Posts Tagged ‘قصر صدارت ، گیلانی’

Articles

ڈیڑھ منٹ کا راستہ

In پاکستان on فروری 19, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: ,

اطہر ہاشمی
عدالت عظمیٰ سے وزیراعظم ہاﺅس تک صرف ڈیڑھ منٹ کا سفرہے مگر اس کے لیے ایک یوٹرن لینا پڑتاہے۔ عجیب بات ہے کہ اس مختصر ترین سفرمیں ایک نہیں متعدد یوٹرن آتے رہے ہیں اورباربارآتے رہے ہیں۔ اب ایک یوٹرن حکومت نے لیاہے۔ منگل کی شب وزیراعظم ٹرن لے کرعدالت عظمیٰ میں دیے گئے عشائیہ میں پہنچ گئے تھے اور اگلے دن جناب چیف جسٹس ایک موڑمڑ کر ایوان وزیراعظم پہنچ گئے۔ اس کے نتیجے میں قوم کے سامنے ایک نیا موڑ آگیاہے لیکن یہ موڑ اس سے بہترہے جس میں عدلیہ کا رخ موڑا یا بازو مروڑا جارہاتھا۔ عشائیہ سے کچھ ہی پہلے تک جناب وزیراعظم قومی اسمبلی میں کچھ اور کہہ رہے تھے۔
قصرصدارت بھی عدالت عظمیٰ سے زیادہ دورنہیں ہے۔ لیکن آئین کی بالادستی یافردکی دراز دستی نے مختصر فاصلوںکوبھی طول دے دیاہے اور راستے میں اسپیڈبریکر بھی بے شمار ہیں۔ یہ دکھائی تو نہیں دیتے اور ان کا پتا صرف اس وقت چلتاہے جب کوئی رواں دواں گاڑی اچانک اچھل جاتی ہے اور گاڑی میں سکون سے سفرکرنے والے مسافرکا سرڈیش بورڈ سے جاٹکراتاہے۔ تب یاتو اسپیڈٹوٹ جاتی ہے یا مسافر ہی اچھل کر باہرآجاتاہے۔
ابھی دوسال بھی نہیں ہوئے کہ اسی قصر صدارت میں ایک باوردی جنرل نشہ
صہبا میں خودفراموشی کے علاوہ خودپسندی ‘ خودنمائی اورخودی کے نشہ سے بھی سرشاریگانہ چنگیزی کے شعرکی تفسیربنابیٹھا تھا کہ
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
جنرل صاحب نے ماضی کی روایات کو برقراررکھتے ہوئے صدرکے منصب پربھی قبضہ کررکھا تھا اورہم چوما دیگرے نیست کا نعرہ مستانہ بلند کرتے رہتے تھے۔ سب کو زیرکرنے کے بعد پڑوس میں موجود عدالت عظمیٰ کی عمارت پر نظرپڑی توخیال آیا کہ یہ علاقہ اب تک غیرمفتوحہ ہے۔ عدالتوں کو فتح کرنے کاکام تو ایک بے وردی حکمرانی غلام محمد نے شروع کردیاتھاان کے منصب میں ”جنرل “ کا لفظ موجودتھا‘ شاید اسی کا اثر تھا یا جنرل ایوب خان کی منصوبہ بندی کا کہ پارلیمنٹ توڑ‘ تاڑکے حکومت کو برطرف کرکے عدالت سے نظریہ ضرورت کی سند حاصل کرلی۔ ضرورت گورنر جنرل غلام محمدکی تھی اور نظریہ جسٹس منیرکا۔ اس کی داد تو دینا پڑے گی کہ اس طرح جسٹس منیر عدلیہ کی تاریخ میں امرہوگئے ورنہ تو کتنے ہی جج آئے اورگئے ‘ ایسی شہرت کسی نے نہ پائی اوران کے نام بھی یاد نہ ہوں گے۔
جسٹس منیر کے دامن سے تو منفی شہرت وابستہ ہے لیکن عرصہ بعد پھر ایک شہرت افتخار محمد چوہدری کے حصہ میں آئی جس نے ان کو ہیروبنادیا۔ اس میں بڑا حصہ جنرل پرویزمشرف کا بھی ہے۔ انہوں نے عدلیہ کو بھی کارگل سمجھا اور جی ایچ کیو میں اپنے صدارتی کیمپ میں چیف جسٹس کو بلابھیجا۔ لیکن یہاں بھی بلندی سے اترنا پڑا اور پھرپسپائی کا یہ سفر ۸۱اگست ۸۰۰۲ءتک رکانہیں۔ افتخار محمد چوہدری کی ایک ”نہیں“ نے سارا منظر بدل دیا اور وہ جو سب کو مکے دکھایاکرتے تھے‘ اب راندہ درگاہ ہیں۔ وہ جو کہتے تھے کہ بے نظیر اور نوازشریف کا کردار سیاست سے ختم ہوگیا‘ وہ کبھی واپس نہ آسکیں گے‘ وہ دونوں واپس آگئے بے نظیرختم ہوگئیں لیکن سیاست میں ان کا کردار ختم نہیں ہوا۔ رام چندرجی کو جب ان کی سوتیلی ماں کیکئی کے تریا چلتّرکی وجہ سے بن باس کاٹنا پڑا تو اسی کیکئی کے بیٹے نے ‘جسے ماں تخت وتاج کا وارث بنانا چاہتی تھی بڑے بھائی رام چندرکی کھڑاویں اتروالی تھیں اور کرسی اقتدارپر خودبیٹھنے کے بجائے رام چندرکے جوتے رکھ کر حکومت چلارہاتھا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ کانٹوں بھرے جنگل میں جانے والے بھائی کے جوتے اترواکر اسے پا برہنہ کیوں کیا لیکن ہندوﺅں کی مذہبی تاریخ یہی کہتی ہے۔ اس زمانے میں تصویروں کا رواج نہیں تھا ورنہ تو رام چندرکا سوتیلا بھائی جوتوں کے بجائے تصویر رکھ کرکام چلاتا۔ اب تصویریں عام ہیں۔ اقوام متحدہ میں خطاب کرنا ہوتو بھی پہلے تصویر سامنے رکھی جاتی ہے۔ہمارے موجودہ صدرجناب زرداری کو تو خواب میں ہدایات بھی ملتی رہتی ہیں لیکن ان کے جو اقدامات ہیں انہیں دیکھ کر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا کہ یہ محترمہ بے نظیرکی ہدایات ہیں‘ وہ بہرحال ایک سمجھدار خاتون تھیں اور سیاست بھی سیکھ گئی تھیں اس خاردارکی کٹھنائیوں کی وجہ سے انہوں نے اپنے شوہر کو سیاست سے دورہی رکھالیکن تقدیرسے کون لڑسکتاہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ بدترین جمہوریت آمریت سے بہترہوتی ہے۔ درست ہے ‘ ہمیں آمریت سے نجات کے بعد ایسی ہی جمہوریت ملی ہے۔ کسی نے کہابھی ہے کہ مزید 3 سال تک ایسی ہی جمہوریت چلتی رہی تو عوام پرانے کفن چورکی تعریف کرنے پر مجبورہوجائیں گے۔ حبس بڑھ جائے تو لوکی دعاکی جانے لگتی ہے۔ جناب پرویزمشرف نے پوچھا ہے کہ عوام کو ضرورت ہے تو کیا میں واپس آجاﺅں ؟ خداکرے کہ وہ واپس آجائیں‘ ان پر بہت سے قرض واجب ہیں اب تو وہ کسی چیف جسٹس کو طلب کرکے استعفیٰ نہیں مانگ سکیں گے البتہ یہ ممکن ہے کہ چیف جسٹس انہیں خود طلب کرلیں۔
جناب چیف جسٹس جب صدر پرویزکے کیمپ آفس میں جنرلوں کے گھیرے سے باہرآئے تھے تو اس وقت وہ قوم کے ہیروبن چکے تھے۔ اور انہیں فتح کرنے والے خائب وخاسرتھے۔ پھرجو ہوا وہ سب نے دیکھا لیکن نوازشریف کے جانشینوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ایوان صدر میں اب تک پرویز مشرف کی بدروح چکرارہی ہے۔ شہید بی بی بے نظیرکی روح جناب زرداری کو جو مشورے دیتی ہے‘ معلوم ہوتاہے ان پر دھیان نہیں دیاجاتا۔ وہ بھی عدلیہ سے پنگالے بیٹھے اور جلد ہی ثابت ہوگیاکہ اڑنا نہیں جانتے۔ صرف چند دن کی گرما گرمی پیدا کرنے کے بعد آئین کے سامنے سرجھکانا پڑا اور اپنا جاری کردہ حکم نامہ واپس لینا پڑا۔ وزیراعظم نے اسمبلی میں تو خوب گرما گرمی دکھائی لیکن جلد ہی ان پر حقیقت واضح ہوگئی وہ بے چارے بہت دنوں سے فائربریگیڈ کا کام کررہے ہیں۔ وہ جو ایک بی بی پیپلزپارٹی کی سیکریٹری اطلاعات ہیں فوزیہ وہاب ‘ ان کی کچھ نہ پوچھیے ۔ صرف اتنا ہی کہاجاسکتاہے کہ جو بات کی خداکی قسم لاجواب کی۔ دودن پہلے بڑے طمطراق سے فرمارہی تھیں کہ ججوں کے حوالے سے صدرکا نوٹیفکیشن واپس لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسی ہی کچھ باتیں موصوفہ نے این آر او کے حوالے سے کہی تھیں‘ اب دیکھیے وہ کیا کہتی ہیں لیکن ہمیں اعتراض تو ٹی وی چینلز پر ہے کہ وہ آئین اورقانون جیسے سنجیدہ معاملات میں بھی فوزیہ بی بی کی رائے طلب کرکے انہیں دشواری میں مبتلا کردیتے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک بارپھر ڈیڑھ منٹ کا فاصلہ طے کیا اور وزیراعظم ہاﺅس جاکرسید صاحب سے ملاقات کی۔ ان دونوں کے درمیان بی بی شہید کی تصویر رکھی ہوئی تھی۔ شاید کچھ کہہ بھی رہی ہو۔ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ صدر زرداری کا حکم نامہ منسوخ کردیاگیا اورسوپیازوں وغیرہ کی نوبت آنے سے پہلے معاملہ نمٹ گیا۔ فارسی میں کہتے ہیں کہ :
ہرچہ داناکند‘ کندناداں‘لیک بعد ازخرابی ¿ بسیار
لیکن اردومیں کہتے ہیں کہ نانی نے خصم کیا‘ براکیا۔ کرکے چھوڑ دیا اور براکیا۔ قدم قدم پر وہی ہورہا ہے ۔ بھوربن معاہدے سے لے کر عدلیہ سے نئے پنگے تک۔ آخر یہ حکمران چاہتے کیاہیں۔ کیوں اپنے ہی پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اگر آئین کے مطابق پہلے ہی چیف جسٹس سے مشاورت کرکے فیصلے کیے ہوتے تو نئی شرمندگی کا سامنا تو نہ ہوتا ۔ لیکن لوگ کہتے ہیں کہ حکمرانوں کو اس کی پروا نہیں۔ بچپن کی بات دماغ میں جم گئی ہے کہ جس نے کی بے حیائی‘ اس نے کھائی دودھ ملائی۔ لیکن عوام کے لیے تو چھاچھ بھی نہیں بچا۔
ڈیڑھ منت کا یہ راستہ کئی دن میں طے ہوگیا۔ جب راستے میں کئی یوٹرن ہوں‘ جگہ جگہ اسپیڈ بریکر لگے ہوں تو مختصرسا فاصلہ بھی طویل ہوجاتاہے۔