Articles

‘ناپاکستان‘

In فوج, پاکستان on جولائی 3, 2010 by ابو سعد

دورِ حاضر کےاُستاد کا تقابل ماضی کےقابلِ تقلید اساتذہ سےکرتے ہوئے کسی نےایک شعر کہا تھا۔ اب اُس میں ترمیم کرکےاسےکچھ یوں کردیاگیا ہے؛۔

  

وہ بھی کیا دن تھےجب خدمتِ ”افواج“ کےعوض
دل چاہتا تھا ہدیہ سَر پیش کیجیے!۔
یہ شعر کسی حد تک پاکستانی فوج پر صادق آتا ہے، وہ ادارہ جس کا شمار کبھی متبرک اداروں میں ہوتا تھا، اور بڑی حد تک یہ اس کا حق بھی تھا کہ قومیں اپنےہیروز کو سلیوٹ کرتی ہیں۔ پاکستانی فوج کا دلیری، شجاعت اور بہادری میں ایک نام ہے۔ یہ شیروں کی فوج تھی۔ لیکن پھر ایک گیدڑ نےغرّاتےہوئےشیروں کےجتھےکو‘ جو کبھی جارحین سےنبرد آزما ہوتا تھا، جارحین کےلیےکرائےکی فوج بنادیا۔ ایک فون کال پر ڈھیر ہونےوالےجنرل پرویز کا حکم ماننا ڈسپلن کا تقاضا تھا۔ اگر فوج میں حکم عدولی اور بغاوتیں ہونےلگیں تو فوج، فوج نہیں ہجوم بن جائے۔
جارح قوتوں کےساتھ اتحاد ہی کیا کم تھا کہ پھر جنرل پرویز کی بزدلی کھل جانےکےبعد ’ڈومور“ کی رَٹ لگانےوالےامریکا نےوطن عزیز پرجانیں نچھاور کرنےوالی فوج کو اپنےہی عوام کےخلاف مصروف کرکےانوکھی مثال قائم کردی، جو یقینا ایک ڈراونےخواب کی طرح پاکستان کےماضی کا ایک برا قصہ بن گیا۔ رِٹ قائم کرنےکےلیےوطنِ عزیز کی جنت نظیر وادی سوات میں آپریشن شروع کرکےملکی تاریخ میں سب سےزیادہ افراد کو مہینوں کےلیےبےسروسامانی کی حالت میں اپنےہی وطن میںبےگھر کردیا گیا، اور اس بڑےانسانی المیےکےدوران جو دل دہلادینےوالےواقعات رونما ہوئےان کا دوہرانا اس لیےبھی ضروری نہیں کہ یہ سب کچھ بڑی حد تک رپورٹ ہوچکا ہے۔ قارئین کےعلم میں تو یہ باتیں بھی ہوں گی جو اُوپر بیان کی گئی ہیں، لیکن یہ تذکرہ برائےیاددہانی ہے۔ اصل موضوع تو یہ ہےکہ پاک فوج کےسابق سربراہ جنرل پرویزمشرف کی جانب سےامریکی جنگ کو پاکستانی جنگ بنانےکےبدلےمیں پاکستان اور خصوصاً فوج کےادارے کو کیا حاصل ہوا ہے؟ الزامات، الزامات اور مزید الزامات۔
مغربی خفیہ اداروں اور میڈیا کی طرف سے9برس طویل عرصےتک ان کا ساتھ دینےوالی فوج اور اس کےذیلی اداروں کےبارےمیں جو کچھ لکھا جارہا ہے، اسےدیکھ کر بچپن میں سنا ہواایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک امیرزادہ، امیر ہونےکےساتھ ساتھ لاڈلا بھی تھا۔ دو قدم چلتا تو تھک جاتا۔ گاڑیاں اُس زمانےمیں تھی نہیں، کوئی اور سواری بوجوہ دستیاب نہیں تھی۔ دوسرےگاوں جانا تھا‘ اس لیےایک غریب کو روکا اور حکم دیا کہ کندھےپر بٹھاکر دوسرےگائوں پہنچاو۔ غریب نےاس خیال سےکندھےپر امیر زادےکو بٹھالیا کہ خوش ہوکر انعام واکرام سےنوازےگا۔ گرتےپڑتےندی نالےعبور کیے۔ سردی کا موسم تھا‘ کہیں کپڑےبھیگ گئےتو کہیں کیچڑ نےکام دکھایا‘ کانٹےبھی چبھےاور تھکن سےتو برا حال ہوگیا…. لیکن غریب شخص اس آس میں جانب ِمنزل بڑھتا رہا کہ جلد محنت کا پھل ملنےوالا ہے۔ دوسرے گائوں پہنچ کر امیر زادےکو اُتارنےہی لگا تھا کہ حکم ہوا: ”جلدی اُتار‘ تُو نےتو میرےکولہوں میں درد کردیا۔ تجھےٹھیک سےبٹھانا اور چلنا بھی نہیں آتا۔ چل گنوار یہاں سےفوراً دفع ہو، آئندہ شکل بھی نہ دیکھوں۔“۔
پاکستانی فوج گزشتہ 9 برسوں سےامریکا کو کندھےپر بٹھاکر گھما رہی ہے۔ زیادہ دیر کندھےپر بیٹھ کر اب امریکا کےکولہےدُکھنےلگےہیں تو وہ قصوروار بٹھانےوالےکو ٹھیرا رہا ہے۔ افغانستان میں مجاہدین کےہاتھوں ذلت آمیز شکست سےدوچار ہونےکی وجہ اپنی کمزوری نہیں بلکہ کندھا پیش کرنےوالےکی ہےتو اس کےجرنیلوں کی حواس باختگی میں بھی پاکستان کا قصور…. پاکستان کےجوہری اثاثوں اور دیگر اہم مقامات تک رسائی نہ دینا بھی جرم۔ لندن اسکول آف اکنامکس کی رپورٹ نےپاک فوج کو افغان طالبان شوریٰ کا ممبر قرار دیا تو اب معروف برطانوی میگزین ’دی اکانومسٹ ‘ نےپاکستان کو ”ناپاکستان“ کہا ہےاور اس ’ناپاکی‘ کا ذمہ دارپاک فوج کو ٹھیرایا ہے۔
اپنے17جون2010ءکےشمارےمیں شائع مضمون
Land of the impure
یعنی ’ناپاکستان ‘میں میگزین نےتوپوں کا رُخ پاک فوج کی طرف کردیاہے اور پاکستان کو ناپاکستان بنانےکا ذمہ دارٹھیرایا ہے۔
میگزین کےمطابق پاک لوگوں کی سرزمین یعنی پاکستان کےنام سےجانے، جانےوالےاس ”ناپاکستان“ کےسب مسائل کی جڑاگر فوج نہیں ہےتو اکثر مسائل کےلیےضرور اُسےمورد الزام ٹھیرایا جاسکتا ہے۔
دی اکانومسٹ لکھتا ہے:”اپنےقیام کےساٹھ سال پورےکرنےوالا پاکستان جس کےمعنی ’پاک لوگوں کی سرزمین ‘ کےہیں تاحال ایک قوم بننےکی کوشش کررہا ہے“۔
آگےلکھتا ہے:”معاشی طور پر پسماندہ، سیاسی طور پرنابالغ اور مذہبی انتہاپسندوںکی دہشت، اس ملک کےپاس اگرجوہری ہتھیار نہ بھی ہوتےتب بھی اس کےموجودہ حالات ہر ایک کی پریشانی کےلیےکافی تھی۔ان مشکلات کےلیےزیادہ الزام فوج کو دینا ہوگا۔“۔
اور پھر مضمون کےمطابق یہ” الزام“ اس لیےدینا ہوگا کیوں کہ فوج نےملک کےکسی بھی ادارےسےزیادہ ’قومی یکجہتی‘ کو تقویت دی ہے۔ یعنی معروف برطانوی میگزین کےنزدیک جذبہ حب الوطنی کا ہونا نہ صرف بجائےخود پاکستان کےلیےنقصان دہ ہےبلکہ اس کےسارےمسائل کی جڑبھی یہی ہے۔
میگزین نےپاک فوج کےخلاف جو چارج شیٹ پیش کی ہےاس میں اول نمبر اس کا جمہوریت پر باربار شب خون مارنا نہیں بلکہ” مشرقی محاذ“پر بھارت کےخلاف عسکری مہم جوئی ہےجس نےسیکورٹی کو بڑھانےکے بجائے اس کو خطرےسےدوچار کیا ہے۔ مضمون کےمطابق”کوئی بھی مہم جوئی 1971ءسےزیادہ تباہ کن ثابت نہیں ہوئی ہےجو مشرقی پاکستان یعنی موجود ہ بنگلہ دیش کی علیحدگی پر منتج ہوئی“۔میگزین کےمطابق 1971ءکی پاک بھارت جنگ پاکستانی فوج کی طرف سےایڈونچرازم تھی اوراسی طرح1999ءکی کارگل جنگ بھی۔ ”پُرامن“بھارت کےسارےگناہ معاف کرکےمیگزین نےپاک فوج کو موردِ الزام ٹھیرایا ہےکہ وہ آج تک ”بھارتی خطری“ کےساتھ جڑی ہوئی ہےجبکہ بھارت کو پاکستان پر قبضہ کرنے کے بجائےاپنی معاشی ترقی کی فکر ہے۔ ایسا لگتا ہےکہ آئےدن پاک بھارت سرحد پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیز فائرنگ اور اس کےنتیجےمیں پاکستانی عوام اور فوجیوں کی شہادت کی خبریں اس معروف میگزین تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔
میگزین کےمطابق فوج کی طرف سےجہاداِزم کو اپنا اصل مقصدبنائے جانےسےریاست کا وجودخطرےسےدوچار ہواہے۔ یہ پالیسی ضیاالحق کی اسلامائزیشن پالیسی کا حصہ ہے‘جو آج تک جاری ہے۔ اس سلسلےمیں لندن اسکول آف اکنامکس کی رپورٹ کونقل کرتےہوئےلکھا گیا ہےکہ اگرچہ آئی ایس آئی اس بات کی سرکاری طور پر تردید کرتی ہےتاہم پاکستانی فوج کےبعض افسران نجی محفلوں میں تسلیم کرتےہیں کہ فوج کےکچھ ’’کارنرز“ طالبان کی مدد ضرور کرتےہیں۔
میگزین کےمطابق پرویز مشرف اور ان کےایک ساتھی نےایک دفعہ مذاق میں کہا تھا کہ وہ ان جہادیوں کو ان کےگلے(اصل لفظ کچھ اور ہے جو بوجوہ یہاں نہیں لکھا جارہا ہے)سےپکڑ لیں گے۔ لیکن آج پاکستانی طالبان کےنام سےپہچانےجانےوالےمجاہدین اپنےمیزبان (پاکستان)کی درگت بنارہےہیں۔اور خود فوج، حتیٰ کہ آئی ایس آئی ان کےزیر عتاب آئی ہوئی ہے۔اکانومسٹ لکھتا ہے؛”اب یہ حملےمصیبت زدہ علاقوں سےمعتدل اور خوشحال پنجاب کی طرف بڑھ رہےہیں،اب اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ کس نےکس کو گردن سےپکڑا ہے۔“۔
اس چارج شیٹ میں تیسرا نمبر پاکستانی فوج کی ریاست کےسیاسی اور انتظامی کاموں میں مداخلت کو دیا گیا ہے۔ فوج پر کرپشن کا الزام لگاتےہوئےمیگزین لکھتا ہےکہ”یہ تسلیم شدہ حقیقت ہےکہ پاکستان کےادارےابتدا سےکمزور تھےلیکن فوج کی مداخلت نےانہیں مزید کمزور کردیا ہے….فوج کےپاس اس وقت20بلین ڈالرز کا بزنس ایمپائر ہے‘ اور یہ غالباً ملک کےسب سےبڑےلینڈ ڈویلپرز ہیں کیوں کہ افسران کی وفاداری زمینی گرانٹ کےذریعےخریدی جاتی ہے۔“۔
صحافتی بددیانتی کی مثال قائم کرتےہوئےمیگزین نےیہ تو درست لکھا کہ کرپٹ سیاست دانوں کےساتھ ساتھ فوجی مداخلت نےجمہوریت کو کمزور کردیا ہےجس نےچند ہی انتخابات منعقد ہونےدیے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ امریکا کس حد تک انتخابات کےہونے، نہ ہونےاور ہونےکی صورت میں نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔
مضمون میں پاکستان کی سماجی اور معاشی پسماندگی کےلیےبھی فوج کو موردِ الزام ٹھیرایا گیا ہےجو وسائل پر قابض ہوکر ترقی کو روکتی رہی ہے۔ میگزین کےمطابق معاشی ضمن میں تعلیم یافتہ پاکستانیوں کا خیال ہےکہ ان کےملک کو اب تک ترکی یا ملائیشیا بن جانا چاہیےتھا، لیکن اس کےبرعکس یہ یو این ڈی کی ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکیٹرزکی رینکنگ میں یمن سےنیچےیعنی151 واں ملک ہے۔ جب کہ اسکول جانےوالےبچوں کی تعداد کےحوالےسےسوڈان سےبھی نیچےہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہےکہ ”حکومت تعلیم پر جتنا خرچ کرتی ہےاس سےکئی گنا فوج پر خرچ کرتی ہے۔“۔
یہ حقیقت ہےکہ پاکستانی فوج نےاپنی قوم کی نظروں میں قائم اپنےگولڈن امیج کو دائو پر لگا کر صلیبی اتحاد کا ساتھ دیا تھا۔لیکن بدلےمیں کیا ملا، ذلت و رسوائی! سنا ہےپرویز مشرف کےبعد آنےوالی فوجی قیادت کو اس کا احساس ہوچلا ہےاور اس نےاس ضمن میں کچھ منصوبہ بندی کی ہےاور کچھ اقدامات بھی ایسےکیےہیں جو امریکا سےرفتہ رفتہ دوری کی طرف اشارہ کرتےہیں۔ ہوسکتا ہےفوج کےلیےامریکا کو یکدم خداحافظ کہنا ”ممکن“ نہ ہو، لیکن اس نےکچھ باتیں ماننےسےانکار کردیا ہے۔ اس نےاِس سال کوئی نیا آپریشن شروع کرنےسےگریز کیا ہے۔ مزید برآں فوج نےغیر ملکیوں کی بلا روک ٹوک نقل وحرکت کو کنٹرول کرنےاور اہم مقامات سےان کو نکالنےکی بھی کوشش کی ہے۔ ہوسکتا ہےمغربی میڈیا میں فوج کےخلاف ہرزہ سرائی اسی کا ردعمل ہو۔ کیوں کہ پاکستانی میڈیا کےبرعکس مغرب کا میڈیا اپنی ریاستوں کی پشت پر کھڑا نظر آتا ہےاور ابلاغی جنگ بپا کرکےمیدان میں موجود سپاہیوں کا ساتھ دیتا ہے۔
ردعمل یقینی ہے، لیکن اگر فوج نےامریکی پالیسیوں سےدوری کا سفر شروع کردیا ہےتو اسےجاری رکھنےاور اس میں تیزی لانےمیں ہی بھلائی ہے۔ جو نو برس تک کندھےپر بیٹھ کر خوش نہیں ہوا وہ اگلی پانچ دہائیوں تک بھی کسی بات سےخوش نہیں ہوگا۔ لیکن پاکستانی عوام‘ جو کل خوش ہوکر سلیوٹ مارتےتھے‘ آج ناراض ہیں۔ریاست ِپاکستان اورفوج مغرب سےلڑائی مول لےکر تو باقی رہ سکتےہیں لیکن اپنی قوم کی ناراضی مول لےکرباقی نہیں رہ سکتی۔
…………٭٭٭…………
ہمارےحکمرانوں کا توموڈ نہیں لیکن کیا ہم وطن عزیز کےخلاف برطانوی جریدےکی ہرزہ سرائی کا جواب دینا پسند کریں گے؟ اگر ہاں تو کس طرح جواب دےسکتےہیں؟

9 Responses to “‘ناپاکستان‘”

  1. بہترین جواب ”نا” ہے۔مجھے یاد ہے ابھی کچھ عرصے پہلے جرنل کیانی نے ڈرون کا پاکستانی حدود میں آکر حملہ کرنے پر دھمکی دی تھی کہ وہ اسے مار گرائے گا۔ اسپر قبائلی عوام نے اپنی ٹوپیوں پر جرنل کیانی کی تصویر لگادی تھی۔ وہ بھی یا ہوگا جب بھارت کے ساتھ حالات کشیدہ ہو گئے تھے اور جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے تو آرمی کی طرف سے پاکستانی طالبان کو محب وطن کہا گیا تھا۔ جواب میں طالبان نے کہا تھا کہ اگر انڈیا نے حملہ کیا تو طالباب فوج کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔
    ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک ”نا” پورے پاکستان کو متحد کردیتی ہے۔
    مغربی جریدوں پر اسوقت شکست کا خوف طاری ہے جس سے باؤلا ہوا جا رہا ہے۔

  2. آپ خود ہی بسم اللہ کہیں اور اس مضمون میں غلطیوں کی ذرا نشاندہی تو کریں۔

  3. اچھا لکھا ہے

    ميں نے بچپن ميں پنجابی کا ايک محاورہ بزرگوں کے منہ سے عام سنا تھا

    اِک نہ تے سو سُکھ

  4. ملاحضہ کیجیئے نواز شریف کی قلابازیاں۔http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/07/100703_nawaz_taliban_presser.shtml
    کچھ عرصے پہلے امریکہ کے آگے میاں صاحب کی میاؤں میاؤں بھی سنی ہوگی آپ حضرات نے۔ آج جب طالبان مکمل طور پر فتحیاب ہو رہے ہیں تو رنگ ماسٹر کی اشارے پر ”میاؤں” پھر شیر کا کاسٹیوم پہن کر خود فریبی میں مبتلا ہورہاہے۔ دراصل اس بار رنگ ماسٹر کو امریکہ کی شکست کے ساتھ ساتھ اپنی فکر پڑچکی ہے اور وہ پیش بندی کے طور پر ”میاؤں” کو رنگ میں لارہاہے۔ لیکن اس باررنگ ماسٹر اور جعلی شیروں کا فریب اور چلتر بازی انکے اپنے لیئے قبر بن جائیگی۔
    ٹوپی والے شیروں کے لیئے بھی عرض ہے کہ فتح سے پہلے اور فتح کے بعد ساتھ دینے والے برابر نہیں ہو سکتے۔

  5. "یہ شیروں کی فوج تھی”
    اس بات کے بعد اب مین کیا تبصرہ کروں؟
    اس جملے سے مجھے تو اس پوسٹ کی بنیاد ہی بودی محسوس ہوتی ہے
    😀

  6. ملاحضہ کیجیئے نواز شریف کی قلابازیاں۔
    http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/07/100703_nawaz_taliban_presser.shtml
    کچھ عرصے پہلے امریکہ کے آگے میاں صاحب کی میاؤں میاؤں بھی سنی ہوگی آپ حضرات نے۔ آج جب طالبان مکمل طور پر فتحیاب ہو رہے ہیں تو رنگ ماسٹر کی اشارے پر ”میاؤں” پھر شیر کا کاسٹیوم پہن کر خود فریبی میں مبتلا ہورہاہے۔ دراصل اس بار رنگ ماسٹر کو امریکہ کی شکست کے ساتھ ساتھ اپنی فکر پڑچکی ہے اور وہ پیش بندی کے طور پر ”میاؤں” کو رنگ میں لارہاہے۔ لیکن اس باررنگ ماسٹر اور جعلی شیروں کا فریب اور چلتر بازی انکے اپنے لیئے قبر بن جائیگی۔
    ٹوپی والے شیروں کے لیئے بھی عرض ہے کہ فتح سے پہلے اور فتح کے بعد ساتھ دینے والے برابر نہیں ہو سکتے۔

  7. […] […]

  8. یہ تبصرہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے. اکانومسٹ کا پیرایہ اظہار تلخ ہے مگر حق تو یہ ہے کہ ملکی وسایل کا بڑا حصہ دفاع کی مضبوطی کے نام پر ڈکارنے کے بعد اس قوم کو فوج سے کیا ملا؟ کارگل، مشرقی پاکستان، ابناے وطن پر بد معاشی اور جانوں کا ایتلاف. فاضل مضمون نگار کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ باسٹھ سالوں سے یہ فوج اس ملک کے عوام کو بھوکا، جاہل اور علاج سے محروم رکھ رہی ہے. بنگالی مسلمانوں کے قتل عام کا بھی کوئی قلق ان سطور سے ظاہر نہیں ہو رہا. اس رونے دھونے کی وجہ ہے تو بس یہ کہ ماضی کے بر عکس، فوج نے اس بار خود ساختہ مذھبی ٹھیکیداروں کو اس لوٹ کھسوٹ میں حصے دار نہیں بنایا. کوئی بتاے کہ بنگال کو تو خیر چھوڑیں، کراچی آپریشن میں سینکڑوں شہریوں کی شہادت ، بلوچستان میں ہزاروں لوگوں کی گمشدگیاں اور سینکڑوں کی ہلاکت آخر کس کے ہاتھ سے ہوئی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ سارا چیخنا چلانا صرف اپنی پسند کے لوگوں پر فوجی آپریشن کے خلاف ہے. اگر طالبان اور القائدہ کے خلاف آپریشن جرم ہے، تو کیا بلوچ اور مہاجر مسلمان نہیں؟ پاکستانی نہیں؟ اس سارے بلاگ کے ہر ہر مضمون کی سطر سطر کو پڑھ جائیے، ان مظلوموں کے حق میں اور فوج کے ان پر بے دریغ حملوں کے خلاف ایک بھی بات نہیں ملے گی. یہ دو عملی کیوں؟

  9. سب سے پہلی بات تو یہ ہے وہ کہتے ہیں نہ کُکڑی اپنی خراب ہوتی ہے جو پڑوسی کے گھر میں انڈا دیتی ہے اس میں پڑوسی کا کیا قصور؟ اگر آج مغربی میڈیا فوج کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے تو اس کی وجہ بھی بذات خود پاک فوج ہی ہے ، یہی طالبان جو آج اپنے ہی ملک اور اور فوج کے خلاف بندوق اٹھائے ہوئے ہیں، یہی لوگ کل اسی فوج کے لیے لڑتے تھے ، وہ افغانستان ہو یا پھر کشمیر ۔۔۔۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ باربار فوجی حکمرانوں نے عوام کے دلوں میں موجود اس ادارے کی ساکھ اور وقار کو بری طرح متاثر کیا بلکہ میں کہوں گا ایسی ضربیں لگائیں کہ جن کے داغ شاید کبھی مندمل نہ ہو سکیں ۔ فوج نے وہ کام کیا جو اس کو نہیں کرنا چاہیے تھا اورسیاسی جماعتوں نے وہ کچھ نہ کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا ۔ نہ جانے کیوں ہم شترمرخ کی طرح ریت میں گردن دبائے بیٹھے رہیں گے ، ہمیں آج بھی زمینی حقیقتوں کو قبول کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے حالانکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے آخری دو دہائیوں میں پاکستان وہاں جا پہنچا ہے جہاں شاید وہ انیس سو اڑتالیس میں بھی نہیں تھا ۔ کوئی ایک کل سیدھی نہیں چھوڑی ہم نے اس ملک کی ، تو بھائی پہلے اپنا قبلہ سیدھا کریں پھر کسی اور کو نصیحت کریں۔آخری ہماری فوج کو ایک عام سی بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ بدنام ہونا سیاست دانوں کا کام ہے، انہیں ہونے دیں ، اگر فوج ہی حکمرانی کے لیے بہترین ہوتی تو آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں میں فوج ہی حکمرانی کر رہی ہوتی جبکہ دو تین ملک ہی ایسے ہیں جہاں فوج حکمرانی کر رہی ہے ، جیسے میانمار ، کیوبا یا شمالی کوریا ۔۔۔ اور دیکھ لیں ان ملکوں کی حالت کیسی ہے ؟ سولین بلڈی ۔۔۔۔والی سوچ آج بھی ہماری فوج میں موجود ہے ، مجھے یاد ہے ، ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر کی بیوی ہماری آفس کولیگ تھیں، میں نے انہیں کبھی کسی کولیگ کو سلام کرتے کرتے نہیں دیکھے ۔۔۔ بلڈی سویلن ۔۔۔۔ اب ہمیں بدلنا ہوگا تبھی بدلے گا پاکستان ورنہ مغربی میڈیا میں اس سے بھی زیادہ کڑوی باتیں لکھی جاتی رہیں گی ۔۔۔ زبیر حسن

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: