Archive for دسمبر, 2010

Articles

کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں

In Uncategorized on دسمبر 15, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , ,

ایک مدت سےمیری ماں نہیں سوئی تابش
میں نےاک بار کہا تھا مجھےڈر لگتا ہے
اس شعر کی تصویر میری ماں طویل عرصےتک کالےیرقان کی بیماری سےبہادری کےساتھ لڑتےہوئے5دسمبر2010ءکو منوں مٹی اوڑھ کر سوگئیں۔ کوئی 2سال قبل ہپاٹائٹس سی کی تشخیص ہوئی تو وہ اس اسٹیج تک پہنچ چکا تھا جس میں انٹرفیرون تھراپی ممکن نہیں تھی۔ تب سےمستقل علاج جاری تھا۔ انٹی بائیوٹیک دوائیں چہرےکارنگ اُڑا دیتی ہیں جبکہ خود جگر کی یہ ہلاکت خیز بیماری بھی چہرےکی سرخی چھین لیتی ہےلیکن انتقال سے2دن قبل جس طرح ان کی اصل رنگت نمودار ہونےلگی تو ہمیں اُمید ہوئی کہ شاید وہ بہتر ہونےلگی ہیں۔ لیکن ربّ کےحضور ان کی پیشی کےدن قریب آرہےتھے۔ دنیا سےرخصتی کےدن ‘5دسمبر کی صبح ان کا چہرہ روشن تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ابدی نہیں بلکہ معمول کی نیند سورہی ہیں۔ان للہ و انا الیہ راجعون!۔
ان کی تین بہووئیں ‘چار نندیں اور کئی ایک ایسےرشتےبھی تھےجن سےزندگی میں اگر کوئی چپقلش ہوتی تو کوئی حیرانی کی بات نہ ہوتی۔ لیکن میں نےاپنی ماں کےلیےان کی زندگی میں کوئی منفی تبصرہ سنا اور نہ ہی دنیا سےرخصت ہونےکےبعد!۔
میں اپنی زندگی کےآخری بارہ سالوں کےایک بڑےحصےمیں ان سےدور رہا لیکن چودہ‘ پندرہ سو کلومیٹر کا فاصلہ مجھے‘ان سےدور تو رکھ سکا لیکن ان کی دعاوں اور میرےدرمیان رکاوٹ نہیں بن سکا۔
ماں کےسونےکےبعدسےمیں ڈرنےلگا لیکن پرسوں تعزیت کےلیےآئےایک بزرگ کےان الفاظ نےتو مجھےجیسےہلا کر رکھ دیا۔ انہوں میرےکندھےپر ہاتھ رکھ کر کہا’ بیٹا اب ذرا سنبھل کر! وہ نہیں رہیں جن کی دعائوں کی بدولت بلائیں ٹلتی تھیں۔
”ماں“ دنیا کا واحد بےغرض رشتہ!جو صرف دینا جانتی ہے۔ ”ماں“پیار کا سمندر جہاں دنیا بھرکےہاتھوں نفرت کےماروں کی پیاس بجھ جاتی ہے۔ ”ماں“ ایک گھنا چھائوں جہاں دنیا کی دھوپ کےمارےسستاتےہیں ‘ آرام کرتےہیں۔”ماں“ بلاوں کےسامنےڈھال ! ماں کیا کچھ نہیں لیکن ہمیں اس عظیم شخصیت کےجانےکےبعد ہی کیوں احساس ہوتا ہے؟میں نیک بن کر ماں کےلیےصدقہ جاریہ بن سکتا ہوں‘اللہ مجھےتوفیق دےلیکن جن کی مائیں حیات ہیں وہ ان کو صرف محبت بھری نظر سےدیکھ کر جنت پاسکتےہیں ‘ بتائیےجو خدمت بھی کرلےگا وہ تو کیا کچھ نہیں پائےگا۔
اللہ تعالیٰ میری ماں سمیت دنیائےفانی سےکوچ کرنےوالی ماوں کو جنت الفردس میں اعلیٰ مقام عطا فرما! ہمیں نیک بنا اور جن کی مائیں حیات ہیں ان کو تادیر اپنےبچوں کےلیےچھائوں اور ڈھال بنا۔ آمین۔

ایک نظم ماں کے نام
موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں
فکر میں بچوں کی کچھ اسطرح گھل جاتی ہے ماں
نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں
اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن
چاہتوں کا پیرہن بچوں کو پہناتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
اپنے پہلو میں لٹا کر اور طوطے کی طرح
اللہ اللہ ہم کو رٹواتی ہے ماں
گھر سے جب بھی دور جاتا ہے کوئی نور نظر
ہاتھ میں قرآن لے کر در پہ آجاتی ہے ماں
دے کے بچوں کو ضمانت میں رضائے پاک کی
پیچھے پیچھے سر جھکائے دور تک جاتی ہے ماں
لوٹ کے جب بھی سفر سے گھر آتے ہیں ہم
ڈال کے بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں
وقت آخر ہے اگر پردیس میں نور نظر
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں
سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو
ذندگی بھر کا صلہ اک فاتحہ پاتی ہے ماں
(ماخذ۔ پاک لنکس ڈاٹ کام۔ بشکریہ علی عامر)