Archive for the ‘طالبان’ Category

Articles

پختونوں کی تذلیل…. اور میرا جانباز پنجابی سپاہی بھائی

In فوج,پاکستان,حقوق انسانی,دہشت گردی,طالبان on جولائی 27, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

جب میں اپنےساتھی کےساتھ مقبوضہ جامعہ کراچی میں داخل ہونےکےلیےسلور جوبلی گیٹ پر قائم چیک پوسٹ پر قابض رینجرز اہلکار کی جانب بڑھا تو اس نےاس حقیقت کےباوجود کہ میرے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا مجھےصرف اس لیےاندر جانےکا گرین سگنل دےدیا کہ ہم دونوں ایک ہی زبان بولتےتھے۔ اور میں نےیہ ’سہولت‘ حاصل کرنےسےصرف اس لیےانکار کردیا کیوں کہ اس نےمیرےاردو بولنےوالےساتھی کو میرےساتھ جانےکی اجازت نہیں دی‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ ہم دونوں ہی جامعہ کراچی کےطالب علم ہیں۔ مجھےزبان کی بنیاد پر اُمتِ محمدیہ کو تقسیم کرنےوالوں سےشدید نفرت ہے۔ باچا خان کےپیروں کاروں کی طرف سے اپنےکارکنوں کو سخت ہدایت تھی کہ اس پختون دشمن کےساتھ ہاتھ نہ ملایا جائے۔ لیکن پتا نہیں 18جولائی کو میرےزبان سےڈیرہ غازی خان کےعلاقےترنول میں ان پولیس والوں کےسامنےیہ الفاظ کیوں نکلےکہ” آپ لوگ پختونوں کی نسل کشی کےبعد اب ان کو ذلیل کرنےکا کوئی موقع بھی ہاتھ سےنہیں جانے رہے ہیں۔‘‘
تقریبا ً ایک دہائی قبل اپنے زمانہ طالب علمی میں اس روٹ کو استعمال کرتارہا۔ راستےمیں مسافروں کےساتھ ٹرانسپورٹ مافیا کی زیادتیاں ہمیشہ مجھےپریشان کیا کرتی تھیں۔ اس لیےمیں نےارادہ کیا کہ میں کافی عرصہ بعد سفر میں اکیلےہونےکا فائدہ اُٹھا کر روڈ کا انتخاب کروں اورمضر صحت کھانے پینےکےسامان اوراس کےبدلےبس والوں کےہاتھوں ’یرغمال ‘مسافروں سے زیادہ پیسوں کےحصول کو ایک فیچر کا موضوع بنائوں۔ مسافروں کےمسائل مجھےپریشان کرتی رہے تو میرے سفر کی ساتھی جان پرکنز کی کتاب اس سےبھی زیادہ پریشان کررہی تھی جس میں انہوں نےسی آئی اےاور معاشی غارت گروں کی وارداتوں پر سےپردہ اُٹھایا ہے۔ کتاب میں پاکستان کا تذکرہ نہ ہونےکےباوجود یہ پاکستان کےحالات پرکس طرح منطبق ہوتی ہےاس کا تذکرہ ایک الگ پوسٹ میں‘فی الحال واپس اپنےموضوع کی طرف۔
کوہاٹ ٹنل پر ایک باوردی نوجوان نےسب کےشناختی کارڈ جمع کیےاور پھر واپس کیےلیکن ایک بزرگ کےپاس کلر فوٹوکاپی تھی‘ نوجوان نے واپس کرنےسےانکار کردیا۔ بزرگ التجا کرتےرہےکہ راستےمیں کئی اور جگہ چیکنگ ہوگی۔ نوجوان نےکہا اُسےآرڈر ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہےجہاں آرڈرز تو جاری ہوتےہیں‘ لیکن اس کےساتھ ہدایات دیےجاتےہیں اور نہ ہی اطلاع کہ کوئی ایسا آرڈر پاس ہوا ہے!لہٰذا آپ کا تجربہ ہی ہدایات ہوتےہیں۔ لیکن پہلی دفعہ کا کیا جائے؟کیا بس اڈوں پر ایسےہدایات واضح طور پر آویزاں نہیں کرنےچاہئیں؟
شاید یہ واقعہ تھا جس نےمجھ سےآگےترنول‘ ڈیرہ غازی کےعلاقےمیں وہ جملہ کہلوایا جو میں شاید عام حالات میں کبھی نہ کہتا۔ ترنول پر بس رُک دی گئی۔ کارڈ جمع کیےگئےاور پھر حکم دیا گیا ۔ پیدل چلنا شروع کردو۔ یہ سرحد اور پنجاب کا بارڈر تھا لیکن مجھےیہ انڈیا پاکستان یا پاکستان افغان بارڈر لگا۔ جہاں لکڑیوں کےبیچ میں گزارا گیا۔ یہ ہزار میٹر سےزیادہ کا راستہ ہوگا۔ ترنول تھانےکےسامنےپہنچ کر وہاں بیٹھےپولیس والوں سےمیں نےکہا”یہ کیا ہے؟ یہ پیدل چلوانا سیکورٹی مسئلےکا حل تو نہیں ہے۔ آپ لوگ پختونوں کی نسل کشی کےبعد اب ان کو ذلیل کرنےکا کوئی موقع بھی ہاتھ سےنہیں جانےدے رہے ہیں‘‘۔
مجھےنہیں پتا کہ ذلیل ہونےکا باوجود مجھےیہ کہنےکا حق تھا یا نہیں لیکن اس پر میرےپنجابی بھائی پولیس والےنےجو کچھ کہا اس نےمجھےکچھ مزید کہنےپر مجبور کردیا۔ اس نےکہا کیا کریں تم دہشت گرد ہو۔ سارےچرسی کہاں ہوتےہیں؟ سرحد سے آتے ہیں چرس اور ہیروئین کہاں سےآتی ہے؟۔‘‘
میں سنتا رہا اور وہ کہتا چلا گیا”بےوقوف یہ کیمرےلگےہیں جس میں اہم دہشت گردوں کو پہچانتےہیں‘ چرسیوں اور ہیرونچیوں کا پتہ چلتا ہے۔‘‘
میں نےعرض کیا”جناب یہ کام تو 10میٹر میں بھی ہوسکتا ہے اس کےلیے1000میٹر کی پریڈ کیوں کراتےہو۔“ اس گستاخی پر اس نےمجھےہاتھ سےپکڑ کر دھکا دیا۔میں نےکہا یہ میرےسوال کا جواب نہیں ۔ مجھےدھکا دےکر کونساجواب دےرہےہیں؟ میں اس وقت جنوبی پنجاب میں تھا او ر میں نےاسےیاد دلایا کہ یہاں بھی طالبان ہیں لیکن آپ ان کےخلاف کچھ کرنےکو تیار نہیں۔اور پھر سرحد میں داخل ہوتےہوئے پنجاب سےآنےوالوں کو ایسا ذلیل نہیں کیا جاتا حالانکہ وزیر ستان میں پائےجانےوالے’پنجابی طالبان‘ پنجاب سےہی آئےہوں گے۔ میں نےمزید کہا کہ ”میں روز پڑھتا ہوں کہ سیکورٹی فورسز نے30،40اور 50شدت پسندوں کا مارا۔ یہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے۔ 99فیصد پختون امریکا مخالف ہیں۔ امریکی دشمنی کو ختم کرنےکےلیےتہمیں ایک ایک پختون کو مارنا ہوگا“…. میں وہاں سےبس کی جانب چل پڑا اور سوچتا رہا کہ میں کیا کیا کہہ گیا۔ شاید میں یہ سب کچھ نہ کہتا اگر مجھےمیرےسوال کا جواب ملتا یا صرف اتنا ہی کہہ دیا جاتا کہ ”تم میرےمسلمان پاکستانی بھائی ہو ‘ یہ تم نےکیسےبات کردی۔‘‘

Articles

افغانستان کی معدنی دولت پر منڈلاتے گدھ، معدنیات کی لوٹ مار میں افغان مزاحمت کار اصل رکاوٹ بن کر سامنے موجود ہیں

In فوج,پاکستان,بین الاقوامی تعلقات,طالبان on جون 21, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , ,

امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے گزشتہ دنوں ایک ’خبر‘ بریک کی جس کے مطابق افغانستان میں سونے‘ تانبے‘ کوبالٹ اور لیتھیم سمیت مختلف دھاتوں پر مشتمل 9 کھرب ڈالر مالیت کے معدنی وسائل دریافت ہوئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان معدنیات پر قبضے کے لیے امریکا نے سرگرمیاں تیز کردی ہیں‘ جبکہ مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ معدنی ذخائر کی دریافت سے افغانستان پر اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے امریکا اور چین میں کشمکش تیز ہوسکتی ہے، جبکہ بھارت بھی اس کشمکش کا حصہ بنے گا۔ دوسری جانب طالبان کی جانب سے مزاحمت شدید ہونے کا بھی امکان ہے۔ افغانستان کے معدنی وسائل عالمی جارح قوتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کے ہاتھوں لٹنے میں کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ ایک ناممکن بات کو ممکن بنائیں، اور وہ ناممکن بات ہے طالبان کی شدید مزاحمت کا تدارک۔ خبر کے مطابق افغانستان کے پہاڑوں اور ریگزاروں میں چھپی اس معدنی دولت کی نشاندہی امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون‘ امریکی جیالوجیکل سروے اور یو ایس ایڈ کے اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹیم نے کی‘ جس کی تصدیق افغان حکومت نے کردی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران تیار کیے گئے نقشوں کی بنیاد پر امریکا نے فضائی سروے کے ذریعے وسیع ذخائر کا سراغ لگایا ہے۔9 کھرب ڈالر مالیت کے ان معدنی وسائل کی مزید تقسیم بی بی سی نے کچھ اس طرح سے کی ہے کہ ان معدنیات میں لوہے کے420 ارب ڈالر‘ تانبے کے274 ارب ڈالر‘ نیوبیم کے81 ارب ڈالر‘ کوبالٹ کے 51 ارب ڈالر اور سونے کے25 ارب ڈالر کے ذخائر افغانستان میں پائے جاتے ہیں۔سی آئی اے کے ترجمان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2004ءمیں امریکی ماہرین کو کابل میں افغان جیالوجیکل سروے کے دفتر میں سوویت ماہرین کے تیار کردہ نقشے ملے‘ جن میں افغانستان میں معدنی ذخائر کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان نقشوں کی بنیاد پر امریکی بحریہ کے اورین تھری طیاروں پر خصوصی آلات نصب کرکے ان طیاروں کی افغانستان کے70 فیصد حصے پر پروازیں کرائی گئیں‘ جس سے حوصلہ افزا نتائج ملے۔2007ءمیں ایک بمبار طیارے پر آلات نصب کرکے مزید بہتر ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2007ءمیں پکی خبر بننے والی یہ اطلاع یا معلومات اُسی سال خبر کیوں نہیں بنائی گئیں؟ کیا اس کا مقصد صحیح وقت کا انتظار تھا یا پھر کوئی دوسری مجبوری؟اخبار کے مطابق افغان جنگ میں مشکل صورت حال سے دوچار ہونے کے باوجود امریکی حکام اور افغان حکومت معدنیات کے معاملے پر مذاکرات کے لیے متفق ہوگئے ہیں۔ کچھ لوگ اس جملے کو اس طرح سے پڑھنا پسند کریں گے: ”افغان عوام کا خون پینے والے اب ان کی معدنی دولت لوٹنے پر اس مشکل صورت حال میں بھی متفق ہوگئے ہیں۔“ کہیں یہی مشکل مجبوری تو نہیں؟ ہوسکتا ہے کہ چین کی طرف سے افغانستان میں معدنیات کی جانب پیش رفت نے امریکا کو ان معلومات کو ’جلد‘ خبر بنانے پر مجبور کیا ہو۔ لیکن چین کی طرف سے پیش رفت اس کی واحد وجہ نہیں ہوسکتی۔دراصل امریکا افغانستان میں اپنے اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ اور پینٹاگون کی یہ خواہش تھی کہ وہ طالبان کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑکر اُن کو ایک کمزور حریف ثابت کردیں تاکہ اپنی شرائط پر مذاکرات کیے جاسکیں یا پھر افغانستان سے اپنی باعزت واپسی کے لیے طالبان کو کم از کم مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے۔ لیکن یہ خواہش اب تک صرف خواہش ہی ثابت ہوئی ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق اِس وقت افغانستان میں اگر دن کے وقت امریکیوں یا افغان کٹھ پتلیوں کی حکومت ہوتی ہے تو رات کے وقت طالبان کی عمل داری قائم ہوجاتی ہے۔ جبکہ کچھ آزاد ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے بیشتر علاقوں پر عملاً طالبان کی حکومت ہے کیوں کہ سارے فیصلے وہی کرتے ہیں۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت امریکی منصوبے دھرے کے دھرے ہی رہ گئے ہیں اور امریکا اور اس کے افغان کٹھ پتلیوں کو اس بات کی جلدی ہے کہ اپنی فیصلہ کن شکست سے قبل افغان معدنیات کو ڈالرز میں بدل کر اپنے اکاﺅنٹس میں منتقل کرلیں۔ دسمبر2009ءمیں امریکی صدر بارک اوباما نے مزید30 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مرحلہ وار انخلاءکا آغاز جون2011ءمیں ہوگا۔ اس وقت افغانستان میں ایک امریکی فوجی پر سالانہ ایک ملین امریکی ڈالر کا خرچہ آتا ہے‘ اس طرح اس جنگ میں ایک لاکھ امریکی سپاہیوں پر اُٹھنے والے اخراجات 100بلین ڈالر کے لگ بھگ ہوں گے۔ دوسری طرف ’اے بی سی‘ اور ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے حالیہ سروے میں 53 فیصد امریکیوں نے افغانستان میں مزید جنگ لڑنے کے خلاف رائے دی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکی عوام کو کسی چیز کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا بھلے احساس نہ ہو‘ لیکن وہ اس بات کا حساب ضرور رکھتے ہیں کہ ان کی جیبوں سے ٹیکسوں کی مد میں نکلنے والی بڑی رقم مطلوبہ مقاصد کے حصول میں کامیاب ہورہی ہے یا نہیں؟ ’سی آئی اے‘ کے فنڈز سے چلنے والے ’نیویارک ٹائمز‘ کی طرف سے اس ’بڑی‘ خبر کو بریک کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ امریکی عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ افغان جنگ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے بلکہ اس جنگ پر اُٹھنے والے اخراجات افغانستان کی سخت چٹانوں اور پہاڑوں سے پورے کیے جاسکتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر جن پہاڑوں پر وہ افغان مجاہدین کے ہاتھوں بُری طرح پٹتے رہے ہیں ان کے نیچے دفن خزانے ان کی ڈوبی ہوئی رقم کی ’ریکوری‘ کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ ریکوری ہوپائے گی؟ اس کا انحصار طالبان کی مزاحمت ختم ہونے پر ہے‘ جس میں یقیناً وہ کامیاب نہیں ہوپائےں گے۔ اس وقت افغان عوام کو طالبان کا شکر گزار ہونا چاہیے جو ان کی معدنی دولت کی چوکیداری شدید مزاحمت کی صورت میں کررہے ہیں‘ ورنہ تو افغان کٹھ پتلی حکمران مال کیا افغان عوام کو بھی صلیبیوں کے ہاتھوں زندہ فروخت کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ یہ طالبان کی مزاحمت ہی ہے جس نے اس معدنی دولت پر نظر رکھنے والے کئی ’امیدواروں‘ کے ذہنوں میں شدید خدشات کو جنم دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معدنی دولت پر نظرجمانے والے بھارت کے نئی دہلی میں موجود ایک سابق سفارت کار سنتوش کمار کہتے ہیں کہ اس میدان میں مصروفِ عمل بھارتی کمپنیوں کو افغانستان کے حوالے سے چند خدشات بھی لاحق ہیں: ”ان کے لیے دو مسائل ہیں۔ پہلا سیکورٹی کا مسئلہ ہے جبکہ دوسرا مسئلہ ذرائع رسد کا ہے“۔ سیکورٹی کا مسئلہ یقیناً بڑا مسئلہ ہے۔سنتوش کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”بھارت ایک ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے۔ لہٰذا مختلف طرح کی معدنیات کی ضروریات میں روز بروز اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بھارت ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کے اہم ملکوں میں سے ایک ہے۔ ان ٹیکنالوجیز میں مثال کے طور پر فضائی اور خلائی ٹیکنالوجی میں نئی معدنیات اور دھاتوں کی نہ صرف ضرورت پڑتی ہے بلکہ ان دھاتوں کے استعمال کے حوالے سے اختراعات کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ چونکہ ریئر ارتھ میٹلز سمیت اس طرح کی معدنیات بھارت میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے یہ درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ بھارت کے پڑوسی ملکوں میں اگر کوئی ایسی دریافت ہوتی ہے تو وہ بہت زیادہ اہم ہے“۔ افغانستان کی معدنیات نہ صرف بھارت بلکہ کئی ممالک کے لیے اہم ہیں، اور یہ ممالک اس کوشش میں ہیں کہ کسی طریقے سے افغانستان کی معدنی دولت میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کیا جائے۔چین بھی افغانستان کی معدنیات میں دلچسپی لے رہا ہے، لیکن اس دلچسپی کو ’وسائل کی بھوک‘ کا نام دیا گیا۔ جبکہ امریکا جیسا خونیں بھیڑیا یہ سب کچھ ”انسان دوستی“ میں کررہا ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ معدنی وسائل کی خبر نشر کرنے کا مقصد ان کوششوں کو بھی روکنا تھا جو نیویارک ٹائمز کے الفاظ میں ’وسائل کے بھوکے چین‘ کی طرف سے ہورہی تھیں۔2008ءمیں چین کی سرکاری فرم ’ایم سی سی‘ نے کابل سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ لوگار میں واقع ایانک کے مقام پر ’کوپر‘ کی کان کے سلسلے میں حکومتِ افغانستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے لیے فرم نے 484 ملین پاﺅنڈز بطور پیشگی ادا کیے۔ ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق اس پروجیکٹ سے افغانستان کو 240 ملین پاﺅنڈز سالانہ کی آمدن ہوگی جبکہ 20 ہزار نوکریاں بھی اس پروجیکٹ سے میسر آجائیں گی۔ لیکن امریکا نے وزیر معدنیات محمد ابراہیم عادل پر اس معاہدے کے بدلے میں چین سے30 ملین ڈالر بطور رشوت لینے کا الزام لگا کر انہیں برطرف کروادیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں استعارے کے طور پر افغانستان میں وسیع معدنی ذخائر کے سبب اسے ”لیتھیم کا سعودی عرب“ کہہ کر افغان عوام کو گولی دینے کی کوشش کی گئی کہ ان معدنیات کی لوٹ مار سے ان کی قسمت بدل جائے گی اور وہ سعودیوں جیسے یا ان سے بھی زیادہ خوشحال ہوجائیں گے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے گزشتہ سال کے اواخر میں کہا تھا کہ امن قائم ہوجائے تو یہ معدنی ذخائر افغانستان کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل کردیں گے۔ جبکہ افغان وزارت صنعت و معدنیات کے ترجمان جاوید عمر کہتے ہیں کہ افغانستان میں قدرت کے یہ تحفے ملکی معیشت کو ترقی و کامرانی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔کیا افغانستان واقعی ترقی وکامرانی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا؟ اس تاثر کے درست یا غلط ہونے کے لیے اِسے مختلف تناظر سے دیکھنا ہوگا۔ کسی بھی ملک میں معدنی ذخائر کو صحیح انداز میں نکالنے کے لیے سب سے پہلے لاجسٹک سپورٹ یعنی سڑکوں ‘گاڑیوں‘ گاڑیوں کے فلنگ اسٹیشنوں، مرمت کی ورکشاپس اور ریلوے ٹریک وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔دوئم، بڑی مقدار میں بہتا پانی‘ جو دھاتوں کو صاف کرنے کے لیے درکار ہوتاہے۔ اورسوئم، مناسب اور قابلِ اعتبار بجلی کی مناسب مقدار۔ کیا یہ سب چیزیں افغانستان میں ہیں؟ ان بنیادی لوازمات کی فراہمی کے لیے کتنی رقم درکار ہوگی؟ سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں سے اکثر کا جواب یقیناً ’نہیں‘ میں ہے۔ان لوازمات کے علاوہ جو اہم چیز درکار ہوتی ہے وہ ہے اپنے عوام سے مخلص حکومت اور حکمران‘ جو ملک کے ذخائر کو عوام کی خوشحالی کا ذریعہ بنائیں اور ان سے حاصل ہونے والی رقوم امریکا اور یورپ میں موجود اپنے بینک اکاﺅنٹس میں منتقل نہ کریں۔ لیکن یہاں تو صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ کرزئی کی مرکزی حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں جبکہ انتظامی وفاقی اکائیوں کے نام پر عوام پر مسلط غنڈوں کو عوامی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں۔ امن وامان کی صورت حال خراب ترین ہے جبکہ امریکی فوجی سخت فرسٹریشن کا شکار ہوکر آئے روز معصوم افغانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ کرزئی حکومت کا کرپشن میں ملوث ہونا تو یقینی ہے ہی‘ اس میں کرپشن کو روکنے کی اہلیت بھی نہیں ہے۔اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معدنی وسائل ہی کسی ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں افریقی ملک نائیجیریا کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں تیل کی وافر دولت کے باوجود بدامنی اور غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔گیانا میں تیل کے ذخائر نے اس چھوٹے سے ملک کے صدر کو تو اُس کی سوچ سے زیادہ مالدار بنادیا لیکن عوام آج تک ابتر زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح کانگو کے عوام بھی آج بیشتر مغربی ممالک کے عوام سے زیادہ خوشحال ہونے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بولیویا لیتھیم سے مالامال ہے‘ لیکن یہ آج بھی لاطینی امریکا کا غریب ترین ملک ہے‘ دنیا بھر میں ہیرے (ڈائمنڈ) کے سب زیادہ ذخائر نمیبیا میں ہیں لیکن اس ملک کے عوام کی حالت قابل قدر نہیں ہے۔معدنی وسائل سے مالامال ان ممالک کا تجزیہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کسی ملک کی معدنیات عوام الناس کی فلاح و بہبود اور ان کے طرزِ زندگی کی بہتری کا ذریعہ بنتی ہیں یا اس سے ملک کی اشرافیہ اور ان کے بین الاقوامی غاصب دوست فائدہ اٹھاتے ہیں؟ یہ سوال خود اپنے اندر جواب رکھتا ہے جو ہمیں ’معدنی ذخائر سے مالامال افغانستان‘ کے اچانک نمودار ہونے کے اس سارے قصے کے پیچھے کارفرما عزائم کا پتا دیتا نظر آتا ہے۔ افغانستان کے پاس اگر وسیع معدنی ذخائر ہیں تو اس کے مسائل نائیجیریا‘ کانگو‘ بولیویا اور نمیبیا سے مختلف نہیں ہیں۔ اس بریکنگ نیوز کی تفصیلات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس سے افغانوں کو روزگار مہیا ہوگا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا روزگار ہوگا؟ کھربوں ڈالرز کے ذخائر کے مالک افغان عوام میں سے اگر چند لاکھ کو بھی روزگارکے نام پر مزدوری اور مشقت کی بھیک دے دی جائے تو کیا یہ ان کے دل جیتنے کی کوشش قرار دی جاسکتی ہے؟ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو‘ جن پر امریکا کی اجارہ داری ہے، ان ممالک سے محبت ہوتی ہے جہاں معدنی ذخائر تو وسیع پیمانے پر ہوں لیکن وہاں کے عوام اَن پڑھ ہوں تاکہ پروجیکٹس سے حاصل ہونے والی رقوم کا بڑا حصہ وہ اپنی ماہرانہ خدمات کے ’صلے‘ میں اپنے ملکوں میں لے جائیں۔افغان وزیر برائے معدنیات اور کان کنی وحید اللہ شاہرانی کے بقول ان معدنیات کو زمین سے نکالنے کے لیے حکومتی کوششیں اسی سال کے آخر تک شروع ہوجائیں گی۔ شاہرانی کے بقول افغان حکومت 25 جون کو لندن میں ایک روڈ شو کا اہتمام کررہی ہے، جس میں کان کنی کے شعبے میں اپنی مہارت اور وسائل کی نمائش کے لیے دنیا بھر کی 200 سے زائد کمپنیوں کو مدعو کیا جائے گا۔افغان حکام کی توقعات اپنی جگہ، لیکن افغان عوام کی حقیقی ترجمانی کرنے والے مزاحمت کار اپنی قومی دولت کو لندن کے روڈ شو میں نیلام نہیں ہونے دیں گے، جبکہ نیلامی سے حاصل ہونے والی تھوڑی بہت رقم افغان عوام کی فلاح و بہبود پر صرف ہونے کے بجائے کٹھ پتلی حکمرانوں کی جیبوں میں چلے جانے کا بھی سو فیصد امکان ہے۔اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ ابھی ان معدنیات سے مالامال علاقوں کی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے جن کا انکشاف نیویارک ٹائمز نے کیا ہے، تاہم یہ بات معلوم ہے کہ زیادہ تر معدنیات افغانستان کے اُن حصوں میں پائی جاتی ہیں جہاں عملاً مزاحمت کاروں کا کنٹرول ہے۔

Articles

اجتماعی قبریں‘ فوج اور فضل اللہ

In فوج,پاکستان,بوسنیا,حقوق انسانی,دہشت گردی,سوات,طالبان on اگست 26, 2009 منجانب ابو سعد

بوسنیا میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں‘ قتل عام ہوا ‘ ماورائے قانوں مارا گیا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ مذمت _44010612_skulls_203واجب ہے اور کی بھی گئی لیکن ایک  مذہب کے لوگوں نے مسلمانوں کو مارا، ان کی نسل کشی کی ‘ مقصد بالکل واضح تھا۔ عراق میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ لاشیں ملیں سمجھ میں آنے والی بات ہے‘ ایک فرعون وقت ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غراتے ہوئے عراق پہنچا اور نسل کشی شروع کی۔ افغانستا ن پر حملے کے بعد بش نے اسے صلیبی جنگ قرار دیا۔ صلیبی کہیں جائیں گے تو لوگوں کی حفاظت اور خدمت تو نہیں کریں گے نا۔ یہاں بھی اجتماعی قبروں کا دریافت ہونا قابل فہم ہے۔ ہاں مذمت ہونی چاہیے لیکن کر کچھ نہیں سکتے۔ دشمن حملہ کرکے کر بھی کیا سکتا ہے۔ یہ کوئی اسکاٹ کی فلم ’’کنگ ڈم آف دی ہیون ‘‘ تو ہے نہیں جس میں صلیبی بلین کو امن کا داعی دکھایا جائے گا۔ بھئی  یہ حقیقی زندگی ہے۔ پس بوسنیا ‘ عراق اور افغانستان میں اجتماعی قبریں کھلے دشمن کا  کھلا کام ہے۔ لیکن یہ سوات میں اجتماعی قبریں۔ یہ کیا ہے؟

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق سوات کے کئی شہریوں نے علاقے میں اجتماعی قبریں دیکھنے کی اطلاع دی ہے۔

پاکستان میں سکیورٹی حکام نے مالاکنڈ آپریشن کے آغاز کے وقت فوجیوں کو عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن اب حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ اسے ماورائے عدالت ہلاکتوں اور اجتماعی قبروں کے شواہد ملے ہیں۔ (بی بی سی)

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے حقائق جاننے کے لیے تین روزہ دورے پر بھیجے گئے ایک وفد نے سوات میں شہری آبادی کی مشکلات کے تسلسل کی شکایت بھی کی ہے۔

کمیشن کے مطابق سوات کے کئی شہریوں نے علاقے میں اجتماعی قبریں دیکھنے کی اطلاع دی ہے۔ ان میں سے ایک بابوزئی تحصیل کے کوکرائے گاؤں میں اور دوسری کبل تحصیل کے دیولائی اور شاہ ڈھیری کے درمیان شامل ہیں۔ عینی شاہدین  کا جنہوں نے تدفین دیکھی ہے دعویٰ ہے کہ دفنائے جانے والوں میں بعض طالبان شدت پسند بھی تھے۔

090531005930_pakistan226کمیشن نے اس ’قابل تشویش پیش رفت‘ کے علاوہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے ماورائے عدالت ہلاکتوں پر خوف و خدشے کا اظہار کیا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ آپریشن کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سکیورٹی فورسز طالبان کے مرتکب مظالم سے دور رہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں فوجی کارروائی کے دوران مبینہ طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کی کثیرالجماعتی پارلیمانی کمیٹی اور سول سوسائٹی کی مدد سے آزاد تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایچ آر سی پی کے علاقہ جماعت اسلامی نے اجتماعی قبروں کے معاملے پر آواز اُٹھائی ہے اور اس کے امیر سید منور حسن نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن یہاں ایک سوال اُٹھتا ہے۔ کیا آج تک تحقیقات کے ذریعے مظلوموں کو انصاف فراہم کیا جاسکا ہے۔ جس ملک کے پہلے وزیر اعظم سے لے کر سابق وزیر اعظم سمیت کئی سیاسی ‘ سرکاری اور غیر سرکاری افسران کے قاتلوں کو نہیں پکڑا جاسکا ہو وہاں اہل سوات کے ساتھ انصاف کیا جاسکے گا۔ کیا اجتماعی قبروں اور سوات میں فوجی آپریشن کے دوران اندوہناک قتل عام کی تحقیقات کی جاسکیں گی؟ جس عجلت میں بغیر کسی نوٹس کے آپریشن شروع کیا گیا اس کے بعد تو ایسے ہونا ہی تھا۔ بلکہ یہ خبریں تو آپریشن کے دوران ہی آرہی تھیں۔ جو لوگ سوات اور بونیر میں پھنس گئے تھے اور بعد میں آپریشن کے دوران وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہونے والوں نے بھی بڑی تعداد میں لاشوں کی خبر دی تھی۔ راقم السطور نے بونیر سے تعلق رکھنے والے صحافی نیاز  کے علاوہ  مٹہ سے تعلق رکھنے والے سابقہ یونیورسٹی فیلو ارشاد سے گفتگو کی تو انہوں نے بھی ویسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا وزارت اطلاعات کے فنڈز پر نظر رکھنے اور اس میں زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کی کوششوں کی بجائے سوات سے غیر جانب دارانہ رپورٹنگ کے ذریعے کم از کم قوم کو تو حقائق آگا ہ کردے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا میڈیا حقیقی ایشو کو چھپانے کے لیے خودساختہ بحرانوں پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ سمیت بہت سے تجزیہ نگار بھی آپریشن ’راہِ راست‘ کو کام یاب قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ فضل اللہ اور مسلم خان اپنی جگہ موجود ہیں ‘ آپریشن نے قوم کو ان کی لاشیں تو نہیں دیں البتہ معصوم اہل سوات و بونیر کی اجتماعی قبریں دے دیں۔ اس قوم کے پاس ہر چیز تھی۔ کیا نہیں ہے اس ملک بس کمی تھی تو اجتماعی قبروں کی۔ ’راہ راست‘  نے یہ اجتماعی قبریں‘ براہ راست قوم کو دے دیں اب کیا ہوا اگر فضل اللہ اینڈ کمپنی کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ بعید نہیں کہ وہ بھی ان کے ساتھ محفوظ مقام پر نکل گئے ہوں جن کے یہ ساتھی تھے۔