شاہنواز فاروقی
اسلام میں شہادت کی عظمت یہ ہے کہ خود سردارِ انبیاءحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی آرزو کی ہے۔ شہادت کی اس عظمت سے جہاد اور مجاہد کی عظمت نمودار ہوتی ہے۔ مجاہد کی عظمت بیان کرتے ہوئے اقبال نے کیا خوب کہا ہے ۔
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
اقبال کے ان شعروں میں مجاہدوں کی ”پراسراریت“ یہ ہے کہ اگرچہ وہ زمین پر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں مگر ان کا تعلق زمین سے زیادہ آسمان کے ساتھ ہے۔ وہ انسان ہیں مگر فرشتوں سے بہتر ہیں۔ ان کے ذوق خدائی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جو ارادہ کرلیتے ہیں وہ پورا ہوکر رہتا ہے۔ وہ صحراﺅں اور دریاﺅں پر حکم چلاتے ہیں اور پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی بن جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ شاعرانہ باتیں ہیں۔ بھلا انسان کی ہیبت سے کبھی پہاڑ بھی رائی بنتے ہیں! مگر ہم دیکھ چکے کہ مجاہدین نے ہماری آنکھوں کے سامنے ”سوویت یونین“ کو محدود کرکے صرف ”روس“ بنا دیا۔ یہی پہاڑ کو رائی بنانے کا عمل ہے۔ کیا آپ کو محسوس نہیں ہورہا ہے کہ افغانستان میں امریکا ”سپرپاور“ نہیں ہے، صرف ایک عام ملک ہے۔ یہ پہاڑ کو رائی بنانے کی ایک اور مثال ہے۔ لیکن ایک جانب مجاہدین کا یہ عظیم تصور ہے اور دوسری جانب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا تصورِ مجاہد۔ لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کا تصورِ مجاہد کیا ہے؟ آئیے نصرت مرزا کی زبان سے سنتے ہیں جنہوں نے ۱۱فروری ۰۱۰۲ءکے روز جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا ہے:
”نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکی پاکستان میں جہادی تنظیموں پر کریک ڈاﺅن کے لیے دباﺅ ڈال رہے تھے…. آئی ایس آئی چیف نے امریکی نمائندوں خصوصاً رچرڈ آرمٹیج کو سمجھایا کہ ایک دم کریک ڈاﺅن سے شدید ردعمل ہوگا، ان کا آہستہ آہستہ سمجھایا جاسکتا ہے…. ظاہر ہے تنظیمیں ایک مقصد کے لیے کھڑی کی جاتی ہیں۔ انہیں کسی مشین کی طرح کھول کر رکھا نہیں جا سکتا۔ وہ انسانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان کو ایک دفعہ چارج کرکے ڈسچارج کرنے کے لیے وقت اور دوسری تھیوری دینے کی ضرورت ہوتی ہے…. پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کافی حد تک (جہادی تنظیموں کی پیدا کردہ) صورت ِحال پر قابو پالیا ہے اور بہت سے سوراخ بند کردیئے ہیں۔ باقی بچے ہوئے سوراخوں پر سیسہ ڈال کر انہیں بند کررہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ…. وہ ایسی حکمت ِعملی وضع کرے جو ان تنظیموں کو عزت و احترام کے ساتھ معاشرے میں بسائے اور وہ ان کی طاقت کو مثبت کاموں میں لگانے کی کوشش کرے۔“
ان سطور کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ مجاہدین کو کرائے کے فوجی اور بھاڑے کے ٹٹو سمجھتی ہے جنہیں جب چاہے کام پر رکھا اور جب چاہے ”جاب“ سے برطرف کیا جا سکتا ہے۔ ان سطور سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے لیے جہاد کوئی ”عقیدہ“ نہیں ہے بلکہ ایک ”تھیوری“ ہے جو امریکا کی ہدایت پر لپیٹ کر رکھی جاسکتی ہے اور اس کی جگہ کوئی نئی ”تھیوری“ وضع کی جاسکتی ہے۔ لکھنے کو تو نصرت مرزا صاحب نے یہ لکھا ہے کہ انسان مشین نہیں ہوتے، لیکن عملاً دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ہماری ایجنسیاں مجاہدین کو انسان کے بجائے ”روبوٹس“ سمجھتی ہیں جن میں جب چاہے جہاد کا ”پروگرام“ داخل کیا جاسکتا ہے اور جب چاہے کوئی اور تھیوری ”فیڈ“ کی جاسکتی ہے۔ جہادی تنظیموں کو معاشرے میں عزت کے ساتھ بسانے کے تصور سے خیال آتا ہے کہ جیسے جہادی تنظیمیں ”بیوائیں“ ہیں۔ چونکہ ان کا پہلا شوہر مرگیا ہے اس لیے اب ”ذمہ داروں“ کو ان کی دوسری شادی کی فکر ہے تاکہ وہ معاشرے میں نصرت مرزا کے الفاظ میں باعزت طریقے سے رہ سکیں۔ اس تجزیے کو دیکھا جائے تو اس میں نہ قرآن کے تصورِ جہاد اور تصورِ مجاہد کا کوئی پاس ہے، نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا کوئی احترام ہے۔ اس تجزیے میں صرف ایک چیز اہم ہے‘ دنیا اور اس کا (بھی) پست تصور۔ مگر سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مجاہدین کے بارے میں جو کچھ سمجھتی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟
زندگی کا اصول ہے کہ انسان جیسا خود ہوتا ہے دوسروں کو بھی ویسا ہی تصور کرتا ہے۔ بے ایمان انسان کو ساری دنیا بے ایمان نظر آتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چونکہ خود کرائے کی فوجی ہے اس لیے وہ مجاہدین کو بھی کرائے کا فوجی سمجھتی ہے۔ چونکہ اس کا کوئی ”مستقل“ عقیدہ نہیں اس لیے اس کا خیال ہے کہ مجاہدین کے لیے بھی جہاد کو مستقل عقیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے نزدیک جہاد ایک فوجی حربہ ہے اور بس۔ اور فوجی حربے کو کسی بھی وقت بدلا جا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ ذہنیت اسلام اور فکر ِاقبال کی ضد ہے، اس سے جہادی عناصر ہی کیا، صاحب ِعزت سیکولر فرد میں بھی شدید ردعمل پیدا ہو سکتا ہے۔
انسانی تاریخ میں کیسے کیسے باطل نظریات ابھرے ہیں مگر ان کے ماننے والوں نے ہر قیمت پر ان باطل نظریات کو سینے سے لگائے رکھا ہے۔ کسی کو سوشلزم سے محبت تھی اور اس نے سوشلزم کے ساتھ ستّر سال گزار دئیے۔ کسی کو سیکولر ازم سے اُنس ہے تو وہ ایک صدی سے اس کے ساتھ زندہ ہے۔ دنیا میں کروڑوں انسان ہیں جو خود کو قوم پرست کہتے ہیں اور وہ کسی قیمت پر قوم پرستی سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن ایک ہم ہیں، ہمارے پاس ”حق“ ہے مگر امریکا کا دباﺅ آجائے تو ہم اپنے حق کو بھی بدل ڈالتے ہیں۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟؟