
In پاکستان,بین الاقوامی تعلقات on اکتوبر 28, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: ایران، پاکستان ، سیستان دھماکہ، دہشت گردی ، الزام تراشی ،
’’ایران ہمیشہ پاکستان مخالف کارروائیوں میں ملوث رہا ہے، زاہدان اور چہار باغ میں ’’را‘‘کے اڈوں سے ہمارے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اکہتر کی جنگ کے دوران بلوچستان پر قبضے کی دھمکی دی تھی۔ ایٹمی ہتھیاروں کے معاملے میں بھارت کے مشورے ہر پاکستان کو پھنسوایا تھا، سابق سفارت کار ڈاکٹر نذیر ذاکر‘‘یہ آج روزنامہ امت کراچی کے صفحہ چھ پرشائع ہوئے ایک انٹرویو کی سرخی اور ذیلی سرخیوں کے الفاظ ہیں۔ (پورا انٹرویو پڑھنے کے یہاں کلک کریں)۔
کچھ تین برس قبل ایران کے قومی تقریبات میں شرکت کرکے واپس آنے والے ایک دانشور نے ایک نجی محفل میں جب ایران کو پاکستان کے لیے انڈیا سے زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا تو یہ بات مجھ سے ہضم نہیں ہوئی لیکن مذکورہ دانشور نہ صرف یہ کہ ایران کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوئے پائے گئے تھے بلکہ وہ اپنے مضامین اور کالموں کے سبب ان کا شمار ایران کے حمایتیوں میں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں نے ان کی اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
تاہم ۱۹ستمبر کو ایران کے صوبہ سیستان میں خودکش حملے میں پاسداران انقلاب کے کئی اعلیٰ کمانڈروں سمیت ۵۰ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس المناک حادثے کے بعد ایران کے ردعمل نے مجھ تین برس قبل اس دانشور کی بات یاد دلادی۔ حیرت انگیز طورپر ایران نے برطانیہ اور امریکا پر بھی الزام لگایا۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ پاکستان کو آخر ایران میں دھماکے سے کیا فائدہ پہنچتا ہے اور اگر ایران کے پاس پاکستان کے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اندر کچھ عناصر کے اس واقعہ میں ملوث ہونے کے ثبوت تھے بھی تو اس نے بیان بازی کے بجائے حکومت پاکستان سے شیئر کیوں نہیں کیے۔ اس نے بھارت والا طرز عمل کیوں نہ اپنا یا؟ آخر بھارت اور ایران میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران ریاست پاکستان کو بحیثیت مجموعی اپنا دشمن سمجھ کر اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے؟
اس افسوس ناک واقعہ جس میں ۵۰ سے زائد ایرانیوں کی جانیں چلی گئیں کے صرف پانچ دن بعد ایران نے بھارتی طرز عمل اپناتے ہوئے پانچ پاکستانیوں کی لاشیں پاکستان بھیج دی اور دعویٰ کیا کہ یہ سیستان دھماکے میں جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ حقائق اس دعویٰ کو جھٹلاتے نظر آتے ہیں۔
ایران نے پانچ پاکستانیوں کی میتیں حوالے کردیں، تشدد کے نشانات ، تمام افراد خودکش حملے میں مرے، ایران کا دعویٰ ۔ بم دھماکہ نہیں تشدد کے نشانات ہیں۔ پاکستانی حکام۔ گرفتاری کے بعد ہلاک کیا گیا، ورثا۔ خبر کی تفصیل کے مطابق ایرانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ تمام افراد سیستان میں ہونے والے خودکش حملے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر زاہد شاہ کے مطابق میتیوں کے ابتدائی طبی معائنے سے کسی مرنے والے کے جسم پر بم دھماکے کے زخموں کے نشانات نہیں۔ مقامی پولیس انسپکٹر عابدعلی کا کہنا ہے کہ پانچوں کے جسموں پر تشدد کے نشانات ہیں ۔ ۲ لاشوں کے کانوں سے خون نکل رہا تھا۔ ورثا نے الزام عائد کیا ہے کہ تمام افراد گرفتار کرکے ہلاک کیے گئے۔( پوری خبر کے لیے یہاں کلک کریں)
ادھر ایران کے پاسداران انقلاب نے اپنی حکومت سے درخواست کی کہ سیستان بلوچستان میں خودکش حملے میں ملوث افرادکو پاکستان سے طلب کیاجائے ورنہ انہیں اجازت دی جائے کہ وہ خود ان افراد سے نمٹ لیں۔ایرانی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے پاسدارن انقلاب کے زمینی لشکر کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد پاکپور نے کہا ہے کہ ایران کی وزارت خارجہ پاکستان سے مذاکرات کر کے دہشت گردوں کی گرفتاری اور حوالگی کا مطالبہ کرے۔یا حکام انہیں اجازت دیں کہ پاسداران انقلاب خود ان دہشت گردوں سے نمٹ لے۔
حیر ت انگیز طور پر امریکی پالیسیوں کے سب سے بڑے ناقد ایران کے پاسداران انقلاب کا یہ طرزعمل بالکل بے لگام امریکا کی طرح ہے۔ یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ پاسداران انقلاب کو پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی اجازت دی گئی ہے ہا نہیں البتہ
اس کے علاوہ فرقہ وارانہ کارروائیوں میں ملوث سپاہ محمد کے کارکن اور سزا یافتہ دہشت گرد ارشد موٹا کی ایران روپوشی کا بھی انکشاف ہوا۔( خبر کے لیے یہاں کلک کریں)
یہ ساری بری خبریں ہیں۔ چمن دھماکے میں ایران کا بڑا نقصان ہوا ہے لیکن اس واقعہ سے فائدہ کس کو ہوا ہے یہ قابل غور وقابل تحقیق موضوع ہے۔ ایران کو چوٹ پہنچی ہے لیکن وہ بھول رہا ہے کہ پاکستان اس کا ہمسایہ ہی نہیں اس کا برادر اسلامی ملک بھی ہے۔ اگر کبھی ایران پر حملہ ہوتا ہے اور پاکستانی حکمران اس کا ساتھ دیں یا نہ دیں پاکستانی عوام فرقے اور مسلک سے بالاتر ہوکر اپنے ایرانی بھائیوں کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ ایران کا سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کرنا بہت بڑا احسان ہے لیکن اس وقت حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کو اپنی صفحوں میں سے ایسے عناصر کو باہر نکالنا ہوگا جو ان برادر ممالک کے تعلقات کو کشیدہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ایران یاد رکھے کہ امریکا اور اس کے حواری تمام مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ یہ سنی عراق او ر پاکستان ہے یا شیعہ ایران۔ پھر ہم کیوں دشمنوں کو موقع دیں؟ ایران کو پاکستان کے دوست ہونے کا ثبوت دینا ہوگا اور عالمی دہشت گردوں ، امریکا اور بھارت والا طرز عمل ترک کرنا ہوگا۔