Archive for فروری, 2010

Articles

حاصل مطالعہ: حالِ دل مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو سناؤں

In مذہب on فروری 26, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , ,

ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
یا رسول اللہ !دامن عمل تار تار ہے اور نافرمانی کے اتنے چھید ہیں کہ ہربھیدپر پردہ ڈالنے والا میرا رب ہم سب سے ناراض ہے…وہی رب جس نے آپ کو اپنا محبوب بنا کر تذکیہٴ نفس کے لیے ہمارے درمیان ہادی لقب عطا کر کے بھیجا…آقا کریم!اُس کی بارگاہ میں سفارش فرمادیجیے اورگذارش کردیجیے کہ وہ ہم خطاکاروں کو اپنے رحم کی چھایا میں پناہ دیدے، گناہوں کی تمازت نے تواحساسِ گناہ کوبھی جھلسا کے رکھ دیا ہے اور اب تو یہ حال ہے کہ اچھائی اور برائی میں کوئی فرق ہی محسوس نہیں ہوتا…آپ نے تو یتیموں کے سر پہ ہاتھ رکھنے کا حکم دیا تھا مگر ہمیں دیکھیے!اور اپنے نام لیواؤں کی شقاوت ملاحظہ فرمائیے کہ ہم نفرت اور عقیدوں کے خنجر سے قتل و غارت کے مزے لوٹ کر یتیموں ہی کو جنم دے رہے ہیں…اے ختمی مرتبت! آج آپ کی ختم نبوت کی حفاظت کے لیے اگر آپ کا کوئی عاشق منکرین ختم نبوت کے خلاف آواز بھی بلند کرتا ہے تو اُسے انتہا پسند، جابر اور ظالم کہہ کر اُس کے ایمان ہی پر سوالیہ نشان لگادیے جاتے ہیں، آپ ہی فرمائیے سرکار! کوئی آپ کو خاتم النبیین تسلیم ہی نہ کرے اور اُس کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے پر تُلا رہے تو آپ کے پروانے کیا کریں؟صاحب یمامہ ہَوزہ نے جب یہ کہا تھا کہ میں ”محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے لیے تیار ہوں، بس وہ مجھے اپنے کاموں میں شریک کرلیں اوراپنی نبوت میں حصے دار بنالیں“ تو پیارے آقا! میں غلط تو نہیں کہہ رہا نا کہ آپ کا رخِ انور جلال سے سرخ ہوگیا تھا…سیدی، مُرشدی!میں آپ پر بہتان کیسے باندھ سکتا ہوں ، اے سراہے گئے محمود! اپنے کسی بھی خیال پر آپ کے قول پاک کوگواہ بنانے کی سزااِس سے کم نہیں کہ میں خود ہی اپنا راستہ جہنم اختیار کرلوں لہٰذااے سب کے بعد آنے والے میرے پیارے عاقب!آپ ہی تو ختم نبوت کے پہلے محافظ ہیں اور آپ نے اپنے قاصد ِ محترم حضرت سلیط بن عمرو عامری
سے یہ فرمایا کہ” اگروہ زمین کا ایک ٹکڑابھی مجھ سے طلب کرے گاتو میں اُسے نہ دوں گا، وہ خود بھی تباہ ہوگا اور جو کچھ اُس کے ہاتھ میں ہے وہ بھی تباہ ہوگا“ اور یقینا ایسا ہی ہواتو پھر ہم عشاق کے لیے آپ کا یہ جلال کیاسنت نہیں؟ کہ جسے ہم ہرجھوٹے مدعی نبوت کے خلاف اختیار کریں؟ اور ایسا کرنے پر ہمیں کنویں کا وہ ٹرٹراتا مینڈک کیوں کہا جاتا ہے جو باہر نکل کر دنیا دیکھنے کو تیار ہی نہیں، ہم ایسوں کوکیسے سمجھائیں سرکارکہ اسباقِ عشق پڑھ کر آخرت بسانے کے لیے تسلیم و رضا کی دنیا کا مسافر بننا پڑتا ہے جہاں صرف ایک ہی بولی ، بولی جاتی ہے …عشق کی بولی!…

جب وقت کڑا تھا تو معتبرین، معتقدین کے درمیان یہ جملے ادا کیے کرتے تھے کہ ”ہم اللہ کے سوا اور کسی کو جواب دہ نہیں“ اور اب اِن معززین کا یہ حال ہے کہ بلا ٹلتے ہی سراُٹھا کر کہتے ہیں کہ ”ہم آئین کے بعد اللہ کو جواب دہ ہیں“…اے میرے مصدق! مجھے بتائیے تو سہی کہ ”اللہ کے بعد“ جیسے الفاظ موحد پرستی کا دعویٰ کرنے والے کسی فرد کی زبان سے ادا ہی کیسے ہوجاتے ہیں؟ فکر کی اِس پراگندہ لہر کو لفظ بننے سے پہلے ہی زبان اپنے آپ کو اُن پہرے دار دانتوں کے سپرد کیوں نہیں کردیتی جو اُسے اِس جرم میں چپا ہی ڈالیں…اختیارکے ساتھ تواضع نہ ہوتو غرور کے چھینٹے سفید پوش ایمان پر داغ ڈال ہی دیتے ہیں…آئین کے بعد اللہ …اُف! مجھ گناہ گار کے لیے تو یہ تصور بھی محال ہے ،جو کچھ ہے رب کے بعد ہے ، رب سے پہلے تو میرے آقا آپ بھی نہیں، وہ کہ جن پر میری ہر سانس نثار ، اے میرے سرکار آپ بھی نہیں! اور وہ جو خدا کا کلام ہے ، اُس کا بھی توخدا کے بعد ہی نام ہے …پھر یہ آئین کیا ہے جو ایک منصف کے بقول ”خدا سے بھی پہلے ہے “، اب جس کے جملے ہی ناانصافی کی شبیہ بن کر ابھرنے لگے ہوں، اُس سے انصاف کی اُمید کیسے لگائیں؟ جس کے تین گھنٹے تین منصفین کی تقرری کے لیے گفت و شنید کااثاثہ بن جائیں اور جو ایک دفعہ بھی یہ نہ پوچھ سکے کہ ”میں نے شَکر کی قیمت40روپے مقرر کرنے کا حکم جاری کیا تھا، اِس پر عمل درآمد کیوں نہ ہوا؟“اُس کی برہمیاں، تبصرے اور ریمارکس پہاڑ کی چوٹی پرکسی کامیاب کوہِ پیما کی وہ پکار لگتے ہیں۔


آج اگر پاکستان اپنا نام امریکا رکھ لے تو ”حُسین“ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑنے کی ناکام کوشش کرنے والے منافق اوبامہ کو بھی تکلیف ہوگی…برطانیہ چلا اٹھے گا اگر فلسطین اپنے آپ کو انگلستان کہنے لگے، اِن سب کا غصہ اور احتجاج ، انسانیت اور انسانی اصولوں کے پلڑے میں انصاف کے توازن کے مطابق بجا ہے لیکن مسلمانوں کی شناخت پر اگر کوئی غیر مسلم حملہ کر کے اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے پر مصر رہے تو شناخت میں عدم ملاوٹ کے یہ علمبردار اُس ڈاکو کے سب سے بڑے محافظ بن جاتے ہیں اور ختم نبوت کے محافظین کو جاہل، کم علم اور پُرتشدد فکر کا مالک قرار دے دیتے ہیں…اے گواہی دینے والے میرے آقا مشہود! ہم کیاکریں؟جال تو اغیار بُنتے ہیں مگر اُسے پھینکتے آپ کے اُمتی ہیں،نشاط و فرحت اور طاقت و برتری کی سڑاند نے ہم میں سے بعضوں کے ہاتھوں میں وہ تیز دھار خنجر تھمادیے ہیں جنہیں حق سمجھ کر ہم اُس کی دھار سے عقیدت کا گلا عقیدہ سمجھ کر کاٹ رہے ہیں…
اے نجی اللہ!صدیق اکبر
کی نسبت سے ایک مظلوم صدیقی، آپ کی عافیہ، لجّا کے درپن کے سامنے روز ہی اپنی بے حرمتی کا تماشا آنسوؤں کے قطروں سے دیکھتی ہے اور اُس کی لاج بچانے کے ذمے دار اپنی سوختہ آبرو کی راکھ میں ساکھ بچانے کے اشلوک پڑھ رہے ہیں…اے ہمارے مامون! اپنی بے بس عافیہ کو اب آپ ہی بچالیجیے کہ آپ کے ”غریب دین“ میں (آپ ہی نے فرمایا تھا کہ اسلام ایک دن غریب ہوجائے گا)اب ایمان کا ایساکوئی امیر نہیں بچا کہ جسے یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں ایک مسلمان عورت کی برہنہ تلاشی کے قصے سنائے جاتے ہوں اور اُس کا لہو کھول اٹھتا ہو…البتہ چچ چچ اور ”بڑے افسوس کی بات ہے “ جیسی سرگوشیاں ماحول کا ایک چکر لگا کر ہوا میں ضرور تحلیل ہوجاتی ہیں، بس اِس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا…اے پسند فرمائے گئے مجتبیٰ!ہمارے لیے ہدایت کی التجا فرمایے تا کہ اللہ جل مجدُہ ہم سیاہ کاروں کو بھی پسند فرمالے ،ہم جانتے ہیں کہ وہ روٹھا ہوا ہے لیکن اِس کے باوجود خمیر کی اکڑ نے ہاتھوں کو اِس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ اجتماعی توبہ میں بھی گویا شان گھٹتی نظر آتی ہے اور بارگاہ میں لجاجت سے ہاتھ اٹھتے ہی نہیں …اب توہم وہ ہیں جو استکبار سے بہت قریب اور استغفار سے بہت دور ہیں، ہم تو وہ ہیں جنہوں نے دنیا کے چند روزہ میلے میں نشاط کامستقل جھولا لگا کر یہ گمان کر لیا ہے کہ شایدیہی آسودگی کی انتہا ہے…توپھراے درخواستوں کے قبول کرنے والے مجیب! ہمیں سنبھالیے، گمراہی کی گھاٹیاں منہ کھولے راہ تک رہی ہیں اور ہم آنکھ میں حیاتِ نظر کی حقیقت کے باوجودبصد شوق گرنے کے لیے تیار ہیں…!
اے خبر رکھنے والے حفّی! ہم بیکسوں کی خبر تو لیجیے، دیکھیے کہ ہر شے میں سے برکت اٹھتی ہی جارہی ہے ، سکون و اطمینا ن کا کہیں نام و نشان تک نہیں،جن پہ تکیہ تھا وہ بھی اب بدلتے جارہے ہیں،کیسا منظر ہے کہ ہر فرد کو اپنی ہی پڑی ہے ، کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں،اب یہاں اصولوں کے نہیں فتح و شکست کے سکے چلتے ہیں…جب وقت کڑا تھا تو معتبرین، معتقدین کے درمیان یہ جملے ادا کیے کرتے تھے کہ ”ہم اللہ کے سوا اور کسی کو جواب دہ نہیں“ اور اب اِن معززین کا یہ حال ہے کہ بلا ٹلتے ہی سراُٹھا کر کہتے ہیں کہ ”ہم آئین کے بعد اللہ کو جواب دہ ہیں“…اے میرے مصدق! مجھے بتائیے تو سہی کہ ”اللہ کے بعد“ جیسے الفاظ موحد پرستی کا دعویٰ کرنے والے کسی فرد کی زبان سے ادا ہی کیسے ہوجاتے ہیں؟ فکر کی اِس پراگندہ لہر کو لفظ بننے سے پہلے ہی زبان اپنے آپ کو اُن پہرے دار دانتوں کے سپرد کیوں نہیں کردیتی جو اُسے اِس جرم میں چپا ہی ڈالیں…اختیارکے ساتھ تواضع نہ ہوتو غرور کے چھینٹے سفید پوش ایمان پر داغ ڈال ہی دیتے ہیں…آئین کے بعد اللہ …اُف! مجھ گناہ گار کے لیے تو یہ تصور بھی محال ہے ،جو کچھ ہے رب کے بعد ہے ، رب سے پہلے تو میرے آقا آپ بھی نہیں، وہ کہ جن پر میری ہر سانس نثار ، اے میرے سرکار آپ بھی نہیں! اور وہ جو خدا کا کلام ہے ، اُس کا بھی توخدا کے بعد ہی نام ہے …پھر یہ آئین کیا ہے جو ایک منصف کے بقول ”خدا سے بھی پہلے ہے “، اب جس کے جملے ہی ناانصافی کی شبیہ بن کر ابھرنے لگے ہوں، اُس سے انصاف کی اُمید کیسے لگائیں؟ جس کے تین گھنٹے تین منصفین کی تقرری کے لیے گفت و شنید کااثاثہ بن جائیں اور جو ایک دفعہ بھی یہ نہ پوچھ سکے کہ ”میں نے شَکر کی قیمت40روپے مقرر کرنے کا حکم جاری کیا تھا، اِس پر عمل درآمد کیوں نہ ہوا؟“اُس کی برہمیاں، تبصرے اور ریمارکس پہاڑ کی چوٹی پرکسی کامیاب کوہِ پیما کی وہ پکار لگتے ہیں۔
جس کی گونج پلٹ کر صرف اُسی کو سنائی دیتی ہو…اے خوشخبری دینے والے بشیر! کوئی خوشخبری سنائیے،دل بیٹھا جارہا ہے، عقل پرستوں کے تصادم سے نئی فکر کی چمکتی بجلیاں ڈرائے دے رہی ہیں،کہیں بہت برا نہ ہوجائے ،ایک بار ہم ناسمجھوں کو بتادیجیے نا کہ اللہ کو کیسے راضی کریں…اے کامل ! ہمارے اردگرد ہرطاقت ور جسے اپنی حکومت پر ناز ہیتیار بیمھا ہے کہ آج نہیں تو کل ہمیں تکلیف ضرور پہنچائے گا، بس آپ باری تعالیٰ کی بارگاہ میں سفارش فرما کر ہمیں یہ شعور عطا کرادیجیے کہ ہم ایک بار یہ فیصلہ کر ہی لیں کہ ہمارے لیے وہ درد اہم ہے یا درد پہنچانے والا ظالم…تاکہ اِن میں سے کسی کو بھی ”دور“ کرنے کا فیصلہ آسان ہوجائے۔۔۔!

Articles

حالی صاحب کا مشورہ لیکن جوتا چوری ہونے کےبعد

In طنز ومزاح on فروری 23, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

 اگرچہ میرا پہلا جوتا اس وقت چوری ہوا جب میرا شمار طالبان ِجامعہ میں ہوتا تھا۔ خالدہ انتہائی لائق اور اچھی کلاس فیلو تھی۔ سنتےآئےہیں کہ اچھےلوگوں کودنیا سےجلدی اُٹھالیا جاتا ہے۔ تب جب سمسٹر کی چھٹیاں تھیں تو ایک اور کلاس فیلو ثمینہ امتیاز سےفون پر رابطہ ہوا۔ برق رفتار رابطہ کا ذریعہ موبائل فون اس وقت عام نہیں تھا۔ جب پتا چلا تو مرحومہ کےبھائی کےساتھ ڈیفنس قبرستان میں خالدہ کی قبر پر گیا۔ واپسی پران کےگھر واقع پی سی ایچ ایس کے قریب ایک مسجد میں نماز پڑھنےگیا۔ باہر نکلا تو جوتے غائب تھے۔
کل عشاءکی نماز میں میرےجوتے پھرچوری ہوئے۔ اس سےقبل 29جنوری جمعہ کےدن اسی مسجد سے میرے پشاوری چپل چوری ہوئےتھے۔ ایک مہینہ قبل ہی چارسدہ سےلایا تھا۔ اس کےلئےخصوصی طور پراپنےگائوں سےچارسدہ گیا۔ ایک دوست نےکہا میرےلئےنہیں لایا تھا اس لئےتمہارے بھی چوری ہوگئے۔
کل مسجد سےپلٹنےکےبعد جب علی خان صاحب کو جوتا چوری کی خبر دی تو انہوں نےکہا کہ ایسا ہوتا ہے۔ میں نےکہا زمانہ خراب ہوگیا۔ مسجد کےباہر تک جوتےنہیں چھوڑتے۔ نمازی جوتےاندر لےجانےپرمجبور ہیں۔ وہ مسکرائےاور پھر کہنےلگے؛

اپنےجوتوں سے رہیں سارےنمازی ہوشیار
اِک بزرگ آتےہیں مسجد میں خضر کی صورت

علی خان صاحب نے اس کم علم کو یہ بھی بتایا کہ یہ شعرمولانا الطاف حسین حالی کا ہے۔
کہنےلگے اگرچہ مولانا کےنام میں حالی ہی ہے‘ لیکن وہ ہر گز حال ہی میں نہیں گزرےہیں۔ 1915ءمیں حالی صاحب اس دنیا میں نہیں رہےتھےکیوں کہ اس سے پچھلےسال کےآخری دن وہ خالق حقیقی سےجاملےتھے۔
۲۰۰۲ء میں جب پہلی دفعہ میرا جوتاچوری ہوا تھا تو اگرچہ مجھےالطاف حسین حالی کےمشورےکا علم نہیں تھا پھر بھی ہوشیار رہنےلگا تھا۔ ایک دفعہ فضل محمد بھائی کےساتھ مسجد گیا۔ میں نےاپنےجوتےآگےرکھے۔ فضل بھائی نے پوری تقریر جھاڑ دی۔ جماعت ہوچکی تھی ‘غالبا ً عصر کا وقت تھا۔ اپنی انفرادی نماز پڑھ کر پیچھے پلٹے تو فضل بھائی کے جوتے غائب تھے۔ ایک دن قبل ہی باٹا سےخریدے تھے۔ ان کی تقریر سن کر دل تو نہیں کررہاتھا کہ ان کےکام آوں لیکن گیا او رقریبی دکان سےہوائی چپل لاکر دئیے۔
درمیان میں8سے10سال گزرےتو میں نےجوتےباہر رکھنا شروع کردیئے‘ لیکن اب میں حالی صاحب کےمشورےکو کبھی نہیں بھولوں گا۔

 

Articles

مجاہدین یا بیوائیں؟

In پاکستان,بین الاقوامی تعلقات,دہشت گردی on فروری 19, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

شاہنواز فاروقی
اسلام میں شہادت کی عظمت یہ ہے کہ خود سردارِ انبیاءحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی آرزو کی ہے۔ شہادت کی اس عظمت سے جہاد اور مجاہد کی عظمت نمودار ہوتی ہے۔ مجاہد کی عظمت بیان کرتے ہوئے اقبال نے کیا خوب کہا ہے ۔
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
اقبال کے ان شعروں میں مجاہدوں کی ”پراسراریت“ یہ ہے کہ اگرچہ وہ زمین پر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں مگر ان کا تعلق زمین سے زیادہ آسمان کے ساتھ ہے۔ وہ انسان ہیں مگر فرشتوں سے بہتر ہیں۔ ان کے ذوق خدائی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جو ارادہ کرلیتے ہیں وہ پورا ہوکر رہتا ہے۔ وہ صحراﺅں اور دریاﺅں پر حکم چلاتے ہیں اور پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی بن جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ شاعرانہ باتیں ہیں۔ بھلا انسان کی ہیبت سے کبھی پہاڑ بھی رائی بنتے ہیں! مگر ہم دیکھ چکے کہ مجاہدین نے ہماری آنکھوں کے سامنے ”سوویت یونین“ کو محدود کرکے صرف ”روس“ بنا دیا۔ یہی پہاڑ کو رائی بنانے کا عمل ہے۔ کیا آپ کو محسوس نہیں ہورہا ہے کہ افغانستان میں امریکا ”سپرپاور“ نہیں ہے، صرف ایک عام ملک ہے۔ یہ پہاڑ کو رائی بنانے کی ایک اور مثال ہے۔ لیکن ایک جانب مجاہدین کا یہ عظیم تصور ہے اور دوسری جانب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا تصورِ مجاہد۔ لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کا تصورِ مجاہد کیا ہے؟ آئیے نصرت مرزا کی زبان سے سنتے ہیں جنہوں نے ۱۱فروری ۰۱۰۲ءکے روز جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا ہے:
”نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکی پاکستان میں جہادی تنظیموں پر کریک ڈاﺅن کے لیے دباﺅ ڈال رہے تھے…. آئی ایس آئی چیف نے امریکی نمائندوں خصوصاً رچرڈ آرمٹیج کو سمجھایا کہ ایک دم کریک ڈاﺅن سے شدید ردعمل ہوگا، ان کا آہستہ آہستہ سمجھایا جاسکتا ہے…. ظاہر ہے تنظیمیں ایک مقصد کے لیے کھڑی کی جاتی ہیں۔ انہیں کسی مشین کی طرح کھول کر رکھا نہیں جا سکتا۔ وہ انسانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان کو ایک دفعہ چارج کرکے ڈسچارج کرنے کے لیے وقت اور دوسری تھیوری دینے کی ضرورت ہوتی ہے…. پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کافی حد تک (جہادی تنظیموں کی پیدا کردہ) صورت ِحال پر قابو پالیا ہے اور بہت سے سوراخ بند کردیئے ہیں۔ باقی بچے ہوئے سوراخوں پر سیسہ ڈال کر انہیں بند کررہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ…. وہ ایسی حکمت ِعملی وضع کرے جو ان تنظیموں کو عزت و احترام کے ساتھ معاشرے میں بسائے اور وہ ان کی طاقت کو مثبت کاموں میں لگانے کی کوشش کرے۔“
ان سطور کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ مجاہدین کو کرائے کے فوجی اور بھاڑے کے ٹٹو سمجھتی ہے جنہیں جب چاہے کام پر رکھا اور جب چاہے ”جاب“ سے برطرف کیا جا سکتا ہے۔ ان سطور سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے لیے جہاد کوئی ”عقیدہ“ نہیں ہے بلکہ ایک ”تھیوری“ ہے جو امریکا کی ہدایت پر لپیٹ کر رکھی جاسکتی ہے اور اس کی جگہ کوئی نئی ”تھیوری“ وضع کی جاسکتی ہے۔ لکھنے کو تو نصرت مرزا صاحب نے یہ لکھا ہے کہ انسان مشین نہیں ہوتے، لیکن عملاً دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ہماری ایجنسیاں مجاہدین کو انسان کے بجائے ”روبوٹس“ سمجھتی ہیں جن میں جب چاہے جہاد کا ”پروگرام“ داخل کیا جاسکتا ہے اور جب چاہے کوئی اور تھیوری ”فیڈ“ کی جاسکتی ہے۔ جہادی تنظیموں کو معاشرے میں عزت کے ساتھ بسانے کے تصور سے خیال آتا ہے کہ جیسے جہادی تنظیمیں ”بیوائیں“ ہیں۔ چونکہ ان کا پہلا شوہر مرگیا ہے اس لیے اب ”ذمہ داروں“ کو ان کی دوسری شادی کی فکر ہے تاکہ وہ معاشرے میں نصرت مرزا کے الفاظ میں باعزت طریقے سے رہ سکیں۔ اس تجزیے کو دیکھا جائے تو اس میں نہ قرآن کے تصورِ جہاد اور تصورِ مجاہد کا کوئی پاس ہے، نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا کوئی احترام ہے۔ اس تجزیے میں صرف ایک چیز اہم ہے‘ دنیا اور اس کا (بھی) پست تصور۔ مگر سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مجاہدین کے بارے میں جو کچھ سمجھتی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟
زندگی کا اصول ہے کہ انسان جیسا خود ہوتا ہے دوسروں کو بھی ویسا ہی تصور کرتا ہے۔ بے ایمان انسان کو ساری دنیا بے ایمان نظر آتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چونکہ خود کرائے کی فوجی ہے اس لیے وہ مجاہدین کو بھی کرائے کا فوجی سمجھتی ہے۔ چونکہ اس کا کوئی ”مستقل“ عقیدہ نہیں اس لیے اس کا خیال ہے کہ مجاہدین کے لیے بھی جہاد کو مستقل عقیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے نزدیک جہاد ایک فوجی حربہ ہے اور بس۔ اور فوجی حربے کو کسی بھی وقت بدلا جا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ ذہنیت اسلام اور فکر ِاقبال کی ضد ہے، اس سے جہادی عناصر ہی کیا، صاحب ِعزت سیکولر فرد میں بھی شدید ردعمل پیدا ہو سکتا ہے۔
انسانی تاریخ میں کیسے کیسے باطل نظریات ابھرے ہیں مگر ان کے ماننے والوں نے ہر قیمت پر ان باطل نظریات کو سینے سے لگائے رکھا ہے۔ کسی کو سوشلزم سے محبت تھی اور اس نے سوشلزم کے ساتھ ستّر سال گزار دئیے۔ کسی کو سیکولر ازم سے اُنس ہے تو وہ ایک صدی سے اس کے ساتھ زندہ ہے۔ دنیا میں کروڑوں انسان ہیں جو خود کو قوم پرست کہتے ہیں اور وہ کسی قیمت پر قوم پرستی سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن ایک ہم ہیں، ہمارے پاس ”حق“ ہے مگر امریکا کا دباﺅ آجائے تو ہم اپنے حق کو بھی بدل ڈالتے ہیں۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟؟

Articles

ڈیڑھ منٹ کا راستہ

In پاکستان on فروری 19, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: ,

اطہر ہاشمی
عدالت عظمیٰ سے وزیراعظم ہاﺅس تک صرف ڈیڑھ منٹ کا سفرہے مگر اس کے لیے ایک یوٹرن لینا پڑتاہے۔ عجیب بات ہے کہ اس مختصر ترین سفرمیں ایک نہیں متعدد یوٹرن آتے رہے ہیں اورباربارآتے رہے ہیں۔ اب ایک یوٹرن حکومت نے لیاہے۔ منگل کی شب وزیراعظم ٹرن لے کرعدالت عظمیٰ میں دیے گئے عشائیہ میں پہنچ گئے تھے اور اگلے دن جناب چیف جسٹس ایک موڑمڑ کر ایوان وزیراعظم پہنچ گئے۔ اس کے نتیجے میں قوم کے سامنے ایک نیا موڑ آگیاہے لیکن یہ موڑ اس سے بہترہے جس میں عدلیہ کا رخ موڑا یا بازو مروڑا جارہاتھا۔ عشائیہ سے کچھ ہی پہلے تک جناب وزیراعظم قومی اسمبلی میں کچھ اور کہہ رہے تھے۔
قصرصدارت بھی عدالت عظمیٰ سے زیادہ دورنہیں ہے۔ لیکن آئین کی بالادستی یافردکی دراز دستی نے مختصر فاصلوںکوبھی طول دے دیاہے اور راستے میں اسپیڈبریکر بھی بے شمار ہیں۔ یہ دکھائی تو نہیں دیتے اور ان کا پتا صرف اس وقت چلتاہے جب کوئی رواں دواں گاڑی اچانک اچھل جاتی ہے اور گاڑی میں سکون سے سفرکرنے والے مسافرکا سرڈیش بورڈ سے جاٹکراتاہے۔ تب یاتو اسپیڈٹوٹ جاتی ہے یا مسافر ہی اچھل کر باہرآجاتاہے۔
ابھی دوسال بھی نہیں ہوئے کہ اسی قصر صدارت میں ایک باوردی جنرل نشہ
صہبا میں خودفراموشی کے علاوہ خودپسندی ‘ خودنمائی اورخودی کے نشہ سے بھی سرشاریگانہ چنگیزی کے شعرکی تفسیربنابیٹھا تھا کہ
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
جنرل صاحب نے ماضی کی روایات کو برقراررکھتے ہوئے صدرکے منصب پربھی قبضہ کررکھا تھا اورہم چوما دیگرے نیست کا نعرہ مستانہ بلند کرتے رہتے تھے۔ سب کو زیرکرنے کے بعد پڑوس میں موجود عدالت عظمیٰ کی عمارت پر نظرپڑی توخیال آیا کہ یہ علاقہ اب تک غیرمفتوحہ ہے۔ عدالتوں کو فتح کرنے کاکام تو ایک بے وردی حکمرانی غلام محمد نے شروع کردیاتھاان کے منصب میں ”جنرل “ کا لفظ موجودتھا‘ شاید اسی کا اثر تھا یا جنرل ایوب خان کی منصوبہ بندی کا کہ پارلیمنٹ توڑ‘ تاڑکے حکومت کو برطرف کرکے عدالت سے نظریہ ضرورت کی سند حاصل کرلی۔ ضرورت گورنر جنرل غلام محمدکی تھی اور نظریہ جسٹس منیرکا۔ اس کی داد تو دینا پڑے گی کہ اس طرح جسٹس منیر عدلیہ کی تاریخ میں امرہوگئے ورنہ تو کتنے ہی جج آئے اورگئے ‘ ایسی شہرت کسی نے نہ پائی اوران کے نام بھی یاد نہ ہوں گے۔
جسٹس منیر کے دامن سے تو منفی شہرت وابستہ ہے لیکن عرصہ بعد پھر ایک شہرت افتخار محمد چوہدری کے حصہ میں آئی جس نے ان کو ہیروبنادیا۔ اس میں بڑا حصہ جنرل پرویزمشرف کا بھی ہے۔ انہوں نے عدلیہ کو بھی کارگل سمجھا اور جی ایچ کیو میں اپنے صدارتی کیمپ میں چیف جسٹس کو بلابھیجا۔ لیکن یہاں بھی بلندی سے اترنا پڑا اور پھرپسپائی کا یہ سفر ۸۱اگست ۸۰۰۲ءتک رکانہیں۔ افتخار محمد چوہدری کی ایک ”نہیں“ نے سارا منظر بدل دیا اور وہ جو سب کو مکے دکھایاکرتے تھے‘ اب راندہ درگاہ ہیں۔ وہ جو کہتے تھے کہ بے نظیر اور نوازشریف کا کردار سیاست سے ختم ہوگیا‘ وہ کبھی واپس نہ آسکیں گے‘ وہ دونوں واپس آگئے بے نظیرختم ہوگئیں لیکن سیاست میں ان کا کردار ختم نہیں ہوا۔ رام چندرجی کو جب ان کی سوتیلی ماں کیکئی کے تریا چلتّرکی وجہ سے بن باس کاٹنا پڑا تو اسی کیکئی کے بیٹے نے ‘جسے ماں تخت وتاج کا وارث بنانا چاہتی تھی بڑے بھائی رام چندرکی کھڑاویں اتروالی تھیں اور کرسی اقتدارپر خودبیٹھنے کے بجائے رام چندرکے جوتے رکھ کر حکومت چلارہاتھا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ کانٹوں بھرے جنگل میں جانے والے بھائی کے جوتے اترواکر اسے پا برہنہ کیوں کیا لیکن ہندوﺅں کی مذہبی تاریخ یہی کہتی ہے۔ اس زمانے میں تصویروں کا رواج نہیں تھا ورنہ تو رام چندرکا سوتیلا بھائی جوتوں کے بجائے تصویر رکھ کرکام چلاتا۔ اب تصویریں عام ہیں۔ اقوام متحدہ میں خطاب کرنا ہوتو بھی پہلے تصویر سامنے رکھی جاتی ہے۔ہمارے موجودہ صدرجناب زرداری کو تو خواب میں ہدایات بھی ملتی رہتی ہیں لیکن ان کے جو اقدامات ہیں انہیں دیکھ کر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا کہ یہ محترمہ بے نظیرکی ہدایات ہیں‘ وہ بہرحال ایک سمجھدار خاتون تھیں اور سیاست بھی سیکھ گئی تھیں اس خاردارکی کٹھنائیوں کی وجہ سے انہوں نے اپنے شوہر کو سیاست سے دورہی رکھالیکن تقدیرسے کون لڑسکتاہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ بدترین جمہوریت آمریت سے بہترہوتی ہے۔ درست ہے ‘ ہمیں آمریت سے نجات کے بعد ایسی ہی جمہوریت ملی ہے۔ کسی نے کہابھی ہے کہ مزید 3 سال تک ایسی ہی جمہوریت چلتی رہی تو عوام پرانے کفن چورکی تعریف کرنے پر مجبورہوجائیں گے۔ حبس بڑھ جائے تو لوکی دعاکی جانے لگتی ہے۔ جناب پرویزمشرف نے پوچھا ہے کہ عوام کو ضرورت ہے تو کیا میں واپس آجاﺅں ؟ خداکرے کہ وہ واپس آجائیں‘ ان پر بہت سے قرض واجب ہیں اب تو وہ کسی چیف جسٹس کو طلب کرکے استعفیٰ نہیں مانگ سکیں گے البتہ یہ ممکن ہے کہ چیف جسٹس انہیں خود طلب کرلیں۔
جناب چیف جسٹس جب صدر پرویزکے کیمپ آفس میں جنرلوں کے گھیرے سے باہرآئے تھے تو اس وقت وہ قوم کے ہیروبن چکے تھے۔ اور انہیں فتح کرنے والے خائب وخاسرتھے۔ پھرجو ہوا وہ سب نے دیکھا لیکن نوازشریف کے جانشینوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ایوان صدر میں اب تک پرویز مشرف کی بدروح چکرارہی ہے۔ شہید بی بی بے نظیرکی روح جناب زرداری کو جو مشورے دیتی ہے‘ معلوم ہوتاہے ان پر دھیان نہیں دیاجاتا۔ وہ بھی عدلیہ سے پنگالے بیٹھے اور جلد ہی ثابت ہوگیاکہ اڑنا نہیں جانتے۔ صرف چند دن کی گرما گرمی پیدا کرنے کے بعد آئین کے سامنے سرجھکانا پڑا اور اپنا جاری کردہ حکم نامہ واپس لینا پڑا۔ وزیراعظم نے اسمبلی میں تو خوب گرما گرمی دکھائی لیکن جلد ہی ان پر حقیقت واضح ہوگئی وہ بے چارے بہت دنوں سے فائربریگیڈ کا کام کررہے ہیں۔ وہ جو ایک بی بی پیپلزپارٹی کی سیکریٹری اطلاعات ہیں فوزیہ وہاب ‘ ان کی کچھ نہ پوچھیے ۔ صرف اتنا ہی کہاجاسکتاہے کہ جو بات کی خداکی قسم لاجواب کی۔ دودن پہلے بڑے طمطراق سے فرمارہی تھیں کہ ججوں کے حوالے سے صدرکا نوٹیفکیشن واپس لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسی ہی کچھ باتیں موصوفہ نے این آر او کے حوالے سے کہی تھیں‘ اب دیکھیے وہ کیا کہتی ہیں لیکن ہمیں اعتراض تو ٹی وی چینلز پر ہے کہ وہ آئین اورقانون جیسے سنجیدہ معاملات میں بھی فوزیہ بی بی کی رائے طلب کرکے انہیں دشواری میں مبتلا کردیتے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک بارپھر ڈیڑھ منٹ کا فاصلہ طے کیا اور وزیراعظم ہاﺅس جاکرسید صاحب سے ملاقات کی۔ ان دونوں کے درمیان بی بی شہید کی تصویر رکھی ہوئی تھی۔ شاید کچھ کہہ بھی رہی ہو۔ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ صدر زرداری کا حکم نامہ منسوخ کردیاگیا اورسوپیازوں وغیرہ کی نوبت آنے سے پہلے معاملہ نمٹ گیا۔ فارسی میں کہتے ہیں کہ :
ہرچہ داناکند‘ کندناداں‘لیک بعد ازخرابی ¿ بسیار
لیکن اردومیں کہتے ہیں کہ نانی نے خصم کیا‘ براکیا۔ کرکے چھوڑ دیا اور براکیا۔ قدم قدم پر وہی ہورہا ہے ۔ بھوربن معاہدے سے لے کر عدلیہ سے نئے پنگے تک۔ آخر یہ حکمران چاہتے کیاہیں۔ کیوں اپنے ہی پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اگر آئین کے مطابق پہلے ہی چیف جسٹس سے مشاورت کرکے فیصلے کیے ہوتے تو نئی شرمندگی کا سامنا تو نہ ہوتا ۔ لیکن لوگ کہتے ہیں کہ حکمرانوں کو اس کی پروا نہیں۔ بچپن کی بات دماغ میں جم گئی ہے کہ جس نے کی بے حیائی‘ اس نے کھائی دودھ ملائی۔ لیکن عوام کے لیے تو چھاچھ بھی نہیں بچا۔
ڈیڑھ منت کا یہ راستہ کئی دن میں طے ہوگیا۔ جب راستے میں کئی یوٹرن ہوں‘ جگہ جگہ اسپیڈ بریکر لگے ہوں تو مختصرسا فاصلہ بھی طویل ہوجاتاہے۔

Articles

شامی صاحب سے معذرت خواہ ہوں

In پاکستان on فروری 16, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

کل ایک دوست نے روزنامہ پاکستان میں شائع ایک اشتہار اور اس کے اگلے روز اسی اخبار کے دینی صفحے پر شائع’’مرزا غلام احمد قادیانی کی سائنسی ایجادات‘‘  کے عنوان سے کالم کی کاپی دے دی اور ساتھ ساتھ سخت تشویش کی صورت میں اپنا فیڈ بیک دے اسے بلاگ کا مضمون بنانے کی تجویز دی۔ میں ایک اخباری اسائنمٹ میں مصروف تھا اس لیے صرف اشتہار پر نظر ڈالنے کے بعد مضمون کو بلاگ پر پیش کردیا ۔ مجھے اطلاع دینے والے پر اعتماد تھا جو اتنی بڑی غلطی ثابت ہوا جس پر معذرت کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ بلکہ اس کے ازالہ کے طور پر یہی کیا جاسکتا ہے کہ میں روزنامہ پاکستان کے ساتھ ساتھ مجیب الرحمن شامی صاحب سے معذرت خواہ ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھی معافی کا درخواست گذار ہوں کہ میں نے غیر ارادی طور پر اس کے احکامات سے بھی روگردانی کی اور بغیر تحقیق کے ایک خبر اگے بڑھادی ۔

اشتہار اور مضمون کا لنک یہ ہے۔

 

میں ان تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے توجہ دلائی لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کل بلاگ لکھنے کے بعد میں لاگ آف ہوکر سوگیا ۔ صبح اُٹھ کر مضمون پڑھا تو اپنی غلطی کا احساس ہوالیکن میرا انٹرنیٹ بند رہا اور میں دن کے ڈھائی بجے ہی اس پر کچھ لکھنے کے قابل ہوسکا۔ 

 

Articles

سیاسی مانجھے سے کٹی لاشیں اور نہاری

In پاکستان on فروری 15, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

علی خان
یقین کیجیے (نہ کریں تو بھی کیا) ہمیں نہیں معلوم یہ شعر کس کا ہے، ابو نثر کو ضرور معلوم ہوگا۔
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
جانے کن حالات میں یہ شعر کہا گیا ہوگا اور کون ایسا جی دار ہوگا کہ جبر ناروا کو مسترد کرکے کسی بلا سے لڑنے پر ”اتارو“ ہوا ہوگا۔ ہم تو ایک عرصہ سے مفاہمت کی پتنگیں فضاﺅں میں اڑتے دیکھ رہے ہیں۔ جمہوریت کے چیمپئن کہلانے والے فوجی جنرلوں سے چپکے چپکے مفاہمت کرلیتے ہیں اور اسے این آر او یعنی قومی مفاہمتی آرڈیننس کا نام دے کر خود بلا بن جاتے ہیں۔ شہر میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہیں اور کھل کر ایک دوسرے پر الزام بھی عائد کرتے ہیں پھر اسلام آباد سے کوئی بیٹ مین اتر کر آتا ہے اور مفاہمت کا سبق پڑھاتا ہے اور کفن میں لپٹی لاشیں پوچھتی رہتی ہیں کہ ہمارے خون کا سودا کتنے میں طے ہوا، مفاہمت کس بنیاد پر ہوئی۔ لیکن کشتگان مفاہمت کی آواز کسی کے کانوں تک نہیں پہنچتی، ان کے لواحقین کا بلکنا، تڑپنا‘اس پر صدائے برنخواست…. ہاں! حکومت لاشوں کا معاوضہ بڑھا دیتی ہے کہ اسے کونسا اپنی جیب سے دینا ہوتا ہے۔ یہ معاوضے کسی صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا کسی اور وزیر کی تنخواہ میں سے نہیں ہمارے، آپ کے خون پسینے کی کمائی سے دیے جاتے ہیں۔ یہی رقم اگر امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے، قاتلوں کو پکڑنے پر صرف کی جائے تو جبرناروا سے مفاہمت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گجرات میں برسوں سے جاری دشمنی کی بناءپر پچھلے دنوں پندرہ افراد کھیت رہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب وہاں تشریف لے گئے تو مقتولوں کے گھر کی سوگوار خواتین نے بیک زبان کہا کہ ہمیں رقم نہیں انصاف چاہیے۔ جناب شہباز شریف نے انصاف دلانے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن دل میں کہتے ہوں گے کہ یہ مطالبہ پورا کرنا تو بہت مشکل ہے، عوام کے ٹیکس سے وصول ہونے والی رقم میں سے کچھ لے کر مفاہمت کرلو۔ گجرات میں خاندانی دشمنی کا یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے، جب پہلا شخص قتل ہوا تھا اسی وقت قانون حرکت میں آجاتا، انصاف بروئے کار لایا جاتا تو اب تک دونوں طرف سے پھنتالیس افراد نہ مارے جاتے۔ لیکن ایک گجرات کیا، یہ تو شہر شہر کی داستان ہے۔ جب بھی کوئی گردن کٹتی ہے، کوئی مظلوم مارا جاتا ہے تو کبھی دور سے آواز آتی ہے ”مٹی پاﺅ“ یہ عمل ہر جگہ جاری و ساری ہے۔ این آر او کا لب لباب بھی یہی تو تھا کہ مٹی پاﺅ اور پھر ہر معاملہ کو منوں مٹی تلے دفن کردیا جاتا ہے۔ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پر بھی مفاہمت کی مٹی ڈال دی گئی۔ بلدیاتی معاملات پر سمجھوتا ہوگیا جس پر کسی نے تبصرہ کیا ہے کہ ”نہاری ڈپلومیسی کامیاب ہوگئی“ رحمن ملک کو ایک بار پھر کراچی آنے کی زحمت اٹھانا پڑی اور نہاری کی پلیٹ پر سمجھوتا ہوگیا۔ ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے جائیں گے اور ان کا فیصلہ مفاہمت سے ہوگا، یہ تیرا، یہ میرا، تیسرا فریق اے این پی اس پر برہم ہے کہ رحمن ملک نے یہ کیسے کہا کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ نہیں ہورہی اور یہ جو لوگ مرے ہیں یہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار نہ تھے تو کیا تھا؟ اتنا نہیں معلوم، یہ مفاہمت کے شکار تھے۔ مفاہمت کے حوالے سے ایک لطیفہ سن لیجیے:
”امی ، امی، پپو نے کھڑکی کا شیشہ توڑ دیا“۔
”وہ کیسے؟“
”میں نے اسے پتھر مارا، وہ سامنے سے ہٹ گیا“۔
اسے آپ بچپنا کہہ لیجیے، لطیفہ سمجھ لیں لیکن ذہانت تو جھلک رہی ہے۔ گمان غالب ہے کہ پپو کا یہ بھائی بڑا ہو کر ضرور سیاست میں آگیا ہوگا۔ ایسا ہوا تو اس پر یہ انکشاف ضرور ہوگا کہ یہاں تو پہلے ہی پپو بھی ہیں اور ان کے بھائی بھی، ایسے کہ کھڑکی کا شیشہ نہیں گردن توڑ کر بھی الزام گردن کو دیتے ہیں کہ کیسی کمزور نکلی۔ آپس میں لڑبھڑ کر کسی پپو کو تلاش کرتے ہیں کہ قصور اس کا ہے۔
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن پر ماہ و سال اثر نہیں کرتے، مزاج طفلی غالب رہتا ہے، کہتے ہیں کہ ہر شخص کے اندر ایک بچہ چھپا رہتا ہے لیکن سنجیدہ اور معقول لوگ اسے مچلنے نہیں دیتے اور بہت سے ایسے ہیں جو اس بچے کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں اور یہ بچہ شیشے توڑتا رہتا ہے، پتھراﺅ کرتا رہتا ہے اور کسی پپو کو الزام دیتا رہتا ہے۔ اس فن میں تو امریکا بھی ماہر ہے، افغانستان کے حالات بگاڑ کر پاکستان کو پپو بنا رہا ہے، اس کے شاگرد پاکستان میں بہت۔


مفاہمت ہوگئی، اچھا ہوا، ورنہ شاید مقتولوں کی تعداد سوسے اوپر جاتی، لیکن ابھی مفاہمت سندھ حکومت میں شامل دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور متحدہ میں ہوئی ہے جو قومی موومنٹ ہونے کی دعویدار ہے، بالکل اسی طرح جیسے پیپلز پارٹی ”پیپلز“ کی جماعت ہے۔ ایک طرف متحدہ اتحاد کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور دوسری طرف پیپلز پارٹی پیپلز کا تیل نکال رہی ہے۔ مفاہمت کی بنیاد صرف یہ ہے کہ اقتدار قائم رہے، عوام مرتے ہیں تو مرتے رہیں، قتل ہوں یا مہنگائی کے ہاتھوں دم توڑدیں۔ کاش کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مفاہمت عوام کی بہبود کے لیے ہوتی، ملکی سلامتی کے لیے ہوتی، قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ہوتی، امن و امان کے لیے ہوتی۔ یہ مفاہمت تو اس لیے ہے کہ تم بھی قتل کرو، غارت گری کرو، لوٹ مار کرو، ہم بھی کریں اور عوام کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیے ایک دوسرے پر الزامات لگائیں۔ گرما گرم تقریریں کریں اور پھر ہاتھ ملالیں۔ ہمارے وڈیرے، جاگیردار، زمیندار اور خوانین خوب جانتے ہیں کہ ایسی مفاہمت ڈاکوﺅں اور رسہ گیروں میں ہوتی ہے، علاقے بانٹ لیے جاتے ہیں، کوئی دوسرے کے علاقے میں واردات نہیں کرتا۔ اس غیر تحریری آئین کی کوئی خلاف ورزی کرے تو علاقے کا بڑا ایک جرگہ بلا کر فیصلہ کرتا ہے، ڈاکوﺅں کے سرداروں کا مصافحہ، معانقہ کروادیا جاتا ہے اور سب ایک دستر خوان پر بیٹھ کر لوٹ کے مال پر دعوت اڑاتے ہیں، مہذب ڈاکوﺅں میں یہ دستر خوان اسمبلی کہلاتا ہے۔


کیسی عجیب بات ہے کہ شہر میں کئی دن سے روزانہ چودہ پندرہ افراد قتل ہورہے تھے، فساد پھیلتا جارہا تھا کہ لندن اور اسلام آباد میں مفاہمت ہوگئی۔ اپنے اپنے ”ہاکس“ کو اپنی چونچ پروں میں دینے اور دم دبا لینے کا حکم دیدیا گیا تو اچانک قتل و غارت گری رک گئی، کیوں؟ یہ صورتحال کس طرف اشارہ کررہی ہے؟ گزشتہ منگل کو کیسی گرما گرمی تھی۔ سندھ اسمبلی میں وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا اور وزیر بلدیات آغا سراج درانی متحدہ کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے تھے اس کے جواب میں اسی دن متحدہ کے ہاکس پریس کانفرنس میں کہہ رہے تھے کہ ”پیپلز پارٹی کراچی پر قبضہ کی سازش کررہی ہے، اپنا ناظم لانے کے لیے یہ سب کچھ کررہی ہے“ چلئے اب مفاہمت ہوگئی، نہاری کھایئے۔
سندھ میں تو عارضی طور پر پھر سیز فائر ہوگیا۔ بلدیاتی انتخابات اگر ہو ہی گئے تو ایک بار پھر لپاڈگی، کشتم کشتا، اکھاڑ، پچھاڑ اور اس سے آگے بڑھ کر خون خرابے کی نوبت آسکتی ہے۔ لیکن پنجاب میں خاص طور پر اور ملک بھر کی سیاست میں عمومی طور پر ”قومی مزاحمتی آرڈیننس“ کارفرما ہے۔ عدالت عظمیٰ نے واضح کردیا ہے کہ عدالت کے فیصلوں پر عمل نہ کرنے والے اب سیدھے جیل جائیں گے۔ عدالتی احکامات کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور صریحاً خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ عدالت نے یہ بھی پوچھا ہے کہ ”وہ کون شخص ہے جو عدالت کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کررہا ہے؟“


ہمیںمعلوم ہے مگر ہم بتائیں گے نہیں۔ معلوم تو معزز عدلیہ کو بھی ہوگا لیکن عدالت میں گواہی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ این آر او پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر مِن و عن عمل نہیں ہورہا لیکن حکمران کہہ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ایک لطیفہ یہ ہے کہ ججوں کے تقرر کے حوالے سے حکمرانوں نے کہا ہے کہ یہ تقرر’سی او ڈی‘ یا میثاق جمہوریت کے مطابق ہوگا۔ یعنی یہ میثاق آئین اور قانون سے بالاتر ہے۔ یاد رہے کہ ’سی او ڈی‘چارٹر آف ڈیموکریسی کا مخفف بھی ہے اور فوج کے ادارے سینٹرل آرڈیننس ڈپو کا بھی۔ اس ڈپو میں عموماً خطرناک اسلحہ اسٹور کیا جاتا ہے۔ راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف جاتے ہوئے دائیں ہاتھ پر واقع اوجڑی کیمپ میں بھی ’سی او ڈی‘تھا جہاں پراسرار دھماکوں سے بڑی تباہی پھیلی تھی اور اس کی تحقیقات کے حوالے سے سیاسی تباہی پھیلی۔ ایسا ہی ایک اسلحہ ڈپو لاہور چھاﺅنی میں بھی دھماکے سے تباہ ہوکر سیکڑوں قیمتی جانیں لے بیٹھا۔ کہیں یہ سیاسی ’سی او ڈی‘یا چارٹر آف ڈیموکریسی بھی دھماکہ خیز نہ ثابت ہو۔ یوں بھی یہ دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان میثاق تھا جسے الطاف بھائی مذاقِ جمہوریت کہتے تھے، اب وہ پیپلز پارٹی کے گاڈ فادرز میں سے ایک ہیں۔


شاید ہی کسی کی سمجھ میں یہ بات آئے کہ عدالتوں میں ججوں کی کمی پوری کرنے میں کیا رکاوٹ ہے، یہ ہچکچاہٹ، تردد اور اغماض کیوں؟ کیا ایسا نہیں لگتا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت خود اپنے لیے کنویں کھودتی جارہی ہے۔ سنا تو یہ ہے کہ ” چاہ کن راہ چاہ درپیش“ (کن کے قاف پر زبر پڑھا جائے،پلیز) یعنی دوسروں کے لیے کنواں کھودو گے تو تمہارے سامنے کنواں آجائے گا۔ لگتا یوں ہے کہ حکمرانوں نے ذوق کا (غالباً) یہ شعر رٹ لیا ہے کہ:
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا
لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ فیض احمد فیض کا شعر ہے اور یہ منظور صاحب کون ہیں۔ رہے حکمراں تو وہ مفاہمت کے نام پر جبرناروا کے پل بنا رہے ہیں اور اپنے لیے ہی کنویں کھود رہے ہیں، مسجد و تالاب تک ابھی نہیں پہنچے بالکل ایسے ہی جیسے دو برس بعد بھی اور چوتھی مرتبہ اقتدار ملنے کے باوجود روٹی، کپڑا، مکان میں سے ابھی تک روٹی تک نہیں پہنچے، اپنی روٹی نہیں، عوام کے لیے روٹی۔
کیا حکومت نے عدلیہ سے گتھم گتھا ہونے کی ٹھان لی ہے؟ لیکن خودکش حملہ آور پہلے خود مارے جاتے ہیں۔ چلیے، یہ تو بڑے معاملات ہیں اور بڑوں کے معاملات ہیں۔ لیکن ہر سال کی طرح اس بار بھی بسنت اور پتنگ بازی پنجاب میں متنازعہ بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف سیاسی فضاﺅں میں رنگ برنگی پتنگیں اڑ رہی ہیں۔ کچھ سیاسی پتنگ باز دھاتی ڈور استعمال کررہے ہیں، گردنیں کٹنے کا خدشہ ہے۔ راولپنڈی میں برسوں پہلے فرزند راولپنڈی کہلانے والے شیخ رشید پر حملہ ہوچکا ہے۔ اندھی گولیوں کی بوچھاڑ میں شیخ رشید صاف بچ نکلے۔ جاکو راکھے سائیں، مار سکے نہ کوئی۔ شیخ صاحب اگر خوفزدہ ہو کر نہ بھاگتے تو ٹانگ پر خراشیں تک نہ آتیں، لیکن چوہدری نثار کا یہ مطالبہ انفرادی زیادتی ہے کہ شیخ صاحب کی پتلون اٹھا کر دیکھا جائے، خراش بھی آئی ہے یا نہیں۔ شیخ صاحب کی پتلون ان کے مربی پرویز مشرف کی وردی تو نہیں جسے اتارنے کا مطالبہ کیا جاتا تھا او رجنرل صاحب کی ’سی‘ ٹیم کے ایک وزیر جناب رﺅف صدیقی یہ مصرعہ پڑھا کرتے تھے کہ ”کیا چاہتی ہے دیکھنا یہ مجلس عمل“ ہوا یوں کہ وردی کو اپنی کھال کہنے والے کھال سے باہر ہوگئے اور رﺅف صدیقی اور ان کی جماعت نے دوسرے مربی تلاش کرلیے۔ ایک پتنگ کٹ گئی تو نیا مانجھا لگا لیا۔


عدالت نے حکم دیدیا ہے کہ پتنگیں نہیں اڑیں گی۔ گورنر پنجاب جناب سلمان تاثیر، جن کے بارے میں افواہ ہے کہ وہ سلطان راہی اور مصطفی قریشی کی فلمیں بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اور کیسٹ جمع کر رکھے ہیں، انہوں نے نعرہ لگایا ہے کہ پتنگیں تو ضرور اڑیں گی۔ بچوں، بزرگوں کے گلے کٹیں تو ان کی بلا سے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے پرویز رشید نے گرہ لگائی کہ پتنگ اڑائی تو گورنر کو بھی ہتھکڑیاں پہنادیں گے۔ دوسری طرف سے پنجاب کے سینئر وزیر راجا ریاض نے جنرل پرویز کے مقرر کردہ گورنر کی حمایت میں چیلنج کیا کہ کسی میں جرات ہے تو گورنر پنجاب کے ہتھکڑیاں لگا کر دکھائے۔ (ن) لیگ کا کہنا ہے کہ گورنر تو کیا کسی نے گورنر ہاﺅس میں بھی پتنگ اڑائی تو عدالت کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے گرفتار کرلیں گے۔ لیکن گورنر ہاﺅس میں گھسنے کون دے گا؟ پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری جناب جہانگیر بدر نے تو کہہ دیا ہے کہ عدالت کے فیصلے پر عمل کریں گے۔ انہوں نے ایک بڑی اچھی تجویز دی ہے کہ کائیٹ فلائنگ ایسوسی ایشن والے اپنے مقصد سے مخلص ہیں تو کسی کی گردن کٹنے پر اپنا ایک بندہ جیل بھیجنے کی تیاری کرلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی سیاسی وجوہات کی بناءپر جیل جاتے رہے ہیں، یہ پتنگ باز سجنا اپنے مقصد کے لیے جیل کاٹیں۔
پتنگ بازی اور اس سے جانی و مالی نقصانات کوئی آج کی بات نہیں۔ یہ مقدمہ مرحوم جسٹس کیانی کے سامنے بھی پیش ہوا تھا او رجناب ایس ایم ظفر نے پتنگ بازوں کی وکالت کی تھی۔ پتنگ بازی اگر ایک کھیل ہے تو اسے کھیل ہی رہنا چاہیے، بے گناہوں کے قتل کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ شوقین حضرات میدانوں میں نکل جائیں اور خوب ایک دوسرے کی پتنگ کاٹیں مگر کسی کا گلا کٹا تو اس کا مقدمہ گورنر سلمان تاثیر اور یوسف صلاح الدین جیسوں کے خلاف درج ہونا چاہیے، اب تو وہ خاتون بھی شرمندہ ہیں جو لہک لہک کر گاتی تھیں کہ ”اَکھ وی لڑانی اے تے گڈی وی اڑانی اے“ کچھ عمر کا تقاصا ہے کہ اب وہ پیچ نہیں لڑاسکتیں۔
بسنت تو ہر سال کی طرح گزر ہی جائے گی لیکن یہ جو سیاسی پیچ لڑ رہے ہیں یہ زیادہ خطرناک ہیں۔ ڈر ہے کہ کوئی اور نہ کانٹی ڈال دے اور پتنگ باز سجنوں کی کٹی پتنگیں فضاﺅں میں ڈولتی نظر آئیں، گلی کے بچے لمبے لمبے بانس اور جھاڑ لیے پیچھے دوڑتے ہوں۔ یہ بچے عوام کی علامت ہیں جو ایک عرصہ سے یونہی دوڑ رہے ہیں اور پتنگیں کوئی اور لوٹ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک و قوم کے تمام مسائل حل ہوگئے، اب صرف پتنگ بازی کا مسئلہ رہ گیا۔ عوام ایک طرف ضروریات زندگی کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں لگے ہوئے ہیں اور حکمران پتنگوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ حکمران کہتے ہیں کہ آئین کی بات ہی نہ کرو، محترمہ شہید ہوئی ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ”ہتھکڑی کے خوف سے کچھ لوگ ڈر جائیں گے کیا؟“ سلمان تاثیر میں جرات ہے تو مال روڈ پر اپنے قصر سے باہر نکل کر پتنگ اڑا کر دکھائیں۔ اقبال نے کہا ہے ” لڑادے ممولے کو شہباز سے“۔

Articles

بلیک واٹر سے ڈرنے والی قوم کی ‘بہادر‘ بیٹیاں

In پاکستان on فروری 1, 2010 منجانب ابو سعد

بلیک واٹر سے ڈرنے والی قوم کی ‘بہادر‘ بیٹیاں کسے کالوں پر گر رہی ہیں. شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

Articles

آسیب شہر

In پاکستان on فروری 1, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: ,


کراچی میں جاری لسانی فساد کو سمجھنے کے لیے شہر پر قابض دو دہشت پسند جماعتوں ایم کیو ایم اور اے این پی کے لیڈران کی گفتگو ہی کافی ہے ۔ میں پہلے ہی اس کے بارے میں افتخار بھائی کے بلاگ پر اظہار خیال کرچکا ہوں، یہاں سترہ جنوری کو شائع ہونے والے علی خان صاحب کا مضمون پیش خدمت ہے جو قارئین کو بتاتا ہے کہ اس شہر قائد پر کس آسیب کا سایہ ہے۔


………………….


رضی اختر شوق مرحوم ایک بار بہاولپور آئے، ڈپٹی کمشنر برلاس صاحب نرے سرکاری ملازم نہ تھے بلکہ اچھے شاعر اور اس سے زیادہ شاعر گر تھے۔ ان کی شاگردی سے خواتین نے زیادہ فیض پایا۔ بہرحال وہ جب تک بہاولپور کے حکمران رہے، باقاعدگی سے مشاعرے کرواتے رہے۔ رضی اختر شوق بھی گھومتے گھامتے آگئے، ان دنوں ان کی اس غزل کی بڑی دھوم تھی:
سنگ ہے، نازک دشنام ہے، رسوائی ہے
یہ ترے شہر کا انداز پذیرائی ہے!
لیکن مذکورہ محفل میں انہوں نے اپنے شہر کراچی کے حوالے سے ایک شعر سنایا:
کوئی اس شہر میں آسیب صدا دیتا ہے
جو دیا لے کے نکلتا ہوں، بجھا دیتا ہے
یہ اس دور کی بات ہے جب کراچی میں قتل و غارت گری عروج پر تھی اور بوری بند لاشوں کے کلچر کی ابتدا ہوئی تھی۔ رضی اختر نے آسیب کا نام لیے بغیر غزل کی زبان میں حقیقت بیان کردی۔ لیکن ہم تو اس شعر سے صرف اتنا ہی سمجھ پائے کہ حضرت کے گھر میں بہت سے دیے رکھے ہوئے تھے، پتا نہیں کسی نے دیے تھے یا وہ دیاگر تھے۔ اتنا تو سوچا ہوتا کہ جب دیا بجھنا ہی ہے تو ایک ہی دیے کو بار بار لے کر باہر نکلتے۔ اور مصرعہ یوں بھی ہوسکتا تھا کہ ”جب دیا لے کے نکلتا ہوں بجھا دیتا ہے۔
اس عرصہ میں بہت سے دیے بجھے، روشنیوں کے دشمن اب تک دیے بجھانے میں جی، جان سے لگے ہوئے ہیں لیکن وہ شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا، وہاں ایسے دیوانے بے شمار ہیں جو اپنے حصے کی شمع، اپنی جرا ¿ت کا دیا روشن کرنے میں مصروف ہیں اور روشنی کا فیصلہ ہواﺅں پر نہیں چھوڑ رکھا۔ بھلے کتنے ہی آسیب چنگھاڑتے پھر رہے ہوں، ہوائیں تندو تیز ہوں، شرار بولہبی شرر پر تلا ہوا ہو، اندھیر اور اندھیرا کیسا ہی گمبھیر ہو، کہیں نہ کہیں دیے تو روشن ہیں۔
ہمارے حکمران سیاسی مخالفین اور اپنی ذات پر تنقید کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنے، آنکھیں نوچنے، ٹانگیں توڑنے اور گردن اڑانے کی دھمکیاں تو دیتے ہیں، اپنی ذات کے حوالے سے سازشوں کا چرچا بھی خوب کرتے ہیں لیکن ان ہاتھوں کو توڑنے پر قادر نہیں جن ہاتھوں نے ایک عرصہ سے اس شہر خوباں کو شہر خرابہ بنا کر یہاں کا امن و امان مسل کر رکھ دیا ہے۔ ان آنکھوں کو نوچ پھینکنے کی کوئی فکر نہیں جو قومی سلامتی اور ہم آہنگی کو نظر لگا رہی ہیں، ان گِدھوں کو کوئی شکار نہیں کرتا جو مظلوموں کی لاشوں پر پل رہے ہیں۔ذرا کوئی حکمرانوں پر تنقید کردے یا ان کے حواریوں کی طرف انگلی اٹھا دے تو طیش میں آجاتے ہیں۔
شہر کراچی دسمبر کے سانحہ کے بعد سے اب تک سنبھل نہیں سکا ہے۔ جن کے گھروں سے لاشے اٹھے اور جن گھروں کے چولہے بجھ گئے وہ ہنوز سکتہ کے عالم میں ہیں۔ اس سانحہ عظیم کے بعد اس سے توجہ ہٹانے اور مجرموں کی پردہ پوشی کے لیے شہر میں ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ کا کھیل شروع ہوگیا۔ مجرموں کا تعین اب تک نہیں ہوسکا۔ ذمہ داران آئیں، بائیں، شائیں کررہے ہیں۔ بم دھماکا ہو یا آتش زنی، شہر بھر میں ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتیں ہوں یا لیاری میں آپریشن، کسی بھی بات کا واضح جواب نہیں مل رہا، مل بھی نہیں سکتا۔ چوروں، ڈاکوﺅں کی ریت ہے کہ ایک دوسرے کی مخبری نہیں کرتے۔ ایک کہاوت ہے کہ اپنے بھائی کو چور کون کہے۔ اور یہاں تو اعلان کیا جارہا ہے کہ فلاں فلاں ہمارا بھائی ہے، ہمارا بازو ہے، ہمارا اتحادی ہے۔ ایک بوکھلاہٹ یا کھسیاہٹ کا عالم طاری ہے۔ عجیب عجیب بیانات سامنے آرہے ہیں، جناب قائم علی شاہ چونکہ سندھ کے بڑے وزیر ہیں اس لیے ان کی بات بھی بڑی ہے۔ لیاری میں رینجرز نے آپریشن کیا جس پر لیاری کے ہزاروں افراد نے بہت بڑا جلوس نکال دیا۔ ایک بڑی شخصیت کا فرضی جنازہ اٹھا کر وزیراعلیٰ ہاﺅس کی سمت جارہے تھے لیکن وہ لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ لیاری میں سب ہمارے جیالے ہیں اور یہ علاقہ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے، وہ سب یہ ریلی دیکھ کر دبک گئے۔ یہ جو بڑے بڑے ہاﺅس ہیں، ان کی حفاظت پولیس کرتی ہے اور پولیس کا یہی کام ہے ان کی طرف کوئی بڑھے تو وہ خود اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا۔ سندھ کے بڑے وزیر کو کہنا پڑا کہ مجھے کیا پتا، آپریشن کا حکم کس نے دیا، میں تو انجان ہوں۔ یہ حقیقت بھی ہے وہ بیشتر معاملات سے انجان رہتے ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے کچھ دوستوں نے شرارتاً ہمیں بھنگ پلادی تھی تو ہم بھی پورا ایک دن انجان رہے، پتا ہی نہیں چلا، اطراف میں کیا ہورہا ہے۔ نشہ تو ہر ایک ہی برا ہے لیکن بھنگ کا نشہ گندا بھی ہے، اور اقتدار کا نشہ خطرناک۔ کبھی کبھی دو، تین نشے آپس میں مل کر دو آتشہ و سہ آتشہ ہوجاتے ہیں۔ بھنگ تو حافظہ معطل کردیتی ہے لیکن تکیوں اور مزاروںپر بڑی مقبول ہے۔ اس کے عقیدت مندوں میں سے کسی کا شعر ہے:
بنگِ (بھنگ) زدیم و سردو عالم شدآشکار
مارا ازیں گیاہِ ضعیف ایں گماں نہ بود
یعنی بھنگ پی کر دو عالم کے اسرار کھل جاتے ہیں، اس کمزور سی گھاس سے ایسا گماں کب تھا۔ یاد رہے کہ بھنگ کے حوالے سے ہمارے تمام اشارے خود اپنی ہی طرف ہیں گو کہ ایک ہی بار اس گیاہ ضعیف کے ہتھے چڑھے تھے۔ اب بڑے وزیر اگر شوکت ترین کو بار بار شوکت عزیز کہیں یا گوادر کے تفریحی دورے میں پنجاب کے بڑے وزیر کو بار بار شہاب شریف کہتے رہیں تو اس کا تعلق کسی اور چیز سے نہیں، عمر سے ہے۔ پینے والے تو اور بہت ہیں جو بہت کچھ پی جاتے ہیں ،خون تک۔
یہ جناب قائم علی شاہ کی سادگی ہے کہ انہوں نے کراچی میں کسی بھی قسم کے آپریشن سے برا ¿ت کا اعلان کردیا ۔ مخمصہ یہ ہے کہ کس کے خلاف آپریشن کیا جائے، سب آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ اگر یوم عاشور کے جلوس میں بم دھماکا خود کش حملہ قرار دیا جاسکتا تو ان الجھنوں سے نجات مل جاتی۔ شاید اسی لیے حادثہ کے چند منٹ کے اندر اندر لندن سے الطاف بھائی تک نے اسے خود کش حملہ اور طالبان کی کارروائی قرار دیا۔ جناب رحمن ملک نے اسلام آباد سے یہ اطلاع جاری کی۔ اب انہیں چاہیے کہ اپنے غلط اندازے اور تفتیش کو غلط رخ پر ڈالنے کی اس سوچی سمجھی کوشش پر معذرت تو کرلیں۔ ویسے ہمیں حیرت ہے کہ اس دھماکے کو خود کش حملہ باور کرانے میں کیا دشواری تھی؟ فوری طور پر تو حملہ آور کا سر اور دھڑ تک دریافت کرلیا گیا تھا اور ایک جوان کے لیے تمغہ شجاعت یا ستارہ جرا ¿ت کی سفارش بھی کردی گئی تھی کہ اس نے خودکش حملہ آور کو دبوچ کر زیادہ بڑی تباہی سے بچا لیا۔ اگر لندن سے اسلام آباد تک سب یکسو ہوجاتے کہ یہ خودکش حملہ ہی تھا تو کوئی کیا کرلیتا۔ لیکن اس کے بعد جو آگ کا کھیل کھیلا گیا یہ کس کا ”کارنامہ“ ہے؟ اس کا ابھی تعین نہیں ہوا کہ کس کو بلکہ کس کس کو مجرموں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ آگ لگانے اور لوٹ مار کرنے والوں کی تو تصویریں بھی موجود ہیں، یہ بھی آسانی کے بجائے دشواری بن گئی۔ تصویروں کے مطابق جو لوگ پکڑے گئے یا پکڑے جائیں گے ان کی وابستگیاں حسب منشا ثابت کرنا آسان نہ ہوگا۔
اس کا بھی حل ہمارے ذہین ترین وزیر جناب عبدالرحمن نے نکال لیا ہے، واضح رہے کہ ان کے نام کے ساتھ ملک لگا ہوا ہے، کچھ اور نہ سمجھا جائے۔ تو وفاقی وزیر داخلہ جناب رحمان ملک نے گزشتہ جمعرات کو قومی اسمبلی میں انکشاف کیا کہ عاشورہ کے جلوس میں بم دھماکا کالعدم لشکر جھنگوی نے کیا۔ چلیے، مان لیا، لیکن اس سے آگے موصوف نے مزید انکشاف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، جیش محمد اور القاعدہ نے مل کر ایک نیٹ ورک قائم کرلیا ہے جو دہشت گردی کی وارداتوں کے پیچھے ہے۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ آتش زنی اور لوٹ مار کے تیس ملزم گرفتار ہوئے ہیں جن کا تعلق مختلف گروہوں سے ہے، لوٹے گئے ہتھیار بھی ان سے برآمد کرلیے گئے ہیں۔ ان دہشت گردوں کا نشانہ متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم حقیقی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے کارکن بنے۔ اب گزشتہ تین دن سے کراچی میں کوئی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی۔ جناب وزیر داخلہ نے ”مجرموں“ کا دائرہ بڑا وسیع کردیا ہے اور اس میں کسی نہ کسی طرح طالبان اور القاعدہ کو بھی لے آئے ہیں۔یہ ان کی ضرورت بھی ہے، تاہم ایک سوال یہ ہے کہ لشکر جھنگوی، طالبان اور القاعدہ سے وابستہ تمام لوگ سنی ہیں۔ دھماکے تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد بولٹن مارکیٹ اور اس کے اطراف کی مارکیٹیں پھر لنڈا بازار کی جو دکانیں پھونکی گئیں وہ سب کی سب سنیوں کی ہیں اور لنڈا بازار تو بالخصوص پٹھانوں کا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان میں غلبہ پشتو بولنے والوں کا ہے اور وہ سب کٹر سنی ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ طالبان پٹھانوں کی دکانیں جلا کر انہیں معاشی طور پر فقیر کردیں اور لشکر جھنگوی سنیوں کی دکانیں جلا ڈالے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تاجر حضرات میں سے بیشتر تبلیغی جماعت سے متاثر ہیں اور خیر کے کاموں میں دل کھول کر چندہ دیتے رہے ہیں۔ یوم عاشور کے سانحہ سے پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ کراچی خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے اب تک اس لیے محفوظ ہے کہ یہاں سے طالبان یا جہادی تنظیموں کو چندہ ملتا ہے، تو کیا یہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف نہیں ہے؟
تصاویر سے ظاہر ہے کہ یہ شر پسند جو بھی تھے، کالے کپڑے پہن کر عاشورہ کے جلوس میں شامل ہوگئے تھے اور یہیں سے نکل کر لوٹ مار اور آتشزنی شروع کی۔ یہ لوگ آتش گیر مادہ سے لیس تھے۔ صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے ان تخریب کاروں کو پولیس کے ذریعہ نہ روکنے کی یہ عجیب دلیل پیش کی کہ یہ لوگ کالے کپڑوں میں ملبوس تھے ان پر فائرنگ کی جاتی تو پورے ملک میں فساد برپا ہوجاتا۔ یہ ایسی بات ہے جو حکمرانوں ہی کو سوجھ سکتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کالے کپڑے پہن کر ڈاکو، لٹیرے اور تخریب کار جو چاہیں کرتے پھریں، پولیس یا رینجرز انہیں نہیں روکیں گے۔ یہ جو شہر شہر گیس اور بجلی کی عدم دستیابی پر مظاہرے ہورہے ہیں جن پر پولیس ٹوٹی پڑ رہی ہے، ان مظاہرین کو چاہیے کہ کالے کپڑے پہن کر احتجاج کریں، محفوظ رہیں گے۔ اللہ خیر کرے ابھی تو چالیسویں کے جلوس نکلنے باقی ہیں۔
جناب رحمن ملک نے واقعات کو خاص رخ دینے کے لیے یہ بھی فرمایا تھا کہ بلدیہ ٹاﺅن اور شیرپاﺅ کالونی سے لوگوں کو اٹھا کر لے جایا جاتا ہے اور قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ بستیاں ان کے شعور یا لاشعور پر حاوی ہیں، کیوں؟ انہوں نے قومی اسمبلی میں بھی کہا کہ پاک کالونی، ملیر، بلدیہ ٹاﺅن اور شیرپاﺅ کالونی خطرناک ترین علاقے قرار دیے جاچکے ہیں۔ ان علاقوں میں گینگسٹر(گروہ بند بدمعاش) چھپے ہوئے ہیں۔ وہاں ہر قیمت پر کارروائی ہوگی۔ اگلی سانس میں فرمایا کہ ملیر میں کوئی آپریشن نہیں کیا گیا حالانکہ ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں نے شکوہ کیا تھا کہ ملیر میں آپریشن ہورہا ہے۔ ایک سوال یہ کہ ملیر میں آپریشن ہو تو پیپلز پارٹی کو اس پر اعتراض کیوں؟ وفاقی وزیر تو فرمارہے ہیں کہ یہ علاقہ گروہ بند بدمعاشوں کا گڑھ ہے۔ چلیے، ملیر اور لیاری تو آپریشن کے خطرے سے باہر ہوگئے۔ پاک کالونی پر اہل لیاری کی اجارہ داری ہے، وہ بھی بچ گیا۔ رہے بلدیہ ٹاﺅن اور شیرپاﺅ کالونی تو یہ اے این پی والے جانیں۔ کراچی میں اے این پی کے رہنما جناب شاہی سید صدر مملکت آصف زرداری سے ملے ہیں اور ملاقات کے سرور میں ڈوبے ہوئے ہیں، ان سے پوچھا گیا کہ کراچی کے مسائل اور پٹھانوں کے معاملات پر صدر سے کیا بات ہوئی تو انہوں نے فرمایا ”ہم تو صدر کو سلام کرنے گئے تھے، انہوں نے پہلی بار ملاقات کا شرف بخشا، ہم نے کسی مسئلہ پر بات نہیں کی“ ان کا انداز ایسا تھا جیسے گنگو تیلی راجا بھوج سے مل کر آیا ہو، اور بھاگ کھلنے پر نازاں ہوں،” مارا ازیں مرد قوی ایں گماں نہ بود“
جناب رحمن ملک کا تعلق حکومت سے ہے، دیگر بہت سے عہدیداروں اور مشیروں کی طرح پیپلز پارٹی سے نہیں۔ اور ستم یہ کہ کراچی ان کے لیے اور وہ کراچی کے لیے اجنبی ہیں۔ لیکن خود پیپلز پارٹی کے رہنما کراچی میں برسوں سے جاری ٹارگٹ کلنگ کے مجرموں کا نام لے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں طالبان اور القاعدہ کو بھی ملوث کیا ہے۔ وہ ایک عرصہ تک پاکستان سے باہر رہے اس لیے یہ یاد نہ رہا ہوگا کہ جب طالبان اور القاعدہ کا کسی نے نام بھی نہ سنا تھا تب سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے۔ کا آپریشن طالبان اور القاعدہ کے خلاف نہیں تھا اور پیپلز پارٹی ہی کے سابق وفاقی وزیر داخلہ اور رحمن ملک کے پیشرو جنرل فرحت اللہ بابر کراچی میں لشکر جھنگوی، طالبان پاکستان اور القاعدہ سے نبرد آزما نہ تھے۔ جناب الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام لشکر جھنگوی، طالبان یا القاعدہ پر نہیں لگایا۔ یہ ٹارگٹ کلنگ تو کب سے جاری ہے اور جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے کے مصداق کراچی کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کون کس کو مار رہا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ رحمن ملک مصلحتوں کے اسیر ہیں اور وہ ہی کیا جب جناب صدر خود سجدہ ریز ہوں تو وفاقی وزیر کس شمار، قطار میں۔
جب تک اصل مجرموں کی نشاندہی نہ ہوگی اور ان کے خلاف کارروائی نہ ہوگی تب تک شہر کراچی پر آسیب کے سائے منڈلاتے رہیں گے اور دیے بجھتے رہیں گے۔ اب تو پولیس افسران بھی اصل مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جن افسران نے مجرموں کے خلاف کارروائی کی تھی وہ اب منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں۔ ایک ایک کرکے سب مار دیے گئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد بھی نہیں چھوڑا گیا۔ وہ سب موت کے حقدار ٹھیرے، ڈیتھ وارنٹ جاری ہوچکا تھا جو اب تک منسوخ نہیں ہوا ہے۔
کراچی وقفہ وقفہ سے خون میں نہاتا رہے گا۔ رحمن ملک خوش ہیں کہ تین دن سے کوئی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی۔ لیکن یہ ”ملتے ہیں ایک وقفہ کے بعد“ کی صورتحال تو کتنی بار پیش آچکی ہے۔ مقصد تو دہشت بٹھانا اور یہ جتانا ہوتا ہے کہ شہر کس کے قبضہ میں ہے، کسی اور نے سر اٹھایا تو انجام یاد رہے۔ پس منظر میں بلدیاتی اجارہ داری بھی ہے۔ لوگ کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ یہ شہر صرف ہمارا ہے، ہم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ پیپلز پارٹی اتحادی ہوگی لیکن وہ کراچی اور حیدر آباد کی شہری حکومتوں کو بھول جائے۔ عوام کا حال یہ ہے کہ:
یہاں ہر شخص ہر پل حادثہ ہونے سے ڈرتا ہے
کھلونا ہے جو مٹی کا، فنا ہونے سے ڈرتا ہے
مرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ
بڑوں کی دیکھ کے دنیا، بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
اور صاحبو! ڈرتے تو ہم بھی ہیں، اس لیے تھوڑا لکھے تو بہت جانیے۔

Articles

اجتہاد اور ’’اجتہاد‘‘کا شوق

In پاکستان on فروری 1, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: