Posts Tagged ‘علی خان، جبر ناروا، نہاری ڈپلومیسی ، ٹارگٹ کلنگ، سیاسی بسنتِ سیاسی مانجھا، معصوم شہری ، پاکستانی اور حکمران‘’

Articles

سیاسی مانجھے سے کٹی لاشیں اور نہاری

In پاکستان on فروری 15, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

علی خان
یقین کیجیے (نہ کریں تو بھی کیا) ہمیں نہیں معلوم یہ شعر کس کا ہے، ابو نثر کو ضرور معلوم ہوگا۔
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
جانے کن حالات میں یہ شعر کہا گیا ہوگا اور کون ایسا جی دار ہوگا کہ جبر ناروا کو مسترد کرکے کسی بلا سے لڑنے پر ”اتارو“ ہوا ہوگا۔ ہم تو ایک عرصہ سے مفاہمت کی پتنگیں فضاﺅں میں اڑتے دیکھ رہے ہیں۔ جمہوریت کے چیمپئن کہلانے والے فوجی جنرلوں سے چپکے چپکے مفاہمت کرلیتے ہیں اور اسے این آر او یعنی قومی مفاہمتی آرڈیننس کا نام دے کر خود بلا بن جاتے ہیں۔ شہر میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہیں اور کھل کر ایک دوسرے پر الزام بھی عائد کرتے ہیں پھر اسلام آباد سے کوئی بیٹ مین اتر کر آتا ہے اور مفاہمت کا سبق پڑھاتا ہے اور کفن میں لپٹی لاشیں پوچھتی رہتی ہیں کہ ہمارے خون کا سودا کتنے میں طے ہوا، مفاہمت کس بنیاد پر ہوئی۔ لیکن کشتگان مفاہمت کی آواز کسی کے کانوں تک نہیں پہنچتی، ان کے لواحقین کا بلکنا، تڑپنا‘اس پر صدائے برنخواست…. ہاں! حکومت لاشوں کا معاوضہ بڑھا دیتی ہے کہ اسے کونسا اپنی جیب سے دینا ہوتا ہے۔ یہ معاوضے کسی صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا کسی اور وزیر کی تنخواہ میں سے نہیں ہمارے، آپ کے خون پسینے کی کمائی سے دیے جاتے ہیں۔ یہی رقم اگر امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے، قاتلوں کو پکڑنے پر صرف کی جائے تو جبرناروا سے مفاہمت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گجرات میں برسوں سے جاری دشمنی کی بناءپر پچھلے دنوں پندرہ افراد کھیت رہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب وہاں تشریف لے گئے تو مقتولوں کے گھر کی سوگوار خواتین نے بیک زبان کہا کہ ہمیں رقم نہیں انصاف چاہیے۔ جناب شہباز شریف نے انصاف دلانے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن دل میں کہتے ہوں گے کہ یہ مطالبہ پورا کرنا تو بہت مشکل ہے، عوام کے ٹیکس سے وصول ہونے والی رقم میں سے کچھ لے کر مفاہمت کرلو۔ گجرات میں خاندانی دشمنی کا یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے، جب پہلا شخص قتل ہوا تھا اسی وقت قانون حرکت میں آجاتا، انصاف بروئے کار لایا جاتا تو اب تک دونوں طرف سے پھنتالیس افراد نہ مارے جاتے۔ لیکن ایک گجرات کیا، یہ تو شہر شہر کی داستان ہے۔ جب بھی کوئی گردن کٹتی ہے، کوئی مظلوم مارا جاتا ہے تو کبھی دور سے آواز آتی ہے ”مٹی پاﺅ“ یہ عمل ہر جگہ جاری و ساری ہے۔ این آر او کا لب لباب بھی یہی تو تھا کہ مٹی پاﺅ اور پھر ہر معاملہ کو منوں مٹی تلے دفن کردیا جاتا ہے۔ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پر بھی مفاہمت کی مٹی ڈال دی گئی۔ بلدیاتی معاملات پر سمجھوتا ہوگیا جس پر کسی نے تبصرہ کیا ہے کہ ”نہاری ڈپلومیسی کامیاب ہوگئی“ رحمن ملک کو ایک بار پھر کراچی آنے کی زحمت اٹھانا پڑی اور نہاری کی پلیٹ پر سمجھوتا ہوگیا۔ ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے جائیں گے اور ان کا فیصلہ مفاہمت سے ہوگا، یہ تیرا، یہ میرا، تیسرا فریق اے این پی اس پر برہم ہے کہ رحمن ملک نے یہ کیسے کہا کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ نہیں ہورہی اور یہ جو لوگ مرے ہیں یہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار نہ تھے تو کیا تھا؟ اتنا نہیں معلوم، یہ مفاہمت کے شکار تھے۔ مفاہمت کے حوالے سے ایک لطیفہ سن لیجیے:
”امی ، امی، پپو نے کھڑکی کا شیشہ توڑ دیا“۔
”وہ کیسے؟“
”میں نے اسے پتھر مارا، وہ سامنے سے ہٹ گیا“۔
اسے آپ بچپنا کہہ لیجیے، لطیفہ سمجھ لیں لیکن ذہانت تو جھلک رہی ہے۔ گمان غالب ہے کہ پپو کا یہ بھائی بڑا ہو کر ضرور سیاست میں آگیا ہوگا۔ ایسا ہوا تو اس پر یہ انکشاف ضرور ہوگا کہ یہاں تو پہلے ہی پپو بھی ہیں اور ان کے بھائی بھی، ایسے کہ کھڑکی کا شیشہ نہیں گردن توڑ کر بھی الزام گردن کو دیتے ہیں کہ کیسی کمزور نکلی۔ آپس میں لڑبھڑ کر کسی پپو کو تلاش کرتے ہیں کہ قصور اس کا ہے۔
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن پر ماہ و سال اثر نہیں کرتے، مزاج طفلی غالب رہتا ہے، کہتے ہیں کہ ہر شخص کے اندر ایک بچہ چھپا رہتا ہے لیکن سنجیدہ اور معقول لوگ اسے مچلنے نہیں دیتے اور بہت سے ایسے ہیں جو اس بچے کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں اور یہ بچہ شیشے توڑتا رہتا ہے، پتھراﺅ کرتا رہتا ہے اور کسی پپو کو الزام دیتا رہتا ہے۔ اس فن میں تو امریکا بھی ماہر ہے، افغانستان کے حالات بگاڑ کر پاکستان کو پپو بنا رہا ہے، اس کے شاگرد پاکستان میں بہت۔


مفاہمت ہوگئی، اچھا ہوا، ورنہ شاید مقتولوں کی تعداد سوسے اوپر جاتی، لیکن ابھی مفاہمت سندھ حکومت میں شامل دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور متحدہ میں ہوئی ہے جو قومی موومنٹ ہونے کی دعویدار ہے، بالکل اسی طرح جیسے پیپلز پارٹی ”پیپلز“ کی جماعت ہے۔ ایک طرف متحدہ اتحاد کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور دوسری طرف پیپلز پارٹی پیپلز کا تیل نکال رہی ہے۔ مفاہمت کی بنیاد صرف یہ ہے کہ اقتدار قائم رہے، عوام مرتے ہیں تو مرتے رہیں، قتل ہوں یا مہنگائی کے ہاتھوں دم توڑدیں۔ کاش کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مفاہمت عوام کی بہبود کے لیے ہوتی، ملکی سلامتی کے لیے ہوتی، قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ہوتی، امن و امان کے لیے ہوتی۔ یہ مفاہمت تو اس لیے ہے کہ تم بھی قتل کرو، غارت گری کرو، لوٹ مار کرو، ہم بھی کریں اور عوام کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیے ایک دوسرے پر الزامات لگائیں۔ گرما گرم تقریریں کریں اور پھر ہاتھ ملالیں۔ ہمارے وڈیرے، جاگیردار، زمیندار اور خوانین خوب جانتے ہیں کہ ایسی مفاہمت ڈاکوﺅں اور رسہ گیروں میں ہوتی ہے، علاقے بانٹ لیے جاتے ہیں، کوئی دوسرے کے علاقے میں واردات نہیں کرتا۔ اس غیر تحریری آئین کی کوئی خلاف ورزی کرے تو علاقے کا بڑا ایک جرگہ بلا کر فیصلہ کرتا ہے، ڈاکوﺅں کے سرداروں کا مصافحہ، معانقہ کروادیا جاتا ہے اور سب ایک دستر خوان پر بیٹھ کر لوٹ کے مال پر دعوت اڑاتے ہیں، مہذب ڈاکوﺅں میں یہ دستر خوان اسمبلی کہلاتا ہے۔


کیسی عجیب بات ہے کہ شہر میں کئی دن سے روزانہ چودہ پندرہ افراد قتل ہورہے تھے، فساد پھیلتا جارہا تھا کہ لندن اور اسلام آباد میں مفاہمت ہوگئی۔ اپنے اپنے ”ہاکس“ کو اپنی چونچ پروں میں دینے اور دم دبا لینے کا حکم دیدیا گیا تو اچانک قتل و غارت گری رک گئی، کیوں؟ یہ صورتحال کس طرف اشارہ کررہی ہے؟ گزشتہ منگل کو کیسی گرما گرمی تھی۔ سندھ اسمبلی میں وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا اور وزیر بلدیات آغا سراج درانی متحدہ کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے تھے اس کے جواب میں اسی دن متحدہ کے ہاکس پریس کانفرنس میں کہہ رہے تھے کہ ”پیپلز پارٹی کراچی پر قبضہ کی سازش کررہی ہے، اپنا ناظم لانے کے لیے یہ سب کچھ کررہی ہے“ چلئے اب مفاہمت ہوگئی، نہاری کھایئے۔
سندھ میں تو عارضی طور پر پھر سیز فائر ہوگیا۔ بلدیاتی انتخابات اگر ہو ہی گئے تو ایک بار پھر لپاڈگی، کشتم کشتا، اکھاڑ، پچھاڑ اور اس سے آگے بڑھ کر خون خرابے کی نوبت آسکتی ہے۔ لیکن پنجاب میں خاص طور پر اور ملک بھر کی سیاست میں عمومی طور پر ”قومی مزاحمتی آرڈیننس“ کارفرما ہے۔ عدالت عظمیٰ نے واضح کردیا ہے کہ عدالت کے فیصلوں پر عمل نہ کرنے والے اب سیدھے جیل جائیں گے۔ عدالتی احکامات کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور صریحاً خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ عدالت نے یہ بھی پوچھا ہے کہ ”وہ کون شخص ہے جو عدالت کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کررہا ہے؟“


ہمیںمعلوم ہے مگر ہم بتائیں گے نہیں۔ معلوم تو معزز عدلیہ کو بھی ہوگا لیکن عدالت میں گواہی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ این آر او پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر مِن و عن عمل نہیں ہورہا لیکن حکمران کہہ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ایک لطیفہ یہ ہے کہ ججوں کے تقرر کے حوالے سے حکمرانوں نے کہا ہے کہ یہ تقرر’سی او ڈی‘ یا میثاق جمہوریت کے مطابق ہوگا۔ یعنی یہ میثاق آئین اور قانون سے بالاتر ہے۔ یاد رہے کہ ’سی او ڈی‘چارٹر آف ڈیموکریسی کا مخفف بھی ہے اور فوج کے ادارے سینٹرل آرڈیننس ڈپو کا بھی۔ اس ڈپو میں عموماً خطرناک اسلحہ اسٹور کیا جاتا ہے۔ راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف جاتے ہوئے دائیں ہاتھ پر واقع اوجڑی کیمپ میں بھی ’سی او ڈی‘تھا جہاں پراسرار دھماکوں سے بڑی تباہی پھیلی تھی اور اس کی تحقیقات کے حوالے سے سیاسی تباہی پھیلی۔ ایسا ہی ایک اسلحہ ڈپو لاہور چھاﺅنی میں بھی دھماکے سے تباہ ہوکر سیکڑوں قیمتی جانیں لے بیٹھا۔ کہیں یہ سیاسی ’سی او ڈی‘یا چارٹر آف ڈیموکریسی بھی دھماکہ خیز نہ ثابت ہو۔ یوں بھی یہ دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان میثاق تھا جسے الطاف بھائی مذاقِ جمہوریت کہتے تھے، اب وہ پیپلز پارٹی کے گاڈ فادرز میں سے ایک ہیں۔


شاید ہی کسی کی سمجھ میں یہ بات آئے کہ عدالتوں میں ججوں کی کمی پوری کرنے میں کیا رکاوٹ ہے، یہ ہچکچاہٹ، تردد اور اغماض کیوں؟ کیا ایسا نہیں لگتا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت خود اپنے لیے کنویں کھودتی جارہی ہے۔ سنا تو یہ ہے کہ ” چاہ کن راہ چاہ درپیش“ (کن کے قاف پر زبر پڑھا جائے،پلیز) یعنی دوسروں کے لیے کنواں کھودو گے تو تمہارے سامنے کنواں آجائے گا۔ لگتا یوں ہے کہ حکمرانوں نے ذوق کا (غالباً) یہ شعر رٹ لیا ہے کہ:
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا
لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ فیض احمد فیض کا شعر ہے اور یہ منظور صاحب کون ہیں۔ رہے حکمراں تو وہ مفاہمت کے نام پر جبرناروا کے پل بنا رہے ہیں اور اپنے لیے ہی کنویں کھود رہے ہیں، مسجد و تالاب تک ابھی نہیں پہنچے بالکل ایسے ہی جیسے دو برس بعد بھی اور چوتھی مرتبہ اقتدار ملنے کے باوجود روٹی، کپڑا، مکان میں سے ابھی تک روٹی تک نہیں پہنچے، اپنی روٹی نہیں، عوام کے لیے روٹی۔
کیا حکومت نے عدلیہ سے گتھم گتھا ہونے کی ٹھان لی ہے؟ لیکن خودکش حملہ آور پہلے خود مارے جاتے ہیں۔ چلیے، یہ تو بڑے معاملات ہیں اور بڑوں کے معاملات ہیں۔ لیکن ہر سال کی طرح اس بار بھی بسنت اور پتنگ بازی پنجاب میں متنازعہ بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف سیاسی فضاﺅں میں رنگ برنگی پتنگیں اڑ رہی ہیں۔ کچھ سیاسی پتنگ باز دھاتی ڈور استعمال کررہے ہیں، گردنیں کٹنے کا خدشہ ہے۔ راولپنڈی میں برسوں پہلے فرزند راولپنڈی کہلانے والے شیخ رشید پر حملہ ہوچکا ہے۔ اندھی گولیوں کی بوچھاڑ میں شیخ رشید صاف بچ نکلے۔ جاکو راکھے سائیں، مار سکے نہ کوئی۔ شیخ صاحب اگر خوفزدہ ہو کر نہ بھاگتے تو ٹانگ پر خراشیں تک نہ آتیں، لیکن چوہدری نثار کا یہ مطالبہ انفرادی زیادتی ہے کہ شیخ صاحب کی پتلون اٹھا کر دیکھا جائے، خراش بھی آئی ہے یا نہیں۔ شیخ صاحب کی پتلون ان کے مربی پرویز مشرف کی وردی تو نہیں جسے اتارنے کا مطالبہ کیا جاتا تھا او رجنرل صاحب کی ’سی‘ ٹیم کے ایک وزیر جناب رﺅف صدیقی یہ مصرعہ پڑھا کرتے تھے کہ ”کیا چاہتی ہے دیکھنا یہ مجلس عمل“ ہوا یوں کہ وردی کو اپنی کھال کہنے والے کھال سے باہر ہوگئے اور رﺅف صدیقی اور ان کی جماعت نے دوسرے مربی تلاش کرلیے۔ ایک پتنگ کٹ گئی تو نیا مانجھا لگا لیا۔


عدالت نے حکم دیدیا ہے کہ پتنگیں نہیں اڑیں گی۔ گورنر پنجاب جناب سلمان تاثیر، جن کے بارے میں افواہ ہے کہ وہ سلطان راہی اور مصطفی قریشی کی فلمیں بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اور کیسٹ جمع کر رکھے ہیں، انہوں نے نعرہ لگایا ہے کہ پتنگیں تو ضرور اڑیں گی۔ بچوں، بزرگوں کے گلے کٹیں تو ان کی بلا سے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے پرویز رشید نے گرہ لگائی کہ پتنگ اڑائی تو گورنر کو بھی ہتھکڑیاں پہنادیں گے۔ دوسری طرف سے پنجاب کے سینئر وزیر راجا ریاض نے جنرل پرویز کے مقرر کردہ گورنر کی حمایت میں چیلنج کیا کہ کسی میں جرات ہے تو گورنر پنجاب کے ہتھکڑیاں لگا کر دکھائے۔ (ن) لیگ کا کہنا ہے کہ گورنر تو کیا کسی نے گورنر ہاﺅس میں بھی پتنگ اڑائی تو عدالت کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے گرفتار کرلیں گے۔ لیکن گورنر ہاﺅس میں گھسنے کون دے گا؟ پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری جناب جہانگیر بدر نے تو کہہ دیا ہے کہ عدالت کے فیصلے پر عمل کریں گے۔ انہوں نے ایک بڑی اچھی تجویز دی ہے کہ کائیٹ فلائنگ ایسوسی ایشن والے اپنے مقصد سے مخلص ہیں تو کسی کی گردن کٹنے پر اپنا ایک بندہ جیل بھیجنے کی تیاری کرلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی سیاسی وجوہات کی بناءپر جیل جاتے رہے ہیں، یہ پتنگ باز سجنا اپنے مقصد کے لیے جیل کاٹیں۔
پتنگ بازی اور اس سے جانی و مالی نقصانات کوئی آج کی بات نہیں۔ یہ مقدمہ مرحوم جسٹس کیانی کے سامنے بھی پیش ہوا تھا او رجناب ایس ایم ظفر نے پتنگ بازوں کی وکالت کی تھی۔ پتنگ بازی اگر ایک کھیل ہے تو اسے کھیل ہی رہنا چاہیے، بے گناہوں کے قتل کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ شوقین حضرات میدانوں میں نکل جائیں اور خوب ایک دوسرے کی پتنگ کاٹیں مگر کسی کا گلا کٹا تو اس کا مقدمہ گورنر سلمان تاثیر اور یوسف صلاح الدین جیسوں کے خلاف درج ہونا چاہیے، اب تو وہ خاتون بھی شرمندہ ہیں جو لہک لہک کر گاتی تھیں کہ ”اَکھ وی لڑانی اے تے گڈی وی اڑانی اے“ کچھ عمر کا تقاصا ہے کہ اب وہ پیچ نہیں لڑاسکتیں۔
بسنت تو ہر سال کی طرح گزر ہی جائے گی لیکن یہ جو سیاسی پیچ لڑ رہے ہیں یہ زیادہ خطرناک ہیں۔ ڈر ہے کہ کوئی اور نہ کانٹی ڈال دے اور پتنگ باز سجنوں کی کٹی پتنگیں فضاﺅں میں ڈولتی نظر آئیں، گلی کے بچے لمبے لمبے بانس اور جھاڑ لیے پیچھے دوڑتے ہوں۔ یہ بچے عوام کی علامت ہیں جو ایک عرصہ سے یونہی دوڑ رہے ہیں اور پتنگیں کوئی اور لوٹ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک و قوم کے تمام مسائل حل ہوگئے، اب صرف پتنگ بازی کا مسئلہ رہ گیا۔ عوام ایک طرف ضروریات زندگی کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں لگے ہوئے ہیں اور حکمران پتنگوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ حکمران کہتے ہیں کہ آئین کی بات ہی نہ کرو، محترمہ شہید ہوئی ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ”ہتھکڑی کے خوف سے کچھ لوگ ڈر جائیں گے کیا؟“ سلمان تاثیر میں جرات ہے تو مال روڈ پر اپنے قصر سے باہر نکل کر پتنگ اڑا کر دکھائیں۔ اقبال نے کہا ہے ” لڑادے ممولے کو شہباز سے“۔