پختون کے گھر پیدا ہونے کے باوجود مجھے خان کہلوانا پسند نہیں۔ چاہتا ہوں مجھے صرف پاکستانی پکارا جائے۔ بالکل اسی طرح مجھے ہمیشہ اس بات سے نفرت رہی ہے کہ کوئی مجھے بریلوی ، دیوبندی ، اہل حدیث ، حنفی ، حنبلی ،شافعی ، مالکی ، جعفری ، اہل سنت اوراہل تشیع پکارے۔ کیا ہم صرف مسلمان نہیں کہلائے جاسکتے جس طرح ہمارے نبی مہربان صل اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام مسلمان ہی کہلائے جاتے ہیں۔ جامعہ کراچی میں جو دوست ملے تھے ان میں اہل تشیع ، اہل سنت ، حتیٰ کہ دہریے بھی تھے۔ ایک دوست کا تعلق سپاہ صحابہ سے تھا۔ شاید ہی میں نے کسی سے اتنی بحث کی ہوگی جتنا میں نے ان کو سنایا ہے۔ میں ان کو پاکستان میں فرقہ پرستی کا ذمہ دار ٹھیراتا تھا۔ اب بھی میری سوچ نہیں بدلی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ بالکل اسی طرح کہ ’’اپنا مذہب چھوڑو نہیں ‘ دوسرے کا مذہب چھیڑو نہیں ‘‘ کہ مصداق ہمیں کسی کے مسلک کو برا کہنے کے بجائے اپنے مسلک کے صحیح ہونے کی گواہی اپنے عمل سے دینی چاہیے۔
یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ کہیں مجھے کسی خاص مسلک کا حامی اور کسی دوسرے کا مخالف نہ سمجھا جائے۔
میں نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو یہ سننے لگا کہ میڈیا پر ایک خاص مسلک کا غلبہ ہے۔ کراچی کے ایک بزرگ صحافی نے تو یہاں کے میڈیا گروپس کے متعلق کہا کہ یہاں یا تو الطاف حسین کے ماننے والوں کی چلتی ہے یا پھر امام حسین کے۔ مجھے نہیں پتا کہ کس کی چلتی ہے اور کس کی نہیں۔ ہمارا میڈیا کس حد تک ’’برابر روزگار فراہم ‘‘ کرنے کے فلسفے پر عمل کرتا ہے۔ لیکن آج ایک بہت ہی دلچسپ خبر نظر سے گذری جس میں ’’عوام دوست‘‘ پیپلز پارٹی کی ایک اہم لیڈر نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ’’شیعہ دوست‘‘ ہے۔ آج ۱۵جنوری کو شائع ہونے والی اس خبر کی سرخی کچھ یوں ہے’’ذوالفقار مرزا سے مذاکرات کے بعد شیعہ علما نے احتجاج کی کال واپس لے لی‘‘(تفصیلی خبر کے لیے یہاں کلک کریں)۔ خبر میں شہلا رضا سے متعلق یہ جملے درج ہیں’’اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا نے کہا کہ انہوں نے حکومت اور شیعہ علما کے درمیان پل کا کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ حکومت عوام دوست ہے۔‘‘
زرادری اگرچہ لاہور میں دربار لگاتے ہیں لیکن زرداری نے نوڈیرو میں تقریر کے ذریعے سندھ کارڈ کا تاثر دے کر پیپلز پارٹی کو سندھی قوم پرست پارٹی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب شہلا رضا کا یہ بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک خاص مسلک کی دوست جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی کے ناقدین تک کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کتنی کرپٹ اور عوام دشمن نہ ہوجائے اس کی ایک خصوصیت بہر حال اس کی خوبی شمار ہوتی ہے کہ یہ وفاق کی علامت ہے، لگتا یوں ہے اس کے قائدین اس کو سندھ کی پارٹی بنانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح اس پارٹی سے بجا طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ یہ مسالک کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دے گی۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ یہ لسانی کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ جماعت بننے کی راہ پر گامزن ہے۔
میں دعوٰی تو نہیں کر سکتا لیکن کہا یہی جاتا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو شیعہ تھا ۔ بینظیر کی شادی کی پہلی خبر جو مشہور ہوئی تھی مگر نہیں ہوئی ۔ وہ فیصل صالح حیات سے تھی وہ شیعہ ہے ۔اب زبان زدِ عام یہی ہے کہ زرداری شیعہ ہے
اس لنک پہ اس سے متعلق ایک تحریر ہے۔ دیکھئیے گا۔
http://faroutliers.wordpress.com/2006/10/13/pakistans-transition-from-shia-to-sunni-leadership/
عنیقہ میرا آپکو مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ اس گند میں حصہ دار نہ بنیں!
یہ وقت متحد ہونے کا ہے تفرقہ بازی کا نہیں پاکستان کے دشمن اسی طرح پاکستانیوں کے جزبات سے کھیل کر انہیں ٹکڑوں میں بانٹتے رہے ہیں !کسی کا مذہبی اعتقاد کیا ہے ہمیں اس سے کیا غرض؟
عبداللہ صاحب کاش آپ ایم کیو ایم جیسی قوم پرست اور دیگر قومیتوں کے درپے جماعت بلکہ معذرت گینگ کی حمایت کرنا چھوڑ دیں
جناب تلخابہ صاحب امید ہے کہ اس خبر سے آپکے ہاضمے کو افاقہ ہوگا!:)

اور اس سے بھی!
http://www.jang-group.com/jang/jan2010-daily/17-01-2010/karachi.htm
اس صفحے کی ساتویں خبر جس میں ذکر ہے اے پی ایم ایس او کی مرکزی کمیٹی میں مزید چھ اراکین کا اضافہ جن میں سندھ اور پنجاب سے ذمہ داران شامل ہیں اور ان میں سے پانچ کا تعلق پنجاب اور ایک کا سندھ سے ہے!
میرا پچھلا تبصرہ ڈلیٹ کر کے آپنے ثابت کردیا ہے کہ آپ کتنے بڑے منافق اور پاکستان و کراچی کے دشمن ہیں!
لسانییت، صوبائیت،فرقہ واریت، اورقومیت کے جھگڑوں نے پاکستان کو برباد کیا ہوا ہے۔خدارا پاکستانی ان چکروں میں نہ پڑیں۔
وضاحت : عبداللہ صاحب آپ کا کونسا تبصرہ ڈیلیٹ کردیا گیا ہے؟ میں تو قادیانیوں کے تبصرے ڈیلیٹ نہیں کرتا آپ تو پھر بھی میرے مسلمان بھائی ہے؟ شاید آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ یا پھر کوئی تیکنکی مسئلہ۔ آپ وہ تبصرہ دوبار پوسٹ کردیں یا مجھے ای میل کردیں۔
جہاں تک کراچی دشمنی والی بات کا تعلق ہے تو کراچی کسی کی جاگیر نہیں ہے۔ یہ میرا اتنا شہر ہے جتنا آپ یا کسی اور کا۔ جہاں تک دشمنی کا تعلق ہے تو لوگ جانتے ہیں کہ کس نے کراچی کو نقصان پہنچایا ہے۔ ویسے علی خان صاحب کا یہ مضمون بہت کچھ بتلارہا ہے۔

عبداللہ صاحب آپ کا تبصرہ سپیم میں چلا گیا تھا۔ وہاں سے ریلیز کردیا۔
عبداللہ صاحب آپ کا تبصرہ سپیم میں چلا گیا تھا۔ وہاں سے ریلیز کردیا۔اب آپ اسے دیکھ سکتے ہیں۔
جناب تلخابہ صاحب آپ اپنے اپکو بہت ہوشیار سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ آپ ہیں نہیں!:)
میرا تبصرہ اسپیم میں نہیں تھا بلکہ آپنے موڈریشن کے تحت اسے چھپ جانے کے بعد روکے رکھا یہاں تک کہ آپ اس کا زور توڑنے کے لیئے ایک کالم کھود کر نکال لائے! آپ اپنے گرو گھنٹال کے نقش قدم پر نہ چلیں وہ بھی جب مجبور ہوجاتے ہیں تو ایسے ہی عذر لنگ پیش کیا کرتے ہیں ویسے انہیں ایسوں کی تلاش رہتی ہے اپنا ایجینڈہ آگے بڑھانے کے لیئے کیونکہ انکا اپنا بیٹا ان کی پالیسی فالو نہیں کرتا!اور جناب آجکل آپ پر مہر بان بھی بہت ہیں؛)
اب بات کرتے ہیں اس کالم کی!
دلچسپ بات یہ ہے کہ کالم لکھنےوالے بھی آپ کی طرح بھنگ سے مستفید ہوتے رہے ہیں!:)
اب پتہ نہیں کہ یہ کوئی الگ صاحب ہیں یا آپ جناب ہی علی خان کے پردے میں چھپے بیٹھے ہیں کیونکہانداز تحریر اسقدر مشابہ ہے کہ اگر آپ نہیں تو آپکا کوئی جڑواں بھائی ضرور ہے؛)
لکھنے والا بالکل آپ کی طرح اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے نفرت کا اظہار اور طالبانی تنظیموں سے محبت کا اظہار کرتا نظرآتا ہے۔
آگے جناب فرماتے ہیں کہ پٹھانوں اور سنیوں کی دکانوں کو آگ لگائی گئی اور دعوہ کرتے ہیں کہ طالبان پٹھان ہینتو وہ اپنے پٹھان بھائیوں کی دکانوں کو تباہ کیوں کریں گے؟
سب سے پہلےتو اس میں ہی سوال ہے کہ کہ سب طالبان پٹھان ہیں! بی بی سی کی رپورٹ تو کچھ اور ہی داستاں سناتی ہے!
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/01/100117_punjab_ijaz3_sen.shtml
اور دوسرے ان طالبان نے صوبہ سرحد میں پٹھانوں کے ساتھ کونسا ظلم ہے جو نہیں کیا، تو کراچی کے پٹھانوں
کو کیا تخصیص حاصل ہو سکتی ہے؟
آپ کی لا علمی کی انتہاء یہ ہے کہ باوجود اخباروں میں چھپنے کے کہ بولٹن مارکیٹ کی پلاسٹک مارکیٹ سٹی گورنمنٹ کی ملکیت تھی اور اس کی دکانوں سے آنے والا کرایہ سٹی گورنمنٹ وصول کرتی تھی جناب نے اسے جلانے کا الزام بھی سٹی گورنمنٹ اور ایم کیو ایم پر لگا دیا! یعنی وہ اپنی دودھ دینے والی گائے کو خود ہی ذبح کر کے معاشی اور سیاسی خود کشی کریں گے؟
رہی عوام کی بات تو اگر آپ اپنے جیسے چند لوگوں کو ہی عوام سمجھتے ہین تو بہتر ہوگا کہ اس خواب خرگوش سے جاگ جائیں کیونکہ ستر، اسی اور نوے کی دہائیاں بیت چکیں اور آپ جیسے سازشی ذہنوں کی سازشوں کے دن بھی بہت تھوڑے رہ گئے ہیں،اب بھی وقت ہے کہ آپ اور آپ کے آقا باز آجائیں ورنہ انکا انجام بد نزدیک تر ہی ہے،انشاءاللہ!
اللہ تعالیٰ کو آپ کو ہدایت دے۔ ویسے نائن زیرو والوں کو ہدایت کم نصیب ہوتی ہے
علی خان میرے بھائی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے والدین تقسیم ہند کے وقت ہجرت کرکے الہٰ باد سے پہلے بہاولپور اور پھر کراچی آئیں جبکہ میں صوبہ سرحد سے کراچی آیا ہوں۔ ہم دونوں کا اتفاق ہے کہ کراچی سب کا بس اللہ اس آسیب (الطاف گینگ) کو ختم کردے تاکہ کراچی کے دیے جلتے رہیں اور لوگ خوش
ہا ہا ہا ،تلخابہ عرف علی خان صاحب وہ کہتے ہیں نا لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا! 😛
اور آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ کراچی صرف ان کا ہے جو اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا دن کا چین اور رات کا سکون برباد کر کے اس کے لیئے اپنا خون پسینہ بہا رہے ہیں،سازشیں کرنے والون کا نہ تو یہ شہر ہے اور نہ یہ ملک! خالی خولی دعوے کرنے والے بہت آئے اور بہت گئے! 🙂
عبداللہ صاحب آپ نے درست فرمایا کہ یہ شہر ان پاکستانیوں کا ہے جو اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ لندن کی شہریت رکھنے والے بے ہودہ ‘ بے غیرت ‘ گٹھیا، بد نسل ‘ کمینہ، قادیانی اور اسلام و پاکستان دشمن الطاف ڈارمے اور اس کے بے وقوف پیروکاروں کا نہیں۔
اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ علی خان صاحب کو یہاں سے ہٹایا نہیں گیا ہے۔ یہ پوسٹ موجود ہے بس اس کا فرنٹ پیج سے اس لیے ریلیز کیا کہ کچھ اہم موضوعات پر توجہ دی جائے کیوں کہ یہ بہت زیادہ اہم موضوع نہیں۔