Posts Tagged ‘پاکستان ، امریکی دہشت گرد، پاک فوج ، امریکی دہشت گردی ، صلیبی فوج ،حواری ، میراثی پرویز مشرف، شہباز ایئر بیس، س’

Articles

شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

In فوج,حقوق انسانی,دہشت گردی on اگست 23, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

یہ مضمون "جسارت میگزین” کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے جس میں امریکی دلالوں کو ایکسپوز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مضمون کو گرافک ویو میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
………………………………………………………
 امریکی دوستی کے بھیانک نتائج
 سیلاب زدگان کی مدد میں امریکا رکاوٹ بن گیا
امریکیوں کو بچانے کے لیے جعفرآباد کو ڈبو دیا گیا
 شہباز ائر بیس پاکستانیوں کو بچانے کے لیے استعمال کرنے سے امریکیوں نے روک دیا

………………………………………………………

  سیلاب کی آمد کے ساتھ ہی قومی اخبارات میں شہ سرخیوںکے طور پر خبریں شائع ہونا شروع ہوگئی ہیں کہ امریکا سیلاب میں پھنسے ہوئے افراد کو نکالنے اور ان کی مالی مدد میں پیش پیش ہے۔ برسات میں تاریخی مقدار میں پانی برسنے کے بعد ڈالروں کی ’بارش‘ کرکے افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی وائسرائے رچرڈ ہالبروک نے یہ طنز کیا کہ امریکا دل کھول کر مدد کررہا ہے‘ پاکستان کے دوست ایران اور چین کہاں ہیں؟ یعنی دوستوں نے ساتھ چھوڑدیا لیکن امریکا تن تنہا پاکستانی متاثرینِ سیلاب کے غم میں گھلا جارہا ہے۔گزشتہ روز تقریباً تمام اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ امریکا سعودی عرب کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا مددگار ملک بن گیا ہے۔ جمعہ 20 اگست کو دیگر اخبارات کے علاوہ دائیں بازو کے علم بردار اخبارات نے بھی اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا کہ امریکا کیری لوگر بل کے علاوہ 700 ملین ڈالر پاکستان کو دے گا۔ یہ ’خوشخبری‘ کیری لوگر بل کے شریک خالق سینیٹر جان کیری نے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے ساتھ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سنائی۔ ان خبروں کو پڑھنے کے بعد قارئین کو یہ سمجھنے پر موردالزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا کہ صلیبی لشکر کا سرخیل امریکا پاکستان اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دوست ہے۔ جاپان پر ایٹم بم گرانے کی تاریخی دہشت گردی ہو یا شمالی کوریا کے خلاف ناجائز جنگ‘ عراق کے مسلمانوں کو خون میں نہلانے کا عمل ہو یا افغانستان پر ننگی جارحیت…. امریکی میڈیا وائٹ ہاﺅس کا ہمیشہ مددگار رہا ہے۔ اب جبکہ امریکا تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اور ذلت آمیز شکست افغانستان کے پہاڑوں میں اس کا شدت سے انتظار کررہی ہے، ایسے میں امریکا کے زیراثر دنیا بھر کا میڈیا اُس کے امیج کو بہتر بنانے کی کوشش آخر کیوں نہ کرے؟ خبروں کے سیلِ رواں میں غرق عوامی اذہان اِس وقت ذرائع ابلاغ کے سیلاب کی بڑی لہروں یعنی شہ سرخیوں کو ہی بہ مشکل ٹھیک طریقے سے دیکھ پارہے ہیں‘ اور یہ موجیں اتنی تیز ہےں کہ کم نمایاں چھوٹی چھوٹی خبروں میں بڑی خبر کو تلاش کرنے کے لیے وہ سنبھل نہیں پارہے ہیں۔ اور عوام الناس کی نظر کو کیا رونا…. اِدھر نیوز روم میں بیٹھے صحافی یا تو اپنی قیمت لگا چکے ہیں یا پھر اتنے نااہل ہیں کہ مخلص ہونے کے باوجود وہ ادراک کے معاملے میں عام آدمی کی صف میں ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دو چار دنوں کے دوران چند ایسی خبریں شائع ہوئیں جو اگرچہ اخبارات کے صفحات پر نمایاں جگہ پانے میں ناکام رہیں، تاہم خبریت اور وزن کے اعتبار سے ان دِنوں شائع ہونے والی سیکڑوں خبریں ان سے چھوٹی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ خبریں پاکستانیوں کی آنکھوں پر بندھی کالی پٹیاں کھول کر انہیں ان کی گمراہی کا احساس دلاتی نظر آتی ہیں۔ ایک بہت بڑی خبر معاصر انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے صفحہ آخر پر شائع ہوئی جس کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہیلتھ ریلیف آپریشن اس لیے شروع نہیں کیا جاسکا کہ جیکب آباد میں واقع شہباز ایئربیس امریکی کنٹرول میں ہے۔ اخبار کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ق) کی رکن ِسینیٹ سیمی یوسف صدیقی کے ایک سوال کے جواب میں ہیلتھ سیکریٹری خوشنود لاشاری نے انکشاف کیا کہ علاقے میں ہیلتھ ریلیف آپریشن اس لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہاں کا واحد ایئربیس امریکی کنٹرول میں ہے۔ ’ہیلتھ ایمرجنسی پریپرئیڈنیس اینڈ ریسپانس سینٹر‘ کے کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر جہانزیب اورکزئی نے بتایا کہ دور دراز علاقوں میں اس لیے ریلیف آپریشن شروع نہیں ہوسکا ہے کیوں کہ جیکب آباد سمیت کئی علاقوں کے قریب کوئی ایسی ہوائی پٹی نہیں جہاں طیارہ اترسکے۔ سینیٹر سیمی نے اجلاس کے بعد ڈان کے نمائندے کو بتایا کہ یہ انتہائی بدنصیبی ہے کہ امریکی شہباز ایئربیس سے ڈرون حملے کرسکتے ہیں لیکن حکومت ِپاکستان اپنے ہی ایئربیس کو ریلیف آپریشن کے لیے استعمال کرنے کے معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر ِصحت کو فوج سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ امریکیوں سے شہباز ایئربیس سے ریلیف آپریشن کی اجازت مانگیں۔ انہوں نے تاسف کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ”مجھے نہیں معلوم کہ وزارت صحت متعلقہ حکام خصوصاً پاک فوج کے سامنے یہ معاملہ اٹھانے میں کیوں ناکام رہی ہے؟“ پاکستانی عوام مطلع ہوں کہ شہباز ایئربیس جسے 4 سال قبل پاکستانی تاریخ کے بدترین فوجی سربراہ نے امریکا کو لیز پر دیا تھا‘ سیلاب زدگان کو فوری ہیلتھ ریلیف فراہم کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ شہباز ایئربیس امریکا میں واقع ہے یا پاکستان امریکا کی آئینی ریاست کا درجہ رکھتا ہے، بلکہ پاکستان ہی کے صوبہ سندھ کے ضلع جیکب آباد میں واقع ہے جہاں قرب و جوار کے لاکھوں لوگ ریلیف کے لیے اس کے محتاج ہےں۔ جی وہی پاکستان جو سنا ہے 14اگست 1947ءکو آزاد ہوا تھا۔ جیکب آباد میں شہباز ایئربیس کے صرف استعمال پر ہی پابندی نہیں ہے بلکہ 4 سال سے امریکیوں کے کنٹرول میں رہنے والے اس بیس کو بچانے کی خاطر بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کو سیلاب کی نذر کردیا گیا، جہاں ہزاروں افراد کو اپنے گھر چھوڑنے کی مہلت بھی نہ مل سکی۔ گزشتہ سیلابی ریلے نے شہباز ایئربیس کی طرف بڑھنا شروع کیا تو اسلام آباد سے آنے والی ہدایات پر جمائی بائی پاس کو توڑا گیا جس سے نصیرآباد اور جعفرآباد زیرآب آگئے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وفاقی وزیر اعجاز جاکھرانی کے مطالبے پر عسکری دستے اور مقامی انتظامیہ کے افسران سڑک توڑ کر پانی کا رخ موڑنے پر تیار نہیں تھے مگر بعد ازاں ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاﺅس سے ہدایت ملنے پر فوری طور پر سڑکیں توڑ کر پانی کا رخ بدل دیا گیا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے میں امریکی حکام کا اثر و رسوخ شامل ہے، کیوں کہ امریکی حکام نے پہلے اپنے طور پر پانی کا رخ موڑنے کی ہدایت جاری کی‘ جسے تسلیم کرنے سے انکار پر اسلام آباد سے مدد طلب کی گئی۔ دو روز قبل امریکی بیڑے کے کراچی آنے پر کراچی کے امریکی قونصل جنرل نے اپنے عسکری حکام کے ہمراہ بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا جو دراصل شہباز ایئربیس کو کسی ممکنہ خطرے سے بچانے کا راستہ تلاش کرنے کا سروے تھا۔ اس فضائی جائزے میں طے کرلیا گیا تھا کہ اگر پانی اس طرف آیا تو کس جگہ سے بند توڑنے کے لیے کہا جائے گا۔ اور یوں امریکی حکام کی وجہ سے بلوچستان کے ہزاروں شہریوں کو تباہی سے دوچار کردیا گیا۔ روزنامہ ڈان کی خبر شائع ہونے کے بعد پاکستان ایئرفورس نے چند صحافیوں کو ایئربیس کا دورہ کرایا اور بتایا کہ یہاں امریکیوں کا کنٹرول نہیں۔ ایئر برج کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ شہباز ایئربیس اور باقی ایئربیسز کے درمیان قائم کیا گیا ہے تاکہ ریلیف کے سامان کی ترسیل کے ساتھ جیکب آباد سے لوگوں کو نکالا جاسکے۔ پی اے ایف حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ شہباز ایئربیس پر چند امریکی موجود ہیں جو ایف سولہ فائٹرجیٹ کی تکنیکی معاونت پر مامور ہےں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحافیوں کو ایئربیس پر لے جانے کے بجائے قائمہ کمیٹی کے سامنے بقائمی ہوش و حواس بیان دینے والے سیکریٹری ہیلتھ سے کیوں نہ پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ بیان کس بنیاد پر دیا ہے؟ جس ملک میں جعلی کیمپوں کی کہانیاں منظرعام پر آرہی ہوں وہاں کوئی طے شدہ دورے میں دکھائے گئے منظر پر کیسے یقین کرسکتا ہے؟ پاکستان میں امریکی موجودگی پر گہری نظر رکھنے والے سوسائٹی میڈیا کے ارکان اس امکان کو رد کرنے پر تیار نہیں کہ اس دورے کا انتظام امریکی معاونت سے کرایا گیا ہو‘ تاکہ خبر کے نتیجے میں امریکا کے لیے پیدا ہونے والی نفرت اور پاکستانی حکومت اور فوج کے بارے میں منفی تاثر کو زائل کیا جاسکے۔ حکومت ِپاکستان اور عسکری قیادت نے لیز کی کبھی تردید نہیں کی ہے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ شہباز کے علاوہ شمسی ایئربیس امریکا کو لیز پر دیا جاچکا ہے۔ ارکانِ پارلیمان کی رگ ِ حمیت تو صرف اس بات پر پھڑک گئی تھی کہ شہباز ایئربیس ان مشکل حالات میں بھی ریلیف سرگرمیوں کے لیے استعمال کے لیے کیوں نہیں دیا جارہا۔ لیکن صحافیوں کو کرائے گئے دورے کے ذریعے امداد ی سرگرمیوں کی اجازت نہ دینے کے تاثر کو زائل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی دیا گیا ہے کہ مذکورہ ایئربیس لیز پر دیاہی نہیں گیا ہے جو واقعاتی طور پرغلط ہے۔ معاصر اخبار اُمت کے ذرائع کے مطابق شہباز اور شمسی دونوں ایئر بیسز پر پاکستانی حکام کو اندر داخل ہونے تک نہیں دیا جاتا۔پاکستانی فورسزپرصرف ان بیسز کے بیرونی تحفظ کی ذمہ داری ہے۔ بیس پرمکمل کنٹرول امریکیوں کا ہے‘وہ کسی بھی پاکستانی کو اندر جانے نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بیس کے گردو نواح کی تباہ حال آبادیوں میں ہزاروں افراد ہلاک اور بیمار ہورہے ہیں۔ سڑکیں نہ ہونے کے سبب ان تک پہنچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ایک رستہ باقی ہے کہ شہباز ایئربیس سے اُڑ کر ان کی مدد کی جائے‘ یہ راستہ بھی امریکا کی مخالفت کے سبب مسدود ہوچکا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کہتے ہیںکہ ”یہی وہ اڈہ ہے جہاں سے امریکیوں نے افغانستان پر56ہزار حملے کیے۔اب انہوں نے اس کے اندر بہت کچھ اور جمع کرلیا ہے۔ اسی طرح شمسی ایئربیس بھی ہے جہاں سے ڈرون اُڑتے ہیں۔ وہاں بھی امریکی پاکستانی اتھارٹیزکو جواب تک نہیں دیتے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ایسے میں وہ ان بیسز کو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کیوں استعمال ہونے دیں گے؟سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین جان محمد جمالی کے مطابق صحت کی قائمہ کمیٹی نے انہیںبتایا کہ شہباز ایئربیس امدادی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کرنے دیا جارہا ہے تو انہوں نے ہدایت کردی کہ اس معاملے کو سینیٹ میں لایا جائے تاکہ وزارتِ دفاع سے پوچھا جائے کہ کس معاہدے کے تحت یہ اڈہ امریکا کو دیا گیا ہے اور کیوں اسے پاکستانیوںکو بچانے کی خاطر استعمال نہیں کیا جاسکا ہے۔ 12اگست کو ایک ہزار میرینز اور 24ہیلی کاپٹروں کو امداد کی آڑ میں پاکستانی سرزمین پر اُتارا گیا۔اس ”امداد ی کھیپ“ کے پہنچنے پر ہمارے وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ ملک کو ایسی مزید عالمی مدد کی ضرورت ہے۔کراچی میں امریکی قونصل جنرل ولیم مارٹن نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان میں امریکی شپ اور میرین کی موجودگی اوباما اور امریکی لوگوں کی کمٹمنٹ کا مظہر ہے۔ یہ کمٹمنٹ اور دوستی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ذرائع کے مطابق اس وقت پاکستان میں بلیک واٹر اور امریکی فوجیوں کی تعداد11ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے ایئربیس پر قابض ہوکر اسے ا ستعمال کی اجازت نہ دینے والا‘ اپنے بیس کو بچانے کے لیے بلوچستان کو ڈبونے والاہمارا”دوست“ملک آخر 11ہزار فوجیوں کے ذریعے کیاکرنا چاہ رہا ہے؟ پاکستان کو بڑی امریکی دہشت گردی کا خطرہ ہے لیکن حکمران دوستی نبھا رہے ہیں۔ سینیٹر سیمی صدیقی کے خیال میں”بدقسمتی یہ ہے کہ بیس پاکستان کا ہے، اس کے ساتھ ہی پاکستانی ڈوب رہے ہیں ‘ ان کو بچانے کی خاطر ہمیں بیس استعمال کرنے کی اجازت امریکی نہیں دے رہے۔ یہ کس طرح کا معاہدہ ہے، کون نہیں جانتا! سنا ہے کہ اڈہ لیز پر دیا گیا ہے، مگر پھر بھی وہ ملکیت تو پاکستان کی ہے۔ پاکستانیوں کو بچانے کی خاطرکیوں استعمال نہیں ہوسکتا؟“ سیمی صاحبہ کتنی بھولی خاتون ہےں! جس ایئربیس کو پاکستانیوں کو مارنے کے لیے وقت کے میر جعفروں سے لیز پر لیا گیا ہے وہاں سے ان کو بچانے کے لیے کسی سرگرمی کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے!سیمی صاحبہ آپ نے درست کہا کہ یہ کیسی دوستی ہے۔اگر یہ دوستی ہے تو دشمنی کسے کہتے ہیں۔امریکی دوستی کی ایک بھیانک تاریخ ہے لیکن سیلاب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی اس تاریخ سے سبق سیکھنے پر تیار نہیں۔