Posts Tagged ‘ایم کیو ایم’

Articles

میرے شہر کے بچوں کے ہاتھ میں بندوق آگئی

In پاکستان,دہشت گردی on ستمبر 15, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: ,

  عید کے روز گھر کی بالکنی میں آیا تو ان بچوں کو دیکھا جو بڑے فخر کے ساتھ کھلونا بندوقوں کی نمائش کررہے تھے۔ میرے گھر سے چار گلیاں آگے پختونوں اور اردو بولنے والوں کی مخلوط آبادی ہے۔ ان تصویروں میں آپ ان دونوں قومیتوں کے بچوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان بچوں کے ہاتھ میں کھلونے ہونے چاہیےتھے لیکن آج کراچی کے ماحول نے ان کے ہاتھوں میں کھلونا بندوقیں تھمادی ہیں۔ ہمارے ایک ہردلعزیز شاعرمگر دوراندیش دوست اس کو کھلونا بندوق نہیں بلکہ بندوق کہتے ہیں۔ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے؛
وہ طفل جن کے ہاتھ میں ہونے تھے کھلونے
افسوس ان کے ہاتھ میں بندوق آگئی
مرد و عورت کے رجحانات کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ بچوں کے سامنے کھلونے رکھ دیے گئے تو لڑکیوں نے گڑیاں جبکہ لڑکوں نے کاریں ‘ موٹر بائیک وغیرہ کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا۔ ہماے دوست نے بجا کہا ہے کیوں کہ یہ کھلونے کو”چوز“ کرنا نہیں بلکہ ایک” وے آف لاف“ کو اختیار کرنا ہے ۔
اہل کراچی کو اس کے لیے ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کا ’’شکرگزار‘‘ ہونا چاہیے۔ اور شکریہ کے طور پر اسی طرح ان کو ووٹ دیتے رہنا چاہیے تاکہ وہ میرے شہر کے بچوں کو اُن کی ’’منزل مقصول‘‘ تک پہنچا دیں ۔
(آخری تصویر کے لیے روزنامہ امت کا شکریہ)

Articles

بے چارے ترجمان

In فوج,میڈیا,پاکستان on اگست 30, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , , , , ,

تحریر :علی خان
مصیبت تو ان بے چاروں کی ہے جن کے کاندھوں پر ترجمانی کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ پارٹی کے سربراہ کچھ بھی کہہ کر الگ جا کھڑے ہوتے ہیں جیسے محاورہ ہے کہ ”بھُس میں چنگی ڈال بی جمالو دور کھڑی۔“ چنگی میں غالباً چ کے نیچے زیر ہے اور یہ چنگاری کی نصفیر ہوسکتی ہے ورنہ پیش والی چنگی پر تو محصول وصول کیا جاتا ہے اور اب یہ چنگیاں جگہ جگہ لگی ہوئی ہیں، ہر آدمی اپنی زندگی کا محصول ادا کررہا ہے۔ لیکن بی جمالو بھی بھُس ہوگا تو اس میں چنگی ڈالے گی۔ اسے چھوڑیے کہ بی جمالو کون ہے، سب جانتے ہیں، مگر یہ بھُس کیا ہے؟ سوچیے۔
ترجمانوں پر بڑا ستم ہے، اور جب یہ ترجمانی بی بی فوزیہ وہاب کی طرف سے ہو تو اچھے خاصے کامیڈی سرکس کا مزہ آجاتا ہے۔ وضاحت کا بوجھ فیصل رضا عابدی پر بھی ڈال دیا جاتا ہے مگر وہ ہوشیار آدمی ہیں، جارحانہ انداز اختیار کرکے صاف بچ نکلتے ہیں۔ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر کا تو ایک ہی کام ہے کہ ہر خبر کی تردید کردی جائے خواہ وہ جوتا اُچھالنے کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو۔ موبائل پر ایک ایس ایم ایس ملا ہے کہ ایک رہنما نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ ان کی پریس کانفرنس مسجد میں ہوا کرے گی سبب اس کا یہ کہ وہاں لوگ جوتے اُتار کر داخل ہوتے ہیں۔ شاید یہ اعلان من گھڑت ہو ورنہ تو مسجدیں بھی خود کش حملہ آوروں سے محفوظ نہیں اور یہ جوتے سے زیادہ خطرناک ہے۔ پھر جن کو اپنے جوتوں کا تحفظ درکار ہوتا ہے وہ مسجد میں بھی جوتے بغل میں دبا کر داخل ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا، میاں جوتے اپنے سامنے رکھنے سے نماز نہیں ہوتی۔ جواب ملا جوتے پیچھے رکھنے سے جوتے نہیں رہتے۔ اس کا تجربہ سبھی کو ہوگا بشرطیکہ مسجد میں گئے ہوں۔ ایک شاعر نے کہا تھا کہ:
اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہوشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
برمنگھم کے ہال میں داخل ہونے والا پی پی کا کارکن شمیم خان بھی دیکھنے میں تو خضر صورت ہی لگا مگر اسے خود ننگے پاﺅں گھر جانا پڑا۔ سنا ہے کہ اس کے جوتے ضبط کرلیے گئے تھے۔ جوتا ولایتی تھا، ہدف دیسی،اس سانحہ پر بھی ترجمانوں نے کئی وضاحتیں کیں اور ہر وضاحت دوسری سے مختلف۔ لیکن لوگ امریکی صدر بش کے کلب میں شمولیت پر فخر کرتے پائے گئے ہیں۔
آج کل سب سے زیادہ مشکل میں متحدہ قومی موومنٹ کی پوری ٹیم ہے۔ بوجھ وہ آن گرا ہے کہ اٹھائے نہ بنے۔ ہمت کی داد نہ دینا نا انصافی ہوگی۔ ہمیں ایک ترجمان کا قصہ یاد آگیا۔ ایک بھائی کو شیخیاں مارنے کی عادت تھی۔ پہلے تو ایسے لوگ کم کم ہوتے تھے اور جو ہوتے تھے وہ میاں خوجی کی طرح افسانوی کردار بن جاتے تھے، اب ایسے لوگ سیاست میں آجاتے ہیں۔ تووہ صاحب اپنے شکار کے قصے سنا رہے تھے۔ کہنے لگے ایک ہرن پر اس طرح گولی چلائی کہ اس کے کُھر سے ہوتی ہوئی سر سے نکل گئی۔ سننے والے نے تعجب کا اظہار کیا تو مصاحب خاص نے ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ہرن اس وقت اپنے کُھر سے سر کھجا رہا تھا۔
اس وقت بہت سے لوگ اپنے کُھروں سے سر کھجا رہے ہیں۔ الطاف بھائی تو شوشا چھوڑ کر الگ جا کھڑے ہوئے۔ ان کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں آرہی لیکن متحدہ کا ہر نمایاں اور غیر نمایاں شخص وضاحتیں کرتا پھر رہا ہے۔ چینل والے بھی کسی نہ کسی کو پکڑ لیتے ہیں اور بال نہ ہو تو کھال اُتار رہے ہیں، دوسروں کے لیے اپنی کھال بچانا دشوار ہورہا ہے۔
ملک جس وقت سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا، الطاف بھائی نے اس پانی میں مارشل لا کی کشتی اتار دی۔ 22 اگست کو ”اپنی قوم“ سے خطاب کرتے ہوئے وہ فوج کو مارشل لا لگانے کی دعوت دے بیٹھے۔ پانی ساکت تو نہیں تھا لیکن بھائی نے جو بھاری پتھر پھینکا اس سے نئے بھنور اُٹھ رہے ہیں، نئے دائرے بن رہے ہیں اور ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ ان کے ترجمان رضا ہارون سے لے کر ڈاکٹر فاروق ستار تک اور حیدر عباس رضوی سے بابر غوری تک بھائی کے ایک ایک جملے اور نکتے کی تفسیر بیان کررہے ہیں، سمجھا رہے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں یہ ہے۔ لیکن بھائی کا خطاب ریکارڈ پر ہے جو بار بار بجایا جارہا ہے۔یہ ہز مسٹرز وائس ہے کہ انکار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ الطاف حسین نے واضح طور پر کہا ہے کہ محب وطن جرنیل اگر مارشل لا جیسا قدم اٹھائیں گے تو وہ اور پوری ایم کیو ایم ان کی حمایت کرے گی۔ یہ صاف صاف مارشل لا لگانے کی دعوت ہے۔ مگر ترجمان چونکہ، چنانچہ، اگر‘ مگر کررہے ہیں۔ الطاف بھائی کی پارٹی مرکز اور صوبہ سندھ میں اقتدار میں شریک ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ خود وزیراعظم یا الطاف بھائی کے دوست آصف علی زرداری ان سے براہ راست پوچھتے کہ اس پردہ زنگاری میںکون ہے اور اقتدار میں رہتے ہوئے جنرلوں کو مارشل لا لگانے کی دعوت دینے کا مقصد کیا ہے۔ مگر وزیر اعظم تو اس پر تعجب کا اظہار کرکے رہ گئے۔ قمر زمان کائرہ نے بھی کھل کر مذمت نہیں کی اور ایوان صدر میں خاموشی طاری ہے۔ بعض باتوں کا شافی و کافی جواب بے شک ”باشد خموشی“ ہوتا ہے مگر کبھی کبھی خاموشی نیم رضا کے مصداق بھی ہوتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ الطاف حسین نے بلا سوچے سمجھے ایک بات کہہ دی۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں خوب سوچ سمجھ کر اور اس کے نتائج کا جائزہ لے کر کہتے ہیں۔ خطاب سے پہلے کئی دن تک لکھ کراس کی مشق کرتے ہیں۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری سے یہ جملے منتخب کیے ہیں کہ ” محب وطن“ جرنیل آگے بڑھیں اور جاگیرداروں، وڈیروں کے خلاف مارشل لا جیسے اقدامات کریں۔ اس میں کئی نکات وضاحت طلب ہیں جن کی تفسیر ان کے حواریوں سے بھی نہیں بن پارہی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بدعنوان جرنیلوں کی مذمت کی اور صرف محب وطن جرنیلوں کو ہلا شیری دیا ہے۔ لیکن جو بھی جرنیل مارشل لا لگائے یا ماضی میں لگایا اُسے محب وطن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حب الوطنی یہ نہیں کہ ایم کیو ایم کی آنکھ بند کرکے پشت پناہی کی جائے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی تخلیق میں بھی فوج کا ہاتھ تھا۔ آئی ایس آئی کے ایک ڈی جی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایم کیو ایم، جئے سندھ تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی۔ لیکن پر، پرزے نکالتے ہی الطاف حسین نے سب سے پہلے جی ایم سید کے در پر حاضری دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بنگلہ دیش کی تاریخ نہیں دوہرائیں گے جب عوام نے پاک فوج کا ساتھ دیا اور فوج ان کو چھوڑ کر الگ ہوگئی۔ اب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ 1971ءمیں الطاف حسین گلیوں میں کھیلتے ہوں گے۔ بنگلہ دیش کی تاریخ سے ان کا کیا واسطہ۔ وہاں تو متحدہ پاکستان کے لیے البدر اور الشمس قربانیاں دے رہی تھی جو آج بھی الطاف بھائی کے نشانے پر ہے کہ حب الوطنی کا مظاہرہ کیوں کیا۔ بہرحال یہ ریکارڈ پر ہے کہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں فوج نے ایم کیو ایم بنوائی تاکہ کراچی سے محب وطن جماعتوں کا اثر، رسوخ ختم کیا جائے۔ پھر اسی فوج نے 1992ءمیں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا۔ الطاف حسین طویل عرصہ تک فوج کو بُرا، بھلا کہتے رہے۔ 1988ءکے انتخابات میں الطاف حسین نے فوج کے تعاون سے قائم ہونے والی بے نظیر حکومت سے اتحاد کیا اور اسی اشارے پر اتحاد سے باہر آکر نواز شریف سے تعاون کیا۔ وہ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ انہیں ایک ایجنسی نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا اور انہوں نے کامل اطاعت کا مظاہرہ کیا، غالباً وہ محب وطن جرنیل تھے۔ پھر متحدہ کو جنرل پرویز مشرف جیسے محب وطن مل گئے اور کہا جانے لگا کہ جنرل پرویز مشرف اسلام آباد میں متحدہ کے سیکٹر انچارج ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ”مارشل لا جیسے اقدامات“ کیا ہوتے ہیں؟ مارشل لا تو مارشل لا ہی ہوتا ہے۔ شاید الطاف حسین کے ذہن میں جنرل پرویز مشرف کے اقدامات تھے جنہوں نے اقتدار پر قبضہ تو کیا مگر مارشل لا کا اعلان نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو صدر منتخب کروانے کے بعد بھی آرمی چیف کی حیثیت سے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو گھر بھیج کر عملاً مارشل لا لگا دیا۔ الطاف نے کہا ہے کہ محب وطن جرنیل مارشل لا جیسا اقدام، جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف کریں۔ عجیب منطق ہے! متحدہ کی پوری ٹیم اس بات کا جواب نہیں دے پارہی کہ یہ مارشل لا جیسے اقدامات کیا ہوتے ہیں اور ایک سول حکومت کے ہوتے ہوئے فوج کیسے مارشل لائی اقدامات کرے گی؟ حیدر عباس رضوی مصر ہیں کہ الطاف بھائی نے مارشل لا کو دعوت نہیں دی، ایم کیو ایم جمہوریت پسند جماعت ہے مگر جاگیردارانہ جمہوریت کو جمہوریت نہیں سمجھتی۔ کیاخوب۔ اس کے باوجود وہ اس حکومت کا حصہ ہے جو متحدہ کے نزدیک جمہوری نہیں ہے۔ اس پر الطاف حسین ہی کا جملہ یاد آتا ہے جو وہ اکثر لہک لہک کر سناتے ہیں کہ ”میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو“۔ جب تک اقتدار کا میٹھا مل رہا ہے تب تک اس غیر جمہوری حکومت کا حصہ بننے میں کوئی ہرج نہیں۔
اس کی بھی کوئی وضاحت نہیں کہ محب وطن جنرلوں کی پہچان کیا ہے، فوج میں ان کی تعداد کتنی ہے اور باقی اگر محب وطن نہیں تو ان کا ردعمل کیا ہوگا۔ الطاف بھائی کے کاﺅ بوائز بڑی مشکل میں ہیں، الطاف حسین کے بیان سے لگتا ہے کہ ان کے مخاطب جنرل اشفاق پرویز کیانی ہیں جنہوں نے این آر او کی تشکیل میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے ضامن کا کردار ادا کیا۔ وہ این آر او جس کی وجہ سے متحدہ پر سیکڑوں فوجداری مقدمات ختم ہوگئے تھے۔ اب میاں نواز شریف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف سے کیے گئے خفیہ سمجھوتے کی وضاحت کریں جس کے تحت وہ سعودی عرب جاسکے۔ ضرور وضاحت طلب کرنی چاہیے لیکن جنرل پرویز مشرف نے جو این آر او جاری کیا تھا اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں متحدہ سب سے آگے تھی۔ الطاف حسین پر اب بھی مقدمات قائم ہیں، انہیں عدالت سے مفرور قرار دیا گیا۔ ان کے واپس نہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے اور یہ حقیقت بھی نظر میں رہے کہ الطاف حسین پر کئی مقدمات قائم ہونے کے باوجود وہ فوج کی مدد ہی سے ملک سے باہر گئے تھے۔ جہاں انہوں نے برطانوی شہریت حاصل کرکے اپنی منزل پالی اور کارکن کہتے رہ گئے کہ ہم کو منزل نہیں، رہنما چاہیے۔ کیا احمقانہ بات ہے۔ رہنما منزل کی طرف ہی تو رہنمائی کرتا ہے اور یہ رہنما سب کو چھوڑ چھاڑ کر برطانیہ کو اپنی منزل قرار دے کر بیٹھ رہا۔ اب مارشل لا لگانے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ الطاف بھائی نے جو کچھ کہا بالکل صحیح کہا اور ان کے ایک ایک لفظ کا دفاع کریں گے۔ الطاف بھائی نے اپنے کارکنوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے۔ ایسے کارکن بھی تھے جنہوں نے بھائی کے حکم پر نماز کی نیت توڑ دی تھی کہ اللہ کو تو بعد میں بھی منایا جاسکتا ہے، وہ بخش دینے والا ہے۔ ایک زمانے میں الطاف بھائی کی ولایت کا خوب چرچا ہوا تھا اور وہ شجر وحجر میں جلوہ گر ہورہے تھے۔ ایک مسجد کے سلیب پر ان کی شبیہہ نمودار ہوئی تو صحن سے وہ سلیب ہی اکھاڑ کر الطاف بھائی کے دروازے پر رکھ دیا گیا۔ جس کو ایسے معتقد میسر ہوں وہ ہواﺅں میں تو اُڑے گا۔ مگر اب ان کی ایسی کرامتوں کے چرچے بند ہوگئے ہیں۔ شاید کارکنوں کو بھی اندازہ ہوگیا ہے۔ تاہم پیر صاحب کے اشارے پر آج بھی کراچی میں بہت کچھ ہوجاتا ہے۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ الطاف حسین نے فوج کو مارشل لا لگانے کی دعوت کیوں دی ہے۔ یہ بے مقصد نہیں ہے۔ اس کا فوری فائدہ تو یہ ہوا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بار بار متحدہ کا جو نام آرہا تھا وہ اس نئی بحث کے سیلاب میں کنارے لگ گیا ہے۔ اب سب کی توجہ مارشل لا کے حوالے سے الطاف حسین کی دعوت پر مرکوز ہے۔ لیکن کیا صرف یہی ایک بات ہے؟ یہ بھی نظر میں رہے کہ الطاف حسین نے فوج کو مارشل لا لگانے کی دعوت لندن میں امریکی سفارت کار سے تین گھنٹے کی ملاقات کے بعد دی ہے۔ جنرل کیانی کو مارشل لا کی کھائی میں دھکیلنے کے مشورے کے پیچھے اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایک تجزیہ یہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث متحدہ کے کارکنوں پر فوج کی ایجنسیوں نے ہاتھ ڈالا ہے، پولیس اس کی جرات نہیں کرتی۔ تو یہ فوج کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ ہم پر ہاتھ نہ ڈالا جائے، ہم آپ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ مگر کیا فوج ان کا مشورہ قبول کرلے گی۔ ایسے حالات نہیں ہیں۔ خزانہ خالی ہے، ملک سیلاب کی آفت میں گھرا ہوا ہے، مستقبل معاشی اعتبار سے بحران میں مبتلا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ایسے میں فوج کبھی بھی مارشل لا کی گھنٹی اپنے گلے میں نہیں باندھے گی۔ اس کی خواہش یہی ہوگی کہ ان مسائل سے سول حکومت ہی نمٹے۔ الطاف بھائی کے مشورے پر فوج اس کھائی میں کودنے کو تیار نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج ہمیشہ سے اقتدار میں رہی ہے، کبھی آکے منظر عام پر، کبھی ہٹ کے منظر عام سے۔
اب اگر یہ کہا جائے کہ متحدہ ایسی حکومت سے الگ کیوں نہیں ہوجاتی جس پر جاگیرداروں کا قبضہ ہے اور جو جمہوری بھی نہیں تو جواب آئیں، بائیں، شائیں ہوتا ہے۔ بحث چل رہی ہے، تحاریک استحقاق اور تحاریک التوا جمع کرائی جاچکی ہیں۔ لوگ سیلاب میں ڈوب رہے ہیں، کھانے پینے کو، نہ رہنے کو۔ لیکن دانشوروں کو بحث کے لیے ایک اور عیاشی فراہم کردی گئی ہے۔ کیا ضرور ی ہے کہ ہر بات کا جواب دیا جائے؟ کسی کا شعر ہے:
تامرد سخن ناگفة باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
یعنی جب تک کوئی منہ نہ کھولے، اس کے عیب و ہنر پوشیدہ رہتے ہیں۔ الطاف بھائی میں خوبی یہ ہے کہ وہ سخن طرازی، سخن گستری سے گریز نہیں کرتے۔ اس طرح سب کچھ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ مگر پھر حواریوں کی مشکل آجاتی ہے کہ پردہ پوشی کیسے کی جائے، عیب کو ہنر کیوں کر ثابت کیا جائے۔ بہر حال لوگ مقابلہ تو خوب کررہے ہیں لیکن مارشل لا جیسے اقدامات کی وضاحت مشکل ہوگئی ہے۔ جولیس سیزر پر حملہ کرنے والوں میں اس کا قریبی دوست بروٹس بھی شامل تھا۔ جب اس نے بھی پیٹھ میں خنجر گھونپا تو جوبس سیزر نے بڑی حیرت سے کہا YOU TOO BRUTUS ۔ جنرل کیانی نے کیا کہا ہوگا، یہ ہماری سماعتوں تک نہیں پہنچ سکا۔

Articles

ایم کیو ایم : عوامی مینڈیٹ کی حقیقت

In فوج,پاکستان on اگست 26, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , , ,

برطانوی شہریت کے حامل قائد ِتحریک کے بیان کے بعد سے ٹی وی پروگراموں اور اخبارات کے صفحات پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ رکتا د کھائی نہیں دے رہا۔ ان ماہرانہ تجزیوں میں الطاف حسین کے بیان کے منظر، پس منظر، ٹائمنگ، اثرات، امکانات اور خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کیا الطاف حسین نے یہ بیان امریکا اور فوج کی آشیرواد سے دیا ہے؟ کیا ملک میں مارشل لا لگنے والا ہے؟ کیا یہ مارشل لا کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے؟ کیا تبدیلی کا وقت آچکا ہے؟ کیا الطاف حسین کو احساس ہوگیا ہے کہ اپنی من مانی کے لیے سیاسی سے زیادہ پرویزمشرف کے دور کی طرح فوجی حکومت ان کے لیے زیادہ بہتر ہے؟ یہ اور اسی طرح کے کئی اور سوالات اُٹھائے جارہے ہیں، ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے کو فوج کا ساتھی ہونے کا طعنہ دیا جارہا ہے۔ کچھ صحافی اور سیاست دان جرات ِاظہار کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے بپھرے رہنماﺅں سے یہ سوال بھی کرتے نظر آرہے ہیں کہ اگر 63 برسوں میں سیاست دانوں نے بدانتظامی اور بدعنوانی کی تاریخ رقم کی ہے تو فوجی مارشل لاﺅں نے بھی اس قوم کو آگے بڑھنے نہیں دیا، بلکہ امن و امان کی خراب صورت حال اور زرداری جیسے لوگوں کی حکومت بھی فوج کی دین ہے۔ یہ سب سوال اہم ہیں، لیکن اس ساری بحث کے دوران ایک اہم نکتے کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ برطانوی شہریت والے پاکستانی قائد ِتحریک کا جو بیان اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے اس کے مطابق انہوں نے ”محب وطن“ فوجی جرنیلوں کی طرف سے جاگیرداروں اور کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف مارشل لا جیسے اقدام کی حمایت کا اعلان کیا اور امریکا سے بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بجائے ”عوام“ کا ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ الطاف حسین کے بیان میں عوام سے مراد ”ایم کیو ایم“ والے ہیں۔ فوجی جرنیلوں سے فوجی اقدام اور امریکا سے اس کی حمایت کے مطالبے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ الطاف حسین اقتدار میں آنے کے لیے ان دونوں کی منظوری ناگزیر سمجھتے ہیں۔ اس کو راقم الحروف کی توضیح سمجھا جاسکتا ہے، اس لیے ہم یہاں چیخنے چلاّنے کے لیے مشہور ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کا وہ جملہ من وعن نقل کرتے ہیں جو انہوں نے ٹی وی پروگرام میں ادا کیا اور جس میں انہوں نے الطاف حسین کے اس نکتے کی تشریح کی ہے۔ انہوں نے پروگرام کے شریک مہمان احسن اقبال اور پروگرام کے میزبان سے پوچھا کہ آج تک کون سی حکومت فوج اور امریکا کی مرضی کے بغیر آئی ہے؟ انہوں نے سوال کیا کہ ”کیا پاکستان میں کوئی فوج اور امریکا کے بغیر انتخاب جیت سکتا ہے؟“ اور پھر خود ہی جواب دیا کہ نہیں۔ایم کیو ایم کی قیادت نے نہ صرف اس بات کا اعتراف کیا کہ ایم کیو ایم خود فوج اور امریکا کے بل بوتے پر انتخابات جیتتی آئی ہے بلکہ دیگر جماعتوں پر بھی الزام لگایا کہ اُن کا ووٹ بینک دراصل عوامی نہیں بلکہ فوج اور امریکا کی مرضی ہے۔ ووٹ بینک کے تذکرے پر ضمنی بات کرتے چلیں کہ سسی پلیجو کے حلقے کا ایک آدمی ٹی وی غالباً ”سی این بی سی“ پر گلہ کرتا پایا گیا کہ میں نے انہیں پورے تین ووٹ ڈالے ہیں لیکن آج حال یہ ہے کہ آٹے کے تینوں ٹرک وہ اپنے گھر لے گئیں اور ہمیں پوچھا تک نہیں۔ اس پر ساتھ کھڑے دوسرے شخص نے کہا کہ میں نے تو 5 ڈالے تھے جس کا اب مجھے افسوس ہے۔ سسی کے حلقے شاید عوام ہوں، لیکن کراچی میں یہ خدمت حمایتی یا عوام نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے کارکن انجام دیتے ہیں، اور پھر جہاں کُل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ہزار‘ بارہ سو ہوتی ہے وہاں بیلٹ باکسوں سے تین، چار ہزار ووٹ نکلتے ہیں۔جیسا کہ عرض کیا، کراچی کے ”ووٹ بینک“ کی مالک ایم کیو ایم کے قائد کے بیان کے بعد مارشل لا کے بارے میں تو بات ہورہی ہے لیکن کوئی اس اعتراف کے تناظر میں الیکشن کمیشن کے ادارے اور اس کے کردار پر بحث نہیں کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ الطاف حسین نے بیان دیا نہیں بلکہ اُن سے دلوایا گیا ہے تاکہ فوج کی طرف سے ممکنہ شب خون کے بارے میں رسک اسسمنٹ کیا جاسکے۔ معروف میزبان اور صحافی کامران خان کا اس موضوع پر اِسی وقت ہی سروے کرنا بھی معنی خیز اور اسی رسک اسسمنٹ مشق کا حصہ معلوم ہوتا ہے، اس لیے اس پر تمام سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار نہایت ضروری ہے تاکہ فوج کو پیغام مل سکے کہ اب کی بار اس کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم نہیں ہوں گی، لیکن اتنا ہی ضروری اس سوال کا جواب تلاش کرنا بھی ہے کہ اگر فوج اور امریکا ہی کو پارلیمنٹ تشکیل دینا ہے تو پھر جمہوریت اور انتخابات کا ڈراما ہی کیوں؟ کیوں نا اس ملک کی اصل حکمران فوج اور اس کا آقا امریکا فیصلہ کرلیں کہ کس کس کو پارلیمنٹ کا ممبر بننا ہے، کون وزیراعظم اور کون صدر کے منصب پر فائز ہوگا؟ پروگرام میں موجود احسن اقبال کا فرمانا تھا کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت بھی فوج کی نامزد کردہ ہے۔ حکومتیں تو ساری فوج کی نامزد کی ہوئی ہیں، لیکن احسن اقبال نوازشریف کی بڑے مینڈیٹ والی حکومت کو فوج اور امریکا کی نامزد کردہ حکومت نہیں کہیں گی، حالانکہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو یا مسلم لیگ ن یا ق کی…. سب کی پالیسیاں واشنگٹن کی خواہش کی عکاس رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے اعتراف کے بعد اُن لوگوں کے منہ بند ہوجانے چاہئیں جو جماعت اسلامی پر فوج اور امریکا سے تعلق کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ جماعت اسلامی کا ملک کی سب سے بڑی اسٹریٹ پاور ہونے کے باوجود انتخابی کامیابی حاصل نہ کرنا اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ جماعت اسلامی جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کے علاوہ فوجی کارپوریٹوکریسی کے عوام مخالف اقدامات کو ختم کرکے وطنِ عزیز کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی اسلامی معاشرہ بنانے کی خواہاں واحد محب وطن سیاسی جماعت ہے، اور اس کی خواہش کو نہ تو امریکا پورا ہوتا دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی ملکی دفاع کے اپنے اصل کام کو چھوڑ کر اقتدار پر براجمان ہونے کے خواہشمند فوجی جرنیلوں کو یہ منظور ہے۔ صدر زرداری نے دو دن کے توقف کے بعد زبان کھولی تو فرمایا کہ فوجی بغاوت کا خطرہ نہیں۔ اس کی وجہ ”اچھی نیت والے شخص“ کو قرار دیا، جو ان کے خیال میں حکومت گرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج کی کمان سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے ماتحتوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ باقاعدہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے دینے والے جمہوریت پسند جنرل پرویزکیانی نے الطاف حسین کے بیان کو کئی دن گزرنے کے باوجود ایک بیان جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی جس سے یہ ساری بحث ختم ہوجاتی؟ کیا آئی ایس پی آر کی خاموشی معنی خیز نہیں؟ کیا اس سے یہ تاثر درست ثابت نہیں ہوتا کہ اس وقت مارشل لا کی باتیں کرنے والے فوج ہی کی ترجمانی کررہے ہیں!الطاف حسین، پیر پگارا اور عمران خان اقتدار پانے کے لیے فوج کی ترجمانی کریں لیکن میڈیا کا فرض ہے کہ وہ سچ کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکا کی مرضی سے فوج کے کاندھوں پر سوار ہوکرآنے والوں کا اصل کردار عوام کے سامنے کھول کر رکھ دے تاکہ ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنے والوں کو شکست دے کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا جاسکے۔

Articles

ہلاک ہونے والوں میں سے قاتل کون تھا؟ایم کیو ایم کے دہشت گردوں سے سوال

In دہشت گردی on اگست 4, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

ریاض سہیل‘بی بی سی اردو کراچی
کراچی کے بارے میں حکومت کی جانب سے کئی فیصلے ہوئے جن میں سے کسی پر بھی عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ کراچی میں پر تشدد واقعات، ہنگامہ آرائی اور خوف و ہراس میں غروب ہونے والا سورج منگل کو اسی ماحول میں طلوع ہوا۔ صبح کو تمام تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز بند رہے اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کے ساتھ نجی گاڑیاں بھی نہ ہونے کے برابر رہیں۔
ماہ رمضان کی آمد اور سکولوں کی موسم گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد گزشتہ روز بازاروں اور مارکیٹوں میں گہماگہمی تھی۔ مگر آج ہر جگہ ویرانی نظر آئی۔ شہر کے دل کے نام سے پہچانے جانے والے علاقے ایمپریس مارکیٹ میں کچھ پریشان تو کچھ خوفزدہ دکانداروں سے ملاقات ہوئی۔
ان دکانداروں کا کہنا تھا کہ اچانک دو تین لڑکے آتے ہیں اور فائرنگ کر کے چلے جاتے ہیں حالانکہ ان کی دکانیں پہلے سے بند ہیں۔
ان میں اکثر ریڑھی لگانے اور مزدوری کرنے والے تھے جن کو یہ فکر تھی کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو ان کا گذارہ کیسے ہوگا۔
پاکستان کے دیگر علاقوں میں اقتصادی سرگرمیاں محدود ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی شہر کا رخ کرتی ہے۔ جس وجہ سے اس شہر کی آبادی غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پونے دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں چالیس لاکھ پشتون بھی شامل ہیں۔
دو بندر گاہوں کے ساتھ مرکزی بینک، کئی ملکی اور غیر ملکی مالیاتی اداروں اور کمپنیوں کے ہیڈ آفیس یہاں موجود ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملکی خزانے میں ساٹھ فیصد آمدن اسی شہر سے جاتی ہے۔
لانڈھی میں ایک پیٹرول پمپ کو جلانے کے بعد مرکزی شہر کے تمام پیٹرول پمپ اور سی این جی اسٹیشن قناطیں لگا کر بند کردیئے گئے تھے جس کے باعث نجی گاڑیوں کے مالکان اور ٹیکسی ڈرائیوروں کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
زینب مارکیٹ کے قریب ایک پریشان حال ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ پورا شہر بند اور سواری نایاب ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ان حالات میں وہ کیوں گھر سے نکلے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ خوف انہیں بھی آتا ہے مگر کیا کریں پیٹ کے لیے تو نکلنا پڑتا ہے۔
پچھلے ہفتے شہر میں پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کے بعد یکم جنوری سے جولائی تک ہلاکتوں کی جوڈیشل انکوائری، شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کے لیے سفارشات کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے اور رینجرز کا گشت بڑھانے اور چوکیاں قائم کرنے جیسے کئی فیصلے ہوئے جن میں سے کسی پر بھی عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر، ان کے محافظ اور عوامی نیشنل پارٹی کے دو کارکنوں کے علاوہ ہلاک ہونے والے کون ہیں؟ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ عام لوگ تھے۔ اس سے قبل بھی دو ہزار سات سے لے کر گزشتہ ہفتے تک ان پرتشدد واقعات کا نشانہ عام لوگ ہی بنے جن کے مقدمات اور تفتیش نامعلوم وجوہات کے بنا پر بند کر دی گئی۔
شام کو ایک ایس ایم ایس آیا ہے جس میں پوچھا گیا کہ ہلاک آخر ہلاک ہونے والے پچاس افراد میں سے رکن صوبائی اسمبلی کا قاتل کون تھا؟