Archive for the ‘پاکستان’ Category

Articles

آئینہ تصویر

In پاکستان,دہشت گردی on نومبر 6, 2010 منجانب ابو سعد

پروفیسر عنایت علی خان نے عمران خان کے بارے میں کہا تھا
کیچ مس ہو یہ تو ممکن ہی نہیں
تم تو مس کو بھی کیچ کرتے ہو
یہ اُس وقت کہا گیا تھا جب عمران خان دنیائے کرکٹ میں شہرت کی بلندیوں پر تھے اور لندن میں جاکر جمائما سے میچ فکس کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ بعد میں کیچ مس ہوگیا۔ عمران خان سیاست میں آئے تو ہر موقع کو کیچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اب تک کرکٹ کی فضا سے باہر نہ آسکے۔
2 اپریل 2010ءکو انہیں ایک اور موقع ملا کہ وہ جامعہ پنجاب کے پروفیسر افتخار حسین بلوچ کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بہانے اپنی چوٹیں سہلا سکیں۔ کچھ دن پہلے ہی انہوں نے جب جامعہ پنجاب میں سیاست کرنے کی کوشش کی تھی تو اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ لڑکوں نے انہیں باہر کا راستہ دکھاتے ہوئے دھکے دیے تھے۔ عمران خان کو بدلہ لینے کا موقع مل گیا۔ جامعہ پنجاب میں اپنے کردار کے حوالے سے ”شہرت یافتہ“ پروفیسر ڈاکٹر افتخار بلوچ کو جمعیت کے کچھ لڑکوں نے اپنے طور پر نامناسب حرکتوں سے باز رکھنے کی کوشش کی اور افتخار بلوچ زخمی ہوگئے تو عمران خان فوراً اس شخص کے لیے گلدستہ لے کر پہنچ گئے جس پر گلوں کو مسلنے کا الزام ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر تصویر میں دائیں طرف اور عمران خان کے بائیں بازو سے لگا ہوا جو نوجوان حافظ فرحت کھڑا ہوا ہے یہ ہیلی کالج کا طالب علم ہے اور اسے جمعیت نے عمران خان پر حملے میں ملوث ہونے پر جمعیت سے خارج کردیا تھا۔ حافظ فرحت فوراً ہی عمران خان کے طلبہ ونگ انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں چلا گیا اور گلدستہ آگے بڑھانے میں عمران خان کا ہاتھ بٹا رہا ہے۔ انہی ہاتھوں سے عمران خان کو دھکا دیا گیا تھا لیکن عمران خان تو عرصے سے کوچہ سیاست میں دھکے کھا رہے ہیں۔
اس موقع پر عمران خان جمعیت پر خوب گرجے برسے اور کہا کہ جمعیت کے دہشت گردوں کے کھلے عام دندنانے کی سب سے بڑی ذمہ داری وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب پر عائد ہوتی ہے جن کی ناک تلے دہشت گردوں نے پنجاب یونیورسٹی کو یرغمال بنا رکھا ہے، جو معاشرہ استاد کی عزت و احترام نہیں کرتا وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا‘ تحریکِ انصاف اور انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن استاد کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور عمران خان افتخار بلوچ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن اب وہ کیا کہیں گے؟ جمعیت کا الزام تھا کہ افتخار بلوچ بدکردار ہے۔ اساتذہ کا احترام لازمی، لیکن جو استاد اپنے کمرے میں طالبات کو بلا کر ان کا ”احترام“ کریں کیا وہ بھی عمران خان کے نزدیک معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کررہے ہیں؟ اب کیا عمران خان گلدستے لے کر ان خواتین کے پاس جائیں گے جن کی اس نام نہاد استاد نے عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے؟ کیا وہ بتائیں گے کہ اصل دہشت گرد کون ہے؟ ممکن ہے ان کے علم میں یہ بات اب تک نہ آئی ہو کہ ان کے ممدوح پروفیسر پر پولیس نے ایک طالبہ اور اس کے شعبہ کی ایک خاتون ایڈمنسٹریٹر کو جنسی طور پر ہراساں کرنے پر مقدمہ درج کرلیا ہے۔ یہ گزشتہ پیر ہی کی بات ہے۔ چاہیں تو تھانہ مسلم ٹاﺅن میں مقدمہ زیر دفعہ 511 پاکستان پینل کوڈ کی تفصیلات معلوم کرلیں۔ پولیس کے مطابق اس ”قابل احترام“ پروفیسر نے ان خواتین کو اپنے کمرے میں بلا کر ان کی عزت لوٹنے کی کوشش کی، اور کمرہ بھی کیسا! موصوف نے وائس چانسلر کی آشیرواد سے اپنے آفس کے برابر میں ریٹائرنگ روم سجا رکھا ہے جس میں ایک بستر‘ ایک صوفہ کم بیڈ اور دو تکیے موجود ہیں۔ وائس چانسلر صاحب پہلے تو افتخار بلوچ کے ساتھ کھڑے تھے اور جامعہ پنجاب سے جمعیت کا صفایا کرنے کے دعوے کررہے تھے‘ اب تسلیم کررہے ہیں کہ یہ جامعہ کی تاریخ کا تاریک ترین دن ہے۔ جامعہ کی تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق افتخار بلوچ خطا کار ثابت ہوگئے ہیں۔ ایس پی روبل اکرام کا کہنا ہے کہ شروع میں انتظامیہ نے تاخیری حربے استعمال کیے مگر اب حقائق سے پردہ اٹھادیا ہے اور وائس چانسلر مجاہد کامران تک نے کہا ہے کہ افتخار بلوچ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ افتخار بلوچ ہتھ چھٹ مشہور ہیں اور انہوں نے اپنی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے تین ہفتے تک جامعہ پنجاب میں تدریس نہیں ہونے دی۔ افتخار بلوچ کی کئی کہانیاں جامعہ میں مشہور ہیں۔ ان کی اہلیہ رخسانہ تک نے ان کے خلاف وائس چانسلر کو درخواست دے رکھی ہے۔ افتخار بلوچ کی حرکتوں سے تنگ آکر تین کنٹریکٹ معلمات ملازمت چھوڑ چکی ہیں۔ پروفیسر صاحب تو کیفرکردار کو پہنچ جائیں گے لیکن ہمارا سوال اپنے کرکٹ کے ہیرو اور ”انصاف“ کے مبلغ سے ہے کہ اب وہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں، اور کیا ایسے ہی استاد ان کے نزدیک احترام کے مستحق ہیں؟ کیا وہ گلدستہ لے کر شیبہ گل کے پاس بھی جائیں گے؟
 

Articles

امریکا کے مقامی ’’سیکولر مجاہد‘‘۔

In میڈیا,پاکستان,دہشت گردی on نومبر 5, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , ,

شاہنواز فاروقی
ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ مغربی ذہن ہرچیز کو طاقت کے نقطہ نظر سےدیکھتا ہے، یہاں تک کہ محبت کو بھی۔ اس سےاندازہ کیا جاسکتا ہےکہ مغربی ذہن جنگ کو کتنا ہولناک بناسکتا ہے…. بالخصوص امریکی ذہن۔ اس ذہن کے زیراثر اخبار کی شہ سرخی میزائل اور خبر کا متن بارودی سرنگوں سےبھرا ہوا میدان بن سکتا ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت 26 اکتوبر کےروزنامہ ڈان کراچی کےصفحہ اوّل پر شائع ہونےوالی خبر ہے۔
شہ سرخی کےساتھ شائع ہونے والی خبر بابا فرید گنج شکر کےمزار پر ہونے والے بم ھماکےسےمتعلق ہے۔ کہنے کو خبر ڈان کے رپورٹر نےفائل کی ہےلیکن خبر کی شہ سرخی اور متن پڑھ کر خیال آتا ہےکہ خبر امریکی فوج کےکسی سپاہی نےسپردِ قلم کی ہوگی۔
اس کا پہلا ثبوت خبر کی شہ سرخی ہے۔ خبر اہم تھی اور تمام اخبارات نے اسےصفحہ اوّل پر شائع کیا ،لیکن ڈان کےسوا کسی اخبار نےبھی اسےشہ سرخی کےساتھ شائع نہیں کیا۔ روزنامہ جنگ کراچی نےخبر کو پانچ کالمی سرخی کےساتھ شائع کیا۔ دی نیوز کراچی نے اسے تین کالمی سرخی کےساتھ رپورٹ کیا ہے۔ روزنامہ جسارت کراچی نےاسےچار کالمی سرخی کےلائق سمجھا۔ لیکن اس پر شہ سرخی صرف روزنامہ ڈان نےلگائی۔ حالانکہ انگریزی اخبارات بالخصوص ڈان اس طرح کی خبروں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اہم بات یہ ہےکہ ڈان خبر کو شہ سرخی کے ذریعے میزائل بنا کر نہیں رہ گیا، اس نے اپنے سنجیدہ مزاج کےبرعکس سرخی کےالفاظ بھی چیختے چنگھاڑتے منتخب کیے ہیں۔ ڈان کی شہ سرخی یہ تھی:
"Yet another shrine comes under attack”
اس سرخی کے ذریعے رپورٹر نے صرف واقعے کو رپورٹ نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے قاری کو یاد دلایا ہےکہ مزارات پر مسلسل حملے ہورہےہیں اور بابا فرید کےمزار پر حملہ اسی سلسلےکی تازہ ترین کڑی ہے۔ تجزیہ کیا جائےتو اس سرخی میں زرد صحافت کرنے والےاخبارات کی طرح کی سنسنی خیزی ہے اور کسی انگریزی اخبار کیا قومی نوعیت کے اردو اخبار سے بھی اس طرح کی سنسنی خیزی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
اس طرح کی خبر تحریر کرنے کا اصولی اور کلاسیکل طریقہ یہ ہےکہ خبر کا ایک جامع ابتدائیہ لکھا جائےجس میں خبر کےتمام اہم پہلوئوں کا احاطہ ہوجائے، اور پھر متن میں ابتدایئے کی تفصیلات دےدی جائیں۔ ڈان میں اکثر خبریں اسی طرح تحریر ہوتی ہیں، مگر زیر بحث خبر اس طریقےسے نہیں لکھی گئی۔ خبر کا ابتدائیہ ختم ہوا تو رپورٹر نے اپنےقارئین کو یاد دلانا ضروری سمجھاکہ یہ گزشتہ چار ماہ میں ہونے والا اس نوعیت کا تیسرا اور 2007ء سے اب تک ہونے والا پانچواں واقعہ ہے۔ رپورٹر چاہتا تو یہاں بات ختم کرکے ابتدایئےکی تفصیلات بیان کرتا، مگر اُس نےاس کےبعد مزارات پر ہونے والےتینوں حملوں کی تفصیلات تحریر کرڈالیں۔ بلاشبہ خبر میں اس طرح کی تفصیلات دی جاتی ہیں مگر خبر کے آخر میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خبر ”مثلثِ معکوس“ یا Inverted Pyramid کےاصول پر تحریر کی جاتی ہے۔ یعنی خبر کی سب سے اہم بات سب سے پہلےتحریر کی جاتی ہےاور پھر اہمیت کےاعتبار سےدوسری باتیں۔ لیکن ملک کےسب سےبڑی، سب سےاہم، سب سےسنجیدہ اخبار کا رپورٹر یہ خبر فائل کرتےہوئےخبر تحریر کرنےکےاصول کو یکسر بھول گیا۔ اِس سلسلےمیں اُس کی ساری دلچسپی یہ نظرآئی کہ اس کےقارئین خبر کی ابتداء ہی سے یہ باور کرلیں کہ دھماکا یقینا طالبان نےکیا ہےجو خون آشام ہیں، درندےہیں، مزارات کےدشمن ہیں، ان پر جانے والوں کو کافر سمجھتےہیں۔ تو کیا طالبان نے بم دھماکےکی ذمےداری قبول کی ہے؟ اس حوالےسے ڈان کے رپورٹر نےجو کچھ لکھا ہےاسے پڑھ کر بیک وقت رویا بھی جاسکتا ہےاور ہنسا بھی جاسکتا ہے۔ ڈان کےرپورٹر نےلکھا ہے:
"No one claimed responsibility for attack, but in the past Taliban militants have been blamed for such attacks.”
(ترجمہ) ”کسی نےحملےکی ذمےداری قبول نہیں کی تاہم ماضی میں طالبان کےجنگجوئوں پر اس طرح کےحملوں کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔“
تجزیہ کیا جائےتو ڈان کےرپورٹر نےالزام کو ”امر واقع“ کےانداز میں رپورٹ کرڈالا۔ پاکستان میں رائےعامہ کےدرجنوں رہنما کہہ رہےہیں کہ پاکستان میں جتنے بم دھماکے ہورہےہیں ان میں امریکا اور اس کےادارےملوث ہیں، مگر ہم نےڈان کی کسی خبر میں آج تک یہ نہیں پڑھا کہ ماضی میں اس طرح کے واقعات کا الزام امریکا پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔ ویسےخالص خبر یا Hard news میں کہیں بھی الزامات کا ذکر نہیں ہوتا۔ خبر میں الزام کا حوالہ آتا بھی ہےتو الزام لگانےوالےکا نام ساتھ لکھا جاتا ہے۔ ایسا اس لیےکیا جاتا ہےکہ الزام کا الزام اخبار کےبجائےالزام لگانےوالےکے سر جائے۔ لیکن ڈان کے رپورٹر کو طالبان سے ایسی نفرت ہےکہ اس نےیہ بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ ماضی میں طالبان پر بم دھماکےکرنےکا الزام کون عائد کرتا رہا ہے؟ اگر یہاں یہ فرض کرلیا جائےکہ رپورٹر کا اشارہ حکومت کی طرف ہوگا، تو حکومت کےالزامات کا یہ حال ہےکہ وزیر داخلہ رحمن ملک نےعبداللہ شاہ غازی کےمزار پر حملہ کرنےوالوں کےنام جاری کیےمگر ایک دن بعد ہی معلوم ہوگیا کہ دونوں خودکش بمبار ”زندہ “ ہیں۔
ڈان کے رپورٹر کو داد دینی چاہیےکہ اس نےخودساختہ مذہبی انتہا پسندوں یا طالبان کا تعاقب خبر کی آخری سطروں تک کیا۔ خبر کی آخری سطروں کا ترجمہ یہ ہے:
”کہا جاتا ہےکہ پاک پتن میں واقع (بابا فرید کا) مزار لاہور کے داتا دربار کےبعد ملک کا مقدس ترین مزار ہے۔“
یہاں سوال یہ ہےکہ ان سطروں میں ”داد کےقابل“ بات کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہےکہ خبر میں صوفیائےکرام کےمزارات کو Revered یعنی ”مقدس“ قرار دیا گیا ہے۔ یہ بجائےخود قابلِ اعتراض بات نہیں لیکن ڈان اپنے سیکولر کردار کےباعث مسلمانوں کےقبلہ اوّل کو بھی مقدس قرار نہیں دیتا۔ وہ فلسطینیوں کی جدوجہد کو قومی، سیاسی اور سیکولر جدوجہد باور کراتا رہا ہے، لیکن طالبان کےخلاف عوامی جذبات کو ابھارنے کےلیے اسے صوفیائےکرام کے مزارات میں بھی ”تقدس“ نظر آنےلگا ہے۔
امریکا نےخلیج کی پہلی جنگ ذرائع ابلاغ کی مدد سےلڑی اور جیتی تھی۔ وہ افغانستان کےخلاف جارحیت میں بھی ذرائع ابلاغ کی مدد سےکامیاب ہونا چاہتا ہے۔ لیکن ان دونوں مثالوں کا فرق یہ ہےکہ خلیج کی پہلی جنگ امریکا نے اپنےذرائع ابلاغ کی مدد سےجیتی تھی لیکن افغانستان کی جنگ میں مقامی ”سیکولر مجاہدوں“ کا کردار اہم ہے۔ مالکان اور صحافیوں کی صورت میں یہ سیکولر مجاہد اخبارات اور جرائد میں موجود ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی چینلوں میں موجود ہیں۔ امریکا کی طرح اس کےسیکولر مجاہدوں کو بھی معلوم ہےکہ امریکا افغانستان سے شکست کھا کر نکلےگا تو تاریخ بدل کر رہ جائےگی، چنانچہ وہ ایک ایک خبر اور ایک ایک تجزیے پہ جان لڑا رہےہیں۔

Articles

کوئی باغیرت مرد اس معاشرے میں نہیں

In میڈیا,پاکستان on اکتوبر 18, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , , ,

مریم گیلانی روزنامہ مشرق کی معروف کالمسٹ ہیں۔ وہ پاکستان ریلوے کی ریجنل ڈائریکٹر ہیں اور ان دنوں بلاضابطہ بھرتیوں کی مخالفت پر عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے حاجی بلور کی زیر اعتاب ہیں۔ حاجی صاحب ریلوے کے وفاقی وزیر ہیں جو پشاور کے اکثر سنیما ہاوسز کے مالک ہیں اور ٹوٹے چلانے کے لیے مشہور ہیں۔ مریم گیلانی نے سوال کیا ہے کہ کیا کوئی باغیرت مرد اس معاشرے میں نہیں ہے؟ شاید کسی عجائب خانے میں ہو کہ یہ آج کل کوئی غیرت آج کل کے زمانے میں عجیب چیز بن گئی ہے جو’’اپنے گھر‘‘ یعنی عجائب خانے میں ہی ہوسکتی ہے۔
پورا مضمون ملاحظہ کیجیے۔
……………………………………….
کبھی کوئی آواز سنائی دیتی ہےجو کہتی ہے سب کہہ دو‘ کبھی ٹی وی اسکرین پر بےشمار نوجوان لڑکےاور لڑکیاں ہنستےمسکراتے آپس میں باتیں کرتےدکھائی دیتےہیں ‘ کبھی ایک ہی لڑکےکے پیچھےدو لڑکے چلتے چلتےاسےمختلف قسم کےلالچ دےرہےہوتےہیں اور لڑکی انہیں درخوراعتناءنہیں سمجھتی‘ یکایک ایک لڑکا چلّا کر کہتا ہےمیں تم سےدن رات لگاتار بات کروں گا اور بس لڑکی ریجھ جاتی ہے۔ شریف لوگ یہ باتیں آخر کیسےبرداشت کرسکتےہیں اور جہاں تک میں اس قوم کو جانتی ہو یہ شرفاءکی قوم ہے۔ اپنی بچیوں کےحوالےسےہم بڑےہی غیرت مند ثابت ہوئےہیں۔ یہ ٹھیک ہےترقی پسند کہلانےکا جنون اس قوم کو پرو یزمشرف نےبخشا ہےاور موجودہ حکومت بھی اس ترقی پسند کےاظہار میں کچھ نہیں لیکن اس سب سےاس قوم کی آنکھ کی شرم مر نہیں جاتی۔ ہم کتنےبھی ترقی پسند ہوجائیں‘ دنیا کی روایات سےجس قدر بھی کاندھا ملا کر چلنا چاہیں اس کےباوجود اپنی بچیوں کےحوالےسےہمیشہ انہی دقیانوسی خیالات کےمالک رہتےہیں۔ کوئی راہ چلتا لڑکا‘ کسی بچی سےفون پر بات کرنا چاہے‘ کوئی لڑکا اور لڑکی آپس میں ساری رات گفتگو کرنا چاہیں‘ کوئی انجانا شخص ہماری کسی بیٹی کو سب کہہ دینا چاہے‘ یہ باتیں صرف معیوب ہی نہیں ایک باغیرت آدمی کےلیےڈوب مرنےکا مقام ہےکیونکہ ہم اتنےماڈرن کبھی نہیں ہوسکتے۔
کمال کی بات یہ ہےکہ ہمارا میڈیا یہ سب چیزیں دن رات دکھارہا ہےاور کسی کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ‘ ہر ٹیلی فون نیٹ ورک صرف یہ دکھا کر اپنی سم بیچنےکی کوشش کررہا ہےکہ اس ایک سم کےخریدنے سےایک لڑکا کتنی آسانی سےکسی بھی لڑکی سےبات کرسکتا ہے۔ کیا ہماری زندگیوں کا بس اب صرف یہی مقصد رہ گیا ہے؟ کیا زندگی میں اس سے بہتر ہدف کوئی اور دکھائی ہی نہیں دیتا کہ کس طور ایک ہاتھ نہ آنےوالی لڑکی کو گفتگو کےجال میں پھنسایا جاسکےاور کیا ہر وہ شخص جو کسی بچی کا باپ ہےیہ برداشت کرسکتا ہےکہ اس کی بیٹی دن رات لگاتار لڑکو ں سےبات کرتی رہے۔ اس معاشرےکی اقدار میں بگاڑ بلاشبہ ہوگا‘ ہم ترقی پسند ہوگئے ہوں گےلیکن اس طرح بیٹیاں موبائل فونوں کےٹھیلوں پر لگا کر لوگوں کےحوالےنہیں کردی جاتیں۔ عورت کی آزادی کےبھی ہم بہت شوقین ہوں گےلیکن اتنی بےمحابہ آزادی کون شریف آدمی برداشت کرےگا؟ یہ ٹیلی فون کمپنیاں عورت کو ایک سودےکی طرح بیچنےکی کوشش کررہی ہیں۔
حیرت مجھےاس بات پر ہےکہ یا تو ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں اور یا پھر ہمیں اس بات پر اعتراض نہیں کیونکہ ایک صبح جب میں نے ایک نیوز چینل لگانےکےلیےٹی وی کھولا تو اس پر ایک فون کمپنی کا یہ اشتہار آرہا تھا جس میں ایک لڑکےکےپیچھےدو لڑکےلگےہوئےتھے۔ غصےنے یوں طبیعت پر گرفت کی کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں۔ کیا اب شرافت کی کوئی بات نہ ہوگی اور وہ بچیاں جو اس معاشرےکے ہر گھر میں موجود ہیں صرف غیرمردوں کے لبھانےکو ہی رہ گئی ہیں۔
یہ دور ماڈرن دور ہے لڑکا اور لڑکی کےبات کرنےمیں معیوب بات نہیں سمجھے جاتی لیکن کیا ہم اتنےبےغیرت ہوگئےہیں کہ میڈیا سرعام یہ پیغام نشر کرتا ہےکہ لڑکیوں کےلیے وہ لڑکےپسندیدہ ہونےچاہئیں جو ان سےدن رات بات کریں۔ تو پھر ماں باپ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ عورت کا عورت کہلایا جانا ہی کیا ضروری ہےکیونکہ مستور کےمعنی تو ڈھکےہوئےہونےکےہیں۔ یہ وقت اور یہ ترقی تو عورت کےآسکار ہوجانےکی دعوت دےرہی ہےاور اگر ہم خاموش ہیں تو دراصل کہیں نہ کہیں اس سب کےلیےآمادگی ہمارےدلوں میں گھر کرچکی ہی۔ اب عورت نہیں ہےکیک پیسٹری ہوگئی اور بیکری میں داخل ہونےوالا ہر شخص اسےللچائی ہوئی نظروں سےدیکھ رہا ہے۔ آج ان فون کمپنیوں کا اسےمشورہ یہ ہےکہ ہر للچائی ہوئی نظر اور رال ٹپکاتےفقرےکےجواب میں اسےاترانا چاہیےخود پر ناز محسوس ہونا چاہیے۔ یہ اسےسکھارہےہیں کہ کون کون سی ادائیں کیسےدکھائی جاسکتی ہیں تاکہ تماش بینوں کےلیےمنظر دلفریب ہوسکےاور موبائل فون کی سمیں زیادہ سےزیادہ بک سکیں۔ کیا ہم واقعی بےغیرتی کی اس حد تک پہنچ چکےہیں جہاں ایسی باتوں نےاثر کرنا بند کردیا ہےیا ہم روٹی‘ کپڑا اور مکان میں ایسےالجھ گئےہیں کہ عزت اور غیرت جیسی کیفیات اپنےہی پیروں تلےروندی گئی ہیں۔ کیا ہمارےآنگنوں میں پلتی بچیاں اتنی سستی اور اتنی بےوقعت ہیں کہ ایک سو روپےکی سم بیچنےکےلیےانہیں شکار بنا کر دکھایا جائے۔ آنکھوں کی شرم و حیات کی بات تو چھوڑیے یہ لڑکےبھی کیا لڑکےہیں جو ان اشتہاروں میں دکھائےجاتےہیں جن کےرویوں میں کوئی وقار نہیں اور لہجوں میں کسی عورت کا احترام نہیں۔ وہ غیرت کی بات کیا کریں گے اپنی بہنوں کی عزتوں کےکیا ضامن ہوں گےجو دن رات دوسری لڑکیوں کو صرف حاصل کرنےکی چیز سمجھ کر پیچھا کریں گے۔
اس معاشرےمیں عورت کا کیا مقام ہونا چاہیے‘ کیسا احترام اس کی ذات سےوابستہ کیا جانا چاہیے کہ یہ ایک اسلامی معاشرہ ہےیہ باتیں تو اب پرانی ہوگئیں شاید ہم بھول گئےہیں لیکن کیا انسان ہونا بھی بھول گئےہیں آپس کا احترام اور حدیں بھی بھول گئےہیں؟ اگر عورت خود اپنا تحفظ کرسکنےسے قاصر ہوگئی ہےتو کیا ایسا کوئی باغیرت مرد اس معاشرے میں نہیں جو کم از کم یہ اعتراض ہی اٹھاسکے کہ اس طور کےاشتہارات بند کیےجائیں جو اسےایسا کم حیثیت ثابت کرتےہوں۔ اور سوچنا تو یہ بھی ہےکہ عورت کی آزادی کےاس دور میں آخر عورتوں کو یہ اعتراض کیوں نہیں کہ انہیں انسان دکھانےکےبجائےخاصےکی ایک چیز بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ ان ٹیلی فون کمپنیوں پر تو مقدمہ ہونا چاہیےکیا پیمرا میں کوئی باضمیر شخص موجود نہیں۔آخر کس قسم کی سنسر شپ پالیسی ہےجو ایسی بےغیرتی کو کروڑوں لوگوں کی بصارتوں تک پہنچنےسےروک نہیں سکتی۔ ٹیلی فون کمپنیوں کا ہی محاسبہ کیا جانا چاہیےجنہیں اقدار کی شائستگی کا تو علم نہیں اور پامالی کو انہوں نےتفاخر بنالیا ہے۔ لیکن بات پھر بھی وہی ہے۔ وہ کہتےہیں سب کہہ دو کیونکہ ہم اور آپ کچھ نہیں کہتے۔

Articles

اے این پی والے سیلاب زدگان کے پیسے کھا گئے‘ خود اے این پی کا اپنے اوپر الزام

In پاکستان on اکتوبر 9, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , , , , , ,

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی المعروف ایزی لوڈ والے بابا کے شہر مردان سے ان کی اپنی پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی نوابزادہ محمد خان ہوتی نے انکشاف کیا ہے کہ اے این پی کی حکومت سیلاب زدگان کے لیے جمع شدہ اربوں روپے کا بڑا حصہ خود ہڑپ کرگئی ہے اور باقی کھانے میں مصروف ہے۔ میرے لیے یہ خبر باعث تعجب نہیں بہر حال گھر کی گواہی اہم ضرور ہے۔ اے این پی کا اگر اس کی پاکستان دشمنی اور بھارت و روس دوستی کے علاوہ کوئی حوالہ تھا تو وہ کفن چور اور آٹا چور پارٹی کا تھا۔ اس کی حکومت میں خیبر پختونخوا کے عوام آٹے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اب سیلاب زدگان کے لیے جمع ہونے والی امدادی رقوم بھی یہ کھاگئے۔
 
 
 

امیر حیدر خان کے پی اے کا نام رسول شاہ سے وصول شاہ صرف اس لیے پڑ گیا ہے کیوں کہ وہ وزیر اعلیٰ کے لیے وصولی کرتا ہے۔ مردان شہر کے رکشوں کے پیچھے ’’ باباته ايزي لوډ اوکه‘‘( بابا کو ایزی لوڈ کردو) اور حکومت کی طرف سے جبری طور پر اُسے ہٹانے کے بعد ’’بابا په خفه کيږي”(بابا اس سے ناراض ہوتے ہیں) سب نے لکھا ہوا دیکھا۔ لیکن سیلاب زدگان کے لیے جمع رقوم کو دونوں ہاتھوں سے کھانا بہت ہی زیادہ بے ہودہ بات ہے، یہ الگ بات ہے کہ بے ہودہ کیا ہوتا ہے یہ ان کو نہیں پتہ۔

 

نوابزادہ صاحب نے یہ بھی بتایا کہ پٹواریوں کو جعلی وطن کارڈ لسٹوں کی تیاری میں لگا دیا گیا ہے ۔ اے این پی کے رہنما وطن کارڈ کے ذریعے اپنی جیبیں بھرنے کا پلان بناچکے ہیں۔

Articles

خواہ مخواہ –میرا پشتو بلاگ

In پاکستان on اکتوبر 7, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , ,

میرا انگریزی سے اردو بلاگستان کی طرف سفر بڑا خوشگوار رہا۔ اگرچہ اس کا تھوڑا بہت اثر انگریزی بلاگ پر پڑھا اور میں اسے مناسب وقت نہ دے سکا لیکن میں نے دونوں کو جاری رکھا۔ حال ہی میں میں نے آج ٹی کے بلاگ کے لیے لکھنا شروع کردیا ہے ‘ اور میرا پہلا پوسٹ بھائی سے متعلق ہے۔
انگریزی اور اردو کے علاوہ اب آپ ميرا پشتو بلاگ ’’خواہ مخواہ‘‘ بھی وِزٹ کرسکتے ہیں۔ یہاں خواہ مخواہ لازمی کے معنوں میں ہے اور اس بلاگ پر یہ لازم ہے کہ اخوا( ادھر) دیخوا ( ادھر) کی خبریں اور ان پر تبصرے پشتو سمجھنے والے قارئین تک پہنچائے۔
 یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پشتو بلاگزکی تعداداگرچہ اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن پشتو ویب پیجز اور بلاگز اردو بلاگزسے زیادہ موثر ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ میرے ایک دوست پشتو کے بلاگ کو ایڈیٹ کرتے ہیں افغان صدارتی الیکشن سے ایک سال قبل ان کو پیشکش ہوئی کہ وہ حامد کرزئی کے بارے میں صدارتی انتخاب تک مضامین شائع نہ کریں، اس کے بدلے ان کو 1000امریکی ڈالرز ماہانہ دیے جائیں گے۔ اس سے آپ اندازہ لگ اسکتے ہیں کہ ان کا کتنا اثر ہوگا۔ ویسے پشتو بلاگستان پر موجود اکثر بلاگرز سرخ انقلاب کی تحریک کی پیداوار ہیں۔

Articles

کچھ الطاف بھائی کےحق میں

In پاکستان on ستمبر 29, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , , ,

کوئی کہتا ہےالطاف حسین نےپنیترا بدل دیا‘بعض کا خیال ہےکہ یہ لندن میں اپنےگرد گھیرا تنگ کرنےوالوں کو دھمکی ہے‘کچھ کی رائےمیں اس کا تعلق ملک کےاندر کےجوڑ توڑ سے ہے۔ عافیہ صدیقی کی سزا کےخلاف فقید المثال ریلیوں سےبھائی کےٹیلی فونک خطاب سے دو دن قبل انہوں نےایک خط کےذریعےاطلاع دی کہ پنجابی/پاکستانی اسٹبلشمنٹ کےبعد اب انٹرنیشنل اسٹبلشمنٹ بھی ان کےپیچھےپڑگئی ہےاور ان کو مٹانےکےدرپے ہے۔ یہ غیر معمولی اطلاع(بریکنگ نیوز) تھی کیوں کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کےحوالےسےقادیانی لابی کی پرچی اور سرٹیفکیٹ بھی الطاف بھائی کےپاس تھی۔پھر متحدہ سےامریکا کےتعلق کی حالت یہ ہےکہ امریکی سفیر پاکستان آتےجاتےبھائی کےلوگوں سےملنا ضروری سمجھتی ہیں(تصویر اور تبصرہ بشکریہ جسارت ذیل میں ملاحظہ کریں)
اب ممکنا ت پرکچھ بات کریں۔ ہوسکتا ہےالطاف حسین کا ذہن بدلا ہو اور اسی کےسبب انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ یعنی امریکا ان کےپیچھےپڑگیا ہو۔ ہم اللہ سےجو دعائیں مانگتےہیں ان میں ایک دعا موت کےوقت زبان پر کلمہ طیبہ کےحوالےسےبھی ہے۔ لہٰذا اللہ کسی انتہائی نیک بندےکو آخری لمحےکےعمل کےسبب جہنم اور کسی برےبندےکوآخری لمحات میں اچھےعمل کےسبب جنت میں داخل فرماتےہیں۔ ممکن ہو کہ الطاف بھائی کی سوچ بدلی ہو اور میری دعا ہےکہ وہ اپنی باتوں پر قائم رہےتو میری دلی نفرت ان کےلیےمحبت میں تبدیل ہوتےدیر نہیں لگےگی۔
متحدہ مخالف کچھ لوگوں کو یہ کہتےبھی ہم نےسنا ہےکہ الطاف حسین کےاندر منور حسن کی روح چلی تھی/ہے۔ بعض نےکہا کہ جماعت والوں نےلندن سکریٹریٹ پر قبضہ کرکےمنور حسن سےالطاف حسین کی آواز میں تقریر کروائی ہے۔ ایک صاحب اس پر کہنے لگےکہ تقریر تو یقینا الطاف حسین نےکی ہےلیکن انہوں بالآخر وہی باتیں کیں جو جماعت اسلامی گزشتہ 9برسوں سےکررہی ہے۔
معاملہ جو بھی ہو‘ الطاف حسین کےتمام تر تاریک ماضی کےباوجود کل وہ ہمیں کچھ اچھےلگ رہےتھی۔ اللہ کرےوہ مستقل اچھےلگنےکا سامان کرتےرہیں اور ان کا ’یوٹرن‘ ’یوں ٹرن‘ نہ ہو۔
نوٹ: جنگ اخبار کی آج کی سرخی بھی خلاف معمول دلچسپ ہے۔

Articles

پرویز مشرف کے لیے ’’تارا مسیح‘‘ بننے والے کو طلال بگٹی کی طرف ایک ہزار ایکٹر اراضی اور میری طرف سے پچیس ہزار روپے ملیں گے

In پاکستان on ستمبر 27, 2010 منجانب ابو سعد

نواب اکبر بگٹی کے صاحب زادے اور جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ طلال بگٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ مشرف کے لیے تارا مسیح بننے والے کو ایک ہزار ایکٹر اراضی دیں گے۔ ایک ہزار ایکٹر زمین کی قیمت بہت بڑی ہوتی ہے۔ میری خاندانی زمین ہزارنہیں بلکہ چند ایکٹر ہے اس لیے میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں پرویز مشرف کے لیے ’’تارا مسیح‘‘ بننے والے کے لیے اراضی کو اعلان کروں لیکن اگر کسی نے جامعہ حفصہ کی حفاظ قرآن بچیوں کے قاتل بدبخت میراثی جو بدقسمتی سے فوجی جنرل اور پھر صدر پاکستان بنا کو اس کے انجام (قانونی طریقے سے ) تک پہنچایا تو اس کو میری طرف سے 25ہزار روپے کا انعام ملے گا۔

Articles

ایکسویں صدی کا چمکتا دمکتا بھارت؛ دلت سے روٹی کھاکر کتّا بھی اچھوت

In پاکستان on ستمبر 25, 2010 منجانب ابو سعد

بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک شخص نے دلت خاتون کے

یہ کتا دلت خاتون سے روٹی کھانے کے سبب اپنے مالک کے گھر نہیں رہ سکتا

ہاتھوں روٹی کھانے پر اپنے پالتو کتّے کو گھر سے نکال دیا ہے۔
مذکورہ کتّا ایک راجپوت خاندان کا ہے جسے دلت خاتون نے روٹی کھلائی۔ بطور سزا پنچایت نے روٹی کھلانے کے جرم میں خاتون پر بھی پندرہ ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔
خاتون نے اس زیادتی کے لیے پولیس سے شکایت کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ حکام نے اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔
کتے کا نام شیرو اور اس کے مالک کا نام امرت لال ہے۔ یہ واقعہ مدھیہ پردیش کے ضلع مرینا میں مانیکا پور گاؤں کا ہے۔
ہوا یوں ہے کہ دلت خاتون سنیتا جاٹو کھیت میں کام کرنے والے اپنے شوہر کے لیے کھانا لے کر گئی تھیں۔ شوہر کے کھانے کے بعد روٹی کے جو ٹکڑے بچے تھے وہ انہوں نے اس پالتو کتے کو ڈال دیے۔
شیرو نے روٹی بڑے شوق سے کھالی مگر اس کے مالک امرت لال نے دیکھ لیا۔ پہلے تو امرت لال نے سنیتا کو کھری کھوٹی سنائی پھر یہ کہہ کر کہ چونکہ اس کے کتّے نے دلت کے گھر کی روٹی کھا لی ہے اس لیے اب وہ اس لائق نہیں رہا کہ اس کے گھر میں رہ سکے۔
اب یہ کتّا گاؤں میں دلتوں کی اکثریت والے علاقے میں ایک کھمبے سے باندھ دیا گیا ہے۔ اور مالک اسے لے جانے کے لیے تیار نہیں۔
کتے کے اونچی ذات کے مالک نےگاؤں کی پنچایت میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کتّے کی شکل میں اس کا بہت نقصان ہوا اس لیے پنچایت نے دلت خاتون پر پندرہ ہزار روپے کا جرمانہ عائد کر دیا۔
یہ معاملہ اب اس خصوصی تھانے میں ہے جس میں ہریجن اور دلتوں کے معاملات کی دیکھ ریکھ ہوتی ہے۔
بھارت میں ذات پات کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک عام بات ہے۔ دیہی علاقوں میں نام نہاد اونچی ذات کے لوگ اپنے کنویں سے دلتوں کو پانی نہیں بھرنے دیتے اور نا ہی ان کے کنویں سے پیتے ہیں۔ بشکریہ:بی بی سی اردو

Articles

میرے شہر کے بچوں کے ہاتھ میں بندوق آگئی

In پاکستان,دہشت گردی on ستمبر 15, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: ,

  عید کے روز گھر کی بالکنی میں آیا تو ان بچوں کو دیکھا جو بڑے فخر کے ساتھ کھلونا بندوقوں کی نمائش کررہے تھے۔ میرے گھر سے چار گلیاں آگے پختونوں اور اردو بولنے والوں کی مخلوط آبادی ہے۔ ان تصویروں میں آپ ان دونوں قومیتوں کے بچوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان بچوں کے ہاتھ میں کھلونے ہونے چاہیےتھے لیکن آج کراچی کے ماحول نے ان کے ہاتھوں میں کھلونا بندوقیں تھمادی ہیں۔ ہمارے ایک ہردلعزیز شاعرمگر دوراندیش دوست اس کو کھلونا بندوق نہیں بلکہ بندوق کہتے ہیں۔ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے؛
وہ طفل جن کے ہاتھ میں ہونے تھے کھلونے
افسوس ان کے ہاتھ میں بندوق آگئی
مرد و عورت کے رجحانات کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ بچوں کے سامنے کھلونے رکھ دیے گئے تو لڑکیوں نے گڑیاں جبکہ لڑکوں نے کاریں ‘ موٹر بائیک وغیرہ کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا۔ ہماے دوست نے بجا کہا ہے کیوں کہ یہ کھلونے کو”چوز“ کرنا نہیں بلکہ ایک” وے آف لاف“ کو اختیار کرنا ہے ۔
اہل کراچی کو اس کے لیے ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کا ’’شکرگزار‘‘ ہونا چاہیے۔ اور شکریہ کے طور پر اسی طرح ان کو ووٹ دیتے رہنا چاہیے تاکہ وہ میرے شہر کے بچوں کو اُن کی ’’منزل مقصول‘‘ تک پہنچا دیں ۔
(آخری تصویر کے لیے روزنامہ امت کا شکریہ)

Articles

برطانوی گاندھی (بھائی)۔

In پاکستان on ستمبر 4, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: