Articles

مزاحمت کاروں کی مار سے حواس باختہ جنرلوں کی توپوں کا رخ وائٹ ہاﺅس کی طرف

In بین الاقوامی تعلقات, دہشت گردی on جون 30, 2010 by ابو سعد

 افغانستان کے خلاف امریکی جنگ کے سالار جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کو اس اُمید کے ساتھ افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کی کمان دی گئی تھی کہ وہ تاریخ رقم کرتے ہوئے حریت پسند افغانوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا۔ لیکن ابھی اسے ایک سال اور ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ اُس نے افغان حُریت پسندوں کے حملوں سے حواس باختہ ہوکر اپنی توپوں کا رُخ اُس جگہ کی طرف کردیا ‘ جہاں سے بڑے مان کے ساتھ اسے افغانستان بھیجا گیا تھا۔ رولنگ اسٹون میگزین کے فری لانس صحافی مائیکل ہیسٹنگ کو دیے گئے انٹرویو کا ایک ایک لفظ صدر بارک اوباما پر بم بن کرگرا۔ میک کرسٹل نے دل کھول کر صدر اوباما کی جنگی ٹیم کی تضحیک کی اور اپنے دل کی بھڑاس نکال لی۔ قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونزکو مسخرہ قرار دے کر کہا کہ ”وہ ایک جوکر ہے جو انیس سو پچاس میں پھنسا ہوا ہے۔“ ڈرون پالیسی کے سب سے بڑے وکیل نائب صدر جوزف بائیڈن کے بارے میں کہا کہ ”وہ کون ہے؟“ اسی طرح کابل میں امریکی سفیر کارل ایکنبری کے بارے میں کہا کہ ”میں سمجھتا ہوں کارل ایکنبری نے مجھے دھوکا دیا ہے“۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک کی ای میلز کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ”میں تو اب انہیں دیکھتا بھی نہیں۔“ جنرل میک کرسٹل نے صدر اوباما کے بارے میں بھی کچھ غلط نہیں کہا کہ ’ان کو کچھ نہیں پتا‘۔ یقیناً اوباما کو اس بہت کچھ کا نہیں پتا جس کا ادراک ان کے میدانِ جنگ میں موجود سپہ سالاروں کو کئی ماہ پہلے ہوچکا تھا۔ 25 جنوری 2010ءکو برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے کہا: ”لڑائی بہت ہوچکی اور اب میں اس جنگ کا سیاسی حل چاہتا ہوں۔“ لیکن ساتھ ہی اس خوش فہمی کا اظہار بھی کیا کہ صدر اوباما کی جانب سے افغانستان میں تیس ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی سے طالبان اتنے کمزور ہوجائیں گے کہ انہیں امن معاہدے کے لیے مجبور کیا جاسکے گا۔ جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے کہا: ”ایک فوجی کی حیثیت سے مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنگ کافی ہوچکی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ آخرکار جنگوں کا سیاسی حل ہی نکلتا ہے جو کہ ایک صحیح نتیجہ ہے۔“ اس کو امید تھی کہ امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے افغانستان میں تیس ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی اور اس کے علاوہ نیٹو کے رکن ممالک کی جانب سے سات ہزار اضافی فوج بھیجنے سے امریکا کے حق میں مثبت نتائج حاصل ہوں گے۔ بی بی سی کے کابل میں نامہ نگار ’مارٹن پیشنس‘ نے 23 ستمبر 2009ءکو اپنے مضمون ”مغرب کو میک کرسٹل کا دوٹوک انتباہ“ میں لکھا ہے کہ ”امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کی ذرائع ابلاغ کے ہاتھ لگنے والی رپورٹ نہ صرف افغانستان میں بیرونی افواج کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں دوٹوک اور مایوس کن جائزہ پیش کرتی ہے بلکہ ممکنہ ناکامی کے وقت کی بھی پیش گوئی کرتی ہے۔“ ممکنہ وقت کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے لکھا: ”مختصراً کہا جائے تو جنرل میک کرسٹل اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امریکا کو یہ جنگ ہارنے میں بارہ مہینے یعنی ایک سال لگ سکتا ہے۔“ تجزیہ نگاروں کے مطابق جنرل میک کرسٹل نے باعزت واپسی کا حل یہ تجویز کیا تھا کہ 30ہزار مزید فوج بھیج کر طالبان کے خلاف ایک بڑا آپریشن کرکے ان کو اس حد تک کمزور کیا جائے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آنے پر آمادہ ہوجائیں۔ مغرب خصوصاً امریکا کے عسکری منصوبہ ساز مرجاہ آپریشن پر خاص نظر رکھے ہوئے تھے لیکن مرجاہ میں اتحادیوں کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا۔ اس کے بعد قندھار آپریشن شروع کرنے سے پہلے ایک حکمت عملی نام کی تبدیلی کی اختیار کی گئی تاکہ شکست کی صورت میں ذلت و رسوائی کے درجے کو کم کیا جاسکے۔ ’شدت پسندوں کے خلاف آپریشن‘ جیسے الفاظ سے گریز کرتے ہوئے قندھار آپریشن کو ’امن وامان کے قیام‘ کی مہم کہا جانے لگا، لیکن اہلِ فکر و دانش جانتے ہیں کہ افغانستان میں اُس وقت تک امن نہیں قائم ہوسکتا جب تک آخری قابض فوجی یہاں سے نکل نہ جائے۔ مغربی میڈیا اور امریکی حکومت نے شکست کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے میک کرسٹل کی حواس باختگی کو فوج اور حکومت کی لڑائی کا نام دیا۔ اپنی فوجی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے مغربی میڈیا نے فوج اور سول انتظامیہ کے تعلقات کی نسبت سے مضامین لکھنا شروع کردیے ہیں جن میں کوریا جنگ کے دوران صدر ٹرومین اور اُس وقت کے فوجی کمانڈر میک آرتھر کے تعلقات کے حوالے بھی پیش کیے جارہے ہیں۔ ایک تجزیہ نگار نے میک کرسٹل کے انٹرویو کو ’فوجی بغاوت‘ قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں اس بغاوت کا جواب دے دیا گیا ہے اور ’باغی‘ میک کرسٹل کو گھر بھیج کر افغانستان کی کمان جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے سپرد کردی گئی ہے، جن کے بارے میں ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ سنٹرل کمان کے چیف کے عہدے سے ایک درجے نیچے آنے کے بعد ان کا پہلے والا عہدہ بھی برقرار رہے گا یا نہیں؟ وائٹ ہاﺅس میں اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے صدر بارک اوباما نے کہا کہ کمان تبدیل ہوئی ہے پالیسی نہیں۔ اوباما جیسے کوتاہ بین صدر سے یہی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ پرانی پالیسی برقرار رکھیں گے۔ پرانی پالیسی برقرار رہے گی، شاید اُس وقت تک جب تک امریکا کے روس کی طرح ٹکڑے نہیں ہوجاتے۔ صدر اوباما جس پالیسی کو برقرار رکھنے پر زور دے رہے ہیں یہ وہی پالیسی ہے جس کو کئی مہینے پہلے ہی میدانِ جنگ میں افغان مجاہدین کی اہلیت سے واقف جنرل میک کرسٹل نے ’غلط‘ کا لفظ استعمال کیے بغیر غلط قرار دیا تھا۔ جنرل میک کرسٹل کے متبادل کے طور پر ایک ایسی شخصیت کے سامنے آنے کو جس کو میک کرسٹل رپورٹ کیا کرتا تھا، افغان جنگ کی اہمیت سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ ایک تجربہ کار جنرل افغان جنگ کو منطقی انجام تک پہنچا دے گا۔ لیکن افغان مجاہدین نے جنرل میک کرسٹل کی برطرفی پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے اس جنگ کا عبرت ناک انجام قرار دیا ہے جو عنقریب اتحادی فوجوں کے افغانستان سے بھاگنے کی صورت میں دنیا بھر کے سامنے واضح طور پر آجائے گا۔ امریکا کی نظر میں افغان جنگ کی اہمیت ہوسکتی ہے جس کے لیے وہ اپنی معیشت داﺅ پر لگا چکا ہے، لیکن ڈیوڈ پیٹریاس کی تعیناتی اس بات کی نشاندہی بھی کررہی ہے کہ بیرونی محاذوں پر بڑی جنگیں لڑنے والی دنیا کی سب سے بڑی فوج قیادت کے معاملے میں کتنی مفلس ہے جس کے پاس کسی جنرل کی برطرفی کی صورت میں متبادل تک موجود نہیں‘ اور جس کو تعینا ت کیا گیا وہ نہ صرف اس سے بڑے عہدے پر فائز رہا ہے بلکہ افغان جنگ کے حوالے سے شدید اعصابی دباﺅ کا شکار بھی ہے۔ گزشتہ ہفتے کانگریس کی دفاعی کمیٹی کے روبرو سوال و جواب کے سیشن میں موصوف عین اُس وقت بے ہوش ہوکر گر پڑے جب اُن سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس افغانستان سے فوج کے انخلاءکا کیا پروگرام ہے؟ ابھی کئی تند وتیز سوالات تیر کی مانند کمان سے نکلنے کے لیے بے تاب تھے کہ موصوف پہلے سوال کی تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہوکر گرپڑے۔ ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ہوش آیا تو اراکینِ کانگریس نے ان کے ممکنہ جانی نقصان کے خدشے کے پیشِ نظر جنرل موصوف کو ایک دن کے لیے بخش دیا۔ جنرل کے ہوش ٹھکانے تو آگئے لیکن جھوٹ کی فصلِ بہار اُگانے والے کھیت امریکا کے جنرل کی طرف سے ایک اور جھوٹ یہ بولا گیا کہ موصوف نے صبح ناشتے میں پانی کافی نہیں پیا تھا جس کی وجہ سے وہ گر پڑے۔ جنرل کی اس معصوم ادا پر سوال کیا گیا کہ کیا انہوں نے زندگی میں پہلے کبھی پانی پئے بغیر ناشتہ نہیں کیا؟ اور آج گرنے کا یہ اتفاق افغانستان سے متعلق سوال وجواب کے وقت ہی ہونا تھا؟ امریکی فوجیوں سے براہِ راست لڑائی میں مصروف افغان حریت پسندوں نے اس امر کی جانب توجہ دلائی ہے کہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کسی بھی صورت صلاحیت کے لحاظ سے جنرل میک کرسٹل سے بہتر نہیں ہیں جن کو میڈیا نے امریکا کا درویش جنرل قرار دیا ہے۔ بی بی سی نے میک کرسٹل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ”حالیہ امریکی سیاست اور عسکری امور میں جنرل میک کرسٹل ایک ایسے کردار کی طرح اُبھرے ہیں جس کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ ایک حقیقی کردار ہے یا ہالی ووڈ کا ہیرو۔ وہ دن میں صرف چار گھنٹے سوتے ہیں، ایک دفعہ کھانا کھاتے ہیں اور سات میل دوڑتے ہیں۔“ سب سے اہم بات جس کی بی بی سی نشاندہی نہیں کرپایا، یہ ہے کہ وہ تمام تر پریشانیوں کے باوجود ڈیوڈ پیڑیس کی طرح بے ہوش نہیں ہوتے۔ افغانستان پر اپنی عملداری قائم کرنے کے خواہاں امریکی حکمران زمینی حقائق سے ناواقف نہیں تو کم از کم شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر افغانی طوفان کے گزرنے کا انتظار کرتے ہوئے یہ ضرور سوچ رہے ہیں کہ ”کبھی دن پھریں گے امریکیوں کے“۔ امریکا وقت کی سپرپاور ہے لیکن افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ماضی کی دو سپر پاورز کے لیے بھی قبرستان ثابت ہوا ہے۔ افغانستان روسیوں کا قبرستان بننے کے بعد اب امریکیوں کا قبرستان بننے جارہا ہے۔ اب تک امریکیوں کے تابوت واشنگٹن لے جائے جارہے تھے لیکن جس تیزی کے ساتھ مزاحمت کاروں کی کارروائیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی امریکی ہلاکتوں میں اضافہ ہورہا ہے، بعید نہیں کہ زیادہ تعداد کے سبب تابوتوں کا واشنگٹن لے جانا مشکل ہوجائے اور ان کو یہیں کسی اجتماعی قبر میں دفن کرنا پڑے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہوگا کہ قابض محصورین کے علاوہ اپنے ہی فوجیوں کو اجتماعی قبروں میں گراکر نکلنے کی کرے گا۔ 19جون 2010ءکو جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اس سال اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کہنا ہے کہ سڑک کنارے نصب بم دھماکے پچھلے سال کی نسبت 94 فیصد بڑھے ہیں جبکہ افغان حکام کی ہلاکتوں میں بھی پینتالیس فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خود مغرب کے اعداد وشمار کے مطابق24جون 2010ءتک افغان حریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد 1793ہے جس میں سب سے زیادہ تعداد امریکیوں کی ہے۔ مذکورہ تاریخ تک ناجائز امریکی جنگ کا ایندھن بننے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 1062ہے، جبکہ 303برطانوی‘ 147کینیڈین‘ 47جرمن اور 44فرانسیسی فوجیوں سمیت کئی ممالک کے درجنوں سپاہی حریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ رواں ماہ کے دوران مرنے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد80 ہے جبکہ طالبان ذرائع کے مطابق یہ تعداد120سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔ امریکی اعدادوشمار اس لحاظ سے قابلِ بھروسہ نہیں ہیں کہ وہ فوجی تابوتوں کو رات کے اندھیرے میں لے جانے کی روایت کے امین ہےں۔ آزاد ذرائع مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔ اس مہینے کے دوران افغان حریت پسندوں نے چار ہیلی کاپٹر اور درجنوں فوجی گاڑیاں بھی تباہ کردیں۔ پورے افغانستان میں امن کے دعویداروں کی اپنی سیکورٹی کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو رشوت دیتے ہیں کہ ہمیں نہ مارو یا پھر کم سے کم مارو۔ 22جون 2010ءکو امریکی کانگریس کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ امریکی فوج افغانستان کی سیکورٹی کمپنیوں کو لاکھوں ڈالر فراہم کر رہی ہے جو یہ رقم افغان سرداروں کو رشوت کے طور پر دیتی ہیں۔ امریکی فوج اپنے سپلائی ٹرکوں کو غیر محفوظ علاقوں سے بحفاظت گزارنے کے لیے رقم نجی سیکورٹی کمپنیوں کو فراہم کرتی ہے، اور اگر رقم فراہم نہ کی جائے تو سپلائی کے ٹرکوں کے قافلے پر حملے کیے جاتے ہیں۔ امریکی اعصابی تناﺅ کو ایک دلچسپ تقابلی جائزے کی روشنی میں زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اکتوبر 2009ءمیں فارن ریلیشن کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان کیری نے بتایا کہ اس وقت تک افغان جنگ پر 243 ملین ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں۔ یہ تقریباً ایک سال پہلے کے اعداد وشمار ہیں۔ کانگریشنل ریسرچ سروس کے اعداد وشمار کے مطابق افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد سے اب تک 227 بلین ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں جبکہ پنٹاگون کے اعداد و شمار کے مطابق یہ رقم 156 بلین ڈالر بنتی ہے۔ اِس وقت ایک امریکی فوجی پر اُٹھنے والے سالانہ اخراجات ایک ملین ڈالر ہیں جن میں اس کا معاوضہ‘ اس کا سامان جس سے اکثر افغانی اس کو محروم کردیتے ہیں‘ اور اس کے افغانستان جانے اور واپس لوٹنے (اگر ہلاک ہونے سے بچ جائے تو) کے اخراجات شامل ہیں۔ اب اگر امریکی انتظامیہ افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ فی فوجی کے حساب سے1ملین ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ اگر دنوں میں نہیں تو آنے والے مہینوں میں ضرور امریکی معیشت کا دیوالیہ نکل جائے گا اور دنیا بھر کو قرض دینے والا کشکول لیے پھرتا نظر آئے گا‘ یہ قابلِ دید وقت ہوگا جس سے دنیا محظوظ ہوگی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر امریکی عوام کی جیبوں سے نکلنے والی یہ رقم افغان حریت پسندوںکو شکست دینے کے کام آتی تو قومیں اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے بڑی قربانیاں دیتی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ڈالروں کی ایک بڑی انویسٹمنٹ کے مقابلے میںکوہ ہمالیہ سے اونچے جذبہ¿ دینی اور حب الوطنی سے سرشار ایک مجاہد پر خرچہ ہی کیا آتا ہے؟ تن ڈھانپنے کے لیے ایک جوڑا کپڑا‘ پیروں میں پہننے کے لیے جوتے اور امریکیوں کو مارنے کے لیے ایک ’اے کے 47‘…. وہ بھی اکثر نشانہ بننے والے امریکیوں سے مالِ غنیمت میں مل جاتی ہے۔ یہ ہیں ایک حریت پسند پر آنے والے اخراجات۔ ایک طرف بے تحاشا پیسہ، تو دوسری طرف پہاڑ جتنا حوصلہ! ایک طرف جھوٹ دوسری طرف اس کے مقابلے میں سچائی کے پیکر اور جذبہ¿ جہاد سے سرشار مجاہدین۔ ایک طرف قابض تو دوسری طرف حریت پسند۔ ایک مجاہد شہید ہوتا ہے تو اس کی برکت سے سو اور تیار ہوجاتے ہیں، لیکن ایک امریکی کے مرنے کا مطلب ایک ملین ڈالر کا مزید خرچہ۔ یہ وہ تقابل ہے جس نے اس جنگ کا نقشہ بدل کررکھ دیا ہے اور جس کا نتیجہ امریکیوں کے سخت اعصابی تناﺅ کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔ واقعہ چاہے پیٹریاس کی بے ہوشی کا ہو یا میک کرسٹل کی برطرفی کا…. یہ دراصل مظاہر ہیں امریکی شکست کے…. اور معانی، مفہوم اور معلومات کے لحاظ سے 21ویں صدی کی ایک بڑی خبر۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب لوگ طنزکرتے تھے کہ امریکا بہادر کی بات نہ ماننے والے آج کابل سے بھاگ گئے! آج وہی حریت پسند پیچھے ہیں اور کابل میں بڑے کرّوفر سے اُترنے والے امریکی فوجی آگے۔ جو پٹتے ہیں، مرتے ہیں، اور ان کے جرنیل حواس باختہ ہوکر اپنی توپوں کا رُخ واشنگٹن میں واقع وائٹ ہاﺅس کی طرف کردیتے ہیں۔ ایک جنرل کو وائٹ ہاﺅس پر ’بم‘ گرانے کے جرم میں فارغ کردیا گیا ہے۔ اُس سے عہدے میں زیادہ لیکن اہلیت میں کم جنرل کو کمان سونپ دی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب وائٹ ہاﺅس پر بمباری کرتا ہے، یا پھر کابل میں ہی بے ہوش ہوکر اُٹھنے کے قابل نہیں رہتا!

مضمون کے گرافک ویو کے لیے یہاں کلک کریں؛ شکریہ

4 Responses to “مزاحمت کاروں کی مار سے حواس باختہ جنرلوں کی توپوں کا رخ وائٹ ہاﺅس کی طرف”

  1. اب تک کتنے امریکی اور کتنے مزاحمت کار کام آچکے ہیں؟
    حساب لگائیے اور بتائے کہ کھاتا کس کی طرف کھلا ہے؟

  2. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    بہت خوب،آپ نےبہت اچھاتجزیہ کیاہےدراصل ہماری حکومت ہے ہی کمزورلوگوں پرمشتمل جوکہ صرف ایک فون پرسب کچھ اوکےکردیتی ہےواقعی افغانستان انشاء اللہ امریکیوں کی بھی اجتماعی قبرثابت ہوگا۔آمین ثم آمین

    والسلام
    جاویداقبال

  3. نوشتہ دیوار۔
    2010 کے شروع میں طالبان نے 2010 کو امریکہ کی مکمل شکست کا سال کہاہے۔(انشاءاللہ تعٰالٰی)۔
    ایمان بمقابلہ ٹینالوجی کی جنگ میں ایمان کی فتح کامل مقدر ہے۔ لیکن مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ اگر تمام اخلاقی اور دینی احکامات کو نظر انداز کرکے اور خود غرض بنکر بھی فیصلہ کرا جائے تو ڈوبتے ہوئے جہاز میں کون سوار ہوتا ہے؟
    امریکہ اسوقت ڈوبتا ہوا جہاز ہے اسپر سواری کس کی غلطی ہے؟ امریکہ اگر ظالم اور باطل ہے اور افغان حریت پسند حق پر ہیں تو پھر ہم ظالم کا ساتھ دیکر کس کے اوپر ظلم کر رہے ہیں؟ امید ہے آپ میری اس کنفیوژن کو دور کرنے میں مدد کریں گے۔
    وسلام

  4. Slaam Sir i made a Urdu blog Like ur blog Bold urdu words and big urdu font like show ur blog.who to i do like that .for this reason i make urdu blog in picture format not urdu language.U see my picture format blog sunnatscience.blogspot.com i need ur help .Bye Yaar.

تبصرہ کریں