Articles

آئینہ تصویر

In پاکستان, دہشت گردی on نومبر 6, 2010 by ابو سعد

پروفیسر عنایت علی خان نے عمران خان کے بارے میں کہا تھا
کیچ مس ہو یہ تو ممکن ہی نہیں
تم تو مس کو بھی کیچ کرتے ہو
یہ اُس وقت کہا گیا تھا جب عمران خان دنیائے کرکٹ میں شہرت کی بلندیوں پر تھے اور لندن میں جاکر جمائما سے میچ فکس کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ بعد میں کیچ مس ہوگیا۔ عمران خان سیاست میں آئے تو ہر موقع کو کیچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اب تک کرکٹ کی فضا سے باہر نہ آسکے۔
2 اپریل 2010ءکو انہیں ایک اور موقع ملا کہ وہ جامعہ پنجاب کے پروفیسر افتخار حسین بلوچ کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بہانے اپنی چوٹیں سہلا سکیں۔ کچھ دن پہلے ہی انہوں نے جب جامعہ پنجاب میں سیاست کرنے کی کوشش کی تھی تو اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ لڑکوں نے انہیں باہر کا راستہ دکھاتے ہوئے دھکے دیے تھے۔ عمران خان کو بدلہ لینے کا موقع مل گیا۔ جامعہ پنجاب میں اپنے کردار کے حوالے سے ”شہرت یافتہ“ پروفیسر ڈاکٹر افتخار بلوچ کو جمعیت کے کچھ لڑکوں نے اپنے طور پر نامناسب حرکتوں سے باز رکھنے کی کوشش کی اور افتخار بلوچ زخمی ہوگئے تو عمران خان فوراً اس شخص کے لیے گلدستہ لے کر پہنچ گئے جس پر گلوں کو مسلنے کا الزام ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر تصویر میں دائیں طرف اور عمران خان کے بائیں بازو سے لگا ہوا جو نوجوان حافظ فرحت کھڑا ہوا ہے یہ ہیلی کالج کا طالب علم ہے اور اسے جمعیت نے عمران خان پر حملے میں ملوث ہونے پر جمعیت سے خارج کردیا تھا۔ حافظ فرحت فوراً ہی عمران خان کے طلبہ ونگ انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں چلا گیا اور گلدستہ آگے بڑھانے میں عمران خان کا ہاتھ بٹا رہا ہے۔ انہی ہاتھوں سے عمران خان کو دھکا دیا گیا تھا لیکن عمران خان تو عرصے سے کوچہ سیاست میں دھکے کھا رہے ہیں۔
اس موقع پر عمران خان جمعیت پر خوب گرجے برسے اور کہا کہ جمعیت کے دہشت گردوں کے کھلے عام دندنانے کی سب سے بڑی ذمہ داری وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب پر عائد ہوتی ہے جن کی ناک تلے دہشت گردوں نے پنجاب یونیورسٹی کو یرغمال بنا رکھا ہے، جو معاشرہ استاد کی عزت و احترام نہیں کرتا وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا‘ تحریکِ انصاف اور انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن استاد کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور عمران خان افتخار بلوچ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن اب وہ کیا کہیں گے؟ جمعیت کا الزام تھا کہ افتخار بلوچ بدکردار ہے۔ اساتذہ کا احترام لازمی، لیکن جو استاد اپنے کمرے میں طالبات کو بلا کر ان کا ”احترام“ کریں کیا وہ بھی عمران خان کے نزدیک معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کررہے ہیں؟ اب کیا عمران خان گلدستے لے کر ان خواتین کے پاس جائیں گے جن کی اس نام نہاد استاد نے عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے؟ کیا وہ بتائیں گے کہ اصل دہشت گرد کون ہے؟ ممکن ہے ان کے علم میں یہ بات اب تک نہ آئی ہو کہ ان کے ممدوح پروفیسر پر پولیس نے ایک طالبہ اور اس کے شعبہ کی ایک خاتون ایڈمنسٹریٹر کو جنسی طور پر ہراساں کرنے پر مقدمہ درج کرلیا ہے۔ یہ گزشتہ پیر ہی کی بات ہے۔ چاہیں تو تھانہ مسلم ٹاﺅن میں مقدمہ زیر دفعہ 511 پاکستان پینل کوڈ کی تفصیلات معلوم کرلیں۔ پولیس کے مطابق اس ”قابل احترام“ پروفیسر نے ان خواتین کو اپنے کمرے میں بلا کر ان کی عزت لوٹنے کی کوشش کی، اور کمرہ بھی کیسا! موصوف نے وائس چانسلر کی آشیرواد سے اپنے آفس کے برابر میں ریٹائرنگ روم سجا رکھا ہے جس میں ایک بستر‘ ایک صوفہ کم بیڈ اور دو تکیے موجود ہیں۔ وائس چانسلر صاحب پہلے تو افتخار بلوچ کے ساتھ کھڑے تھے اور جامعہ پنجاب سے جمعیت کا صفایا کرنے کے دعوے کررہے تھے‘ اب تسلیم کررہے ہیں کہ یہ جامعہ کی تاریخ کا تاریک ترین دن ہے۔ جامعہ کی تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق افتخار بلوچ خطا کار ثابت ہوگئے ہیں۔ ایس پی روبل اکرام کا کہنا ہے کہ شروع میں انتظامیہ نے تاخیری حربے استعمال کیے مگر اب حقائق سے پردہ اٹھادیا ہے اور وائس چانسلر مجاہد کامران تک نے کہا ہے کہ افتخار بلوچ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ افتخار بلوچ ہتھ چھٹ مشہور ہیں اور انہوں نے اپنی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے تین ہفتے تک جامعہ پنجاب میں تدریس نہیں ہونے دی۔ افتخار بلوچ کی کئی کہانیاں جامعہ میں مشہور ہیں۔ ان کی اہلیہ رخسانہ تک نے ان کے خلاف وائس چانسلر کو درخواست دے رکھی ہے۔ افتخار بلوچ کی حرکتوں سے تنگ آکر تین کنٹریکٹ معلمات ملازمت چھوڑ چکی ہیں۔ پروفیسر صاحب تو کیفرکردار کو پہنچ جائیں گے لیکن ہمارا سوال اپنے کرکٹ کے ہیرو اور ”انصاف“ کے مبلغ سے ہے کہ اب وہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں، اور کیا ایسے ہی استاد ان کے نزدیک احترام کے مستحق ہیں؟ کیا وہ گلدستہ لے کر شیبہ گل کے پاس بھی جائیں گے؟
 

41 Responses to “آئینہ تصویر”

  1. ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد بار بار مجھے ان لوگوں پر ترس آتا رہا جو گلے پھاڑ پھاڑ کر جمعیت کو گالیاں دیتے رہے۔ جمعیت نے عمران پر حملہ کے ذمہ دار کے خلاف تنظیمی کاروائی کی ۔عمران نے اسے گلے سے لگا لیا۔ اب جو لوگ جمعیت کو مغلظات بک بک کر اپنا منوں تھوک ضائع کر کے ڈی ہائڈریٹ ہو چکے ان کا کیا ہوگا۔ان میں سے کچھ تو واقعی شریف اور سمجھ دار لوگ بھی تھے۔ اور افتخار بلوچ کے یونیورسٹی میں بستر اور اس پر تعلیم کے حق میں نہیں تھے۔ محض جمعیت سے اختلاف رکھتے تھے اور موقع جان کر جمعیت پر لفظی حملے کر رہے تھے۔ جو کہ کوئی خاس بات نہیں۔اللہ ایسے لوگوں کی بیٹیوں کو افتخار بلوچ اور ان کے سرپرستوں سے بچائے اور طالبات کے لئے رحمت جمعیت کو قائم و دئم رکھے۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر وللہ الحمد

  2. Khan sahab ki ko is baat par tawajun deni chahiye aur dekhna chahiye keh woh kon say loug that jinhoon ny Unhain jamiah Punjab main Jmiat kay khilaf Uksaya
    Baqi khan sahab ki siyasat kamazkam Baqi logon say behtar hay .

  3. ہاے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا….

  4. Everyone makes mistakes.
    Please cut Imran Khan some slack.
    He is one of the few sincere politicians we have.

    If people start counting JI’s errors, you will be needing a lot of replying to do.

  5. گویا جمیعت کو ریاست کے متوازی اپنا نظام عدل پنجاب یونیورسٹی میں بنانے کی اجازت ہونی چاہئیے۔ پھت جماعت اسلامہ کراچی میں کیوں شور مچاتی ہے کہ کراچی کو ایم کیو ایم نے یرغمال بنایا ہوا ہے وہ اس پہ اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ اور اگر جمیعت میں قانون نافذ کرنے اور لووگوں کے اخلاق سدھارنے کی اور بداخلاقوں کو انجام تک پہنچانے کی اتنی ہی صلاحیت ہے تو پنجاب سے پولیس اور عدالتی نظام ختم کر کے انہی اعلی کردار کے حامل نوجوانوں کو انتظام دے دینا چاہئیے۔

  6. حضرت! مضمون میں لکھنے میں کچھ زیادہ ہی تاخیر نہیں ہو گئی ؟

  7. انیقہ جی آپ کے تبصرے پر میں کیا تبصرہ کروں بس یہ کہوں گا کہ اللہ کبھی کسی افتخار بلوچ سے آپ کا واسطہ کرائے۔

  8. ابو سعد خان، جب میں زیر تعلیم تھی جب بھی پنجاب یونیورسٹی میں جمعیے کی اسی طرح کی داستانیں مشہور تھیں اور اب جب مجھے اس دور سے نکلے بھی عرصہ ہو چلا۔ جمیعیت کی داستانیں جاری ہیں۔
    یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں کیا واقعی بے راہروی اور بد اخلاقی اتنی بڑھی ہوئ ہے کہ اتنے سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور اسے جمیعت کے نوجوان سنبھالتے ہیں۔ مگر پھر بھی ان میں کوئ کمی واقع نہیں ہوتی۔ کیونکہ کراچی یونیورسٹی میں ایسے واقعات شاذ ہی سننے میں آتے ہیں اور جب کبھی سنائ دئیے انکو یونیورسٹی انتظامیہ یا پولیس سنبھالتی ہے۔
    کیا وجہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں اتنی زیادہ اخلاقی بے راہ روی پھیلی ہوئ ہے جس میں استاد سے لےکر طالب علم ہر ایک شامل ہے۔ کیا پنجاب کا عام کلچر بھی یہی ہے۔ یعنی اخلاقی بے راہ روی۔ یونیورسٹی سے باہر ان واقعات کی روک تھام کے لئے جمیعت کی خدمات حاص کی جاتی ہیں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی۔
    اور یہ جو آپ اس طح لکھ دیتے ہیں کہ آپکا سامنا بھی ہو تو جناب یہ قطعی غیر پیشہ ورانہ جواب ہے۔ یہ جواب آپکو اس وقت بھی یاد آنا چاہئیے جب مختاراں مائ جیسے واقعتا ہوتے ہیں یا جب خواتین کو برہنہ پھرایا جاتا ہے۔ کیا مجھے اس وقت یہ کہنا چاہئیے کہ یہ آپکے گھر کی خواتین کے ساتھ ہو تو آپکو پتہ چلے۔ میرا ایسا کوئ جواب انتہائ گھٹیا جواب قرار پائے گا۔
    ایک ریاست کے قوانین ریاست کی انتظامیہ بناتیہے۔ ایسا ہونا کتنا درست ہے کہ ایک یونیورسٹی میں ایک سیاسی جماعت کو مستقل طور پہ ٹھیکے دار بنا کر اسے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دی جائے۔ اور لوگوں کو یہ تک نہ پتہ ہو کہ الزام صحیح تھا یا غلط۔ پھر آپ کس منہ سے ملک میں قانون کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں۔ اس پہ بھی آپکو کچھ سوچنا چاہئیے۔

  9. انیقہ جی میں اپنی بات پر قائم ہوں اور جی اگر کوئی کہے کہ مختاراں مائی کے ساتھ بالکل ٹھیک ہوا تو میں ضرور کہوں گا اور کہنے والے سے بار بار کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی بہن بیٹیوں کا وہ سب کچھ دکھا دے جو مختاراں مائی دیکھ چکی ہیں۔

    انیقہ جی جہاں تک میں جانتا ہوں تو آپ کا تعلق کراچی سے ہے ۔ اگرآپ جامعہ کراچی کی طالبہ نہیں رہی ہیں تب بھی آپ جامعہ کے بارے میں کافی کچھ جانتی ہوں گی۔ یہ مسئلہ صرف پنجاب یونیورسٹی تک محدود نہیں ہے جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کے ایک استاد نے ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی کی اور مجھے کچھ صحافی دوستوں کے ساتھ اس طالبہ کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ بہت ہی کرب کا ماحول تھا۔ کاش وہ والدہ راضی ہوجاتی تو وہ استاد بھی آج جامعہ کراچی میں نہ ہوتا۔ موصوف وہیں پڑھاتا ہے اور استاد کہلاتا ہے۔ شعبہ اردو کے دو استاتذہ قابل اعتراض حالت میں پکڑے جاچکے ہیں ‘جبکہ شعبہ سیاسیات ، معاشیات ، شیخ زید اسلامک سینٹر اور ابلاغ عامہ کے کئی مرد اساتذہ کے علاوہ آرٹس فیکلٹی کی ایک خاتون استاد کے قصے بھی مشہور ہے۔ یہ لوگ اس وقت بھی استاد کہلاتے ہیں وجہ یہ ہے کہ جس کو آپ کا معاشرہ اور کورٹ ثبوت مانتا ہے وہ موجود نہیں۔

    میں نے گریجویشن تک کی تعلیم مردان کے ایک کالج سے حاصل کی ہے اور جب میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو میری رائے اساتذہ کے بارے میں تبدیل ہوگئی۔ اب میں ہر لیکچرر، پروفیسر کو استاد نہیں سمجھتا لیکن اس کو بھی استاد سمجھتا ہوں جس سے دو لفظ سیکھے ہیں اور کردار بے داغ ہے۔

    جہاں تک تعلق اس آئینہ تصویر کا ہے تو اس میں عمران خان کے لیے ایک نصیحت ہے اور اس پر مثبت تنقید بھی۔ جو لڑکا گلدستہ پیش کررہا ہے ، عمران کے ساتھ ، بدکار افتخار بلوچ کو‘ یہ وہی لڑکا ہے جو عمران خان کو مارنے میں آگے آگے تھا اور اسی جرم میں جمیعت سے نکالا جاچکا ہے۔ کیا اس کی مزید وضاحت بھی ضروری ہے؟

  10. ایک ریاست کے قوانین ریاست کی انتظامیہ بناتیہے۔ ایسا ہونا کتنا درست ہے کہ ایک یونیورسٹی میں ایک سیاسی جماعت کو مستقل طور پہ ٹھیکے دار بنا کر اسے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دی جائے۔ اور لوگوں کو یہ تک نہ پتہ ہو کہ الزام صحیح تھا یا غلط۔ پھر آپ کس منہ سے ملک میں قانون کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں۔ اس پہ بھی آپکو کچھ سوچنا چاہئیے __________________________________________________________________
    یہ حقوق نسواں اس وقت کہاں جا کر سو جاتے ہیں جب دینی طبقہ نہ صرف داد رسی کے لیے آتا ہے بلکہ ہر اس راستے کو بند کرتا ہے جہاں سے عورت کی عفت وعصمت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے.اس وقت کے لیے دوسرا ایجنڈا نمودار ہو جاتا ہے اور وہ ہے قانون کی حکمرانی.

  11. یہ جو داستانیں تم نے اوپر سنائی ہیں ایسی داستانیں تو یہود و نصاری کی مذہبی کتابوں میں بھی انبیاء اور پیغمبروں کے متعلق موجود ہیں تو کیا انہیں سچ مان لیا جائے؟؟؟
    یہ مردان سے گریجویشن کرنے کے بعد اعلی تعلیم تم نے وہیں کے پاک وصاف ماحول میں کیوں نہیں حاصل کی کراچی جیسے ناپاک شہر میں آنے کی کیا ضرورت پڑ گئی؟؟؟

  12. عبداللہ صاحب یہ سوچ اب چھوڑ دیں ، کراچی ،کراچی . کوئی پاکستانی کسی بھی شہر میں جائے جہاں چاہے بسے ، کاروبار کرے ، روزگار کرے یہ اس کا حق ہے ۔ اور معذرت کے ساتھ الطاف ھسین کی باقیات تو اس شہر کا نام کم از کم نہ لیں، یہ پرسکون شہر اس بے ہودہ آدمی کی بے ہودہ پارٹی کی بدولت ہی جہنم بنا ہے۔

    • اس پرسکوں شہر کو برباد کرنے والوں کی خبروں سے اخبارات بھرے ہوئے ہیں اب کچھ لوگوں کی چربی چڑھی آنکھوں کو نظر نہ آئیں تو اور بات ہے،
      آج سی آئی ڈی سینٹر میں دھماکہ ان ہی خبیثوں کی دہشت گردانہ کاروائی تھی جن کے عشق میں تم دبلے ہورہے ہو
      http://www.voanews.com/urdu/news/karachi-blast-police-crime-11november10-107246763.html

      • ہمارے لئے یہ طوطا کہانی کوئی نئی نہیں ہے پچھلے سال عاشورہ کے جلوس میں بم دھماکے کے بعد بھی یہی کچھ ہوا تھا ؟ اور تو اور طالبان کے کسی نمائندے نے اس مبینہ خود کش دھماکے کی زمہ داری قبول بھی کر لی تھی. بھلا ہو تحقیقاتی صحافت کا جس نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ پلانٹد بم تھا اور ساری کہانی ہی تبدیل ہو گئی. کیونکہ فوری طور پر یہ سوال اٹھا کہ جب اس علاقے کو ٤٨ گھنٹے پہلے بند کر دیا گیا تھا تو بم کس نے اور کیسے لگایا؟
        سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد میں جہاں آپ ایک گن نہیں لے جاسکتے تو ١٠٠٠ کلو گرام بارود سے بھرا ٹرک کیسے چلا گیا. یہ سوال اب بھی کیا جائے گا کہ یہ ١٠٠٠ کلو گرام وزنی بارودی ٹرک کیسے شہر کے اس حسساس علاقے میں چلا گیا ؟
        سب سے بنیادی سوال بنیاد پرست کا یہ ہے کہ کیا ہزار کلو بارود بنانے والی فیکٹری کراچی کے اریب قریب کیسے کسی کی نظر میں آئے بغیر کم کر رہی ہے؟ اتنا تو طالبان کسی قبائلی علاقے میں آزاد نہیں ہیں اب یہ نہیں فرمایے گا کے یہ ١٠٠٠ کلو بارود نسوار کی ڈبیا میں ١٠٠٠ کلو میٹر دور لیا گیا ہے.

      • خوب حضرت تو آپکا فرمانا یہ ہے کہ یہ دھماکے آپکے چہیتے دہشت گردوں نے نہیں بلکہ حکومت نے کروائے ہیں واقعی عقل کے اندھوں سے ہر بات کی توقع کی جاسکتی ہے،
        جوکھلم کھلا دہشت گردی کررہے ہیں وہ تو جناب کی نظر مین معصوم ہیں اور جو شہر کی تعمیر و ترقی میں دن رات جتے رہیں وہ دہشت گرد ہیں،
        پاگلوں کی جگہ پاگل خانہ ہوتی ہے تم لوگوں کو کسی نے بتایا نہیں ہے ؟؟؟؟

      • میں نے تو ایک سوال کیا ہے ؟ کسی پر الزام نہیں لگایا. کیا ہی مناسب ہوتا کہ آپ بجائے میری دماغی صحت کا سرٹیفیکٹ دینے کے مرے سوال کا جواب دے دیتے.

      • کیونکہ فوری طور پر یہ سوال اٹھا کہ جب اس علاقے کو ٤٨ گھنٹے پہلے بند کر دیا گیا تھا تو بم کس نے اور کیسے لگایا؟
        اس کا جواب ہے دین کے نام پر خراب کیئے ہوئے ذہن فوج میں بھی ہیں اور پولس و ایجینسیوں میں بھی جو اپنے گھر میں حقوق العباد تو ادا نہیں کریں گے مگر دہشتگردوں کی مدد کر کے جنت کمانے کا خواب ضرور رکھتے ہیں،اور پھر جب جنت کے ساتھ ساتھ دنیا کی دولت بھی مل رہی ہو تو یہ سودا کچھ مہنگا نہیں لگتا کرپٹ لوگوں کو۔۔۔۔۔

      • http://www.bbc.co.uk/urdu/columns/2010/11/101112_hanif_mullah_general_aw.shtml

        یہ کالم ان کی اور تم جیسوں کی ذہنیتوں کی بہت اچھی عکاسی کرتا ہے!

  13. ڈاکٹر صاحب کا تبصرہ میرے تبصرے کے جس حصے سے متعلق تھا وہ میں نے ایڈیٹ کرلیا ، اس لیے ڈاکٹر کا تبصرہ بھی ہٹا دیا۔
    اور ثابت ہوگیا پٹھان کرنے کے بعد سوچتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے یہاں معاملہ وہ والا نہیں کہ بندوق سے نکلی گولی اور منہ سے نکلی بات واپس نہیں آسکتی۔ بلاگ پر اپنی بات واپس لی جاسکتی ہے۔
    شکریہ: ابوسعد خان
    بلاگ ایڈمن

  14. عمران خان اپنی پارٹی کو وسعت دینے کے لئے شائد “بھکاری کے لئے بھیک، جتنی اور جیسی ملے اتنی ٹھیک” کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔ اس لئے حافظ فرحت اور افتخار بلوچ کی پذیرائی اتنی اچھمبے کی بات نہیں۔
    موصوف اہداف مرتب کرتے ہوئے بالکل جماعت۔اسلامی طرح صرف زبانی جمع خرچ کے لئے ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ کسی جامع اور دانشمندانہ لائحہ عمل کی عدم موجودگی میں تقاریر کے سوا کسی قسم کی پیش رفت کے مجاز نہیں ہوتے۔

    غلطی ہر بشر سے ہوتی ہے۔ اور جماعت اسلامی بھی خاصی سنگین غلطیوں کی مرتکب ہے۔ مگراس کا ہرگز یہ مطلب نییں کہ غلطیوں کی پردہ پوشی کی جائے۔

    انیقہ کا نقطہ نظر گو راقم سے کچھ مختلف نہیں مگر اس پر جس قسم کا جواب تحریر ہوا اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں برداشت کا مادہ ناپید ہوگیا ہے۔ خدا نہ کرے کہ میرے عرض پاک کی کسی بہن بیٹی کا واسطہ کسی خبیس سے پڑےاور اللہ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔

    رہی بات عصبیت کی تومیرا خیال ہے کے سعد کے ابا اور اللہ کے پندے دونوں کو یہ بحث زیب نہیں دیتی۔ کیا ہم اب بھی اس عفریت کا ترنوالہ بنتے رہیں گے?

    • مجھے تو یہ بحث زیب دیتی ہے کیونکہ کراچی جس طرح ان حضرت کا شہر ہے مردان اس طرح میرا شہر نہیں ہے،آخر کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟

      • حضرت کبھی آپ کراچی سے باہر نکلیں تو آپکو پتا چلے گا کہ کیا آپکا ہے اور کیا نہیں ہے؟

      • میں کراچی سے باہر اتنا گیا ہوں کہ کچھ کوئیں کے مینڈکوں نے صرف خواب میں ہی سوچا ہوگا!
        پنجاب، سندھ،سرحد کے تمام بڑے شہر میرے گھومے ہوئے ہیں اور لوگوں میں موجود تعصب بھی خوب دیکھا ہوا ہے،
        سیدھی بات کا سیدھا جواب دینے کے بجائے گھماپھرا کر جواب دینا جماعتیوں کی پرانی عادت ہے!!!!

      • ب دماغ میں تعصب بھرا ہوا ہو تو ہر چیز میں تعصب ہی نظر آتا ہے. میں لاڑکانہ ١٩٨٩ میں ہم ١٢ افراد ڈرتے ڈرتے گئے تھے. یہ وہ وقت تھا جب سندھی مہاجر تناؤ عروج پر تھا. لاڑکانہ کی دیواروں پر پاکستان، پنجاب اور مہاجروں کے خلاف نعرے ہر جگہ لکھے ہوۓ تھے. ایسا لگتا تھا کہ میں سندھ کے ایک شہر کی بجائے سندھو دیش میں گھوم رہے ہوں. لیکن جب ایک جگه چاے پینے کے لیے ہوٹل میں گیا تو ایک خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا چائے پینے کے بعد جب کاونٹر پربل دینے گیا تو ریستوران کے ملک نے چائے کے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور بڑی محبت سے کہا کے سائیں آپ لوگ مہمان ہو. ہم آپ سے پیسے نہیں لے سکتے.بعد میں احساس ہوا کہ قوم پرستوں کا ایجنڈا چاہے کچھ بھی ہو عوام الناس میں ابھی بھی وہ زہریلا پن نہیں ہے جس کا آپ مظاہرہ کر رہے ہیں.
        دنیا کہیں آگے بڑھ چکی ہے اور ہم وہیں تعصب کی اندھیری گلی میں ٹامک ٹویاں مار رہے ہیں.
        خدارا آپ اپنی توانائیوں کو اتنی تھوڑی سی زندگی میں اس طرح کے منفی رجحان میں ضايع نہ کریں. اگر آپ سے کوئی غلط بات کرتا بھی ہے تو اسے نظر انداز کردیں .بہت سارے لوگوں پراس تاثر کا اطلاق نہ کیجیے . اچھے برے لوگ ہر جگه ہوتے ہیں.

      • صرف گھوم پھر کر آنا اور بات ہوتی ہے کچھ سال وہاں رہیئے پھر آپکو آٹے دال کا بھاؤ پتہ چلے گا!
        اور آپ کی جہالت کی ایک اور علامت یہ ہے کہ آپ مجھے تعصب میں مبتلا کہہ رہے ہیں!!!!
        جبکہ میں تو خود سب سے زیادہ تعصب سے نفرت کرتا ہوں،
        مگر ان منافقوں کی پول پٹیاں کھولنے سے نہیں گھبراتا جو دین کے نام پر تعصب کررہے ہوتے ہیں!!!

      • میں پھر یہی کہوں گا کہ زندگی کو نفرت ، غصّے اور منفی جذبات کے زیر اثر نہیں گزرنا چاہیے. نفرت کا جواب محبت سے دیا جاتے تو لوگوں کے درمیاں سے بد اعتمادی ختم ہو جاتی ہے. کبھی آپ سامنے والے کا نکتہ نظر سمجھنے کی بھی کوشش کریں. ہو سکتا ہے کہ دنیا میں ایک آپ ہی سچے اور معصوم و مظلوم نہ ہوں ، دوسرے بھی لوگ ہوں جو ایم کیو ایم کے ڈسے ہوۓ ہوں ؟ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جسے آپ عصبیت سمجھ رہے ہیں وہ ایک عام چلن ہو .
        میں گزشتہ ٩ سال سے سعودیہ میں ہوں. جب میں پہلی بار آیا تو بری طرح بوکھلا گیا تھا. میرا خیال تھا کہ کے سعودی دنیا کی سب سے زیادہ متعصب قوم ہے. لیکن بعد میں احساس ہوا کہ یہاں کا کلچر ہی کچھ ایسا ہے لوگ بظاہر خشک اور روکھے پھیکے نظر آتے ہیں لیکن بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ یہی لوگ آپ کی وہاں مدد کرتے ہیں جہاں کوئی دوسرا آپکی مدد نہیں کر سکتا.
        میرا خیال ہے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ سکتا. میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں کہ میں نے دنیا کی بہت ساری قومیں دیکھی ہیں بہت سارے لوگوں کو قریب سے دیکھا ہے. میرا خیال ہی نہیں یقین ہے کہ عام پاکستانی ابھی تک دوستی، لحاظ ، مروت ،شرم و حیا اور ایثار میں بہت سارے لوگوں سے آگے ہے. سعودیہ میں خود کو جتنا قریب ایک پنجابی یا پٹھان کے قریب محسوس کرتا ہوں اتنا ایک اردو بولنے والے انڈین کے قریب نہیں محسوس کر پاتا. آپ پاکستان کے کئی شہروں میں رہے ہونگے لیکن میں ایک بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ پاکستان کو سمجھنا ہے تو پاکستان سے باہر غریب الوطنی میں رہیے آپکو خود پتہ چل جیے گا کہ یہ ملک اور اسکے لوگ کتنے قیمتی ہیں .

  15. "انیقہ کا نقطہ نظر گو راقم سے کچھ مختلف نہیں مگر اس پر جس قسم کا جواب تحریر ہوا اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں برداشت کا مادہ ناپید ہوگیا ہے۔ خدا نہ کرے کہ میرے عرض پاک کی کسی بہن بیٹی کا واسطہ کسی خبیس سے پڑےاور اللہ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔”
    ____________________________________________________________________________

    مین !
    تو گویا آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ جو کچھ افتخار بلوچ کے ساتھ ہوا وہ صحیح تھا؟ کیونکہ عدالت سے تو اس قسم کے جرائم پر سزا دلانا تقریباً نا ممکن سا ہوتا ہے.
    رہی بات جماعت اسلامی کی "جامع اور دانشمندانہ لائحہ عمل کی عدم موجودگی” اور صرف "زبانی جمع خرچ” کی تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ان چیزوں کی تھوڑی وضاحت ہی فرما دیتے. کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے کریڈٹ پر بہت کچھ ہے آپ چاہے کچھ بھی کہیں مگر یہ نہیں کہ سکتے کہ جماعت اسلامی نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا

  16. میں بنیاد پرست صاحب کے بنیادی نکتہ سے اتفاق کرتا ہوں

  17. مجھے تو معاف ہی رکھیئے،مجھے پاگلوں کے ساتھ شامل ہونے کا کوئی شوق نہیں ہے!!!!!

    • ہماری دعوت پھر بھی آپ کے لیے قائم ہے. اور اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے آپکو کسی بھی تنظیم میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے . ہم تو آپکو دین کی طرف بلاتے ہیں . جب بھی فارغ وقت ملے تو اس سوال پر غور کر لیجیے گا کہ الله سبحانه تعاله نے آپکو کیوں تخلیق کیا ہے ؟ کیا اسکے کچھ مطالبات آپ سے ہیں یا نہیں ؟ کیا اس نے ہمیں اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہم پڑھ لکھہ کر کسی سرکاری یا نجی ادارے میں کام کر کر کے اپنی زندگیاں گزار دین ؟ یا دوسرے جانداروں کی طرح محض اپنی نسل بڑھاتے چلے جائیں؟ اس بارے میں ضرور سوچیے گا.

    • جس دین میں کسی کے مرنے پر خص کم جہاں پاک کہا جائے وہ بھی ایک ایسا شخص جس نے اپنی ذندگی دین کی تعلیم و ترویج میں گزاری ہو ایسا دین آپ ہی کو مبارک ہو
      اور کون دین پر کتنا عمل کررہا ہے اس کا علم سوائے اللہ کی ذات کے اور کسی کو نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہوا ہے!

  18. آپ دین کی تعبیر میں آزاد ہیں . آپ چاہیں تو سلمان رشدی کے مرنے پر اسکی غائبانہ نماز جنازہ ادا کریں اور اسکی مغفرت کی دعا کریں.قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر ملا اور مولوی پر غصّے کا اظہار کریں . مجھے تو قران اور حدیث سے کھیلنے اور دین کی من مانی تعبیر کرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے. میرا خیال نہیں بلکہ یقین کامل ہے کہ جاوید غامدی اور اس جیسے دوسرے لوگ وہ ظالم ٹھگ ہیں جو قرآن اور حدیث کے ساتھ ٹھگی کرتے ہیں. میں انکے مرنے پر منافقانہ سوگ کا اظہار نہیں کر سکتا. یہ روشن خیالی آپکو ہی مبارک ہو .

    • مجھے بھی آپ سے مغز ماری کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے،
      یہ کوئیں کے مینڈکوں والی سوچ جناب کو ہی مبارک ہو!!!
      کوئیں کے مینڈک نہ سدھرے ہیں نہ سدھریں گے!
      مجھے دنیا گھومنے کا مشورہ دینے والے حضرت آپکو تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں گھر سے باہر نکلے اور میری عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں۔۔۔۔۔۔

  19. Imran khan was just trying to take benefit from the moments as he always tries to do .
    So dont take it seriously.It is his regular practice

  20. سلام وعلیکم بھای صاحب یہ میرا ویب سایٹ ہے اس کو لنک کر کے اور اپنے دوستوں کو ارسال کر دو آپ کی مہربانی ہو گی جزاک اللہ
    http://www.daaljan.wordpress.com ۔

  21. انقلاب، تبدیلی یا بہتری کے متعلق ایک رائے میرے ایک دوست نے شئیر کی جس سے ممکن ہے آپ کو اختلاف ہو مگر پاکستانی یوں بھحی سوچتے ہیں http://www.thenewstribe.co.uk/beta/urdu/?p=5532

تبصرہ کریں