سے یہ فرمایا کہ” اگروہ زمین کا ایک ٹکڑابھی مجھ سے طلب کرے گاتو میں اُسے نہ دوں گا، وہ خود بھی تباہ ہوگا اور جو کچھ اُس کے ہاتھ میں ہے وہ بھی تباہ ہوگا“ اور یقینا ایسا ہی ہواتو پھر ہم عشاق کے لیے آپ کا یہ جلال کیاسنت نہیں؟ کہ جسے ہم ہرجھوٹے مدعی نبوت کے خلاف اختیار کریں؟ اور ایسا کرنے پر ہمیں کنویں کا وہ ٹرٹراتا مینڈک کیوں کہا جاتا ہے جو باہر نکل کر دنیا دیکھنے کو تیار ہی نہیں، ہم ایسوں کوکیسے سمجھائیں سرکارکہ اسباقِ عشق پڑھ کر آخرت بسانے کے لیے تسلیم و رضا کی دنیا کا مسافر بننا پڑتا ہے جہاں صرف ایک ہی بولی ، بولی جاتی ہے …عشق کی بولی!…
جب وقت کڑا تھا تو معتبرین، معتقدین کے درمیان یہ جملے ادا کیے کرتے تھے کہ ”ہم اللہ کے سوا اور کسی کو جواب دہ نہیں“ اور اب اِن معززین کا یہ حال ہے کہ بلا ٹلتے ہی سراُٹھا کر کہتے ہیں کہ ”ہم آئین کے بعد اللہ کو جواب دہ ہیں“…اے میرے مصدق! مجھے بتائیے تو سہی کہ ”اللہ کے بعد“ جیسے الفاظ موحد پرستی کا دعویٰ کرنے والے کسی فرد کی زبان سے ادا ہی کیسے ہوجاتے ہیں؟ فکر کی اِس پراگندہ لہر کو لفظ بننے سے پہلے ہی زبان اپنے آپ کو اُن پہرے دار دانتوں کے سپرد کیوں نہیں کردیتی جو اُسے اِس جرم میں چپا ہی ڈالیں…اختیارکے ساتھ تواضع نہ ہوتو غرور کے چھینٹے سفید پوش ایمان پر داغ ڈال ہی دیتے ہیں…آئین کے بعد اللہ …اُف! مجھ گناہ گار کے لیے تو یہ تصور بھی محال ہے ،جو کچھ ہے رب کے بعد ہے ، رب سے پہلے تو میرے آقا آپ بھی نہیں، وہ کہ جن پر میری ہر سانس نثار ، اے میرے سرکار آپ بھی نہیں! اور وہ جو خدا کا کلام ہے ، اُس کا بھی توخدا کے بعد ہی نام ہے …پھر یہ آئین کیا ہے جو ایک منصف کے بقول ”خدا سے بھی پہلے ہے “، اب جس کے جملے ہی ناانصافی کی شبیہ بن کر ابھرنے لگے ہوں، اُس سے انصاف کی اُمید کیسے لگائیں؟ جس کے تین گھنٹے تین منصفین کی تقرری کے لیے گفت و شنید کااثاثہ بن جائیں اور جو ایک دفعہ بھی یہ نہ پوچھ سکے کہ ”میں نے شَکر کی قیمت40روپے مقرر کرنے کا حکم جاری کیا تھا، اِس پر عمل درآمد کیوں نہ ہوا؟“اُس کی برہمیاں، تبصرے اور ریمارکس پہاڑ کی چوٹی پرکسی کامیاب کوہِ پیما کی وہ پکار لگتے ہیں۔
آج اگر پاکستان اپنا نام امریکا رکھ لے تو ”حُسین“ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑنے کی ناکام کوشش کرنے والے منافق اوبامہ کو بھی تکلیف ہوگی…برطانیہ چلا اٹھے گا اگر فلسطین اپنے آپ کو انگلستان کہنے لگے، اِن سب کا غصہ اور احتجاج ، انسانیت اور انسانی اصولوں کے پلڑے میں انصاف کے توازن کے مطابق بجا ہے لیکن مسلمانوں کی شناخت پر اگر کوئی غیر مسلم حملہ کر کے اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے پر مصر رہے تو شناخت میں عدم ملاوٹ کے یہ علمبردار اُس ڈاکو کے سب سے بڑے محافظ بن جاتے ہیں اور ختم نبوت کے محافظین کو جاہل، کم علم اور پُرتشدد فکر کا مالک قرار دے دیتے ہیں…اے گواہی دینے والے میرے آقا مشہود! ہم کیاکریں؟جال تو اغیار بُنتے ہیں مگر اُسے پھینکتے آپ کے اُمتی ہیں،نشاط و فرحت اور طاقت و برتری کی سڑاند نے ہم میں سے بعضوں کے ہاتھوں میں وہ تیز دھار خنجر تھمادیے ہیں جنہیں حق سمجھ کر ہم اُس کی دھار سے عقیدت کا گلا عقیدہ سمجھ کر کاٹ رہے ہیں…
اے نجی اللہ!صدیق اکبر
کی نسبت سے ایک مظلوم صدیقی، آپ کی عافیہ، لجّا کے درپن کے سامنے روز ہی اپنی بے حرمتی کا تماشا آنسوؤں کے قطروں سے دیکھتی ہے اور اُس کی لاج بچانے کے ذمے دار اپنی سوختہ آبرو کی راکھ میں ساکھ بچانے کے اشلوک پڑھ رہے ہیں…اے ہمارے مامون! اپنی بے بس عافیہ کو اب آپ ہی بچالیجیے کہ آپ کے ”غریب دین“ میں (آپ ہی نے فرمایا تھا کہ اسلام ایک دن غریب ہوجائے گا)اب ایمان کا ایساکوئی امیر نہیں بچا کہ جسے یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں ایک مسلمان عورت کی برہنہ تلاشی کے قصے سنائے جاتے ہوں اور اُس کا لہو کھول اٹھتا ہو…البتہ چچ چچ اور ”بڑے افسوس کی بات ہے “ جیسی سرگوشیاں ماحول کا ایک چکر لگا کر ہوا میں ضرور تحلیل ہوجاتی ہیں، بس اِس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا…اے پسند فرمائے گئے مجتبیٰ!ہمارے لیے ہدایت کی التجا فرمایے تا کہ اللہ جل مجدُہ ہم سیاہ کاروں کو بھی پسند فرمالے ،ہم جانتے ہیں کہ وہ روٹھا ہوا ہے لیکن اِس کے باوجود خمیر کی اکڑ نے ہاتھوں کو اِس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ اجتماعی توبہ میں بھی گویا شان گھٹتی نظر آتی ہے اور بارگاہ میں لجاجت سے ہاتھ اٹھتے ہی نہیں …اب توہم وہ ہیں جو استکبار سے بہت قریب اور استغفار سے بہت دور ہیں، ہم تو وہ ہیں جنہوں نے دنیا کے چند روزہ میلے میں نشاط کامستقل جھولا لگا کر یہ گمان کر لیا ہے کہ شایدیہی آسودگی کی انتہا ہے…توپھراے درخواستوں کے قبول کرنے والے مجیب! ہمیں سنبھالیے، گمراہی کی گھاٹیاں منہ کھولے راہ تک رہی ہیں اور ہم آنکھ میں حیاتِ نظر کی حقیقت کے باوجودبصد شوق گرنے کے لیے تیار ہیں…!
اے خبر رکھنے والے حفّی! ہم بیکسوں کی خبر تو لیجیے، دیکھیے کہ ہر شے میں سے برکت اٹھتی ہی جارہی ہے ، سکون و اطمینا ن کا کہیں نام و نشان تک نہیں،جن پہ تکیہ تھا وہ بھی اب بدلتے جارہے ہیں،کیسا منظر ہے کہ ہر فرد کو اپنی ہی پڑی ہے ، کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں،اب یہاں اصولوں کے نہیں فتح و شکست کے سکے چلتے ہیں…جب وقت کڑا تھا تو معتبرین، معتقدین کے درمیان یہ جملے ادا کیے کرتے تھے کہ ”ہم اللہ کے سوا اور کسی کو جواب دہ نہیں“ اور اب اِن معززین کا یہ حال ہے کہ بلا ٹلتے ہی سراُٹھا کر کہتے ہیں کہ ”ہم آئین کے بعد اللہ کو جواب دہ ہیں“…اے میرے مصدق! مجھے بتائیے تو سہی کہ ”اللہ کے بعد“ جیسے الفاظ موحد پرستی کا دعویٰ کرنے والے کسی فرد کی زبان سے ادا ہی کیسے ہوجاتے ہیں؟ فکر کی اِس پراگندہ لہر کو لفظ بننے سے پہلے ہی زبان اپنے آپ کو اُن پہرے دار دانتوں کے سپرد کیوں نہیں کردیتی جو اُسے اِس جرم میں چپا ہی ڈالیں…اختیارکے ساتھ تواضع نہ ہوتو غرور کے چھینٹے سفید پوش ایمان پر داغ ڈال ہی دیتے ہیں…آئین کے بعد اللہ …اُف! مجھ گناہ گار کے لیے تو یہ تصور بھی محال ہے ،جو کچھ ہے رب کے بعد ہے ، رب سے پہلے تو میرے آقا آپ بھی نہیں، وہ کہ جن پر میری ہر سانس نثار ، اے میرے سرکار آپ بھی نہیں! اور وہ جو خدا کا کلام ہے ، اُس کا بھی توخدا کے بعد ہی نام ہے …پھر یہ آئین کیا ہے جو ایک منصف کے بقول ”خدا سے بھی پہلے ہے “، اب جس کے جملے ہی ناانصافی کی شبیہ بن کر ابھرنے لگے ہوں، اُس سے انصاف کی اُمید کیسے لگائیں؟ جس کے تین گھنٹے تین منصفین کی تقرری کے لیے گفت و شنید کااثاثہ بن جائیں اور جو ایک دفعہ بھی یہ نہ پوچھ سکے کہ ”میں نے شَکر کی قیمت40روپے مقرر کرنے کا حکم جاری کیا تھا، اِس پر عمل درآمد کیوں نہ ہوا؟“اُس کی برہمیاں، تبصرے اور ریمارکس پہاڑ کی چوٹی پرکسی کامیاب کوہِ پیما کی وہ پکار لگتے ہیں۔
جس کی گونج پلٹ کر صرف اُسی کو سنائی دیتی ہو…اے خوشخبری دینے والے بشیر! کوئی خوشخبری سنائیے،دل بیٹھا جارہا ہے، عقل پرستوں کے تصادم سے نئی فکر کی چمکتی بجلیاں ڈرائے دے رہی ہیں،کہیں بہت برا نہ ہوجائے ،ایک بار ہم ناسمجھوں کو بتادیجیے نا کہ اللہ کو کیسے راضی کریں…اے کامل ! ہمارے اردگرد ہرطاقت ور جسے اپنی حکومت پر ناز ہیتیار بیمھا ہے کہ آج نہیں تو کل ہمیں تکلیف ضرور پہنچائے گا، بس آپ باری تعالیٰ کی بارگاہ میں سفارش فرما کر ہمیں یہ شعور عطا کرادیجیے کہ ہم ایک بار یہ فیصلہ کر ہی لیں کہ ہمارے لیے وہ درد اہم ہے یا درد پہنچانے والا ظالم…تاکہ اِن میں سے کسی کو بھی ”دور“ کرنے کا فیصلہ آسان ہوجائے۔۔۔!