Articles

ایم کیو ایم : عوامی مینڈیٹ کی حقیقت

In فوج, پاکستان on اگست 26, 2010 by ابو سعد Tagged: , , , , , , ,

برطانوی شہریت کے حامل قائد ِتحریک کے بیان کے بعد سے ٹی وی پروگراموں اور اخبارات کے صفحات پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ رکتا د کھائی نہیں دے رہا۔ ان ماہرانہ تجزیوں میں الطاف حسین کے بیان کے منظر، پس منظر، ٹائمنگ، اثرات، امکانات اور خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کیا الطاف حسین نے یہ بیان امریکا اور فوج کی آشیرواد سے دیا ہے؟ کیا ملک میں مارشل لا لگنے والا ہے؟ کیا یہ مارشل لا کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے؟ کیا تبدیلی کا وقت آچکا ہے؟ کیا الطاف حسین کو احساس ہوگیا ہے کہ اپنی من مانی کے لیے سیاسی سے زیادہ پرویزمشرف کے دور کی طرح فوجی حکومت ان کے لیے زیادہ بہتر ہے؟ یہ اور اسی طرح کے کئی اور سوالات اُٹھائے جارہے ہیں، ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے کو فوج کا ساتھی ہونے کا طعنہ دیا جارہا ہے۔ کچھ صحافی اور سیاست دان جرات ِاظہار کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے بپھرے رہنماﺅں سے یہ سوال بھی کرتے نظر آرہے ہیں کہ اگر 63 برسوں میں سیاست دانوں نے بدانتظامی اور بدعنوانی کی تاریخ رقم کی ہے تو فوجی مارشل لاﺅں نے بھی اس قوم کو آگے بڑھنے نہیں دیا، بلکہ امن و امان کی خراب صورت حال اور زرداری جیسے لوگوں کی حکومت بھی فوج کی دین ہے۔ یہ سب سوال اہم ہیں، لیکن اس ساری بحث کے دوران ایک اہم نکتے کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ برطانوی شہریت والے پاکستانی قائد ِتحریک کا جو بیان اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے اس کے مطابق انہوں نے ”محب وطن“ فوجی جرنیلوں کی طرف سے جاگیرداروں اور کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف مارشل لا جیسے اقدام کی حمایت کا اعلان کیا اور امریکا سے بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بجائے ”عوام“ کا ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ الطاف حسین کے بیان میں عوام سے مراد ”ایم کیو ایم“ والے ہیں۔ فوجی جرنیلوں سے فوجی اقدام اور امریکا سے اس کی حمایت کے مطالبے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ الطاف حسین اقتدار میں آنے کے لیے ان دونوں کی منظوری ناگزیر سمجھتے ہیں۔ اس کو راقم الحروف کی توضیح سمجھا جاسکتا ہے، اس لیے ہم یہاں چیخنے چلاّنے کے لیے مشہور ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کا وہ جملہ من وعن نقل کرتے ہیں جو انہوں نے ٹی وی پروگرام میں ادا کیا اور جس میں انہوں نے الطاف حسین کے اس نکتے کی تشریح کی ہے۔ انہوں نے پروگرام کے شریک مہمان احسن اقبال اور پروگرام کے میزبان سے پوچھا کہ آج تک کون سی حکومت فوج اور امریکا کی مرضی کے بغیر آئی ہے؟ انہوں نے سوال کیا کہ ”کیا پاکستان میں کوئی فوج اور امریکا کے بغیر انتخاب جیت سکتا ہے؟“ اور پھر خود ہی جواب دیا کہ نہیں۔ایم کیو ایم کی قیادت نے نہ صرف اس بات کا اعتراف کیا کہ ایم کیو ایم خود فوج اور امریکا کے بل بوتے پر انتخابات جیتتی آئی ہے بلکہ دیگر جماعتوں پر بھی الزام لگایا کہ اُن کا ووٹ بینک دراصل عوامی نہیں بلکہ فوج اور امریکا کی مرضی ہے۔ ووٹ بینک کے تذکرے پر ضمنی بات کرتے چلیں کہ سسی پلیجو کے حلقے کا ایک آدمی ٹی وی غالباً ”سی این بی سی“ پر گلہ کرتا پایا گیا کہ میں نے انہیں پورے تین ووٹ ڈالے ہیں لیکن آج حال یہ ہے کہ آٹے کے تینوں ٹرک وہ اپنے گھر لے گئیں اور ہمیں پوچھا تک نہیں۔ اس پر ساتھ کھڑے دوسرے شخص نے کہا کہ میں نے تو 5 ڈالے تھے جس کا اب مجھے افسوس ہے۔ سسی کے حلقے شاید عوام ہوں، لیکن کراچی میں یہ خدمت حمایتی یا عوام نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے کارکن انجام دیتے ہیں، اور پھر جہاں کُل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ہزار‘ بارہ سو ہوتی ہے وہاں بیلٹ باکسوں سے تین، چار ہزار ووٹ نکلتے ہیں۔جیسا کہ عرض کیا، کراچی کے ”ووٹ بینک“ کی مالک ایم کیو ایم کے قائد کے بیان کے بعد مارشل لا کے بارے میں تو بات ہورہی ہے لیکن کوئی اس اعتراف کے تناظر میں الیکشن کمیشن کے ادارے اور اس کے کردار پر بحث نہیں کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ الطاف حسین نے بیان دیا نہیں بلکہ اُن سے دلوایا گیا ہے تاکہ فوج کی طرف سے ممکنہ شب خون کے بارے میں رسک اسسمنٹ کیا جاسکے۔ معروف میزبان اور صحافی کامران خان کا اس موضوع پر اِسی وقت ہی سروے کرنا بھی معنی خیز اور اسی رسک اسسمنٹ مشق کا حصہ معلوم ہوتا ہے، اس لیے اس پر تمام سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار نہایت ضروری ہے تاکہ فوج کو پیغام مل سکے کہ اب کی بار اس کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم نہیں ہوں گی، لیکن اتنا ہی ضروری اس سوال کا جواب تلاش کرنا بھی ہے کہ اگر فوج اور امریکا ہی کو پارلیمنٹ تشکیل دینا ہے تو پھر جمہوریت اور انتخابات کا ڈراما ہی کیوں؟ کیوں نا اس ملک کی اصل حکمران فوج اور اس کا آقا امریکا فیصلہ کرلیں کہ کس کس کو پارلیمنٹ کا ممبر بننا ہے، کون وزیراعظم اور کون صدر کے منصب پر فائز ہوگا؟ پروگرام میں موجود احسن اقبال کا فرمانا تھا کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت بھی فوج کی نامزد کردہ ہے۔ حکومتیں تو ساری فوج کی نامزد کی ہوئی ہیں، لیکن احسن اقبال نوازشریف کی بڑے مینڈیٹ والی حکومت کو فوج اور امریکا کی نامزد کردہ حکومت نہیں کہیں گی، حالانکہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو یا مسلم لیگ ن یا ق کی…. سب کی پالیسیاں واشنگٹن کی خواہش کی عکاس رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے اعتراف کے بعد اُن لوگوں کے منہ بند ہوجانے چاہئیں جو جماعت اسلامی پر فوج اور امریکا سے تعلق کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ جماعت اسلامی کا ملک کی سب سے بڑی اسٹریٹ پاور ہونے کے باوجود انتخابی کامیابی حاصل نہ کرنا اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ جماعت اسلامی جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کے علاوہ فوجی کارپوریٹوکریسی کے عوام مخالف اقدامات کو ختم کرکے وطنِ عزیز کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی اسلامی معاشرہ بنانے کی خواہاں واحد محب وطن سیاسی جماعت ہے، اور اس کی خواہش کو نہ تو امریکا پورا ہوتا دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی ملکی دفاع کے اپنے اصل کام کو چھوڑ کر اقتدار پر براجمان ہونے کے خواہشمند فوجی جرنیلوں کو یہ منظور ہے۔ صدر زرداری نے دو دن کے توقف کے بعد زبان کھولی تو فرمایا کہ فوجی بغاوت کا خطرہ نہیں۔ اس کی وجہ ”اچھی نیت والے شخص“ کو قرار دیا، جو ان کے خیال میں حکومت گرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج کی کمان سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے ماتحتوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ باقاعدہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے دینے والے جمہوریت پسند جنرل پرویزکیانی نے الطاف حسین کے بیان کو کئی دن گزرنے کے باوجود ایک بیان جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی جس سے یہ ساری بحث ختم ہوجاتی؟ کیا آئی ایس پی آر کی خاموشی معنی خیز نہیں؟ کیا اس سے یہ تاثر درست ثابت نہیں ہوتا کہ اس وقت مارشل لا کی باتیں کرنے والے فوج ہی کی ترجمانی کررہے ہیں!الطاف حسین، پیر پگارا اور عمران خان اقتدار پانے کے لیے فوج کی ترجمانی کریں لیکن میڈیا کا فرض ہے کہ وہ سچ کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکا کی مرضی سے فوج کے کاندھوں پر سوار ہوکرآنے والوں کا اصل کردار عوام کے سامنے کھول کر رکھ دے تاکہ ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنے والوں کو شکست دے کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا جاسکے۔

9 Responses to “ایم کیو ایم : عوامی مینڈیٹ کی حقیقت”

  1. کافی درست تجزیہ ہے

  2. متاثرین میں امداد کی شفاف تقسیم کیلئے کمیشن بنایا جائے، منور حسن

    جماعت اسلامی پاکستا ن کے امیر سید منور حسن نے مطالبہ کیا ہے کہ سیلاب متاثرین کیلئے آنے والی امداد کی منصفانہ اورشفاف تقسیم کیلئے قومی کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو نمائندگی دی جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نورحق میں الخدمت کے مرکزی ریلیف کیمپ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی‘ سیکریٹری حافظ نعیم الرحمن ‘نائب امیر شیخ رفیق احمد‘ خلیفہ انوار اوردیگر رہنما بھی موجود تھے۔ بعدازاں فاران کلب کے جنرل سیکریٹری ندیم اقبال اور دیگر ممبران نے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے 25 لاکھ روپے کا چیک بھی سید منور حسن کو پیش کیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا کہ اس وقت پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ حکومت مسلسل غفلت اورلاپرواہی کامظاہرہ کررہی ہے۔ سیلاب سے قبل بھی حکومت نے عوام کومتنبہ نہیں کیا ۔ صرف صوبہ خیبر پختونخواہ میں ڈیڑھ ہزار افراد جاں بحق ہوئے‘ انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں سیلاب سے متاثرہ جو خاندان شمالی اورجنوبی وزیرستان کی طرف ہجرت کرکے گئے ‘ امریکا ان پر ڈرون حملے کررہا ہے ‘ المیہ یہ ہے کہ ان ڈرون حملوں کو خیبر پختونخواہ حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے کہاکہ لوگوں کو یقین ہوگیا ہے کہ سیلاب متاثرین کیلئے جو مدد آرہی ہے اس میں بڑے پیمانے پرغبن ہورہا ہے۔ اب بھی بیشتر افراد پانی میں گھرے ہوئے ہیں ‘ حکومت ان افرادکو محفوظ مقامات تک منتقل کرے۔

  3. آپ صحافی ہیں اپ کت علم میں ہو گا کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنک کے کتنے ملزمان پکڑے گئے ہیں! اور کس نے پکرے ہیں! میرے علم کے مطابق اُن کو پکڑنے میں ملٹری انٹیلیجنس کی مدد لی گئی ہے!
    آج کل عدالتوں سے اپن کے ریمانڈ لیئے جا رہے ہیں! یعنی فوج نے پکڑا اصل میں!
    میں تو اُس ہی تناظر میں بیان کو دیکھ رہا ہوں! ایم کیو ایم پہلے پہل یہ سمجھ رہی تھی کہ پیپلز پارٹی والے ایکشن میں ہیں مگر جب ملڑی انٹینلیجنس کا علم ہوا تو ایک بیان اُن کے حق مین بھی!! باقی اپنا اپنا خیال ہے!
    ممکن ہے کہ میں غلط ہوں! مگر یہ بات مجھے اُن انتیلیجنس والوں سے معلوم ہوئی جو عدالت میں ریماند لینے آئے تھے۔

  4. جو کوئی بھی کسی بھی وجہ سے فوج کو سیاست میں آنے کی دعوت دے وہ کسی صورت ملک سے مخلص نہیں ہوسکتا کیونکہ پاکستان کے بگاڑ میں سب سے بڑا ہاتھ فوجی آمریتوں کا رہا ہے۔
    آپ کی پوسٹ پر میرا اعتراض یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا ریکارڈ اس معاملے میں جتنا خراب ہے اتنا کسی جماعت کا نہیں اور یہ محض الزام نہیں بلکہ ضیاء کی بدترین آمریت میں تو جماعت اسلامی اور فوج کی بریگیڈ میں تمیز کرنی مشکل تھی ایسے میں یہ کہنا کہ جماعت پر محض الزام ہے اس سے جانبداری نا صرف ظاہر ہوتی ہے بلکہ یہ محض پوائنٹ اسکورنگ تک محدود ہوجاتی ہے۔

  5. مذ ہبی جماعتوں اور خصوصا جماعت اسلامی کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی ہے کہ اپنا امیج بہتر کرنے کے لیئے ایم کیو ایم کا یا دیگر سیاسی جماعتوں کا امیج خراب کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اپنے کرتوت ٹھیک کرنا ضروری ہیں اور اپنی منافقتیں ختم کرنا ذیادہ ضروری ہیں!!!!!

  6. جناب آمریت کی گود میں پلنے والوں سے آپ اور کیا توقع رکھتے ہیں۔ انھوں نے جرنیلوں کو ہی دعوت دینی ہے۔۔۔ اور انتخابات میں کیا کچھ ہوتا ہے اس کے لیے کسی میڈیا کی ضرورت نہیں۔ آپ اپنے علاقے کے پولنگ اسٹیشن جائیں، تو اندازہ ہوجائے گا۔۔۔

  7. میں شعیب کے تبصرے سے جزوی اتفاق کرتا هوں۔ اگر آپ اس پوسٹ میں محض اتنا لکھ دیتے که یه ایک بیوقوفانه بیان هے تو کافی هوتا مگر جو آپ نے جماعت اسلامی کے محب وطن اور واحد سیاسی جماعت هونے کا نقشه کھینچا هے وه مضحکه خیز هے۔ پاکستان کے عوام واقعی جماعت اسلامی کو ووٹ نهیں دیتے خاص طور پر پنجاب اور سندھ کے نیم شهری اور دیهی علاقوں میں۔ جماعت کے اسٹریٹ پاور زیاده تر وه بیوقوف نوجوان هوتے هیں جنهیں اسلام کی نشاط ثانیه کے سبز باغ دکھا کر بیوقوف بنایا گیا هوتا هے اور ان میں سے اکثر خود بھی کبھی ووٹ کا حق استعمال نهیں کرتے۔

  8. فکر نہ کرو اگلے انتخابات کمپیوٹرائزڈ ہوں گے انشاءاللہ،
    پھر سب کے گلے شکوے بھی دور ہوجائیں گے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بھی ہوجائے گا!!!!
    ایجینسیاں بہت عرصے سے ان دہشت گردوں کے پیچھے تھیں اور ایم کیو ایم والوں کو اس کا بخوبی علم تھا،بلکہ اے این پی کے اعلی عہدیدار بھی اس سے اچھی طرح واقف تھے!
    اس بیان کا بیک گراؤنڈ کچھ اور ہے اور یہ اتنی سطحی بات نہیں جتنی کچھ لوگ اپنی بے وقوفی کی وجہ سے سمجھ رہے ہیں!

تبصرہ کریں