Articles

اے این پی کے ہاتھوں پختون روایات کا قتل

In حقوق انسانی, دہشت گردی on اگست 23, 2010 by ابو سعد Tagged:

یہ مضمون سچائی کے علمبردار لیکن پاکستانی عوام کے جانب دار واحد پاکستانی انگریزی روزنامے "فرنٹیر پوسٹ” کے لیے لکھا گیا تھا۔ فرنٹیر پوسٹ اس وقت ظلم و جبر اور کرپشن کے خلاف جہاد میں مصروف ہے ، اخبار نے گزشتہ دنوں کراچی کے حالات پر بہت ہی بے باک اداریے لکھے۔ میں نے ذرا نسبتا سخت تحریر لکھ کر اخبار کو ارسال کردی جو تاحال نہیں چھپ سکی ہے۔ اس لیے میں نے اسے اپنے انگریزی بلاگ پر پوسٹ کردیا اور اس کا اردو ترجمہ ضروری اضافے کے ساتھ روزنامہ جسارت کو ارسال کردیا جس نے اسے آج کے ادارتی صفحے پر جگہ دے دی ۔ بلاگرز دوستوں کے لیے مضمون یہاں پیش خدمت ہے جس میں  ایم کیوایم اور اے این پی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال پاکستانیوں کے مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
………………………………..
کراچی میں باچا خان کے پیروکاروں کے طرزعمل کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے سرحدی گاندھی کی اہنسا کی تعلیمات کو کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف صدیوں پر محیط پختون روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے بلکہ اپنی پارٹی کے بانی خان عبدالغفار خان عرف باچا خان کے نظریے کو بھی دفن کردیا ہے۔
کراچی کو اس وقت ٹارگٹ کلنگ کی بلا کا سامنا ہے جبکہ اس کے رہنے والے اس خونیں کھیل کے تین بنیادی کھلاڑیوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ شہر کے دعویداروں میں متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی شامل ہیں۔ جتنا بڑا دعوے دار، اہلِ کراچی کے لیے وہ اتنا ہی بڑا عذاب۔ ان تینوں گروہوں نے اس کو اپنا حق سمجھ لیا ہے کہ اپنے کسی رہنماءیا کارکن کی ہلاکت کا انتقام اس بدقسمت شہر کے باسیوں کو خون میں نہلاکر اور ان پر زندگیاں تنگ کرکے لیں۔ جب بھی کسی گروہ کا کوئی رہنما یا کارکن مرتا ہے، کراچی میں آگ و خون کا کھیل شروع ہوجاتا ہے جس میں بیش قیمت جانوں کے ضیاع کے علاوہ شہریوں کو ان کی گاڑیوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ کئی دنوں کی اذیت اور مرنے کا خوف اس کے علاوہ ہے۔ شہری ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں۔ موت کے رقص کی سنگینی کا ادراک رکھتے ہوئے دکاندار اپنی دکانوں کے شٹر گرانے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے، اور جو اس کے برعکس کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے۔ اسی طرح گاڑیاں چلانے والے بھی سڑک سے غائب ہوجانے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ جتنی بڑی شخصیت، اہلِ کراچی کے لیے اتنا بڑا امتحان۔ لیکن اس پر تو سب لکھ رہے ہیں۔ میں ان باتوں کو اُجاگر نہیں کرنا چاہتا جن پر باقی لوگ لکھ رہے ہوں۔ لوگوں کا مرنا افسوسناک تو ہے لیکن میرے نزدیک تشویش ناک نہیں۔
مجھے جو چیز ڈرا رہی ہے وہ مخالف پارٹی سے متعلق لسانی اکائی پر حملہ ہے جو الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کا وتیرہ رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے ممبر صوبائی اسمبلی رضا حیدر کی ہلاکت کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نے اس روایت کو زندہ رکھا اور پشتو زبان بولنے والے درجنوں معصوم پختونوں کو بے دردی سے قتل کردیا جن کا عوامی نیشنل پارٹی سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ ان میں اکثر مزدور تھے جو دن بھر مشقت کرکے اپنے اور گھر والوں کے پیٹ کا دوزخ بھرتے تھے، یا پھر گلی گلی کچرا چننے والے۔ حتیٰ کہ بچوں تک کو نہیں بخشا گیا۔
اب کی بار عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے سندھ کے سالار عبیداللہ یوسف زئی کی ہلاکت پر بالکل متحدہ کی دہشت گردی کا ایکشن ری پلے شہر کراچی والوں کو دکھایا اور اردو بولنے والوں کو بلاامتیاز ہراساں کرنا شروع کردیا۔ لسانی یا سیاسی دہشت گردی افسوسناک ہے لیکن ایک چیز اور بھی افسوس ناک ہے، اور وہ ہے اہنسا کی موت…. جو کبھی باچا خان کے منجن کا ٹریڈ مارک ہوا کرتا تھا۔
ایس شیخ ایک نجی ٹی وی چینل میں ملازمت کرتے ہیں۔ عبیداللہ کے قتل کے بعد وہ تین دن تک دفتر نہیں جاسکے، کیوں کہ آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع دفتر جانے کے لیے انہیں بنارس کے باچا خان چوک سے ہوکر گزرنا پڑتا۔ جی ہاں وہی چوک جہاں سے 2بچوں کے باپ آصف اقبال نے گزرنے کی جرا¿ت کی تھی اور نتیجتاً اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔آصف اقبال کو ہنگاموں کے دوران دو دن تک کمپنی نہ جانے پر برطرفی کا الٹی میٹم ملا تھا۔ اورنگی علی گڑھ کے رہائشی ایس شیخ آصف اقبال کی طرح نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ نہیں بننا چاہتے تھے اس لیے گھر پر ٹکے رہے۔ شیخ صاحب اگرچہ اردو بولنے والے ہیں لیکن وہ عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ایک قدر مشترک رکھتے ہیں۔ اے این پی کے کارکنوں کی طرح ایم کیو ایم سے ان کی نفرت کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ پختون روایات کے بہت بڑے مداح رہے ہیں، لیکن لوگوں کی حفاظت کے ضامن پختون آج شیخ صاحب جیسے لوگوں کی زندگیوں کے لیے بھی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ یقینا تمام پختون نہیں مگر وہ جو یا تو اے این پی کے کارکن ہیں یا پھر اس جماعت کے منفی پروپیگنڈے سے گمراہ ہوچکے ہیں۔
پختون ہونے کے ناتے میرے لیے لوگوں کی جانوں کو خطرہ تشویش ناک ہے اور اس سے بڑھ کر میرے لیے فکرکی بات وہ شاندار پختون روایات ہیں جن کی موت آج پختونوں کے حقوق کے عَلم برداروں کے ہاتھوں ہورہی ہے۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پختونوں اپنے گھر آئے اپنے دشمنوں کو بھی کبھی نقصان نہیں پہنچاتے چاہے وہ جان بوجھ کر وہاں سے گزرے ہوں یا خودچل کر آئے ہوں۔ پختون قوم نے کبھی معصوم لوگوں کو قتل نہیں کیا لیکن لینڈیا مافیا پرمشتمل عوامی نیشنل پارٹی سندھ یا تو پختون تاریخ بھول گئی ہے یا پھر ایم کیوایم کی طرف سے معصوم پختونوں کے بلاامتیاز قتل عام کے فلسفہ سے متاثر ہوئی ہے جس نے اردو اسپیکنگ علاقوں میں مزدوری کرنے والے پختونوں پر زندگی تنگ کردی ہے۔
اسی طرح اب اے این پی کے حامیوں نے اردو بولنے والوں کے لیے بنارس، کٹی پہاڑی ، قصبہ سمیت دیگر کئی علاقوں سے گزرنا دشوار کردیا ہے۔اے این پی رہنما کی ہلاکت کے فوراً بعد نیوز چینلز نے اسلحہ سے لوگوں کو خوف زدہ کرنے والے این اے پی کے کارکنوں کی فوٹیج دکھانا شروع کردیے۔ ایسے میںکون ان علاقوں سے گزرنے کی ہمت کرسکے گا؟جسارت کی خبر کے مطابق اورنگی ٹاﺅن کے لاکھوں افراد کی نوکریاں داﺅ پر لگی ہوئی ہیں۔
اور روزنامہ اُمت کے مطابق اورنگی ٹاﺅن میں لوگوں نے متحدہ اور اے این پی مخالف ریلی نکالی ہے جس پر پولیس لاٹھی چارج کے نتیجے میں 20افراد زخمی ہوئے ہیں۔ پختونوں کو بھی اپنے علاقوں میں پاکستانیوں کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے والے ان دہشت گردوں کے خلاف ریلی نکالنی چاہیے۔ عام لوگوں کے مرنے سے نفرت پھیلتی ہے اور اس طرح قوم پرست جماعتوں کو ایندھن فراہم ہوتی ہے۔ کچھ کو یہ کھیل سمجھ میں آگئی ہے باقیوں کو بھی نکل آنا چاہیے تاکہ کراچی میں نفرت اور تقسیم کی سیاست کو دفن کرکے اسے دوبارہ رشنیوں کا شہر بنایا جائے۔

10 Responses to “اے این پی کے ہاتھوں پختون روایات کا قتل”

  1. ابو سعد صاحب – آپ نے بہت اچھا لکھا ہے- بےلاگ مضمون لکھنے کے لئے ہر طرح کی وابستگی کو ذہن سے نکالنا پڑتا ہے – اور یہ آسان کام نہیں – اس کے لئے لوھے کے چنے چبانا پڑتا ہے – اس مضمون میں بہتر توازن ہے- شکریہ

  2. ابو سعد میں آپ کے تجزیہ سے میں سو فیصد متفق ہوں، اورنگی ٹاون کے لوگ اس وقت سخت زہنی عزیت کا شکار ہیں کہ کراچی میں کچھ بھی ہوجائے فوری ردعمل کے طور پر اورنگی ٹاون محسور پوجاتا ہے.
    اے این پی کے بدمعاشوں نے پاچاخان چوک (بنارس) میٹرو ویل اور قصبہ کٹی پہاڑی کے داخلی راستوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور متحدہ کے دہشت گرد بے گناہ پختونوں کو قتل کرکے پختون علاقوں میں انتقام کی آگ کو مزید بھڑکاتے ہیں.
    مثال کے طور پر ہفتہ کے روز میٹرویل میں اورنگی ٹاون کے تین مہاجر نوجوانوں کو جو مشقت روزگار کیلئے نکلے تھے کو میڑوویل پر قتل کردیا گیا تھا، ان میں سے ایک کو چاکو کے بے درپے والر سے قتل کیا گیا. جس کے جواب میں چشتی نگر میں ایک پختون ٹیکسی ڈارئیور اور ایک پختون راہگیر کو قتل کردیا گیا.
    میں نے اپنے ایک مضمون "کل میرے شہر کی انتہا ہوگئی” میں اس موضوع پر لکھا ہے

  3. درندوں کے درمیان چند معصوم جانور ابھی زندہ ہیں آپ کے شہر میں۔

  4. امریکا اور بھارت سے امداد لینا زہر کھانے کے مترادف ہے، منوّر حسن

    امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے کہا ہے کہ امریکا اور بھارت سے امداد لینا زہر کھانے کے برابر ہے۔ امریکا اور بھارت بدتر ظالم اور دہشت گرد ہیں اور ظالموں کی دی ہوئی امداد میں برکت نہیں ہوتی بلکہ اس سے بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں حکومت کی جانب سے امدادی کارروائیاں برائے نام ہیں۔ آزمائش بہت بڑی ہے، سیلاب زدگان کی مدد ہمارے لئے باعث سعادت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیو لیبر کالونی حب میں الخدمت کی جانب سے لگائے گئے متاثرین کیمپ کا دورہ کے موقع پر کیا۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی کراچی محمد حسین محنتی، امیر تحصیل حب نیاز محمد، ریلیف انچارج جماعت اسلامی عبدالوہاب، محمد یونس اور دیگررہنما بھی موجود تھے۔ امیر جماعت نے 250 افراد میں امدادی سامان تقسیم کیا۔ متاثرین کے چیک اپ اور بیماری کی تشخیص کیلئے الخدمت نے ایک میڈیکل کیمپ بھی لگایا جس سے متاثرین کی ایک بڑی تعداد مستفید ہو رہی ہے۔ سید منور حسن نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے مزید کہا کہ متاثرین کے کیمپ میں پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں جس کی وجہ سے وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے اگر وبائی امراض پھیلنے لگے تو مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ آ لاکھوں کی تعداد میں ضرورت مندوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الخدمت اور جماعت اسلامی کے کارکنان جو امدادی سرگرمیاں کر رہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ کسی پر احسان نہیں کر رہے بلکہ یہ ہمارا فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ظالموں کا علاج نہیں ہوگا اور ان کے بارے میں رویوں کو درست نہیں کریں گے ان سے ہمدردی رکھیں گے اور ان کو ووٹ دیں گے اس وقت تک حالات کی بہتری عبس ہے۔ سید منور حسن نے اپیل کی ہے کہ عوام اور مخیر حضرات آگے بڑھ کر سیلاب متاثرین کی دل کھول کر امداد کریں۔

  5. سیلابی تباہی: ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی، منور حسن….

    جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منور حسن نے کہا ہے کہ سیلاب کی قیامت خیز تباہی نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے دعووٴں کی قلعی کھول دی ہے۔ سیلاب زدگان کیلئے آنے والی امداد بازار میں فروخت ہورہی ہے، الله کے غضب کو دعوت دینے والے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اصل توبہ و استغفار ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی ضلعی وسطی کے تحت اجتماعی توبہ و استغفار کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیّد منور حسن نے کہا کہ رمضان المبارک میں دن میں روزے رکھنا‘ رات میں نفل ادا کرنا اور آخری عشرے میں اعتکاف کرنا بندے کو رب سے جوڑتا ہے۔ اس مرتبہ رمضان ایسے موقع پر آیا ہے جب پاکستانی قوم سیلاب کی آفت کا شکار ہے، دور دور تک تباہی کا منظر ہے ۔

  6. جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی نے کہا ہے کہ گھناوٴنی سیاست اور غلط پالیسیوں کے نتیجے میں اورنگی کے عوام کو ظالموں اور قاتلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اورنگی ٹاوٴن کے 20لاکھ سے زائد محنت کش، مزدور طبقہ اورعوام محصور کردیے گئے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومت اورنگی ٹاوٴن کے رہائشیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لے اور ان کے مسائل کا فوری حل نکالے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اورنگی ٹاوٴن کے معززین علاقہ کے ایک نمائندہ وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔وفد میں معروف سماجی شخصیت مناظرالحسن ‘پروفیسر فیاض کریم اور الخدمت کونسلر نثار خان شامل تھے۔واضح رہے کے یہ وفد بڑی مشکات کے بعدادارہ نور حق میں امیر جماعت اسلامی تک پہنچا اور اورنگی ٹاوٴن کی حقیقی صورتحال سے آگاہ کیا۔ وفد نے بتایا کہ حالات کی کشیدگی کے باعث محنت کش طبقہ اور روزانہ کی بنیاد پر روزی کمانے والے افراد اپنے روزگار سے حروم ہو جاتے ہیں،پبلک ٹرانسپورٹ نہ چلنے سے انتہائی قابل اور ہنر مند افراد بے روزگار ہو رہے ہیں‘ وہاں کے عوام محصورو مجبور ہو کر رہ گئے ہیں اور ضروریات زندگی کی ترسیل علاقے میں ناممکن بنادی گئی ہے جس کی وجہ سے دودھ ‘دواوٴں اور دیگر ضروری چیزوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔

  7. وزیراعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی وقار مہدی نے کہا ہے کہ سندھ پر سندھیوں کا حق ہے اس لئے کراچی کے کیمپوں میں مقیم متاثرین میں سے جو بھی کراچی میں مستقل رہائش اختیار کرنا چاہے اسے حکومت کی جانب سے پلاٹ و مکان فراہم کیا جائے گا، وہ اتوار کو وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے اس موقع پر صوبائی مشیر صدیق ابو بھائی و دیگر بھی موجود تھے ۔ انہوں نے کہا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں قائم 23 کیمپوں میں 29 ہزار 147 افراد قیام پذیر ہیں تاہم ایک لاکھ لوگ بھی آئیں گے تو انہیں رہائش سمیت دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں گی
    ایک سوال پر بتایا کہ متاثرین کو حکومت کی جانب سے فی خاندان 20 ہزار روپے فراہم کئے جائیں گے جس میں سے 10 ہزار روپے صوبائی اور 10 وفاقی حکومت دے گی انہوں نے کہا کہ متاثرین کو باعزت طریقے سے رکھا جارہا ہے

  8. اسلامی پی کے کے آئی ڈی سے تبصرے کرنے والے تبصرہ نگار سے گزارش ہے کہ بلاگ کا مقصد بامقصد بحث کے ذریعے اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانا ہے۔ براہ کرم یہاں پریس ریلیزز پوسٹ کرنے سے گریز کریں الا یہ کہ وہ اس بحث سے متعلق ہوں۔

  9. با مقصدبحث؟؟؟؟؟؟
    واہ کیا خوب لطیفہ ہے،
    اپنے خود ساختہ جھوٹ کا پلندہ تجزیئے جو اخبار میں چھپ نہ سکیں انہیں بلاگ کے ذریعے بے وقوفوں کو مزید بے وقوف بنانے کے لیئے استعمال کرنا!!!!
    شہباز ایئر بیس کی جھوٹی خبر پر تو پوسٹ لکھ دی مگر اب جو دہشتگردوں کے غیر ملکی امدادی کارکنوں پر حملے کی خبر ہے اسپر سانپ سونگھ گیا ہے،
    انداذہ لگائیں کہ یہ دہشت گرد ان بے گناہ یورپینز کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں جو اس وقت ان ہی کے مصیبت میں پھنسے ہم وطنون کی مدد کے لیئے اپنے گھر کا عیش و آرام چھوڑ کر وہاں موجود ہیں جہاں ان علاقوں سے بلامقابلہ یا بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے نمائندے بھی نہیں پہنچے!!!!!
    شرم انکو مگر نہیں آتی!!!!!!!!!!!

  10. کراچی میں ہونے والی حالیہ قتل و غارت میں سب سے زیادہ افسوس ناک موت واقعی باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد کی موت ہے. یوں لگتا ہے کہ جیسے سندھ کی عوامی نیشنل پارٹی کا کوئی ربط ضبط اس کے قومی اور دیگر صوبوں کی تنظیموں کے کردار سے نہیں اور نہ ہی یہ اپنے اعلی عھدیداروں کو جواب دہ ہے . جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے، اس سے تو گلہ ہی فضول ہے کہ اس کی بنیاد ہی تشدد اور نفرت پر اٹھائی گئی تھی اور جس کے تاسیسی جلسے میں ہی قائد تحریک نے مہاجروں سے وی سی آر بیچ کر بندوقیں خریدنے کا مطالبہ کیا تھا. چند برسوں سے ایم کیو ایم نے کم از کم ظاہری طور پر خود کو ایک حقیقی سیاسی پارٹی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے مگر لگتا ہے کہ جوہری طور پر اس کا کردار اب بھی ویسا ہی ہے. رونا تو اس پارٹی کے زوال کا ہے جس کے بانی اپنے پیروکاروں سے پہلا حلف ہی تین چیزوں کا لیتے تھے کہ وہ کسی صورت میں بھی تشدد سے کام نہیں لیں گے، تعلیم حاصل کرنا اور پھیلانا اپنا مقصد اولین قرار دیں گے اور رنگ نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر انسانوں کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے. آج سندھ کی عوامی نیشنل پارٹی کو دیکھا جاے تو یہی تین چیزیں اس کی ترجیحات سے غایب ہیں اور ان کی جگہ خون ریزی، قبضے، اشتعال انگیزی, زر اندوزی اور جاگیردارانہ طرز زندگی اس کے رہنماؤں کا شناختی نشان بن چکی ہیں. حیرت کی بات یہ ہے کہ آج جو لوگ عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے کرتا دھرتا بنے پھرتے ہیں، سن نوے کی دہائی کے آخر تک ان کا نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا. اس دور کے سیاسی کارکن جن کی پر امن جد و جہد قید و بند، جلا وطنی، املاک کی ضبطی، ریاستی اور غیر ریاستی تشدد کا نشانہ بننے سے عبارت تھی، مثلا امین خٹک، قاسم جان، قادر خان، فضل کریم لالہ، شوکت خان، قاضی عثمان، شاہجہاں، عمر علی شاہ، کریم محسود، اختر مندوخیل،رب نواز، حمید وزیر، قاضی عثمان، اجمل خٹک کشر وغیرہ یا تو منظر عام سے ہٹا دیے گئے ہیں یا کسمپرسی کے عالم میں دنیا ہی سے رحلت کر چکے ہیں اور یا دلبرداشتہ ہو کر عملی سیاست سے ہی کنارہ کش ہو چکے ہیں. لے دے کر پرانے وقتوں کی ایک یادگار امیر نواب باقی ہے، سو وہ بھی داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی شمع کی مانند خاموش ہے. کچھ لوگ اس تشدد آمیز اور مجرمانہ رجحان کی دلیل یوں دیتے ہیں کہ یہ ایم کیو ایم وغیرہ کی زیادتیوں کا رد عمل ہے. ان کی نظروں سے یہ حقیقت اوجھل ہے کہ ایک سیاسی تحریک اور ایک مافیا میں یہی فرق ہوتا ہے کہ کسی بھی مجبوری کے تحت ایک حقیقی سیاسی تحریک اپنے بنیادی اخلاقی اور نظریاتی اصولوں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی. باچا خان کی سیاسی جد و جہد اس اخلاقی مضبوطی کی عکاس ہے اور یہی وجہ ہے کہ مخالفین کی تمام تر ریشہ دوانیوں کے با وجود آج بھی ان کا نام اور پیغام زندہ ہے. خدا کے قانون کے مطابق، بالآخر حق کو غالب آنا ہے اور باطل کو مٹ جانا ہے. یہ فصلی بٹیرے جو آج باچا خان کے پرچم تلے بیٹھ کرمنہ میں جھاگ بھر بھر کر تشدد کی باتیں کرتے ہیں اور اس عظیم حریت پسند اور اخلاق، عزم و ہمت کے اس کوہ گراں کی تذلیل کے مرتکب ہوتے ہیں، جلد یا بدیر پرواز کر جائیں گے اور عدم تشدد اور خدمت کی سیاست کا سورج طلوع ہو کر رہے گا. افسوس صرف اس چیز کا ہے اس عبوری دور میں نہ جانے کتنی سہاگنوں کی مانگیں اجڑیں گی اور نہ جانے کتنے بچے یتیم ہوں گے اور کتنے ہی جوانان رعنا اپنا تاباں مستقبل ان موقع پرستوں کے مذموم عزایم کی بھینٹ چڑھانے پر مجبور ہوں گے.

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: