Articles

ایک اطلاع

In پاکستان, بین الاقوامی تعلقات on دسمبر 14, 2009 by ابو سعد Tagged:

شاہ نواز فاروقی

 امتِ مسلمہ کے پاس جو ”اطلاع“ ہے، وہ اطلاع امریکا کے پاس ہوتی تو اس سے اب تک پانچ سو گھنٹے کی ”ٹیلی نیوز“ برآمد ہوچکی ہوتیں، اس کے حوالے سے دوہزار چھوٹے بڑے مذاکرے نشر ہوچکے ہوتی، ممتاز شخصیات کے ایک ہزار انٹرویوز نشر ہوکر ناظرین کے حافظے کا حصہ بن چکے ہوتی، چھوٹی بڑی دوسو دستاویزی فلمیں تخلیق ہوچکی ہوتیں، ہالی ووڈ میں پانچ چھ بڑے بجٹ کی فیچر فلموں پرکام جاری ہوتا۔ لیکن امتِ مسلمہ کے پاس اطلاع کیا ہی؟ عزیزانِ گرامی قدر! صرف یہ کہ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو مجاہدین نے شکست دے دی ہے۔ یہ ایک تاریخ ساز اطلاع ہے۔ کبھی امریکا کے پاس ایسی ہی تاریخ ساز اطلاع تھی۔ امریکا کو معلوم ہوگیا تھا کہ مجاہدین نے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دے دی ہے۔ اس ایک اطلاع پر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے خبروں‘ تبصروں‘ تجزیوں‘ انٹرویوز‘ دستاویزی اور فیچر فلموں کے کارخانے نہیں ملیں لگالی تھیں۔ ابلاغ کا عمل اسی کا نام ہے۔ مگر امتِ مسلمہ کا معاملہ عجیب ہے۔ اس کے پاس تاریخ ساز اطلاع ہے لیکن اس سے کچھ اور کیا اخبار کی ایک شہ سرخی بھی تخلیق نہیں ہو پارہی۔ یہ ہماری اطلاعاتی عسرت اور ابلاغی غربت کی انتہا ہے۔ اس دائرے میں پوری امتِ مسلمہ بلاشبہ ”خطِ غربت“ سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں تو ٹھیک طرح سے اپنی خوشی منانی بھی نہیں آتی۔ مگر اس کی وجہ کیا ہی؟بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ وسائل کی قلت ہے۔ لیکن مسئلہ وسائل کی قلت نہیں، ترجیحات کا درست تعین ہے۔ مسلم معاشروں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مسجد اور مدرسے کی تعمیر کے لیے آپ کو کروڑوں روپے دے سکتے ہیں، لیکن آپ اُن سے کہیں کہ ہمیں ایک ٹیلی ویژن چینل شروع کرنا ہی، تو اس منصوبے کے لیے وہ آپ کو دس روپے بھی نہیں دیں گی، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی دینی کام نہیں ہے۔ اُن کے ایسا سمجھنے کی ایک وجہ ٹیلی ویژن کا عام تصور ہے۔ ٹیلی ویژن کو عام طور پر فسخ وفجور پھیلانے کا آلہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ رائے سازی کی جنگ میں ٹیلی ویژن سب سے بڑے ذریعے کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ کروڑوں لوگوں کے لیے جو کچھ ٹیلی ویژن اسکرین پر ہے وہی حقیقت ہی، اور جو کچھ ٹیلی ویژن پر نہیں ہے اس کا یا تو وجود ہی نہیں، یا ہے تو اس کی اہمیت نہیں۔ ٹیلی ویژن کی یہ اہمیت افسوس ناک ہی، مگر امر واقع یہی ہے۔رائے سازی کے سلسلے میں ٹیلی ویژن کی اہمیت کی ایک اچھی مثال ”الجزیرہ“ ہے۔ مشرق وسطیٰ بادشاہوں اور آمروں کی سرزمین ہے۔ وہاں سیاسی رائے تخلیق کرنا اور عرب عوام کو بیدار و متحرک کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن الجزیرہ نے یہ کام کردکھایا۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ الجزیرہ نے یہ کام کس طرح کیا؟ مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کی ”تفصیلات“ دکھاکر۔ مگر یہاں تفصیلات کا مفہوم کیا ہی؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ الجزیرہ نے صرف اسرائیل کی بمباری‘گولہ باری اور حملے ہی رپورٹ نہیں کیی، بلکہ اس نے ان حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انسانی صورت حال کو بھی رپورٹ کیا۔ مثلاً یہ کہ جس گھرانے کے لوگ شہید ہوئے اس گھرانے پرکیا گزری؟ وہاں کس طرح گریہ و زاری کی گئی؟ اس گھرکی معاش کا کیا ہوا؟ بچوں کی تعلیم کا کیا ہوا؟ یہ تفصیلات ہمیشہ سے موجود تھیں مگر کبھی رپورٹ نہیں ہوتی تھیں۔ الجزیرہ نے انہیں رپورٹ کرکے اسرائیل ہی نہیں امریکا کے خلاف بھی عرب دنیا میں زبردست ردعمل پیدا کیا۔ ہم اطلاعاتی عسرت اور ابلاغی غربت کے مارے ہوئے نہ ہوتے تو امریکا کی شکست کا کامل ابلاغ امتِ مسلمہ کی نفسیات کو کچھ سے کچھ بناسکتا تھا۔ امتِ مسلمہ مغرب کے حوالے سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہی، اسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں، جوکچھ ہے مغرب کے پاس ہے۔ لیکن جو امت 20 سال میں دوسپر پاورزکو شکست سے دوچار کردے وہ معمولی امت تو نہیں ہوسکتی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا اور مجاہدین کا معرکہ برپا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ افغانستان میں ایک جانب ایمان اور ٹیکنالوجی کا معرکہ برپا ہے اور دوسری جانب شوقِ شہادت اور عسکری طاقت کی پنجہ آزمائی ہورہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان معرکوں میں ایمان کو ٹیکنالوجی پر اورشوقِ شہادت کو عسکری طاقت پر فتح حاصل ہوگئی ہے۔ مگر یہ اطلاع امتِ مسلمہ تک کیسے پہنچی؟

3 Responses to “ایک اطلاع”

  1. میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جسکے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ جہاں شاہنواز فاروقی کی سادہ دلی پہ جان دینے کو دل کرتا ہے وہاں اس امت کی بے حسی ایسا کرنے سے روک دیتی ہے۔ دل چاہتا ہے اتنا ضرور جیوں کہ انہی مجاہدین کو انکے بقول اسلام کا نام سربلند کرتا دیکھوں۔

  2. انیقہ ناز

    "میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جسکے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔”

    مذکورہ بالا فقرہ دراصل روشن خیالوں کے لئے ہے جو ایک عرصے سے مغربی تہذیب کے اسیر ہیں۔

    آپ کی خوہش ضرور ہوری ہوگی اور آپ انشااللہ بہت جلد دیکھیں گی۔

  3. محترمہ عنیقہ صاحبہ! آپ شاید آجکل اخبارات نہیں پڑھ رہی ہیں، جو امریکہ کے جنرل پیٹریاس کے بیانات سے بھرے پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ صدر اوباما کی افغانستان سے فوج نکالنے کی اطلاعات بھی شاید آپ تک نہیں پہنچی ہوں گی۔

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: