دورِ حاضر کےاُستاد کا تقابل ماضی کےقابلِ تقلید اساتذہ سےکرتے ہوئے کسی نےایک شعر کہا تھا۔ اب اُس میں ترمیم کرکےاسےکچھ یوں کردیاگیا ہے؛۔
وہ بھی کیا دن تھےجب خدمتِ ”افواج“ کےعوض
دل چاہتا تھا ہدیہ سَر پیش کیجیے!۔
دل چاہتا تھا ہدیہ سَر پیش کیجیے!۔
یہ شعر کسی حد تک پاکستانی فوج پر صادق آتا ہے، وہ ادارہ جس کا شمار کبھی متبرک اداروں میں ہوتا تھا، اور بڑی حد تک یہ اس کا حق بھی تھا کہ قومیں اپنےہیروز کو سلیوٹ کرتی ہیں۔ پاکستانی فوج کا دلیری، شجاعت اور بہادری میں ایک نام ہے۔ یہ شیروں کی فوج تھی۔ لیکن پھر ایک گیدڑ نےغرّاتےہوئےشیروں کےجتھےکو‘ جو کبھی جارحین سےنبرد آزما ہوتا تھا، جارحین کےلیےکرائےکی فوج بنادیا۔ ایک فون کال پر ڈھیر ہونےوالےجنرل پرویز کا حکم ماننا ڈسپلن کا تقاضا تھا۔ اگر فوج میں حکم عدولی اور بغاوتیں ہونےلگیں تو فوج، فوج نہیں ہجوم بن جائے۔
جارح قوتوں کےساتھ اتحاد ہی کیا کم تھا کہ پھر جنرل پرویز کی بزدلی کھل جانےکےبعد ’ڈومور“ کی رَٹ لگانےوالےامریکا نےوطن عزیز پرجانیں نچھاور کرنےوالی فوج کو اپنےہی عوام کےخلاف مصروف کرکےانوکھی مثال قائم کردی، جو یقینا ایک ڈراونےخواب کی طرح پاکستان کےماضی کا ایک برا قصہ بن گیا۔ رِٹ قائم کرنےکےلیےوطنِ عزیز کی جنت نظیر وادی سوات میں آپریشن شروع کرکےملکی تاریخ میں سب سےزیادہ افراد کو مہینوں کےلیےبےسروسامانی کی حالت میں اپنےہی وطن میںبےگھر کردیا گیا، اور اس بڑےانسانی المیےکےدوران جو دل دہلادینےوالےواقعات رونما ہوئےان کا دوہرانا اس لیےبھی ضروری نہیں کہ یہ سب کچھ بڑی حد تک رپورٹ ہوچکا ہے۔ قارئین کےعلم میں تو یہ باتیں بھی ہوں گی جو اُوپر بیان کی گئی ہیں، لیکن یہ تذکرہ برائےیاددہانی ہے۔ اصل موضوع تو یہ ہےکہ پاک فوج کےسابق سربراہ جنرل پرویزمشرف کی جانب سےامریکی جنگ کو پاکستانی جنگ بنانےکےبدلےمیں پاکستان اور خصوصاً فوج کےادارے کو کیا حاصل ہوا ہے؟ الزامات، الزامات اور مزید الزامات۔
مغربی خفیہ اداروں اور میڈیا کی طرف سے9برس طویل عرصےتک ان کا ساتھ دینےوالی فوج اور اس کےذیلی اداروں کےبارےمیں جو کچھ لکھا جارہا ہے، اسےدیکھ کر بچپن میں سنا ہواایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک امیرزادہ، امیر ہونےکےساتھ ساتھ لاڈلا بھی تھا۔ دو قدم چلتا تو تھک جاتا۔ گاڑیاں اُس زمانےمیں تھی نہیں، کوئی اور سواری بوجوہ دستیاب نہیں تھی۔ دوسرےگاوں جانا تھا‘ اس لیےایک غریب کو روکا اور حکم دیا کہ کندھےپر بٹھاکر دوسرےگائوں پہنچاو۔ غریب نےاس خیال سےکندھےپر امیر زادےکو بٹھالیا کہ خوش ہوکر انعام واکرام سےنوازےگا۔ گرتےپڑتےندی نالےعبور کیے۔ سردی کا موسم تھا‘ کہیں کپڑےبھیگ گئےتو کہیں کیچڑ نےکام دکھایا‘ کانٹےبھی چبھےاور تھکن سےتو برا حال ہوگیا…. لیکن غریب شخص اس آس میں جانب ِمنزل بڑھتا رہا کہ جلد محنت کا پھل ملنےوالا ہے۔ دوسرے گائوں پہنچ کر امیر زادےکو اُتارنےہی لگا تھا کہ حکم ہوا: ”جلدی اُتار‘ تُو نےتو میرےکولہوں میں درد کردیا۔ تجھےٹھیک سےبٹھانا اور چلنا بھی نہیں آتا۔ چل گنوار یہاں سےفوراً دفع ہو، آئندہ شکل بھی نہ دیکھوں۔“۔
پاکستانی فوج گزشتہ 9 برسوں سےامریکا کو کندھےپر بٹھاکر گھما رہی ہے۔ زیادہ دیر کندھےپر بیٹھ کر اب امریکا کےکولہےدُکھنےلگےہیں تو وہ قصوروار بٹھانےوالےکو ٹھیرا رہا ہے۔ افغانستان میں مجاہدین کےہاتھوں ذلت آمیز شکست سےدوچار ہونےکی وجہ اپنی کمزوری نہیں بلکہ کندھا پیش کرنےوالےکی ہےتو اس کےجرنیلوں کی حواس باختگی میں بھی پاکستان کا قصور…. پاکستان کےجوہری اثاثوں اور دیگر اہم مقامات تک رسائی نہ دینا بھی جرم۔ لندن اسکول آف اکنامکس کی رپورٹ نےپاک فوج کو افغان طالبان شوریٰ کا ممبر قرار دیا تو اب معروف برطانوی میگزین ’دی اکانومسٹ ‘ نےپاکستان کو ”ناپاکستان“ کہا ہےاور اس ’ناپاکی‘ کا ذمہ دارپاک فوج کو ٹھیرایا ہے۔
اپنے17جون2010ءکےشمارےمیں شائع مضمون
Land of the impure
یعنی ’ناپاکستان ‘میں میگزین نےتوپوں کا رُخ پاک فوج کی طرف کردیاہے اور پاکستان کو ناپاکستان بنانےکا ذمہ دارٹھیرایا ہے۔
میگزین کےمطابق پاک لوگوں کی سرزمین یعنی پاکستان کےنام سےجانے، جانےوالےاس ”ناپاکستان“ کےسب مسائل کی جڑاگر فوج نہیں ہےتو اکثر مسائل کےلیےضرور اُسےمورد الزام ٹھیرایا جاسکتا ہے۔
دی اکانومسٹ لکھتا ہے:”اپنےقیام کےساٹھ سال پورےکرنےوالا پاکستان جس کےمعنی ’پاک لوگوں کی سرزمین ‘ کےہیں تاحال ایک قوم بننےکی کوشش کررہا ہے“۔
آگےلکھتا ہے:”معاشی طور پر پسماندہ، سیاسی طور پرنابالغ اور مذہبی انتہاپسندوںکی دہشت، اس ملک کےپاس اگرجوہری ہتھیار نہ بھی ہوتےتب بھی اس کےموجودہ حالات ہر ایک کی پریشانی کےلیےکافی تھی۔ان مشکلات کےلیےزیادہ الزام فوج کو دینا ہوگا۔“۔
اور پھر مضمون کےمطابق یہ” الزام“ اس لیےدینا ہوگا کیوں کہ فوج نےملک کےکسی بھی ادارےسےزیادہ ’قومی یکجہتی‘ کو تقویت دی ہے۔ یعنی معروف برطانوی میگزین کےنزدیک جذبہ حب الوطنی کا ہونا نہ صرف بجائےخود پاکستان کےلیےنقصان دہ ہےبلکہ اس کےسارےمسائل کی جڑبھی یہی ہے۔
میگزین نےپاک فوج کےخلاف جو چارج شیٹ پیش کی ہےاس میں اول نمبر اس کا جمہوریت پر باربار شب خون مارنا نہیں بلکہ” مشرقی محاذ“پر بھارت کےخلاف عسکری مہم جوئی ہےجس نےسیکورٹی کو بڑھانےکے بجائے اس کو خطرےسےدوچار کیا ہے۔ مضمون کےمطابق”کوئی بھی مہم جوئی 1971ءسےزیادہ تباہ کن ثابت نہیں ہوئی ہےجو مشرقی پاکستان یعنی موجود ہ بنگلہ دیش کی علیحدگی پر منتج ہوئی“۔میگزین کےمطابق 1971ءکی پاک بھارت جنگ پاکستانی فوج کی طرف سےایڈونچرازم تھی اوراسی طرح1999ءکی کارگل جنگ بھی۔ ”پُرامن“بھارت کےسارےگناہ معاف کرکےمیگزین نےپاک فوج کو موردِ الزام ٹھیرایا ہےکہ وہ آج تک ”بھارتی خطری“ کےساتھ جڑی ہوئی ہےجبکہ بھارت کو پاکستان پر قبضہ کرنے کے بجائےاپنی معاشی ترقی کی فکر ہے۔ ایسا لگتا ہےکہ آئےدن پاک بھارت سرحد پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیز فائرنگ اور اس کےنتیجےمیں پاکستانی عوام اور فوجیوں کی شہادت کی خبریں اس معروف میگزین تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔
میگزین کےمطابق فوج کی طرف سےجہاداِزم کو اپنا اصل مقصدبنائے جانےسےریاست کا وجودخطرےسےدوچار ہواہے۔ یہ پالیسی ضیاالحق کی اسلامائزیشن پالیسی کا حصہ ہے‘جو آج تک جاری ہے۔ اس سلسلےمیں لندن اسکول آف اکنامکس کی رپورٹ کونقل کرتےہوئےلکھا گیا ہےکہ اگرچہ آئی ایس آئی اس بات کی سرکاری طور پر تردید کرتی ہےتاہم پاکستانی فوج کےبعض افسران نجی محفلوں میں تسلیم کرتےہیں کہ فوج کےکچھ ’’کارنرز“ طالبان کی مدد ضرور کرتےہیں۔
میگزین کےمطابق پرویز مشرف اور ان کےایک ساتھی نےایک دفعہ مذاق میں کہا تھا کہ وہ ان جہادیوں کو ان کےگلے(اصل لفظ کچھ اور ہے جو بوجوہ یہاں نہیں لکھا جارہا ہے)سےپکڑ لیں گے۔ لیکن آج پاکستانی طالبان کےنام سےپہچانےجانےوالےمجاہدین اپنےمیزبان (پاکستان)کی درگت بنارہےہیں۔اور خود فوج، حتیٰ کہ آئی ایس آئی ان کےزیر عتاب آئی ہوئی ہے۔اکانومسٹ لکھتا ہے؛”اب یہ حملےمصیبت زدہ علاقوں سےمعتدل اور خوشحال پنجاب کی طرف بڑھ رہےہیں،اب اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ کس نےکس کو گردن سےپکڑا ہے۔“۔
اس چارج شیٹ میں تیسرا نمبر پاکستانی فوج کی ریاست کےسیاسی اور انتظامی کاموں میں مداخلت کو دیا گیا ہے۔ فوج پر کرپشن کا الزام لگاتےہوئےمیگزین لکھتا ہےکہ”یہ تسلیم شدہ حقیقت ہےکہ پاکستان کےادارےابتدا سےکمزور تھےلیکن فوج کی مداخلت نےانہیں مزید کمزور کردیا ہے….فوج کےپاس اس وقت20بلین ڈالرز کا بزنس ایمپائر ہے‘ اور یہ غالباً ملک کےسب سےبڑےلینڈ ڈویلپرز ہیں کیوں کہ افسران کی وفاداری زمینی گرانٹ کےذریعےخریدی جاتی ہے۔“۔
صحافتی بددیانتی کی مثال قائم کرتےہوئےمیگزین نےیہ تو درست لکھا کہ کرپٹ سیاست دانوں کےساتھ ساتھ فوجی مداخلت نےجمہوریت کو کمزور کردیا ہےجس نےچند ہی انتخابات منعقد ہونےدیے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ امریکا کس حد تک انتخابات کےہونے، نہ ہونےاور ہونےکی صورت میں نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔
مضمون میں پاکستان کی سماجی اور معاشی پسماندگی کےلیےبھی فوج کو موردِ الزام ٹھیرایا گیا ہےجو وسائل پر قابض ہوکر ترقی کو روکتی رہی ہے۔ میگزین کےمطابق معاشی ضمن میں تعلیم یافتہ پاکستانیوں کا خیال ہےکہ ان کےملک کو اب تک ترکی یا ملائیشیا بن جانا چاہیےتھا، لیکن اس کےبرعکس یہ یو این ڈی کی ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکیٹرزکی رینکنگ میں یمن سےنیچےیعنی151 واں ملک ہے۔ جب کہ اسکول جانےوالےبچوں کی تعداد کےحوالےسےسوڈان سےبھی نیچےہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہےکہ ”حکومت تعلیم پر جتنا خرچ کرتی ہےاس سےکئی گنا فوج پر خرچ کرتی ہے۔“۔
یہ حقیقت ہےکہ پاکستانی فوج نےاپنی قوم کی نظروں میں قائم اپنےگولڈن امیج کو دائو پر لگا کر صلیبی اتحاد کا ساتھ دیا تھا۔لیکن بدلےمیں کیا ملا، ذلت و رسوائی! سنا ہےپرویز مشرف کےبعد آنےوالی فوجی قیادت کو اس کا احساس ہوچلا ہےاور اس نےاس ضمن میں کچھ منصوبہ بندی کی ہےاور کچھ اقدامات بھی ایسےکیےہیں جو امریکا سےرفتہ رفتہ دوری کی طرف اشارہ کرتےہیں۔ ہوسکتا ہےفوج کےلیےامریکا کو یکدم خداحافظ کہنا ”ممکن“ نہ ہو، لیکن اس نےکچھ باتیں ماننےسےانکار کردیا ہے۔ اس نےاِس سال کوئی نیا آپریشن شروع کرنےسےگریز کیا ہے۔ مزید برآں فوج نےغیر ملکیوں کی بلا روک ٹوک نقل وحرکت کو کنٹرول کرنےاور اہم مقامات سےان کو نکالنےکی بھی کوشش کی ہے۔ ہوسکتا ہےمغربی میڈیا میں فوج کےخلاف ہرزہ سرائی اسی کا ردعمل ہو۔ کیوں کہ پاکستانی میڈیا کےبرعکس مغرب کا میڈیا اپنی ریاستوں کی پشت پر کھڑا نظر آتا ہےاور ابلاغی جنگ بپا کرکےمیدان میں موجود سپاہیوں کا ساتھ دیتا ہے۔
ردعمل یقینی ہے، لیکن اگر فوج نےامریکی پالیسیوں سےدوری کا سفر شروع کردیا ہےتو اسےجاری رکھنےاور اس میں تیزی لانےمیں ہی بھلائی ہے۔ جو نو برس تک کندھےپر بیٹھ کر خوش نہیں ہوا وہ اگلی پانچ دہائیوں تک بھی کسی بات سےخوش نہیں ہوگا۔ لیکن پاکستانی عوام‘ جو کل خوش ہوکر سلیوٹ مارتےتھے‘ آج ناراض ہیں۔ریاست ِپاکستان اورفوج مغرب سےلڑائی مول لےکر تو باقی رہ سکتےہیں لیکن اپنی قوم کی ناراضی مول لےکرباقی نہیں رہ سکتی۔
…………٭٭٭…………
ہمارےحکمرانوں کا توموڈ نہیں لیکن کیا ہم وطن عزیز کےخلاف برطانوی جریدےکی ہرزہ سرائی کا جواب دینا پسند کریں گے؟ اگر ہاں تو کس طرح جواب دےسکتےہیں؟
جارح قوتوں کےساتھ اتحاد ہی کیا کم تھا کہ پھر جنرل پرویز کی بزدلی کھل جانےکےبعد ’ڈومور“ کی رَٹ لگانےوالےامریکا نےوطن عزیز پرجانیں نچھاور کرنےوالی فوج کو اپنےہی عوام کےخلاف مصروف کرکےانوکھی مثال قائم کردی، جو یقینا ایک ڈراونےخواب کی طرح پاکستان کےماضی کا ایک برا قصہ بن گیا۔ رِٹ قائم کرنےکےلیےوطنِ عزیز کی جنت نظیر وادی سوات میں آپریشن شروع کرکےملکی تاریخ میں سب سےزیادہ افراد کو مہینوں کےلیےبےسروسامانی کی حالت میں اپنےہی وطن میںبےگھر کردیا گیا، اور اس بڑےانسانی المیےکےدوران جو دل دہلادینےوالےواقعات رونما ہوئےان کا دوہرانا اس لیےبھی ضروری نہیں کہ یہ سب کچھ بڑی حد تک رپورٹ ہوچکا ہے۔ قارئین کےعلم میں تو یہ باتیں بھی ہوں گی جو اُوپر بیان کی گئی ہیں، لیکن یہ تذکرہ برائےیاددہانی ہے۔ اصل موضوع تو یہ ہےکہ پاک فوج کےسابق سربراہ جنرل پرویزمشرف کی جانب سےامریکی جنگ کو پاکستانی جنگ بنانےکےبدلےمیں پاکستان اور خصوصاً فوج کےادارے کو کیا حاصل ہوا ہے؟ الزامات، الزامات اور مزید الزامات۔
مغربی خفیہ اداروں اور میڈیا کی طرف سے9برس طویل عرصےتک ان کا ساتھ دینےوالی فوج اور اس کےذیلی اداروں کےبارےمیں جو کچھ لکھا جارہا ہے، اسےدیکھ کر بچپن میں سنا ہواایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک امیرزادہ، امیر ہونےکےساتھ ساتھ لاڈلا بھی تھا۔ دو قدم چلتا تو تھک جاتا۔ گاڑیاں اُس زمانےمیں تھی نہیں، کوئی اور سواری بوجوہ دستیاب نہیں تھی۔ دوسرےگاوں جانا تھا‘ اس لیےایک غریب کو روکا اور حکم دیا کہ کندھےپر بٹھاکر دوسرےگائوں پہنچاو۔ غریب نےاس خیال سےکندھےپر امیر زادےکو بٹھالیا کہ خوش ہوکر انعام واکرام سےنوازےگا۔ گرتےپڑتےندی نالےعبور کیے۔ سردی کا موسم تھا‘ کہیں کپڑےبھیگ گئےتو کہیں کیچڑ نےکام دکھایا‘ کانٹےبھی چبھےاور تھکن سےتو برا حال ہوگیا…. لیکن غریب شخص اس آس میں جانب ِمنزل بڑھتا رہا کہ جلد محنت کا پھل ملنےوالا ہے۔ دوسرے گائوں پہنچ کر امیر زادےکو اُتارنےہی لگا تھا کہ حکم ہوا: ”جلدی اُتار‘ تُو نےتو میرےکولہوں میں درد کردیا۔ تجھےٹھیک سےبٹھانا اور چلنا بھی نہیں آتا۔ چل گنوار یہاں سےفوراً دفع ہو، آئندہ شکل بھی نہ دیکھوں۔“۔
پاکستانی فوج گزشتہ 9 برسوں سےامریکا کو کندھےپر بٹھاکر گھما رہی ہے۔ زیادہ دیر کندھےپر بیٹھ کر اب امریکا کےکولہےدُکھنےلگےہیں تو وہ قصوروار بٹھانےوالےکو ٹھیرا رہا ہے۔ افغانستان میں مجاہدین کےہاتھوں ذلت آمیز شکست سےدوچار ہونےکی وجہ اپنی کمزوری نہیں بلکہ کندھا پیش کرنےوالےکی ہےتو اس کےجرنیلوں کی حواس باختگی میں بھی پاکستان کا قصور…. پاکستان کےجوہری اثاثوں اور دیگر اہم مقامات تک رسائی نہ دینا بھی جرم۔ لندن اسکول آف اکنامکس کی رپورٹ نےپاک فوج کو افغان طالبان شوریٰ کا ممبر قرار دیا تو اب معروف برطانوی میگزین ’دی اکانومسٹ ‘ نےپاکستان کو ”ناپاکستان“ کہا ہےاور اس ’ناپاکی‘ کا ذمہ دارپاک فوج کو ٹھیرایا ہے۔
اپنے17جون2010ءکےشمارےمیں شائع مضمون
Land of the impure
یعنی ’ناپاکستان ‘میں میگزین نےتوپوں کا رُخ پاک فوج کی طرف کردیاہے اور پاکستان کو ناپاکستان بنانےکا ذمہ دارٹھیرایا ہے۔
میگزین کےمطابق پاک لوگوں کی سرزمین یعنی پاکستان کےنام سےجانے، جانےوالےاس ”ناپاکستان“ کےسب مسائل کی جڑاگر فوج نہیں ہےتو اکثر مسائل کےلیےضرور اُسےمورد الزام ٹھیرایا جاسکتا ہے۔
دی اکانومسٹ لکھتا ہے:”اپنےقیام کےساٹھ سال پورےکرنےوالا پاکستان جس کےمعنی ’پاک لوگوں کی سرزمین ‘ کےہیں تاحال ایک قوم بننےکی کوشش کررہا ہے“۔
آگےلکھتا ہے:”معاشی طور پر پسماندہ، سیاسی طور پرنابالغ اور مذہبی انتہاپسندوںکی دہشت، اس ملک کےپاس اگرجوہری ہتھیار نہ بھی ہوتےتب بھی اس کےموجودہ حالات ہر ایک کی پریشانی کےلیےکافی تھی۔ان مشکلات کےلیےزیادہ الزام فوج کو دینا ہوگا۔“۔
اور پھر مضمون کےمطابق یہ” الزام“ اس لیےدینا ہوگا کیوں کہ فوج نےملک کےکسی بھی ادارےسےزیادہ ’قومی یکجہتی‘ کو تقویت دی ہے۔ یعنی معروف برطانوی میگزین کےنزدیک جذبہ حب الوطنی کا ہونا نہ صرف بجائےخود پاکستان کےلیےنقصان دہ ہےبلکہ اس کےسارےمسائل کی جڑبھی یہی ہے۔
میگزین نےپاک فوج کےخلاف جو چارج شیٹ پیش کی ہےاس میں اول نمبر اس کا جمہوریت پر باربار شب خون مارنا نہیں بلکہ” مشرقی محاذ“پر بھارت کےخلاف عسکری مہم جوئی ہےجس نےسیکورٹی کو بڑھانےکے بجائے اس کو خطرےسےدوچار کیا ہے۔ مضمون کےمطابق”کوئی بھی مہم جوئی 1971ءسےزیادہ تباہ کن ثابت نہیں ہوئی ہےجو مشرقی پاکستان یعنی موجود ہ بنگلہ دیش کی علیحدگی پر منتج ہوئی“۔میگزین کےمطابق 1971ءکی پاک بھارت جنگ پاکستانی فوج کی طرف سےایڈونچرازم تھی اوراسی طرح1999ءکی کارگل جنگ بھی۔ ”پُرامن“بھارت کےسارےگناہ معاف کرکےمیگزین نےپاک فوج کو موردِ الزام ٹھیرایا ہےکہ وہ آج تک ”بھارتی خطری“ کےساتھ جڑی ہوئی ہےجبکہ بھارت کو پاکستان پر قبضہ کرنے کے بجائےاپنی معاشی ترقی کی فکر ہے۔ ایسا لگتا ہےکہ آئےدن پاک بھارت سرحد پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیز فائرنگ اور اس کےنتیجےمیں پاکستانی عوام اور فوجیوں کی شہادت کی خبریں اس معروف میگزین تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔
میگزین کےمطابق فوج کی طرف سےجہاداِزم کو اپنا اصل مقصدبنائے جانےسےریاست کا وجودخطرےسےدوچار ہواہے۔ یہ پالیسی ضیاالحق کی اسلامائزیشن پالیسی کا حصہ ہے‘جو آج تک جاری ہے۔ اس سلسلےمیں لندن اسکول آف اکنامکس کی رپورٹ کونقل کرتےہوئےلکھا گیا ہےکہ اگرچہ آئی ایس آئی اس بات کی سرکاری طور پر تردید کرتی ہےتاہم پاکستانی فوج کےبعض افسران نجی محفلوں میں تسلیم کرتےہیں کہ فوج کےکچھ ’’کارنرز“ طالبان کی مدد ضرور کرتےہیں۔
میگزین کےمطابق پرویز مشرف اور ان کےایک ساتھی نےایک دفعہ مذاق میں کہا تھا کہ وہ ان جہادیوں کو ان کےگلے(اصل لفظ کچھ اور ہے جو بوجوہ یہاں نہیں لکھا جارہا ہے)سےپکڑ لیں گے۔ لیکن آج پاکستانی طالبان کےنام سےپہچانےجانےوالےمجاہدین اپنےمیزبان (پاکستان)کی درگت بنارہےہیں۔اور خود فوج، حتیٰ کہ آئی ایس آئی ان کےزیر عتاب آئی ہوئی ہے۔اکانومسٹ لکھتا ہے؛”اب یہ حملےمصیبت زدہ علاقوں سےمعتدل اور خوشحال پنجاب کی طرف بڑھ رہےہیں،اب اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ کس نےکس کو گردن سےپکڑا ہے۔“۔
اس چارج شیٹ میں تیسرا نمبر پاکستانی فوج کی ریاست کےسیاسی اور انتظامی کاموں میں مداخلت کو دیا گیا ہے۔ فوج پر کرپشن کا الزام لگاتےہوئےمیگزین لکھتا ہےکہ”یہ تسلیم شدہ حقیقت ہےکہ پاکستان کےادارےابتدا سےکمزور تھےلیکن فوج کی مداخلت نےانہیں مزید کمزور کردیا ہے….فوج کےپاس اس وقت20بلین ڈالرز کا بزنس ایمپائر ہے‘ اور یہ غالباً ملک کےسب سےبڑےلینڈ ڈویلپرز ہیں کیوں کہ افسران کی وفاداری زمینی گرانٹ کےذریعےخریدی جاتی ہے۔“۔
صحافتی بددیانتی کی مثال قائم کرتےہوئےمیگزین نےیہ تو درست لکھا کہ کرپٹ سیاست دانوں کےساتھ ساتھ فوجی مداخلت نےجمہوریت کو کمزور کردیا ہےجس نےچند ہی انتخابات منعقد ہونےدیے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ امریکا کس حد تک انتخابات کےہونے، نہ ہونےاور ہونےکی صورت میں نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔
مضمون میں پاکستان کی سماجی اور معاشی پسماندگی کےلیےبھی فوج کو موردِ الزام ٹھیرایا گیا ہےجو وسائل پر قابض ہوکر ترقی کو روکتی رہی ہے۔ میگزین کےمطابق معاشی ضمن میں تعلیم یافتہ پاکستانیوں کا خیال ہےکہ ان کےملک کو اب تک ترکی یا ملائیشیا بن جانا چاہیےتھا، لیکن اس کےبرعکس یہ یو این ڈی کی ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکیٹرزکی رینکنگ میں یمن سےنیچےیعنی151 واں ملک ہے۔ جب کہ اسکول جانےوالےبچوں کی تعداد کےحوالےسےسوڈان سےبھی نیچےہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہےکہ ”حکومت تعلیم پر جتنا خرچ کرتی ہےاس سےکئی گنا فوج پر خرچ کرتی ہے۔“۔
یہ حقیقت ہےکہ پاکستانی فوج نےاپنی قوم کی نظروں میں قائم اپنےگولڈن امیج کو دائو پر لگا کر صلیبی اتحاد کا ساتھ دیا تھا۔لیکن بدلےمیں کیا ملا، ذلت و رسوائی! سنا ہےپرویز مشرف کےبعد آنےوالی فوجی قیادت کو اس کا احساس ہوچلا ہےاور اس نےاس ضمن میں کچھ منصوبہ بندی کی ہےاور کچھ اقدامات بھی ایسےکیےہیں جو امریکا سےرفتہ رفتہ دوری کی طرف اشارہ کرتےہیں۔ ہوسکتا ہےفوج کےلیےامریکا کو یکدم خداحافظ کہنا ”ممکن“ نہ ہو، لیکن اس نےکچھ باتیں ماننےسےانکار کردیا ہے۔ اس نےاِس سال کوئی نیا آپریشن شروع کرنےسےگریز کیا ہے۔ مزید برآں فوج نےغیر ملکیوں کی بلا روک ٹوک نقل وحرکت کو کنٹرول کرنےاور اہم مقامات سےان کو نکالنےکی بھی کوشش کی ہے۔ ہوسکتا ہےمغربی میڈیا میں فوج کےخلاف ہرزہ سرائی اسی کا ردعمل ہو۔ کیوں کہ پاکستانی میڈیا کےبرعکس مغرب کا میڈیا اپنی ریاستوں کی پشت پر کھڑا نظر آتا ہےاور ابلاغی جنگ بپا کرکےمیدان میں موجود سپاہیوں کا ساتھ دیتا ہے۔
ردعمل یقینی ہے، لیکن اگر فوج نےامریکی پالیسیوں سےدوری کا سفر شروع کردیا ہےتو اسےجاری رکھنےاور اس میں تیزی لانےمیں ہی بھلائی ہے۔ جو نو برس تک کندھےپر بیٹھ کر خوش نہیں ہوا وہ اگلی پانچ دہائیوں تک بھی کسی بات سےخوش نہیں ہوگا۔ لیکن پاکستانی عوام‘ جو کل خوش ہوکر سلیوٹ مارتےتھے‘ آج ناراض ہیں۔ریاست ِپاکستان اورفوج مغرب سےلڑائی مول لےکر تو باقی رہ سکتےہیں لیکن اپنی قوم کی ناراضی مول لےکرباقی نہیں رہ سکتی۔
…………٭٭٭…………
ہمارےحکمرانوں کا توموڈ نہیں لیکن کیا ہم وطن عزیز کےخلاف برطانوی جریدےکی ہرزہ سرائی کا جواب دینا پسند کریں گے؟ اگر ہاں تو کس طرح جواب دےسکتےہیں؟