منو بھائی نے ایک ایسے معاشرتی مسئلے پر قلم اٹھایا ہے جو ہر کسی کی توجہ کا مرکز ہونا چاہیے۔ جہیز کی لعنت کے سبب ہماری کتنی بہنیں اور بیٹیاں گھروں پر بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ ان بہنوں کے مسائل کیا ہیں اور معاشرہ ان کی کیا مدد کرسکتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے منوبھائی کا یہ کالم پڑھ لیتے ہیں۔ امید ہے کہ میرے ساتھی بلاگرز اس موضوع پر کچھ تجاویز بھی دیں گے کہ ہم ایسی بہنوں بیٹیوں کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟ مضمون کے گرافک ویو کے لیے یہاں کلک کریں
…………………………………………………………………..
سب سے پہلے میں اس خاتون کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو اپنے حلقہ احباب اور عزیزوں میں منی باجی کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔ شکریہ ادا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے میری توجہ پاکستانی معاشرے کے ایک ایسے معاشرتی اور انسانی حقوق کے مسئلہ پر دلائی جو بہت کم لوگوں کی توجہ میں آیا ہے اور یہ مسئلہ ان خواتین کا ہے جو مناسب اور موزوں رشتے نہ ملنے کی وجہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک نہیں ہوسکتیں اور ایک خاص عمر کے بعد غیر شادی شدہ رہ جاتی ہیں اور یوں اپنی زندگی تنہائی میں گزار کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کا تناسب پندرہ فیصد سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے، خاص طور پر مربوط اور مشترکہ گھرانوں کے بکھر جانے کے بعد اور ہجرت درہجرت کے دردناک تجربات سے گزرنے اور دیہات سے شہروں میں نقل مکانی کے بعد پردہ دار متوسط گھرانوں کی لڑکیوں کے لئے مناسب اور موزوں رشتوں کی تلاش مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی گئی اور محتاط گھرانوں کے بزرگوں نے رشتوں کا جواء کھیلنے سے گریز کو ہی مناسب سمجھا چنانچہ غیر شادی شدہ حالت میں اپنی زندگی گزارنے والی خواتین کا تناسب گھر گھر ہستی کی رونق اور نعمت سے فیض یاب ہونے والی خواتین کے مقابلے میں پندرہ بیس فیصد سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے اور معاشرتی زندگی میں اجنبیت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے مستقبل میں ایسی خواتین کا تناسب بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔
ایسی غیر شادی شدہ خواتین کا موازنہ اگر بیوگان کے ساتھ کیا جائے تو اس نوعیت کے حقائق سامنے آئیں گے کہ بیوگان کے پاس ان کے مرحوم شوہروں کی چھوڑی ہوئی املاک اور مراعات ہوسکتی ہیں، ان کی اولادیں بھی ہوسکتی ہیں جو ان کے بڑھاپے کا سہارا بن سکیں اس کے علاوہ بیوگان کو ایک معاشرتی ہمدردی بھی حاصل ہوتی ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں بیوگان کااحترام بھی ہوتا ہے جبکہ غیر شادی شدہ خواتین ان تمام دنیاوی نعمتوں اور مراعات و حقوق سے محروم ہوتی ہیں۔ بھائیوں اور بہنوں، والدین اور عزیز رشتہ داروں کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ان خواتین کو کوئی سہارا، آسرا یامدد میسر نہیں ہوتی۔ ایک بہت ہی خوفناک اداسی اور تنہائی ہوتی ہے اور مردانہ یا پدرانہ طرز کے معاشروں میں یہ اداسی اور تنہائی اور بھی زیادہ خوفناک اور اذیت دینے والی ثابت ہوتی ہے۔ بعض حالات میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جن خواتین کو ڈولی اٹھانے والے کہار نہیں مل سکے انہیں جنازہ اٹھانے والے چارکندھے بھی نصیب نہیں ہوتے ہیں۔
منی باجی نے سر راہ مجھے روک کر کہا کہ منو بھائی میں آپ کی تحریروں میں خواتین کے لئے پائے جانے والے احترام اور ان کی تکریم میں کہی گئی باتیں پسند کرتی ہوں مگر کبھی آپ نے زندگی بھر کنواری رہنے والی خواتین کے مسائل پر بھی غور کیا ہے؟ منی باجی نے یہ شکایت بھی کی کہ حکومتوں کی طرف سے عوامی فلاح و بہبود کے جو پروگرام اور منصوبے جاری کئے جاتے ہیں ان میں بیوگان کے امدادی منصوبے اور پروگرام تو ہوتے ہیں مگر زندگی بھر کنواری رہ جانے والی خواتین کی داد رسی، مدد، اور اشک شوئی کی کسی کوشش کا ذکر نہیں ہوتا۔ غیر شادی شدہ خواتین کی امداد یا سہارے کا کوئی حوالہ بیت المال کے منصوبوں اور پروگرام میں بھی نہیں ہوتا اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے نام سے جاری ہونے والے بے نظیر سپورٹ پروگرام میں بھی غیر شادی شدہ خواتین کے لئے کوئی ہمدردی کا اشارہ نہیں ملتا۔ منو بھائی! کیا آپ اپنے ملک اور معاشرے کی ان غیر شادی شدہ خواتین کے معاشرتی حقوق اور انسانی حقوق کی پاسداری کے سلسلے میں حکمرانوں کو کوئی مفید مشورہ دے سکتے ہیں؟ میں نے منی باجی کی یہ فرمائش پوری کرنے کا وعدہ تو کر لیا مگر اب سوچتا ہوں کہ منی باجی کا یہ مشورہ حکمرانوں تک کیسے پہنچاؤں کیونکہ بزرگوں کا کہنا ہے اور سو فیصد درست ہے کہ مشورہ دینے سے کام نہیں بنتا مشورہ لینے سے کام بنتا ہے اور پھر یہ مشورہ دیا کس کو جائے کیونکہ کسی کو مشورے لینے کی فرصت بھی نہیں ہے اور مشورے لیں بھی لیں تو اس پر عملدرآمد کی فرصت نہیں ملتی۔