
In پاکستان on ستمبر 25, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: رویت ہلال، مفتی منیب الرحمان ، غلام احمد بلور
اس سال بھی رویت ہلال کو متنازعہ بنادیا گیا اور اس پر ایک محاذ آرائی شروع ہوگئی ہے۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ صوبہ سرحد کی اے این پی کی حکومت نے اسے علاقائی اور مسلکی تنازع بنانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک خالص دینی مسئلہ کو اے این پی اچھال رہی ہے جو خود کو سیکولر کہتی ہے۔ اس کے وزراءکا دعوی ہے کہ سیکولرازم انسانیت کا مذہب ہے۔ تو کیا اسلام کا کوئی تعلق انسانیت سے نہیں ہی؟ ایوب خان کے دور حکومت کے بعدیہ بھی پہلی بارہورہا ہے کہ ایک صوبہ کی حکومت شرعی معاملہ میں کود پڑی ہے اور اے این پی کے وزراءعید کے بعد بھی پریس کانفرنسیں کرنے میں مصروف ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جب رویت ہلال کمیٹی کو ذمہ داری سونپی گئی ہے تو اس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ گزشتہ سال بھی کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے واضح کیا تھا کہ اگر قاضی کی طرف سے کوئی فیصلہ غلط ہو تو بھی اس کو تسلیم کرنا لازم ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اے این پی کے عزائم کچھ اور ہیں ور نہ یہ کہہ کرقومیت اور صوبائیت کو ہوا نہ دی جاتی کہ رویت ہلال کمیٹی صرف پنجاب کے لیے ہے اورپختونوں کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ وفاقی وزیر ریلوے اور اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے تمام حدیں ہی عبور کردیں۔انہوں نے فرمایا کہ” اتوارکا روزہ رکھنے والے ربوہ (قادیانیت) کے ساتھ ہیں، ہم مسلمان تبھی ہوسکتے ہیں جب مکہ ، مدینہ کے ساتھ عید منائیں“ حیرت ہے کہ غلام احمد بلور پاکستان کے عوام کی اکثریت کو غلام احمد قادیانی کے متعلقین سے جوڑرہے ہیں جبکہ خود صوبہ سرحد میں بھی بہت سے لوگوں نے اتوار کو روزہ رکھ کر پیر کے دن عید منائی، وہ اگر جائزہ لیں تو ممکن ہے کہ اے این پی ہی میں بہت سے ایسے لوگ نکل آئیں ۔ اس موقع پرجمعیت علماءاسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کرکے معاملہ کو دیوبندی، بریلوی تنازعہ بننے سے بچالیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر ہوتا ہے۔ رویت ہلال کمیٹی 1972ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس وقت قائم کی گئی تھی جب رویت ہلال کے معاملہ میں انتشار کی کیفیت تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے نہ کہ انہیں کمزور کیا جائے۔اے این پی کے رہنما مطالبہ کررہے ہیں کہ مفتی منیب الرحمن کی جگہ مولانا پوپلزئی کو کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائے اور یہ کہ مفتی منیب الرحمن جنرل پرویزمشرف کی باقیات ہیں۔ اب اس معاملہ میں سیاست بھی داخل ہوگئی ہے اور جواباً مفتی صاحب نے بھی کہا ہے کہ پرویزمشرف کی باقیات وہ نہیں بلکہ اے این پی ہے جس نے حدود آرڈیننس کے معاملہ میں پرویزمشرف کا ساتھ دیا تھا۔ اے این پی نے عید سے پہلے ہی یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ عید سعودی عرب کے ساتھ منائی جاہے اورمفتی غلام احمد بلور فرمارہے ہیں کہ مکہ، مدینہ کے ساتھ عید نہ منانے والے مسلمان ہی نہیں ہوسکتے۔ تو کیابراعظم پاک وہند کے مسلمان اب تک مسلمان ہی نہیں تھی؟ پھر صرف عید ہی کیوں، اذان نماز ، تراویح ، افطار ، شب قدر سب کچھ سعودی عرب کے ساتھ ہونا چاہیے جو ممکن نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے زمین کو سپاٹ نہیں گول بنایا ہے تو اس میں یقیناً کوئی حکمت ہے۔ چاند اور سورج بیک وقت پوری دنیا میں طلاع وغروب نہیں ہوتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی تنازعہ ہے ہی نہیں۔ ہم سے صرف اتنا کہا گیا ہے کہ چاند نظر آجائے تو روزہ رکھ لو اور دوسرا چاند نظر آئے تو عید کرلو۔اب جس علاقہ میں مستند شہادت رویت ہلال کی ہو وہاں عید کرلی جائے۔ یہ کوئی ضر وری نہیں کہ ملک بھر میں ایک ساتھ عید ہو۔ غیرمنقسم ہندوستان میں بھی دو دو عیدیں ہوجاتی تھیں۔ اتحاد، اتفاق، یکجہتی اور ایک قوم ہونے کے اظہار کے اور زیادہ بہتر طریقے ہیں، پہلے ان پر تو عمل کرلیا جائے۔ مناسب ہوتا کہ صوبہ سرحد کی حکمران اے این پی خود کو اس تنازع سے دور رکھتی، تاہم یہ تجویز ضرور قابل عمل ہے کہ آئندہ چاند دیکھنے کا اہتمام پشاور میں بھی کیا جائے اورشہادتیں خواہ مسجد قاسم علی خان میں موصول ہوں ان کی چھان بین کی جائے۔ یہ بات صحیح نہیں کہ مفتی منیب الرحمن کے چیئرمین بننے کے بعد سے ملک میں دو عیدیں ہورہی ہیں۔ یہ رویت ہلال کمیٹی بننے سے پہلے بھی ہوتا تھا اور مفتی پوپلزئی کو چیئرمین بنانے کے بعد بھی ہوسکتا ہے ۔ تحمل بردباری اور خوف خدا اس معاملہ میں نہایت ہی ضروری ہے اللہ تعالیٰ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔
|