کاش پاکستانی عوام جن کوووٹ دیتےہیں ان میں کوئی لیڈر بن جاتا۔ ویسےعوام کو ووٹ ہی ان سیاستدانوں کو دینا چاہیےجو لیڈرز ہیں‘لیکن بدقسمتی سےایسا نہیں ہوتا۔ جس وقت میں یہ سطور ضبط تحریر لارہا ہوں ایکسپریس ٹی وی کےپروگرام ”آج کل“ میں ایک ایسا ہی بونا لیڈر نوجوانوں کو یہ تصور دےرہا ہےکہ وہی لیڈر ہیں۔ ہمیں گلہ رہتا ہے کہ وہ جن کا کام ملک کی چوکیداری ہے‘ وہ ایوان اقتدار میں آکر بیٹھ جاتےہیں لیکن اس میں قصور بھی تو ان بونےلیڈروں کا ہوتا ہیے۔ ابھی چند دن قبل جامعہ نعیمہ لاہور میں تقریر کرتے ہوئے ان کی زبان ’’پھسل“ گئی جس پر ان کا محاصرہ ہوا تو انہوں نے”طالبان “ سےمتعلق اپنےبیان کی ”وضاحت“ کےساتھ جاکر سرحدوں کی حفاظت کےلیےبنائی گئی فوج کےسپہ سالار کےقدموں پر گر پڑیے۔ میں ان کو بونا نہ کہوں تو کیا کہوں؟ شاید اسی دن کےلیےجگر مراد آبادی نےکہا تھا۔
جہل ِخرد نےدن یہ دکھائے
گھٹ گئےانسان بڑھ گئےسائے
آپ انسان کو حکمران پڑھ لیں۔
آج جب پورا پاکستان زرداری کی کرپشن کےپیچھےپڑا ہوا ہےجب کہ میں ”شریف بونا کمپنی“ کو زیادہ قابل گرفت سمجھتا ہوں کیوں کہ زرداری عوام سے مینڈیٹ لینےکےلیےجاتےہیں تو ان کو پتا ہوتا ہے۔ زرداری اور ان کی پارٹی کی کرپشن کسی سےڈھکی چھپی ہےاور نا ہی ان کےسیاسی نظریات۔ الفاظ شاید سخت ہیں لیکن کیا کریں ا س سےکم میں ان کی عکاسی نہیں ہوتی کہ یہ منافق ہیں اور ان کا قائد میاں محمد نواز شریف منافق اعظم۔ یہ ووٹ دائیں بازو کےنام پر لیتےہیں اور گرتےہیں ”امریکا کی چوکھٹ“ پر۔ کارگل جنگ کےدوران شہباز شریف کی امریکا یاترا کون بھولا ہے؟ طالبان اور ان کےنظریات ایک جیسےنہیں تو کہا کیوں؟ الیکشن مہم کےدوران عوام کو یہی باور کرایا جاتا ہےکہ ہم امریکی پالیسیوں کےخلاف ہیں۔ جامعہ نعیمہ میں طالبان اور اپنےنقطہ نظر کو بھی تو اسی تناظر میں قرار دیا تھا۔ شہباز شریف کےبیان پر بہت ساروں نےامریکی نمک خوار بن کر ”ردعمل “ ظاہر کیا لیکن سب سےدلچسپ ردعمل یا عمل نگہت اورکزئی کا رہا جنہوں نےدوپٹا پھینک دیا۔ نیویارک سےطیبہ ضیا ءچیمہ نےنوائےوقت میں رپورٹ کیا ہےکہ امریکی مسلم خواتین نےاس پر ردعمل ظاہر کرکےکہا کہ نگہت اوکرزئی نےاپنا نہیں بلکہ تمام مسلمان خواتین کا دوپٹہ اُتار پھینکا ہے۔ ان خواتین کا تعلق یقینا کسی تحریک طالبان غالباً تحریک طالبان امریکا سےہوگا۔ ایک ایسی خاتون نےطالبان بن کر کچھ ”مجرموں“ کی مرہم پٹی کردی تو اس کو قیدی 650بناکر بگرام جیل بھیج دیا۔ وہاں سےامریکا لےجاکر امریکی انصاف کا شاندار مظاہرہ کیا گیا۔ ختم نبوت کےطوفانی صاحب نےسوال کیا ہےکہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکا لےجانےوالےآخر زید زمان حامد کو کیوں نہیں اُٹھاتے۔ وہ بھی تو امریکا کےخلاف اور افغان طالبان کےحق میں بات کرتا ہے۔ ان کےبقول معاملہ سیدھا سادہ ہے۔ شہباز شریف کےبیان پر زبان تاسیر بھی بھڑک گئےتھے وہ سلمان تاثیر جوآدھےپاکستان(صوبہ پنجاب) کی جامعات کےچانسلر ہیں اور ان میں بیشتر میں زید حامد اب تک تقریر کرچکا ہے‘ جس میں ا”چھے“ اور”برے“ طالبان کےعلاوہ بھارتی اور امریکی دہشت گردی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان کی تقریروں پر ان کےمحسنوں کو بھی اعتراض نہیں حالانکہ ”دی نیوز“ کےابصار عالم کا خیال ہےکہ ان محسنوں نےان کےاوپر سےہاتھ اُٹھالیا ہے۔ بات سےبات نکلتی ہے لیکن ہم اصل موضوع پر آتےہیں کہ منافقت نہیں ہونی چاہیے‘ شہباز شریف کو اگر فوج کی این او سی لیکر اقتدار میں آنا یا روکنا ہےتو وہ عوامی منڈیٹ کےبھاشن دینا بند کردیں۔ جو ہیں اس کا اعتراف کرلیں۔ ورنہ منافقوں سے تو ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے زرداری ہی اچھےہیں کہ جیسےہیں ویسا ہی اپنےآپ کو پیش کرتےہیں۔
جہل ِخرد نےدن یہ دکھائے
گھٹ گئےانسان بڑھ گئےسائے
آپ انسان کو حکمران پڑھ لیں۔
آج جب پورا پاکستان زرداری کی کرپشن کےپیچھےپڑا ہوا ہےجب کہ میں ”شریف بونا کمپنی“ کو زیادہ قابل گرفت سمجھتا ہوں کیوں کہ زرداری عوام سے مینڈیٹ لینےکےلیےجاتےہیں تو ان کو پتا ہوتا ہے۔ زرداری اور ان کی پارٹی کی کرپشن کسی سےڈھکی چھپی ہےاور نا ہی ان کےسیاسی نظریات۔ الفاظ شاید سخت ہیں لیکن کیا کریں ا س سےکم میں ان کی عکاسی نہیں ہوتی کہ یہ منافق ہیں اور ان کا قائد میاں محمد نواز شریف منافق اعظم۔ یہ ووٹ دائیں بازو کےنام پر لیتےہیں اور گرتےہیں ”امریکا کی چوکھٹ“ پر۔ کارگل جنگ کےدوران شہباز شریف کی امریکا یاترا کون بھولا ہے؟ طالبان اور ان کےنظریات ایک جیسےنہیں تو کہا کیوں؟ الیکشن مہم کےدوران عوام کو یہی باور کرایا جاتا ہےکہ ہم امریکی پالیسیوں کےخلاف ہیں۔ جامعہ نعیمہ میں طالبان اور اپنےنقطہ نظر کو بھی تو اسی تناظر میں قرار دیا تھا۔ شہباز شریف کےبیان پر بہت ساروں نےامریکی نمک خوار بن کر ”ردعمل “ ظاہر کیا لیکن سب سےدلچسپ ردعمل یا عمل نگہت اورکزئی کا رہا جنہوں نےدوپٹا پھینک دیا۔ نیویارک سےطیبہ ضیا ءچیمہ نےنوائےوقت میں رپورٹ کیا ہےکہ امریکی مسلم خواتین نےاس پر ردعمل ظاہر کرکےکہا کہ نگہت اوکرزئی نےاپنا نہیں بلکہ تمام مسلمان خواتین کا دوپٹہ اُتار پھینکا ہے۔ ان خواتین کا تعلق یقینا کسی تحریک طالبان غالباً تحریک طالبان امریکا سےہوگا۔ ایک ایسی خاتون نےطالبان بن کر کچھ ”مجرموں“ کی مرہم پٹی کردی تو اس کو قیدی 650بناکر بگرام جیل بھیج دیا۔ وہاں سےامریکا لےجاکر امریکی انصاف کا شاندار مظاہرہ کیا گیا۔ ختم نبوت کےطوفانی صاحب نےسوال کیا ہےکہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکا لےجانےوالےآخر زید زمان حامد کو کیوں نہیں اُٹھاتے۔ وہ بھی تو امریکا کےخلاف اور افغان طالبان کےحق میں بات کرتا ہے۔ ان کےبقول معاملہ سیدھا سادہ ہے۔ شہباز شریف کےبیان پر زبان تاسیر بھی بھڑک گئےتھے وہ سلمان تاثیر جوآدھےپاکستان(صوبہ پنجاب) کی جامعات کےچانسلر ہیں اور ان میں بیشتر میں زید حامد اب تک تقریر کرچکا ہے‘ جس میں ا”چھے“ اور”برے“ طالبان کےعلاوہ بھارتی اور امریکی دہشت گردی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان کی تقریروں پر ان کےمحسنوں کو بھی اعتراض نہیں حالانکہ ”دی نیوز“ کےابصار عالم کا خیال ہےکہ ان محسنوں نےان کےاوپر سےہاتھ اُٹھالیا ہے۔ بات سےبات نکلتی ہے لیکن ہم اصل موضوع پر آتےہیں کہ منافقت نہیں ہونی چاہیے‘ شہباز شریف کو اگر فوج کی این او سی لیکر اقتدار میں آنا یا روکنا ہےتو وہ عوامی منڈیٹ کےبھاشن دینا بند کردیں۔ جو ہیں اس کا اعتراف کرلیں۔ ورنہ منافقوں سے تو ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے زرداری ہی اچھےہیں کہ جیسےہیں ویسا ہی اپنےآپ کو پیش کرتےہیں۔