قبائلیوں کو جتنا بھی برا بنا کر پیش کردیا جائے میرے لیے یہ ہمیشہ باعث
فخر رہے ہیں۔ یہ وہ کام کرجاتے ہیں جو پورا ملک اور اس کے ادارے نہیں کر پاتے ۔ دیکھیے نا ابھی جب دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ایک ‘پاک فوج پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ میں ڈرون طیارے گرانے کا مظاہرہ کررہی تھی قبائلیوں نے اس کا عملی مظاہرہ کرکے امریکی ڈرون مارگرایا۔ کہا جاتا ہے کہ فوج نے پیغام دے دیا کہ وہ تو ڈرون گراسکتی ہے لیکن اب یہ سیاسی حکومت تو اجازت دے۔ اس کے جواب میں ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ایسا فوج نے اس وقت کیوں نہ کیا جب ایک فوجی ملک پر مسلط ہوکر حکومت کررہا تھا ۔ ایک دوسرے صاحب جو اکثر پہلے والے کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں کہنے لگے فوج نے کس بات میں سیاسی حکومت سے پوچھا ہے؟ کیا کیری لوگر بل میں ؟ خیر یہ فضول بحث ہے ۔ اصل خبر یہ ہے کہ جن لوگوں میں وزیرستان نے امریکی طیارہ مار گرایا تھا ان کے نمائندوں نے واشنگٹن میں ایک ڈرون حملہ کردیا۔ یہ امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی دعوت پر امریکیوں کو سمجھنے گئے اور صحیح سمجھ کر آگئے۔ قبائلی علاقوں کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں چھ نمائندوں نے اپنا امریکی دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس اپنے ملک کا رخ کیا۔
ایک ایسے وقت میں جب ہمارے حکمران سیاسی جماعتوں کے قائدین بشمول میاں محمد نوازشریف امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریزی کے لیے بے تاب نظر آرہے ہیں ‘ ان چھ نمائندوں نے اسکینگ کے نام پر برہنگی کو اپنی عزت نفس کے خلاف سمجھا اور اپنا دورہ ادھورا چھوڑکر واپس پاکستان آ گئے۔
پاکستان میں امریکی وزیر داخلہ رحمن ملک (اس کو ڈکیت پڑھا جائے) اور واشنگٹن میں پاکستان کے امریکی سفیر حسین حقانی زبان سے براہ راست نہ کہتے ہوئے بھی وزیرستان کو پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ میں تحریک طالبان پاکستان کو وبا سمجھتا ہوں لیکن اس وبا کی ذمہ داری اسلام آباد(ایوان صدر‘ ایوان وزیر اعظم ‘ اسٹبلشمنٹ ڈویژن اور جی ایچ کیو) میں موجود ڈاکٹروں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے قبائلیوں کو مٹانے کے امریکی منصوبے کے لیے جانے یا انجانے میں تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا ۔ اور امریکا ان قبائلیوں کو مٹانے کا منصوبہ کیوں نہ بنائے جبکہ یہ ان کے منہ پر غیرت کے طمانچے مارتے رہتے ہیں۔ امریکا کو ااس بات کا احساس ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اس کا احساس ہو نہ ہو لیکن پاکستانی عوام کو بھی احساس ہے تب ہی تو تازہ ترین خبر کے مطابق اسلام آباد ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کیا گیا ہے۔
![159862_news_image[1]](https://talkhaabau.files.wordpress.com/2010/03/159862_news_image1.jpg?w=650)
ایک ایسے وقت میں جب ہمارے حکمران سیاسی جماعتوں کے قائدین بشمول میاں محمد نوازشریف امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریزی کے لیے بے تاب نظر آرہے ہیں ‘ ان چھ نمائندوں نے اسکینگ کے نام پر برہنگی کو اپنی عزت نفس کے خلاف سمجھا اور اپنا دورہ ادھورا چھوڑکر واپس پاکستان آ گئے۔
پاکستان میں امریکی وزیر داخلہ رحمن ملک (اس کو ڈکیت پڑھا جائے) اور واشنگٹن میں پاکستان کے امریکی سفیر حسین حقانی زبان سے براہ راست نہ کہتے ہوئے بھی وزیرستان کو پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ میں تحریک طالبان پاکستان کو وبا سمجھتا ہوں لیکن اس وبا کی ذمہ داری اسلام آباد(ایوان صدر‘ ایوان وزیر اعظم ‘ اسٹبلشمنٹ ڈویژن اور جی ایچ کیو) میں موجود ڈاکٹروں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے قبائلیوں کو مٹانے کے امریکی منصوبے کے لیے جانے یا انجانے میں تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا ۔ اور امریکا ان قبائلیوں کو مٹانے کا منصوبہ کیوں نہ بنائے جبکہ یہ ان کے منہ پر غیرت کے طمانچے مارتے رہتے ہیں۔ امریکا کو ااس بات کا احساس ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اس کا احساس ہو نہ ہو لیکن پاکستانی عوام کو بھی احساس ہے تب ہی تو تازہ ترین خبر کے مطابق اسلام آباد ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کیا گیا ہے۔
مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ جن غیور پٹھانوں کی بہادری کی داستانیں ہم بچپن میں سنا کرتے تھے، ان کی مثال دیکھ بھی لی۔ یہ لوگ ڈرون سے ڈرتے ہیں نا خودکش دھماکوں سے۔
اب ميں نے اس پر کچھ لکھ ديا ناں تو ايک جنگ شروع ہو جائے گی ميری اور قبائيليوں کی اسليے رہنے ديں
اسما بہن لکھ دیجیے۔ امن کی ضمانت میں دیتا ہوں۔ ویسے قبائلی صرف جنگ ہی نہیں کرتے وہ امن کے بھی داعی ہیں لیکن امن اور غلامی کے فرق کو سمجھتے ہیں۔ بس بہن آپ لکھ دیجیے۔
"یہ امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی دعوت پر امریکیوں کو سمجھنے گئے اور صحیح سمجھ کر آگئے”۔
زبردست جملہ ہے
is say faida kiya hua?
نہیں اسما جی کہیں جو کہنا ہے
مجھے پکا یقین ہے کہ امریکی فوج کا مقابلہ کر سکتے ہیں آپکا نہیں
بہر حال مذاق برطرف
مجھے تو ان کی یہ ادا بہت پسند آئی ہے
آپ نے حقیقت کہہ دی مذاق ہی مذاق میں۔
اچھا کیا ۔ ان امریکیوں کو دوسروں کو ننگا کرنے کا پتہ نہیں کیا شوق ہے حالانکہ جسمانی تلاشی بھی لی جا سکتی
ریاض شاہد،مسئلہ یہ ہے کہ یورپ کے تو کپڑے اتروا دیئے جدید تہزیب کے نام پر مگر یہ ایشیئن اور خاصکر مسلمان کسی صورت ننگے ہونے کو تیار ہی نہ تھے تو وہ بے چارے بھی کیا کرتے یوں نہیں تو یوں سہی،
مقصد تو عزت نفس کچلنا ہے!
بھائی سمجھنے گئے تھے اور سمجھا آئے۔۔۔