Articles

پختونوں کی تذلیل…. اور میرا جانباز پنجابی سپاہی بھائی

In فوج, پاکستان, حقوق انسانی, دہشت گردی, طالبان on جولائی 27, 2010 by ابو سعد Tagged:

جب میں اپنےساتھی کےساتھ مقبوضہ جامعہ کراچی میں داخل ہونےکےلیےسلور جوبلی گیٹ پر قائم چیک پوسٹ پر قابض رینجرز اہلکار کی جانب بڑھا تو اس نےاس حقیقت کےباوجود کہ میرے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا مجھےصرف اس لیےاندر جانےکا گرین سگنل دےدیا کہ ہم دونوں ایک ہی زبان بولتےتھے۔ اور میں نےیہ ’سہولت‘ حاصل کرنےسےصرف اس لیےانکار کردیا کیوں کہ اس نےمیرےاردو بولنےوالےساتھی کو میرےساتھ جانےکی اجازت نہیں دی‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ ہم دونوں ہی جامعہ کراچی کےطالب علم ہیں۔ مجھےزبان کی بنیاد پر اُمتِ محمدیہ کو تقسیم کرنےوالوں سےشدید نفرت ہے۔ باچا خان کےپیروں کاروں کی طرف سے اپنےکارکنوں کو سخت ہدایت تھی کہ اس پختون دشمن کےساتھ ہاتھ نہ ملایا جائے۔ لیکن پتا نہیں 18جولائی کو میرےزبان سےڈیرہ غازی خان کےعلاقےترنول میں ان پولیس والوں کےسامنےیہ الفاظ کیوں نکلےکہ” آپ لوگ پختونوں کی نسل کشی کےبعد اب ان کو ذلیل کرنےکا کوئی موقع بھی ہاتھ سےنہیں جانے رہے ہیں۔‘‘
تقریبا ً ایک دہائی قبل اپنے زمانہ طالب علمی میں اس روٹ کو استعمال کرتارہا۔ راستےمیں مسافروں کےساتھ ٹرانسپورٹ مافیا کی زیادتیاں ہمیشہ مجھےپریشان کیا کرتی تھیں۔ اس لیےمیں نےارادہ کیا کہ میں کافی عرصہ بعد سفر میں اکیلےہونےکا فائدہ اُٹھا کر روڈ کا انتخاب کروں اورمضر صحت کھانے پینےکےسامان اوراس کےبدلےبس والوں کےہاتھوں ’یرغمال ‘مسافروں سے زیادہ پیسوں کےحصول کو ایک فیچر کا موضوع بنائوں۔ مسافروں کےمسائل مجھےپریشان کرتی رہے تو میرے سفر کی ساتھی جان پرکنز کی کتاب اس سےبھی زیادہ پریشان کررہی تھی جس میں انہوں نےسی آئی اےاور معاشی غارت گروں کی وارداتوں پر سےپردہ اُٹھایا ہے۔ کتاب میں پاکستان کا تذکرہ نہ ہونےکےباوجود یہ پاکستان کےحالات پرکس طرح منطبق ہوتی ہےاس کا تذکرہ ایک الگ پوسٹ میں‘فی الحال واپس اپنےموضوع کی طرف۔
کوہاٹ ٹنل پر ایک باوردی نوجوان نےسب کےشناختی کارڈ جمع کیےاور پھر واپس کیےلیکن ایک بزرگ کےپاس کلر فوٹوکاپی تھی‘ نوجوان نے واپس کرنےسےانکار کردیا۔ بزرگ التجا کرتےرہےکہ راستےمیں کئی اور جگہ چیکنگ ہوگی۔ نوجوان نےکہا اُسےآرڈر ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہےجہاں آرڈرز تو جاری ہوتےہیں‘ لیکن اس کےساتھ ہدایات دیےجاتےہیں اور نہ ہی اطلاع کہ کوئی ایسا آرڈر پاس ہوا ہے!لہٰذا آپ کا تجربہ ہی ہدایات ہوتےہیں۔ لیکن پہلی دفعہ کا کیا جائے؟کیا بس اڈوں پر ایسےہدایات واضح طور پر آویزاں نہیں کرنےچاہئیں؟
شاید یہ واقعہ تھا جس نےمجھ سےآگےترنول‘ ڈیرہ غازی کےعلاقےمیں وہ جملہ کہلوایا جو میں شاید عام حالات میں کبھی نہ کہتا۔ ترنول پر بس رُک دی گئی۔ کارڈ جمع کیےگئےاور پھر حکم دیا گیا ۔ پیدل چلنا شروع کردو۔ یہ سرحد اور پنجاب کا بارڈر تھا لیکن مجھےیہ انڈیا پاکستان یا پاکستان افغان بارڈر لگا۔ جہاں لکڑیوں کےبیچ میں گزارا گیا۔ یہ ہزار میٹر سےزیادہ کا راستہ ہوگا۔ ترنول تھانےکےسامنےپہنچ کر وہاں بیٹھےپولیس والوں سےمیں نےکہا”یہ کیا ہے؟ یہ پیدل چلوانا سیکورٹی مسئلےکا حل تو نہیں ہے۔ آپ لوگ پختونوں کی نسل کشی کےبعد اب ان کو ذلیل کرنےکا کوئی موقع بھی ہاتھ سےنہیں جانےدے رہے ہیں‘‘۔
مجھےنہیں پتا کہ ذلیل ہونےکا باوجود مجھےیہ کہنےکا حق تھا یا نہیں لیکن اس پر میرےپنجابی بھائی پولیس والےنےجو کچھ کہا اس نےمجھےکچھ مزید کہنےپر مجبور کردیا۔ اس نےکہا کیا کریں تم دہشت گرد ہو۔ سارےچرسی کہاں ہوتےہیں؟ سرحد سے آتے ہیں چرس اور ہیروئین کہاں سےآتی ہے؟۔‘‘
میں سنتا رہا اور وہ کہتا چلا گیا”بےوقوف یہ کیمرےلگےہیں جس میں اہم دہشت گردوں کو پہچانتےہیں‘ چرسیوں اور ہیرونچیوں کا پتہ چلتا ہے۔‘‘
میں نےعرض کیا”جناب یہ کام تو 10میٹر میں بھی ہوسکتا ہے اس کےلیے1000میٹر کی پریڈ کیوں کراتےہو۔“ اس گستاخی پر اس نےمجھےہاتھ سےپکڑ کر دھکا دیا۔میں نےکہا یہ میرےسوال کا جواب نہیں ۔ مجھےدھکا دےکر کونساجواب دےرہےہیں؟ میں اس وقت جنوبی پنجاب میں تھا او ر میں نےاسےیاد دلایا کہ یہاں بھی طالبان ہیں لیکن آپ ان کےخلاف کچھ کرنےکو تیار نہیں۔اور پھر سرحد میں داخل ہوتےہوئے پنجاب سےآنےوالوں کو ایسا ذلیل نہیں کیا جاتا حالانکہ وزیر ستان میں پائےجانےوالے’پنجابی طالبان‘ پنجاب سےہی آئےہوں گے۔ میں نےمزید کہا کہ ”میں روز پڑھتا ہوں کہ سیکورٹی فورسز نے30،40اور 50شدت پسندوں کا مارا۔ یہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے۔ 99فیصد پختون امریکا مخالف ہیں۔ امریکی دشمنی کو ختم کرنےکےلیےتہمیں ایک ایک پختون کو مارنا ہوگا“…. میں وہاں سےبس کی جانب چل پڑا اور سوچتا رہا کہ میں کیا کیا کہہ گیا۔ شاید میں یہ سب کچھ نہ کہتا اگر مجھےمیرےسوال کا جواب ملتا یا صرف اتنا ہی کہہ دیا جاتا کہ ”تم میرےمسلمان پاکستانی بھائی ہو ‘ یہ تم نےکیسےبات کردی۔‘‘

18 Responses to “پختونوں کی تذلیل…. اور میرا جانباز پنجابی سپاہی بھائی”

  1. خدا را مجھ پر پنجابی دشمن یا قوم پرست ہونے کا الزام نہ لگایا جائے۔ میری اس تحریر سے ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں پاکستانی کی تقسیم پر یقین رکھتا ہوں یا میں دیگر قومیتوں کے لیے تعصب کے جذبات رکھتا ہوں۔

  2. قوم پرست تو آپ کو نہیں کہیں گے۔لیکن دکھی ضرور کہیں گے۔میرے بھائی اور کزن داڑھیوں والے ہیں۔ہم اسلام آباد سے ایبٹ آباد کے لئے نکلے تو چوکیوں پر سب کو اتارا جاتا رہا۔اور کئی گاڑیاں گذریں جنہیں روکا نہیں گیا۔ بھائیوں سے پوچھا ایسا کیوں ھے۔تو جواب تھا کہ ان کی داڑھیاں نہیں ہیں۔ اب کیا کیا جائے سرحدی علاقے میں یا سرحد والوں میں کچھ غلط باتیں بھی ہیں جس کی وجہ سے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ھانکا جاتا ھے۔سب سے بڑی بات تو یہ ھے کہ امریکہ مخالف بہت ہیں ۔اور یہ کیا جرم نہیں ؟۔اب کہا جائے کہ پنجابی کی کہیں تذلیل نہیں ھوتی تو یہ بھی غلط ھے۔بلوچستان آپ کے سامنے ہے۔اور سسندھ بھی۔اسی طرح دوسرے صوبوں والوں کوبھی شکایات ہیں۔
    ہر کوئی اپنے آپ پر ترس کھا رہا ھے اور دوسرے پر ترس کھانے کو تیار نہیں۔بس برداشت کریں اور گذر جائیں۔

  3. وجہ صرف ايک ہے ۔ ہمارے ملک کے تمام باشندوں کو بار بار ايک دوسرے کے خلاف پڑھايا گيا ہے ۔ جب بھُٹہ سے بھُٹو بنا تو وہ پنجابی نہ رہا اور سندھی بن گيا ۔ پھر پنجاب کے ووٹوں سے بادشاہ بنا اور سندھيوں کو بتايا کہ پنجابی کھا گيا ۔ ١٩٧٤ء ميں اُن لوگوں کو جنہوں نے سندھ کو اپنا وطن بنا کر اس کے صحراؤں کو کھيتوں ميں بدلا تھا انہيں غيرقومی کہہ کر قتل کی دھمکياں ديں اور سب کچھ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کيا ۔ يہ کھيل اب بھی جاری ہے اور صوبوں کو آپس ميں لڑانے کا کھيل ہو رہا ہے ۔ اللہ ہميں ايسے حکمرانوں کو سمجھنے کی توفيق عطا کرے

  4. افتخار بھائی حکمران تو واقعی ہمیں لڑانے میں مصروف ہیں لیکن جس طرح پنجاب نے جنوبی پنجاب میں آپریشن کی مخالفت کردی اس طرح خود اپنی فوج اور امریکیوں کے ہاتھوں غیور پختون مسلمان کے قتل عام کو روکنے کے لیے آواز اُٹھائی جائے گی؟

  5. بھائی صاحب اس میں پنجابی یا سندھی کا قصور نہیں ہے۔ فوج اور پولیس کو جو حکم ملے گا وہ اس کی تعمیل کریں گے۔ فوج کو حکم ملا لال مسجد ملیامیٹ کر دو، ایسا کر دیا گیا۔ فوج کو حکم ملا کراچی میں آپریشن کردو، ایسا کر دیا گیا۔ فوج کو حکم ملا انڈیا کے آگے ہتھیار ڈال دو، فوج نے ایسا ہی کیا۔
    اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں یہ حکم دینے والے کون ہیں!

  6. بہت افسوس ہوتا ہے اس طرح کے واقعات سن کر۔ انتہائی شرم کی بات ہے کہ ہم انسان اور مسلمان ہونے کو بھول کر ایک دوسرے کو اس کی زبان سے پہچاننے لگے ہیں۔ آپ نے تو پولیس والے کو اتنی باتیں کہہ بھی دیں، کوئی اور ہوتا تو چپ چاپ سہہ لیتا۔ بھلا کون چاہے گا لاپتہ ہونا؟

  7. دیکھے یہ فیصلہ کہ آپریشن نہیں ہو گا! لوگل قیادت نے کیا! نہ کہ فوج نے! کیا یہ بہتر نہیں کہ خیبر پختون خوا کی مقامی قیادت بھی یہ اعلان کر دے کہ آپریشن بند کیا جائے!
    اب عوامی نیشنل پارٹی آپریشن کی حامی ہو فوج کو سپورٹ کریں تو جواب میں بے گناہ بھی مریں تو نفرت کا بیج تو بویا جائے گا ناں!

  8. اور ہاں میں اُس فوجی کے رویئے کی مزمت کرتا ہوں!

  9. شعیب بھائی میں آپ سے سو فی صد اتفاق کرتا ہوں کہ پنجاب کی طرح خیبر پختونخوا کی لوکل قیادت اپنے لوگوں کے خلاف آپریشن کے خلاف نہیں لیکن فوج کے ہوتے ہوئے کون فیصلہ کرسکتا ہے۔ اگر اے این پی کی حکومت انکار کرتی تو کیا فوج رک جاتی? میرا خیال ہے نہیں۔ اے این پی پاکستان دشمن جماعت ہے نہ کہ پختونوں کی خیرخواہ

  10. پختونوں کی تذلیل کرانے میں چند نام نہاد پختون ہی ملوث ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  11. یار مین اسلام آباد کا مستقل رہائشی ہونے کے باوجود ہر چوکی پہ صرف اس لیے روکا جاتا تھا کہ مین نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ اور اس سے چھٹکارا بھی مل گیا جب کلین شیو ہو گیا
    تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پالیسی بنانے والے جاہل لوگ ہیں
    ان کو علم ہی نہیں کہ مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے
    نتیجے میں جو بونگیاں مار سکتے ہیں وہ مار رہے ہیں
    اور قوم میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں

  12. آپ کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کس قدر دکھی ہیں۔ ہمیں تو کراچی میں اکثر اس قسم کی صورت حال کا سامنا ہوتا رہا ہے لیکن اچھے اور برے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ویسے یہ سچ ہے کہ ڈاڑھی والوں پر مصیبت آئی ہوئی ہے۔ یہاں تو یہ مشہور ہے کہ پولیس والے جب کسی داڑھی والے کو روکتے ہیں تو اس پوچھتے ہیں کہ "کون سے مولوی ہو، درود والے یا بارود والے”۔۔۔۔۔

  13. اڑے ھم کو پنجابی فوجی نے کوئٹہ میں اس لیے مارا ھم نے ادھر موٹر سائکل نہیں روکا اور ہم بلوچ ھے ، گیند کی طرح اڑے ھم کو مارا کتے فوجیوں نے اس دن کے ہم لعنت دیتا ھے پنجاب اور ایسے ملک پر تھو اڑے ،،

  14. ازاد بلوچستان زندہ باد

  15. جس قوم کو یہی احساس نہ ہو کہ کون اس کا دشمن اور کون خیر خواہ ، اس سے سوائے اس کے اور توقع کی بھی کیا جا سکتی ہے۔ ہماری سقراط عوام کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں بنیادی طور پر دو ہی قومیں ہیں ، ایک مڈل کلاس یا غریب اور کمزور اور ایک دولت مند اور طاقتور ۔ اب یہ چھوٹا سا نسخہ جس کے بڑے دماغ میں نہیں سماتا اور وہ پھر بھی ایک صوبے سے دوسرے اور دوسرے صوبے تیسرے اور پھر چوتھے پر چھلانگ لگاتا ہے تو وہ اس ذلالت کا حقدار ہے ۔
    وسلام

  16. طالوت صاحب میں آپ سے متفق ہوں کہ مسئلہ حکمرانوں کا بنایا ہوا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ میرے سوال کا جواب نہ دینے والا یقینا لوئر کلاس سے تعلق رکھنے والا تھا۔ اس لیے مسئلہ طبقات کا نہیں سوچ کا ہے۔ اور جہاں تک ایک صوبے سے دوسرے میں چھلانگ لگانے کا تعلق ہے اس پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔

  17. اور ہاں تذلیل کرنے والا کا منہ توڑا جاسکتا ہے۔

  18. آپ شاید کچھ غلط سمجھے ابو سعد ۔ چھلانگوں سے میرا مقصد طنز نہیں تھا۔ میرا کہنے کا مطلب تھا کہ عوام کو احساس ہی نہیں ہو پا رہا کہ وہ کس چکر میں پھنسائے گئے ہیں ۔ آپ کا کہا درست کہ وہ عام طبقے کا آدمی تھا مگر اس کے دماغ یہ خناس بھرنے والا اسی طبقے کا ہے جس کو ہم دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود انجان بنے بیٹھے ہیں۔حالت تو یہ ہے کہ دیار غیر میں بھی ہماری سوچ میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں ۔ یہاں بھی زبان قوم قبیلے کی نسبت سے تعلقات روا رکھے جاتے ہیں ۔
    وسلام

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: