھی وقت بری فوجیں پاکستان میں داخل کی جاسکتی ہیں‘ فضائی حملے تو ہوہی رہے ہیں اورپاکستان کے حکمران دم سادھے بیٹھے ہیں۔زمینی فوج داخل ہوگئی تو شاید اس کے خلاف بھی پارلیمنٹ سے متفقہ قرار داد منظور کرانے کے سوا کچھ نہ کیا جائے۔ امریکی جریدے نیویارکر نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے جو رپورٹ شائع کی ہے وہ بے مقصد نہیں ہے۔پاکستان کی طرف سے اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی گئی ہے لیکن جو کچھ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے وہ خالی ازعلت نہیں اور اس میں بین السطور پڑھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے‘ صرف تردید کافی نہیں ہے۔مذکورہ رپورٹ امریکا کے مشہور صحافی اوربرعظیم کے امور کا ماہر سمجھے جانے والے شخص سیمورہرش کی تیار کردہ ہے جس کے رابطے اہم شخصیات سے ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لیے پاکستان اورامریکا میں مذاکرات ہورہے ہیں اورایٹمی تنصیبات کو دہشت گردوں کے ہاتھوں کسی بھی خطرے کے پیش نظر چند گھنٹوں میں اپنی تحویل میں لینے کے لیے امریکی جوائنٹ اسپیشل آپریشن کمان کے دستے علاقے میں موجود ہیں جن کے پاس سیکورٹی پلان بھی موجود ہے۔یہ دستے فوری طور پر پاکستان پہنچ کر ایٹمی اسلحہ اپنے قبضہ میں لے سکتے ہیں۔رپورٹ میں یہ شبہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ سرگودھا ائیربیس پر ایف 16طیاروں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ ایٹمی تنصیبات اس علاقہ میں موجود ہیں۔سیمورہرش کی باخبری کا اندازہ اس بات سے ہوجاتا ہے کہ ان کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ ایف 16طیارے تو پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے سے پہلے بھی سرگودھا ائیربیس پر ہوتے تھے۔رپورٹ کا بیشتر حصہ تو اخباری اصطلاح میں”ٹیبل اسٹوری“ معلوم ہوتا ہے تاہم اس کا خطرناک ترین پہلو یہ انکشاف ہے کہ”گزشتہ گرمیوں میں ایک جھوٹی خبر یہ ملی کہ پاکستان کے 80سی100تک کے ایٹم بموں میں سے ایک غائب ہے جس پر دبئی میں موجود ایف بی آئی‘سی آئی اے‘ پینٹا گون اورانرجی ڈیپارٹمنٹ کی ایکشن ٹیم پاکستان پر حملے کے لیے تیار ہوگئی۔تاہم چار گھنٹے بعد یہ خبرغلط ثابت ہوئی تو ٹیم کو روانگی سے روک دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ تحقیق تو نہیں کی گئی ہوگی کہ یہ افواہ کن ذرائع سے پھیلائی گئی۔لیکن تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اگر اور کچھ دیر تک افواہ کی تردید نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔اس سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ ایسی ہی کسی اورافواہ کی بنیاد پر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر یلغارہوسکتی ہے۔یہ افواہ خود امریکی ذرائع بھی اڑاسکتے ہیں اورامریکا اس پرفوری عمل کرسکتا ہے۔کیونکہ دبئی میں تربیت یافتہ ایکشن ٹیم کی موجودگی ظاہر کررہی ہے کہ امریکا اس کے لیے تلا بیٹھا ہے۔نیویارک کی اس رپورٹ کے مطابق جنرل کیانی اور امریکی ایڈمرل مائیکل مولن میں ذاتی دوستی ہے اورروزانہ کی بنیاد پر باہم رابطے ہیں چنانچہ امریکا اورپاکستانی فوج میں یہ مذاکرات ہورہے ہیں کہ ایٹمی تنصیبات اوراسلحہ کو کوئی خطرہ درپیش ہو تو ماہرین پر مشتمل امریکی ٹیم کو حرکت میں آنے کی اجازت ہوگی اورامریکی دستے جوہری ہتھیاراپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جوائنٹ اسپیشل آپریشنز کمان نے پاکستانی ایٹمی اسلحہ کی منتقلی کے لیے بھی منصوبہ بندی کرلی ہے‘ پاک فوج کو خصوصی فنڈز دیے جائیں گے‘ پاکستان نے ہتھیاروں کے مقامات اورکمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے بارے میں معلومات فراہم کردی ہیں۔ پاکستان کے دفترخارجہ نے اس رپورٹ کو بے بنیاد اورمن گھڑت قرار دیا ہے۔امریکی سفیراین ڈبلیو پیٹرسن نے بھی اس کی تردید کی ہے کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کے لیے پاک فوج کو مدد فراہم کررہا ہے یا ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کی خواہش رکھتا ہے۔امریکی سفیر کو تویہی کہنا چاہیے تھا لیکن پاکستان کے عوام امریکی خواہشات سے بخوبی واقف ہیں۔سیمورہرش کی رپورٹ ایک خواہش کی عکاسی ہی تو ہے۔ امریکی سفیر نے اس رپورٹ کو ایک الزام قرار دیا ہے۔ صحافتی آزادی کا نام لے کر امریکی انتظامیہ اس الزام تراشی پر نیویارکر یا سیمورہرش سے تو کوئی بازپرس نہیں کرے گی لیکن اہم سوال یہ ہے کہ دبئی میں اسپیشل ٹیم کیا کررہی ہے۔سوال تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے اندر بلیک واٹر‘ زی وغیرہ جیسی متعدد امریکی ایجنسیوں کے ہوتے ہوئے باہر سے کسی ٹیم کو بھیجنے کی ضرورت کیا ہے۔ امریکی تو کہوٹہ کے قریب ہی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔

Articles

وہ اکتاہٹ ہمیں فوجی حکومت میں نہیں ہوتی

In پاکستان on نومبر 5, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

انور شعور نے آج کیا قطعہ کہا ہے۔

عوامی دور میں فورا دمادم ہونے لگتی ہے

کسی آمر کی من موجی حکومت میں نہیں ہوتی

ہوا کرتی ہے جمہوری حکومت میں جو اکتاہٹ

وہ اکتاہٹ ہمیں فوجی حکومت میں نہیں ہوتی

بات وزنی ہے۔ شاید یہ بہت ساروں کی دل کی بات ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب میں زرداری ، رحمن ملک(ڈکیت) اور حسین حقانی ( نہ کہ پیپلز پارٹی ) کی حکومت سے سخت اکتا چکا ہوں  یہ سمجھتا ہوں کہ جنرل پرویز میراثی و طبلچی کی فوجی حکومت پاکستان کی بری حکومتوں میں سے ایک بلکہ سب سے بری حکومت تھی۔ فوج کا سیاسی کردار انتہائی بے ہودہ اور کالا ہے کہ اس کا سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ موجود حکومت کی امریکا نوازی اور کرپشن کو دیکھتے ہوئے خوش ہوا جائے؟

Articles

غیر شادی شدہ خواتین بیوگان سے بھی زیادہ مظلوم ہوتی ہیں

In Uncategorized on نومبر 5, 2009 منجانب ابو سعد

منو بھائی نے ایک ایسے معاشرتی مسئلے پر قلم اٹھایا ہے جو ہر کسی کی توجہ کا مرکز ہونا چاہیے۔ جہیز کی لعنت کے سبب ہماری کتنی بہنیں اور بیٹیاں گھروں پر بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ ان بہنوں کے مسائل کیا ہیں اور معاشرہ ان کی کیا مدد کرسکتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے منوبھائی کا یہ کالم پڑھ لیتے ہیں۔  امید ہے کہ میرے ساتھی بلاگرز اس موضوع پر کچھ تجاویز بھی دیں گے کہ ہم ایسی بہنوں بیٹیوں کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟ مضمون کے گرافک ویو کے لیے یہاں کلک کریں

…………………………………………………………………..

سب سے پہلے میں اس خاتون کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو اپنے حلقہ احباب اور عزیزوں میں منی باجی کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔ شکریہ ادا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے میری توجہ پاکستانی معاشرے کے ایک ایسے معاشرتی اور انسانی حقوق کے مسئلہ پر دلائی جو بہت کم لوگوں کی توجہ میں آیا ہے اور یہ مسئلہ ان خواتین کا ہے جو مناسب اور موزوں رشتے نہ ملنے کی وجہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک نہیں ہوسکتیں اور ایک خاص عمر کے بعد غیر شادی شدہ رہ جاتی ہیں اور یوں اپنی زندگی تنہائی میں گزار کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کا تناسب پندرہ فیصد سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے، خاص طور پر مربوط اور مشترکہ گھرانوں کے بکھر جانے کے بعد اور ہجرت درہجرت کے دردناک تجربات سے گزرنے اور دیہات سے شہروں میں نقل مکانی کے بعد پردہ دار متوسط گھرانوں کی لڑکیوں کے لئے مناسب اور موزوں رشتوں کی تلاش مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی گئی اور محتاط گھرانوں کے بزرگوں نے رشتوں کا جواء کھیلنے سے گریز کو ہی مناسب سمجھا چنانچہ غیر شادی شدہ حالت میں اپنی زندگی گزارنے والی خواتین کا تناسب گھر گھر ہستی کی رونق اور نعمت سے فیض یاب ہونے والی خواتین کے مقابلے میں پندرہ بیس فیصد سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے اور معاشرتی زندگی میں اجنبیت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے مستقبل میں ایسی خواتین کا تناسب بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔
ایسی غیر شادی شدہ خواتین کا موازنہ اگر بیوگان کے ساتھ کیا جائے تو اس نوعیت کے حقائق سامنے آئیں گے کہ بیوگان کے پاس ان کے مرحوم شوہروں کی چھوڑی ہوئی املاک اور مراعات ہوسکتی ہیں، ان کی اولادیں بھی ہوسکتی ہیں جو ان کے بڑھاپے کا سہارا بن سکیں اس کے علاوہ بیوگان کو ایک معاشرتی ہمدردی بھی حاصل ہوتی ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں بیوگان کااحترام بھی ہوتا ہے جبکہ غیر شادی شدہ خواتین ان تمام دنیاوی نعمتوں اور مراعات و حقوق سے محروم ہوتی ہیں۔ بھائیوں اور بہنوں، والدین اور عزیز رشتہ داروں کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ان خواتین کو کوئی سہارا، آسرا یامدد میسر نہیں ہوتی۔ ایک بہت ہی خوفناک اداسی اور تنہائی ہوتی ہے اور مردانہ یا پدرانہ طرز کے معاشروں میں یہ اداسی اور تنہائی اور بھی زیادہ خوفناک اور اذیت دینے والی ثابت ہوتی ہے۔ بعض حالات میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جن خواتین کو ڈولی اٹھانے والے کہار نہیں مل سکے انہیں جنازہ اٹھانے والے چارکندھے بھی نصیب نہیں ہوتے ہیں۔
منی باجی نے سر راہ مجھے روک کر کہا کہ منو بھائی میں آپ کی تحریروں میں خواتین کے لئے پائے جانے والے احترام اور ان کی تکریم میں کہی گئی باتیں پسند کرتی ہوں مگر کبھی آپ نے زندگی بھر کنواری رہنے والی خواتین کے مسائل پر بھی غور کیا ہے؟ منی باجی نے یہ شکایت بھی کی کہ حکومتوں کی طرف سے عوامی فلاح و بہبود کے جو پروگرام اور منصوبے جاری کئے جاتے ہیں ان میں بیوگان کے امدادی منصوبے اور پروگرام تو ہوتے ہیں مگر زندگی بھر کنواری رہ جانے والی خواتین کی داد رسی، مدد، اور اشک شوئی کی کسی کوشش کا ذکر نہیں ہوتا۔ غیر شادی شدہ خواتین کی امداد یا سہارے کا کوئی حوالہ بیت المال کے منصوبوں اور پروگرام میں بھی نہیں ہوتا اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے نام سے جاری ہونے والے بے نظیر سپورٹ پروگرام میں بھی غیر شادی شدہ خواتین کے لئے کوئی ہمدردی کا اشارہ نہیں ملتا۔ منو بھائی! کیا آپ اپنے ملک اور معاشرے کی ان غیر شادی شدہ خواتین کے معاشرتی حقوق اور انسانی حقوق کی پاسداری کے سلسلے میں حکمرانوں کو کوئی مفید مشورہ دے سکتے ہیں؟ میں نے منی باجی کی یہ فرمائش پوری کرنے کا وعدہ تو کر لیا مگر اب سوچتا ہوں کہ منی باجی کا یہ مشورہ حکمرانوں تک کیسے پہنچاؤں کیونکہ بزرگوں کا کہنا ہے اور سو فیصد درست ہے کہ مشورہ دینے سے کام نہیں بنتا مشورہ لینے سے کام بنتا ہے اور پھر یہ مشورہ دیا کس کو جائے کیونکہ کسی کو مشورے لینے کی فرصت بھی نہیں ہے اور مشورے لیں بھی لیں تو اس پر عملدرآمد کی فرصت نہیں ملتی۔

Articles

ہاں میں ملا ہوں

In پاکستان on نومبر 2, 2009 منجانب ابو سعد

پاکستان بننے کے بعد سے ستر کی دہائی تک جامعات کے کمیپسز میں دوپٹے والی اور داڑھی والے کا داخل ہونے ’طالبان‘ جامعہ کے لیے کمیپس کے اندر ہی عجائب گھر کی کسی مخلوق کی آمد ہوتی تھی۔ ایک بزرگ وکیل سے انڈین چینلز کے ذریعے آئے عریانی کی شکایت کی کہ معاشرے کو ڈرامے میں دکھائے گئے کرداروں جیسا بن دے گی تو موصوف مسکرا نے لگیں۔ بتایا ایک وقت وہ بھی تھا جب کراچی کے پارسی انسٹی ٹیوٹ میں مکمل عریاں رقص ہوا کرتا تھا اور شہر کی شرافیہ کے علاوہ مڈل کلاس کے شہری بھی اہل خانہ سمیت وہاں آکر زندگی کی ’رنگینیوں‘ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

یہ تو دور کی بات ہے۔ نوے کی دہائی میں اسکول اور کالج کا زمانہ دیکھا۔ یہی شعور والا زمانہ ہوتا ہے ۔ والدمحترم جو پیپلز پارٹی کے جیالے ہیں کی طرف  سےکرفیو جیسی پابندی تھی۔ میرا کوئی بیٹا مسجد میں آذان نہیں دے گا۔ مولوی ہمارا ’کسب گر‘ ہوتا ہے جیسے نائی ، موچی اور ترکھان ہمارے کسب گر ہوتے ہیں۔ اب بھلا میرا کوئی بیٹا کسب گروں والا کام کرے گا۔

اب اللہ کا شکر ہے سوچ بدل گئی ، والد صاحب بھی بدل گئے البتہ اب بھی جیالے ہی ہیں لیکن فرق اتنا پڑا ہے کہ چاروں بیٹوں کے ملا بننے سے اعتراض رہا اور نہ ہی ان کے اذان دینے پر پابندی ہے۔ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ گھر میں جمہوریت ہے کیا ہوا اگر ان کی پارٹی میں جمہوریت نہیں۔

تمہید کچھ لمبی ہوگئی لیکن بتاتے چلیں کہ جب سے نائن الیون ہوا ہے تو ملا ایک گالی بن چکا ہے ۔ کچھ قصور ہماری دینی سیاسی جماعتوں بالخصوص مولانا اقتدار کا بھی ہے لیکن اصل حصہ لبرل فاشسٹوں کے پروپیگنڈا ہے۔ فاشسٹ پروپیگنڈے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ یہی حالت پاکستان کے لبرل فاشسٹوں کا بھی ہے۔ یہ لبرل فاشسٹ اسی کی دہائی سے پہلے اپنے آپ کو کمیونسٹ کہلاتے تھے۔ اب اپرچونسٹ بن گئے ہیں امریکا کی مالا چپتے ہیں۔ کہلاتے لبرل ہیں لیکن اصل میں لبرل فاشسٹ ہیں۔ کراچی میں حق پرست فاشستوں کا میڈیا مانیٹرنگ سسٹم  دیکھا تو حیران ہوا ایسا سسٹم تو کسی ملک کا بھی نہیں ہوسکتا  بھلا ایک پارٹی کو اس کی کیا ضرورت پڑھ گئی؟ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ دکھانے کے لیے پروپیگنڈے کی ضرورت تو ہوتی اور اس کے لیے پوری کی پوری پروپیگنڈا مشنری درکار ہوتی ہے۔

 تو عرض کررہا تھا کہ نائن الیون کے بعد مذہبی رحجان رکھنے والوں کی طرف سے معذرت خواہانہ رویہ اپنایا گیا ہے ۔ مجھے کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔ میں ملا ہوں لیکن مسجد کا پیش امام یا مدرسہ کا فارغ و تحصیل مولوی نہیں ۔ اقبال کا ملا ہوں اگر چہ میں افغانی ملا ہوں لیکن میں اپنے اپنے آپ کو عالمگیر ملا سمجھتا ہوں۔

 عنوان تو ’’اقبال کی شاعری میں ملا کا کردار‘‘ ہے لیکن شاہ نواز فاروقی کا یہ مضمون(گرافک ویو) دراصل ملا کا مقدمہ ہے جس کو پڑھنے سے ملابوفیا میں مبتلا اکثر لبرل دوستوں کو افاقہ ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دس بارہ سال تک طالبان کی مسلسل حمایت کے بعد جو لوگ اچانک اُن کے خلاف ہوگئے ہیں اُن میں ایک نام ملک کے معروف کالم نویس ہارون الرشید کا بھی ہے۔ وہ طالبان اور ان کی ملاّئیت کے خلاف ہوگئے ہیں تو خیر یہ اُن کا ذاتی مسئلہ ہے‘ مگر وہ اپنے ایک کالم میں علامہ اقبال کو بھی گھسیٹ لائے ہیں اور انہوں نے فرمایا ہیں
”کبھی کسی نے سوچا کہ اقبال کی پوری شاعری ملاّ کی مذمت سے کیوں بھری ہے؟ اس لیے کہ وہ ماضی میں زندہ رہتا ہے۔ اختلاف کرنے والوں سےنفرت کرتا ہے اور انہیں جہنم کی وعید دیتا ہے۔“
اب مسئلہ یہ ہے کہ اوّل تو اقبال کی پوری شاعری ملاّ کی مذمت سے بھری ہوئی نہیں ہے۔ آپ اقبال کی اردو کلیات سے ملاّ کے بار ے میں بمشکل دس بارہ شعر نکال کر دکھا سکتے ہیں۔ پھر مزید دشواری یہ ہے کہ اقبال نے کہیں بھی ملاّ کی مذمت نہیں کی ہے۔ دراصل اقبال کو ملاّ کے کردار سے گہری ”شکایت“ ہے‘ اور شکایت و مذمت اور ان کی نفسیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مگر اقبال کو ملاّ سے شکایت کیا ہے؟ آیئے اس شکایت کا مرحلہ وار مطالعہ کرتے ہیں۔ اقبال کی ایک چار مصرعوں پر مشتمل نظم ہے جس کا عنوان ہے ”ملاّئے حرم“۔ اس نظم میں اقبال فرماتے ہیں
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
اس نظم میں اقبال کو ملاّ سے شکایت یہ ہے کہ وہ ”پہلے کی طرح“ خدا شناس یا ”عارف بااللہ“ نہیں رہا‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے انسان شناسی یا خودشناسی کی اہلیت کھو دی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک آدمی کا مقام کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آدمی اشرف المخلوقات ہے۔ مسجود ملائک ہے۔ اس کی نماز میں جلال اور جمال اس کی اسی حیثیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نظم میں ملاّ کے لیے اقبال کا مشورہ یہ ہے کہ اسے خداشناسی کے ہدف تک پہنچنے کے لیے خود شناسی پیدا کرنی چاہیے تاکہ اس کی نماز میں جلال و جمال پیدا ہوسکے اور اس کی اذان اقبال کی سحر یعنی غلبہ اسلام کی پیامبر بن سکے۔ سوال یہ ہے کہ اس نظم میں اقبال نے ملا کی مذمت کی ہے یا اس سے گہرے تعلق کی بنا پر شکایت کی ہے؟
خودشناسی اور خدا شناسی سےمحرومی معمولی بات نہیں۔ اس سےبڑ ے بڑے مسائل جنم لیتےہیں۔ اقبال کا ملاّ چوں کہ خداشناس نہیں رہا اس لیے وہ صرف تقریروں پر اکتفا کرنےلگا ہے اور اس نے”زورِ خطابت“ کو اپنےاور مسلمانوں کےلیے کافی سمجھ لیا ہے۔ اقبال نےاس امر کی بھی شکایت کی ہے‘کہتے ہیں؛
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
ظاہر ہے کہ ’’مستی گفتار‘‘ میں مبتلا ہونے کا نتیجہیہ نکلتا ہے کہ ’’قول‘‘ ’’عمل‘‘ کا متبادل بن جاتا ے۔ انسان کو لگتا ہے کہ اس کی گفتگو ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔ اقبال کی نظراس مسئلے پر بھی ہے‘ چنانچہ انہوں نے کہا ہے۔
آہ اِس راز سےواقف ہے نہ ملاّ نہ فقیہ
وحدت افکار کی ب ے وحدت کردار ہے خام
مطلب یہ ہے کہ جب تک قول عمل نہ بن جائے اور عمل میں ایک قرینہ نہ پیدا ہوجائے اُس وقت تک فکر کا بھی کوئی خاص مفہوم نہیں‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی فکر سےخود فریبی پیدا ہوسکتی ہے۔ وہ خود فریبی جو ہند کےملا ّکو لاحق ہوئی۔ اقبال کےاپنےالفاظ ہیں:۔
ملاّ کو جو ہے ہند میں سجد ے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
صرف یہی نہیں‘ اسےملوکیت بھی اسلامی اسلامی سی لگنےلگتی ہے۔ اس معاملے کی طرف اشارہ کرتےہوئے اقبال نےشیطان کی زبان سےکہلوا دیا ہے:۔
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
ظاہر ہے کہ جس کردار میں اتنی کمزوریاں در آئی ہوں اس کے پاس فراست تو نہیں ہوگی ‘چنانچہ اقبال نےملاّ کےخلاف یہ شکایت بھی درج کرائی ہے:۔
ملاّ کی نظر نورِ فراست سےہے خالی
مگر ان تمام باتوں کےباوجود اقبال ملا ّسےتعلق نہیں توڑتے۔ اِس کا ثبوت ان کی شکایات ہیں۔ مذمت اور شکایت کی نفسیات میں بڑا فرق ہے۔ مذمت لاتعلقی کےساتھ کی جاتی ہے اور شکایت تعلق کےساتھ۔ لیکن ملا ّکےکردار کا معاملہ اقبال کےیہاں اور بھی گہرا ہے۔
دراصل اقبال کےیہاں ”ملاّ“ اور ”مجاہد“ دو الگ شخصیتیں نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہی شخصیت کےدو پہلو ہیں۔ مجاہد ملاّ کا عروج ہے اور ملاّ مجاہد کا زوال۔ یعنی اقبال کےیہاں ملاّ جب خود شناس ہوجاتا ہے تو وہ مجاہد بن جاتا ہے‘ اور جب مجاہد نسیان میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ ملاّ کےکردار میں ڈھل جاتا ہے۔ اقبال کا ایک شعر ہے:۔
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملاّ کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
مگر اس شعر کا مطلب کیا ہے؟ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ ملاّ کےلیے اذان دینا ایک کام ہے ‘ ایک جاب ہے جس کا اسے معاوضہ ملتا ہے۔ اس کے برعکس مجاد کے لیے اذان ایک وجودی حقیقت ہے‘ جان کا سودا ہے‘ اس بات کا اعلان ہے کہ مجاہد وجود نہیں رکھتا‘ صرف اللہ وجود رکھتا ہے۔ اور اگر مجاہد کا وجود ہے تو صرف حق کی گواہی دینےکےلیے۔ اقبال کےاس شعر سےیہ مفہوم بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ملاّ اور مجاہد کی فکری کائنات ایک ہے۔ ان کی لغت ایک ہے۔ لیکن اس کائنات میں مجاہد اسلام کی روح اور ملاّ جسم کی علامت ہے۔ یعنی ملاّ محض لفظ ہے اور مجاہد اس لفظ کا مفہوم۔ البتہ یہ بات طے شدہ ہے کہ ملاّ اسلام اور اقبال کی فکری کائنات کا ایک ”ناگزیر“ کردار ہے۔ اس کی جگہ نہ کوئی ”مسٹر“ لے سکتا ہے نہ کوئی میجر جنرل یا جنرل۔ مگر پھر مسئلے کا حل کیا ہیے؟ مسئلے کا حل یہ ہے کہ ملاّ کو مجاہد بننےپر مائل کیا جائے‘ اس کےسوا مسئلے کا ہر حل غلط اور فضول ہے۔ مگر ملاّ کےسلسلے میں اقبال کا سب سےمعرکہ آراءشعر تو رہ ہی گیا۔ اقبال نےکہا ہے:۔
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو اس کےکوہ و دمن سےنکال دو
اس شعر میں اقبال نےملاّ کو غیرتِ دین کی علامت کےطور پر پیش کیا ہے۔ بلاشبہ اس کا حوالہ افغانی ہیں مگر اقبال کےیہاں ملاّ کا کردار عالمگیر یا عالم اسلام کے حوالے سے یونیورسل ہے۔ چنانچہ ملا صرف افغانیوں کے لیے نہیں تمام مسلمانوں کے لیے اہم ہے‘ اس لیے کہ وہ قرآن وحدیث کا حافظ ہے ‘ دینی فکر اور مذہبی ورثے کی منتقلی کا ایک ذریعہ ہے۔ وہ ان امور پر مطلع ہے جس سے محض آگاہ ہونے کے لیے بھی ایک عمر اور طویل تربیت درکار ہے۔ اقبال بھی ملا کو بدلنا یا ریپلیس کرنا نہیں چاہتے‘ اس لیے انہوں اس کی شکایات درج کرائی ہیں‘ مذمت نہیں کی۔ اور خواہش کی ہے کہ کاش وہ ایک بار پھر خودشناس اور خدا شناس ہوجائے۔ یعنی اقبال کا مجاہد اور مومن بن جائے۔

Articles

سبیلنا سبیلنا اقتدار اقتدار

In پاکستان on نومبر 2, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

cartoon