Articles

افغانستان کی معدنی دولت پر منڈلاتے گدھ، معدنیات کی لوٹ مار میں افغان مزاحمت کار اصل رکاوٹ بن کر سامنے موجود ہیں

In فوج, پاکستان, بین الاقوامی تعلقات, طالبان on جون 21, 2010 by ابو سعد Tagged: , ,

امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے گزشتہ دنوں ایک ’خبر‘ بریک کی جس کے مطابق افغانستان میں سونے‘ تانبے‘ کوبالٹ اور لیتھیم سمیت مختلف دھاتوں پر مشتمل 9 کھرب ڈالر مالیت کے معدنی وسائل دریافت ہوئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان معدنیات پر قبضے کے لیے امریکا نے سرگرمیاں تیز کردی ہیں‘ جبکہ مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ معدنی ذخائر کی دریافت سے افغانستان پر اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے امریکا اور چین میں کشمکش تیز ہوسکتی ہے، جبکہ بھارت بھی اس کشمکش کا حصہ بنے گا۔ دوسری جانب طالبان کی جانب سے مزاحمت شدید ہونے کا بھی امکان ہے۔ افغانستان کے معدنی وسائل عالمی جارح قوتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کے ہاتھوں لٹنے میں کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ ایک ناممکن بات کو ممکن بنائیں، اور وہ ناممکن بات ہے طالبان کی شدید مزاحمت کا تدارک۔ خبر کے مطابق افغانستان کے پہاڑوں اور ریگزاروں میں چھپی اس معدنی دولت کی نشاندہی امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون‘ امریکی جیالوجیکل سروے اور یو ایس ایڈ کے اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹیم نے کی‘ جس کی تصدیق افغان حکومت نے کردی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران تیار کیے گئے نقشوں کی بنیاد پر امریکا نے فضائی سروے کے ذریعے وسیع ذخائر کا سراغ لگایا ہے۔9 کھرب ڈالر مالیت کے ان معدنی وسائل کی مزید تقسیم بی بی سی نے کچھ اس طرح سے کی ہے کہ ان معدنیات میں لوہے کے420 ارب ڈالر‘ تانبے کے274 ارب ڈالر‘ نیوبیم کے81 ارب ڈالر‘ کوبالٹ کے 51 ارب ڈالر اور سونے کے25 ارب ڈالر کے ذخائر افغانستان میں پائے جاتے ہیں۔سی آئی اے کے ترجمان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2004ءمیں امریکی ماہرین کو کابل میں افغان جیالوجیکل سروے کے دفتر میں سوویت ماہرین کے تیار کردہ نقشے ملے‘ جن میں افغانستان میں معدنی ذخائر کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان نقشوں کی بنیاد پر امریکی بحریہ کے اورین تھری طیاروں پر خصوصی آلات نصب کرکے ان طیاروں کی افغانستان کے70 فیصد حصے پر پروازیں کرائی گئیں‘ جس سے حوصلہ افزا نتائج ملے۔2007ءمیں ایک بمبار طیارے پر آلات نصب کرکے مزید بہتر ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2007ءمیں پکی خبر بننے والی یہ اطلاع یا معلومات اُسی سال خبر کیوں نہیں بنائی گئیں؟ کیا اس کا مقصد صحیح وقت کا انتظار تھا یا پھر کوئی دوسری مجبوری؟اخبار کے مطابق افغان جنگ میں مشکل صورت حال سے دوچار ہونے کے باوجود امریکی حکام اور افغان حکومت معدنیات کے معاملے پر مذاکرات کے لیے متفق ہوگئے ہیں۔ کچھ لوگ اس جملے کو اس طرح سے پڑھنا پسند کریں گے: ”افغان عوام کا خون پینے والے اب ان کی معدنی دولت لوٹنے پر اس مشکل صورت حال میں بھی متفق ہوگئے ہیں۔“ کہیں یہی مشکل مجبوری تو نہیں؟ ہوسکتا ہے کہ چین کی طرف سے افغانستان میں معدنیات کی جانب پیش رفت نے امریکا کو ان معلومات کو ’جلد‘ خبر بنانے پر مجبور کیا ہو۔ لیکن چین کی طرف سے پیش رفت اس کی واحد وجہ نہیں ہوسکتی۔دراصل امریکا افغانستان میں اپنے اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ اور پینٹاگون کی یہ خواہش تھی کہ وہ طالبان کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑکر اُن کو ایک کمزور حریف ثابت کردیں تاکہ اپنی شرائط پر مذاکرات کیے جاسکیں یا پھر افغانستان سے اپنی باعزت واپسی کے لیے طالبان کو کم از کم مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے۔ لیکن یہ خواہش اب تک صرف خواہش ہی ثابت ہوئی ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق اِس وقت افغانستان میں اگر دن کے وقت امریکیوں یا افغان کٹھ پتلیوں کی حکومت ہوتی ہے تو رات کے وقت طالبان کی عمل داری قائم ہوجاتی ہے۔ جبکہ کچھ آزاد ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے بیشتر علاقوں پر عملاً طالبان کی حکومت ہے کیوں کہ سارے فیصلے وہی کرتے ہیں۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت امریکی منصوبے دھرے کے دھرے ہی رہ گئے ہیں اور امریکا اور اس کے افغان کٹھ پتلیوں کو اس بات کی جلدی ہے کہ اپنی فیصلہ کن شکست سے قبل افغان معدنیات کو ڈالرز میں بدل کر اپنے اکاﺅنٹس میں منتقل کرلیں۔ دسمبر2009ءمیں امریکی صدر بارک اوباما نے مزید30 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مرحلہ وار انخلاءکا آغاز جون2011ءمیں ہوگا۔ اس وقت افغانستان میں ایک امریکی فوجی پر سالانہ ایک ملین امریکی ڈالر کا خرچہ آتا ہے‘ اس طرح اس جنگ میں ایک لاکھ امریکی سپاہیوں پر اُٹھنے والے اخراجات 100بلین ڈالر کے لگ بھگ ہوں گے۔ دوسری طرف ’اے بی سی‘ اور ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے حالیہ سروے میں 53 فیصد امریکیوں نے افغانستان میں مزید جنگ لڑنے کے خلاف رائے دی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکی عوام کو کسی چیز کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا بھلے احساس نہ ہو‘ لیکن وہ اس بات کا حساب ضرور رکھتے ہیں کہ ان کی جیبوں سے ٹیکسوں کی مد میں نکلنے والی بڑی رقم مطلوبہ مقاصد کے حصول میں کامیاب ہورہی ہے یا نہیں؟ ’سی آئی اے‘ کے فنڈز سے چلنے والے ’نیویارک ٹائمز‘ کی طرف سے اس ’بڑی‘ خبر کو بریک کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ امریکی عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ افغان جنگ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے بلکہ اس جنگ پر اُٹھنے والے اخراجات افغانستان کی سخت چٹانوں اور پہاڑوں سے پورے کیے جاسکتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر جن پہاڑوں پر وہ افغان مجاہدین کے ہاتھوں بُری طرح پٹتے رہے ہیں ان کے نیچے دفن خزانے ان کی ڈوبی ہوئی رقم کی ’ریکوری‘ کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ ریکوری ہوپائے گی؟ اس کا انحصار طالبان کی مزاحمت ختم ہونے پر ہے‘ جس میں یقیناً وہ کامیاب نہیں ہوپائےں گے۔ اس وقت افغان عوام کو طالبان کا شکر گزار ہونا چاہیے جو ان کی معدنی دولت کی چوکیداری شدید مزاحمت کی صورت میں کررہے ہیں‘ ورنہ تو افغان کٹھ پتلی حکمران مال کیا افغان عوام کو بھی صلیبیوں کے ہاتھوں زندہ فروخت کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ یہ طالبان کی مزاحمت ہی ہے جس نے اس معدنی دولت پر نظر رکھنے والے کئی ’امیدواروں‘ کے ذہنوں میں شدید خدشات کو جنم دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معدنی دولت پر نظرجمانے والے بھارت کے نئی دہلی میں موجود ایک سابق سفارت کار سنتوش کمار کہتے ہیں کہ اس میدان میں مصروفِ عمل بھارتی کمپنیوں کو افغانستان کے حوالے سے چند خدشات بھی لاحق ہیں: ”ان کے لیے دو مسائل ہیں۔ پہلا سیکورٹی کا مسئلہ ہے جبکہ دوسرا مسئلہ ذرائع رسد کا ہے“۔ سیکورٹی کا مسئلہ یقیناً بڑا مسئلہ ہے۔سنتوش کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”بھارت ایک ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے۔ لہٰذا مختلف طرح کی معدنیات کی ضروریات میں روز بروز اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بھارت ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کے اہم ملکوں میں سے ایک ہے۔ ان ٹیکنالوجیز میں مثال کے طور پر فضائی اور خلائی ٹیکنالوجی میں نئی معدنیات اور دھاتوں کی نہ صرف ضرورت پڑتی ہے بلکہ ان دھاتوں کے استعمال کے حوالے سے اختراعات کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ چونکہ ریئر ارتھ میٹلز سمیت اس طرح کی معدنیات بھارت میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے یہ درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ بھارت کے پڑوسی ملکوں میں اگر کوئی ایسی دریافت ہوتی ہے تو وہ بہت زیادہ اہم ہے“۔ افغانستان کی معدنیات نہ صرف بھارت بلکہ کئی ممالک کے لیے اہم ہیں، اور یہ ممالک اس کوشش میں ہیں کہ کسی طریقے سے افغانستان کی معدنی دولت میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کیا جائے۔چین بھی افغانستان کی معدنیات میں دلچسپی لے رہا ہے، لیکن اس دلچسپی کو ’وسائل کی بھوک‘ کا نام دیا گیا۔ جبکہ امریکا جیسا خونیں بھیڑیا یہ سب کچھ ”انسان دوستی“ میں کررہا ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ معدنی وسائل کی خبر نشر کرنے کا مقصد ان کوششوں کو بھی روکنا تھا جو نیویارک ٹائمز کے الفاظ میں ’وسائل کے بھوکے چین‘ کی طرف سے ہورہی تھیں۔2008ءمیں چین کی سرکاری فرم ’ایم سی سی‘ نے کابل سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ لوگار میں واقع ایانک کے مقام پر ’کوپر‘ کی کان کے سلسلے میں حکومتِ افغانستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے لیے فرم نے 484 ملین پاﺅنڈز بطور پیشگی ادا کیے۔ ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق اس پروجیکٹ سے افغانستان کو 240 ملین پاﺅنڈز سالانہ کی آمدن ہوگی جبکہ 20 ہزار نوکریاں بھی اس پروجیکٹ سے میسر آجائیں گی۔ لیکن امریکا نے وزیر معدنیات محمد ابراہیم عادل پر اس معاہدے کے بدلے میں چین سے30 ملین ڈالر بطور رشوت لینے کا الزام لگا کر انہیں برطرف کروادیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں استعارے کے طور پر افغانستان میں وسیع معدنی ذخائر کے سبب اسے ”لیتھیم کا سعودی عرب“ کہہ کر افغان عوام کو گولی دینے کی کوشش کی گئی کہ ان معدنیات کی لوٹ مار سے ان کی قسمت بدل جائے گی اور وہ سعودیوں جیسے یا ان سے بھی زیادہ خوشحال ہوجائیں گے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے گزشتہ سال کے اواخر میں کہا تھا کہ امن قائم ہوجائے تو یہ معدنی ذخائر افغانستان کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل کردیں گے۔ جبکہ افغان وزارت صنعت و معدنیات کے ترجمان جاوید عمر کہتے ہیں کہ افغانستان میں قدرت کے یہ تحفے ملکی معیشت کو ترقی و کامرانی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔کیا افغانستان واقعی ترقی وکامرانی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا؟ اس تاثر کے درست یا غلط ہونے کے لیے اِسے مختلف تناظر سے دیکھنا ہوگا۔ کسی بھی ملک میں معدنی ذخائر کو صحیح انداز میں نکالنے کے لیے سب سے پہلے لاجسٹک سپورٹ یعنی سڑکوں ‘گاڑیوں‘ گاڑیوں کے فلنگ اسٹیشنوں، مرمت کی ورکشاپس اور ریلوے ٹریک وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔دوئم، بڑی مقدار میں بہتا پانی‘ جو دھاتوں کو صاف کرنے کے لیے درکار ہوتاہے۔ اورسوئم، مناسب اور قابلِ اعتبار بجلی کی مناسب مقدار۔ کیا یہ سب چیزیں افغانستان میں ہیں؟ ان بنیادی لوازمات کی فراہمی کے لیے کتنی رقم درکار ہوگی؟ سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں سے اکثر کا جواب یقیناً ’نہیں‘ میں ہے۔ان لوازمات کے علاوہ جو اہم چیز درکار ہوتی ہے وہ ہے اپنے عوام سے مخلص حکومت اور حکمران‘ جو ملک کے ذخائر کو عوام کی خوشحالی کا ذریعہ بنائیں اور ان سے حاصل ہونے والی رقوم امریکا اور یورپ میں موجود اپنے بینک اکاﺅنٹس میں منتقل نہ کریں۔ لیکن یہاں تو صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ کرزئی کی مرکزی حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں جبکہ انتظامی وفاقی اکائیوں کے نام پر عوام پر مسلط غنڈوں کو عوامی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں۔ امن وامان کی صورت حال خراب ترین ہے جبکہ امریکی فوجی سخت فرسٹریشن کا شکار ہوکر آئے روز معصوم افغانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ کرزئی حکومت کا کرپشن میں ملوث ہونا تو یقینی ہے ہی‘ اس میں کرپشن کو روکنے کی اہلیت بھی نہیں ہے۔اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معدنی وسائل ہی کسی ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں افریقی ملک نائیجیریا کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں تیل کی وافر دولت کے باوجود بدامنی اور غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔گیانا میں تیل کے ذخائر نے اس چھوٹے سے ملک کے صدر کو تو اُس کی سوچ سے زیادہ مالدار بنادیا لیکن عوام آج تک ابتر زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح کانگو کے عوام بھی آج بیشتر مغربی ممالک کے عوام سے زیادہ خوشحال ہونے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بولیویا لیتھیم سے مالامال ہے‘ لیکن یہ آج بھی لاطینی امریکا کا غریب ترین ملک ہے‘ دنیا بھر میں ہیرے (ڈائمنڈ) کے سب زیادہ ذخائر نمیبیا میں ہیں لیکن اس ملک کے عوام کی حالت قابل قدر نہیں ہے۔معدنی وسائل سے مالامال ان ممالک کا تجزیہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کسی ملک کی معدنیات عوام الناس کی فلاح و بہبود اور ان کے طرزِ زندگی کی بہتری کا ذریعہ بنتی ہیں یا اس سے ملک کی اشرافیہ اور ان کے بین الاقوامی غاصب دوست فائدہ اٹھاتے ہیں؟ یہ سوال خود اپنے اندر جواب رکھتا ہے جو ہمیں ’معدنی ذخائر سے مالامال افغانستان‘ کے اچانک نمودار ہونے کے اس سارے قصے کے پیچھے کارفرما عزائم کا پتا دیتا نظر آتا ہے۔ افغانستان کے پاس اگر وسیع معدنی ذخائر ہیں تو اس کے مسائل نائیجیریا‘ کانگو‘ بولیویا اور نمیبیا سے مختلف نہیں ہیں۔ اس بریکنگ نیوز کی تفصیلات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس سے افغانوں کو روزگار مہیا ہوگا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا روزگار ہوگا؟ کھربوں ڈالرز کے ذخائر کے مالک افغان عوام میں سے اگر چند لاکھ کو بھی روزگارکے نام پر مزدوری اور مشقت کی بھیک دے دی جائے تو کیا یہ ان کے دل جیتنے کی کوشش قرار دی جاسکتی ہے؟ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو‘ جن پر امریکا کی اجارہ داری ہے، ان ممالک سے محبت ہوتی ہے جہاں معدنی ذخائر تو وسیع پیمانے پر ہوں لیکن وہاں کے عوام اَن پڑھ ہوں تاکہ پروجیکٹس سے حاصل ہونے والی رقوم کا بڑا حصہ وہ اپنی ماہرانہ خدمات کے ’صلے‘ میں اپنے ملکوں میں لے جائیں۔افغان وزیر برائے معدنیات اور کان کنی وحید اللہ شاہرانی کے بقول ان معدنیات کو زمین سے نکالنے کے لیے حکومتی کوششیں اسی سال کے آخر تک شروع ہوجائیں گی۔ شاہرانی کے بقول افغان حکومت 25 جون کو لندن میں ایک روڈ شو کا اہتمام کررہی ہے، جس میں کان کنی کے شعبے میں اپنی مہارت اور وسائل کی نمائش کے لیے دنیا بھر کی 200 سے زائد کمپنیوں کو مدعو کیا جائے گا۔افغان حکام کی توقعات اپنی جگہ، لیکن افغان عوام کی حقیقی ترجمانی کرنے والے مزاحمت کار اپنی قومی دولت کو لندن کے روڈ شو میں نیلام نہیں ہونے دیں گے، جبکہ نیلامی سے حاصل ہونے والی تھوڑی بہت رقم افغان عوام کی فلاح و بہبود پر صرف ہونے کے بجائے کٹھ پتلی حکمرانوں کی جیبوں میں چلے جانے کا بھی سو فیصد امکان ہے۔اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ ابھی ان معدنیات سے مالامال علاقوں کی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے جن کا انکشاف نیویارک ٹائمز نے کیا ہے، تاہم یہ بات معلوم ہے کہ زیادہ تر معدنیات افغانستان کے اُن حصوں میں پائی جاتی ہیں جہاں عملاً مزاحمت کاروں کا کنٹرول ہے۔

13 Responses to “افغانستان کی معدنی دولت پر منڈلاتے گدھ، معدنیات کی لوٹ مار میں افغان مزاحمت کار اصل رکاوٹ بن کر سامنے موجود ہیں”

  1. […] This post was mentioned on Twitter by Shoiab Safdar, Urdu Blogz. Urdu Blogz said: Post: افغانستان کی معدنی دولت پر منڈلاتے گدھ، معدنیات کی لوٹ مار م… http://bit.ly/98J3hF […]

  2. امريکہ کی اپنی پيداوار کيا ہے؟ صرف شاطر ذہن اور ہوشياری ديکھيں سب ملکوں کا کھا کر سردار بھی بنا بيٹھا ہے کہنے والے تو پہلے ہی کہتے تھے افغانستان پر حملہ معدنيات اور عراق پر تيل کے ليے ہے

  3. امریکہ کی ان تمام حرکات کے بعد بھی پاکستان دہشتگرد ملک ھے؟ کمال ہے

  4. ہمارے پاس یہ معدنیات اگر ہیں بھی تو کس کام کے۔لے جانے دیں ۔کسی کا تو بھلا ھو گا۔

  5. نو کھرب غلط۔ کیا آپ اپنے دوست سے تیس روپے نکلوانے کی خاطر سو روپے پر غنڈے کی خدمات حاصل کریں گے؟ مجھے اب نام بھول گیا ہے مگر صرف ایک دھات کے ذخیرہ کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر تھی جو کہ بہر حال نو کھرب سے بہت بڑا عدد ہے

  6. يہ حقيقت ہے کہ جب امريکا افغانستان پر حلمے کی تياری کر رہا تھا تو اس سلسلہ ميں ايک سير حاصل مضمون کسی اخبار يا رسالے ميں شائع ہوا تھا جس ميں حملہ کی وجہ اوسامہ بن لادن نہيں بلکہ پائپ لائن اور معدنيات ہيں کا تفصيلی جائزہ ليا گيا تھا ۔ اس وقت ميرے روشن خيال ہموطن امريکا کو درست قرار ديتے تھے اور اس مضمون کو غلط

  7. مجھے نہیں امید کہ اب بھی امریکی پالتو ٹٹوؤں کی آنکھیں کھلیں!

  8. افتخار بھائی کیا آپ وہ مضمون نکال سکتے ہیں۔ اس کو میں آپ کے شکریہ کے ساتھ جسارت میگزین میں شائع کروں گا۔

  9. ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام بھی تو اسی ہی ایک کڑی تھی وسائل معدنیات بہت زیادہ اور حکومتیں اپس میں اختلاف و اختیار کی کشمکش میں رہتی تو انجام آج سب کے سامنے تین ملک دو ایٹمی طاقتیں عوام غربتی طاقتیں ۔ وہ لوٹ کر ترقی کر گئے اور ہم لکیریں پیٹ پیٹ کر بے حال ہو گئے ۔ حاکم اگر غلط ہیں تو ووٹ تو ہمارا ہی ڈالا ہوا ہے ۔

  10. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    یہ بات توحقیقت پسندہےکہ افغانستان معدنی دولت سےمالامال ملک ہےاوراس پرامریکی حملہ یاروس کاحملہ بھی انہی معدینات کےلیے ہی تھا۔
    والسلام
    جاویداقبال

  11. جو حالات ہیں افغانستان کے، ان کے مطابق تو ان کی مالیت سے زیادہ ان پر خرچہ آجائے گا۔ یہ 2007 کی تین سال پرانی بات اب نکالنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ امریکہ عوام کو تسلی دی جائے "منافع ہوگا”۔

Leave a reply to پھپھے کٹنی جواب منسوخ کریں