Archive for the ‘حقوق انسانی’ Category

Articles

اے این پی کے ہاتھوں پختون روایات کا قتل

In حقوق انسانی,دہشت گردی on اگست 23, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

یہ مضمون سچائی کے علمبردار لیکن پاکستانی عوام کے جانب دار واحد پاکستانی انگریزی روزنامے "فرنٹیر پوسٹ” کے لیے لکھا گیا تھا۔ فرنٹیر پوسٹ اس وقت ظلم و جبر اور کرپشن کے خلاف جہاد میں مصروف ہے ، اخبار نے گزشتہ دنوں کراچی کے حالات پر بہت ہی بے باک اداریے لکھے۔ میں نے ذرا نسبتا سخت تحریر لکھ کر اخبار کو ارسال کردی جو تاحال نہیں چھپ سکی ہے۔ اس لیے میں نے اسے اپنے انگریزی بلاگ پر پوسٹ کردیا اور اس کا اردو ترجمہ ضروری اضافے کے ساتھ روزنامہ جسارت کو ارسال کردیا جس نے اسے آج کے ادارتی صفحے پر جگہ دے دی ۔ بلاگرز دوستوں کے لیے مضمون یہاں پیش خدمت ہے جس میں  ایم کیوایم اور اے این پی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال پاکستانیوں کے مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
………………………………..
کراچی میں باچا خان کے پیروکاروں کے طرزعمل کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے سرحدی گاندھی کی اہنسا کی تعلیمات کو کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف صدیوں پر محیط پختون روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے بلکہ اپنی پارٹی کے بانی خان عبدالغفار خان عرف باچا خان کے نظریے کو بھی دفن کردیا ہے۔
کراچی کو اس وقت ٹارگٹ کلنگ کی بلا کا سامنا ہے جبکہ اس کے رہنے والے اس خونیں کھیل کے تین بنیادی کھلاڑیوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ شہر کے دعویداروں میں متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی شامل ہیں۔ جتنا بڑا دعوے دار، اہلِ کراچی کے لیے وہ اتنا ہی بڑا عذاب۔ ان تینوں گروہوں نے اس کو اپنا حق سمجھ لیا ہے کہ اپنے کسی رہنماءیا کارکن کی ہلاکت کا انتقام اس بدقسمت شہر کے باسیوں کو خون میں نہلاکر اور ان پر زندگیاں تنگ کرکے لیں۔ جب بھی کسی گروہ کا کوئی رہنما یا کارکن مرتا ہے، کراچی میں آگ و خون کا کھیل شروع ہوجاتا ہے جس میں بیش قیمت جانوں کے ضیاع کے علاوہ شہریوں کو ان کی گاڑیوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ کئی دنوں کی اذیت اور مرنے کا خوف اس کے علاوہ ہے۔ شہری ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں۔ موت کے رقص کی سنگینی کا ادراک رکھتے ہوئے دکاندار اپنی دکانوں کے شٹر گرانے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے، اور جو اس کے برعکس کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے۔ اسی طرح گاڑیاں چلانے والے بھی سڑک سے غائب ہوجانے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ جتنی بڑی شخصیت، اہلِ کراچی کے لیے اتنا بڑا امتحان۔ لیکن اس پر تو سب لکھ رہے ہیں۔ میں ان باتوں کو اُجاگر نہیں کرنا چاہتا جن پر باقی لوگ لکھ رہے ہوں۔ لوگوں کا مرنا افسوسناک تو ہے لیکن میرے نزدیک تشویش ناک نہیں۔
مجھے جو چیز ڈرا رہی ہے وہ مخالف پارٹی سے متعلق لسانی اکائی پر حملہ ہے جو الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کا وتیرہ رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے ممبر صوبائی اسمبلی رضا حیدر کی ہلاکت کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نے اس روایت کو زندہ رکھا اور پشتو زبان بولنے والے درجنوں معصوم پختونوں کو بے دردی سے قتل کردیا جن کا عوامی نیشنل پارٹی سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ ان میں اکثر مزدور تھے جو دن بھر مشقت کرکے اپنے اور گھر والوں کے پیٹ کا دوزخ بھرتے تھے، یا پھر گلی گلی کچرا چننے والے۔ حتیٰ کہ بچوں تک کو نہیں بخشا گیا۔
اب کی بار عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے سندھ کے سالار عبیداللہ یوسف زئی کی ہلاکت پر بالکل متحدہ کی دہشت گردی کا ایکشن ری پلے شہر کراچی والوں کو دکھایا اور اردو بولنے والوں کو بلاامتیاز ہراساں کرنا شروع کردیا۔ لسانی یا سیاسی دہشت گردی افسوسناک ہے لیکن ایک چیز اور بھی افسوس ناک ہے، اور وہ ہے اہنسا کی موت…. جو کبھی باچا خان کے منجن کا ٹریڈ مارک ہوا کرتا تھا۔
ایس شیخ ایک نجی ٹی وی چینل میں ملازمت کرتے ہیں۔ عبیداللہ کے قتل کے بعد وہ تین دن تک دفتر نہیں جاسکے، کیوں کہ آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع دفتر جانے کے لیے انہیں بنارس کے باچا خان چوک سے ہوکر گزرنا پڑتا۔ جی ہاں وہی چوک جہاں سے 2بچوں کے باپ آصف اقبال نے گزرنے کی جرا¿ت کی تھی اور نتیجتاً اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔آصف اقبال کو ہنگاموں کے دوران دو دن تک کمپنی نہ جانے پر برطرفی کا الٹی میٹم ملا تھا۔ اورنگی علی گڑھ کے رہائشی ایس شیخ آصف اقبال کی طرح نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ نہیں بننا چاہتے تھے اس لیے گھر پر ٹکے رہے۔ شیخ صاحب اگرچہ اردو بولنے والے ہیں لیکن وہ عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ایک قدر مشترک رکھتے ہیں۔ اے این پی کے کارکنوں کی طرح ایم کیو ایم سے ان کی نفرت کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ پختون روایات کے بہت بڑے مداح رہے ہیں، لیکن لوگوں کی حفاظت کے ضامن پختون آج شیخ صاحب جیسے لوگوں کی زندگیوں کے لیے بھی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ یقینا تمام پختون نہیں مگر وہ جو یا تو اے این پی کے کارکن ہیں یا پھر اس جماعت کے منفی پروپیگنڈے سے گمراہ ہوچکے ہیں۔
پختون ہونے کے ناتے میرے لیے لوگوں کی جانوں کو خطرہ تشویش ناک ہے اور اس سے بڑھ کر میرے لیے فکرکی بات وہ شاندار پختون روایات ہیں جن کی موت آج پختونوں کے حقوق کے عَلم برداروں کے ہاتھوں ہورہی ہے۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پختونوں اپنے گھر آئے اپنے دشمنوں کو بھی کبھی نقصان نہیں پہنچاتے چاہے وہ جان بوجھ کر وہاں سے گزرے ہوں یا خودچل کر آئے ہوں۔ پختون قوم نے کبھی معصوم لوگوں کو قتل نہیں کیا لیکن لینڈیا مافیا پرمشتمل عوامی نیشنل پارٹی سندھ یا تو پختون تاریخ بھول گئی ہے یا پھر ایم کیوایم کی طرف سے معصوم پختونوں کے بلاامتیاز قتل عام کے فلسفہ سے متاثر ہوئی ہے جس نے اردو اسپیکنگ علاقوں میں مزدوری کرنے والے پختونوں پر زندگی تنگ کردی ہے۔
اسی طرح اب اے این پی کے حامیوں نے اردو بولنے والوں کے لیے بنارس، کٹی پہاڑی ، قصبہ سمیت دیگر کئی علاقوں سے گزرنا دشوار کردیا ہے۔اے این پی رہنما کی ہلاکت کے فوراً بعد نیوز چینلز نے اسلحہ سے لوگوں کو خوف زدہ کرنے والے این اے پی کے کارکنوں کی فوٹیج دکھانا شروع کردیے۔ ایسے میںکون ان علاقوں سے گزرنے کی ہمت کرسکے گا؟جسارت کی خبر کے مطابق اورنگی ٹاﺅن کے لاکھوں افراد کی نوکریاں داﺅ پر لگی ہوئی ہیں۔
اور روزنامہ اُمت کے مطابق اورنگی ٹاﺅن میں لوگوں نے متحدہ اور اے این پی مخالف ریلی نکالی ہے جس پر پولیس لاٹھی چارج کے نتیجے میں 20افراد زخمی ہوئے ہیں۔ پختونوں کو بھی اپنے علاقوں میں پاکستانیوں کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے والے ان دہشت گردوں کے خلاف ریلی نکالنی چاہیے۔ عام لوگوں کے مرنے سے نفرت پھیلتی ہے اور اس طرح قوم پرست جماعتوں کو ایندھن فراہم ہوتی ہے۔ کچھ کو یہ کھیل سمجھ میں آگئی ہے باقیوں کو بھی نکل آنا چاہیے تاکہ کراچی میں نفرت اور تقسیم کی سیاست کو دفن کرکے اسے دوبارہ رشنیوں کا شہر بنایا جائے۔

Articles

شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

In فوج,حقوق انسانی,دہشت گردی on اگست 23, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

یہ مضمون "جسارت میگزین” کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے جس میں امریکی دلالوں کو ایکسپوز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مضمون کو گرافک ویو میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
………………………………………………………
 امریکی دوستی کے بھیانک نتائج
 سیلاب زدگان کی مدد میں امریکا رکاوٹ بن گیا
امریکیوں کو بچانے کے لیے جعفرآباد کو ڈبو دیا گیا
 شہباز ائر بیس پاکستانیوں کو بچانے کے لیے استعمال کرنے سے امریکیوں نے روک دیا

………………………………………………………

  سیلاب کی آمد کے ساتھ ہی قومی اخبارات میں شہ سرخیوںکے طور پر خبریں شائع ہونا شروع ہوگئی ہیں کہ امریکا سیلاب میں پھنسے ہوئے افراد کو نکالنے اور ان کی مالی مدد میں پیش پیش ہے۔ برسات میں تاریخی مقدار میں پانی برسنے کے بعد ڈالروں کی ’بارش‘ کرکے افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی وائسرائے رچرڈ ہالبروک نے یہ طنز کیا کہ امریکا دل کھول کر مدد کررہا ہے‘ پاکستان کے دوست ایران اور چین کہاں ہیں؟ یعنی دوستوں نے ساتھ چھوڑدیا لیکن امریکا تن تنہا پاکستانی متاثرینِ سیلاب کے غم میں گھلا جارہا ہے۔گزشتہ روز تقریباً تمام اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ امریکا سعودی عرب کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا مددگار ملک بن گیا ہے۔ جمعہ 20 اگست کو دیگر اخبارات کے علاوہ دائیں بازو کے علم بردار اخبارات نے بھی اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا کہ امریکا کیری لوگر بل کے علاوہ 700 ملین ڈالر پاکستان کو دے گا۔ یہ ’خوشخبری‘ کیری لوگر بل کے شریک خالق سینیٹر جان کیری نے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے ساتھ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سنائی۔ ان خبروں کو پڑھنے کے بعد قارئین کو یہ سمجھنے پر موردالزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا کہ صلیبی لشکر کا سرخیل امریکا پاکستان اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دوست ہے۔ جاپان پر ایٹم بم گرانے کی تاریخی دہشت گردی ہو یا شمالی کوریا کے خلاف ناجائز جنگ‘ عراق کے مسلمانوں کو خون میں نہلانے کا عمل ہو یا افغانستان پر ننگی جارحیت…. امریکی میڈیا وائٹ ہاﺅس کا ہمیشہ مددگار رہا ہے۔ اب جبکہ امریکا تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اور ذلت آمیز شکست افغانستان کے پہاڑوں میں اس کا شدت سے انتظار کررہی ہے، ایسے میں امریکا کے زیراثر دنیا بھر کا میڈیا اُس کے امیج کو بہتر بنانے کی کوشش آخر کیوں نہ کرے؟ خبروں کے سیلِ رواں میں غرق عوامی اذہان اِس وقت ذرائع ابلاغ کے سیلاب کی بڑی لہروں یعنی شہ سرخیوں کو ہی بہ مشکل ٹھیک طریقے سے دیکھ پارہے ہیں‘ اور یہ موجیں اتنی تیز ہےں کہ کم نمایاں چھوٹی چھوٹی خبروں میں بڑی خبر کو تلاش کرنے کے لیے وہ سنبھل نہیں پارہے ہیں۔ اور عوام الناس کی نظر کو کیا رونا…. اِدھر نیوز روم میں بیٹھے صحافی یا تو اپنی قیمت لگا چکے ہیں یا پھر اتنے نااہل ہیں کہ مخلص ہونے کے باوجود وہ ادراک کے معاملے میں عام آدمی کی صف میں ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دو چار دنوں کے دوران چند ایسی خبریں شائع ہوئیں جو اگرچہ اخبارات کے صفحات پر نمایاں جگہ پانے میں ناکام رہیں، تاہم خبریت اور وزن کے اعتبار سے ان دِنوں شائع ہونے والی سیکڑوں خبریں ان سے چھوٹی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ خبریں پاکستانیوں کی آنکھوں پر بندھی کالی پٹیاں کھول کر انہیں ان کی گمراہی کا احساس دلاتی نظر آتی ہیں۔ ایک بہت بڑی خبر معاصر انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے صفحہ آخر پر شائع ہوئی جس کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہیلتھ ریلیف آپریشن اس لیے شروع نہیں کیا جاسکا کہ جیکب آباد میں واقع شہباز ایئربیس امریکی کنٹرول میں ہے۔ اخبار کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ق) کی رکن ِسینیٹ سیمی یوسف صدیقی کے ایک سوال کے جواب میں ہیلتھ سیکریٹری خوشنود لاشاری نے انکشاف کیا کہ علاقے میں ہیلتھ ریلیف آپریشن اس لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہاں کا واحد ایئربیس امریکی کنٹرول میں ہے۔ ’ہیلتھ ایمرجنسی پریپرئیڈنیس اینڈ ریسپانس سینٹر‘ کے کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر جہانزیب اورکزئی نے بتایا کہ دور دراز علاقوں میں اس لیے ریلیف آپریشن شروع نہیں ہوسکا ہے کیوں کہ جیکب آباد سمیت کئی علاقوں کے قریب کوئی ایسی ہوائی پٹی نہیں جہاں طیارہ اترسکے۔ سینیٹر سیمی نے اجلاس کے بعد ڈان کے نمائندے کو بتایا کہ یہ انتہائی بدنصیبی ہے کہ امریکی شہباز ایئربیس سے ڈرون حملے کرسکتے ہیں لیکن حکومت ِپاکستان اپنے ہی ایئربیس کو ریلیف آپریشن کے لیے استعمال کرنے کے معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر ِصحت کو فوج سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ امریکیوں سے شہباز ایئربیس سے ریلیف آپریشن کی اجازت مانگیں۔ انہوں نے تاسف کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ”مجھے نہیں معلوم کہ وزارت صحت متعلقہ حکام خصوصاً پاک فوج کے سامنے یہ معاملہ اٹھانے میں کیوں ناکام رہی ہے؟“ پاکستانی عوام مطلع ہوں کہ شہباز ایئربیس جسے 4 سال قبل پاکستانی تاریخ کے بدترین فوجی سربراہ نے امریکا کو لیز پر دیا تھا‘ سیلاب زدگان کو فوری ہیلتھ ریلیف فراہم کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ شہباز ایئربیس امریکا میں واقع ہے یا پاکستان امریکا کی آئینی ریاست کا درجہ رکھتا ہے، بلکہ پاکستان ہی کے صوبہ سندھ کے ضلع جیکب آباد میں واقع ہے جہاں قرب و جوار کے لاکھوں لوگ ریلیف کے لیے اس کے محتاج ہےں۔ جی وہی پاکستان جو سنا ہے 14اگست 1947ءکو آزاد ہوا تھا۔ جیکب آباد میں شہباز ایئربیس کے صرف استعمال پر ہی پابندی نہیں ہے بلکہ 4 سال سے امریکیوں کے کنٹرول میں رہنے والے اس بیس کو بچانے کی خاطر بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کو سیلاب کی نذر کردیا گیا، جہاں ہزاروں افراد کو اپنے گھر چھوڑنے کی مہلت بھی نہ مل سکی۔ گزشتہ سیلابی ریلے نے شہباز ایئربیس کی طرف بڑھنا شروع کیا تو اسلام آباد سے آنے والی ہدایات پر جمائی بائی پاس کو توڑا گیا جس سے نصیرآباد اور جعفرآباد زیرآب آگئے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وفاقی وزیر اعجاز جاکھرانی کے مطالبے پر عسکری دستے اور مقامی انتظامیہ کے افسران سڑک توڑ کر پانی کا رخ موڑنے پر تیار نہیں تھے مگر بعد ازاں ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاﺅس سے ہدایت ملنے پر فوری طور پر سڑکیں توڑ کر پانی کا رخ بدل دیا گیا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے میں امریکی حکام کا اثر و رسوخ شامل ہے، کیوں کہ امریکی حکام نے پہلے اپنے طور پر پانی کا رخ موڑنے کی ہدایت جاری کی‘ جسے تسلیم کرنے سے انکار پر اسلام آباد سے مدد طلب کی گئی۔ دو روز قبل امریکی بیڑے کے کراچی آنے پر کراچی کے امریکی قونصل جنرل نے اپنے عسکری حکام کے ہمراہ بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا جو دراصل شہباز ایئربیس کو کسی ممکنہ خطرے سے بچانے کا راستہ تلاش کرنے کا سروے تھا۔ اس فضائی جائزے میں طے کرلیا گیا تھا کہ اگر پانی اس طرف آیا تو کس جگہ سے بند توڑنے کے لیے کہا جائے گا۔ اور یوں امریکی حکام کی وجہ سے بلوچستان کے ہزاروں شہریوں کو تباہی سے دوچار کردیا گیا۔ روزنامہ ڈان کی خبر شائع ہونے کے بعد پاکستان ایئرفورس نے چند صحافیوں کو ایئربیس کا دورہ کرایا اور بتایا کہ یہاں امریکیوں کا کنٹرول نہیں۔ ایئر برج کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ شہباز ایئربیس اور باقی ایئربیسز کے درمیان قائم کیا گیا ہے تاکہ ریلیف کے سامان کی ترسیل کے ساتھ جیکب آباد سے لوگوں کو نکالا جاسکے۔ پی اے ایف حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ شہباز ایئربیس پر چند امریکی موجود ہیں جو ایف سولہ فائٹرجیٹ کی تکنیکی معاونت پر مامور ہےں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحافیوں کو ایئربیس پر لے جانے کے بجائے قائمہ کمیٹی کے سامنے بقائمی ہوش و حواس بیان دینے والے سیکریٹری ہیلتھ سے کیوں نہ پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ بیان کس بنیاد پر دیا ہے؟ جس ملک میں جعلی کیمپوں کی کہانیاں منظرعام پر آرہی ہوں وہاں کوئی طے شدہ دورے میں دکھائے گئے منظر پر کیسے یقین کرسکتا ہے؟ پاکستان میں امریکی موجودگی پر گہری نظر رکھنے والے سوسائٹی میڈیا کے ارکان اس امکان کو رد کرنے پر تیار نہیں کہ اس دورے کا انتظام امریکی معاونت سے کرایا گیا ہو‘ تاکہ خبر کے نتیجے میں امریکا کے لیے پیدا ہونے والی نفرت اور پاکستانی حکومت اور فوج کے بارے میں منفی تاثر کو زائل کیا جاسکے۔ حکومت ِپاکستان اور عسکری قیادت نے لیز کی کبھی تردید نہیں کی ہے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ شہباز کے علاوہ شمسی ایئربیس امریکا کو لیز پر دیا جاچکا ہے۔ ارکانِ پارلیمان کی رگ ِ حمیت تو صرف اس بات پر پھڑک گئی تھی کہ شہباز ایئربیس ان مشکل حالات میں بھی ریلیف سرگرمیوں کے لیے استعمال کے لیے کیوں نہیں دیا جارہا۔ لیکن صحافیوں کو کرائے گئے دورے کے ذریعے امداد ی سرگرمیوں کی اجازت نہ دینے کے تاثر کو زائل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی دیا گیا ہے کہ مذکورہ ایئربیس لیز پر دیاہی نہیں گیا ہے جو واقعاتی طور پرغلط ہے۔ معاصر اخبار اُمت کے ذرائع کے مطابق شہباز اور شمسی دونوں ایئر بیسز پر پاکستانی حکام کو اندر داخل ہونے تک نہیں دیا جاتا۔پاکستانی فورسزپرصرف ان بیسز کے بیرونی تحفظ کی ذمہ داری ہے۔ بیس پرمکمل کنٹرول امریکیوں کا ہے‘وہ کسی بھی پاکستانی کو اندر جانے نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بیس کے گردو نواح کی تباہ حال آبادیوں میں ہزاروں افراد ہلاک اور بیمار ہورہے ہیں۔ سڑکیں نہ ہونے کے سبب ان تک پہنچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ایک رستہ باقی ہے کہ شہباز ایئربیس سے اُڑ کر ان کی مدد کی جائے‘ یہ راستہ بھی امریکا کی مخالفت کے سبب مسدود ہوچکا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کہتے ہیںکہ ”یہی وہ اڈہ ہے جہاں سے امریکیوں نے افغانستان پر56ہزار حملے کیے۔اب انہوں نے اس کے اندر بہت کچھ اور جمع کرلیا ہے۔ اسی طرح شمسی ایئربیس بھی ہے جہاں سے ڈرون اُڑتے ہیں۔ وہاں بھی امریکی پاکستانی اتھارٹیزکو جواب تک نہیں دیتے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ایسے میں وہ ان بیسز کو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کیوں استعمال ہونے دیں گے؟سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین جان محمد جمالی کے مطابق صحت کی قائمہ کمیٹی نے انہیںبتایا کہ شہباز ایئربیس امدادی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کرنے دیا جارہا ہے تو انہوں نے ہدایت کردی کہ اس معاملے کو سینیٹ میں لایا جائے تاکہ وزارتِ دفاع سے پوچھا جائے کہ کس معاہدے کے تحت یہ اڈہ امریکا کو دیا گیا ہے اور کیوں اسے پاکستانیوںکو بچانے کی خاطر استعمال نہیں کیا جاسکا ہے۔ 12اگست کو ایک ہزار میرینز اور 24ہیلی کاپٹروں کو امداد کی آڑ میں پاکستانی سرزمین پر اُتارا گیا۔اس ”امداد ی کھیپ“ کے پہنچنے پر ہمارے وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ ملک کو ایسی مزید عالمی مدد کی ضرورت ہے۔کراچی میں امریکی قونصل جنرل ولیم مارٹن نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان میں امریکی شپ اور میرین کی موجودگی اوباما اور امریکی لوگوں کی کمٹمنٹ کا مظہر ہے۔ یہ کمٹمنٹ اور دوستی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ذرائع کے مطابق اس وقت پاکستان میں بلیک واٹر اور امریکی فوجیوں کی تعداد11ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے ایئربیس پر قابض ہوکر اسے ا ستعمال کی اجازت نہ دینے والا‘ اپنے بیس کو بچانے کے لیے بلوچستان کو ڈبونے والاہمارا”دوست“ملک آخر 11ہزار فوجیوں کے ذریعے کیاکرنا چاہ رہا ہے؟ پاکستان کو بڑی امریکی دہشت گردی کا خطرہ ہے لیکن حکمران دوستی نبھا رہے ہیں۔ سینیٹر سیمی صدیقی کے خیال میں”بدقسمتی یہ ہے کہ بیس پاکستان کا ہے، اس کے ساتھ ہی پاکستانی ڈوب رہے ہیں ‘ ان کو بچانے کی خاطر ہمیں بیس استعمال کرنے کی اجازت امریکی نہیں دے رہے۔ یہ کس طرح کا معاہدہ ہے، کون نہیں جانتا! سنا ہے کہ اڈہ لیز پر دیا گیا ہے، مگر پھر بھی وہ ملکیت تو پاکستان کی ہے۔ پاکستانیوں کو بچانے کی خاطرکیوں استعمال نہیں ہوسکتا؟“ سیمی صاحبہ کتنی بھولی خاتون ہےں! جس ایئربیس کو پاکستانیوں کو مارنے کے لیے وقت کے میر جعفروں سے لیز پر لیا گیا ہے وہاں سے ان کو بچانے کے لیے کسی سرگرمی کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے!سیمی صاحبہ آپ نے درست کہا کہ یہ کیسی دوستی ہے۔اگر یہ دوستی ہے تو دشمنی کسے کہتے ہیں۔امریکی دوستی کی ایک بھیانک تاریخ ہے لیکن سیلاب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی اس تاریخ سے سبق سیکھنے پر تیار نہیں۔

Articles

پختونوں کی تذلیل…. اور میرا جانباز پنجابی سپاہی بھائی

In فوج,پاکستان,حقوق انسانی,دہشت گردی,طالبان on جولائی 27, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

جب میں اپنےساتھی کےساتھ مقبوضہ جامعہ کراچی میں داخل ہونےکےلیےسلور جوبلی گیٹ پر قائم چیک پوسٹ پر قابض رینجرز اہلکار کی جانب بڑھا تو اس نےاس حقیقت کےباوجود کہ میرے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا مجھےصرف اس لیےاندر جانےکا گرین سگنل دےدیا کہ ہم دونوں ایک ہی زبان بولتےتھے۔ اور میں نےیہ ’سہولت‘ حاصل کرنےسےصرف اس لیےانکار کردیا کیوں کہ اس نےمیرےاردو بولنےوالےساتھی کو میرےساتھ جانےکی اجازت نہیں دی‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ ہم دونوں ہی جامعہ کراچی کےطالب علم ہیں۔ مجھےزبان کی بنیاد پر اُمتِ محمدیہ کو تقسیم کرنےوالوں سےشدید نفرت ہے۔ باچا خان کےپیروں کاروں کی طرف سے اپنےکارکنوں کو سخت ہدایت تھی کہ اس پختون دشمن کےساتھ ہاتھ نہ ملایا جائے۔ لیکن پتا نہیں 18جولائی کو میرےزبان سےڈیرہ غازی خان کےعلاقےترنول میں ان پولیس والوں کےسامنےیہ الفاظ کیوں نکلےکہ” آپ لوگ پختونوں کی نسل کشی کےبعد اب ان کو ذلیل کرنےکا کوئی موقع بھی ہاتھ سےنہیں جانے رہے ہیں۔‘‘
تقریبا ً ایک دہائی قبل اپنے زمانہ طالب علمی میں اس روٹ کو استعمال کرتارہا۔ راستےمیں مسافروں کےساتھ ٹرانسپورٹ مافیا کی زیادتیاں ہمیشہ مجھےپریشان کیا کرتی تھیں۔ اس لیےمیں نےارادہ کیا کہ میں کافی عرصہ بعد سفر میں اکیلےہونےکا فائدہ اُٹھا کر روڈ کا انتخاب کروں اورمضر صحت کھانے پینےکےسامان اوراس کےبدلےبس والوں کےہاتھوں ’یرغمال ‘مسافروں سے زیادہ پیسوں کےحصول کو ایک فیچر کا موضوع بنائوں۔ مسافروں کےمسائل مجھےپریشان کرتی رہے تو میرے سفر کی ساتھی جان پرکنز کی کتاب اس سےبھی زیادہ پریشان کررہی تھی جس میں انہوں نےسی آئی اےاور معاشی غارت گروں کی وارداتوں پر سےپردہ اُٹھایا ہے۔ کتاب میں پاکستان کا تذکرہ نہ ہونےکےباوجود یہ پاکستان کےحالات پرکس طرح منطبق ہوتی ہےاس کا تذکرہ ایک الگ پوسٹ میں‘فی الحال واپس اپنےموضوع کی طرف۔
کوہاٹ ٹنل پر ایک باوردی نوجوان نےسب کےشناختی کارڈ جمع کیےاور پھر واپس کیےلیکن ایک بزرگ کےپاس کلر فوٹوکاپی تھی‘ نوجوان نے واپس کرنےسےانکار کردیا۔ بزرگ التجا کرتےرہےکہ راستےمیں کئی اور جگہ چیکنگ ہوگی۔ نوجوان نےکہا اُسےآرڈر ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہےجہاں آرڈرز تو جاری ہوتےہیں‘ لیکن اس کےساتھ ہدایات دیےجاتےہیں اور نہ ہی اطلاع کہ کوئی ایسا آرڈر پاس ہوا ہے!لہٰذا آپ کا تجربہ ہی ہدایات ہوتےہیں۔ لیکن پہلی دفعہ کا کیا جائے؟کیا بس اڈوں پر ایسےہدایات واضح طور پر آویزاں نہیں کرنےچاہئیں؟
شاید یہ واقعہ تھا جس نےمجھ سےآگےترنول‘ ڈیرہ غازی کےعلاقےمیں وہ جملہ کہلوایا جو میں شاید عام حالات میں کبھی نہ کہتا۔ ترنول پر بس رُک دی گئی۔ کارڈ جمع کیےگئےاور پھر حکم دیا گیا ۔ پیدل چلنا شروع کردو۔ یہ سرحد اور پنجاب کا بارڈر تھا لیکن مجھےیہ انڈیا پاکستان یا پاکستان افغان بارڈر لگا۔ جہاں لکڑیوں کےبیچ میں گزارا گیا۔ یہ ہزار میٹر سےزیادہ کا راستہ ہوگا۔ ترنول تھانےکےسامنےپہنچ کر وہاں بیٹھےپولیس والوں سےمیں نےکہا”یہ کیا ہے؟ یہ پیدل چلوانا سیکورٹی مسئلےکا حل تو نہیں ہے۔ آپ لوگ پختونوں کی نسل کشی کےبعد اب ان کو ذلیل کرنےکا کوئی موقع بھی ہاتھ سےنہیں جانےدے رہے ہیں‘‘۔
مجھےنہیں پتا کہ ذلیل ہونےکا باوجود مجھےیہ کہنےکا حق تھا یا نہیں لیکن اس پر میرےپنجابی بھائی پولیس والےنےجو کچھ کہا اس نےمجھےکچھ مزید کہنےپر مجبور کردیا۔ اس نےکہا کیا کریں تم دہشت گرد ہو۔ سارےچرسی کہاں ہوتےہیں؟ سرحد سے آتے ہیں چرس اور ہیروئین کہاں سےآتی ہے؟۔‘‘
میں سنتا رہا اور وہ کہتا چلا گیا”بےوقوف یہ کیمرےلگےہیں جس میں اہم دہشت گردوں کو پہچانتےہیں‘ چرسیوں اور ہیرونچیوں کا پتہ چلتا ہے۔‘‘
میں نےعرض کیا”جناب یہ کام تو 10میٹر میں بھی ہوسکتا ہے اس کےلیے1000میٹر کی پریڈ کیوں کراتےہو۔“ اس گستاخی پر اس نےمجھےہاتھ سےپکڑ کر دھکا دیا۔میں نےکہا یہ میرےسوال کا جواب نہیں ۔ مجھےدھکا دےکر کونساجواب دےرہےہیں؟ میں اس وقت جنوبی پنجاب میں تھا او ر میں نےاسےیاد دلایا کہ یہاں بھی طالبان ہیں لیکن آپ ان کےخلاف کچھ کرنےکو تیار نہیں۔اور پھر سرحد میں داخل ہوتےہوئے پنجاب سےآنےوالوں کو ایسا ذلیل نہیں کیا جاتا حالانکہ وزیر ستان میں پائےجانےوالے’پنجابی طالبان‘ پنجاب سےہی آئےہوں گے۔ میں نےمزید کہا کہ ”میں روز پڑھتا ہوں کہ سیکورٹی فورسز نے30،40اور 50شدت پسندوں کا مارا۔ یہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے۔ 99فیصد پختون امریکا مخالف ہیں۔ امریکی دشمنی کو ختم کرنےکےلیےتہمیں ایک ایک پختون کو مارنا ہوگا“…. میں وہاں سےبس کی جانب چل پڑا اور سوچتا رہا کہ میں کیا کیا کہہ گیا۔ شاید میں یہ سب کچھ نہ کہتا اگر مجھےمیرےسوال کا جواب ملتا یا صرف اتنا ہی کہہ دیا جاتا کہ ”تم میرےمسلمان پاکستانی بھائی ہو ‘ یہ تم نےکیسےبات کردی۔‘‘

Articles

آ ئینہ تصویر۔ کوسووو میں ابھر آنے والی یہ قبریں کن کی ہیں

In پاکستان,حقوق انسانی,دہشت گردی on مارچ 5, 2010 منجانب ابو سعد

پاکستانیوں کو مبارک ہو کہ حکومتِ پاکستان نے نئی اسلامی ریاست کوسووو کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جمعرات 6 مارچ کو سربیا کے وزیر خارجہ وک جیریمک نے سید بادشاہ یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی اور مسلم ریاست کوسووو کو تسلیم کرنے سے انکار کے فیصلے کو خوب سراہا۔ سراہنا بھی چاہیے۔ یہ بھی سربیا کی بڑی کامیابی ہے کہ مسلم دنیا کا ایک اہم اور واحد ایٹمی ملک پاکستان مقتولوں اور مظلوموں کے بجائے ظالموں اور قاتلوں کا ساتھ دے رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جب سرب دہشت گرد بوسنیا ہرزی گوینا اور کوسووو میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہے تھے‘ بچوں کو سنگینوں پر اچھال رہے تھے اور مسلمان عورتوں کی عصمت دری کر رہے تھے‘ سید صاحب اس وقت جیل میں تھے اور شاید ان تک اخبارات بھی نہ پہنچ رہے ہوں۔ ورنہ اس دیدہ دلیری سے کوئی مسلمان کس طرح اپنے بھائیوں کے قاتلوں کا ساتھ دے سکتا ہے۔ امریکا کی بات اور ہے کہ اس کی دہشت حکمرانوں پر طاری ہے۔ سید صاحب ہاتھ ملانے کے بعد غور سے دیکھیے‘ کوسوو کے شہیدوں کا خون آپ کے ہاتھ پر بھی لگ گیا ہوگا۔
عجیب اتفاق ہے کہ جب پاکستان میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی کو اقتدار دینے کا فیصلہ ہوا اور وزارت عظمیٰ کے لیے قرعہ فال سید یوسف رضا گیلانی کے نام نکلا‘ انہی دنوں کوسووو کے مسلمانوں کو قاتلوں کے چنگل سے نجات ملی۔ طویل خونریزی کے بعد فروری 2008ءمیں آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ سابق کمیونسٹ ملک یوگو سلاویہ کے ٹکڑے ہوئے تو سب سے طاقت ور ریاست سربیا نے آس پاس کی ریاستوں پر قبضہ کے لیے قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا اور مسلم اکثریتی علاقے بوسنیا اور کوسووو خاص طور پر نشانہ بنے۔ سربیا کی جارحیت کے دوران کم از کم 12 ہزار مسلمان مرد‘ عورتیں اور بچے شہید کیے گئے اور ایک لاکھ 30 ہزار گھروں کو جلایا گیا۔ نصف آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔ کوسووو کو تسلیم نہ کرنا اپنے شہید مسلمان بھائیوں کے خون سے غداری ہوگی لیکن پاکستانی حکمرانوں کو شاید تاریخ کا علم ہی نہیں‘ ہم عظیم مجاہد طارق بن زیاد اور ان کے جانثاروں کی توہین کرتے ہوئے ظالموں کے لیے ”بربریت“ کی اصطلاح بڑے شوق سے استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت میں اس جگہ ”سربیت“ یا ”سربریت“ کا استعمال زیبا ہے۔ پاکستان نے کوسووو کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا لیکن اپریل 2009ءمیں سعودی عرب اس کی آزاد حیثیت تسلیم کرچکا ہے۔ دونوں میں سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ دنیا کے 58 ممالک اسے تسلیم کرچکے ہیں۔ جی 8کے سات ممالک‘ یورپی یونین کے 27 میں سے 22 اور ناٹو کے 28 میںسے 25 ممالک بھی کوسووو کی آزادی کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اسے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی رکنیت بھی مل چکی ہے۔ ابھی دو ماہ قبل ہی 9 دسمبر 2009ءکو برطانیہ میں متعین کوسوو کے جارج ڈی افیئر محمد حتمی نے اپیل کی تھی کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی کوسوو کو جلد باضابطہ طور پر تسلیم کرے‘ کوسووو کی اکثریت آبادی مسلمان ہے اور مسلم ممالک سے برادرانہ تعلقات قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ ان کو نوید ہو کہ پاکستانی حکمران صفِ دشمناں میں کھڑے ہیں‘ شاید ابھی امریکا نے کوسووو کو تسلیم نہیں کیا ورنہ ہماری کیا مجال تھی۔ سرب وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں اطلاع دی ہے کہ ہماری کوششوں سے پاکستان سمیت دنیا کے دو تہائی ممالک نے کوسووو کو تسلیم نہیں کیا۔ وزیراعظم پاکستان نے اتنا ہی پوچھ لیا ہوتا کہ کوسووو میں ابھر آنے والی یہ قبریں کن کی ہیں اور یہ ضعیف مسلمان خواتین اپنے بھائیوں‘ اپنے بیٹوں سے کیا کہہ رہی ہیں۔ لیکن ایسے کتبے لیے کھڑی خواتین تو اسلام آباد اور سری نگر میں بھی نظر آتی ہیں جو پوچھتی ہیں ”میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں؟“ سید صاحب ذرا اپنا ہاتھ غور سے دیکھیں۔
(بشکریہ جسارت میگزین ‘شمارہ 7تا13مارچ2010)

Articles

میجر جنرل طارق خان کا غیر ذ مہ دارانہ بیان

In پاکستان,حقوق انسانی on مارچ 3, 2010 منجانب ابو سعد

بہت سارے نوجوانوں کی طرح میری بھی خواہش تھی کہ فوج میں شمولیت اختیار کروں، پشاور میں ابتدائی مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد آئی ایس ایس بی کے لئے کوہاٹ پہنچا اور پورے چار دن وہاں گذارنے کے بعد ناٹ ریکمنڈڈ کا لیٹر ہاتھ میں آیا۔ شاید میں فوج میں بھرتی کے لیے اہل نہیں تھا یا پھر میں اتنا ڈسپلنڈ نہیں تھا کہ ملک دو لخت ہوتا اور میں اپنے جنرل کے حکم پر نوے ہزار دیگر سپاہیوں کی طرح بغیر ڈسپلن توڑے ہتھیار ڈال دیتا ۔
میرے بیج کے دو دوست منتخب ہوگئے تھے ‘ ہم دل جلے جلن کے مارے ان سے کہتے تھے کہ فوجی کا دماغ گھٹنے میں ہوتا ہے۔ فوجی دماغ سے نہیں گھٹنے سے سوچتا ہے۔ آج کے اخبارات میں آئی جی ایف سی میجر جنرل طارق خان کا بیان پڑھ کر احساس ہوا کہ واقعی ان کا دماغ سر میں نہیں گھٹنے میں ہوتا ہے۔ موصوف نے فرمایا جماعت اسلامی کے ہارون رشید کا گھر دہشت گردی کا مرکز تھا۔ میجر جنرل صاحب فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ پٹھان بھی ہیں۔ کاش پریس بریفنگ کے وقت موجود ہمارے اردو اسپکینگ بھائی میجر جنرل اطہر عباس ان کو سمجھاتے کہ بھئی بغیر کسی ثبوت کے ایک محب وطن سیاسی جماعت کے صوبائی نائب امیر پر اس طرح کا الزام لگانا کوئی عقل کی بات معلوم نہیں ہوتی۔
ثبوت بھی فوجی ثبوت نہیں ۔ لال مسجد کو فتح کرتے وقت بھی ثبوت دکھائے گئے تھے‘ لیکن اب سپریم کورٹ بھی فوجی آپریشن میں قتل ہونے والوں کو شہدائے لال مسجد پکارتی ہے ۔
یہاں آئی جی فرنٹیر کور میجر جنرل طارق خان کو یہ مشورہ بھی دیاجانا چاہیے کہ وہ باجوڑ اور قلعہ بالا حصار سے ذرا نکل کر دنیا میں دیکھیں کہ کیا ہورہا ہے۔ وہ مغربی سرحد پر ڈالروں کی خاطر میراثی پرویز مشرف کی شروع کی گئی امریکی جنگ لڑ رہے ہیں تو ادھر وہی امریکا ‘بھارتی دشمنوں اور امریکا میں پاکستانی سفیر کی مدد سے فوج کا تعلق ’’مستقبل کی القاعدہ ‘‘ یعنی لشکر طیبہ کے ساتھ جوڑ کر اس پر وار کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ براہ کرم تھوڑا سا وقت نکال کر امریکی پالیسی ساز میگزین نیوز ویک کی یہ ٹائٹل اسٹوری بھی پڑھ ڈالیں ۔ وہ وقت کوئی بہت زیادہ دور نہیں کہ اس وقت قبائلی علاقوں میں امریکی جنگ کو جائز کہنے والے لندن اور واشنگٹن نکل لیں گے اور امریکی فوج آپ کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دے کر مشرقی سرحدوں سے حملہ آور ہوگی تو یہی لوگ آپ کے شانہ بشانہ ملکی سرحدوں کی حفاظت میں مصروف ہوں گے جن کو آج آپ کسی طریقے سے باجوڑ کے شدت پسندوں سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہاں ایک اور بات کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ اگر چہ امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بعد آُپ ہی کے چیف کی طرف سے ڈالروں کے عوض پاکستانی بیٹی کو امریکیوں کے حوالے کرنے کے اعتراف کے بعد آپ کی حب الوطنی تو مشکوک کہلائی جاسکتی ہے لیکن جماعت اسلامی کی نہیں۔ مجھ سمیت اکثر پاکستانی اگر چہ دہشت گردی کے نام پر قبائلیوں کے خلاف امریکی جنگ کے مخالف ہیں لیکن وہ فوج کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والوں کو غلط سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی پر اس طرح کے الزامات شدت پسندوں کی حمایت کرنے والوں کے موقف کو مضبوط کر سکتے ہیں۔۔
جنرل کیانی صاحب نے اپنے پیشرو پرویز مشرف کی اکثر پالیسیوں کو ریورس کردیا ہے۔ ان کی جمہوریت پسندی اور حب الوطنی کے وجہ سے پرویز مشرف کا خراب کیا ہوا فوج کا برا تاثر بہتر ہونے لگا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ میجر جنرل طارق خان پرویز مشرف کے خیال کے آدمی ہیں۔ پرویز مشرف پاکستان اور پاک فوج کا بدبودار اور گند ا ماضی ہے ۔ میجر جنرل صاحب کو اپنے ماضی کے اوراق کی تلاوت کے ذریعے جنرل کیانی صاحب کی کوششوں کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد فسادیو ں کے خلاف قومی لشکر کاحصہ نظر آتی ہے ان کو فسادیوں کی طرف دھکا نہ دیں۔ ایک ایسے وقت میں جب مشرقی سرحد پر پاکستان کے خلاف دشمن متحد ہورہے ہیں پاکستان کو متحد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ تقسیم کرنے کی۔
امریکی جنگ کے خلاف آواز اُٹھانے والے اور اس کی خاطر اقتدار کی کرسی کو ٹھوکر مارنے والے نہایت ہی قابل احترام اور قابل فخر ہارون رشید صاحب کے موقف کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔ شکریہ
منور حسن صاحب کا ردعمل یہاں ملاحظہ کریں۔

Articles

گجرات کے مسلمانوں کے قاتل کو سور فلو

In حقوق انسانی,دہشت گردی on اکتوبر 31, 2009 منجانب ابو سعد Tagged: ,

ہندوستان کی ریاست گجرات میں اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو سوائن فلو ہوگیا ہے۔ نریندر مودیARV_30_NARENDRA_MODI_10205f کو سوائن فلو کی تصدیق ان کے روس کے دورے سے واپس آنے کے ایک دن بعد ہوئی ہے۔

نریندر مودی کے چیف میڈیکل افسر ڈاکٹر آر کے پٹیل نے گاندھی نگر میں اس بات کی تصدیق کی ہے۔

نریندر مودی 25 اکتوبر کو روس کے دورے پر گئے اور تین دن کے دورے کے بعد 28 اکتوبر کو ہندوستان واپس آئے تھے۔ واپس آنے کے بعد 29 اکتوبر کو انہوں نے سینے میں درد، کھانسی اور بدن میں درد کی شکایت کی۔ اس کے بعد نریندر مودی نے کہا کہ وہ ایچ ون این ون وائرس کی جانچ کرانا چاہتے۔ طبی جانچ کے بعد پتہ چلا کہ انہیں سوائن فلو ہوا ہے۔

ڈاکٹروں نے انہیں اپنے گھر میں تنہا رہنے کی صلاح دی ہے۔

ریاستی حکومت کی جانب سے جاری کيے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مودی زیر علاج ہیں اور آئندہ ہفتے کے ان still4کی ساری مصروفیات منسوخ کر دی گئی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کے ساتھ ان کے وفد کے جو لوگ روس گئے تھے ان میں سے کسی کو بھی سوائن فلو نہیں ہوا ہے۔

ہندوستان میں گزشتہ مہنیوں میں سوائن فلو کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں اور سوائن فلو سے اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سب سے زیادہ اموات ریاست مہاراشٹر میں ہوئی ہیں۔ پونے شہر میں اب تک اس بیماری سے 44 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

پوری دنیا میں سوائن فلو سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریبا تین ہزار ہے۔

Articles

آئینہ تصویر : تین ہزار امریکی اور لاکھوں مسلمان

In پاکستان,حقوق انسانی,دہشت گردی on ستمبر 12, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

بشکریہ :  جسارت میگزین کراچی اور سلیمان کھوکھر صاحب جو بڑی محبت سے اسے پبلیش کرنے کے لیے ای میل کر دیتے ہیں۔

بشکریہ : جسارت میگزین کراچی اور سلیمان کھوکھر صاحب جو بڑی محبت سے اسے پبلیش کرنے کے لیے ای میل کر دیتے ہیں۔

Articles

اجتماعی قبریں‘ فوج اور فضل اللہ

In فوج,پاکستان,بوسنیا,حقوق انسانی,دہشت گردی,سوات,طالبان on اگست 26, 2009 منجانب ابو سعد

بوسنیا میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں‘ قتل عام ہوا ‘ ماورائے قانوں مارا گیا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ مذمت _44010612_skulls_203واجب ہے اور کی بھی گئی لیکن ایک  مذہب کے لوگوں نے مسلمانوں کو مارا، ان کی نسل کشی کی ‘ مقصد بالکل واضح تھا۔ عراق میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ لاشیں ملیں سمجھ میں آنے والی بات ہے‘ ایک فرعون وقت ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غراتے ہوئے عراق پہنچا اور نسل کشی شروع کی۔ افغانستا ن پر حملے کے بعد بش نے اسے صلیبی جنگ قرار دیا۔ صلیبی کہیں جائیں گے تو لوگوں کی حفاظت اور خدمت تو نہیں کریں گے نا۔ یہاں بھی اجتماعی قبروں کا دریافت ہونا قابل فہم ہے۔ ہاں مذمت ہونی چاہیے لیکن کر کچھ نہیں سکتے۔ دشمن حملہ کرکے کر بھی کیا سکتا ہے۔ یہ کوئی اسکاٹ کی فلم ’’کنگ ڈم آف دی ہیون ‘‘ تو ہے نہیں جس میں صلیبی بلین کو امن کا داعی دکھایا جائے گا۔ بھئی  یہ حقیقی زندگی ہے۔ پس بوسنیا ‘ عراق اور افغانستان میں اجتماعی قبریں کھلے دشمن کا  کھلا کام ہے۔ لیکن یہ سوات میں اجتماعی قبریں۔ یہ کیا ہے؟

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق سوات کے کئی شہریوں نے علاقے میں اجتماعی قبریں دیکھنے کی اطلاع دی ہے۔

پاکستان میں سکیورٹی حکام نے مالاکنڈ آپریشن کے آغاز کے وقت فوجیوں کو عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن اب حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ اسے ماورائے عدالت ہلاکتوں اور اجتماعی قبروں کے شواہد ملے ہیں۔ (بی بی سی)

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے حقائق جاننے کے لیے تین روزہ دورے پر بھیجے گئے ایک وفد نے سوات میں شہری آبادی کی مشکلات کے تسلسل کی شکایت بھی کی ہے۔

کمیشن کے مطابق سوات کے کئی شہریوں نے علاقے میں اجتماعی قبریں دیکھنے کی اطلاع دی ہے۔ ان میں سے ایک بابوزئی تحصیل کے کوکرائے گاؤں میں اور دوسری کبل تحصیل کے دیولائی اور شاہ ڈھیری کے درمیان شامل ہیں۔ عینی شاہدین  کا جنہوں نے تدفین دیکھی ہے دعویٰ ہے کہ دفنائے جانے والوں میں بعض طالبان شدت پسند بھی تھے۔

090531005930_pakistan226کمیشن نے اس ’قابل تشویش پیش رفت‘ کے علاوہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے ماورائے عدالت ہلاکتوں پر خوف و خدشے کا اظہار کیا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ آپریشن کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سکیورٹی فورسز طالبان کے مرتکب مظالم سے دور رہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں فوجی کارروائی کے دوران مبینہ طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کی کثیرالجماعتی پارلیمانی کمیٹی اور سول سوسائٹی کی مدد سے آزاد تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایچ آر سی پی کے علاقہ جماعت اسلامی نے اجتماعی قبروں کے معاملے پر آواز اُٹھائی ہے اور اس کے امیر سید منور حسن نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن یہاں ایک سوال اُٹھتا ہے۔ کیا آج تک تحقیقات کے ذریعے مظلوموں کو انصاف فراہم کیا جاسکا ہے۔ جس ملک کے پہلے وزیر اعظم سے لے کر سابق وزیر اعظم سمیت کئی سیاسی ‘ سرکاری اور غیر سرکاری افسران کے قاتلوں کو نہیں پکڑا جاسکا ہو وہاں اہل سوات کے ساتھ انصاف کیا جاسکے گا۔ کیا اجتماعی قبروں اور سوات میں فوجی آپریشن کے دوران اندوہناک قتل عام کی تحقیقات کی جاسکیں گی؟ جس عجلت میں بغیر کسی نوٹس کے آپریشن شروع کیا گیا اس کے بعد تو ایسے ہونا ہی تھا۔ بلکہ یہ خبریں تو آپریشن کے دوران ہی آرہی تھیں۔ جو لوگ سوات اور بونیر میں پھنس گئے تھے اور بعد میں آپریشن کے دوران وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہونے والوں نے بھی بڑی تعداد میں لاشوں کی خبر دی تھی۔ راقم السطور نے بونیر سے تعلق رکھنے والے صحافی نیاز  کے علاوہ  مٹہ سے تعلق رکھنے والے سابقہ یونیورسٹی فیلو ارشاد سے گفتگو کی تو انہوں نے بھی ویسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا وزارت اطلاعات کے فنڈز پر نظر رکھنے اور اس میں زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کی کوششوں کی بجائے سوات سے غیر جانب دارانہ رپورٹنگ کے ذریعے کم از کم قوم کو تو حقائق آگا ہ کردے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا میڈیا حقیقی ایشو کو چھپانے کے لیے خودساختہ بحرانوں پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ سمیت بہت سے تجزیہ نگار بھی آپریشن ’راہِ راست‘ کو کام یاب قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ فضل اللہ اور مسلم خان اپنی جگہ موجود ہیں ‘ آپریشن نے قوم کو ان کی لاشیں تو نہیں دیں البتہ معصوم اہل سوات و بونیر کی اجتماعی قبریں دے دیں۔ اس قوم کے پاس ہر چیز تھی۔ کیا نہیں ہے اس ملک بس کمی تھی تو اجتماعی قبروں کی۔ ’راہ راست‘  نے یہ اجتماعی قبریں‘ براہ راست قوم کو دے دیں اب کیا ہوا اگر فضل اللہ اینڈ کمپنی کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ بعید نہیں کہ وہ بھی ان کے ساتھ محفوظ مقام پر نکل گئے ہوں جن کے یہ ساتھی تھے۔