Archive for نومبر, 2010

Articles

آئینہ تصویر

In پاکستان,دہشت گردی on نومبر 6, 2010 منجانب ابو سعد

پروفیسر عنایت علی خان نے عمران خان کے بارے میں کہا تھا
کیچ مس ہو یہ تو ممکن ہی نہیں
تم تو مس کو بھی کیچ کرتے ہو
یہ اُس وقت کہا گیا تھا جب عمران خان دنیائے کرکٹ میں شہرت کی بلندیوں پر تھے اور لندن میں جاکر جمائما سے میچ فکس کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ بعد میں کیچ مس ہوگیا۔ عمران خان سیاست میں آئے تو ہر موقع کو کیچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اب تک کرکٹ کی فضا سے باہر نہ آسکے۔
2 اپریل 2010ءکو انہیں ایک اور موقع ملا کہ وہ جامعہ پنجاب کے پروفیسر افتخار حسین بلوچ کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بہانے اپنی چوٹیں سہلا سکیں۔ کچھ دن پہلے ہی انہوں نے جب جامعہ پنجاب میں سیاست کرنے کی کوشش کی تھی تو اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ لڑکوں نے انہیں باہر کا راستہ دکھاتے ہوئے دھکے دیے تھے۔ عمران خان کو بدلہ لینے کا موقع مل گیا۔ جامعہ پنجاب میں اپنے کردار کے حوالے سے ”شہرت یافتہ“ پروفیسر ڈاکٹر افتخار بلوچ کو جمعیت کے کچھ لڑکوں نے اپنے طور پر نامناسب حرکتوں سے باز رکھنے کی کوشش کی اور افتخار بلوچ زخمی ہوگئے تو عمران خان فوراً اس شخص کے لیے گلدستہ لے کر پہنچ گئے جس پر گلوں کو مسلنے کا الزام ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر تصویر میں دائیں طرف اور عمران خان کے بائیں بازو سے لگا ہوا جو نوجوان حافظ فرحت کھڑا ہوا ہے یہ ہیلی کالج کا طالب علم ہے اور اسے جمعیت نے عمران خان پر حملے میں ملوث ہونے پر جمعیت سے خارج کردیا تھا۔ حافظ فرحت فوراً ہی عمران خان کے طلبہ ونگ انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں چلا گیا اور گلدستہ آگے بڑھانے میں عمران خان کا ہاتھ بٹا رہا ہے۔ انہی ہاتھوں سے عمران خان کو دھکا دیا گیا تھا لیکن عمران خان تو عرصے سے کوچہ سیاست میں دھکے کھا رہے ہیں۔
اس موقع پر عمران خان جمعیت پر خوب گرجے برسے اور کہا کہ جمعیت کے دہشت گردوں کے کھلے عام دندنانے کی سب سے بڑی ذمہ داری وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب پر عائد ہوتی ہے جن کی ناک تلے دہشت گردوں نے پنجاب یونیورسٹی کو یرغمال بنا رکھا ہے، جو معاشرہ استاد کی عزت و احترام نہیں کرتا وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا‘ تحریکِ انصاف اور انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن استاد کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور عمران خان افتخار بلوچ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن اب وہ کیا کہیں گے؟ جمعیت کا الزام تھا کہ افتخار بلوچ بدکردار ہے۔ اساتذہ کا احترام لازمی، لیکن جو استاد اپنے کمرے میں طالبات کو بلا کر ان کا ”احترام“ کریں کیا وہ بھی عمران خان کے نزدیک معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کررہے ہیں؟ اب کیا عمران خان گلدستے لے کر ان خواتین کے پاس جائیں گے جن کی اس نام نہاد استاد نے عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے؟ کیا وہ بتائیں گے کہ اصل دہشت گرد کون ہے؟ ممکن ہے ان کے علم میں یہ بات اب تک نہ آئی ہو کہ ان کے ممدوح پروفیسر پر پولیس نے ایک طالبہ اور اس کے شعبہ کی ایک خاتون ایڈمنسٹریٹر کو جنسی طور پر ہراساں کرنے پر مقدمہ درج کرلیا ہے۔ یہ گزشتہ پیر ہی کی بات ہے۔ چاہیں تو تھانہ مسلم ٹاﺅن میں مقدمہ زیر دفعہ 511 پاکستان پینل کوڈ کی تفصیلات معلوم کرلیں۔ پولیس کے مطابق اس ”قابل احترام“ پروفیسر نے ان خواتین کو اپنے کمرے میں بلا کر ان کی عزت لوٹنے کی کوشش کی، اور کمرہ بھی کیسا! موصوف نے وائس چانسلر کی آشیرواد سے اپنے آفس کے برابر میں ریٹائرنگ روم سجا رکھا ہے جس میں ایک بستر‘ ایک صوفہ کم بیڈ اور دو تکیے موجود ہیں۔ وائس چانسلر صاحب پہلے تو افتخار بلوچ کے ساتھ کھڑے تھے اور جامعہ پنجاب سے جمعیت کا صفایا کرنے کے دعوے کررہے تھے‘ اب تسلیم کررہے ہیں کہ یہ جامعہ کی تاریخ کا تاریک ترین دن ہے۔ جامعہ کی تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق افتخار بلوچ خطا کار ثابت ہوگئے ہیں۔ ایس پی روبل اکرام کا کہنا ہے کہ شروع میں انتظامیہ نے تاخیری حربے استعمال کیے مگر اب حقائق سے پردہ اٹھادیا ہے اور وائس چانسلر مجاہد کامران تک نے کہا ہے کہ افتخار بلوچ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ افتخار بلوچ ہتھ چھٹ مشہور ہیں اور انہوں نے اپنی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے تین ہفتے تک جامعہ پنجاب میں تدریس نہیں ہونے دی۔ افتخار بلوچ کی کئی کہانیاں جامعہ میں مشہور ہیں۔ ان کی اہلیہ رخسانہ تک نے ان کے خلاف وائس چانسلر کو درخواست دے رکھی ہے۔ افتخار بلوچ کی حرکتوں سے تنگ آکر تین کنٹریکٹ معلمات ملازمت چھوڑ چکی ہیں۔ پروفیسر صاحب تو کیفرکردار کو پہنچ جائیں گے لیکن ہمارا سوال اپنے کرکٹ کے ہیرو اور ”انصاف“ کے مبلغ سے ہے کہ اب وہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں، اور کیا ایسے ہی استاد ان کے نزدیک احترام کے مستحق ہیں؟ کیا وہ گلدستہ لے کر شیبہ گل کے پاس بھی جائیں گے؟
 

Articles

امریکا کے مقامی ’’سیکولر مجاہد‘‘۔

In میڈیا,پاکستان,دہشت گردی on نومبر 5, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , ,

شاہنواز فاروقی
ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ مغربی ذہن ہرچیز کو طاقت کے نقطہ نظر سےدیکھتا ہے، یہاں تک کہ محبت کو بھی۔ اس سےاندازہ کیا جاسکتا ہےکہ مغربی ذہن جنگ کو کتنا ہولناک بناسکتا ہے…. بالخصوص امریکی ذہن۔ اس ذہن کے زیراثر اخبار کی شہ سرخی میزائل اور خبر کا متن بارودی سرنگوں سےبھرا ہوا میدان بن سکتا ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت 26 اکتوبر کےروزنامہ ڈان کراچی کےصفحہ اوّل پر شائع ہونےوالی خبر ہے۔
شہ سرخی کےساتھ شائع ہونے والی خبر بابا فرید گنج شکر کےمزار پر ہونے والے بم ھماکےسےمتعلق ہے۔ کہنے کو خبر ڈان کے رپورٹر نےفائل کی ہےلیکن خبر کی شہ سرخی اور متن پڑھ کر خیال آتا ہےکہ خبر امریکی فوج کےکسی سپاہی نےسپردِ قلم کی ہوگی۔
اس کا پہلا ثبوت خبر کی شہ سرخی ہے۔ خبر اہم تھی اور تمام اخبارات نے اسےصفحہ اوّل پر شائع کیا ،لیکن ڈان کےسوا کسی اخبار نےبھی اسےشہ سرخی کےساتھ شائع نہیں کیا۔ روزنامہ جنگ کراچی نےخبر کو پانچ کالمی سرخی کےساتھ شائع کیا۔ دی نیوز کراچی نے اسے تین کالمی سرخی کےساتھ رپورٹ کیا ہے۔ روزنامہ جسارت کراچی نےاسےچار کالمی سرخی کےلائق سمجھا۔ لیکن اس پر شہ سرخی صرف روزنامہ ڈان نےلگائی۔ حالانکہ انگریزی اخبارات بالخصوص ڈان اس طرح کی خبروں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اہم بات یہ ہےکہ ڈان خبر کو شہ سرخی کے ذریعے میزائل بنا کر نہیں رہ گیا، اس نے اپنے سنجیدہ مزاج کےبرعکس سرخی کےالفاظ بھی چیختے چنگھاڑتے منتخب کیے ہیں۔ ڈان کی شہ سرخی یہ تھی:
"Yet another shrine comes under attack”
اس سرخی کے ذریعے رپورٹر نے صرف واقعے کو رپورٹ نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے قاری کو یاد دلایا ہےکہ مزارات پر مسلسل حملے ہورہےہیں اور بابا فرید کےمزار پر حملہ اسی سلسلےکی تازہ ترین کڑی ہے۔ تجزیہ کیا جائےتو اس سرخی میں زرد صحافت کرنے والےاخبارات کی طرح کی سنسنی خیزی ہے اور کسی انگریزی اخبار کیا قومی نوعیت کے اردو اخبار سے بھی اس طرح کی سنسنی خیزی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
اس طرح کی خبر تحریر کرنے کا اصولی اور کلاسیکل طریقہ یہ ہےکہ خبر کا ایک جامع ابتدائیہ لکھا جائےجس میں خبر کےتمام اہم پہلوئوں کا احاطہ ہوجائے، اور پھر متن میں ابتدایئے کی تفصیلات دےدی جائیں۔ ڈان میں اکثر خبریں اسی طرح تحریر ہوتی ہیں، مگر زیر بحث خبر اس طریقےسے نہیں لکھی گئی۔ خبر کا ابتدائیہ ختم ہوا تو رپورٹر نے اپنےقارئین کو یاد دلانا ضروری سمجھاکہ یہ گزشتہ چار ماہ میں ہونے والا اس نوعیت کا تیسرا اور 2007ء سے اب تک ہونے والا پانچواں واقعہ ہے۔ رپورٹر چاہتا تو یہاں بات ختم کرکے ابتدایئےکی تفصیلات بیان کرتا، مگر اُس نےاس کےبعد مزارات پر ہونے والےتینوں حملوں کی تفصیلات تحریر کرڈالیں۔ بلاشبہ خبر میں اس طرح کی تفصیلات دی جاتی ہیں مگر خبر کے آخر میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خبر ”مثلثِ معکوس“ یا Inverted Pyramid کےاصول پر تحریر کی جاتی ہے۔ یعنی خبر کی سب سے اہم بات سب سے پہلےتحریر کی جاتی ہےاور پھر اہمیت کےاعتبار سےدوسری باتیں۔ لیکن ملک کےسب سےبڑی، سب سےاہم، سب سےسنجیدہ اخبار کا رپورٹر یہ خبر فائل کرتےہوئےخبر تحریر کرنےکےاصول کو یکسر بھول گیا۔ اِس سلسلےمیں اُس کی ساری دلچسپی یہ نظرآئی کہ اس کےقارئین خبر کی ابتداء ہی سے یہ باور کرلیں کہ دھماکا یقینا طالبان نےکیا ہےجو خون آشام ہیں، درندےہیں، مزارات کےدشمن ہیں، ان پر جانے والوں کو کافر سمجھتےہیں۔ تو کیا طالبان نے بم دھماکےکی ذمےداری قبول کی ہے؟ اس حوالےسے ڈان کے رپورٹر نےجو کچھ لکھا ہےاسے پڑھ کر بیک وقت رویا بھی جاسکتا ہےاور ہنسا بھی جاسکتا ہے۔ ڈان کےرپورٹر نےلکھا ہے:
"No one claimed responsibility for attack, but in the past Taliban militants have been blamed for such attacks.”
(ترجمہ) ”کسی نےحملےکی ذمےداری قبول نہیں کی تاہم ماضی میں طالبان کےجنگجوئوں پر اس طرح کےحملوں کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔“
تجزیہ کیا جائےتو ڈان کےرپورٹر نےالزام کو ”امر واقع“ کےانداز میں رپورٹ کرڈالا۔ پاکستان میں رائےعامہ کےدرجنوں رہنما کہہ رہےہیں کہ پاکستان میں جتنے بم دھماکے ہورہےہیں ان میں امریکا اور اس کےادارےملوث ہیں، مگر ہم نےڈان کی کسی خبر میں آج تک یہ نہیں پڑھا کہ ماضی میں اس طرح کے واقعات کا الزام امریکا پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔ ویسےخالص خبر یا Hard news میں کہیں بھی الزامات کا ذکر نہیں ہوتا۔ خبر میں الزام کا حوالہ آتا بھی ہےتو الزام لگانےوالےکا نام ساتھ لکھا جاتا ہے۔ ایسا اس لیےکیا جاتا ہےکہ الزام کا الزام اخبار کےبجائےالزام لگانےوالےکے سر جائے۔ لیکن ڈان کے رپورٹر کو طالبان سے ایسی نفرت ہےکہ اس نےیہ بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ ماضی میں طالبان پر بم دھماکےکرنےکا الزام کون عائد کرتا رہا ہے؟ اگر یہاں یہ فرض کرلیا جائےکہ رپورٹر کا اشارہ حکومت کی طرف ہوگا، تو حکومت کےالزامات کا یہ حال ہےکہ وزیر داخلہ رحمن ملک نےعبداللہ شاہ غازی کےمزار پر حملہ کرنےوالوں کےنام جاری کیےمگر ایک دن بعد ہی معلوم ہوگیا کہ دونوں خودکش بمبار ”زندہ “ ہیں۔
ڈان کے رپورٹر کو داد دینی چاہیےکہ اس نےخودساختہ مذہبی انتہا پسندوں یا طالبان کا تعاقب خبر کی آخری سطروں تک کیا۔ خبر کی آخری سطروں کا ترجمہ یہ ہے:
”کہا جاتا ہےکہ پاک پتن میں واقع (بابا فرید کا) مزار لاہور کے داتا دربار کےبعد ملک کا مقدس ترین مزار ہے۔“
یہاں سوال یہ ہےکہ ان سطروں میں ”داد کےقابل“ بات کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہےکہ خبر میں صوفیائےکرام کےمزارات کو Revered یعنی ”مقدس“ قرار دیا گیا ہے۔ یہ بجائےخود قابلِ اعتراض بات نہیں لیکن ڈان اپنے سیکولر کردار کےباعث مسلمانوں کےقبلہ اوّل کو بھی مقدس قرار نہیں دیتا۔ وہ فلسطینیوں کی جدوجہد کو قومی، سیاسی اور سیکولر جدوجہد باور کراتا رہا ہے، لیکن طالبان کےخلاف عوامی جذبات کو ابھارنے کےلیے اسے صوفیائےکرام کے مزارات میں بھی ”تقدس“ نظر آنےلگا ہے۔
امریکا نےخلیج کی پہلی جنگ ذرائع ابلاغ کی مدد سےلڑی اور جیتی تھی۔ وہ افغانستان کےخلاف جارحیت میں بھی ذرائع ابلاغ کی مدد سےکامیاب ہونا چاہتا ہے۔ لیکن ان دونوں مثالوں کا فرق یہ ہےکہ خلیج کی پہلی جنگ امریکا نے اپنےذرائع ابلاغ کی مدد سےجیتی تھی لیکن افغانستان کی جنگ میں مقامی ”سیکولر مجاہدوں“ کا کردار اہم ہے۔ مالکان اور صحافیوں کی صورت میں یہ سیکولر مجاہد اخبارات اور جرائد میں موجود ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی چینلوں میں موجود ہیں۔ امریکا کی طرح اس کےسیکولر مجاہدوں کو بھی معلوم ہےکہ امریکا افغانستان سے شکست کھا کر نکلےگا تو تاریخ بدل کر رہ جائےگی، چنانچہ وہ ایک ایک خبر اور ایک ایک تجزیے پہ جان لڑا رہےہیں۔