Articles

ذرائع ابلاغ کے وعدہ معاف گواہ

In میڈیا on اگست 6, 2010 by ابو سعد Tagged: , , , , , ,

میڈیا کسی بھی معاشرے میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کا اثر نہ صرف سیاسی اکھاڑے پر ہوتا ہے بلکہ یہ معاشرے کی مجموعی سمت کا تعین بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے لیے معاشی، حربی اور سیاسی پالیسیاں بنانے والے صہیونیوں اور ان کے صلیبی دوستوں نے اس سے پروپیگنڈے کا کام بخوبی لیا ہے۔ پاکستان میں نجی ٹی چینلز کے قیام کے بعد میڈیا کے اثرات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی میڈیا پر جانب داری کے علاوہ بنیادی طور پر تین قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ کئی ایسی چیزیں ہیں جو میڈیا کو نہیں دکھانی چاہئیں۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ میڈیا جان بوجھ کر کچھ حقائق عوام تک نہیں پہنچاتا۔ اسی طرح بعض لوگ میڈیا پر تکنیکی لحاظ سے تنقید کرتے ہیں۔ یہ الزامات عام طور پر باہر سے لگائے جاتے ہیں، تاہم گزشتہ چند دنوں کے دوران ایسا لگا کہ میڈیا کے کردار سے واقف اس کے کچھ حصے وعدہ معاف گواہ بن کر ان خرابیوں کی نشاندہی کررہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وعدہ معاف گواہ بننے والوں کا تعلق بڑے اور بااثر ابلاغی گروپوں سے ہے۔ صف ِ اول کے اخبارات میں چھپنے والے کچھ حصے قارئین کے لیے مرتب کیے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔
……..٭٭٭……..
معاصر روزنامہ ’پاکستان‘ اپنے 31 جولائی2010ءکے اداریے ”الیکڑونک میڈیا اور طیارے کا حادثہ“ میں لکھتا ہے: ”ہمارے قارئین نے ٹیلی فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے حادثے کے دن الیکڑونک میڈیا کے بعض حلقوں کی طرف بڑے افسوس کے ساتھ توجہ دلائی اور شدید احتجاج کرتے ہوئے زور دیا کہ رپورٹنگ اور
تبصروں کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق وضع کیا جائے“۔
اداریے کے مطابق کئی قارئین نے میڈیا کا قبلہ درست کرنے کے لیے سڑکوں پر آنے کی دھمکی دی تو کچھ نے سپریم کورٹ سے ’سوموٹو ایکشن‘ لینے کا مطالبہ کیا، جبکہ بعض نے رپورٹنگ کے معیار پر تنقید کی۔ اخبار کے اداریے میں آگے لکھا ہے: ”اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکڑونک میڈیا کی وسعت نے پاکستانی قوم میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کی ہے۔ ’ٹاک شوز‘ نے بحیثیت ِمجموعی قومی معاملات سے دلچسپی کو کئی گنا کیا ہے۔ آگہی اور آگاہی کی فضا کو پروان چڑھانے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ لیکن مسابقت اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ اور بعض غیر تربیت یافتہ (اور کم تعلیم یافتہ) افراد کی موجودگی نے اس کے امیج کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔
حادثہ اسلام آباد کے دن کئی بچکانہ تبصرے ہوئی، جائے حادثہ اور لقمہ اجل بننے والوں کو جس انداز میں کیمروں کی زد میں لیا گیا، اس نے دلوں کو دُکھایا۔ فضائی حادثے میں مرنے والوں کی لاشیں نہ شناخت کی جاسکتی ہیں اور نہ سلامت رہ سکتی ہیں۔ اس طرح کی منظرکشی کی گئی کہ کلیجہ منہ کو آگیا۔ کئی تبصرہ نگاروں نے ایسے غیر محتاط الفاظ استعمال کیے جن سے لواحقین کے غم میں اضافہ ہوا۔ موسم اور پہاڑی علاقے کا کوئی لحاظ نہ کرتے ہوئے امدادی کارکنوں کو بے رحمانہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جاں بحق ہونے والوں کے گھروں کی طرف بھی کیمرے دوڑا دیے گئے۔ غم سے نڈھال والدین اور اہلِ خانہ کو سوالات کے کچوکے دیے گئے۔ وہ کچھ پوچھا گیا جس کی نہ کوئی ضرورت تھی نہ محل“۔ اخبار واضح کرتا ہے: ”پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن نے دہشت گردی کے واقعات کی کوریج کے لیے ازخود ایک ضابطہ تیار کرکے معاملات کو سنبھالا، اب بھی ضروری ہے کہ یہ اپنے خودسروں کو لگام ڈالے۔ کیمرے اور زبان کا استعمال احتیاط کا تقاضا کرتا ہے، نہ تو سب کچھ دکھانے کا نام آزادی ہے، نہ سب کچھ کہہ دینے کا نام بہادری ہے…. میڈیا کی آزادی معاشروں کو طاقتور اور ذمہ دار بنانے کے کام آنی چاہیے۔ انہیں پسپا اور رسوا کرنے کے لیے نہیں۔“ روزنامہ پاکستان کا یہ اداریہ بتارہا ہے کہ میڈیا وہ کچھ دکھا رہا ہے جو اسے نہیں دکھانا چاہیے۔ تاہم ملک کے دگرگوں حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی اس پہلو پر روشنی ڈال رہے ہیں کہ میڈیا کیا کچھ دکھانے سے گریز کررہا ہے۔ روزنامہ پاکستان کے برعکس وہ الیکٹرونک اور پرنٹ دونوں طرح کے میڈیا پر تنقید کرتے ہیں۔
……..٭٭٭……..
انصار عباسی 2 اگست 2010ءکے روزنامہ جنگ میں لکھتے ہیں: ”ہر طرف تباہی و بربادی، قتل و غارت، دہشت گردی، خودکش دھماکی، فرقہ واریت، مذہبی اور لسانی شدت پسندی، کرپشن، ناانصافی، لوڈشیڈنگ، اقربا پروری، عوامی دولت کی لوٹ کھسوٹ، کرپٹ حکمران‘ بددیانت سیاستدان اور بے حس عوام نظر آتے ہیں“۔ انصار عباسی مزید لکھتے ہیں: ”ہر طرف بے ایمانی، ناانصافی، بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ حکومتی دفتروں میں چلے جائیں یا پرائیویٹ اداروں کو دیکھیں، سیاستدانوں کے رویّے کا جائزہ لیں یا سرکاری افسروں کے عوام سے سلوک پر نظر دوڑائیں، صحافت کے بڑے بڑے عَلم برداروں اور تجزیہ کاروں کا اصلی چہرہ دیکھیں یا کاروباری افراد کی ہیرا پھیریاں…. ہر طرف دھوکا، فراڈ، سفارش، رشوت ستانی اور زور زبردستی کا راج ہے۔“ میڈیا کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے انصار عباسی رقم طراز ہیں: ”اگر سیاستدانوں نے سیاست کو مال بنانے کا ذریعہ بنالیا ہے تو صحافت میں بھی کالی بھیڑوں کے کالے کرتوتوں کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔ صحافی چاہے کوئی بدفعلی کرے یا بدمعاشی، کرپشن کرے یا بلیک میلنگ، اُسے پولیس پوچھ سکتی ہے اور نہ ہی عدالت۔ صحافتی تنظیمیں ہوں یا میڈیا مالکان، سب جانتے ہیں کہ کون صحافت کو کاروبار کے طور پر استعمال کررہا ہے، کون بلیک میلر ہے، کون کس سے پیسے اور پلاٹ لے رہا ہے، مگر کوئی بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ ہم سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں اور افسر شاہی کے احتساب کی بات تو کرتے ہیں مگر اپنے احتساب کے لئے قطعی طور پر تیار نہیں۔ صحافت میں ڈاکوﺅں، لٹیروں اور بلیک میلروں کو صحافتی برادری کا حصہ ہونے کی وجہ سے کوئی چھو نہیں سکتا، اور دن بدن ایسے لوگ صحافت میں اس انداز میں پھل پھول رہے ہیں جیسے کرپٹ سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو ہم ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ بحیثیت قوم ہماری عزت ِ نفس باقی رہی اور نہ ہی ملکی خودمختاری۔ امریکی ڈرون حملوں پر کوئی آواز اُٹھتی ہے اور نہ کوئی احتجاج ہوتا ہے۔ اس کو بے غیرتی نہ کہیں تو کیا کہیں!“ ……..٭٭٭……..
29 جولائی2010ءکو ”مارگلہ کا سانحہ“ کے عنوان سے انگریزی روزنامہ ’ڈان“ کے رپورٹرز منور عظیم، سید عرفان رضا اور محمد اصغر اپنی ایک مشترکہ نیوز رپورٹ میں لکھتے ہیں: ”اسپتال توجہ کا خصوصی مرکز تھے جہاں بے آسرا لواحقین اپنے پیاروں کی (خیریت کی) خبر سننے کے لیے سخت پریشانی کی حالت میں جمع تھے۔ بدقسمتی سے میڈیا اور حکومت کی طرف سے زندہ بچ جانے والوں کے بارے میں غلط معلومات نے لواحقین کے درد و کرب میں اضافہ کیا۔“ روزنامہ ”ڈان“ اپنی30 جولائی 2010ءکے اداریے میں لکھتا ہے: ”مارگلہ پہاڑیوں میں المناک حادثے کے بعد توجہ ٹی وی نیوز چینلز کی جانب سے حادثے کی فوری کوریج کی جانب مبذول ہوئی ہے۔ فوری اتفاق اس بات پر ہے کہ اُن سنگین اور دانستہ کی گئی غلطیوں کو نہیں دوہرایا گیا جو اس سے قبل بڑے حادثات کور کرتے ہوئے کی گئی تھیں، تاہم اب بھی بہتری کی کافی گنجائش ہے…. سانس پھولے رپورٹرز کا یہ کہنا کہ وہ حادثے کے مقام سے سب سے پہلے رپورٹ کرنے والے ہیں، غیر ضروری ہے۔“ اخبار لکھتا ہے کہ اسی طرح مسافروں کی باقیات سے بھرے باڈی بیگز کے قریبی کیمرہ شاٹ لینا بھی نامناسب تھا۔ اسی طرح غمزدہ لواحقین کے چہروں کو دکھانا بھی انتہائی درجے کی معیوب بات تھی۔ اخبار کے مطابق ٹی وی چینلز کی طرف سے بغیر تحقیق کے مسافروں کے زندہ بچ جانے کی خبر غیر ذمہ داری اور بنیادی صحافتی اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔

یہ مضمون فرائیڈے اسپیشل کراچی کے آج کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ گرافیک ویو میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ شکریہ

 

3 Responses to “ذرائع ابلاغ کے وعدہ معاف گواہ”

  1. نشاندہی کا شکریہ

  2. بہت خوبصورت تحریر ہے اور جن صحافیوں نے یہ لکھا ہے انہوں نے یقیننا بہت اچھا کام کیا ہے۔ اللہ جزائے خیر دے۔

  3. آپکی پوسٹ پر ایک طویل تبصرہ تحریر کیا تھا لیکن قبل اسکے کہ میں پوسٹ پر کلک کرتا، لائٹ چلی گئی. اب وقت کی شدید قلت کی وجہ سے میں ٹھیک وہی تبصرہ دوبارہ تو نہیں کر سکتا البتہ مختصر انداز میں یہ کہ سکتا ہوں کہ
    اپکی تحریر عمدہ ہے اور تحقیق بھی اچھی ہے. اور ہاں اب اہل صحافت کو بھی تنقید سننے، برداشت کرنے اور اصطلاح کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے.

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: