ایک مدت سےمیری ماں نہیں سوئی تابش
میں نےاک بار کہا تھا مجھےڈر لگتا ہے
اس شعر کی تصویر میری ماں طویل عرصےتک کالےیرقان کی بیماری سےبہادری کےساتھ لڑتےہوئے5دسمبر2010ءکو منوں مٹی اوڑھ کر سوگئیں۔ کوئی 2سال قبل ہپاٹائٹس سی کی تشخیص ہوئی تو وہ اس اسٹیج تک پہنچ چکا تھا جس میں انٹرفیرون تھراپی ممکن نہیں تھی۔ تب سےمستقل علاج جاری تھا۔ انٹی بائیوٹیک دوائیں چہرےکارنگ اُڑا دیتی ہیں جبکہ خود جگر کی یہ ہلاکت خیز بیماری بھی چہرےکی سرخی چھین لیتی ہےلیکن انتقال سے2دن قبل جس طرح ان کی اصل رنگت نمودار ہونےلگی تو ہمیں اُمید ہوئی کہ شاید وہ بہتر ہونےلگی ہیں۔ لیکن ربّ کےحضور ان کی پیشی کےدن قریب آرہےتھے۔ دنیا سےرخصتی کےدن ‘5دسمبر کی صبح ان کا چہرہ روشن تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ابدی نہیں بلکہ معمول کی نیند سورہی ہیں۔ان للہ و انا الیہ راجعون!۔
ان کی تین بہووئیں ‘چار نندیں اور کئی ایک ایسےرشتےبھی تھےجن سےزندگی میں اگر کوئی چپقلش ہوتی تو کوئی حیرانی کی بات نہ ہوتی۔ لیکن میں نےاپنی ماں کےلیےان کی زندگی میں کوئی منفی تبصرہ سنا اور نہ ہی دنیا سےرخصت ہونےکےبعد!۔
میں اپنی زندگی کےآخری بارہ سالوں کےایک بڑےحصےمیں ان سےدور رہا لیکن چودہ‘ پندرہ سو کلومیٹر کا فاصلہ مجھے‘ان سےدور تو رکھ سکا لیکن ان کی دعاوں اور میرےدرمیان رکاوٹ نہیں بن سکا۔
ماں کےسونےکےبعدسےمیں ڈرنےلگا لیکن پرسوں تعزیت کےلیےآئےایک بزرگ کےان الفاظ نےتو مجھےجیسےہلا کر رکھ دیا۔ انہوں میرےکندھےپر ہاتھ رکھ کر کہا’ بیٹا اب ذرا سنبھل کر! وہ نہیں رہیں جن کی دعائوں کی بدولت بلائیں ٹلتی تھیں۔
”ماں“ دنیا کا واحد بےغرض رشتہ!جو صرف دینا جانتی ہے۔ ”ماں“پیار کا سمندر جہاں دنیا بھرکےہاتھوں نفرت کےماروں کی پیاس بجھ جاتی ہے۔ ”ماں“ ایک گھنا چھائوں جہاں دنیا کی دھوپ کےمارےسستاتےہیں ‘ آرام کرتےہیں۔”ماں“ بلاوں کےسامنےڈھال ! ماں کیا کچھ نہیں لیکن ہمیں اس عظیم شخصیت کےجانےکےبعد ہی کیوں احساس ہوتا ہے؟میں نیک بن کر ماں کےلیےصدقہ جاریہ بن سکتا ہوں‘اللہ مجھےتوفیق دےلیکن جن کی مائیں حیات ہیں وہ ان کو صرف محبت بھری نظر سےدیکھ کر جنت پاسکتےہیں ‘ بتائیےجو خدمت بھی کرلےگا وہ تو کیا کچھ نہیں پائےگا۔
اللہ تعالیٰ میری ماں سمیت دنیائےفانی سےکوچ کرنےوالی ماوں کو جنت الفردس میں اعلیٰ مقام عطا فرما! ہمیں نیک بنا اور جن کی مائیں حیات ہیں ان کو تادیر اپنےبچوں کےلیےچھائوں اور ڈھال بنا۔ آمین۔
ایک نظم ماں کے نام
موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں
فکر میں بچوں کی کچھ اسطرح گھل جاتی ہے ماں
نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں
اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن
چاہتوں کا پیرہن بچوں کو پہناتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
اپنے پہلو میں لٹا کر اور طوطے کی طرح
اللہ اللہ ہم کو رٹواتی ہے ماں
گھر سے جب بھی دور جاتا ہے کوئی نور نظر
ہاتھ میں قرآن لے کر در پہ آجاتی ہے ماں
دے کے بچوں کو ضمانت میں رضائے پاک کی
پیچھے پیچھے سر جھکائے دور تک جاتی ہے ماں
لوٹ کے جب بھی سفر سے گھر آتے ہیں ہم
ڈال کے بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں
وقت آخر ہے اگر پردیس میں نور نظر
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں
سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو
ذندگی بھر کا صلہ اک فاتحہ پاتی ہے ماں
(ماخذ۔ پاک لنکس ڈاٹ کام۔ بشکریہ علی عامر)
انتہائی دکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی جارہی ہے کہ ہمارے ہردلعزیز بلاگر ساتھی ابوشامل ( فہد کیہر ) کے والد محترم آج شام 5 بجے رضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے۔ مرحوم کی نماز جنازہ کل صبح جامعہ مسجد ملیر ہومز میں ادا کی جائے گی۔ ہماری اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ابوشامل اور ان کے گھر والوں کو صبر جمیل اور ان کے والد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
اسرائیل کے خلاف لب کشائی کا ”سنگین“ جرم
وائٹ ہاﺅس کی دیرینہ خاتون صحافی بے دخل
ہیلن تھامس کی وائٹ ہاﺅس سے57سالہ وابستگی بھی ان کو نہ بچاسکی
ہیلن کی سالگرہ پر گنگناتے ہوئے کیک پیش کرنے والے بارک اوباما کو بھی ان کی مذمت کرنا پڑی
اس واقعے نے امریکا میں ” اظہارِ رائے کی آزادی“ کا پول کھول دیا‘ فیس بک پر پابندی کے مخالفین کہاں ہیں؟
……..٭٭٭……..
تحریر:ابوسعد
……..٭٭٭……..
بس یہی تو کہا کہ ”ان سے کہیں کہ وہ فلسطین سے نکل جائیں“۔ اور جب پوچھا گیا کہ یہودی کہاں جائیں؟ تو انھوں نے جواباً کہا اور بالکل ٹھیک کہا کہ ”انھیں اپنے گھر جانا چاہیے…. پولینڈ‘ جرمنی‘ امریکا یا پھر دوسرے ملکوں کو چلے جانا چاہیے جہاں سے وہ آئے تھے۔“ انہوں نے ربی کو یاد دلایا کہ ”یہ لوگ (فلسطینی) مقبوضہ ہیں‘ اور یہ انہی کی سرزمین ہے‘ یہ جرمنوں اور پولینڈ والوں کی سرزمین نہیں“۔
ایک دفعہ صحافت سے ریٹائرمنٹ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا: ”میں سمجھتی ہوں کہ میں ساری زندگی کام کرتی رہوں گی۔ جب آپ کو (اپنے کام میں) مزہ آتا ہو‘ تو پھر اس کا بند کرنا کیسا؟“ اس پایہ کی خاتون کے لیے اپنے کام سے فراغت موت تھی۔ آج اُن کا صحافتی کیریئر ختم کرکے اُن سے اُن کی ”زندگی“ چھین لی گئی ہے…. اسرائیل کے خلاف بات کرنے کے جرم میں‘ اُس ملک میں جہاں سے ”آزادی_¿ اظہارِ رائے“ اور ”آزادی_¿ صحافت“ کے ”صاف وشفاف“ چشمے پھوٹ کر پوری دنیا کو ”سیراب“ کرتے ہیں۔
انہوں نے ایک بار یہ بھی کہا تھا کہ: ”وائٹ ہاﺅس امریکی عوام کی ملکیت ہے۔“ اور آگے کہا: ”کم ازکم میں نے یہ سیکھا ہے تاریخ کی کتابوں سے اور جان ایف کینیڈی سے لے کر آج تک کے صدور کو کور کرتے ہوئے۔“ آج اُن کا کہا ہوا غلط ثابت ہوا۔ 27 مئی کو وائٹ ہاﺅس میں منعقدہ ”جیوش ہریٹیج سیلبریشن“ ان کے لیے ان تمام تجربات اور تاریخی کتب کے مطالعے سے زیادہ عملی ثابت ہوئی۔ اس موقع پر لی گئی اُن کی رائے نے امریکا میں ایک سونامی برپا کردیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ لگ بھگ 6 دہائیوں سے امریکی صحافت میں رہنے کے باوجود انہیں ایسے بے دخل کردیا گیا جیسے کبھی وہ اس کا حصہ تھی ہی نہیں۔
غیر معمولی شہرت حاصل کرنے والی ہیلن تھامس کو وائٹ ہاﺅس جہاں وہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے صدارتی نمائندہ_¿ خصوصی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی تھیں‘ نکال باہر کردیا گیااور وہ بھی ان کی طرف سے اپنی ”غلطی“ تسلیم کیے جانے اور اس پر معافی طلب کرنے کے باوجود۔ وہ کوئی معمولی خاتون نہیں ہیں۔ بعض لوگ انہیں صحافت کی ہیروئن جبکہ امریکی صدر بارک اوباما اپنی ذات میں ایک ’ادارہ‘ قرار دے چکے ہیں۔ جبکہ پیدائش کی تاریخ اور مہینہ ایک ہونے کے سبب دونوں اپنی سالگرہ بھی ایک ساتھ مناچکے ہیں۔
گزشتہ سال 4 اگست کو بارک اوباما کی 48ویں اور ہیلن تھامس کی 89 ویں سالگرہ کے موقع پر وائٹ ہاﺅس میں تقریب منعقد کی گئی۔ امریکی صدر نے ہیلن تھامس کو سالگرہ کی مبارکباد دینے کا منفرد انداز اختیار کیا‘ صدر اوباما کیک ہاتھ میں لیے گاتے ہوئے بریفنگ روم میں داخل ہوئے اور ہیلن تھامس کو سالگرہ کی مبادکباد دی۔
اوباما نے جنہیں ’ادارہ‘ قرار دیا تھا وہ شرمناک امریکی اقدار کے ہاتھوں اب ختم ہوچکا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں‘ کیوں کہ جس نے ادارے کا درجہ پایا ہو وہ یقینا غیر معمولی خاتون ہوگی۔ 4 اگست1920ءکو پیدا ہونے والی ہیلن تھامس نے 57 برس تک بطور نمائندہ_¿ خصوصی خدمات انجام دینے کے بعد یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل کے لیے وائٹ ہاﺅس بیورو چیف کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ جان ایف کینیڈی سے لے کر موجودہ صدر اوباما تک ہر امریکی صدر کی پریس کانفرنس کو کور کیا۔7 جون 2010ءکو زبردستی ریٹائر کی جانے والی ہیلن نیشنل پریس کلب کی پہلی خاتون افسر کے علاوہ وائٹ ہاﺅس کے نامہ نگاروں کی تنظیم ’وائٹ ہاﺅس کو ریسپانڈیڈ ایسوسی ایشن‘ کی پہلی خاتون ممبر اور صدر رہیں۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز واشنگٹن میں ایک چھوٹے سے اخبار میں ’کاپی گرل‘ کے طور پر کیا۔ واشنگٹن کے اس معمولی سے اخبار سے وہ وائٹ ہاو_¿س کے بریفنگ روم میں سب سے اگلی نشستوں کی درمیان والی کرسی تک پہنچیں۔ اس کرسی پر اب ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں ان کا نام کندہ کیا گیا ہے۔ ہیلن نے صدر جان ایف کینیڈی کے ابتدائی دور میں وائٹ ہاو_¿س کی رپورٹنگ شروع کی تھی۔ ابتدا میں ہیلن تھامس اس روزانہ بریفنگ میں باقاعدگی سے جانے لگیں۔ ہیلن نے دس امریکی صدور کے ادوار میں وائٹ ہاو_¿س کی رپورٹنگ کا اعزاز حاصل کیا۔ انہیں نیشنل پریس کلب کی بھی پہلی خاتون افسر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ہیلن ستاون برس تک یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل کے ساتھ وابستہ رہیں۔ انہیں سابق صدر بش کے دور میں عراق اور افغانستان پر بے لاگ سوالات کرنے پر شہرت حاصل ہوئی۔ وہ وائٹ ہاﺅس پریس کور کی واحد رکن تھی جن کی وائٹ ہاﺅس بریفنگ روم میں ذاتی نشست تھی۔ واضح رہے کہ یہاں نشستیں افراد کے بجائے ابلاغی گروپوں کو مختص کی جاتی ہیں۔
ہیلن واحد اخباری خاتون صحافی تھیں جو1972ءمیں رچرڈنکسن کے تاریخی دورہ_¿ چین پر اُن کے ساتھ رہیں۔ تند وتیز سوالات کے لیے مشہور ہیلن تھامس امریکا ہی میں مشہور نہیں تھیں بلکہ عالمی شہرت کی مالک تھیں۔ انہوں نے ایک دلیر صحافی کے طور پر اپنی ساکھ بنائی۔ وہ وائٹ ہاو_¿س کی بریفنگز کے دوران کبھی سخت سے سخت سوال کرنے سے نہیں ہچکچائیں۔ یوایس اے ٹوڈے کے بانی النیوہارٹ نے ایک انٹرویو میں جب کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو سے پوچھا: ”امریکی جمہوریت اور کیوبا کی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟“ تو انہوں جواب دیا: ”وہاں مجھے ہیلن تھامس کے سوالوں کے جواب نہیں دینے پڑتے۔“
اس قدر قدآور ہیلن تھامس نے فوری طور پر ایک معافی نامہ اپنی ویب سائٹ پر جاری کردیا: ”مجھے اپنے اس تبصرے پر بے حد افسوس ہے جو میں نے پچھلے ہفتے اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں کیا۔ یہ میرے اس یقینِ قلبی کی عکاسی نہیں کرتا جس کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امن صرف اسی وقت قائم ہوگا جب تمام فریقین باہمی احترام اور برداشت کی ضرورت کو محسوس کریں گے۔ خدا کرے ایسا جلد ہو۔“
یہی نہیں بلکہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے میڈیا نقاد ’ہورڈکورٹز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ”مجھے اپنے بیان پر بے حد افسوس ہے“ اور ”اعتراف“کیا کہ ”میں سمجھتی ہوں کہ میں نے حد پار کردی…. میں نے غلطی کی“۔
یہ معافی اور غلطی کا اعتراف بھی ان کی (صحافتی) زندگی کو نہیں بچاسکے۔7جون 2010ءکو ہیلن نے ہرسٹ نیوز پیپرز کو اپنا استعفیٰ پیش کیااور اس طرح جبری طور پر ریٹائر کردی گئیں۔ 6 جون کو ہیلن کی ایجنسی ’نائن اسپیکرز‘ نے اعلان کیا کہ ہم نے ہیلن تھامس کے بیان کے سبب انہیں ہٹادیا ہے“۔ ہیلن کی مشہور کتاب کے شریک مصنف کریگ کرافورڈ نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ مزید کام نہیں کریں گے۔
1943ءمیں 24 ڈالر فی ہفتہ پر یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل میں نوکری حاصل کرنے والی ہیلن تھامس نے 17مئی 2000ءکو اس ادارے کے ساتھ اپنی57 سالہ وابستگی اُس وقت ختم کردی تھی جب اس کا انتظام یونیفکیشن چرچ کے ادارے نیوز ورلڈ کمیونی کیشن نے سنبھالا۔ اس کے بعد انہوں نے ہرسٹ نیوز پیپرز گروپ جس کے کئی اخبارات شائع ہوتے ہیں‘ کے لیے کالم لکھنا شروع کردیا تھا۔
ویڈیو بنانے والا ربی ڈیوڈ نیسن آف کہتا ہے: ”تکلف برطرف! اس سے مجھے شدید دھچکا لگا ہے“۔ یہ وائٹ ہاﺅس میں27 مئی کو منعقدہ ’جیوش ہیرٹیج سیلبریشن‘ کے موقع پر موجود ہرسٹ اخبارات کا کالم نویس ہیلن تھامس سے پوچھنے لگا: ”اسرائیل کے بارے میں آپ کا کوئی تبصرہ؟ تو انہوں نے وہی جواب دیا جو اگرچہ آزادی_¿ اظہارِ رائے کے چیمپئن ملک امریکا میں ممنوع ہے مگر حقیقت ضرور ہے۔ انہوں نے وہی کہا جو کہنا چاہیے تھا۔ اور مزید یاد دلایا: ”یہ لوگ (فلسطینی) مقبوضہ ہیں‘ اور یہ انہی کی زمین ہے‘ یہ جرمنوں اور پولینڈ والوں کی زمین نہیں“۔ ہیلن نے تاریخی حقیقت بتادی کہ ان کو پولینڈ اور جرمنی سمیت دنیا بھر کے ممالک سے لاکر فلسطینیوں کی سرزمین پر بساکر اس وطن کے اصل باشندوں کو بے گھر کردیا گیا۔
لیکن ربی ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ: ”یہ (گفتگو) نفرت انگیز تھی…. نفرت انگیز گفتگوکا ایک نمونہ۔“ اس لیے کہ صہیونی مو_¿قف سے متصادم تھی؟ یقینا یہودیوں کے خلاف کوئی سچی بات کہنا نفرت انگیز بات قرار پاتی ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان میں کوئی امریکی ظلم کے خلاف بات کرے۔ افغانستان میں نیٹو فورسز کا معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دینا دہشت گردی نہیں‘ لیکن نیٹو فورسزکے لیے جانے والے ٹینکرز پر پاکستان میں حملہ آور ہونا اور سامان کو جلانا یا نقصان پہنچانا بہت بڑی دہشت گردی ہے! ہم اور آپ اگرچہ ایسا نہیں سمجھتے تاہم پاکستانی ذرائع ابلاغ یہی بتارہے ہیں۔
این بی سی کے ’ٹوڈے شو‘ میں بات کرتے ہوئے ہیلن کی سالگرہ پر گنگناکرکیک پیش کرنے والے صدر بارک اوباما نے ان کے جبری استعفے کو ”درست فیصلہ“قرار دیا۔ انہوں نے ہیلن کے بیان کو ”جارحانہ“ اور ”نامناسب“ قرار دیا اور کہا کہ اس طرح انہوں نے اپنے شاندار کیریئر کو شرمناک طریقے سے ختم کیا۔ بین الاقوامی پانیوں میں نہتے انسانوں کو مارنے والا جارح نہیں لیکن اس قابض کو فلسطین سے نکل جانے کا کہنے والا یقینا جارح ہے۔ اگرچہ رپورٹر جیفری گولڈبرگ نے ہیلن کے تبصرے کو حماس کا سرکاری بیان قرار دیا ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ اب تک ان کو طالبان قرار نہیں دیا گیا۔ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں ”امریکی طالبان“ کی اصطلاح وضع کرکے ہیلن کو اس تحریک کا بانی قرار دیا جائے۔
ہیلن تھامس کو اپنے ”جرم“ کی سزا مل چکی لیکن ان کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ پورا امریکی میڈیا انہیں برداشت کرتا چلا آرہا تھا‘ بس ایک موقع کی تلاش تھی اور وہ موقع ربی ڈیوڈ نے فراہم کیا جس نے اس ویڈیو کو ایک ہفتے بعد اَپ لوڈ کیا اور اس کی وجہ اپنے بیٹے کے فائنل امتحانات کی تیاری میں مصروف ہونا قرار دیا جو اُس کے بقول اُس کا ویب ماسٹر ہے۔ لیکن واشنگٹن سمیت امریکی صحافی برادری میں ای میل کا تبادلہ پہلے سے ہی جاری تھا‘ کیوں کہ ہیلن کے صہیونی مخالف نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ اور اس ای میل مہم کو نیوکونز ’اری فلیشر‘ نے بخوبی چلایا جو بش دور میں وائٹ ہاﺅس میں ان کا فرسٹ پریس سیکریٹری ہوا کرتا تھا۔ اس کی ایک وجہ عراق جنگ پر جارج بش سے سخت سوالات بھی تھے جو پریس سیکریٹری کی سماعتوں سے ٹکرانے کے بعد سیدھے اس کے دل کو زخمی کردیتے تھے‘ اور تیر سیدھا دل پر اُس وقت لگا تھا جب 2002ءمیں ہیلن نے ’ایری فلیشر‘ سے یہ پوچھنے کی جرا_¿ت کی کہ ”کیا صدر سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کو 35 سالہ بہیمانہ عسکری قبضے اور جبر کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل نہیں؟“ اس کے4سال بعد انہوں نے فلیشر کے جانشین ’ٹونی اسنو‘ سے کہا کہ ”امریکا لبنان کے اوپر اسرائیلی بمباری کو روک سکتا تھا لیکن اس کے برعکس اُس نے لبنانیوں اور فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دی“۔ ان ”حزب اللہ خیالات“ پر ٹونی نے ان کا ”شکریہ“ ادا کیا۔ یعنی اسرائیل کی حمایت درست اور اس کے برعکس خیالات رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا تعلق حزب اللہ یا حماس سے ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق رپورٹرزکی ایک بڑی تعداد نے برسوں تک ان کے کردار پر سخت سوالات اٹھائے ہیں۔ 2006ءمیں نیو ریپبلک پیس‘ جوناتھن چیٹ نے ہیلنکے بارے میں کہا کہ ہیلن نے مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے جیسے انہوں نے سوال کیا ہے کہ ”ہم عراق میں لوگوں کو کیوں مار رہے ہیں؟ مردوخواتین اور بچوں کو وہاں مارا گیا ….یہ انتہائی ظالمانہ (حرکت) ہے۔“ یہ امریکی میڈیا کا مکروہ چہرہ ہے جس کے تحت ایک جائز اور سچا سوال مبالغہ آمیزی ہے۔ تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ امریکی اور مغربی میڈیا‘ میڈیا ہے یا یہودی پروپیگنڈا مشنری؟
سی بی ایس کے نمائندے مارک نولر نے لکھا ہے کہ ”وہ ایسے سوال پوچھتی تھیں جو کوئی سخت نیوز رپورٹر نہیں پوچھ سکتا تھا۔ ایسے سوال جو ایک ایجنڈے کے تحت پوچھے جاتے تھے‘ جن کے بارے میں اکثر رپورٹرز کا خیال ہوتا تھا کہ وہ نامناسب تھے۔“ وہ مزید لکھتا ہے کہ ”بطور کالم نگار ہیلن اپنے آپ کو مقصدیت کی پالیسی سے آزاد سمجھتی تھیں۔ ان کے سوالات بعض دفعہ نیوز روم میں موجود رپورٹرز کو ہراساں کرتے تھے۔“
نیشنل ریویو آن لائن کی کالم نگار جوناگولڈبرگ ہیلن کی اس ”سرکشی“ کی وجہ سینیارٹی سسٹم کی وجہ سے ان کو حاصل عزت کو قرار دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اگر وہ اب تک برداشت ہوتی رہی ہیں تو اس کی واحد وجہ ان کی سینیارٹی تھی‘ ورنہ ان کو کب کا وائٹ ہاﺅس کے بریفنگ روم سے باہر پھینکا جاچکا ہوتا۔ اوباما کے علاوہ وائٹ ہاﺅس کا ردعمل پریس سیکریٹری رابرٹ گبز نے بھی ظاہر کیا ہے جنہوں نے ہیلن کے بیان کو ”جارحانہ“ اور”قابل ملامت“ قرار دیا۔ وائٹ ہاﺅس کرسپانڈنٹ ایسوسی ایشن جس کی کبھی وہ صدر ہوا کرتی تھیں‘ نے ان کے بیان کو ناقابلِ دفاع قرار دیا تو ایسے میں ان کا رخصت ہوجانا لازمی ٹھیر جاتا ہے۔
اعتراف ِجرم اور معافی کے باوجود ایک بہت بڑی صحافتی دیوار گرادی گئی ہے جس سے امریکی میڈیا کی آزادی کا پول کھل گیا۔ توہین آمیز خاکوں کو ’آزادی_¿ اظہارِ رائے‘ کے عین مطابق قرار دینے والوں نے ایک خالص سیاسی بیان پر ہنگامہ مچا دیا۔ مجھے نہیں پتا کہ پاکستان میں ”اعلیٰ امریکی اقدار“ اور آزادی_¿ صحافت کی ”اعلیٰ امریکی قدروں“ کی دلالی کرنے والا پاکستانی لبرل طبقہ اس پر کوئی ردعمل ظاہر کرے گا یا نہیں‘ تاہم اس واقعے نے اس بحث کو منطقی انجام تک پہنچادیا اور ثابت ہوگیا کہ توہین رسالت کو اپنا حق سمجھنے والے امریکا اور مغرب کا ”اظہارِ رائے کی آزادی“ سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
یہاں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ مظاہر نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام بنی نوع انسانی پر اسرائیلی ریاست کے نام پر صہیونی دہشت گردوںکو مٹانا واجب نہیں کرتے؟
(بشکریہ ”جسارت میگزین“ روزنامہ جسارت کراچی)
بدھ کی شام کراچی پریس کلب میں بہت گہماگہمی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں ہیومین نیٹ ورک کا سیمینار تھا۔ پریس کلب کے سابق صدر نجیب احمد کی تقریر بہت جذباتی تھی۔ ظلم اور زیادتی کے واقعات اسے ہمیشہ جذباتی کردیتے تھے۔ وہ ہمیشہ مظلوموں کی حمایت کر تا تھا۔ چاہے اس حمایت کے نتیجے میں اسے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔کسی کا کوئی کام ہو وہ اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ کسی کا ساتھ دینا ہو۔ کوئی وعدہ نبھانا ہو،کسی کے ساتھ جانا ہو۔ وہ ہمیشہ وقت پر پہنچ جاتا تھا۔ شاید یہی اس کی مقبولیت کا سبب تھا۔ اس نے دل کا روگ پال رکھاتھا۔ لیکن وہ بہت سے صحتمند افراد سےزیادہ کا م کرتا تھا، صحافت میں بہت سے نازک مقام آتے ہیں ۔ لیکن اس کی مسکراہٹ جو اب خواب اور خیال ہوگئی ہے۔ بہت سے شکوﺅں کا بہت پیارا سا جواب ہوتا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس سے پہلی ملاقات کب کہاں ہوئی تھی۔ لیکن اس پہلی ملاقات کے بعد وہ دل میں رہتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد اس کی یاد دل کو کچھ اس طرح گرفت میں لئے ہوئے ہے کہ کسی پل چین نہیں پڑتا۔بار بار اس کی صورت سامنے آتی ہے۔ اور ایک تیر سا دل میں لگتا ہے۔ طارق اسلم نے جمعرات کو فون پر یہ اطلاع دی۔تو ذہن پر سناٹا چھا گیا۔پیجی اب اس دنیا سے چلا گیا۔ کتنے سارے لوگوں کو سوگوار کرکے۔ صحافت میں اس نے اپنا مقام خود بنایا تھا۔ وہ ان تھک کام کرنے والا کارکن تھا۔ کام کو منظم کرنے کی اس کی صلاحیتیں بے پناہ تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دوست دلدار تھا۔ دوستوں کی دلداری کرتا تھا۔ دائیں بائیں بازو کے سب لوگ اسے پسند کرتے تھے۔ کراچی پریس کلب کے انتخابات اس کی مقبولت کا پیمانہ تھے۔ کئی سال سے وہ مختلف عہدوں پر کامیاب ہوتا رہا۔ ۸۰۰۲ کے سالانہ انتخابات میں نجیب نے 440 ووٹ لیکر سب سے زیادہ ووٹ لینے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے مدمقابل صدر کے عہدے کے امیدوار صبیح الدین غوثی نے 264 لے سکے تھے۔ گذشتہ سال وہ پہلی بار الیکشن ہار گیا۔ لیکن اس نے اس ہار کو اپنی جیت بنا لیا تھا۔ کیونکہ اس کی ہار میں اس کے دوستوں کا ہاتھ تھا۔اور وہ دوستوں کی کامیابی پر نازاں تھا۔ اس نے اپنے دوستوں کے دئیے ہوئے اس تمغہ شکست کو اپنے سینے پا سجائے رکھا ۔اور اسی میدان میں اس شان سے کھڑا رہا۔ کہ دھوکہ دینے والا رو دے۔ ایسی شان سے دھوکہ کھاﺅ۔ کرائم رپورٹر ،بااثرصحافی، جنگ اور جیو کے سینئر رپورٹر اور کراچی پریس کلب کے سابق صدر کی حیثت سے وہ بہت اختیار رکھتا تھا۔ لیکن اس نے اپنے اثر رسوخ سے ہمیشہ دوسروں کی بھلائی کے کام کئے۔ صحافتی حلقوں اور اپنے دوست احباب میں اسے پیار سے ”پیجی“ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔یہ نام اس کی شخصیت سے مناسبت رکھتا تھا۔ وہ اپنے گلی محلے علاقے میں بھی اسی طرح مقبول تھا۔ جامعہ ملیہ میں اسلامی جمعیت طلبہ وابستگی کے بعد اس نے اپنے اس تعلق کو ہمیشہ نبھایا۔ وہ جمعیت کا رکن بنا۔اور اس نے رضائے الہی کے حصول کو اولیت دی۔ اکتوبر 1961ء کو پیدا ہونے والے نجیب احمد کی یہ عمر جانے کی نہ تھی۔ لیکن اسے جلدی تھی اس لئے اس بہت سے بڑے بڑے کام بہت تھوڑے عرصے میں کر لئے۔جمعیت کے ہفتہ کتب کے موقع پر اس نے کہا تھا٬ کہ لوگ مختصر سی زندگی میں ڈاکے ڈالتے ہیں اور لوگوں کی جانیں لےتے ہیں مگر جمعیت کے کارکنان نوجوانی کی عمر میں طلبہ کی امداد اور انکا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کےلئے ہفتہ کتب منعقد کر کے فنڈز جمع کر رہے تاکہ کوئی طالبعلم تعلیم سے محروم نہ رہ جائے اس کام کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔نجیب احمد نے کہا تھاکہ آپ جو کام کر رہے ہیں اسے بھرپور طریقے سے جاری رکھیں اس راہ میں رکاوٹیں بھی آئیں گی اور مخالفین آپ پر تنقید بھی کرنگے مگر طلبہ کی بھلائی اور انکی خدمت کا کام جاری رکھیں۔یہی اس کا مشن تھا۔ اس نے مخالفین اور تنقید کی کبھی پروا نہیں کی۔ وہ آزادی صحافت کا جرنیل تھا۔ پرویز مشرف کے پورے دور میں اس نے جرات کے ساتھ آمریت سے لڑائی لڑی۔کراچی میں صحافیوں اور آزادی صحافت کی حامی دوسری تنظیموں نے مزارِ قائد پر دھرنا دیا تو پریس کلب سے ریلی نکالی گئی جس کی قیادت پاکستان میں صحافیوں کی تنظیم کے رہنما مظہر عباس۔ کراچی پریس کلب کی صدر صبیح الدین غوثی اور نجیب احمد نے کی۔ کراچی میں صحافی رشید چنا، عبدالطیف ابو شامل، محمد طاہر، علی الطاف اور زاہد خٹک کی گرفتاری اور پولیس چھاپوں کے خلاف یہ ریلی نکالی گئی تھی۔شہر میں ایک بڑے عرصے کے بعد صحافیوں نے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔اس موقع پر جلوس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے صد کی حییثیت سے نجیب احمد نے کہا تھاکہ اس ملک میں ڈکٹیٹروں نے حکومت زیادہ عرصے کی ہے اور اس دور میں بھی صحافیوں نے اپنے فرائض کوڑے کھاکر اور جیلوں میں جاکر بھی ادا کیے ہیں۔ کراچی پریس کلب نے پہلے ضیاالحق کو للکارہ تھا۔جس کے بعد سیاسی جماعتوں کی تحریک شروع ہوئی تھی۔ اب صدرمشرف کے خلاف جدوجہد کی جائیگی۔ چینلز کی بندش اور پیمرا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف احتجاج کے دوران ایک سو اکیاسی صحافیوں کی پریس کلب سے گرفتاری کے موقع پر اس کی جرات اور بہادری یاد رہے گی۔ کئی مواقع پر نجیب کی گرفتاری کے لئے پریس کلب کا گھیراﺅ کیا گیا۔ لیکن اس کے ماتھے پر کبھی شکن نہ آئی اور اس نے کبھی راہ فرار اختیار نہیں کی۔روز نامہ ”اسلام ”کراچی کی بندش کے خلاف احتجاج میں سوائے چند چینلز کے تمام نشریاتی اداروں کی جانب سے شدیدمایوسی کا سامنا رہاتھا۔ تاہم اس موقع پر صحافی حلقوںکی جن چند شخصیات ”پی ایف یو جے ”کے سیکریٹری مظہر عباس،روالپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے صدر مشتاق منہاس، بزرگ صحافی عبدالحمید چھاپرا، کراچی یونین آف جرنلسٹس کے سیکریٹری خورشید عباسی ، یوسف خان،مقصود یوسفی کے ساتھ کراچی پریس کلب کے صدر نجیب احمد،سیکریٹری امتیازخان فاران کی آواز سب سے توانا تھی۔نجیب کی موت نے کراچی پریس کلب کو سوگواری کی چادر اوڑھا دی ہے۔اگلے ہفتے کراچی پریس کلب کے الیکشن ہیں، لیکن اس بار ایک مہربان چہرہ نظر نہیں آئے گا۔نجیب پیجی تو ہمیں بہت یادآئے گا۔
منو بھائی نے ایک ایسے معاشرتی مسئلے پر قلم اٹھایا ہے جو ہر کسی کی توجہ کا مرکز ہونا چاہیے۔ جہیز کی لعنت کے سبب ہماری کتنی بہنیں اور بیٹیاں گھروں پر بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ ان بہنوں کے مسائل کیا ہیں اور معاشرہ ان کی کیا مدد کرسکتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے منوبھائی کا یہ کالم پڑھ لیتے ہیں۔ امید ہے کہ میرے ساتھی بلاگرز اس موضوع پر کچھ تجاویز بھی دیں گے کہ ہم ایسی بہنوں بیٹیوں کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟ مضمون کے گرافک ویو کے لیے یہاں کلک کریں
…………………………………………………………………..
سب سے پہلے میں اس خاتون کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو اپنے حلقہ احباب اور عزیزوں میں منی باجی کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔ شکریہ ادا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے میری توجہ پاکستانی معاشرے کے ایک ایسے معاشرتی اور انسانی حقوق کے مسئلہ پر دلائی جو بہت کم لوگوں کی توجہ میں آیا ہے اور یہ مسئلہ ان خواتین کا ہے جو مناسب اور موزوں رشتے نہ ملنے کی وجہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک نہیں ہوسکتیں اور ایک خاص عمر کے بعد غیر شادی شدہ رہ جاتی ہیں اور یوں اپنی زندگی تنہائی میں گزار کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کا تناسب پندرہ فیصد سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے، خاص طور پر مربوط اور مشترکہ گھرانوں کے بکھر جانے کے بعد اور ہجرت درہجرت کے دردناک تجربات سے گزرنے اور دیہات سے شہروں میں نقل مکانی کے بعد پردہ دار متوسط گھرانوں کی لڑکیوں کے لئے مناسب اور موزوں رشتوں کی تلاش مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی گئی اور محتاط گھرانوں کے بزرگوں نے رشتوں کا جواء کھیلنے سے گریز کو ہی مناسب سمجھا چنانچہ غیر شادی شدہ حالت میں اپنی زندگی گزارنے والی خواتین کا تناسب گھر گھر ہستی کی رونق اور نعمت سے فیض یاب ہونے والی خواتین کے مقابلے میں پندرہ بیس فیصد سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے اور معاشرتی زندگی میں اجنبیت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے مستقبل میں ایسی خواتین کا تناسب بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔ ایسی غیر شادی شدہ خواتین کا موازنہ اگر بیوگان کے ساتھ کیا جائے تو اس نوعیت کے حقائق سامنے آئیں گے کہ بیوگان کے پاس ان کے مرحوم شوہروں کی چھوڑی ہوئی املاک اور مراعات ہوسکتی ہیں، ان کی اولادیں بھی ہوسکتی ہیں جو ان کے بڑھاپے کا سہارا بن سکیں اس کے علاوہ بیوگان کو ایک معاشرتی ہمدردی بھی حاصل ہوتی ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں بیوگان کااحترام بھی ہوتا ہے جبکہ غیر شادی شدہ خواتین ان تمام دنیاوی نعمتوں اور مراعات و حقوق سے محروم ہوتی ہیں۔ بھائیوں اور بہنوں، والدین اور عزیز رشتہ داروں کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ان خواتین کو کوئی سہارا، آسرا یامدد میسر نہیں ہوتی۔ ایک بہت ہی خوفناک اداسی اور تنہائی ہوتی ہے اور مردانہ یا پدرانہ طرز کے معاشروں میں یہ اداسی اور تنہائی اور بھی زیادہ خوفناک اور اذیت دینے والی ثابت ہوتی ہے۔ بعض حالات میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جن خواتین کو ڈولی اٹھانے والے کہار نہیں مل سکے انہیں جنازہ اٹھانے والے چارکندھے بھی نصیب نہیں ہوتے ہیں۔ منی باجی نے سر راہ مجھے روک کر کہا کہ منو بھائی میں آپ کی تحریروں میں خواتین کے لئے پائے جانے والے احترام اور ان کی تکریم میں کہی گئی باتیں پسند کرتی ہوں مگر کبھی آپ نے زندگی بھر کنواری رہنے والی خواتین کے مسائل پر بھی غور کیا ہے؟ منی باجی نے یہ شکایت بھی کی کہ حکومتوں کی طرف سے عوامی فلاح و بہبود کے جو پروگرام اور منصوبے جاری کئے جاتے ہیں ان میں بیوگان کے امدادی منصوبے اور پروگرام تو ہوتے ہیں مگر زندگی بھر کنواری رہ جانے والی خواتین کی داد رسی، مدد، اور اشک شوئی کی کسی کوشش کا ذکر نہیں ہوتا۔ غیر شادی شدہ خواتین کی امداد یا سہارے کا کوئی حوالہ بیت المال کے منصوبوں اور پروگرام میں بھی نہیں ہوتا اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے نام سے جاری ہونے والے بے نظیر سپورٹ پروگرام میں بھی غیر شادی شدہ خواتین کے لئے کوئی ہمدردی کا اشارہ نہیں ملتا۔ منو بھائی! کیا آپ اپنے ملک اور معاشرے کی ان غیر شادی شدہ خواتین کے معاشرتی حقوق اور انسانی حقوق کی پاسداری کے سلسلے میں حکمرانوں کو کوئی مفید مشورہ دے سکتے ہیں؟ میں نے منی باجی کی یہ فرمائش پوری کرنے کا وعدہ تو کر لیا مگر اب سوچتا ہوں کہ منی باجی کا یہ مشورہ حکمرانوں تک کیسے پہنچاؤں کیونکہ بزرگوں کا کہنا ہے اور سو فیصد درست ہے کہ مشورہ دینے سے کام نہیں بنتا مشورہ لینے سے کام بنتا ہے اور پھر یہ مشورہ دیا کس کو جائے کیونکہ کسی کو مشورے لینے کی فرصت بھی نہیں ہے اور مشورے لیں بھی لیں تو اس پر عملدرآمد کی فرصت نہیں ملتی۔
ایک عرصے پہلے سرکاری ٹی وی پر ’’اصلی پری دھاگہ‘‘ کا اشہتار چلتا تھا۔ اب’’ اصلی‘‘ اور ’’پری‘‘ دونوں نہیں رہیں البتہ لوگوں کا واسطہ نقالوں سے ہوشیار ہونے کے باوجود ایسے دانشوروں سے پڑگیا ہے جو اپنی سحر انگیز گفتگو سے اکثر خواتین اور کچھ حضرات کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں لیکن حقیقت میں ان دانشوروں کا دانش سے فاصلہ اتنا ہی ہوتا ہے جتنا زمین کا آسمان سے ہے۔ آسمان اور زمین تو پھر بھی کہیں نہ کہیں مل جاتے ہیں لیکن یہ نقلی دانشور ایسے گڑھے کی مانند ہوتے ہیں جس پر کبھی پانی نہیں ٹھیرتا۔ ایسے لوگ اکثر ’میں‘، ’میں‘ کا ورد کرکے اپنوں کو بھی بھول کرشکایت کرنے لگتے ہیں’’ بیگم تم نے میری اولاد کو سرکش بنادیا۔ دنیا میں میری واہ واہ ہورہی ہے اور جب میں اپنے گھر پر آتا ہوں تو میری بیٹی مجھ سے پوچھتی ہے بابا آپ ٹی وی پر بولتا اچھا ہے لیکن یہ میں میں کیو ں کرتے ہیں۔ ویسے یہ وہ والا میں میں نہیں جو بکریاں کرتی ہیں۔
تو میں میں کرنے والے ان نقالوں میں سے ایک نقال یوسف کذاب کا خلیفہ وقت زید زمان المروف زید حامد براسٹک والا ہے۔ موصوف جعلی ہے لیکن لوگوں کے اذہان کو بخوبی سمجھتا ہے۔ بخوبی واقف ہے کہ یہود وہنود کو گالیاں دینے اور بھارت کو ختم کرنے کی باتوں سے لوگ انہیں اپنا ہیروسمجھ لیں گے۔ سمجھ لیں گے کیا۔ سمجھ لیا ہے۔
موصوف کی دوجعل سازیوں کا تذکرہ کرکے آپ سے یوٹیوب کی ویڈیوز کے دو لنک شیئر کروں گا۔ ایک موصوف زید حامد یوسف کذاب اور براسٹیک والا کا ہے جبکہ دوسرے لنک میں آپ ڈیوڈ آئک کو دیکھ اور سن سکیں گے۔ لنک کو دیکھ کر آپ فیصلہ کریں کہ موصوف دانش ور ہیں یا پھر نقال۔
لیکن اس سے قبل دو واقعات۔ پہلا واقعہ گزشتہ برس یعنی ۲۰۰۸ میں رمضان کے مہینے کا ہے جب میں چند دستوں کے ساتھ ایک ہوٹل میں افطار کرنے گیا، وہاں مزید دو دوستوں کو آنا تھا جن سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ ان دوستوں میں ایک نے سونے کے سکوں کے ذریعے معیشت کی ڈوبتی نیا کو پار لگانے کی تقریر شروع کردی تو میں نے بتایا کہ باتیں ہم زید حامد کے براسٹیک میں اکنامک ٹررازم سیریز میں تفصیل کے ساتھ سن چکے ہیں ۔ اس پر دوست نے بتایا کہ یہ ساری معلومات انہوں نے زید صاحب کو فراہم کی تھی۔ گو کہ مقرر زید صاحب تھے لیکن ریسرچ اس دوست کی تھی۔ ان پر جب یہ راز منکشف ہوا کہ موصوف یوسف کذاب کا خلیفہ اور اپنے دین پر تاحال قائم ہے تو ان کو افسوس ہوا۔
دوسرا واقعہ چند مہینے قبل کا ہے جب زید حامد کے سسر سید فیاض الدین احمد صاحب نے چند دوستوں کے ساتھ مجھے اپنے گھر واقع ڈیفنس کراچی مدعو کیا۔ وہاں دوران گفتگو فیاض صاحب نے ایک واقعہ سنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے’’ یو کے اسلامک مشن‘‘ لسٹر کے اپنے ایک ساتھی رشید احمد صدیقی کی کتاب’’ دی ڈسٹینی آف اقبال‘‘ لاکر ان کو دے دی۔ اگلی دفعہ جب فیاض صاحب کراچی تشریف لے آئیں تو پنڈی اپنے داماد، بیٹی سے ملنے گئے۔ کیا دیکھا کہ موصوف کسی کو فون پر مشورے دے رہے تھے کہ وہ علی گڑھ انڈیا کے رشید احمد کی کتاب’’ دی ڈسٹینی آف اقبال‘‘ پڑھیں۔ وہ بتارہے تھے کہ رشید احمد صاحب (علی گڑھ ) والے کتنے عالم وفاضل آدمی تھے اور ان کی یہ شاہکار تخلیق کس طرح ان کی علمیت کی عکاسی کرتی ہے۔ فیاض صاحب نے اپنے داماد زید حامد کو بتایا کہ’’ بیٹا پہلے کتاب پر لکھنے والے کے متعلق دیے گئے چند سطریں تو پڑھ لی ہوتیں۔آپ کو کس نے بتایا کہ یہ علی گڑھ والے رشید احمد صدیقی کی لکھی ہوئی کتاب ہے ۔ ان کا تو انتقال ہوئے ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ یہ تو میرے دوست رشید احمد صدیقی کی کتاب ہے جو میرے ساتھ یوکے اسلامک مشن لسٹر میں اب بھی کام کرتے ہیں۔( واضح رہے موصوف آج کل اقبال کا پاکستان نامی پروگرام میں اقبال پر لیکچر دیتے ہیں جس میں وہ ایک آدھ دفعہ کاغذ سے پڑھنے کے باوجود اقبال کے اشعار کو غلط کہتے ہوئے پائیں گئے)۔
دوستو! یہ دو ایسے کئی واقعات ہیں جن سے زید احمد المعروف یوسف کذاب اور براسٹیک والے کی جہالت عیاں ہوتی ہے۔ لیکن چلیے آپ زید حامد اور ڈیوڈ آئک کے ویڈیوز دیکھ لیں اور خود فیصلہ کریں کہ جعل سازی کیا ہے اور دانشوری کیا؟
مکرمی و محترمی ۔۔۔ روزنامہ ایکسپریس ملتان ۹ ستمبر ۹۰۰۲ءمیں ااپ کا انٹرویوشائع ہوا۔جو پوائنٹ بلینک ود لقمان میں اظہارخیال کرتے ہوئے آپ نے دیا مبشر لقمان مبینہ طور پر قادیانی لابی کا نفسِ ناطقہ لگتا ہے۔وہ آئے روز ایکسپریس چینل میں قادیانی جماعت کی حماےت میں قومی رہنماو¿ںسے کچھ نہ کچھ کہلوانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔۔ پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ستمبر ۴۷۹۱ءکو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔اس کی خوشی میں اگلے روز ۸ ستمبر کو پوری قوم سو سالہ قضیہ حل ہونے پر خوشیاں منا رہی تھی ۔ عین اسی دن ۸ ستمر ۹۰۰۲ءکو آپ کا انٹر ویو قادیانیوں کی حماےت میں لیا گیا۔جو اگلے روز ۹ ستمبر کو شائع ہوا۔ جناب بھٹو صاحب کے عہد اقتدار میں امت مسلمہ کو جو خوشی نصیب ہوئی۔ ٹھیک پینتیس سال بعد قادیانیوں نے بھٹو صاحب کی پارٹی کے اتحادی قائد سے بیان دلوا کر امتِ مسلمہ سے بزعمِ خود انتقام لے لیا ۔ ممکن ہے اس تاریخ کو انٹرویو اتفاقی واقعہ قرار دے دیا جائے۔لیکن جو لوگ قادیانی سانپوں کی زہر ناکیوں سے با خبر ہیں ان کو اس واقعہ کو اتفاقی قرار دینا مشکل اور بہت مشکل ہے۔
جناب الطاف حسین صاحب ! آپ کے قادیانی حماےت میں بیان کے علیحدہ علیحدہ نمبرات لگا کر آپ سے چند گزارشات عرض کرنا ہیں ۔ خدا کرے کہ مزاجِ گرامی پر ناگوار نہ گزریں۔لیکن سودائی مرض بڑھ جائے تو میٹھی چیز بھی کڑوی لگتی ہے۔آپ نے اپنی کوثر و تسنیم سے دھلی زبان سے فرماےا
۱ :۔” ایم کیو ایم واحد تنظیم ہے جس کے قائد نے قادیانیوں کے امیرمرزا طاہر بیگ کے انتقال پر تعزےتی بیان دیا۔“
چشمِ بد دوریہ کارنامہ آپ ہی انجام دے سکتے ہیں۔یہ عزت آپ کے حصہ میں لکھی جانی تھی۔وہ قادیانی جس کے نفسِ ناطقہ ظفراللہ خان قادیانی نے قائد اعظم کا موجود ہونے کے باوجود جنازہ نہ پڑھا۔وہ اپنے کلفر میں اتنا پکا اور آپ کے رویہ میں یہ تفاوت کہ قائد اعظم کے نام کی مالا جپنے کے باوجود قادیانی گروہ کے چیف کے آنجہانی پوتے کی فوتگی کا درد لے کر آپ کا دل بے قرار ہو جاتا ہے۔اور تعزیتی بیان جب تک نہیں دے دیتے اس وقت تک وہ دل کا روگ درست نہیں ہوتا۔۔۔محترمی ۔۔! آپ کیوں بھول گئے کہ قائد ا عظم کی کابینہ میں شامل ہونے کے باوجود ظفراللہ خان نے جنازہ نہ پڑھا۔تو اخباری نمائندہ کے جواب میں ظفراللہ نے کہا ” کہ کافر حکومت کا مجھے مسلمان وزیر ےا مسلم حکومت کا کافر وزیر مجھے سمجھ لیں “
ظاہر ہے ظفراللہ خان خود کو کافر نہیں کہہ رہا تھابلکہ پوری حکومت کو کافر کہنا مقصود تھا۔بر ہمن(ظفراللہ) کی اس زناری اور مسلم (آپ) کی خواری سے اللہ مسلمانوں کو محفوظ فرمائیں۔
۲ :۔ آپ نے فرماےا ۔۔۔ ”مجھ پر کئی اخبارات نے ادارےے لکھے کہ میں نے کفر کیا ہے آج پھر میں وہ کفر دوبارہ کرنے جا رہا ہوں ۔ جس کا دل چاہے فتویٰ دے۔“
محترم ۔۔۔ راقم مسکین اس سے تو بے خبر ہے کہ آپ پر کس اخبار نے اداریہ لکھا اور کس نے فتویٰ دیا۔اگر قادیانیوں کے نزدیک اپنا نرخ بڑھوانا ہے تو جو چاہے فرمائیں بہر حال آپ کے دادا مولانا مفتی محمد رمضان مفتی آگرہ موجود نہیں ۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان سے بہ ایں الفاظ فتویٰ طلب کیا جاتا کہ کیا فرماتے ہیں مفتی آگرہ اپنے ہونہار پوتے کے متعلق جو بقائمی ہو ش وحواس رو بروہزاروں گواہان کہا ہے کہ ” میں وہ کفر دوبارہ کرنے جا رہا ہوں “۔ آےا یہ قور رضا با لکفر ہے ےا نہیں۔اور اگر رضا بالکفر ہے تو رضا با لکفر سے آدمی کافر ہو جاتا ہے ےا نہیں “ ۔۔۔ ظاہر ہے فقہاءنے رضا بالکفر کو کفر کہا ہے۔آپ کے دادا بھی یہی فتویٰ دیتے۔ نہ جانے ان کے خلاف آپ کا کیا ردِ عمل ہوتا۔
محترمی ۔! کبھی نہ بھولےے کہ آپ قادیانیوں کو مسلمانوں میں شامل کر سکیں گے قادیانی ایسی بوسیدہ اور شکستہ کشتی ہے کہ اسے بچانے والا بھی ڈوبے گا۔خدا گنجے کو ناخن نہ دے گا۔ہے شوق تو جی بسم ا للہ ۔۔۔ آپ ان کی حماےت مین کھڑے رہیںامت آپ کو ماےوس نہیں کرے گی جہاں چاہیں آواز دیں خدامِ ختم، نبوة کوآپ حاضر پائی گے۔
قبلہ یہ کیا ہوا کہ دوسرے دن صفائی دینی شروع کر دی کہ میرا دادا مفتی تھا میں ختمِ نبوة کا قائل ہوں۔میں مسلمان ہوں ۔ آپ کے اس بیان سے تو خوشی ہوئی کہ آپ کو احساس ہو گیا لیکن ڈنڈی نہ مارےے یہ سیاست نہیںایمان کا مسئلہ ہے اگر اس بیان میں مخلص ہیں تو منکرینِ ختمِ نبوة قادیانیوں کی حماےت حضور ﷺ کے دشمنوں سے ےاری سے دست بردار ہون ۔ آپ بھی لندن میں قادیانی قیادت بھی لندن میں ۔ دو قائدین کی درون خانہ رازداری و مجبوری اسے اپنی ذات تک رکھےے لاکھوں شیداےانِ اسلام و خدامِ ختمِ نبوة متحدہ کے ووٹروں کا اپنے مفادات کے لےے سودا کرنا ایک قائد کے شاےانِ شان نہیں۔ تلخ نوائی کی معافی
جان کی امان پاو¿ں تو عرض کروں پر اسے محمول فرما لیجےے چودہ سو سال قبل سےدنا حسانؓ نے حضور ﷺ کے مخالفین سے کہا تھا ” میری جان ‘ عزت سب کچھ حضور ﷺ کے نام پر قربان ۔اسی کو دہرا کر ختم کرتا ہوں
شاےد کہ اتر جائے ترے دل مین میری بات
یوٹیوب بھی کیا چیز ہے یہ گڑھے مردے بلکہ بدبودار مردے اکھاڑنے کا کام اچھا کررہی۔ ہم الطاف حسین سے مبشر لقمان کا انٹرویو سن رہے تھے کہ اس نے مزید ایسی ویڈیوز کو سماعت اور بصارت کے لیے پیش کردیا جس میں مبشر لقمان صاحب کی کوشش یہی ہے کہ مذکورہ قادیانیوں کو کسی طرح مسلمان قرار دلوادیں۔ ان ویڈیوز میں محمد علی درانی کے انٹرویوز کے علاوہ کالم نگار المروف "گالم گلوچ” نذیر ناجی کا بھی انٹرویو شامل ہیں۔ مبشر لقمان کی طرف سے بار بار احمدیوں کے "حقوق” کے لیے آواز اُٹھانا، ان کی "مظلومیت” کا رونا رونااور ان کو کسی طرح مسلمان قرار دلوانا تو اس لیے باعث حیرت نہیں کیوں کہ یہ ان کا مذہب ہے اور اپنے مذہب کو بہتر ثابت کرنا ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے۔ لیکن نذیر ناجی کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اگر ڈاکٹر عبدالسلام نے نوبل انعام حاصل کیا ہے تو ایک غیر مسلم قلیت سے تعلق رکھنے والے اس پاکستانی کے لیے اس اعزاز کو کون نہیں سراہتا لیکن آپ ان کو مسلمان قرار دے کر کیا ثابت کرنا چاہتے۔ ایک لبرل مسلمان یا پھر یہ آپ کا مسلک ہے جس کا تاحال آپ نے اقرار نہیں کیا یا پھر کچھ اور ۔ میں نذیر ناجی کے انٹرویو کو ٹرانسکرائب نہیں کررہا تاکہ آپ خود سماعت فرمائیں وہ سب کچھ جو نذیر ناجی صاحب فرما رہے ہیں۔ نذیر ناجی صاحب کا اگر اپنا موقف دینا چاہیے تو یہ تلخابہ کے نام سے یہ ڈسکشن فورم ان کو خوش آمدید کہے گا۔ اسی طرح مبشر لقمان صاحب کا موقف بھی شائع کیا جائے گا۔ یہاں ایک اور سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ ہر متنازعہ اینکر پرسن "نیوزون” سے ہی فلائٹ کیوں پکڑتا ہے ? اس بارے میں طاہر علی خان صاحب کو سوچنا چاہیے۔
یہاں یہ وضاحت پیش کروں کہ پوری دنیا کے سامنے احمدیوں کو مظلوم ثابت کیا جاتا ہے اوراس میں اس قدر مبالغہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے کہ ایک سادہ لوح مسلمان کو ان پر ترس آنے لگتا ہے حالانکہ ان بدمعاشوں کی پاکستان کے خلاف سازشوں کی تفصیل اتنی خوفناک ہے کہ بندہ پریشان ہوجائے۔ اس وقت بیورکریسی اور فوج سے لے کر پولیس اور یونیورسٹی پروفیسر تک کون کون سا شعبہ ہے جہاں قادیانی نہیں ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ کسی نے زیادتی نہیں کی۔ اور پھر عبدالسلام کی پزیرانی نہ ہونے کا واویلہ مچانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر انہوں نے یہ مقام حاصل کیا ہے تو ان کو اقلیت ہونے کے مواقع فراہم تھے اس لیے یہ ممکن ہوسکا کہ وہ نوبل انعام حاصل کرسکے۔ لیکن اگر کوئی مملکت خداداد پاکستان کے مسلمان میں ایک خودساختہ مذہب کی تبلیغ کرے گا تو اس کا نہ دین اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی آئین پاکستان۔ الطاف حسین یا نذیر ناجی شوق سے اپنی عاقبت خراب کرکے ان کو تبلیغ دینے کی اجازت دیتے رہے۔