
In فوج,پاکستان,بوسنیا,حقوق انسانی,دہشت گردی,سوات,طالبان on اگست 26, 2009 منجانب ابو سعد
بوسنیا میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں‘ قتل عام ہوا ‘ ماورائے قانوں مارا گیا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ مذمت
واجب ہے اور کی بھی گئی لیکن ایک مذہب کے لوگوں نے مسلمانوں کو مارا، ان کی نسل کشی کی ‘ مقصد بالکل واضح تھا۔ عراق میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ لاشیں ملیں سمجھ میں آنے والی بات ہے‘ ایک فرعون وقت ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غراتے ہوئے عراق پہنچا اور نسل کشی شروع کی۔ افغانستا ن پر حملے کے بعد بش نے اسے صلیبی جنگ قرار دیا۔ صلیبی کہیں جائیں گے تو لوگوں کی حفاظت اور خدمت تو نہیں کریں گے نا۔ یہاں بھی اجتماعی قبروں کا دریافت ہونا قابل فہم ہے۔ ہاں مذمت ہونی چاہیے لیکن کر کچھ نہیں سکتے۔ دشمن حملہ کرکے کر بھی کیا سکتا ہے۔ یہ کوئی اسکاٹ کی فلم ’’کنگ ڈم آف دی ہیون ‘‘ تو ہے نہیں جس میں صلیبی بلین کو امن کا داعی دکھایا جائے گا۔ بھئی یہ حقیقی زندگی ہے۔ پس بوسنیا ‘ عراق اور افغانستان میں اجتماعی قبریں کھلے دشمن کا کھلا کام ہے۔ لیکن یہ سوات میں اجتماعی قبریں۔ یہ کیا ہے؟
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق سوات کے کئی شہریوں نے علاقے میں اجتماعی قبریں دیکھنے کی اطلاع دی ہے۔
پاکستان میں سکیورٹی حکام نے مالاکنڈ آپریشن کے آغاز کے وقت فوجیوں کو عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن اب حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ اسے ماورائے عدالت ہلاکتوں اور اجتماعی قبروں کے شواہد ملے ہیں۔ (بی بی سی)
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے حقائق جاننے کے لیے تین روزہ دورے پر بھیجے گئے ایک وفد نے سوات میں شہری آبادی کی مشکلات کے تسلسل کی شکایت بھی کی ہے۔
کمیشن کے مطابق سوات کے کئی شہریوں نے علاقے میں اجتماعی قبریں دیکھنے کی اطلاع دی ہے۔ ان میں سے ایک بابوزئی تحصیل کے کوکرائے گاؤں میں اور دوسری کبل تحصیل کے دیولائی اور شاہ ڈھیری کے درمیان شامل ہیں۔ عینی شاہدین کا جنہوں نے تدفین دیکھی ہے دعویٰ ہے کہ دفنائے جانے والوں میں بعض طالبان شدت پسند بھی تھے۔
کمیشن نے اس ’قابل تشویش پیش رفت‘ کے علاوہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے ماورائے عدالت ہلاکتوں پر خوف و خدشے کا اظہار کیا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ آپریشن کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سکیورٹی فورسز طالبان کے مرتکب مظالم سے دور رہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں فوجی کارروائی کے دوران مبینہ طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کی کثیرالجماعتی پارلیمانی کمیٹی اور سول سوسائٹی کی مدد سے آزاد تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایچ آر سی پی کے علاقہ جماعت اسلامی نے اجتماعی قبروں کے معاملے پر آواز اُٹھائی ہے اور اس کے امیر سید منور حسن نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن یہاں ایک سوال اُٹھتا ہے۔ کیا آج تک تحقیقات کے ذریعے مظلوموں کو انصاف فراہم کیا جاسکا ہے۔ جس ملک کے پہلے وزیر اعظم سے لے کر سابق وزیر اعظم سمیت کئی سیاسی ‘ سرکاری اور غیر سرکاری افسران کے قاتلوں کو نہیں پکڑا جاسکا ہو وہاں اہل سوات کے ساتھ انصاف کیا جاسکے گا۔ کیا اجتماعی قبروں اور سوات میں فوجی آپریشن کے دوران اندوہناک قتل عام کی تحقیقات کی جاسکیں گی؟ جس عجلت میں بغیر کسی نوٹس کے آپریشن شروع کیا گیا اس کے بعد تو ایسے ہونا ہی تھا۔ بلکہ یہ خبریں تو آپریشن کے دوران ہی آرہی تھیں۔ جو لوگ سوات اور بونیر میں پھنس گئے تھے اور بعد میں آپریشن کے دوران وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہونے والوں نے بھی بڑی تعداد میں لاشوں کی خبر دی تھی۔ راقم السطور نے بونیر سے تعلق رکھنے والے صحافی نیاز کے علاوہ مٹہ سے تعلق رکھنے والے سابقہ یونیورسٹی فیلو ارشاد سے گفتگو کی تو انہوں نے بھی ویسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا وزارت اطلاعات کے فنڈز پر نظر رکھنے اور اس میں زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کی کوششوں کی بجائے سوات سے غیر جانب دارانہ رپورٹنگ کے ذریعے کم از کم قوم کو تو حقائق آگا ہ کردے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا میڈیا حقیقی ایشو کو چھپانے کے لیے خودساختہ بحرانوں پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ سمیت بہت سے تجزیہ نگار بھی آپریشن ’راہِ راست‘ کو کام یاب قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ فضل اللہ اور مسلم خان اپنی جگہ موجود ہیں ‘ آپریشن نے قوم کو ان کی لاشیں تو نہیں دیں البتہ معصوم اہل سوات و بونیر کی اجتماعی قبریں دے دیں۔ اس قوم کے پاس ہر چیز تھی۔ کیا نہیں ہے اس ملک بس کمی تھی تو اجتماعی قبروں کی۔ ’راہ راست‘ نے یہ اجتماعی قبریں‘ براہ راست قوم کو دے دیں اب کیا ہوا اگر فضل اللہ اینڈ کمپنی کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ بعید نہیں کہ وہ بھی ان کے ساتھ محفوظ مقام پر نکل گئے ہوں جن کے یہ ساتھی تھے۔