Archive for the ‘بین الاقوامی تعلقات’ Category
مزاحمت کاروں کی مار سے حواس باختہ جنرلوں کی توپوں کا رخ وائٹ ہاﺅس کی طرف
افغانستان کی معدنی دولت پر منڈلاتے گدھ، معدنیات کی لوٹ مار میں افغان مزاحمت کار اصل رکاوٹ بن کر سامنے موجود ہیں
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں استعارے کے طور پر افغانستان میں وسیع معدنی ذخائر کے سبب اسے ”لیتھیم کا سعودی عرب“ کہہ کر افغان عوام کو گولی دینے کی کوشش کی گئی کہ ان معدنیات کی لوٹ مار سے ان کی قسمت بدل جائے گی اور وہ سعودیوں جیسے یا ان سے بھی زیادہ خوشحال ہوجائیں گے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے گزشتہ سال کے اواخر میں کہا تھا کہ امن قائم ہوجائے تو یہ معدنی ذخائر افغانستان کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل کردیں گے۔ جبکہ افغان وزارت صنعت و معدنیات کے ترجمان جاوید عمر کہتے ہیں کہ افغانستان میں قدرت کے یہ تحفے ملکی معیشت کو ترقی و کامرانی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔کیا افغانستان واقعی ترقی وکامرانی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا؟ اس تاثر کے درست یا غلط ہونے کے لیے اِسے مختلف تناظر سے دیکھنا ہوگا۔ کسی بھی ملک میں معدنی ذخائر کو صحیح انداز میں نکالنے کے لیے سب سے پہلے لاجسٹک سپورٹ یعنی سڑکوں ‘گاڑیوں‘ گاڑیوں کے فلنگ اسٹیشنوں، مرمت کی ورکشاپس اور ریلوے ٹریک وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔دوئم، بڑی مقدار میں بہتا پانی‘ جو دھاتوں کو صاف کرنے کے لیے درکار ہوتاہے۔ اورسوئم، مناسب اور قابلِ اعتبار بجلی کی مناسب مقدار۔ کیا یہ سب چیزیں افغانستان میں ہیں؟ ان بنیادی لوازمات کی فراہمی کے لیے کتنی رقم درکار ہوگی؟ سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں سے اکثر کا جواب یقیناً ’نہیں‘ میں ہے۔ان لوازمات کے علاوہ جو اہم چیز درکار ہوتی ہے وہ ہے اپنے عوام سے مخلص حکومت اور حکمران‘ جو ملک کے ذخائر کو عوام کی خوشحالی کا ذریعہ بنائیں اور ان سے حاصل ہونے والی رقوم امریکا اور یورپ میں موجود اپنے بینک اکاﺅنٹس میں منتقل نہ کریں۔ لیکن یہاں تو صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ کرزئی کی مرکزی حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں جبکہ انتظامی وفاقی اکائیوں کے نام پر عوام پر مسلط غنڈوں کو عوامی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں۔ امن وامان کی صورت حال خراب ترین ہے جبکہ امریکی فوجی سخت فرسٹریشن کا شکار ہوکر آئے روز معصوم افغانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ کرزئی حکومت کا کرپشن میں ملوث ہونا تو یقینی ہے ہی‘ اس میں کرپشن کو روکنے کی اہلیت بھی نہیں ہے۔اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معدنی وسائل ہی کسی ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں افریقی ملک نائیجیریا کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں تیل کی وافر دولت کے باوجود بدامنی اور غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔گیانا میں تیل کے ذخائر نے اس چھوٹے سے ملک کے صدر کو تو اُس کی سوچ سے زیادہ مالدار بنادیا لیکن عوام آج تک ابتر زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح کانگو کے عوام بھی آج بیشتر مغربی ممالک کے عوام سے زیادہ خوشحال ہونے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بولیویا لیتھیم سے مالامال ہے‘ لیکن یہ آج بھی لاطینی امریکا کا غریب ترین ملک ہے‘ دنیا بھر میں ہیرے (ڈائمنڈ) کے سب زیادہ ذخائر نمیبیا میں ہیں لیکن اس ملک کے عوام کی حالت قابل قدر نہیں ہے۔معدنی وسائل سے مالامال ان ممالک کا تجزیہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کسی ملک کی معدنیات عوام الناس کی فلاح و بہبود اور ان کے طرزِ زندگی کی بہتری کا ذریعہ بنتی ہیں یا اس سے ملک کی اشرافیہ اور ان کے بین الاقوامی غاصب دوست فائدہ اٹھاتے ہیں؟ یہ سوال خود اپنے اندر جواب رکھتا ہے جو ہمیں ’معدنی ذخائر سے مالامال افغانستان‘ کے اچانک نمودار ہونے کے اس سارے قصے کے پیچھے کارفرما عزائم کا پتا دیتا نظر آتا ہے۔ افغانستان کے پاس اگر وسیع معدنی ذخائر ہیں تو اس کے مسائل نائیجیریا‘ کانگو‘ بولیویا اور نمیبیا سے مختلف نہیں ہیں۔ اس بریکنگ نیوز کی تفصیلات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس سے افغانوں کو روزگار مہیا ہوگا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا روزگار ہوگا؟ کھربوں ڈالرز کے ذخائر کے مالک افغان عوام میں سے اگر چند لاکھ کو بھی روزگارکے نام پر مزدوری اور مشقت کی بھیک دے دی جائے تو کیا یہ ان کے دل جیتنے کی کوشش قرار دی جاسکتی ہے؟ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو‘ جن پر امریکا کی اجارہ داری ہے، ان ممالک سے محبت ہوتی ہے جہاں معدنی ذخائر تو وسیع پیمانے پر ہوں لیکن وہاں کے عوام اَن پڑھ ہوں تاکہ پروجیکٹس سے حاصل ہونے والی رقوم کا بڑا حصہ وہ اپنی ماہرانہ خدمات کے ’صلے‘ میں اپنے ملکوں میں لے جائیں۔افغان وزیر برائے معدنیات اور کان کنی وحید اللہ شاہرانی کے بقول ان معدنیات کو زمین سے نکالنے کے لیے حکومتی کوششیں اسی سال کے آخر تک شروع ہوجائیں گی۔ شاہرانی کے بقول افغان حکومت 25 جون کو لندن میں ایک روڈ شو کا اہتمام کررہی ہے، جس میں کان کنی کے شعبے میں اپنی مہارت اور وسائل کی نمائش کے لیے دنیا بھر کی 200 سے زائد کمپنیوں کو مدعو کیا جائے گا۔افغان حکام کی توقعات اپنی جگہ، لیکن افغان عوام کی حقیقی ترجمانی کرنے والے مزاحمت کار اپنی قومی دولت کو لندن کے روڈ شو میں نیلام نہیں ہونے دیں گے، جبکہ نیلامی سے حاصل ہونے والی تھوڑی بہت رقم افغان عوام کی فلاح و بہبود پر صرف ہونے کے بجائے کٹھ پتلی حکمرانوں کی جیبوں میں چلے جانے کا بھی سو فیصد امکان ہے۔اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ ابھی ان معدنیات سے مالامال علاقوں کی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے جن کا انکشاف نیویارک ٹائمز نے کیا ہے، تاہم یہ بات معلوم ہے کہ زیادہ تر معدنیات افغانستان کے اُن حصوں میں پائی جاتی ہیں جہاں عملاً مزاحمت کاروں کا کنٹرول ہے۔
واشنگٹن مذاکرات: کیا جنرل کیانی انگریزوں کے لیے افغانوں سے ابدالی کا بدلہ لینے پر آمادہ ہوئے?
زیر نظر عنوان تلخابہ کا ہے۔ صاحب مضمون نے اس کا عنوان "دیکھیے اس بھر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا” رکھا ہے۔
…………………………………………………………..
پاکستان اور امریکا کے تزویراتی (اسٹریٹجک) مذاکرات ختم ہوگئے۔ امریکا نے دامِ تزویر بچھا دیا۔ واشنگٹن میں تین دن تک خوب موج، میلے رہے اور اطلاعات کے مطابق ہمارے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے میلہ لوٹ لیا، باقی سول حکام موج کرتے رہ گئے۔ جانے ان مذاکرات کو اسٹریٹجی کا نام کیوں دیا گیا۔ لغت میں تو اس کا مطلب صف آرائی کی فوجی سائنس یا فن حرب ہے، حکمت عملی بھی ہے لیکن اس اصطلاح کا بنیادی تعلق فوج اور لڑائی بھڑائی سے ہے، شاید اسی لیے مذاکرات کی کمان جنرل صاحب کے ہاتھ میں رہی۔
پاک فوج’’ دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ ہے‘ نیوز ویک
مجاہدین یا بیوائیں؟
شاہنواز فاروقی
اسلام میں شہادت کی عظمت یہ ہے کہ خود سردارِ انبیاءحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی آرزو کی ہے۔ شہادت کی اس عظمت سے جہاد اور مجاہد کی عظمت نمودار ہوتی ہے۔ مجاہد کی عظمت بیان کرتے ہوئے اقبال نے کیا خوب کہا ہے ۔
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
اقبال کے ان شعروں میں مجاہدوں کی ”پراسراریت“ یہ ہے کہ اگرچہ وہ زمین پر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں مگر ان کا تعلق زمین سے زیادہ آسمان کے ساتھ ہے۔ وہ انسان ہیں مگر فرشتوں سے بہتر ہیں۔ ان کے ذوق خدائی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جو ارادہ کرلیتے ہیں وہ پورا ہوکر رہتا ہے۔ وہ صحراﺅں اور دریاﺅں پر حکم چلاتے ہیں اور پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی بن جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ شاعرانہ باتیں ہیں۔ بھلا انسان کی ہیبت سے کبھی پہاڑ بھی رائی بنتے ہیں! مگر ہم دیکھ چکے کہ مجاہدین نے ہماری آنکھوں کے سامنے ”سوویت یونین“ کو محدود کرکے صرف ”روس“ بنا دیا۔ یہی پہاڑ کو رائی بنانے کا عمل ہے۔ کیا آپ کو محسوس نہیں ہورہا ہے کہ افغانستان میں امریکا ”سپرپاور“ نہیں ہے، صرف ایک عام ملک ہے۔ یہ پہاڑ کو رائی بنانے کی ایک اور مثال ہے۔ لیکن ایک جانب مجاہدین کا یہ عظیم تصور ہے اور دوسری جانب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا تصورِ مجاہد۔ لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کا تصورِ مجاہد کیا ہے؟ آئیے نصرت مرزا کی زبان سے سنتے ہیں جنہوں نے ۱۱فروری ۰۱۰۲ءکے روز جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا ہے:
”نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکی پاکستان میں جہادی تنظیموں پر کریک ڈاﺅن کے لیے دباﺅ ڈال رہے تھے…. آئی ایس آئی چیف نے امریکی نمائندوں خصوصاً رچرڈ آرمٹیج کو سمجھایا کہ ایک دم کریک ڈاﺅن سے شدید ردعمل ہوگا، ان کا آہستہ آہستہ سمجھایا جاسکتا ہے…. ظاہر ہے تنظیمیں ایک مقصد کے لیے کھڑی کی جاتی ہیں۔ انہیں کسی مشین کی طرح کھول کر رکھا نہیں جا سکتا۔ وہ انسانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان کو ایک دفعہ چارج کرکے ڈسچارج کرنے کے لیے وقت اور دوسری تھیوری دینے کی ضرورت ہوتی ہے…. پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کافی حد تک (جہادی تنظیموں کی پیدا کردہ) صورت ِحال پر قابو پالیا ہے اور بہت سے سوراخ بند کردیئے ہیں۔ باقی بچے ہوئے سوراخوں پر سیسہ ڈال کر انہیں بند کررہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ…. وہ ایسی حکمت ِعملی وضع کرے جو ان تنظیموں کو عزت و احترام کے ساتھ معاشرے میں بسائے اور وہ ان کی طاقت کو مثبت کاموں میں لگانے کی کوشش کرے۔“
ان سطور کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ مجاہدین کو کرائے کے فوجی اور بھاڑے کے ٹٹو سمجھتی ہے جنہیں جب چاہے کام پر رکھا اور جب چاہے ”جاب“ سے برطرف کیا جا سکتا ہے۔ ان سطور سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے لیے جہاد کوئی ”عقیدہ“ نہیں ہے بلکہ ایک ”تھیوری“ ہے جو امریکا کی ہدایت پر لپیٹ کر رکھی جاسکتی ہے اور اس کی جگہ کوئی نئی ”تھیوری“ وضع کی جاسکتی ہے۔ لکھنے کو تو نصرت مرزا صاحب نے یہ لکھا ہے کہ انسان مشین نہیں ہوتے، لیکن عملاً دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ہماری ایجنسیاں مجاہدین کو انسان کے بجائے ”روبوٹس“ سمجھتی ہیں جن میں جب چاہے جہاد کا ”پروگرام“ داخل کیا جاسکتا ہے اور جب چاہے کوئی اور تھیوری ”فیڈ“ کی جاسکتی ہے۔ جہادی تنظیموں کو معاشرے میں عزت کے ساتھ بسانے کے تصور سے خیال آتا ہے کہ جیسے جہادی تنظیمیں ”بیوائیں“ ہیں۔ چونکہ ان کا پہلا شوہر مرگیا ہے اس لیے اب ”ذمہ داروں“ کو ان کی دوسری شادی کی فکر ہے تاکہ وہ معاشرے میں نصرت مرزا کے الفاظ میں باعزت طریقے سے رہ سکیں۔ اس تجزیے کو دیکھا جائے تو اس میں نہ قرآن کے تصورِ جہاد اور تصورِ مجاہد کا کوئی پاس ہے، نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا کوئی احترام ہے۔ اس تجزیے میں صرف ایک چیز اہم ہے‘ دنیا اور اس کا (بھی) پست تصور۔ مگر سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مجاہدین کے بارے میں جو کچھ سمجھتی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟
زندگی کا اصول ہے کہ انسان جیسا خود ہوتا ہے دوسروں کو بھی ویسا ہی تصور کرتا ہے۔ بے ایمان انسان کو ساری دنیا بے ایمان نظر آتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چونکہ خود کرائے کی فوجی ہے اس لیے وہ مجاہدین کو بھی کرائے کا فوجی سمجھتی ہے۔ چونکہ اس کا کوئی ”مستقل“ عقیدہ نہیں اس لیے اس کا خیال ہے کہ مجاہدین کے لیے بھی جہاد کو مستقل عقیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے نزدیک جہاد ایک فوجی حربہ ہے اور بس۔ اور فوجی حربے کو کسی بھی وقت بدلا جا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ ذہنیت اسلام اور فکر ِاقبال کی ضد ہے، اس سے جہادی عناصر ہی کیا، صاحب ِعزت سیکولر فرد میں بھی شدید ردعمل پیدا ہو سکتا ہے۔
انسانی تاریخ میں کیسے کیسے باطل نظریات ابھرے ہیں مگر ان کے ماننے والوں نے ہر قیمت پر ان باطل نظریات کو سینے سے لگائے رکھا ہے۔ کسی کو سوشلزم سے محبت تھی اور اس نے سوشلزم کے ساتھ ستّر سال گزار دئیے۔ کسی کو سیکولر ازم سے اُنس ہے تو وہ ایک صدی سے اس کے ساتھ زندہ ہے۔ دنیا میں کروڑوں انسان ہیں جو خود کو قوم پرست کہتے ہیں اور وہ کسی قیمت پر قوم پرستی سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن ایک ہم ہیں، ہمارے پاس ”حق“ ہے مگر امریکا کا دباﺅ آجائے تو ہم اپنے حق کو بھی بدل ڈالتے ہیں۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟؟
ایک اطلاع
شاہ نواز فاروقی
امتِ مسلمہ کے پاس جو ”اطلاع“ ہے، وہ اطلاع امریکا کے پاس ہوتی تو اس سے اب تک پانچ سو گھنٹے کی ”ٹیلی نیوز“ برآمد ہوچکی ہوتیں، اس کے حوالے سے دوہزار چھوٹے بڑے مذاکرے نشر ہوچکے ہوتی، ممتاز شخصیات کے ایک ہزار انٹرویوز نشر ہوکر ناظرین کے حافظے کا حصہ بن چکے ہوتی، چھوٹی بڑی دوسو دستاویزی فلمیں تخلیق ہوچکی ہوتیں، ہالی ووڈ میں پانچ چھ بڑے بجٹ کی فیچر فلموں پرکام جاری ہوتا۔ لیکن امتِ مسلمہ کے پاس اطلاع کیا ہی؟ عزیزانِ گرامی قدر! صرف یہ کہ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو مجاہدین نے شکست دے دی ہے۔ یہ ایک تاریخ ساز اطلاع ہے۔ کبھی امریکا کے پاس ایسی ہی تاریخ ساز اطلاع تھی۔ امریکا کو معلوم ہوگیا تھا کہ مجاہدین نے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دے دی ہے۔ اس ایک اطلاع پر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے خبروں‘ تبصروں‘ تجزیوں‘ انٹرویوز‘ دستاویزی اور فیچر فلموں کے کارخانے نہیں ملیں لگالی تھیں۔ ابلاغ کا عمل اسی کا نام ہے۔ مگر امتِ مسلمہ کا معاملہ عجیب ہے۔ اس کے پاس تاریخ ساز اطلاع ہے لیکن اس سے کچھ اور کیا اخبار کی ایک شہ سرخی بھی تخلیق نہیں ہو پارہی۔ یہ ہماری اطلاعاتی عسرت اور ابلاغی غربت کی انتہا ہے۔ اس دائرے میں پوری امتِ مسلمہ بلاشبہ ”خطِ غربت“ سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں تو ٹھیک طرح سے اپنی خوشی منانی بھی نہیں آتی۔ مگر اس کی وجہ کیا ہی؟بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ وسائل کی قلت ہے۔ لیکن مسئلہ وسائل کی قلت نہیں، ترجیحات کا درست تعین ہے۔ مسلم معاشروں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مسجد اور مدرسے کی تعمیر کے لیے آپ کو کروڑوں روپے دے سکتے ہیں، لیکن آپ اُن سے کہیں کہ ہمیں ایک ٹیلی ویژن چینل شروع کرنا ہی، تو اس منصوبے کے لیے وہ آپ کو دس روپے بھی نہیں دیں گی، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی دینی کام نہیں ہے۔ اُن کے ایسا سمجھنے کی ایک وجہ ٹیلی ویژن کا عام تصور ہے۔ ٹیلی ویژن کو عام طور پر فسخ وفجور پھیلانے کا آلہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ رائے سازی کی جنگ میں ٹیلی ویژن سب سے بڑے ذریعے کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ کروڑوں لوگوں کے لیے جو کچھ ٹیلی ویژن اسکرین پر ہے وہی حقیقت ہی، اور جو کچھ ٹیلی ویژن پر نہیں ہے اس کا یا تو وجود ہی نہیں، یا ہے تو اس کی اہمیت نہیں۔ ٹیلی ویژن کی یہ اہمیت افسوس ناک ہی، مگر امر واقع یہی ہے۔رائے سازی کے سلسلے میں ٹیلی ویژن کی اہمیت کی ایک اچھی مثال ”الجزیرہ“ ہے۔ مشرق وسطیٰ بادشاہوں اور آمروں کی سرزمین ہے۔ وہاں سیاسی رائے تخلیق کرنا اور عرب عوام کو بیدار و متحرک کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن الجزیرہ نے یہ کام کردکھایا۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ الجزیرہ نے یہ کام کس طرح کیا؟ مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کی ”تفصیلات“ دکھاکر۔ مگر یہاں تفصیلات کا مفہوم کیا ہی؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ الجزیرہ نے صرف اسرائیل کی بمباری‘گولہ باری اور حملے ہی رپورٹ نہیں کیی، بلکہ اس نے ان حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انسانی صورت حال کو بھی رپورٹ کیا۔ مثلاً یہ کہ جس گھرانے کے لوگ شہید ہوئے اس گھرانے پرکیا گزری؟ وہاں کس طرح گریہ و زاری کی گئی؟ اس گھرکی معاش کا کیا ہوا؟ بچوں کی تعلیم کا کیا ہوا؟ یہ تفصیلات ہمیشہ سے موجود تھیں مگر کبھی رپورٹ نہیں ہوتی تھیں۔ الجزیرہ نے انہیں رپورٹ کرکے اسرائیل ہی نہیں امریکا کے خلاف بھی عرب دنیا میں زبردست ردعمل پیدا کیا۔ ہم اطلاعاتی عسرت اور ابلاغی غربت کے مارے ہوئے نہ ہوتے تو امریکا کی شکست کا کامل ابلاغ امتِ مسلمہ کی نفسیات کو کچھ سے کچھ بناسکتا تھا۔ امتِ مسلمہ مغرب کے حوالے سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہی، اسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں، جوکچھ ہے مغرب کے پاس ہے۔ لیکن جو امت 20 سال میں دوسپر پاورزکو شکست سے دوچار کردے وہ معمولی امت تو نہیں ہوسکتی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا اور مجاہدین کا معرکہ برپا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ افغانستان میں ایک جانب ایمان اور ٹیکنالوجی کا معرکہ برپا ہے اور دوسری جانب شوقِ شہادت اور عسکری طاقت کی پنجہ آزمائی ہورہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان معرکوں میں ایمان کو ٹیکنالوجی پر اورشوقِ شہادت کو عسکری طاقت پر فتح حاصل ہوگئی ہے۔ مگر یہ اطلاع امتِ مسلمہ تک کیسے پہنچی؟
ایران پاکستان کا دوست یا دشمن؟
’’ایران ہمیشہ پاکستان مخالف کارروائیوں میں ملوث رہا ہے، زاہدان اور چہار باغ میں ’’را‘‘کے اڈوں سے ہمارے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اکہتر کی جنگ کے دوران بلوچستان پر قبضے کی دھمکی دی تھی۔ ایٹمی ہتھیاروں کے معاملے میں بھارت کے مشورے ہر پاکستان کو پھنسوایا تھا، سابق سفارت کار ڈاکٹر نذیر ذاکر‘‘یہ آج روزنامہ امت کراچی کے صفحہ چھ پرشائع ہوئے ایک انٹرویو کی سرخی اور ذیلی سرخیوں کے الفاظ ہیں۔ (پورا انٹرویو پڑھنے کے یہاں کلک کریں)۔
کچھ تین برس قبل ایران کے قومی تقریبات میں شرکت کرکے واپس آنے والے ایک دانشور نے ایک نجی محفل میں جب ایران کو پاکستان کے لیے انڈیا سے زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا تو یہ بات مجھ سے ہضم نہیں ہوئی لیکن مذکورہ دانشور نہ صرف یہ کہ ایران کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوئے پائے گئے تھے بلکہ وہ اپنے مضامین اور کالموں کے سبب ان کا شمار ایران کے حمایتیوں میں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں نے ان کی اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
تاہم ۱۹ستمبر کو ایران کے صوبہ سیستان میں خودکش حملے میں پاسداران انقلاب کے کئی اعلیٰ کمانڈروں سمیت ۵۰ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس المناک حادثے کے بعد ایران کے ردعمل نے مجھ تین برس قبل اس دانشور کی بات یاد دلادی۔ حیرت انگیز طورپر ایران نے برطانیہ اور امریکا پر بھی الزام لگایا۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ پاکستان کو آخر ایران میں دھماکے سے کیا فائدہ پہنچتا ہے اور اگر ایران کے پاس پاکستان کے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اندر کچھ عناصر کے اس واقعہ میں ملوث ہونے کے ثبوت تھے بھی تو اس نے بیان بازی کے بجائے حکومت پاکستان سے شیئر کیوں نہیں کیے۔ اس نے بھارت والا طرز عمل کیوں نہ اپنا یا؟ آخر بھارت اور ایران میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران ریاست پاکستان کو بحیثیت مجموعی اپنا دشمن سمجھ کر اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے؟
اس افسوس ناک واقعہ جس میں ۵۰ سے زائد ایرانیوں کی جانیں چلی گئیں کے صرف پانچ دن بعد ایران نے بھارتی طرز عمل اپناتے ہوئے پانچ پاکستانیوں کی لاشیں پاکستان بھیج دی اور دعویٰ کیا کہ یہ سیستان دھماکے میں جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ حقائق اس دعویٰ کو جھٹلاتے نظر آتے ہیں۔
رونامہ امت کے مطابق
ایران نے پانچ پاکستانیوں کی میتیں حوالے کردیں، تشدد کے نشانات ، تمام افراد خودکش حملے میں مرے، ایران کا دعویٰ ۔ بم دھماکہ نہیں تشدد کے نشانات ہیں۔ پاکستانی حکام۔ گرفتاری کے بعد ہلاک کیا گیا، ورثا۔ خبر کی تفصیل کے مطابق ایرانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ تمام افراد سیستان میں ہونے والے خودکش حملے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر زاہد شاہ کے مطابق میتیوں کے ابتدائی طبی معائنے سے کسی مرنے والے کے جسم پر بم دھماکے کے زخموں کے نشانات نہیں۔ مقامی پولیس انسپکٹر عابدعلی کا کہنا ہے کہ پانچوں کے جسموں پر تشدد کے نشانات ہیں ۔ ۲ لاشوں کے کانوں سے خون نکل رہا تھا۔ ورثا نے الزام عائد کیا ہے کہ تمام افراد گرفتار کرکے ہلاک کیے گئے۔( پوری خبر کے لیے یہاں کلک کریں)