جس طرح نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان ہوتا ہے اسی طرح آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ’ پاکستانی نیوز چینل ‘ ایکسپریس کے نیوز اینکر آدھا سچ بہت شاندار طریقے سے بول لیتے ہیں۔ یہاں دیکھیے یہ ویڈیو اس بات کا ثبوت ہے۔ قصہ یہ ہے کہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد ۱۴اپریل کو اچانک کوریڈور فور کے فلائی اوورکے معائنے پر چلےگئے۔ بطور ایڈمنسٹریٹر کراچی فضل الرحمن لالہ کا ہوناضروری تھا۔ شہری حکومت کی ویب سائٹ پر موجود تصویر بتاتی ہے کہ یہ دورہ رات کے اندھیرے میں کیا گیا ۔ تب تک لالہ دفتری کام سے فارغ ہو نے کے بعد گھر پہنچ کر غرق مئے ناب ہوچکے تھے۔ گورنر کے ساتھ جانا ضروری ہوگا اس لیے آنا تو پڑا لیکن چلنا بغیر کسی سہارے کے ممکن نہیں تھا۔ تصویریں کھنچی گئیں اور ویڈیو بنائی گئی۔ گورنر کے دورے کی تشہیر نہ ہو یہ ممکن نہیں تھا‘ ویڈیو نشر کرنے کے لئے بھیجی گئی تو اس میں لالہ کی آنکھوں کا خمار بھی نظر آیا۔
مبشر لقمان نے بالکل درست فرمایا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق ایسے لوگوں پر کیوں نہیں ہوتا ۔ لالہ کے خمار کو دکھانا اور اس کو برا سمجھنا اور دکھانا آدھا سچ تھا۔ لیکن انہوں نے لالہ جی کا موازنہ مصطفیٰ کمال سے بھی کیا یعنی ایک طرف تو وہ عظیم آدمی اور دوسری طرف ان کی کرسی پر بٹھایا جانے والا یہ مدہوش شخص۔ نیو ز اینکر اتنے بھولے تو نہیں کہ وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ ایڈمنسٹریٹر کس کا انتخاب ہیں؟ ان کو کس نے مقرر کیا؟ ان کو مصطفیٰ کمال کی کرسی پر کس نے اور کیوں بٹھایا؟کور کمیٹی کے جو اجلاس ہوتے تھے ان کی خبریں ایکسپریس میں بھی لگتی ہوں گی اور پھر انہوں نے یہ خبر بھی پڑھی ہوگی کہ متحدہ اور پی پی کی کورکمیٹی میں ایڈمنسٹریٹرز کے ناموں پر اتفاق ہوگیا۔
یہ تو سامنے کی خبر ہے کچھ خبر یں ہم مبشر لقمان کے ساتھ شیئر کردیتے ہیں جو یقینا ایکسپریس نشر نہیں کریگا۔ یہ خبریں واٹر بورڈ میں غیر قانونی بھرتیوں کی ہیں۔ اس وقت واٹر بورڈ کے ایم ڈی لالہ جی ہوا کرتے تھے دو سال قبل کی بات ہے ۔ غیر قانونی بھرتیاں کرنے والا لالہ اور بھرتی ہونے والے ہزاروں افراد متحدہ کے عہدیدار اور کارکنان جو اب تک تنخواہ واٹر بورڈ سے لیتے ہیں اور کام متحدہ کا کرتے ہیں۔ خبروں کے لیے یہاں یہاں یہاں اور یہاں کلک کریں۔
نعمت اللہ خان کا دور ختم ہوتے وقت واٹر بورڈ کے کل ملازمین کی تعداد چھ ہزار تھی ۔ اب یہ تعداد انیس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ کیا یہ کم خدمت تھی جو لالہ نے ایم کیو ایم کی تھی؟ دراصل یہی ان کی کوالیفکیشن تھی‘ ستر فیصد ریونیو جنریٹ کرنے والے شہر کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بننے کےلیے۔ یہ دراصل ریوارڈ بھی تھا لیکن مقصد صرف ریوارڈ دینا نہیں تھا۔ بلکہ ایک ایسے شخص کو لانا تھا جس کے اخلاقی دیوالیہ پن کو اس کی کمزوری بناکر اس سے مزید کام کرائے جائیں۔ یہ سٹی گورنمنٹ کی ویب سائٹ ہے جس پر مصطفیٰ کمال بطور واحد’ایکس سٹی ‘ ناظم کے موجود ہیں۔ شہری حکومت کے منتظم کا چہرہ لالہ جی کا ہے لیکن اصل میں ایم کیو ایم اب بھی موجود ہے۔
مبشر لقمان صاحب ! پورا سچ بولیں ورنہ آدھا سچ بولنے سے آپ کی پوزیشن خراب ہوگی۔