Archive for the ‘سوات’ Category

Articles

سوات کی ویڈیو کوجعلی ثابت کرنے کے10دلائل

In دہشت گردی,سوات on اپریل 16, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , ,

ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
ڈھٹائی پر اَڑ جانا،جھوٹ پر ڈٹ جانااور حقائق مسخ کر کے اِترانا،چَلِتَّر بازوں کا پُرانا چلن رہا ہے …مجھے قطعاً حیرت نہیں ہوئی جب ”عالم آن لائن“ کے خصوصی پروگرام کے بعد ”جانگلوؤں“ کے ٹکڑوں پر پلنے والے تنک مزاج یکایک چَرچَرانے لگے…گویاکوڑے مارے جانے کی جعلی ویڈیو تووہ خارِ مغیلاں ثابت ہو ئی کہ بنانے اور دکھانے والے دونوں ہی کذب و ریا کی خارش کے سبب”راڑ“ مچا رہے ہیں…ویڈیو کے اَسرار کھلنے کے بعد بھی اِصرار ہے کہ یہ ”اصلی پری کادھاگا “ ہے …ایک ایک اداکار بے نقاب ہوکر بھی ”روشن خیالی کے نقاب“ میں چہرہ چھپائے بضد ہے کہ اُس کی محنت کا ”ثمر“رائیگاں نہ جائے…اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کس قدر جی جاں سے کوشش کی گئی تھی، زمین پر ایک ”چاند“ تراش کے اُسے ایک لاکھ روپے کے عوض”مظلوم بی بی “ بنایا گیا ، پھر پچاس پچاس ہزار روپے دے کر کنڈل جیسی ذلفوں والے طالبان سے اُسے پکڑوا کر اُلٹا لٹایا گیااور پھر کوڑے کی شڑاپ شڑاپ میں ایک دقیق منظر کو چند ہی دقائق میں کچھ اِس طرح محفوظ کیاگیاکہ جسے صرف رقیق القلب ”محسوس“ کرسکیں…پشاور کی ایک حویلی کے احاطے میں ”متعددایکسٹراز“ اور ”۴ مرکزی کرداروں“ کے ساتھ فلمائی گئی ”انتہائی مختصر دورانیے“ کی اِس غیر واضح ویڈیو فلم نے وہ کام کر دکھایاجو طویل دورانیے تک صدر رہنے والے مشرف بھی نہ کرپائے۔…

گو کہ ایک این جی او کی ”گوپیاں“ تو اپنا کھیل ، کھیل گئیں تھیں مگر ”راجا نل پر بپتا پڑی، بُھونی مچھلی جَل میں پڑی“ کے مصداق، بُرے دِن آئیں تو ہر کام میں نقصان ہوتا ہے…کم بخت سارے اداکار پکڑے گئے اور جو کچھ نگلا تھا سب اُگل دیا…اب تو بھیّا اُفتاد آن پڑی،سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے عالمی و داخلی کذابوں کو زعفران کے کھیت میں راست گفتاری کے ایسے ایسے جوہر دکھانے پڑے کہ ثانیہ بھی لوٹ پوٹ ہوکرشعیب سے کہہ بیٹھیں”اے میرے سانوریا! تُوجھوٹ بولنا اِن ہی سے سیکھ لیتا“…ایک ہی جست میں ایسی چوکڑیاں، قلابازیاں اور کودپھاند کے مظاہرے کیے جارہے ہیں کہ تاریخ کے بدنام کاذبین کی قبور کروٹوں کے شور سے گونج رہی ہیں …بہتر تھا کہ غلطی مان کر ایک نئی ابتدا کی جاتی،ازالے کے چراغ سے مایوسی کے سیاہ غار کو روشن کیا جاتا اور توبہ کی کرنوں سے ساون کے تمام اندھوں کی آنکھوں کا کامیاب آپریشن کیا جاتامگرجو کچھ ہوا برعکس ہوا…خطا تھی ہی نہیں تو مانی کیوں جاتی؟ایجنڈے پر عمل کرنا لغزش نہیں،منصوبوں کو عملی جامہ پہناناگناہ نہیں اور مقاصد کے حصول کے لیے اختراعات کے مَعبَد میں سازشوں کی پرستش کرناآوازِ سگاں نہیں…بس چہرے صاف ستھرے رہیں، کیونکہ اِن پر لوگوں کی نظر ہے حالانکہ ضرورت تو دل کی گندگیاں صاف کرنے کی تھی، کیونکہ اُس پر خدا کی نظر ہے …بہر کیف…اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ دنیا تو اُسے بھی دیتا ہے جسے پسند نہیں کرتا مگر دین صرف اُسے ہی دیتا ہے جسے پسند کرتا ہے …تو پھر کیجیے دین کے ساتھ استہزا اور اِس جعلی ویڈیو کی آڑ میں اُڑائیے اسلامی سزاؤں کا مذاق، جی بھر کے تمسخر کیجیے(معاذ اللہ) آیاتِ ربانی سے اور بھریے اپنی آخری آرام گاہ کو اُن انگاروں سے جو کفن نہیں، روح جلاتے ہیں…یہ ویڈیو تو ”بندر کا پھوڑا“ ہے جو کبھی اچھا نہیں ہوگا، پاپ کی یہ ناؤ، آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پَرسوں ضرور ڈوبے گی …مجھے ضرورت تو نہیں تھی کہ میں اِس ویڈیو کے جعلی ہونے کے دلائل پیش کرتامگرکچھ ”اعلیٰ نسلی“ اِس کے اصلی”ثمرات“ سے آگاہ ہیں اِسی لیے چراغ پا ہیں کہ کس گستاخ نے اِسے نقلی ثابت کرنے کی جرأت کی ؟ایک پُرہول ماحول خراش کر دن بھر کی پُرگوئی کو وہ یونہی توضائع نہیں ہونے دیں گے اور جھوٹ کی آخری سسکی تک اِسے سچ بنانے کے لیے لڑیں گے

مجھے یقین ہے کہ میرے پیش کردہ دلائل کے بعد کئی پھاپھا کٹنیاں مجھے پھاڑ کھانے دوڑیں گی ،ویسے بھی یہ ایک چو مُکھی لڑائی ہے لیکن لڑنا بھی ضروری ہے ورنہ تو ان کی ریا کے کثیف بھبھکے صداقت کے درپن کو دھندلا کردیں گے

جھوٹ کیوں بولیں فروغِ مصلحت کے نام پر
زندگی پیاری سہی لیکن ہمیں مرنا تو ہے

لیجیے جناب اِس ویڈیو کے جعلی ہونے کی سب سے پہلی دلیل تو یہی ہے کہ جناب عبدالرحمن ملک صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ اصلی ہے… آج کے پاکستان کا قاعدہ یہی ہے کہ کسی بھی شے کی ضد جاننے کے لیے ”گفتارِ ملک“ سے استفادہ کیا جائے…مثلاً وہ فرمائیں دن، تو سمجھ لیجیے رات ہے ، وہ کہیں کہ ٹارگٹ کلنگ رُک گئی ہے تو یقین رکھیے کہ کسی بھی وقت شروع ہوا چاہتی ہے اور اگر وہ کہہ دیں کہ خود کش حملے ختم ہوگئے ہیں تو ڈریے کہ کون کس وقت کہاں پھٹ جائے…

دوسری دلیل، موبائل کیمرے کے نحیف و نزار مائیکروفون سے کیچ کی ہوئی وہ دردناک چیخیں ہیں جن کی کوالٹی اتنی صاف اور واضح ہے کہ اب سیاسی جلسوں میں بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکر لگانے کے بجائے اِن”منفرد طالبانی موبائل فونز “پر تجربے کیے جارہے ہیں،اِتنے سے قد پہ آواز کا بوجھ سنبھالنے میں اِنہیں زبردست ملکہ حاصل ہے چنانچہ آئندہ سیاسی ریلیوں اور عوامی اجتماعات میں قائدین اِسی موبائل کے مائیک کے ذریعے خطاب کیا کریں گے ،اب ظاہر ہے کہ جو موبائل بنا کسی بھنبھناہٹ کے مظلومہ کی چیخ سنوا سکتا ہے وہ کسی رہنما کی پکارعوام تک نہ پہنچائے یہ ممکن ہی نہیں

تیسری دلیل ”استقامتِ آہ و بکا“ ہے ، آواز میں کیاغضب کا جوار بھاٹا ہے کہ ایک سیکنڈ آگے پیچھے نہیں ہوتی،جتنی بلند، اِتنی ہی پست، کہیں جہری، کہیں سِرّی گویاکسی صوتی گراف کے عین مطابق بھرپور ٹائمنگ کے ساتھ چاند بی بی کے اِس رونے میں تکنیکی ہاتھ دھوئے گئے ہیں…

چوتھی دلیل چاند بی بی کے پاؤں پکڑنے والے ”طالب“ کا حکم کے طالب کی طرح بار بار کیمرے کی جانب دیکھنا ہے کہ کب ڈائریکٹر صاحب یا صاحبہ ”کٹ“ کہیں اور وہ خاتون کے پاؤں چھوڑ دے تاکہ روانگی کا سین عکس بند کیا جاسکے۔

پانچویں دلیل کیمرے کا ’’اسٹیبلشڈ شاٹ‘‘ پر قائم رہنا ہے ، مجال ہے جو کیمرہ چار کرداروں کے ”ماسٹرشاٹ“ سے ہٹ جائے ،اردگرد کے ماحول اور لوگوں کے تاثرات کی فلم بندی”ممنوع“ تھی ، جتنی جگہ کا کرایہ دیاگیا تھا، دیانت داری سے صرف اُسی مقام کو کیمرے میں محفوظ کیاگیا…

چھٹی دلیل کوڑے مکمل ہوتے ہی ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر ہائی ہیل والی چاند بی بی کا پیشہ وارانہ انداز میں اُٹھ کر کھڑے ہوجانا اور فوراً ہی متعین کونے کی جانب رخ کرلینا ہے ، البتہ چیخوں کی ڈبنگ شاید’’پروجیکٹ‘‘ میں پڑی رہ گئی اور ساؤنڈ فائل بند نہیں ہوسکی اِسی لیے چاند بی بی جاتے جاتے بھی اُسی طرح چیختی رہیں جس طرح کوڑے کھاتے ہوئے چلا رہی تھیں…

ساتویں دلیل سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات کرنے والے مالا کنڈ کے سابق کمشنر سید جاوید کا وہ ”جرم“ ہے جس کے مطابق اُنہوں نے اِس ویڈیوکو جعلی قرار دے کر اِس کے ڈائریکٹر اور کرداروں کی تلاش شروع کردی تھی…

آٹھویں دلیل، مالا کنڈ کے نئے ڈی پی او قاضی جمیل صاحب کی وہ ”تصدیق“ ہے جس میں ڈوب کر وہ فرما رہے ہیں کہ وہ ویڈیو جعلی تھی اور اِسے اسلام آباد کی ایک این جی او نے بنایا تھا…

نویں دلیل، ریلیز سے 9ماہ قبل تیار کی جانے والی اِس ویڈیو کو ”پراسرارمسلم خان“ کی جانب سے ”قبول“ کرتے ہوئے یہ اقرار کرنا ہے کہ ”سزا تو دینا ضروری تھی مگر طریقہ غلط تھا“، یہ وہی مسلم خان ہیں جنہوں نے امریکا میں ایک جنونی کے ہاتھوں متعدد افراد کے قتل اور دھماکے کو بھی اپنا ”کارنامہ“ قرار دیا تھا جس کی دوسرے دن امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہ کہہ کر تردید کردی تھی کہ ”مسلم خان اور بیت اللہ محسود کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں“…

دسویں دلیل براہِ راست اِس ویڈیو کو”نقلی“ کہنے سے گریز کرتے ہوئے سرکاری طور پر اِس جملے پر اکتفا کرنا ہے کہ ”کوڑے مارنے والوں کی تلاش جاری ہے، ابھی تک کسی نے خود آکر یہ نہیں کہا کہ یہ ویڈیو اُس نے بنائی ہے “…واہ واہ کیا کہنے ہیں

میں یہ نہیں کہتا کہ اسلام کے اِن نام نہاد ٹھیکے داروں نے گلے نہیں کاٹے یا اِن قصائیوں نے باقاعدہ فلمیں بنوا کر لوگوں کو ذبح نہیں کیا…بالکل کیا، یقینا کیا اور یہ جانور کسی بھی طور انسان کہلانے کے مستحق نہیں…مگر…جس ویڈیو کی آڑ میں مقصد عورت کی بھلائی نہیں بلکہ اسلام کی برائی ہو،اسلامی سزاؤں کو ظالمانہ اور بے رحمانہ قرار دے کر ”ہائے اللہ، اف ، اوئی، توبہ توبہ“ کی طے شدہ آوازیں نکالنا ہواورامریکا کو بیچی گئی اپنی بیٹی عافیہ کو بھلا کر اسلام آباد میں خریدی گئی ”چاند بی بی“ کے جسم پر اسکرپٹ کے تحت پڑنے والے کوڑے یاد دلا کر آپریشن پر اکسانا ہووہ اِس لیے بھی کسی طور جائز نہیں کہ کوئی بھی ”فعل حرام“ نیت کے اچھے ہونے سے حلال نہیں بن سکتا، شریعت اسلامی میں حکم عمل پر لگایا جاتا ہے ، نیت پر نہیں…جس طرح جہاد کی نیت اور ارادہ کرلینے سے فساد یا نظام عدل کے نفاذ کی نیت سے دہشت گردی اور قتل و غارت جائز نہیں ہوسکتے بالکل اِسی طرح رحم کے مقاصدکبھی جھوٹی ویڈیو بنا کر حاصل نہیں ہوسکتے…پاک منزل کبھی ناپاک راہ سے نہیں ملتی اورخیر، خیر ہی کے راستے سے آتا ہے ، شر کی راہ سے نہیں۔

Articles

اجتماعی قبریں‘ فوج اور فضل اللہ

In فوج,پاکستان,بوسنیا,حقوق انسانی,دہشت گردی,سوات,طالبان on اگست 26, 2009 منجانب ابو سعد

بوسنیا میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں‘ قتل عام ہوا ‘ ماورائے قانوں مارا گیا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ مذمت _44010612_skulls_203واجب ہے اور کی بھی گئی لیکن ایک  مذہب کے لوگوں نے مسلمانوں کو مارا، ان کی نسل کشی کی ‘ مقصد بالکل واضح تھا۔ عراق میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ لاشیں ملیں سمجھ میں آنے والی بات ہے‘ ایک فرعون وقت ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غراتے ہوئے عراق پہنچا اور نسل کشی شروع کی۔ افغانستا ن پر حملے کے بعد بش نے اسے صلیبی جنگ قرار دیا۔ صلیبی کہیں جائیں گے تو لوگوں کی حفاظت اور خدمت تو نہیں کریں گے نا۔ یہاں بھی اجتماعی قبروں کا دریافت ہونا قابل فہم ہے۔ ہاں مذمت ہونی چاہیے لیکن کر کچھ نہیں سکتے۔ دشمن حملہ کرکے کر بھی کیا سکتا ہے۔ یہ کوئی اسکاٹ کی فلم ’’کنگ ڈم آف دی ہیون ‘‘ تو ہے نہیں جس میں صلیبی بلین کو امن کا داعی دکھایا جائے گا۔ بھئی  یہ حقیقی زندگی ہے۔ پس بوسنیا ‘ عراق اور افغانستان میں اجتماعی قبریں کھلے دشمن کا  کھلا کام ہے۔ لیکن یہ سوات میں اجتماعی قبریں۔ یہ کیا ہے؟

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق سوات کے کئی شہریوں نے علاقے میں اجتماعی قبریں دیکھنے کی اطلاع دی ہے۔

پاکستان میں سکیورٹی حکام نے مالاکنڈ آپریشن کے آغاز کے وقت فوجیوں کو عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن اب حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ اسے ماورائے عدالت ہلاکتوں اور اجتماعی قبروں کے شواہد ملے ہیں۔ (بی بی سی)

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے حقائق جاننے کے لیے تین روزہ دورے پر بھیجے گئے ایک وفد نے سوات میں شہری آبادی کی مشکلات کے تسلسل کی شکایت بھی کی ہے۔

کمیشن کے مطابق سوات کے کئی شہریوں نے علاقے میں اجتماعی قبریں دیکھنے کی اطلاع دی ہے۔ ان میں سے ایک بابوزئی تحصیل کے کوکرائے گاؤں میں اور دوسری کبل تحصیل کے دیولائی اور شاہ ڈھیری کے درمیان شامل ہیں۔ عینی شاہدین  کا جنہوں نے تدفین دیکھی ہے دعویٰ ہے کہ دفنائے جانے والوں میں بعض طالبان شدت پسند بھی تھے۔

090531005930_pakistan226کمیشن نے اس ’قابل تشویش پیش رفت‘ کے علاوہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے ماورائے عدالت ہلاکتوں پر خوف و خدشے کا اظہار کیا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ آپریشن کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سکیورٹی فورسز طالبان کے مرتکب مظالم سے دور رہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں فوجی کارروائی کے دوران مبینہ طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کی کثیرالجماعتی پارلیمانی کمیٹی اور سول سوسائٹی کی مدد سے آزاد تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایچ آر سی پی کے علاقہ جماعت اسلامی نے اجتماعی قبروں کے معاملے پر آواز اُٹھائی ہے اور اس کے امیر سید منور حسن نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن یہاں ایک سوال اُٹھتا ہے۔ کیا آج تک تحقیقات کے ذریعے مظلوموں کو انصاف فراہم کیا جاسکا ہے۔ جس ملک کے پہلے وزیر اعظم سے لے کر سابق وزیر اعظم سمیت کئی سیاسی ‘ سرکاری اور غیر سرکاری افسران کے قاتلوں کو نہیں پکڑا جاسکا ہو وہاں اہل سوات کے ساتھ انصاف کیا جاسکے گا۔ کیا اجتماعی قبروں اور سوات میں فوجی آپریشن کے دوران اندوہناک قتل عام کی تحقیقات کی جاسکیں گی؟ جس عجلت میں بغیر کسی نوٹس کے آپریشن شروع کیا گیا اس کے بعد تو ایسے ہونا ہی تھا۔ بلکہ یہ خبریں تو آپریشن کے دوران ہی آرہی تھیں۔ جو لوگ سوات اور بونیر میں پھنس گئے تھے اور بعد میں آپریشن کے دوران وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہونے والوں نے بھی بڑی تعداد میں لاشوں کی خبر دی تھی۔ راقم السطور نے بونیر سے تعلق رکھنے والے صحافی نیاز  کے علاوہ  مٹہ سے تعلق رکھنے والے سابقہ یونیورسٹی فیلو ارشاد سے گفتگو کی تو انہوں نے بھی ویسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا وزارت اطلاعات کے فنڈز پر نظر رکھنے اور اس میں زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کی کوششوں کی بجائے سوات سے غیر جانب دارانہ رپورٹنگ کے ذریعے کم از کم قوم کو تو حقائق آگا ہ کردے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا میڈیا حقیقی ایشو کو چھپانے کے لیے خودساختہ بحرانوں پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ سمیت بہت سے تجزیہ نگار بھی آپریشن ’راہِ راست‘ کو کام یاب قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ فضل اللہ اور مسلم خان اپنی جگہ موجود ہیں ‘ آپریشن نے قوم کو ان کی لاشیں تو نہیں دیں البتہ معصوم اہل سوات و بونیر کی اجتماعی قبریں دے دیں۔ اس قوم کے پاس ہر چیز تھی۔ کیا نہیں ہے اس ملک بس کمی تھی تو اجتماعی قبروں کی۔ ’راہ راست‘  نے یہ اجتماعی قبریں‘ براہ راست قوم کو دے دیں اب کیا ہوا اگر فضل اللہ اینڈ کمپنی کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ بعید نہیں کہ وہ بھی ان کے ساتھ محفوظ مقام پر نکل گئے ہوں جن کے یہ ساتھی تھے۔