Archive for مارچ 3rd, 2010

Articles

میجر جنرل طارق خان کا غیر ذ مہ دارانہ بیان

In پاکستان,حقوق انسانی on مارچ 3, 2010 منجانب ابو سعد

بہت سارے نوجوانوں کی طرح میری بھی خواہش تھی کہ فوج میں شمولیت اختیار کروں، پشاور میں ابتدائی مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد آئی ایس ایس بی کے لئے کوہاٹ پہنچا اور پورے چار دن وہاں گذارنے کے بعد ناٹ ریکمنڈڈ کا لیٹر ہاتھ میں آیا۔ شاید میں فوج میں بھرتی کے لیے اہل نہیں تھا یا پھر میں اتنا ڈسپلنڈ نہیں تھا کہ ملک دو لخت ہوتا اور میں اپنے جنرل کے حکم پر نوے ہزار دیگر سپاہیوں کی طرح بغیر ڈسپلن توڑے ہتھیار ڈال دیتا ۔
میرے بیج کے دو دوست منتخب ہوگئے تھے ‘ ہم دل جلے جلن کے مارے ان سے کہتے تھے کہ فوجی کا دماغ گھٹنے میں ہوتا ہے۔ فوجی دماغ سے نہیں گھٹنے سے سوچتا ہے۔ آج کے اخبارات میں آئی جی ایف سی میجر جنرل طارق خان کا بیان پڑھ کر احساس ہوا کہ واقعی ان کا دماغ سر میں نہیں گھٹنے میں ہوتا ہے۔ موصوف نے فرمایا جماعت اسلامی کے ہارون رشید کا گھر دہشت گردی کا مرکز تھا۔ میجر جنرل صاحب فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ پٹھان بھی ہیں۔ کاش پریس بریفنگ کے وقت موجود ہمارے اردو اسپکینگ بھائی میجر جنرل اطہر عباس ان کو سمجھاتے کہ بھئی بغیر کسی ثبوت کے ایک محب وطن سیاسی جماعت کے صوبائی نائب امیر پر اس طرح کا الزام لگانا کوئی عقل کی بات معلوم نہیں ہوتی۔
ثبوت بھی فوجی ثبوت نہیں ۔ لال مسجد کو فتح کرتے وقت بھی ثبوت دکھائے گئے تھے‘ لیکن اب سپریم کورٹ بھی فوجی آپریشن میں قتل ہونے والوں کو شہدائے لال مسجد پکارتی ہے ۔
یہاں آئی جی فرنٹیر کور میجر جنرل طارق خان کو یہ مشورہ بھی دیاجانا چاہیے کہ وہ باجوڑ اور قلعہ بالا حصار سے ذرا نکل کر دنیا میں دیکھیں کہ کیا ہورہا ہے۔ وہ مغربی سرحد پر ڈالروں کی خاطر میراثی پرویز مشرف کی شروع کی گئی امریکی جنگ لڑ رہے ہیں تو ادھر وہی امریکا ‘بھارتی دشمنوں اور امریکا میں پاکستانی سفیر کی مدد سے فوج کا تعلق ’’مستقبل کی القاعدہ ‘‘ یعنی لشکر طیبہ کے ساتھ جوڑ کر اس پر وار کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ براہ کرم تھوڑا سا وقت نکال کر امریکی پالیسی ساز میگزین نیوز ویک کی یہ ٹائٹل اسٹوری بھی پڑھ ڈالیں ۔ وہ وقت کوئی بہت زیادہ دور نہیں کہ اس وقت قبائلی علاقوں میں امریکی جنگ کو جائز کہنے والے لندن اور واشنگٹن نکل لیں گے اور امریکی فوج آپ کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دے کر مشرقی سرحدوں سے حملہ آور ہوگی تو یہی لوگ آپ کے شانہ بشانہ ملکی سرحدوں کی حفاظت میں مصروف ہوں گے جن کو آج آپ کسی طریقے سے باجوڑ کے شدت پسندوں سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہاں ایک اور بات کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ اگر چہ امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بعد آُپ ہی کے چیف کی طرف سے ڈالروں کے عوض پاکستانی بیٹی کو امریکیوں کے حوالے کرنے کے اعتراف کے بعد آپ کی حب الوطنی تو مشکوک کہلائی جاسکتی ہے لیکن جماعت اسلامی کی نہیں۔ مجھ سمیت اکثر پاکستانی اگر چہ دہشت گردی کے نام پر قبائلیوں کے خلاف امریکی جنگ کے مخالف ہیں لیکن وہ فوج کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والوں کو غلط سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی پر اس طرح کے الزامات شدت پسندوں کی حمایت کرنے والوں کے موقف کو مضبوط کر سکتے ہیں۔۔
جنرل کیانی صاحب نے اپنے پیشرو پرویز مشرف کی اکثر پالیسیوں کو ریورس کردیا ہے۔ ان کی جمہوریت پسندی اور حب الوطنی کے وجہ سے پرویز مشرف کا خراب کیا ہوا فوج کا برا تاثر بہتر ہونے لگا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ میجر جنرل طارق خان پرویز مشرف کے خیال کے آدمی ہیں۔ پرویز مشرف پاکستان اور پاک فوج کا بدبودار اور گند ا ماضی ہے ۔ میجر جنرل صاحب کو اپنے ماضی کے اوراق کی تلاوت کے ذریعے جنرل کیانی صاحب کی کوششوں کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد فسادیو ں کے خلاف قومی لشکر کاحصہ نظر آتی ہے ان کو فسادیوں کی طرف دھکا نہ دیں۔ ایک ایسے وقت میں جب مشرقی سرحد پر پاکستان کے خلاف دشمن متحد ہورہے ہیں پاکستان کو متحد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ تقسیم کرنے کی۔
امریکی جنگ کے خلاف آواز اُٹھانے والے اور اس کی خاطر اقتدار کی کرسی کو ٹھوکر مارنے والے نہایت ہی قابل احترام اور قابل فخر ہارون رشید صاحب کے موقف کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔ شکریہ
منور حسن صاحب کا ردعمل یہاں ملاحظہ کریں۔

Articles

پاک فوج’’ دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ ہے‘ نیوز ویک

In پاکستان,بین الاقوامی تعلقات,دہشت گردی on مارچ 3, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

ایک ایسے وقت میں جب بھارتی وزیر اعظم اپنے تین روزہ غیر معمولی دورے پر سعودی عرب میں ایک اہم اسلامی ملک کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں‘ امریکی میڈیا پاکستان کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کے ضمن میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کررہا ہے جو بظاہر امریکی لابی کی محنت اور امریکا میں پاکستان کے مفادات کے نام نہاد نگرانوں کے کام کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ امریکی میگزین نیوزویک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مکمل طور پر پاکستان منتقل کرنے کے لیے لشکر طیبہ کو ”نئی القاعدہ“ قرار دے کر واویلا شروع کر دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف مصروف عمل جہادی تنظیم دراصل عالمی ایجنڈا رکھتی ہے اور یہ اپنی تکنیکی مہارت اور پاکستانی خفیہ ایجنسی کی آشیر واد کے سبب القاعدہ سے زیادہ خطرناک بن چکی ہے۔ اہم پالیسی ساز میگزین ”نیوزویک“ لکھتا ہے کہ ”ایک ایسے وقت میں جب امریکا کی توجہ پاک افغان بارڈر پر موجود القاعدہ کی اصل قیادت کو شکار کرنے پر مرکوز ہے‘ ایک کم معروف اسلامی عسکری تنظیم روئے زمین پر ایک خطرناک دہشت گرد مرکز کے طور پر سامنے آئی ہے۔“میگزین لکھتا ہے کہ ”لشکر طیبہ گزشتہ15برس سے بھارتی مفادات خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو نشانہ بنارہی تھی لیکن مغربی اور بھارتی انٹیلی جنس ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تنظیم اب غیر ملکیوں پر حملے کرنے اور اپنی پہنچ عالمی سطح تک بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ یہ گروہ بھارت کے باہر بھی تباہ کن حملے کرنے کی صلاحیت رکھتاہے“میگزین کے تازہ شمارے کی ٹائٹل اسٹوری میں کئی مقامات پر ”خطرناک“ لشکر طیبہ کا تعلق پاکستانی فوج سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میگزین کے مطابق”بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک لشکرطیبہ اپنی فنی مہارت‘ عالمی سطح پر بھرتی اور فنڈ نگ نیٹ ورک اور پاکستانی حکومت میں اپنے محافظوں کے ساتھ قریبی تعلق کی بنا پر القا عدہ سے زیادہ بڑا خطرہ بن چکی ہے“ ۔ ”پاکستان کی خطرناک جاسوس ایجنسی آف انٹر سروسزانٹیلی جنس گرم جوشی کے ساتھ پیسوں‘ ہتھیاروں اور تربیت کی صورت میں لشکر طیبہ کی معاونت کرتی رہی ہے۔ مریدکے میں 77ایکڑ پر محیط لشکر طیبہ کے ہیڈکوارٹر کی زمین حکومتِ پاکستان نے عطیہ کی تھی۔ بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستانی فوج میں کچھ افراد لشکر طیبہ کو ریزرو فوج سمجھتے ہیں‘ جس کو بھارت کے ساتھ لڑائی میں استعمال کیا جاسکے گا“۔نیوز ویک کے مطابق ”لشکر طیبہ اور پاکستانی فوج دونوں بھرتی کے لیے پنجاب کے غریب علاقوں پر انحصار کرتی ہیں اوردونوں طرف بھرتی ہونے والوں کی اکثریت ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔“ آگے لکھتا ہے ”لشکرطیبہ کے فلاحی ونگ نے وادی سوات کو طالبان سے واپس لینے کی مہم کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے شہریوں کی مدد فوج کے شانہ بشانہ کی۔“امریکی میگزین کی ہرزہ سرائی جہا ں امریکا میں موجود بھارتی لابی کی طرف سے پاکستان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے وہیں امریکا میں پاکستان کے موجودہ سفیر حسین حقانی کی کتاب کے علاوہ ان کا پورا کام اس طرح کی کہانیوں کے لیے بنیاد فراہم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ 20جولائی2005ءکی”ساوتھ ایشین ٹربیون“ میں ”پاکستان کا لند ن بم دھماکوں سے تعلق“ کے عنوان سے اپنے مضمون میں حسین حقانی لکھتے ہیں ”بڑے کشمیری جہادی گروہ اپنا انفرااسٹرکچر اس لیے قائم رکھ پائے ہیں کہ پاکستانی فوج نے ابھی تک مستقبل میں بھارت کے ساتھ لڑنے کے آپشن کو ترک نہیں کیا ہے۔“اسی مضمون میں حسین حقانی لکھتے ہیں ”لند ن میں7جولائی کے دہشت گرد دھماکے ”گلوبل جہاد “ کو بڑھانے میں پاکستان کے کردار کی اسکروٹنی کا تقاضا کرتے ہیں۔ لند ن بمبار پاکستانی نژاد تھے اور چار میں سے کم از کم تین نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ عالمی برادری کی طرف سے اس بات پر حیرت کا اظہار فطری ہے کہ اسلامی شدت پسندی کے اکثر عناصر کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے‘‘۔