Archive for جون, 2010

Articles

مزاحمت کاروں کی مار سے حواس باختہ جنرلوں کی توپوں کا رخ وائٹ ہاﺅس کی طرف

In بین الاقوامی تعلقات,دہشت گردی on جون 30, 2010 منجانب ابو سعد

 افغانستان کے خلاف امریکی جنگ کے سالار جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کو اس اُمید کے ساتھ افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کی کمان دی گئی تھی کہ وہ تاریخ رقم کرتے ہوئے حریت پسند افغانوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا۔ لیکن ابھی اسے ایک سال اور ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ اُس نے افغان حُریت پسندوں کے حملوں سے حواس باختہ ہوکر اپنی توپوں کا رُخ اُس جگہ کی طرف کردیا ‘ جہاں سے بڑے مان کے ساتھ اسے افغانستان بھیجا گیا تھا۔ رولنگ اسٹون میگزین کے فری لانس صحافی مائیکل ہیسٹنگ کو دیے گئے انٹرویو کا ایک ایک لفظ صدر بارک اوباما پر بم بن کرگرا۔ میک کرسٹل نے دل کھول کر صدر اوباما کی جنگی ٹیم کی تضحیک کی اور اپنے دل کی بھڑاس نکال لی۔ قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونزکو مسخرہ قرار دے کر کہا کہ ”وہ ایک جوکر ہے جو انیس سو پچاس میں پھنسا ہوا ہے۔“ ڈرون پالیسی کے سب سے بڑے وکیل نائب صدر جوزف بائیڈن کے بارے میں کہا کہ ”وہ کون ہے؟“ اسی طرح کابل میں امریکی سفیر کارل ایکنبری کے بارے میں کہا کہ ”میں سمجھتا ہوں کارل ایکنبری نے مجھے دھوکا دیا ہے“۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک کی ای میلز کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ”میں تو اب انہیں دیکھتا بھی نہیں۔“ جنرل میک کرسٹل نے صدر اوباما کے بارے میں بھی کچھ غلط نہیں کہا کہ ’ان کو کچھ نہیں پتا‘۔ یقیناً اوباما کو اس بہت کچھ کا نہیں پتا جس کا ادراک ان کے میدانِ جنگ میں موجود سپہ سالاروں کو کئی ماہ پہلے ہوچکا تھا۔ 25 جنوری 2010ءکو برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے کہا: ”لڑائی بہت ہوچکی اور اب میں اس جنگ کا سیاسی حل چاہتا ہوں۔“ لیکن ساتھ ہی اس خوش فہمی کا اظہار بھی کیا کہ صدر اوباما کی جانب سے افغانستان میں تیس ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی سے طالبان اتنے کمزور ہوجائیں گے کہ انہیں امن معاہدے کے لیے مجبور کیا جاسکے گا۔ جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے کہا: ”ایک فوجی کی حیثیت سے مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنگ کافی ہوچکی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ آخرکار جنگوں کا سیاسی حل ہی نکلتا ہے جو کہ ایک صحیح نتیجہ ہے۔“ اس کو امید تھی کہ امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے افغانستان میں تیس ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی اور اس کے علاوہ نیٹو کے رکن ممالک کی جانب سے سات ہزار اضافی فوج بھیجنے سے امریکا کے حق میں مثبت نتائج حاصل ہوں گے۔ بی بی سی کے کابل میں نامہ نگار ’مارٹن پیشنس‘ نے 23 ستمبر 2009ءکو اپنے مضمون ”مغرب کو میک کرسٹل کا دوٹوک انتباہ“ میں لکھا ہے کہ ”امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کی ذرائع ابلاغ کے ہاتھ لگنے والی رپورٹ نہ صرف افغانستان میں بیرونی افواج کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں دوٹوک اور مایوس کن جائزہ پیش کرتی ہے بلکہ ممکنہ ناکامی کے وقت کی بھی پیش گوئی کرتی ہے۔“ ممکنہ وقت کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے لکھا: ”مختصراً کہا جائے تو جنرل میک کرسٹل اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امریکا کو یہ جنگ ہارنے میں بارہ مہینے یعنی ایک سال لگ سکتا ہے۔“ تجزیہ نگاروں کے مطابق جنرل میک کرسٹل نے باعزت واپسی کا حل یہ تجویز کیا تھا کہ 30ہزار مزید فوج بھیج کر طالبان کے خلاف ایک بڑا آپریشن کرکے ان کو اس حد تک کمزور کیا جائے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آنے پر آمادہ ہوجائیں۔ مغرب خصوصاً امریکا کے عسکری منصوبہ ساز مرجاہ آپریشن پر خاص نظر رکھے ہوئے تھے لیکن مرجاہ میں اتحادیوں کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا۔ اس کے بعد قندھار آپریشن شروع کرنے سے پہلے ایک حکمت عملی نام کی تبدیلی کی اختیار کی گئی تاکہ شکست کی صورت میں ذلت و رسوائی کے درجے کو کم کیا جاسکے۔ ’شدت پسندوں کے خلاف آپریشن‘ جیسے الفاظ سے گریز کرتے ہوئے قندھار آپریشن کو ’امن وامان کے قیام‘ کی مہم کہا جانے لگا، لیکن اہلِ فکر و دانش جانتے ہیں کہ افغانستان میں اُس وقت تک امن نہیں قائم ہوسکتا جب تک آخری قابض فوجی یہاں سے نکل نہ جائے۔ مغربی میڈیا اور امریکی حکومت نے شکست کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے میک کرسٹل کی حواس باختگی کو فوج اور حکومت کی لڑائی کا نام دیا۔ اپنی فوجی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے مغربی میڈیا نے فوج اور سول انتظامیہ کے تعلقات کی نسبت سے مضامین لکھنا شروع کردیے ہیں جن میں کوریا جنگ کے دوران صدر ٹرومین اور اُس وقت کے فوجی کمانڈر میک آرتھر کے تعلقات کے حوالے بھی پیش کیے جارہے ہیں۔ ایک تجزیہ نگار نے میک کرسٹل کے انٹرویو کو ’فوجی بغاوت‘ قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں اس بغاوت کا جواب دے دیا گیا ہے اور ’باغی‘ میک کرسٹل کو گھر بھیج کر افغانستان کی کمان جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے سپرد کردی گئی ہے، جن کے بارے میں ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ سنٹرل کمان کے چیف کے عہدے سے ایک درجے نیچے آنے کے بعد ان کا پہلے والا عہدہ بھی برقرار رہے گا یا نہیں؟ وائٹ ہاﺅس میں اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے صدر بارک اوباما نے کہا کہ کمان تبدیل ہوئی ہے پالیسی نہیں۔ اوباما جیسے کوتاہ بین صدر سے یہی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ پرانی پالیسی برقرار رکھیں گے۔ پرانی پالیسی برقرار رہے گی، شاید اُس وقت تک جب تک امریکا کے روس کی طرح ٹکڑے نہیں ہوجاتے۔ صدر اوباما جس پالیسی کو برقرار رکھنے پر زور دے رہے ہیں یہ وہی پالیسی ہے جس کو کئی مہینے پہلے ہی میدانِ جنگ میں افغان مجاہدین کی اہلیت سے واقف جنرل میک کرسٹل نے ’غلط‘ کا لفظ استعمال کیے بغیر غلط قرار دیا تھا۔ جنرل میک کرسٹل کے متبادل کے طور پر ایک ایسی شخصیت کے سامنے آنے کو جس کو میک کرسٹل رپورٹ کیا کرتا تھا، افغان جنگ کی اہمیت سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ ایک تجربہ کار جنرل افغان جنگ کو منطقی انجام تک پہنچا دے گا۔ لیکن افغان مجاہدین نے جنرل میک کرسٹل کی برطرفی پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے اس جنگ کا عبرت ناک انجام قرار دیا ہے جو عنقریب اتحادی فوجوں کے افغانستان سے بھاگنے کی صورت میں دنیا بھر کے سامنے واضح طور پر آجائے گا۔ امریکا کی نظر میں افغان جنگ کی اہمیت ہوسکتی ہے جس کے لیے وہ اپنی معیشت داﺅ پر لگا چکا ہے، لیکن ڈیوڈ پیٹریاس کی تعیناتی اس بات کی نشاندہی بھی کررہی ہے کہ بیرونی محاذوں پر بڑی جنگیں لڑنے والی دنیا کی سب سے بڑی فوج قیادت کے معاملے میں کتنی مفلس ہے جس کے پاس کسی جنرل کی برطرفی کی صورت میں متبادل تک موجود نہیں‘ اور جس کو تعینا ت کیا گیا وہ نہ صرف اس سے بڑے عہدے پر فائز رہا ہے بلکہ افغان جنگ کے حوالے سے شدید اعصابی دباﺅ کا شکار بھی ہے۔ گزشتہ ہفتے کانگریس کی دفاعی کمیٹی کے روبرو سوال و جواب کے سیشن میں موصوف عین اُس وقت بے ہوش ہوکر گر پڑے جب اُن سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس افغانستان سے فوج کے انخلاءکا کیا پروگرام ہے؟ ابھی کئی تند وتیز سوالات تیر کی مانند کمان سے نکلنے کے لیے بے تاب تھے کہ موصوف پہلے سوال کی تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہوکر گرپڑے۔ ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ہوش آیا تو اراکینِ کانگریس نے ان کے ممکنہ جانی نقصان کے خدشے کے پیشِ نظر جنرل موصوف کو ایک دن کے لیے بخش دیا۔ جنرل کے ہوش ٹھکانے تو آگئے لیکن جھوٹ کی فصلِ بہار اُگانے والے کھیت امریکا کے جنرل کی طرف سے ایک اور جھوٹ یہ بولا گیا کہ موصوف نے صبح ناشتے میں پانی کافی نہیں پیا تھا جس کی وجہ سے وہ گر پڑے۔ جنرل کی اس معصوم ادا پر سوال کیا گیا کہ کیا انہوں نے زندگی میں پہلے کبھی پانی پئے بغیر ناشتہ نہیں کیا؟ اور آج گرنے کا یہ اتفاق افغانستان سے متعلق سوال وجواب کے وقت ہی ہونا تھا؟ امریکی فوجیوں سے براہِ راست لڑائی میں مصروف افغان حریت پسندوں نے اس امر کی جانب توجہ دلائی ہے کہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کسی بھی صورت صلاحیت کے لحاظ سے جنرل میک کرسٹل سے بہتر نہیں ہیں جن کو میڈیا نے امریکا کا درویش جنرل قرار دیا ہے۔ بی بی سی نے میک کرسٹل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ”حالیہ امریکی سیاست اور عسکری امور میں جنرل میک کرسٹل ایک ایسے کردار کی طرح اُبھرے ہیں جس کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ ایک حقیقی کردار ہے یا ہالی ووڈ کا ہیرو۔ وہ دن میں صرف چار گھنٹے سوتے ہیں، ایک دفعہ کھانا کھاتے ہیں اور سات میل دوڑتے ہیں۔“ سب سے اہم بات جس کی بی بی سی نشاندہی نہیں کرپایا، یہ ہے کہ وہ تمام تر پریشانیوں کے باوجود ڈیوڈ پیڑیس کی طرح بے ہوش نہیں ہوتے۔ افغانستان پر اپنی عملداری قائم کرنے کے خواہاں امریکی حکمران زمینی حقائق سے ناواقف نہیں تو کم از کم شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر افغانی طوفان کے گزرنے کا انتظار کرتے ہوئے یہ ضرور سوچ رہے ہیں کہ ”کبھی دن پھریں گے امریکیوں کے“۔ امریکا وقت کی سپرپاور ہے لیکن افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ماضی کی دو سپر پاورز کے لیے بھی قبرستان ثابت ہوا ہے۔ افغانستان روسیوں کا قبرستان بننے کے بعد اب امریکیوں کا قبرستان بننے جارہا ہے۔ اب تک امریکیوں کے تابوت واشنگٹن لے جائے جارہے تھے لیکن جس تیزی کے ساتھ مزاحمت کاروں کی کارروائیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی امریکی ہلاکتوں میں اضافہ ہورہا ہے، بعید نہیں کہ زیادہ تعداد کے سبب تابوتوں کا واشنگٹن لے جانا مشکل ہوجائے اور ان کو یہیں کسی اجتماعی قبر میں دفن کرنا پڑے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہوگا کہ قابض محصورین کے علاوہ اپنے ہی فوجیوں کو اجتماعی قبروں میں گراکر نکلنے کی کرے گا۔ 19جون 2010ءکو جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اس سال اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کہنا ہے کہ سڑک کنارے نصب بم دھماکے پچھلے سال کی نسبت 94 فیصد بڑھے ہیں جبکہ افغان حکام کی ہلاکتوں میں بھی پینتالیس فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خود مغرب کے اعداد وشمار کے مطابق24جون 2010ءتک افغان حریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد 1793ہے جس میں سب سے زیادہ تعداد امریکیوں کی ہے۔ مذکورہ تاریخ تک ناجائز امریکی جنگ کا ایندھن بننے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 1062ہے، جبکہ 303برطانوی‘ 147کینیڈین‘ 47جرمن اور 44فرانسیسی فوجیوں سمیت کئی ممالک کے درجنوں سپاہی حریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ رواں ماہ کے دوران مرنے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد80 ہے جبکہ طالبان ذرائع کے مطابق یہ تعداد120سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔ امریکی اعدادوشمار اس لحاظ سے قابلِ بھروسہ نہیں ہیں کہ وہ فوجی تابوتوں کو رات کے اندھیرے میں لے جانے کی روایت کے امین ہےں۔ آزاد ذرائع مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔ اس مہینے کے دوران افغان حریت پسندوں نے چار ہیلی کاپٹر اور درجنوں فوجی گاڑیاں بھی تباہ کردیں۔ پورے افغانستان میں امن کے دعویداروں کی اپنی سیکورٹی کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو رشوت دیتے ہیں کہ ہمیں نہ مارو یا پھر کم سے کم مارو۔ 22جون 2010ءکو امریکی کانگریس کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ امریکی فوج افغانستان کی سیکورٹی کمپنیوں کو لاکھوں ڈالر فراہم کر رہی ہے جو یہ رقم افغان سرداروں کو رشوت کے طور پر دیتی ہیں۔ امریکی فوج اپنے سپلائی ٹرکوں کو غیر محفوظ علاقوں سے بحفاظت گزارنے کے لیے رقم نجی سیکورٹی کمپنیوں کو فراہم کرتی ہے، اور اگر رقم فراہم نہ کی جائے تو سپلائی کے ٹرکوں کے قافلے پر حملے کیے جاتے ہیں۔ امریکی اعصابی تناﺅ کو ایک دلچسپ تقابلی جائزے کی روشنی میں زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اکتوبر 2009ءمیں فارن ریلیشن کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان کیری نے بتایا کہ اس وقت تک افغان جنگ پر 243 ملین ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں۔ یہ تقریباً ایک سال پہلے کے اعداد وشمار ہیں۔ کانگریشنل ریسرچ سروس کے اعداد وشمار کے مطابق افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد سے اب تک 227 بلین ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں جبکہ پنٹاگون کے اعداد و شمار کے مطابق یہ رقم 156 بلین ڈالر بنتی ہے۔ اِس وقت ایک امریکی فوجی پر اُٹھنے والے سالانہ اخراجات ایک ملین ڈالر ہیں جن میں اس کا معاوضہ‘ اس کا سامان جس سے اکثر افغانی اس کو محروم کردیتے ہیں‘ اور اس کے افغانستان جانے اور واپس لوٹنے (اگر ہلاک ہونے سے بچ جائے تو) کے اخراجات شامل ہیں۔ اب اگر امریکی انتظامیہ افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ فی فوجی کے حساب سے1ملین ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ اگر دنوں میں نہیں تو آنے والے مہینوں میں ضرور امریکی معیشت کا دیوالیہ نکل جائے گا اور دنیا بھر کو قرض دینے والا کشکول لیے پھرتا نظر آئے گا‘ یہ قابلِ دید وقت ہوگا جس سے دنیا محظوظ ہوگی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر امریکی عوام کی جیبوں سے نکلنے والی یہ رقم افغان حریت پسندوںکو شکست دینے کے کام آتی تو قومیں اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے بڑی قربانیاں دیتی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ڈالروں کی ایک بڑی انویسٹمنٹ کے مقابلے میںکوہ ہمالیہ سے اونچے جذبہ¿ دینی اور حب الوطنی سے سرشار ایک مجاہد پر خرچہ ہی کیا آتا ہے؟ تن ڈھانپنے کے لیے ایک جوڑا کپڑا‘ پیروں میں پہننے کے لیے جوتے اور امریکیوں کو مارنے کے لیے ایک ’اے کے 47‘…. وہ بھی اکثر نشانہ بننے والے امریکیوں سے مالِ غنیمت میں مل جاتی ہے۔ یہ ہیں ایک حریت پسند پر آنے والے اخراجات۔ ایک طرف بے تحاشا پیسہ، تو دوسری طرف پہاڑ جتنا حوصلہ! ایک طرف جھوٹ دوسری طرف اس کے مقابلے میں سچائی کے پیکر اور جذبہ¿ جہاد سے سرشار مجاہدین۔ ایک طرف قابض تو دوسری طرف حریت پسند۔ ایک مجاہد شہید ہوتا ہے تو اس کی برکت سے سو اور تیار ہوجاتے ہیں، لیکن ایک امریکی کے مرنے کا مطلب ایک ملین ڈالر کا مزید خرچہ۔ یہ وہ تقابل ہے جس نے اس جنگ کا نقشہ بدل کررکھ دیا ہے اور جس کا نتیجہ امریکیوں کے سخت اعصابی تناﺅ کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔ واقعہ چاہے پیٹریاس کی بے ہوشی کا ہو یا میک کرسٹل کی برطرفی کا…. یہ دراصل مظاہر ہیں امریکی شکست کے…. اور معانی، مفہوم اور معلومات کے لحاظ سے 21ویں صدی کی ایک بڑی خبر۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب لوگ طنزکرتے تھے کہ امریکا بہادر کی بات نہ ماننے والے آج کابل سے بھاگ گئے! آج وہی حریت پسند پیچھے ہیں اور کابل میں بڑے کرّوفر سے اُترنے والے امریکی فوجی آگے۔ جو پٹتے ہیں، مرتے ہیں، اور ان کے جرنیل حواس باختہ ہوکر اپنی توپوں کا رُخ واشنگٹن میں واقع وائٹ ہاﺅس کی طرف کردیتے ہیں۔ ایک جنرل کو وائٹ ہاﺅس پر ’بم‘ گرانے کے جرم میں فارغ کردیا گیا ہے۔ اُس سے عہدے میں زیادہ لیکن اہلیت میں کم جنرل کو کمان سونپ دی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب وائٹ ہاﺅس پر بمباری کرتا ہے، یا پھر کابل میں ہی بے ہوش ہوکر اُٹھنے کے قابل نہیں رہتا!

مضمون کے گرافک ویو کے لیے یہاں کلک کریں؛ شکریہ

Articles

افغانستان کی معدنی دولت پر منڈلاتے گدھ، معدنیات کی لوٹ مار میں افغان مزاحمت کار اصل رکاوٹ بن کر سامنے موجود ہیں

In فوج,پاکستان,بین الاقوامی تعلقات,طالبان on جون 21, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , ,

امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے گزشتہ دنوں ایک ’خبر‘ بریک کی جس کے مطابق افغانستان میں سونے‘ تانبے‘ کوبالٹ اور لیتھیم سمیت مختلف دھاتوں پر مشتمل 9 کھرب ڈالر مالیت کے معدنی وسائل دریافت ہوئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان معدنیات پر قبضے کے لیے امریکا نے سرگرمیاں تیز کردی ہیں‘ جبکہ مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ معدنی ذخائر کی دریافت سے افغانستان پر اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے امریکا اور چین میں کشمکش تیز ہوسکتی ہے، جبکہ بھارت بھی اس کشمکش کا حصہ بنے گا۔ دوسری جانب طالبان کی جانب سے مزاحمت شدید ہونے کا بھی امکان ہے۔ افغانستان کے معدنی وسائل عالمی جارح قوتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کے ہاتھوں لٹنے میں کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ ایک ناممکن بات کو ممکن بنائیں، اور وہ ناممکن بات ہے طالبان کی شدید مزاحمت کا تدارک۔ خبر کے مطابق افغانستان کے پہاڑوں اور ریگزاروں میں چھپی اس معدنی دولت کی نشاندہی امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون‘ امریکی جیالوجیکل سروے اور یو ایس ایڈ کے اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹیم نے کی‘ جس کی تصدیق افغان حکومت نے کردی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران تیار کیے گئے نقشوں کی بنیاد پر امریکا نے فضائی سروے کے ذریعے وسیع ذخائر کا سراغ لگایا ہے۔9 کھرب ڈالر مالیت کے ان معدنی وسائل کی مزید تقسیم بی بی سی نے کچھ اس طرح سے کی ہے کہ ان معدنیات میں لوہے کے420 ارب ڈالر‘ تانبے کے274 ارب ڈالر‘ نیوبیم کے81 ارب ڈالر‘ کوبالٹ کے 51 ارب ڈالر اور سونے کے25 ارب ڈالر کے ذخائر افغانستان میں پائے جاتے ہیں۔سی آئی اے کے ترجمان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2004ءمیں امریکی ماہرین کو کابل میں افغان جیالوجیکل سروے کے دفتر میں سوویت ماہرین کے تیار کردہ نقشے ملے‘ جن میں افغانستان میں معدنی ذخائر کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان نقشوں کی بنیاد پر امریکی بحریہ کے اورین تھری طیاروں پر خصوصی آلات نصب کرکے ان طیاروں کی افغانستان کے70 فیصد حصے پر پروازیں کرائی گئیں‘ جس سے حوصلہ افزا نتائج ملے۔2007ءمیں ایک بمبار طیارے پر آلات نصب کرکے مزید بہتر ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2007ءمیں پکی خبر بننے والی یہ اطلاع یا معلومات اُسی سال خبر کیوں نہیں بنائی گئیں؟ کیا اس کا مقصد صحیح وقت کا انتظار تھا یا پھر کوئی دوسری مجبوری؟اخبار کے مطابق افغان جنگ میں مشکل صورت حال سے دوچار ہونے کے باوجود امریکی حکام اور افغان حکومت معدنیات کے معاملے پر مذاکرات کے لیے متفق ہوگئے ہیں۔ کچھ لوگ اس جملے کو اس طرح سے پڑھنا پسند کریں گے: ”افغان عوام کا خون پینے والے اب ان کی معدنی دولت لوٹنے پر اس مشکل صورت حال میں بھی متفق ہوگئے ہیں۔“ کہیں یہی مشکل مجبوری تو نہیں؟ ہوسکتا ہے کہ چین کی طرف سے افغانستان میں معدنیات کی جانب پیش رفت نے امریکا کو ان معلومات کو ’جلد‘ خبر بنانے پر مجبور کیا ہو۔ لیکن چین کی طرف سے پیش رفت اس کی واحد وجہ نہیں ہوسکتی۔دراصل امریکا افغانستان میں اپنے اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ اور پینٹاگون کی یہ خواہش تھی کہ وہ طالبان کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑکر اُن کو ایک کمزور حریف ثابت کردیں تاکہ اپنی شرائط پر مذاکرات کیے جاسکیں یا پھر افغانستان سے اپنی باعزت واپسی کے لیے طالبان کو کم از کم مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے۔ لیکن یہ خواہش اب تک صرف خواہش ہی ثابت ہوئی ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق اِس وقت افغانستان میں اگر دن کے وقت امریکیوں یا افغان کٹھ پتلیوں کی حکومت ہوتی ہے تو رات کے وقت طالبان کی عمل داری قائم ہوجاتی ہے۔ جبکہ کچھ آزاد ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے بیشتر علاقوں پر عملاً طالبان کی حکومت ہے کیوں کہ سارے فیصلے وہی کرتے ہیں۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت امریکی منصوبے دھرے کے دھرے ہی رہ گئے ہیں اور امریکا اور اس کے افغان کٹھ پتلیوں کو اس بات کی جلدی ہے کہ اپنی فیصلہ کن شکست سے قبل افغان معدنیات کو ڈالرز میں بدل کر اپنے اکاﺅنٹس میں منتقل کرلیں۔ دسمبر2009ءمیں امریکی صدر بارک اوباما نے مزید30 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مرحلہ وار انخلاءکا آغاز جون2011ءمیں ہوگا۔ اس وقت افغانستان میں ایک امریکی فوجی پر سالانہ ایک ملین امریکی ڈالر کا خرچہ آتا ہے‘ اس طرح اس جنگ میں ایک لاکھ امریکی سپاہیوں پر اُٹھنے والے اخراجات 100بلین ڈالر کے لگ بھگ ہوں گے۔ دوسری طرف ’اے بی سی‘ اور ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے حالیہ سروے میں 53 فیصد امریکیوں نے افغانستان میں مزید جنگ لڑنے کے خلاف رائے دی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکی عوام کو کسی چیز کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا بھلے احساس نہ ہو‘ لیکن وہ اس بات کا حساب ضرور رکھتے ہیں کہ ان کی جیبوں سے ٹیکسوں کی مد میں نکلنے والی بڑی رقم مطلوبہ مقاصد کے حصول میں کامیاب ہورہی ہے یا نہیں؟ ’سی آئی اے‘ کے فنڈز سے چلنے والے ’نیویارک ٹائمز‘ کی طرف سے اس ’بڑی‘ خبر کو بریک کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ امریکی عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ افغان جنگ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے بلکہ اس جنگ پر اُٹھنے والے اخراجات افغانستان کی سخت چٹانوں اور پہاڑوں سے پورے کیے جاسکتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر جن پہاڑوں پر وہ افغان مجاہدین کے ہاتھوں بُری طرح پٹتے رہے ہیں ان کے نیچے دفن خزانے ان کی ڈوبی ہوئی رقم کی ’ریکوری‘ کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ ریکوری ہوپائے گی؟ اس کا انحصار طالبان کی مزاحمت ختم ہونے پر ہے‘ جس میں یقیناً وہ کامیاب نہیں ہوپائےں گے۔ اس وقت افغان عوام کو طالبان کا شکر گزار ہونا چاہیے جو ان کی معدنی دولت کی چوکیداری شدید مزاحمت کی صورت میں کررہے ہیں‘ ورنہ تو افغان کٹھ پتلی حکمران مال کیا افغان عوام کو بھی صلیبیوں کے ہاتھوں زندہ فروخت کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ یہ طالبان کی مزاحمت ہی ہے جس نے اس معدنی دولت پر نظر رکھنے والے کئی ’امیدواروں‘ کے ذہنوں میں شدید خدشات کو جنم دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معدنی دولت پر نظرجمانے والے بھارت کے نئی دہلی میں موجود ایک سابق سفارت کار سنتوش کمار کہتے ہیں کہ اس میدان میں مصروفِ عمل بھارتی کمپنیوں کو افغانستان کے حوالے سے چند خدشات بھی لاحق ہیں: ”ان کے لیے دو مسائل ہیں۔ پہلا سیکورٹی کا مسئلہ ہے جبکہ دوسرا مسئلہ ذرائع رسد کا ہے“۔ سیکورٹی کا مسئلہ یقیناً بڑا مسئلہ ہے۔سنتوش کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”بھارت ایک ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے۔ لہٰذا مختلف طرح کی معدنیات کی ضروریات میں روز بروز اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بھارت ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کے اہم ملکوں میں سے ایک ہے۔ ان ٹیکنالوجیز میں مثال کے طور پر فضائی اور خلائی ٹیکنالوجی میں نئی معدنیات اور دھاتوں کی نہ صرف ضرورت پڑتی ہے بلکہ ان دھاتوں کے استعمال کے حوالے سے اختراعات کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ چونکہ ریئر ارتھ میٹلز سمیت اس طرح کی معدنیات بھارت میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے یہ درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ بھارت کے پڑوسی ملکوں میں اگر کوئی ایسی دریافت ہوتی ہے تو وہ بہت زیادہ اہم ہے“۔ افغانستان کی معدنیات نہ صرف بھارت بلکہ کئی ممالک کے لیے اہم ہیں، اور یہ ممالک اس کوشش میں ہیں کہ کسی طریقے سے افغانستان کی معدنی دولت میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کیا جائے۔چین بھی افغانستان کی معدنیات میں دلچسپی لے رہا ہے، لیکن اس دلچسپی کو ’وسائل کی بھوک‘ کا نام دیا گیا۔ جبکہ امریکا جیسا خونیں بھیڑیا یہ سب کچھ ”انسان دوستی“ میں کررہا ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ معدنی وسائل کی خبر نشر کرنے کا مقصد ان کوششوں کو بھی روکنا تھا جو نیویارک ٹائمز کے الفاظ میں ’وسائل کے بھوکے چین‘ کی طرف سے ہورہی تھیں۔2008ءمیں چین کی سرکاری فرم ’ایم سی سی‘ نے کابل سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ لوگار میں واقع ایانک کے مقام پر ’کوپر‘ کی کان کے سلسلے میں حکومتِ افغانستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے لیے فرم نے 484 ملین پاﺅنڈز بطور پیشگی ادا کیے۔ ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق اس پروجیکٹ سے افغانستان کو 240 ملین پاﺅنڈز سالانہ کی آمدن ہوگی جبکہ 20 ہزار نوکریاں بھی اس پروجیکٹ سے میسر آجائیں گی۔ لیکن امریکا نے وزیر معدنیات محمد ابراہیم عادل پر اس معاہدے کے بدلے میں چین سے30 ملین ڈالر بطور رشوت لینے کا الزام لگا کر انہیں برطرف کروادیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں استعارے کے طور پر افغانستان میں وسیع معدنی ذخائر کے سبب اسے ”لیتھیم کا سعودی عرب“ کہہ کر افغان عوام کو گولی دینے کی کوشش کی گئی کہ ان معدنیات کی لوٹ مار سے ان کی قسمت بدل جائے گی اور وہ سعودیوں جیسے یا ان سے بھی زیادہ خوشحال ہوجائیں گے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے گزشتہ سال کے اواخر میں کہا تھا کہ امن قائم ہوجائے تو یہ معدنی ذخائر افغانستان کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل کردیں گے۔ جبکہ افغان وزارت صنعت و معدنیات کے ترجمان جاوید عمر کہتے ہیں کہ افغانستان میں قدرت کے یہ تحفے ملکی معیشت کو ترقی و کامرانی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔کیا افغانستان واقعی ترقی وکامرانی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا؟ اس تاثر کے درست یا غلط ہونے کے لیے اِسے مختلف تناظر سے دیکھنا ہوگا۔ کسی بھی ملک میں معدنی ذخائر کو صحیح انداز میں نکالنے کے لیے سب سے پہلے لاجسٹک سپورٹ یعنی سڑکوں ‘گاڑیوں‘ گاڑیوں کے فلنگ اسٹیشنوں، مرمت کی ورکشاپس اور ریلوے ٹریک وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔دوئم، بڑی مقدار میں بہتا پانی‘ جو دھاتوں کو صاف کرنے کے لیے درکار ہوتاہے۔ اورسوئم، مناسب اور قابلِ اعتبار بجلی کی مناسب مقدار۔ کیا یہ سب چیزیں افغانستان میں ہیں؟ ان بنیادی لوازمات کی فراہمی کے لیے کتنی رقم درکار ہوگی؟ سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں سے اکثر کا جواب یقیناً ’نہیں‘ میں ہے۔ان لوازمات کے علاوہ جو اہم چیز درکار ہوتی ہے وہ ہے اپنے عوام سے مخلص حکومت اور حکمران‘ جو ملک کے ذخائر کو عوام کی خوشحالی کا ذریعہ بنائیں اور ان سے حاصل ہونے والی رقوم امریکا اور یورپ میں موجود اپنے بینک اکاﺅنٹس میں منتقل نہ کریں۔ لیکن یہاں تو صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ کرزئی کی مرکزی حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں جبکہ انتظامی وفاقی اکائیوں کے نام پر عوام پر مسلط غنڈوں کو عوامی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں۔ امن وامان کی صورت حال خراب ترین ہے جبکہ امریکی فوجی سخت فرسٹریشن کا شکار ہوکر آئے روز معصوم افغانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ کرزئی حکومت کا کرپشن میں ملوث ہونا تو یقینی ہے ہی‘ اس میں کرپشن کو روکنے کی اہلیت بھی نہیں ہے۔اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معدنی وسائل ہی کسی ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں افریقی ملک نائیجیریا کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں تیل کی وافر دولت کے باوجود بدامنی اور غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔گیانا میں تیل کے ذخائر نے اس چھوٹے سے ملک کے صدر کو تو اُس کی سوچ سے زیادہ مالدار بنادیا لیکن عوام آج تک ابتر زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح کانگو کے عوام بھی آج بیشتر مغربی ممالک کے عوام سے زیادہ خوشحال ہونے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بولیویا لیتھیم سے مالامال ہے‘ لیکن یہ آج بھی لاطینی امریکا کا غریب ترین ملک ہے‘ دنیا بھر میں ہیرے (ڈائمنڈ) کے سب زیادہ ذخائر نمیبیا میں ہیں لیکن اس ملک کے عوام کی حالت قابل قدر نہیں ہے۔معدنی وسائل سے مالامال ان ممالک کا تجزیہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کسی ملک کی معدنیات عوام الناس کی فلاح و بہبود اور ان کے طرزِ زندگی کی بہتری کا ذریعہ بنتی ہیں یا اس سے ملک کی اشرافیہ اور ان کے بین الاقوامی غاصب دوست فائدہ اٹھاتے ہیں؟ یہ سوال خود اپنے اندر جواب رکھتا ہے جو ہمیں ’معدنی ذخائر سے مالامال افغانستان‘ کے اچانک نمودار ہونے کے اس سارے قصے کے پیچھے کارفرما عزائم کا پتا دیتا نظر آتا ہے۔ افغانستان کے پاس اگر وسیع معدنی ذخائر ہیں تو اس کے مسائل نائیجیریا‘ کانگو‘ بولیویا اور نمیبیا سے مختلف نہیں ہیں۔ اس بریکنگ نیوز کی تفصیلات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس سے افغانوں کو روزگار مہیا ہوگا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا روزگار ہوگا؟ کھربوں ڈالرز کے ذخائر کے مالک افغان عوام میں سے اگر چند لاکھ کو بھی روزگارکے نام پر مزدوری اور مشقت کی بھیک دے دی جائے تو کیا یہ ان کے دل جیتنے کی کوشش قرار دی جاسکتی ہے؟ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو‘ جن پر امریکا کی اجارہ داری ہے، ان ممالک سے محبت ہوتی ہے جہاں معدنی ذخائر تو وسیع پیمانے پر ہوں لیکن وہاں کے عوام اَن پڑھ ہوں تاکہ پروجیکٹس سے حاصل ہونے والی رقوم کا بڑا حصہ وہ اپنی ماہرانہ خدمات کے ’صلے‘ میں اپنے ملکوں میں لے جائیں۔افغان وزیر برائے معدنیات اور کان کنی وحید اللہ شاہرانی کے بقول ان معدنیات کو زمین سے نکالنے کے لیے حکومتی کوششیں اسی سال کے آخر تک شروع ہوجائیں گی۔ شاہرانی کے بقول افغان حکومت 25 جون کو لندن میں ایک روڈ شو کا اہتمام کررہی ہے، جس میں کان کنی کے شعبے میں اپنی مہارت اور وسائل کی نمائش کے لیے دنیا بھر کی 200 سے زائد کمپنیوں کو مدعو کیا جائے گا۔افغان حکام کی توقعات اپنی جگہ، لیکن افغان عوام کی حقیقی ترجمانی کرنے والے مزاحمت کار اپنی قومی دولت کو لندن کے روڈ شو میں نیلام نہیں ہونے دیں گے، جبکہ نیلامی سے حاصل ہونے والی تھوڑی بہت رقم افغان عوام کی فلاح و بہبود پر صرف ہونے کے بجائے کٹھ پتلی حکمرانوں کی جیبوں میں چلے جانے کا بھی سو فیصد امکان ہے۔اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ ابھی ان معدنیات سے مالامال علاقوں کی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے جن کا انکشاف نیویارک ٹائمز نے کیا ہے، تاہم یہ بات معلوم ہے کہ زیادہ تر معدنیات افغانستان کے اُن حصوں میں پائی جاتی ہیں جہاں عملاً مزاحمت کاروں کا کنٹرول ہے۔

Articles

اسرائیل کے خلاف لب کشائی کا ”سنگین“ جرم وائٹ ہاﺅس کی دیرینہ خاتون صحافی بے دخل

In Uncategorized on جون 14, 2010 منجانب ابو سعد

اسرائیل کے خلاف لب کشائی کا ”سنگین“ جرم
وائٹ ہاﺅس کی دیرینہ خاتون صحافی بے دخل
ہیلن تھامس کی وائٹ ہاﺅس سے57سالہ وابستگی بھی ان کو نہ بچاسکی
ہیلن کی سالگرہ پر گنگناتے ہوئے کیک پیش کرنے والے بارک اوباما کو بھی ان کی مذمت کرنا پڑی
اس واقعے نے امریکا میں ” اظہارِ رائے کی آزادی“ کا پول کھول دیا‘ فیس بک پر پابندی کے مخالفین کہاں ہیں؟
……..٭٭٭……..
تحریر:ابوسعد
……..٭٭٭……..
بس یہی تو کہا کہ ”ان سے کہیں کہ وہ فلسطین سے نکل جائیں“۔ اور جب پوچھا گیا کہ یہودی کہاں جائیں؟ تو انھوں نے جواباً کہا اور بالکل ٹھیک کہا کہ ”انھیں اپنے گھر جانا چاہیے…. پولینڈ‘ جرمنی‘ امریکا یا پھر دوسرے ملکوں کو چلے جانا چاہیے جہاں سے وہ آئے تھے۔“ انہوں نے ربی کو یاد دلایا کہ ”یہ لوگ (فلسطینی) مقبوضہ ہیں‘ اور یہ انہی کی سرزمین ہے‘ یہ جرمنوں اور پولینڈ والوں کی سرزمین نہیں“۔
ایک دفعہ صحافت سے ریٹائرمنٹ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا: ”میں سمجھتی ہوں کہ میں ساری زندگی کام کرتی رہوں گی۔ جب آپ کو (اپنے کام میں) مزہ آتا ہو‘ تو پھر اس کا بند کرنا کیسا؟“ اس پایہ کی خاتون کے لیے اپنے کام سے فراغت موت تھی۔ آج اُن کا صحافتی کیریئر ختم کرکے اُن سے اُن کی ”زندگی“ چھین لی گئی ہے…. اسرائیل کے خلاف بات کرنے کے جرم میں‘ اُس ملک میں جہاں سے ”آزادی_¿ اظہارِ رائے“ اور ”آزادی_¿ صحافت“ کے ”صاف وشفاف“ چشمے پھوٹ کر پوری دنیا کو ”سیراب“ کرتے ہیں۔
انہوں نے ایک بار یہ بھی کہا تھا کہ: ”وائٹ ہاﺅس امریکی عوام کی ملکیت ہے۔“ اور آگے کہا: ”کم ازکم میں نے یہ سیکھا ہے تاریخ کی کتابوں سے اور جان ایف کینیڈی سے لے کر آج تک کے صدور کو کور کرتے ہوئے۔“ آج اُن کا کہا ہوا غلط ثابت ہوا۔ 27 مئی کو وائٹ ہاﺅس میں منعقدہ ”جیوش ہریٹیج سیلبریشن“ ان کے لیے ان تمام تجربات اور تاریخی کتب کے مطالعے سے زیادہ عملی ثابت ہوئی۔ اس موقع پر لی گئی اُن کی رائے نے امریکا میں ایک سونامی برپا کردیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ لگ بھگ 6 دہائیوں سے امریکی صحافت میں رہنے کے باوجود انہیں ایسے بے دخل کردیا گیا جیسے کبھی وہ اس کا حصہ تھی ہی نہیں۔
غیر معمولی شہرت حاصل کرنے والی ہیلن تھامس کو وائٹ ہاﺅس جہاں وہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے صدارتی نمائندہ_¿ خصوصی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی تھیں‘ نکال باہر کردیا گیااور وہ بھی ان کی طرف سے اپنی ”غلطی“ تسلیم کیے جانے اور اس پر معافی طلب کرنے کے باوجود۔ وہ کوئی معمولی خاتون نہیں ہیں۔ بعض لوگ انہیں صحافت کی ہیروئن جبکہ امریکی صدر بارک اوباما اپنی ذات میں ایک ’ادارہ‘ قرار دے چکے ہیں۔ جبکہ پیدائش کی تاریخ اور مہینہ ایک ہونے کے سبب دونوں اپنی سالگرہ بھی ایک ساتھ مناچکے ہیں۔
گزشتہ سال 4 اگست کو بارک اوباما کی 48ویں اور ہیلن تھامس کی 89 ویں سالگرہ کے موقع پر وائٹ ہاﺅس میں تقریب منعقد کی گئی۔ امریکی صدر نے ہیلن تھامس کو سالگرہ کی مبارکباد دینے کا منفرد انداز اختیار کیا‘ صدر اوباما کیک ہاتھ میں لیے گاتے ہوئے بریفنگ روم میں داخل ہوئے اور ہیلن تھامس کو سالگرہ کی مبادکباد دی۔
اوباما نے جنہیں ’ادارہ‘ قرار دیا تھا وہ شرمناک امریکی اقدار کے ہاتھوں اب ختم ہوچکا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں‘ کیوں کہ جس نے ادارے کا درجہ پایا ہو وہ یقینا غیر معمولی خاتون ہوگی۔ 4 اگست1920ءکو پیدا ہونے والی ہیلن تھامس نے 57 برس تک بطور نمائندہ_¿ خصوصی خدمات انجام دینے کے بعد یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل کے لیے وائٹ ہاﺅس بیورو چیف کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ جان ایف کینیڈی سے لے کر موجودہ صدر اوباما تک ہر امریکی صدر کی پریس کانفرنس کو کور کیا۔7 جون 2010ءکو زبردستی ریٹائر کی جانے والی ہیلن نیشنل پریس کلب کی پہلی خاتون افسر کے علاوہ وائٹ ہاﺅس کے نامہ نگاروں کی تنظیم ’وائٹ ہاﺅس کو ریسپانڈیڈ ایسوسی ایشن‘ کی پہلی خاتون ممبر اور صدر رہیں۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز واشنگٹن میں ایک چھوٹے سے اخبار میں ’کاپی گرل‘ کے طور پر کیا۔ واشنگٹن کے اس معمولی سے اخبار سے وہ وائٹ ہاو_¿س کے بریفنگ روم میں سب سے اگلی نشستوں کی درمیان والی کرسی تک پہنچیں۔ اس کرسی پر اب ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں ان کا نام کندہ کیا گیا ہے۔ ہیلن نے صدر جان ایف کینیڈی کے ابتدائی دور میں وائٹ ہاو_¿س کی رپورٹنگ شروع کی تھی۔ ابتدا میں ہیلن تھامس اس روزانہ بریفنگ میں باقاعدگی سے جانے لگیں۔ ہیلن نے دس امریکی صدور کے ادوار میں وائٹ ہاو_¿س کی رپورٹنگ کا اعزاز حاصل کیا۔ انہیں نیشنل پریس کلب کی بھی پہلی خاتون افسر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ہیلن ستاون برس تک یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل کے ساتھ وابستہ رہیں۔ انہیں سابق صدر بش کے دور میں عراق اور افغانستان پر بے لاگ سوالات کرنے پر شہرت حاصل ہوئی۔ وہ وائٹ ہاﺅس پریس کور کی واحد رکن تھی جن کی وائٹ ہاﺅس بریفنگ روم میں ذاتی نشست تھی۔ واضح رہے کہ یہاں نشستیں افراد کے بجائے ابلاغی گروپوں کو مختص کی جاتی ہیں۔
ہیلن واحد اخباری خاتون صحافی تھیں جو1972ءمیں رچرڈنکسن کے تاریخی دورہ_¿ چین پر اُن کے ساتھ رہیں۔ تند وتیز سوالات کے لیے مشہور ہیلن تھامس امریکا ہی میں مشہور نہیں تھیں بلکہ عالمی شہرت کی مالک تھیں۔ انہوں نے ایک دلیر صحافی کے طور پر اپنی ساکھ بنائی۔ وہ وائٹ ہاو_¿س کی بریفنگز کے دوران کبھی سخت سے سخت سوال کرنے سے نہیں ہچکچائیں۔ یوایس اے ٹوڈے کے بانی النیوہارٹ نے ایک انٹرویو میں جب کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو سے پوچھا: ”امریکی جمہوریت اور کیوبا کی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟“ تو انہوں جواب دیا: ”وہاں مجھے ہیلن تھامس کے سوالوں کے جواب نہیں دینے پڑتے۔“
اس قدر قدآور ہیلن تھامس نے فوری طور پر ایک معافی نامہ اپنی ویب سائٹ پر جاری کردیا: ”مجھے اپنے اس تبصرے پر بے حد افسوس ہے جو میں نے پچھلے ہفتے اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں کیا۔ یہ میرے اس یقینِ قلبی کی عکاسی نہیں کرتا جس کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امن صرف اسی وقت قائم ہوگا جب تمام فریقین باہمی احترام اور برداشت کی ضرورت کو محسوس کریں گے۔ خدا کرے ایسا جلد ہو۔“
یہی نہیں بلکہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے میڈیا نقاد ’ہورڈکورٹز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ”مجھے اپنے بیان پر بے حد افسوس ہے“ اور ”اعتراف“کیا کہ ”میں سمجھتی ہوں کہ میں نے حد پار کردی…. میں نے غلطی کی“۔
یہ معافی اور غلطی کا اعتراف بھی ان کی (صحافتی) زندگی کو نہیں بچاسکے۔7جون 2010ءکو ہیلن نے ہرسٹ نیوز پیپرز کو اپنا استعفیٰ پیش کیااور اس طرح جبری طور پر ریٹائر کردی گئیں۔ 6 جون کو ہیلن کی ایجنسی ’نائن اسپیکرز‘ نے اعلان کیا کہ ہم نے ہیلن تھامس کے بیان کے سبب انہیں ہٹادیا ہے“۔ ہیلن کی مشہور کتاب کے شریک مصنف کریگ کرافورڈ نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ مزید کام نہیں کریں گے۔
1943ءمیں 24 ڈالر فی ہفتہ پر یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل میں نوکری حاصل کرنے والی ہیلن تھامس نے 17مئی 2000ءکو اس ادارے کے ساتھ اپنی57 سالہ وابستگی اُس وقت ختم کردی تھی جب اس کا انتظام یونیفکیشن چرچ کے ادارے نیوز ورلڈ کمیونی کیشن نے سنبھالا۔ اس کے بعد انہوں نے ہرسٹ نیوز پیپرز گروپ جس کے کئی اخبارات شائع ہوتے ہیں‘ کے لیے کالم لکھنا شروع کردیا تھا۔
ویڈیو بنانے والا ربی ڈیوڈ نیسن آف کہتا ہے: ”تکلف برطرف! اس سے مجھے شدید دھچکا لگا ہے“۔ یہ وائٹ ہاﺅس میں27 مئی کو منعقدہ ’جیوش ہیرٹیج سیلبریشن‘ کے موقع پر موجود ہرسٹ اخبارات کا کالم نویس ہیلن تھامس سے پوچھنے لگا: ”اسرائیل کے بارے میں آپ کا کوئی تبصرہ؟ تو انہوں نے وہی جواب دیا جو اگرچہ آزادی_¿ اظہارِ رائے کے چیمپئن ملک امریکا میں ممنوع ہے مگر حقیقت ضرور ہے۔ انہوں نے وہی کہا جو کہنا چاہیے تھا۔ اور مزید یاد دلایا: ”یہ لوگ (فلسطینی) مقبوضہ ہیں‘ اور یہ انہی کی زمین ہے‘ یہ جرمنوں اور پولینڈ والوں کی زمین نہیں“۔ ہیلن نے تاریخی حقیقت بتادی کہ ان کو پولینڈ اور جرمنی سمیت دنیا بھر کے ممالک سے لاکر فلسطینیوں کی سرزمین پر بساکر اس وطن کے اصل باشندوں کو بے گھر کردیا گیا۔
لیکن ربی ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ: ”یہ (گفتگو) نفرت انگیز تھی…. نفرت انگیز گفتگوکا ایک نمونہ۔“ اس لیے کہ صہیونی مو_¿قف سے متصادم تھی؟ یقینا یہودیوں کے خلاف کوئی سچی بات کہنا نفرت انگیز بات قرار پاتی ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان میں کوئی امریکی ظلم کے خلاف بات کرے۔ افغانستان میں نیٹو فورسز کا معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دینا دہشت گردی نہیں‘ لیکن نیٹو فورسزکے لیے جانے والے ٹینکرز پر پاکستان میں حملہ آور ہونا اور سامان کو جلانا یا نقصان پہنچانا بہت بڑی دہشت گردی ہے! ہم اور آپ اگرچہ ایسا نہیں سمجھتے تاہم پاکستانی ذرائع ابلاغ یہی بتارہے ہیں۔
این بی سی کے ’ٹوڈے شو‘ میں بات کرتے ہوئے ہیلن کی سالگرہ پر گنگناکرکیک پیش کرنے والے صدر بارک اوباما نے ان کے جبری استعفے کو ”درست فیصلہ“قرار دیا۔ انہوں نے ہیلن کے بیان کو ”جارحانہ“ اور ”نامناسب“ قرار دیا اور کہا کہ اس طرح انہوں نے اپنے شاندار کیریئر کو شرمناک طریقے سے ختم کیا۔ بین الاقوامی پانیوں میں نہتے انسانوں کو مارنے والا جارح نہیں لیکن اس قابض کو فلسطین سے نکل جانے کا کہنے والا یقینا جارح ہے۔ اگرچہ رپورٹر جیفری گولڈبرگ نے ہیلن کے تبصرے کو حماس کا سرکاری بیان قرار دیا ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ اب تک ان کو طالبان قرار نہیں دیا گیا۔ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں ”امریکی طالبان“ کی اصطلاح وضع کرکے ہیلن کو اس تحریک کا بانی قرار دیا جائے۔
ہیلن تھامس کو اپنے ”جرم“ کی سزا مل چکی لیکن ان کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ پورا امریکی میڈیا انہیں برداشت کرتا چلا آرہا تھا‘ بس ایک موقع کی تلاش تھی اور وہ موقع ربی ڈیوڈ نے فراہم کیا جس نے اس ویڈیو کو ایک ہفتے بعد اَپ لوڈ کیا اور اس کی وجہ اپنے بیٹے کے فائنل امتحانات کی تیاری میں مصروف ہونا قرار دیا جو اُس کے بقول اُس کا ویب ماسٹر ہے۔ لیکن واشنگٹن سمیت امریکی صحافی برادری میں ای میل کا تبادلہ پہلے سے ہی جاری تھا‘ کیوں کہ ہیلن کے صہیونی مخالف نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ اور اس ای میل مہم کو نیوکونز ’اری فلیشر‘ نے بخوبی چلایا جو بش دور میں وائٹ ہاﺅس میں ان کا فرسٹ پریس سیکریٹری ہوا کرتا تھا۔ اس کی ایک وجہ عراق جنگ پر جارج بش سے سخت سوالات بھی تھے جو پریس سیکریٹری کی سماعتوں سے ٹکرانے کے بعد سیدھے اس کے دل کو زخمی کردیتے تھے‘ اور تیر سیدھا دل پر اُس وقت لگا تھا جب 2002ءمیں ہیلن نے ’ایری فلیشر‘ سے یہ پوچھنے کی جرا_¿ت کی کہ ”کیا صدر سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کو 35 سالہ بہیمانہ عسکری قبضے اور جبر کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل نہیں؟“ اس کے4سال بعد انہوں نے فلیشر کے جانشین ’ٹونی اسنو‘ سے کہا کہ ”امریکا لبنان کے اوپر اسرائیلی بمباری کو روک سکتا تھا لیکن اس کے برعکس اُس نے لبنانیوں اور فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دی“۔ ان ”حزب اللہ خیالات“ پر ٹونی نے ان کا ”شکریہ“ ادا کیا۔ یعنی اسرائیل کی حمایت درست اور اس کے برعکس خیالات رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا تعلق حزب اللہ یا حماس سے ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق رپورٹرزکی ایک بڑی تعداد نے برسوں تک ان کے کردار پر سخت سوالات اٹھائے ہیں۔ 2006ءمیں نیو ریپبلک پیس‘ جوناتھن چیٹ نے ہیلنکے بارے میں کہا کہ ہیلن نے مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے جیسے انہوں نے سوال کیا ہے کہ ”ہم عراق میں لوگوں کو کیوں مار رہے ہیں؟ مردوخواتین اور بچوں کو وہاں مارا گیا ….یہ انتہائی ظالمانہ (حرکت) ہے۔“ یہ امریکی میڈیا کا مکروہ چہرہ ہے جس کے تحت ایک جائز اور سچا سوال مبالغہ آمیزی ہے۔ تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ امریکی اور مغربی میڈیا‘ میڈیا ہے یا یہودی پروپیگنڈا مشنری؟
سی بی ایس کے نمائندے مارک نولر نے لکھا ہے کہ ”وہ ایسے سوال پوچھتی تھیں جو کوئی سخت نیوز رپورٹر نہیں پوچھ سکتا تھا۔ ایسے سوال جو ایک ایجنڈے کے تحت پوچھے جاتے تھے‘ جن کے بارے میں اکثر رپورٹرز کا خیال ہوتا تھا کہ وہ نامناسب تھے۔“ وہ مزید لکھتا ہے کہ ”بطور کالم نگار ہیلن اپنے آپ کو مقصدیت کی پالیسی سے آزاد سمجھتی تھیں۔ ان کے سوالات بعض دفعہ نیوز روم میں موجود رپورٹرز کو ہراساں کرتے تھے۔“
نیشنل ریویو آن لائن کی کالم نگار جوناگولڈبرگ ہیلن کی اس ”سرکشی“ کی وجہ سینیارٹی سسٹم کی وجہ سے ان کو حاصل عزت کو قرار دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اگر وہ اب تک برداشت ہوتی رہی ہیں تو اس کی واحد وجہ ان کی سینیارٹی تھی‘ ورنہ ان کو کب کا وائٹ ہاﺅس کے بریفنگ روم سے باہر پھینکا جاچکا ہوتا۔ اوباما کے علاوہ وائٹ ہاﺅس کا ردعمل پریس سیکریٹری رابرٹ گبز نے بھی ظاہر کیا ہے جنہوں نے ہیلن کے بیان کو ”جارحانہ“ اور”قابل ملامت“ قرار دیا۔ وائٹ ہاﺅس کرسپانڈنٹ ایسوسی ایشن جس کی کبھی وہ صدر ہوا کرتی تھیں‘ نے ان کے بیان کو ناقابلِ دفاع قرار دیا تو ایسے میں ان کا رخصت ہوجانا لازمی ٹھیر جاتا ہے۔
اعتراف ِجرم اور معافی کے باوجود ایک بہت بڑی صحافتی دیوار گرادی گئی ہے جس سے امریکی میڈیا کی آزادی کا پول کھل گیا۔ توہین آمیز خاکوں کو ’آزادی_¿ اظہارِ رائے‘ کے عین مطابق قرار دینے والوں نے ایک خالص سیاسی بیان پر ہنگامہ مچا دیا۔ مجھے نہیں پتا کہ پاکستان میں ”اعلیٰ امریکی اقدار“ اور آزادی_¿ صحافت کی ”اعلیٰ امریکی قدروں“ کی دلالی کرنے والا پاکستانی لبرل طبقہ اس پر کوئی ردعمل ظاہر کرے گا یا نہیں‘ تاہم اس واقعے نے اس بحث کو منطقی انجام تک پہنچادیا اور ثابت ہوگیا کہ توہین رسالت کو اپنا حق سمجھنے والے امریکا اور مغرب کا ”اظہارِ رائے کی آزادی“ سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
یہاں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ مظاہر نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام بنی نوع انسانی پر اسرائیلی ریاست کے نام پر صہیونی دہشت گردوںکو مٹانا واجب نہیں کرتے؟
(بشکریہ ”جسارت میگزین“ روزنامہ جسارت کراچی)