Archive for اگست, 2010

Articles

بے چارے ترجمان

In فوج,میڈیا,پاکستان on اگست 30, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , , , , ,

تحریر :علی خان
مصیبت تو ان بے چاروں کی ہے جن کے کاندھوں پر ترجمانی کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ پارٹی کے سربراہ کچھ بھی کہہ کر الگ جا کھڑے ہوتے ہیں جیسے محاورہ ہے کہ ”بھُس میں چنگی ڈال بی جمالو دور کھڑی۔“ چنگی میں غالباً چ کے نیچے زیر ہے اور یہ چنگاری کی نصفیر ہوسکتی ہے ورنہ پیش والی چنگی پر تو محصول وصول کیا جاتا ہے اور اب یہ چنگیاں جگہ جگہ لگی ہوئی ہیں، ہر آدمی اپنی زندگی کا محصول ادا کررہا ہے۔ لیکن بی جمالو بھی بھُس ہوگا تو اس میں چنگی ڈالے گی۔ اسے چھوڑیے کہ بی جمالو کون ہے، سب جانتے ہیں، مگر یہ بھُس کیا ہے؟ سوچیے۔
ترجمانوں پر بڑا ستم ہے، اور جب یہ ترجمانی بی بی فوزیہ وہاب کی طرف سے ہو تو اچھے خاصے کامیڈی سرکس کا مزہ آجاتا ہے۔ وضاحت کا بوجھ فیصل رضا عابدی پر بھی ڈال دیا جاتا ہے مگر وہ ہوشیار آدمی ہیں، جارحانہ انداز اختیار کرکے صاف بچ نکلتے ہیں۔ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر کا تو ایک ہی کام ہے کہ ہر خبر کی تردید کردی جائے خواہ وہ جوتا اُچھالنے کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو۔ موبائل پر ایک ایس ایم ایس ملا ہے کہ ایک رہنما نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ ان کی پریس کانفرنس مسجد میں ہوا کرے گی سبب اس کا یہ کہ وہاں لوگ جوتے اُتار کر داخل ہوتے ہیں۔ شاید یہ اعلان من گھڑت ہو ورنہ تو مسجدیں بھی خود کش حملہ آوروں سے محفوظ نہیں اور یہ جوتے سے زیادہ خطرناک ہے۔ پھر جن کو اپنے جوتوں کا تحفظ درکار ہوتا ہے وہ مسجد میں بھی جوتے بغل میں دبا کر داخل ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا، میاں جوتے اپنے سامنے رکھنے سے نماز نہیں ہوتی۔ جواب ملا جوتے پیچھے رکھنے سے جوتے نہیں رہتے۔ اس کا تجربہ سبھی کو ہوگا بشرطیکہ مسجد میں گئے ہوں۔ ایک شاعر نے کہا تھا کہ:
اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہوشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
برمنگھم کے ہال میں داخل ہونے والا پی پی کا کارکن شمیم خان بھی دیکھنے میں تو خضر صورت ہی لگا مگر اسے خود ننگے پاﺅں گھر جانا پڑا۔ سنا ہے کہ اس کے جوتے ضبط کرلیے گئے تھے۔ جوتا ولایتی تھا، ہدف دیسی،اس سانحہ پر بھی ترجمانوں نے کئی وضاحتیں کیں اور ہر وضاحت دوسری سے مختلف۔ لیکن لوگ امریکی صدر بش کے کلب میں شمولیت پر فخر کرتے پائے گئے ہیں۔
آج کل سب سے زیادہ مشکل میں متحدہ قومی موومنٹ کی پوری ٹیم ہے۔ بوجھ وہ آن گرا ہے کہ اٹھائے نہ بنے۔ ہمت کی داد نہ دینا نا انصافی ہوگی۔ ہمیں ایک ترجمان کا قصہ یاد آگیا۔ ایک بھائی کو شیخیاں مارنے کی عادت تھی۔ پہلے تو ایسے لوگ کم کم ہوتے تھے اور جو ہوتے تھے وہ میاں خوجی کی طرح افسانوی کردار بن جاتے تھے، اب ایسے لوگ سیاست میں آجاتے ہیں۔ تووہ صاحب اپنے شکار کے قصے سنا رہے تھے۔ کہنے لگے ایک ہرن پر اس طرح گولی چلائی کہ اس کے کُھر سے ہوتی ہوئی سر سے نکل گئی۔ سننے والے نے تعجب کا اظہار کیا تو مصاحب خاص نے ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ہرن اس وقت اپنے کُھر سے سر کھجا رہا تھا۔
اس وقت بہت سے لوگ اپنے کُھروں سے سر کھجا رہے ہیں۔ الطاف بھائی تو شوشا چھوڑ کر الگ جا کھڑے ہوئے۔ ان کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں آرہی لیکن متحدہ کا ہر نمایاں اور غیر نمایاں شخص وضاحتیں کرتا پھر رہا ہے۔ چینل والے بھی کسی نہ کسی کو پکڑ لیتے ہیں اور بال نہ ہو تو کھال اُتار رہے ہیں، دوسروں کے لیے اپنی کھال بچانا دشوار ہورہا ہے۔
ملک جس وقت سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا، الطاف بھائی نے اس پانی میں مارشل لا کی کشتی اتار دی۔ 22 اگست کو ”اپنی قوم“ سے خطاب کرتے ہوئے وہ فوج کو مارشل لا لگانے کی دعوت دے بیٹھے۔ پانی ساکت تو نہیں تھا لیکن بھائی نے جو بھاری پتھر پھینکا اس سے نئے بھنور اُٹھ رہے ہیں، نئے دائرے بن رہے ہیں اور ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ ان کے ترجمان رضا ہارون سے لے کر ڈاکٹر فاروق ستار تک اور حیدر عباس رضوی سے بابر غوری تک بھائی کے ایک ایک جملے اور نکتے کی تفسیر بیان کررہے ہیں، سمجھا رہے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں یہ ہے۔ لیکن بھائی کا خطاب ریکارڈ پر ہے جو بار بار بجایا جارہا ہے۔یہ ہز مسٹرز وائس ہے کہ انکار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ الطاف حسین نے واضح طور پر کہا ہے کہ محب وطن جرنیل اگر مارشل لا جیسا قدم اٹھائیں گے تو وہ اور پوری ایم کیو ایم ان کی حمایت کرے گی۔ یہ صاف صاف مارشل لا لگانے کی دعوت ہے۔ مگر ترجمان چونکہ، چنانچہ، اگر‘ مگر کررہے ہیں۔ الطاف بھائی کی پارٹی مرکز اور صوبہ سندھ میں اقتدار میں شریک ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ خود وزیراعظم یا الطاف بھائی کے دوست آصف علی زرداری ان سے براہ راست پوچھتے کہ اس پردہ زنگاری میںکون ہے اور اقتدار میں رہتے ہوئے جنرلوں کو مارشل لا لگانے کی دعوت دینے کا مقصد کیا ہے۔ مگر وزیر اعظم تو اس پر تعجب کا اظہار کرکے رہ گئے۔ قمر زمان کائرہ نے بھی کھل کر مذمت نہیں کی اور ایوان صدر میں خاموشی طاری ہے۔ بعض باتوں کا شافی و کافی جواب بے شک ”باشد خموشی“ ہوتا ہے مگر کبھی کبھی خاموشی نیم رضا کے مصداق بھی ہوتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ الطاف حسین نے بلا سوچے سمجھے ایک بات کہہ دی۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں خوب سوچ سمجھ کر اور اس کے نتائج کا جائزہ لے کر کہتے ہیں۔ خطاب سے پہلے کئی دن تک لکھ کراس کی مشق کرتے ہیں۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری سے یہ جملے منتخب کیے ہیں کہ ” محب وطن“ جرنیل آگے بڑھیں اور جاگیرداروں، وڈیروں کے خلاف مارشل لا جیسے اقدامات کریں۔ اس میں کئی نکات وضاحت طلب ہیں جن کی تفسیر ان کے حواریوں سے بھی نہیں بن پارہی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بدعنوان جرنیلوں کی مذمت کی اور صرف محب وطن جرنیلوں کو ہلا شیری دیا ہے۔ لیکن جو بھی جرنیل مارشل لا لگائے یا ماضی میں لگایا اُسے محب وطن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حب الوطنی یہ نہیں کہ ایم کیو ایم کی آنکھ بند کرکے پشت پناہی کی جائے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی تخلیق میں بھی فوج کا ہاتھ تھا۔ آئی ایس آئی کے ایک ڈی جی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایم کیو ایم، جئے سندھ تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی۔ لیکن پر، پرزے نکالتے ہی الطاف حسین نے سب سے پہلے جی ایم سید کے در پر حاضری دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بنگلہ دیش کی تاریخ نہیں دوہرائیں گے جب عوام نے پاک فوج کا ساتھ دیا اور فوج ان کو چھوڑ کر الگ ہوگئی۔ اب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ 1971ءمیں الطاف حسین گلیوں میں کھیلتے ہوں گے۔ بنگلہ دیش کی تاریخ سے ان کا کیا واسطہ۔ وہاں تو متحدہ پاکستان کے لیے البدر اور الشمس قربانیاں دے رہی تھی جو آج بھی الطاف بھائی کے نشانے پر ہے کہ حب الوطنی کا مظاہرہ کیوں کیا۔ بہرحال یہ ریکارڈ پر ہے کہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں فوج نے ایم کیو ایم بنوائی تاکہ کراچی سے محب وطن جماعتوں کا اثر، رسوخ ختم کیا جائے۔ پھر اسی فوج نے 1992ءمیں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا۔ الطاف حسین طویل عرصہ تک فوج کو بُرا، بھلا کہتے رہے۔ 1988ءکے انتخابات میں الطاف حسین نے فوج کے تعاون سے قائم ہونے والی بے نظیر حکومت سے اتحاد کیا اور اسی اشارے پر اتحاد سے باہر آکر نواز شریف سے تعاون کیا۔ وہ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ انہیں ایک ایجنسی نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا اور انہوں نے کامل اطاعت کا مظاہرہ کیا، غالباً وہ محب وطن جرنیل تھے۔ پھر متحدہ کو جنرل پرویز مشرف جیسے محب وطن مل گئے اور کہا جانے لگا کہ جنرل پرویز مشرف اسلام آباد میں متحدہ کے سیکٹر انچارج ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ”مارشل لا جیسے اقدامات“ کیا ہوتے ہیں؟ مارشل لا تو مارشل لا ہی ہوتا ہے۔ شاید الطاف حسین کے ذہن میں جنرل پرویز مشرف کے اقدامات تھے جنہوں نے اقتدار پر قبضہ تو کیا مگر مارشل لا کا اعلان نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو صدر منتخب کروانے کے بعد بھی آرمی چیف کی حیثیت سے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو گھر بھیج کر عملاً مارشل لا لگا دیا۔ الطاف نے کہا ہے کہ محب وطن جرنیل مارشل لا جیسا اقدام، جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف کریں۔ عجیب منطق ہے! متحدہ کی پوری ٹیم اس بات کا جواب نہیں دے پارہی کہ یہ مارشل لا جیسے اقدامات کیا ہوتے ہیں اور ایک سول حکومت کے ہوتے ہوئے فوج کیسے مارشل لائی اقدامات کرے گی؟ حیدر عباس رضوی مصر ہیں کہ الطاف بھائی نے مارشل لا کو دعوت نہیں دی، ایم کیو ایم جمہوریت پسند جماعت ہے مگر جاگیردارانہ جمہوریت کو جمہوریت نہیں سمجھتی۔ کیاخوب۔ اس کے باوجود وہ اس حکومت کا حصہ ہے جو متحدہ کے نزدیک جمہوری نہیں ہے۔ اس پر الطاف حسین ہی کا جملہ یاد آتا ہے جو وہ اکثر لہک لہک کر سناتے ہیں کہ ”میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو“۔ جب تک اقتدار کا میٹھا مل رہا ہے تب تک اس غیر جمہوری حکومت کا حصہ بننے میں کوئی ہرج نہیں۔
اس کی بھی کوئی وضاحت نہیں کہ محب وطن جنرلوں کی پہچان کیا ہے، فوج میں ان کی تعداد کتنی ہے اور باقی اگر محب وطن نہیں تو ان کا ردعمل کیا ہوگا۔ الطاف بھائی کے کاﺅ بوائز بڑی مشکل میں ہیں، الطاف حسین کے بیان سے لگتا ہے کہ ان کے مخاطب جنرل اشفاق پرویز کیانی ہیں جنہوں نے این آر او کی تشکیل میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے ضامن کا کردار ادا کیا۔ وہ این آر او جس کی وجہ سے متحدہ پر سیکڑوں فوجداری مقدمات ختم ہوگئے تھے۔ اب میاں نواز شریف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف سے کیے گئے خفیہ سمجھوتے کی وضاحت کریں جس کے تحت وہ سعودی عرب جاسکے۔ ضرور وضاحت طلب کرنی چاہیے لیکن جنرل پرویز مشرف نے جو این آر او جاری کیا تھا اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں متحدہ سب سے آگے تھی۔ الطاف حسین پر اب بھی مقدمات قائم ہیں، انہیں عدالت سے مفرور قرار دیا گیا۔ ان کے واپس نہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے اور یہ حقیقت بھی نظر میں رہے کہ الطاف حسین پر کئی مقدمات قائم ہونے کے باوجود وہ فوج کی مدد ہی سے ملک سے باہر گئے تھے۔ جہاں انہوں نے برطانوی شہریت حاصل کرکے اپنی منزل پالی اور کارکن کہتے رہ گئے کہ ہم کو منزل نہیں، رہنما چاہیے۔ کیا احمقانہ بات ہے۔ رہنما منزل کی طرف ہی تو رہنمائی کرتا ہے اور یہ رہنما سب کو چھوڑ چھاڑ کر برطانیہ کو اپنی منزل قرار دے کر بیٹھ رہا۔ اب مارشل لا لگانے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ الطاف بھائی نے جو کچھ کہا بالکل صحیح کہا اور ان کے ایک ایک لفظ کا دفاع کریں گے۔ الطاف بھائی نے اپنے کارکنوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے۔ ایسے کارکن بھی تھے جنہوں نے بھائی کے حکم پر نماز کی نیت توڑ دی تھی کہ اللہ کو تو بعد میں بھی منایا جاسکتا ہے، وہ بخش دینے والا ہے۔ ایک زمانے میں الطاف بھائی کی ولایت کا خوب چرچا ہوا تھا اور وہ شجر وحجر میں جلوہ گر ہورہے تھے۔ ایک مسجد کے سلیب پر ان کی شبیہہ نمودار ہوئی تو صحن سے وہ سلیب ہی اکھاڑ کر الطاف بھائی کے دروازے پر رکھ دیا گیا۔ جس کو ایسے معتقد میسر ہوں وہ ہواﺅں میں تو اُڑے گا۔ مگر اب ان کی ایسی کرامتوں کے چرچے بند ہوگئے ہیں۔ شاید کارکنوں کو بھی اندازہ ہوگیا ہے۔ تاہم پیر صاحب کے اشارے پر آج بھی کراچی میں بہت کچھ ہوجاتا ہے۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ الطاف حسین نے فوج کو مارشل لا لگانے کی دعوت کیوں دی ہے۔ یہ بے مقصد نہیں ہے۔ اس کا فوری فائدہ تو یہ ہوا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بار بار متحدہ کا جو نام آرہا تھا وہ اس نئی بحث کے سیلاب میں کنارے لگ گیا ہے۔ اب سب کی توجہ مارشل لا کے حوالے سے الطاف حسین کی دعوت پر مرکوز ہے۔ لیکن کیا صرف یہی ایک بات ہے؟ یہ بھی نظر میں رہے کہ الطاف حسین نے فوج کو مارشل لا لگانے کی دعوت لندن میں امریکی سفارت کار سے تین گھنٹے کی ملاقات کے بعد دی ہے۔ جنرل کیانی کو مارشل لا کی کھائی میں دھکیلنے کے مشورے کے پیچھے اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایک تجزیہ یہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث متحدہ کے کارکنوں پر فوج کی ایجنسیوں نے ہاتھ ڈالا ہے، پولیس اس کی جرات نہیں کرتی۔ تو یہ فوج کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ ہم پر ہاتھ نہ ڈالا جائے، ہم آپ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ مگر کیا فوج ان کا مشورہ قبول کرلے گی۔ ایسے حالات نہیں ہیں۔ خزانہ خالی ہے، ملک سیلاب کی آفت میں گھرا ہوا ہے، مستقبل معاشی اعتبار سے بحران میں مبتلا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ایسے میں فوج کبھی بھی مارشل لا کی گھنٹی اپنے گلے میں نہیں باندھے گی۔ اس کی خواہش یہی ہوگی کہ ان مسائل سے سول حکومت ہی نمٹے۔ الطاف بھائی کے مشورے پر فوج اس کھائی میں کودنے کو تیار نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج ہمیشہ سے اقتدار میں رہی ہے، کبھی آکے منظر عام پر، کبھی ہٹ کے منظر عام سے۔
اب اگر یہ کہا جائے کہ متحدہ ایسی حکومت سے الگ کیوں نہیں ہوجاتی جس پر جاگیرداروں کا قبضہ ہے اور جو جمہوری بھی نہیں تو جواب آئیں، بائیں، شائیں ہوتا ہے۔ بحث چل رہی ہے، تحاریک استحقاق اور تحاریک التوا جمع کرائی جاچکی ہیں۔ لوگ سیلاب میں ڈوب رہے ہیں، کھانے پینے کو، نہ رہنے کو۔ لیکن دانشوروں کو بحث کے لیے ایک اور عیاشی فراہم کردی گئی ہے۔ کیا ضرور ی ہے کہ ہر بات کا جواب دیا جائے؟ کسی کا شعر ہے:
تامرد سخن ناگفة باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
یعنی جب تک کوئی منہ نہ کھولے، اس کے عیب و ہنر پوشیدہ رہتے ہیں۔ الطاف بھائی میں خوبی یہ ہے کہ وہ سخن طرازی، سخن گستری سے گریز نہیں کرتے۔ اس طرح سب کچھ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ مگر پھر حواریوں کی مشکل آجاتی ہے کہ پردہ پوشی کیسے کی جائے، عیب کو ہنر کیوں کر ثابت کیا جائے۔ بہر حال لوگ مقابلہ تو خوب کررہے ہیں لیکن مارشل لا جیسے اقدامات کی وضاحت مشکل ہوگئی ہے۔ جولیس سیزر پر حملہ کرنے والوں میں اس کا قریبی دوست بروٹس بھی شامل تھا۔ جب اس نے بھی پیٹھ میں خنجر گھونپا تو جوبس سیزر نے بڑی حیرت سے کہا YOU TOO BRUTUS ۔ جنرل کیانی نے کیا کہا ہوگا، یہ ہماری سماعتوں تک نہیں پہنچ سکا۔

Articles

یا پیر دستگیر

In فوج,پاکستان on اگست 26, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , ,

بشکریہ روزنامہ اُمت کراچی

Articles

ایم کیو ایم : عوامی مینڈیٹ کی حقیقت

In فوج,پاکستان on اگست 26, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , , ,

برطانوی شہریت کے حامل قائد ِتحریک کے بیان کے بعد سے ٹی وی پروگراموں اور اخبارات کے صفحات پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ رکتا د کھائی نہیں دے رہا۔ ان ماہرانہ تجزیوں میں الطاف حسین کے بیان کے منظر، پس منظر، ٹائمنگ، اثرات، امکانات اور خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کیا الطاف حسین نے یہ بیان امریکا اور فوج کی آشیرواد سے دیا ہے؟ کیا ملک میں مارشل لا لگنے والا ہے؟ کیا یہ مارشل لا کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے؟ کیا تبدیلی کا وقت آچکا ہے؟ کیا الطاف حسین کو احساس ہوگیا ہے کہ اپنی من مانی کے لیے سیاسی سے زیادہ پرویزمشرف کے دور کی طرح فوجی حکومت ان کے لیے زیادہ بہتر ہے؟ یہ اور اسی طرح کے کئی اور سوالات اُٹھائے جارہے ہیں، ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے کو فوج کا ساتھی ہونے کا طعنہ دیا جارہا ہے۔ کچھ صحافی اور سیاست دان جرات ِاظہار کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے بپھرے رہنماﺅں سے یہ سوال بھی کرتے نظر آرہے ہیں کہ اگر 63 برسوں میں سیاست دانوں نے بدانتظامی اور بدعنوانی کی تاریخ رقم کی ہے تو فوجی مارشل لاﺅں نے بھی اس قوم کو آگے بڑھنے نہیں دیا، بلکہ امن و امان کی خراب صورت حال اور زرداری جیسے لوگوں کی حکومت بھی فوج کی دین ہے۔ یہ سب سوال اہم ہیں، لیکن اس ساری بحث کے دوران ایک اہم نکتے کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ برطانوی شہریت والے پاکستانی قائد ِتحریک کا جو بیان اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے اس کے مطابق انہوں نے ”محب وطن“ فوجی جرنیلوں کی طرف سے جاگیرداروں اور کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف مارشل لا جیسے اقدام کی حمایت کا اعلان کیا اور امریکا سے بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بجائے ”عوام“ کا ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ الطاف حسین کے بیان میں عوام سے مراد ”ایم کیو ایم“ والے ہیں۔ فوجی جرنیلوں سے فوجی اقدام اور امریکا سے اس کی حمایت کے مطالبے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ الطاف حسین اقتدار میں آنے کے لیے ان دونوں کی منظوری ناگزیر سمجھتے ہیں۔ اس کو راقم الحروف کی توضیح سمجھا جاسکتا ہے، اس لیے ہم یہاں چیخنے چلاّنے کے لیے مشہور ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کا وہ جملہ من وعن نقل کرتے ہیں جو انہوں نے ٹی وی پروگرام میں ادا کیا اور جس میں انہوں نے الطاف حسین کے اس نکتے کی تشریح کی ہے۔ انہوں نے پروگرام کے شریک مہمان احسن اقبال اور پروگرام کے میزبان سے پوچھا کہ آج تک کون سی حکومت فوج اور امریکا کی مرضی کے بغیر آئی ہے؟ انہوں نے سوال کیا کہ ”کیا پاکستان میں کوئی فوج اور امریکا کے بغیر انتخاب جیت سکتا ہے؟“ اور پھر خود ہی جواب دیا کہ نہیں۔ایم کیو ایم کی قیادت نے نہ صرف اس بات کا اعتراف کیا کہ ایم کیو ایم خود فوج اور امریکا کے بل بوتے پر انتخابات جیتتی آئی ہے بلکہ دیگر جماعتوں پر بھی الزام لگایا کہ اُن کا ووٹ بینک دراصل عوامی نہیں بلکہ فوج اور امریکا کی مرضی ہے۔ ووٹ بینک کے تذکرے پر ضمنی بات کرتے چلیں کہ سسی پلیجو کے حلقے کا ایک آدمی ٹی وی غالباً ”سی این بی سی“ پر گلہ کرتا پایا گیا کہ میں نے انہیں پورے تین ووٹ ڈالے ہیں لیکن آج حال یہ ہے کہ آٹے کے تینوں ٹرک وہ اپنے گھر لے گئیں اور ہمیں پوچھا تک نہیں۔ اس پر ساتھ کھڑے دوسرے شخص نے کہا کہ میں نے تو 5 ڈالے تھے جس کا اب مجھے افسوس ہے۔ سسی کے حلقے شاید عوام ہوں، لیکن کراچی میں یہ خدمت حمایتی یا عوام نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے کارکن انجام دیتے ہیں، اور پھر جہاں کُل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ہزار‘ بارہ سو ہوتی ہے وہاں بیلٹ باکسوں سے تین، چار ہزار ووٹ نکلتے ہیں۔جیسا کہ عرض کیا، کراچی کے ”ووٹ بینک“ کی مالک ایم کیو ایم کے قائد کے بیان کے بعد مارشل لا کے بارے میں تو بات ہورہی ہے لیکن کوئی اس اعتراف کے تناظر میں الیکشن کمیشن کے ادارے اور اس کے کردار پر بحث نہیں کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ الطاف حسین نے بیان دیا نہیں بلکہ اُن سے دلوایا گیا ہے تاکہ فوج کی طرف سے ممکنہ شب خون کے بارے میں رسک اسسمنٹ کیا جاسکے۔ معروف میزبان اور صحافی کامران خان کا اس موضوع پر اِسی وقت ہی سروے کرنا بھی معنی خیز اور اسی رسک اسسمنٹ مشق کا حصہ معلوم ہوتا ہے، اس لیے اس پر تمام سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار نہایت ضروری ہے تاکہ فوج کو پیغام مل سکے کہ اب کی بار اس کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم نہیں ہوں گی، لیکن اتنا ہی ضروری اس سوال کا جواب تلاش کرنا بھی ہے کہ اگر فوج اور امریکا ہی کو پارلیمنٹ تشکیل دینا ہے تو پھر جمہوریت اور انتخابات کا ڈراما ہی کیوں؟ کیوں نا اس ملک کی اصل حکمران فوج اور اس کا آقا امریکا فیصلہ کرلیں کہ کس کس کو پارلیمنٹ کا ممبر بننا ہے، کون وزیراعظم اور کون صدر کے منصب پر فائز ہوگا؟ پروگرام میں موجود احسن اقبال کا فرمانا تھا کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت بھی فوج کی نامزد کردہ ہے۔ حکومتیں تو ساری فوج کی نامزد کی ہوئی ہیں، لیکن احسن اقبال نوازشریف کی بڑے مینڈیٹ والی حکومت کو فوج اور امریکا کی نامزد کردہ حکومت نہیں کہیں گی، حالانکہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو یا مسلم لیگ ن یا ق کی…. سب کی پالیسیاں واشنگٹن کی خواہش کی عکاس رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے اعتراف کے بعد اُن لوگوں کے منہ بند ہوجانے چاہئیں جو جماعت اسلامی پر فوج اور امریکا سے تعلق کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ جماعت اسلامی کا ملک کی سب سے بڑی اسٹریٹ پاور ہونے کے باوجود انتخابی کامیابی حاصل نہ کرنا اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ جماعت اسلامی جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کے علاوہ فوجی کارپوریٹوکریسی کے عوام مخالف اقدامات کو ختم کرکے وطنِ عزیز کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی اسلامی معاشرہ بنانے کی خواہاں واحد محب وطن سیاسی جماعت ہے، اور اس کی خواہش کو نہ تو امریکا پورا ہوتا دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی ملکی دفاع کے اپنے اصل کام کو چھوڑ کر اقتدار پر براجمان ہونے کے خواہشمند فوجی جرنیلوں کو یہ منظور ہے۔ صدر زرداری نے دو دن کے توقف کے بعد زبان کھولی تو فرمایا کہ فوجی بغاوت کا خطرہ نہیں۔ اس کی وجہ ”اچھی نیت والے شخص“ کو قرار دیا، جو ان کے خیال میں حکومت گرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج کی کمان سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے ماتحتوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ باقاعدہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے دینے والے جمہوریت پسند جنرل پرویزکیانی نے الطاف حسین کے بیان کو کئی دن گزرنے کے باوجود ایک بیان جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی جس سے یہ ساری بحث ختم ہوجاتی؟ کیا آئی ایس پی آر کی خاموشی معنی خیز نہیں؟ کیا اس سے یہ تاثر درست ثابت نہیں ہوتا کہ اس وقت مارشل لا کی باتیں کرنے والے فوج ہی کی ترجمانی کررہے ہیں!الطاف حسین، پیر پگارا اور عمران خان اقتدار پانے کے لیے فوج کی ترجمانی کریں لیکن میڈیا کا فرض ہے کہ وہ سچ کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکا کی مرضی سے فوج کے کاندھوں پر سوار ہوکرآنے والوں کا اصل کردار عوام کے سامنے کھول کر رکھ دے تاکہ ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنے والوں کو شکست دے کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا جاسکے۔

Articles

اے این پی کے ہاتھوں پختون روایات کا قتل

In حقوق انسانی,دہشت گردی on اگست 23, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

یہ مضمون سچائی کے علمبردار لیکن پاکستانی عوام کے جانب دار واحد پاکستانی انگریزی روزنامے "فرنٹیر پوسٹ” کے لیے لکھا گیا تھا۔ فرنٹیر پوسٹ اس وقت ظلم و جبر اور کرپشن کے خلاف جہاد میں مصروف ہے ، اخبار نے گزشتہ دنوں کراچی کے حالات پر بہت ہی بے باک اداریے لکھے۔ میں نے ذرا نسبتا سخت تحریر لکھ کر اخبار کو ارسال کردی جو تاحال نہیں چھپ سکی ہے۔ اس لیے میں نے اسے اپنے انگریزی بلاگ پر پوسٹ کردیا اور اس کا اردو ترجمہ ضروری اضافے کے ساتھ روزنامہ جسارت کو ارسال کردیا جس نے اسے آج کے ادارتی صفحے پر جگہ دے دی ۔ بلاگرز دوستوں کے لیے مضمون یہاں پیش خدمت ہے جس میں  ایم کیوایم اور اے این پی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال پاکستانیوں کے مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
………………………………..
کراچی میں باچا خان کے پیروکاروں کے طرزعمل کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے سرحدی گاندھی کی اہنسا کی تعلیمات کو کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف صدیوں پر محیط پختون روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے بلکہ اپنی پارٹی کے بانی خان عبدالغفار خان عرف باچا خان کے نظریے کو بھی دفن کردیا ہے۔
کراچی کو اس وقت ٹارگٹ کلنگ کی بلا کا سامنا ہے جبکہ اس کے رہنے والے اس خونیں کھیل کے تین بنیادی کھلاڑیوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ شہر کے دعویداروں میں متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی شامل ہیں۔ جتنا بڑا دعوے دار، اہلِ کراچی کے لیے وہ اتنا ہی بڑا عذاب۔ ان تینوں گروہوں نے اس کو اپنا حق سمجھ لیا ہے کہ اپنے کسی رہنماءیا کارکن کی ہلاکت کا انتقام اس بدقسمت شہر کے باسیوں کو خون میں نہلاکر اور ان پر زندگیاں تنگ کرکے لیں۔ جب بھی کسی گروہ کا کوئی رہنما یا کارکن مرتا ہے، کراچی میں آگ و خون کا کھیل شروع ہوجاتا ہے جس میں بیش قیمت جانوں کے ضیاع کے علاوہ شہریوں کو ان کی گاڑیوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ کئی دنوں کی اذیت اور مرنے کا خوف اس کے علاوہ ہے۔ شہری ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں۔ موت کے رقص کی سنگینی کا ادراک رکھتے ہوئے دکاندار اپنی دکانوں کے شٹر گرانے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے، اور جو اس کے برعکس کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے۔ اسی طرح گاڑیاں چلانے والے بھی سڑک سے غائب ہوجانے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ جتنی بڑی شخصیت، اہلِ کراچی کے لیے اتنا بڑا امتحان۔ لیکن اس پر تو سب لکھ رہے ہیں۔ میں ان باتوں کو اُجاگر نہیں کرنا چاہتا جن پر باقی لوگ لکھ رہے ہوں۔ لوگوں کا مرنا افسوسناک تو ہے لیکن میرے نزدیک تشویش ناک نہیں۔
مجھے جو چیز ڈرا رہی ہے وہ مخالف پارٹی سے متعلق لسانی اکائی پر حملہ ہے جو الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کا وتیرہ رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے ممبر صوبائی اسمبلی رضا حیدر کی ہلاکت کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نے اس روایت کو زندہ رکھا اور پشتو زبان بولنے والے درجنوں معصوم پختونوں کو بے دردی سے قتل کردیا جن کا عوامی نیشنل پارٹی سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ ان میں اکثر مزدور تھے جو دن بھر مشقت کرکے اپنے اور گھر والوں کے پیٹ کا دوزخ بھرتے تھے، یا پھر گلی گلی کچرا چننے والے۔ حتیٰ کہ بچوں تک کو نہیں بخشا گیا۔
اب کی بار عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے سندھ کے سالار عبیداللہ یوسف زئی کی ہلاکت پر بالکل متحدہ کی دہشت گردی کا ایکشن ری پلے شہر کراچی والوں کو دکھایا اور اردو بولنے والوں کو بلاامتیاز ہراساں کرنا شروع کردیا۔ لسانی یا سیاسی دہشت گردی افسوسناک ہے لیکن ایک چیز اور بھی افسوس ناک ہے، اور وہ ہے اہنسا کی موت…. جو کبھی باچا خان کے منجن کا ٹریڈ مارک ہوا کرتا تھا۔
ایس شیخ ایک نجی ٹی وی چینل میں ملازمت کرتے ہیں۔ عبیداللہ کے قتل کے بعد وہ تین دن تک دفتر نہیں جاسکے، کیوں کہ آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع دفتر جانے کے لیے انہیں بنارس کے باچا خان چوک سے ہوکر گزرنا پڑتا۔ جی ہاں وہی چوک جہاں سے 2بچوں کے باپ آصف اقبال نے گزرنے کی جرا¿ت کی تھی اور نتیجتاً اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔آصف اقبال کو ہنگاموں کے دوران دو دن تک کمپنی نہ جانے پر برطرفی کا الٹی میٹم ملا تھا۔ اورنگی علی گڑھ کے رہائشی ایس شیخ آصف اقبال کی طرح نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ نہیں بننا چاہتے تھے اس لیے گھر پر ٹکے رہے۔ شیخ صاحب اگرچہ اردو بولنے والے ہیں لیکن وہ عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ایک قدر مشترک رکھتے ہیں۔ اے این پی کے کارکنوں کی طرح ایم کیو ایم سے ان کی نفرت کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ پختون روایات کے بہت بڑے مداح رہے ہیں، لیکن لوگوں کی حفاظت کے ضامن پختون آج شیخ صاحب جیسے لوگوں کی زندگیوں کے لیے بھی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ یقینا تمام پختون نہیں مگر وہ جو یا تو اے این پی کے کارکن ہیں یا پھر اس جماعت کے منفی پروپیگنڈے سے گمراہ ہوچکے ہیں۔
پختون ہونے کے ناتے میرے لیے لوگوں کی جانوں کو خطرہ تشویش ناک ہے اور اس سے بڑھ کر میرے لیے فکرکی بات وہ شاندار پختون روایات ہیں جن کی موت آج پختونوں کے حقوق کے عَلم برداروں کے ہاتھوں ہورہی ہے۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پختونوں اپنے گھر آئے اپنے دشمنوں کو بھی کبھی نقصان نہیں پہنچاتے چاہے وہ جان بوجھ کر وہاں سے گزرے ہوں یا خودچل کر آئے ہوں۔ پختون قوم نے کبھی معصوم لوگوں کو قتل نہیں کیا لیکن لینڈیا مافیا پرمشتمل عوامی نیشنل پارٹی سندھ یا تو پختون تاریخ بھول گئی ہے یا پھر ایم کیوایم کی طرف سے معصوم پختونوں کے بلاامتیاز قتل عام کے فلسفہ سے متاثر ہوئی ہے جس نے اردو اسپیکنگ علاقوں میں مزدوری کرنے والے پختونوں پر زندگی تنگ کردی ہے۔
اسی طرح اب اے این پی کے حامیوں نے اردو بولنے والوں کے لیے بنارس، کٹی پہاڑی ، قصبہ سمیت دیگر کئی علاقوں سے گزرنا دشوار کردیا ہے۔اے این پی رہنما کی ہلاکت کے فوراً بعد نیوز چینلز نے اسلحہ سے لوگوں کو خوف زدہ کرنے والے این اے پی کے کارکنوں کی فوٹیج دکھانا شروع کردیے۔ ایسے میںکون ان علاقوں سے گزرنے کی ہمت کرسکے گا؟جسارت کی خبر کے مطابق اورنگی ٹاﺅن کے لاکھوں افراد کی نوکریاں داﺅ پر لگی ہوئی ہیں۔
اور روزنامہ اُمت کے مطابق اورنگی ٹاﺅن میں لوگوں نے متحدہ اور اے این پی مخالف ریلی نکالی ہے جس پر پولیس لاٹھی چارج کے نتیجے میں 20افراد زخمی ہوئے ہیں۔ پختونوں کو بھی اپنے علاقوں میں پاکستانیوں کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے والے ان دہشت گردوں کے خلاف ریلی نکالنی چاہیے۔ عام لوگوں کے مرنے سے نفرت پھیلتی ہے اور اس طرح قوم پرست جماعتوں کو ایندھن فراہم ہوتی ہے۔ کچھ کو یہ کھیل سمجھ میں آگئی ہے باقیوں کو بھی نکل آنا چاہیے تاکہ کراچی میں نفرت اور تقسیم کی سیاست کو دفن کرکے اسے دوبارہ رشنیوں کا شہر بنایا جائے۔

Articles

شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

In فوج,حقوق انسانی,دہشت گردی on اگست 23, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

یہ مضمون "جسارت میگزین” کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے جس میں امریکی دلالوں کو ایکسپوز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مضمون کو گرافک ویو میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
………………………………………………………
 امریکی دوستی کے بھیانک نتائج
 سیلاب زدگان کی مدد میں امریکا رکاوٹ بن گیا
امریکیوں کو بچانے کے لیے جعفرآباد کو ڈبو دیا گیا
 شہباز ائر بیس پاکستانیوں کو بچانے کے لیے استعمال کرنے سے امریکیوں نے روک دیا

………………………………………………………

  سیلاب کی آمد کے ساتھ ہی قومی اخبارات میں شہ سرخیوںکے طور پر خبریں شائع ہونا شروع ہوگئی ہیں کہ امریکا سیلاب میں پھنسے ہوئے افراد کو نکالنے اور ان کی مالی مدد میں پیش پیش ہے۔ برسات میں تاریخی مقدار میں پانی برسنے کے بعد ڈالروں کی ’بارش‘ کرکے افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی وائسرائے رچرڈ ہالبروک نے یہ طنز کیا کہ امریکا دل کھول کر مدد کررہا ہے‘ پاکستان کے دوست ایران اور چین کہاں ہیں؟ یعنی دوستوں نے ساتھ چھوڑدیا لیکن امریکا تن تنہا پاکستانی متاثرینِ سیلاب کے غم میں گھلا جارہا ہے۔گزشتہ روز تقریباً تمام اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ امریکا سعودی عرب کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا مددگار ملک بن گیا ہے۔ جمعہ 20 اگست کو دیگر اخبارات کے علاوہ دائیں بازو کے علم بردار اخبارات نے بھی اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا کہ امریکا کیری لوگر بل کے علاوہ 700 ملین ڈالر پاکستان کو دے گا۔ یہ ’خوشخبری‘ کیری لوگر بل کے شریک خالق سینیٹر جان کیری نے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے ساتھ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سنائی۔ ان خبروں کو پڑھنے کے بعد قارئین کو یہ سمجھنے پر موردالزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا کہ صلیبی لشکر کا سرخیل امریکا پاکستان اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دوست ہے۔ جاپان پر ایٹم بم گرانے کی تاریخی دہشت گردی ہو یا شمالی کوریا کے خلاف ناجائز جنگ‘ عراق کے مسلمانوں کو خون میں نہلانے کا عمل ہو یا افغانستان پر ننگی جارحیت…. امریکی میڈیا وائٹ ہاﺅس کا ہمیشہ مددگار رہا ہے۔ اب جبکہ امریکا تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اور ذلت آمیز شکست افغانستان کے پہاڑوں میں اس کا شدت سے انتظار کررہی ہے، ایسے میں امریکا کے زیراثر دنیا بھر کا میڈیا اُس کے امیج کو بہتر بنانے کی کوشش آخر کیوں نہ کرے؟ خبروں کے سیلِ رواں میں غرق عوامی اذہان اِس وقت ذرائع ابلاغ کے سیلاب کی بڑی لہروں یعنی شہ سرخیوں کو ہی بہ مشکل ٹھیک طریقے سے دیکھ پارہے ہیں‘ اور یہ موجیں اتنی تیز ہےں کہ کم نمایاں چھوٹی چھوٹی خبروں میں بڑی خبر کو تلاش کرنے کے لیے وہ سنبھل نہیں پارہے ہیں۔ اور عوام الناس کی نظر کو کیا رونا…. اِدھر نیوز روم میں بیٹھے صحافی یا تو اپنی قیمت لگا چکے ہیں یا پھر اتنے نااہل ہیں کہ مخلص ہونے کے باوجود وہ ادراک کے معاملے میں عام آدمی کی صف میں ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دو چار دنوں کے دوران چند ایسی خبریں شائع ہوئیں جو اگرچہ اخبارات کے صفحات پر نمایاں جگہ پانے میں ناکام رہیں، تاہم خبریت اور وزن کے اعتبار سے ان دِنوں شائع ہونے والی سیکڑوں خبریں ان سے چھوٹی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ خبریں پاکستانیوں کی آنکھوں پر بندھی کالی پٹیاں کھول کر انہیں ان کی گمراہی کا احساس دلاتی نظر آتی ہیں۔ ایک بہت بڑی خبر معاصر انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے صفحہ آخر پر شائع ہوئی جس کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہیلتھ ریلیف آپریشن اس لیے شروع نہیں کیا جاسکا کہ جیکب آباد میں واقع شہباز ایئربیس امریکی کنٹرول میں ہے۔ اخبار کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ق) کی رکن ِسینیٹ سیمی یوسف صدیقی کے ایک سوال کے جواب میں ہیلتھ سیکریٹری خوشنود لاشاری نے انکشاف کیا کہ علاقے میں ہیلتھ ریلیف آپریشن اس لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہاں کا واحد ایئربیس امریکی کنٹرول میں ہے۔ ’ہیلتھ ایمرجنسی پریپرئیڈنیس اینڈ ریسپانس سینٹر‘ کے کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر جہانزیب اورکزئی نے بتایا کہ دور دراز علاقوں میں اس لیے ریلیف آپریشن شروع نہیں ہوسکا ہے کیوں کہ جیکب آباد سمیت کئی علاقوں کے قریب کوئی ایسی ہوائی پٹی نہیں جہاں طیارہ اترسکے۔ سینیٹر سیمی نے اجلاس کے بعد ڈان کے نمائندے کو بتایا کہ یہ انتہائی بدنصیبی ہے کہ امریکی شہباز ایئربیس سے ڈرون حملے کرسکتے ہیں لیکن حکومت ِپاکستان اپنے ہی ایئربیس کو ریلیف آپریشن کے لیے استعمال کرنے کے معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر ِصحت کو فوج سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ امریکیوں سے شہباز ایئربیس سے ریلیف آپریشن کی اجازت مانگیں۔ انہوں نے تاسف کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ”مجھے نہیں معلوم کہ وزارت صحت متعلقہ حکام خصوصاً پاک فوج کے سامنے یہ معاملہ اٹھانے میں کیوں ناکام رہی ہے؟“ پاکستانی عوام مطلع ہوں کہ شہباز ایئربیس جسے 4 سال قبل پاکستانی تاریخ کے بدترین فوجی سربراہ نے امریکا کو لیز پر دیا تھا‘ سیلاب زدگان کو فوری ہیلتھ ریلیف فراہم کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ شہباز ایئربیس امریکا میں واقع ہے یا پاکستان امریکا کی آئینی ریاست کا درجہ رکھتا ہے، بلکہ پاکستان ہی کے صوبہ سندھ کے ضلع جیکب آباد میں واقع ہے جہاں قرب و جوار کے لاکھوں لوگ ریلیف کے لیے اس کے محتاج ہےں۔ جی وہی پاکستان جو سنا ہے 14اگست 1947ءکو آزاد ہوا تھا۔ جیکب آباد میں شہباز ایئربیس کے صرف استعمال پر ہی پابندی نہیں ہے بلکہ 4 سال سے امریکیوں کے کنٹرول میں رہنے والے اس بیس کو بچانے کی خاطر بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کو سیلاب کی نذر کردیا گیا، جہاں ہزاروں افراد کو اپنے گھر چھوڑنے کی مہلت بھی نہ مل سکی۔ گزشتہ سیلابی ریلے نے شہباز ایئربیس کی طرف بڑھنا شروع کیا تو اسلام آباد سے آنے والی ہدایات پر جمائی بائی پاس کو توڑا گیا جس سے نصیرآباد اور جعفرآباد زیرآب آگئے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وفاقی وزیر اعجاز جاکھرانی کے مطالبے پر عسکری دستے اور مقامی انتظامیہ کے افسران سڑک توڑ کر پانی کا رخ موڑنے پر تیار نہیں تھے مگر بعد ازاں ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاﺅس سے ہدایت ملنے پر فوری طور پر سڑکیں توڑ کر پانی کا رخ بدل دیا گیا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے میں امریکی حکام کا اثر و رسوخ شامل ہے، کیوں کہ امریکی حکام نے پہلے اپنے طور پر پانی کا رخ موڑنے کی ہدایت جاری کی‘ جسے تسلیم کرنے سے انکار پر اسلام آباد سے مدد طلب کی گئی۔ دو روز قبل امریکی بیڑے کے کراچی آنے پر کراچی کے امریکی قونصل جنرل نے اپنے عسکری حکام کے ہمراہ بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا جو دراصل شہباز ایئربیس کو کسی ممکنہ خطرے سے بچانے کا راستہ تلاش کرنے کا سروے تھا۔ اس فضائی جائزے میں طے کرلیا گیا تھا کہ اگر پانی اس طرف آیا تو کس جگہ سے بند توڑنے کے لیے کہا جائے گا۔ اور یوں امریکی حکام کی وجہ سے بلوچستان کے ہزاروں شہریوں کو تباہی سے دوچار کردیا گیا۔ روزنامہ ڈان کی خبر شائع ہونے کے بعد پاکستان ایئرفورس نے چند صحافیوں کو ایئربیس کا دورہ کرایا اور بتایا کہ یہاں امریکیوں کا کنٹرول نہیں۔ ایئر برج کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ شہباز ایئربیس اور باقی ایئربیسز کے درمیان قائم کیا گیا ہے تاکہ ریلیف کے سامان کی ترسیل کے ساتھ جیکب آباد سے لوگوں کو نکالا جاسکے۔ پی اے ایف حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ شہباز ایئربیس پر چند امریکی موجود ہیں جو ایف سولہ فائٹرجیٹ کی تکنیکی معاونت پر مامور ہےں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحافیوں کو ایئربیس پر لے جانے کے بجائے قائمہ کمیٹی کے سامنے بقائمی ہوش و حواس بیان دینے والے سیکریٹری ہیلتھ سے کیوں نہ پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ بیان کس بنیاد پر دیا ہے؟ جس ملک میں جعلی کیمپوں کی کہانیاں منظرعام پر آرہی ہوں وہاں کوئی طے شدہ دورے میں دکھائے گئے منظر پر کیسے یقین کرسکتا ہے؟ پاکستان میں امریکی موجودگی پر گہری نظر رکھنے والے سوسائٹی میڈیا کے ارکان اس امکان کو رد کرنے پر تیار نہیں کہ اس دورے کا انتظام امریکی معاونت سے کرایا گیا ہو‘ تاکہ خبر کے نتیجے میں امریکا کے لیے پیدا ہونے والی نفرت اور پاکستانی حکومت اور فوج کے بارے میں منفی تاثر کو زائل کیا جاسکے۔ حکومت ِپاکستان اور عسکری قیادت نے لیز کی کبھی تردید نہیں کی ہے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ شہباز کے علاوہ شمسی ایئربیس امریکا کو لیز پر دیا جاچکا ہے۔ ارکانِ پارلیمان کی رگ ِ حمیت تو صرف اس بات پر پھڑک گئی تھی کہ شہباز ایئربیس ان مشکل حالات میں بھی ریلیف سرگرمیوں کے لیے استعمال کے لیے کیوں نہیں دیا جارہا۔ لیکن صحافیوں کو کرائے گئے دورے کے ذریعے امداد ی سرگرمیوں کی اجازت نہ دینے کے تاثر کو زائل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی دیا گیا ہے کہ مذکورہ ایئربیس لیز پر دیاہی نہیں گیا ہے جو واقعاتی طور پرغلط ہے۔ معاصر اخبار اُمت کے ذرائع کے مطابق شہباز اور شمسی دونوں ایئر بیسز پر پاکستانی حکام کو اندر داخل ہونے تک نہیں دیا جاتا۔پاکستانی فورسزپرصرف ان بیسز کے بیرونی تحفظ کی ذمہ داری ہے۔ بیس پرمکمل کنٹرول امریکیوں کا ہے‘وہ کسی بھی پاکستانی کو اندر جانے نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بیس کے گردو نواح کی تباہ حال آبادیوں میں ہزاروں افراد ہلاک اور بیمار ہورہے ہیں۔ سڑکیں نہ ہونے کے سبب ان تک پہنچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ایک رستہ باقی ہے کہ شہباز ایئربیس سے اُڑ کر ان کی مدد کی جائے‘ یہ راستہ بھی امریکا کی مخالفت کے سبب مسدود ہوچکا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کہتے ہیںکہ ”یہی وہ اڈہ ہے جہاں سے امریکیوں نے افغانستان پر56ہزار حملے کیے۔اب انہوں نے اس کے اندر بہت کچھ اور جمع کرلیا ہے۔ اسی طرح شمسی ایئربیس بھی ہے جہاں سے ڈرون اُڑتے ہیں۔ وہاں بھی امریکی پاکستانی اتھارٹیزکو جواب تک نہیں دیتے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ایسے میں وہ ان بیسز کو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کیوں استعمال ہونے دیں گے؟سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین جان محمد جمالی کے مطابق صحت کی قائمہ کمیٹی نے انہیںبتایا کہ شہباز ایئربیس امدادی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کرنے دیا جارہا ہے تو انہوں نے ہدایت کردی کہ اس معاملے کو سینیٹ میں لایا جائے تاکہ وزارتِ دفاع سے پوچھا جائے کہ کس معاہدے کے تحت یہ اڈہ امریکا کو دیا گیا ہے اور کیوں اسے پاکستانیوںکو بچانے کی خاطر استعمال نہیں کیا جاسکا ہے۔ 12اگست کو ایک ہزار میرینز اور 24ہیلی کاپٹروں کو امداد کی آڑ میں پاکستانی سرزمین پر اُتارا گیا۔اس ”امداد ی کھیپ“ کے پہنچنے پر ہمارے وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ ملک کو ایسی مزید عالمی مدد کی ضرورت ہے۔کراچی میں امریکی قونصل جنرل ولیم مارٹن نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان میں امریکی شپ اور میرین کی موجودگی اوباما اور امریکی لوگوں کی کمٹمنٹ کا مظہر ہے۔ یہ کمٹمنٹ اور دوستی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ذرائع کے مطابق اس وقت پاکستان میں بلیک واٹر اور امریکی فوجیوں کی تعداد11ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے ایئربیس پر قابض ہوکر اسے ا ستعمال کی اجازت نہ دینے والا‘ اپنے بیس کو بچانے کے لیے بلوچستان کو ڈبونے والاہمارا”دوست“ملک آخر 11ہزار فوجیوں کے ذریعے کیاکرنا چاہ رہا ہے؟ پاکستان کو بڑی امریکی دہشت گردی کا خطرہ ہے لیکن حکمران دوستی نبھا رہے ہیں۔ سینیٹر سیمی صدیقی کے خیال میں”بدقسمتی یہ ہے کہ بیس پاکستان کا ہے، اس کے ساتھ ہی پاکستانی ڈوب رہے ہیں ‘ ان کو بچانے کی خاطر ہمیں بیس استعمال کرنے کی اجازت امریکی نہیں دے رہے۔ یہ کس طرح کا معاہدہ ہے، کون نہیں جانتا! سنا ہے کہ اڈہ لیز پر دیا گیا ہے، مگر پھر بھی وہ ملکیت تو پاکستان کی ہے۔ پاکستانیوں کو بچانے کی خاطرکیوں استعمال نہیں ہوسکتا؟“ سیمی صاحبہ کتنی بھولی خاتون ہےں! جس ایئربیس کو پاکستانیوں کو مارنے کے لیے وقت کے میر جعفروں سے لیز پر لیا گیا ہے وہاں سے ان کو بچانے کے لیے کسی سرگرمی کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے!سیمی صاحبہ آپ نے درست کہا کہ یہ کیسی دوستی ہے۔اگر یہ دوستی ہے تو دشمنی کسے کہتے ہیں۔امریکی دوستی کی ایک بھیانک تاریخ ہے لیکن سیلاب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی اس تاریخ سے سبق سیکھنے پر تیار نہیں۔

Articles

جوتے کی سیلف رسپیکٹ

In میڈیا,پاکستان on اگست 9, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

جب سے برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ۵۰ لاکھ پاکستانی روپوں کرایہ پر لیے جانے والے ایک ہال میں ایک بزرگ سردار شمیم خان صاحب نے جوتا بازی کی ہے تو ہمارے سیل فون پر تو جیسے جوتوں معاف کیے جوتوں کے تذکرے پر مبنی ایس ایم ایس کے حملے ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔ یہ ایس ایم ایس اپنے موبائل کے ان باکس سے کاپی کرکے ذیل میں لکھے ہیں تاہم بابر اعوان کے اس بیان کے بعد کہ جوتوں کی سیاست کرنے والے جان لیں کہ جیالوں کے پاس بھی دو دو جوتے ہیں کسی نے انٹرنیٹ کے ان صارفین کے لیے جو کسی طرح زرداری کو جوتا مارنا چاہتے ہیں ایک انٹرنیٹ گیم بنایا ہے۔ تین درجوں کے اس گیم میں پہلا درجہ (لیول) جوتے مارنے کا ہے جس میں ہم بہ مشکل ۱۴ نمبر حاصل کر پائے ہیں۔ آپ کتنی دفعہ جوتا مار سکتے ہیں یہ دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ اس کی مشق اس لیے بھی ضروی ہے کہ کل آپ کو موقع مل سکتا ہے کہ کوئی سیاست دان /حکمران سامنے آئے اور آپ ٹھیک نشانے پر دے مارے تو خوشی ہوگی۔
یہ وضاحت کرتے چلیں کہ اگر زرداری کے علاوہ باقی سیاست دانوں اور امریکی جنگ لڑنے والے کیانی کا گیم بھی بنایا جائے تو ہم اس پر بھی اپنی بھڑاس نکالنے کی کوشش کریں گے‘ اس لیے جیالے ہمیں ان لوگوں میں شمار نہ کریں جن کا ہدف صرف اور صرف آصف زرداری ہے ‘ ہم تو ان کے صدر بنائے جانے کے گناہ کا مرتکب این آر او ڈیل کے ضمانتی اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف کو بھی سمجھتے ہیں۔
موبائل ایس ایم ایس سے پہلے محمد احمد صاحب نے ای میل کے ذریعے لکھ بھیجا ہے ۔’’یہ ایک اچھی روایت کی ابتدا ہے۔۔ پوری قوم کو سارے لیڈروں کے سر پہ جوتے لگانے چاہییں ۔۔ جہاں کوئی نظرآئے جوتا پھینک ماریں۔۔ ایک جوتا پیر میں تو ایک جوتا ہاتھ میں۔۔۔ یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے ان سب کو مار بھگانے کا۔
قوم کی بھگتو اب ناراضی
تجھ پہ ہوگی جوتا بازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند متخب ایس ایم
صدر نے مرنے کے بعد اپنے تمام اعضا عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور خاص ہدایت کی ہے کہ (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مناسب لفظ ہے‘ اس لیے سینسر کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔) جیو والو کو ہی دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش برسی
پانی آیا
مشرف نے ڈھول بجایا
الطاف بھائی نے گانا گانا
نواز شریف نے نعرہ لگایا
زرداری نے فرمایا
بھاگ بیٹا جوتا آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جوتا کپھے ‘‘
۷ اگست ۲۰۱۰ کو جوتا کپھے ڈے کے طور پر منایا گیا۔ ہمارے عزت دار صدر کو مبارک ہو‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہتے ہوئے جوتا وہیں گر گیا فراز
مجھے نہیں جانا اس مونچھوں والے کتے کے پاس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فوزیہ وہاب فرماتی ہیں
زرداری حاضر ہے جرم کی سزا پانے
لیکن کوئی جوتے سے نہ مارے مرے دیوانے کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے نظیر کے لیے فراز نے لکھا ہے
بی بی ہم شرمندہ ہیں
تیرا شوہر ابھی تک زندہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برمنگھم یو کے میں ہمارے صدر زرداری پر جوتا پھنکا گیا ہے‘ہم اس حرکت پر شدید احتجاج کرتے ہیں
پھینکنے والے کو مزید پریکٹیس کروائی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرداری کو ابھی تک جوتا نہیں لگا تو کیا ڈفیکٹ ہے؟
آخر جوتے کی بھی تو کوئی سیلف ریسپیکٹ ہے۔

Articles

ذرائع ابلاغ کے وعدہ معاف گواہ

In میڈیا on اگست 6, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , ,

میڈیا کسی بھی معاشرے میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کا اثر نہ صرف سیاسی اکھاڑے پر ہوتا ہے بلکہ یہ معاشرے کی مجموعی سمت کا تعین بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے لیے معاشی، حربی اور سیاسی پالیسیاں بنانے والے صہیونیوں اور ان کے صلیبی دوستوں نے اس سے پروپیگنڈے کا کام بخوبی لیا ہے۔ پاکستان میں نجی ٹی چینلز کے قیام کے بعد میڈیا کے اثرات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی میڈیا پر جانب داری کے علاوہ بنیادی طور پر تین قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ کئی ایسی چیزیں ہیں جو میڈیا کو نہیں دکھانی چاہئیں۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ میڈیا جان بوجھ کر کچھ حقائق عوام تک نہیں پہنچاتا۔ اسی طرح بعض لوگ میڈیا پر تکنیکی لحاظ سے تنقید کرتے ہیں۔ یہ الزامات عام طور پر باہر سے لگائے جاتے ہیں، تاہم گزشتہ چند دنوں کے دوران ایسا لگا کہ میڈیا کے کردار سے واقف اس کے کچھ حصے وعدہ معاف گواہ بن کر ان خرابیوں کی نشاندہی کررہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وعدہ معاف گواہ بننے والوں کا تعلق بڑے اور بااثر ابلاغی گروپوں سے ہے۔ صف ِ اول کے اخبارات میں چھپنے والے کچھ حصے قارئین کے لیے مرتب کیے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔
……..٭٭٭……..
معاصر روزنامہ ’پاکستان‘ اپنے 31 جولائی2010ءکے اداریے ”الیکڑونک میڈیا اور طیارے کا حادثہ“ میں لکھتا ہے: ”ہمارے قارئین نے ٹیلی فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے حادثے کے دن الیکڑونک میڈیا کے بعض حلقوں کی طرف بڑے افسوس کے ساتھ توجہ دلائی اور شدید احتجاج کرتے ہوئے زور دیا کہ رپورٹنگ اور
تبصروں کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق وضع کیا جائے“۔
اداریے کے مطابق کئی قارئین نے میڈیا کا قبلہ درست کرنے کے لیے سڑکوں پر آنے کی دھمکی دی تو کچھ نے سپریم کورٹ سے ’سوموٹو ایکشن‘ لینے کا مطالبہ کیا، جبکہ بعض نے رپورٹنگ کے معیار پر تنقید کی۔ اخبار کے اداریے میں آگے لکھا ہے: ”اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکڑونک میڈیا کی وسعت نے پاکستانی قوم میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کی ہے۔ ’ٹاک شوز‘ نے بحیثیت ِمجموعی قومی معاملات سے دلچسپی کو کئی گنا کیا ہے۔ آگہی اور آگاہی کی فضا کو پروان چڑھانے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ لیکن مسابقت اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ اور بعض غیر تربیت یافتہ (اور کم تعلیم یافتہ) افراد کی موجودگی نے اس کے امیج کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔
حادثہ اسلام آباد کے دن کئی بچکانہ تبصرے ہوئی، جائے حادثہ اور لقمہ اجل بننے والوں کو جس انداز میں کیمروں کی زد میں لیا گیا، اس نے دلوں کو دُکھایا۔ فضائی حادثے میں مرنے والوں کی لاشیں نہ شناخت کی جاسکتی ہیں اور نہ سلامت رہ سکتی ہیں۔ اس طرح کی منظرکشی کی گئی کہ کلیجہ منہ کو آگیا۔ کئی تبصرہ نگاروں نے ایسے غیر محتاط الفاظ استعمال کیے جن سے لواحقین کے غم میں اضافہ ہوا۔ موسم اور پہاڑی علاقے کا کوئی لحاظ نہ کرتے ہوئے امدادی کارکنوں کو بے رحمانہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جاں بحق ہونے والوں کے گھروں کی طرف بھی کیمرے دوڑا دیے گئے۔ غم سے نڈھال والدین اور اہلِ خانہ کو سوالات کے کچوکے دیے گئے۔ وہ کچھ پوچھا گیا جس کی نہ کوئی ضرورت تھی نہ محل“۔ اخبار واضح کرتا ہے: ”پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن نے دہشت گردی کے واقعات کی کوریج کے لیے ازخود ایک ضابطہ تیار کرکے معاملات کو سنبھالا، اب بھی ضروری ہے کہ یہ اپنے خودسروں کو لگام ڈالے۔ کیمرے اور زبان کا استعمال احتیاط کا تقاضا کرتا ہے، نہ تو سب کچھ دکھانے کا نام آزادی ہے، نہ سب کچھ کہہ دینے کا نام بہادری ہے…. میڈیا کی آزادی معاشروں کو طاقتور اور ذمہ دار بنانے کے کام آنی چاہیے۔ انہیں پسپا اور رسوا کرنے کے لیے نہیں۔“ روزنامہ پاکستان کا یہ اداریہ بتارہا ہے کہ میڈیا وہ کچھ دکھا رہا ہے جو اسے نہیں دکھانا چاہیے۔ تاہم ملک کے دگرگوں حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی اس پہلو پر روشنی ڈال رہے ہیں کہ میڈیا کیا کچھ دکھانے سے گریز کررہا ہے۔ روزنامہ پاکستان کے برعکس وہ الیکٹرونک اور پرنٹ دونوں طرح کے میڈیا پر تنقید کرتے ہیں۔
……..٭٭٭……..
انصار عباسی 2 اگست 2010ءکے روزنامہ جنگ میں لکھتے ہیں: ”ہر طرف تباہی و بربادی، قتل و غارت، دہشت گردی، خودکش دھماکی، فرقہ واریت، مذہبی اور لسانی شدت پسندی، کرپشن، ناانصافی، لوڈشیڈنگ، اقربا پروری، عوامی دولت کی لوٹ کھسوٹ، کرپٹ حکمران‘ بددیانت سیاستدان اور بے حس عوام نظر آتے ہیں“۔ انصار عباسی مزید لکھتے ہیں: ”ہر طرف بے ایمانی، ناانصافی، بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ حکومتی دفتروں میں چلے جائیں یا پرائیویٹ اداروں کو دیکھیں، سیاستدانوں کے رویّے کا جائزہ لیں یا سرکاری افسروں کے عوام سے سلوک پر نظر دوڑائیں، صحافت کے بڑے بڑے عَلم برداروں اور تجزیہ کاروں کا اصلی چہرہ دیکھیں یا کاروباری افراد کی ہیرا پھیریاں…. ہر طرف دھوکا، فراڈ، سفارش، رشوت ستانی اور زور زبردستی کا راج ہے۔“ میڈیا کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے انصار عباسی رقم طراز ہیں: ”اگر سیاستدانوں نے سیاست کو مال بنانے کا ذریعہ بنالیا ہے تو صحافت میں بھی کالی بھیڑوں کے کالے کرتوتوں کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔ صحافی چاہے کوئی بدفعلی کرے یا بدمعاشی، کرپشن کرے یا بلیک میلنگ، اُسے پولیس پوچھ سکتی ہے اور نہ ہی عدالت۔ صحافتی تنظیمیں ہوں یا میڈیا مالکان، سب جانتے ہیں کہ کون صحافت کو کاروبار کے طور پر استعمال کررہا ہے، کون بلیک میلر ہے، کون کس سے پیسے اور پلاٹ لے رہا ہے، مگر کوئی بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ ہم سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں اور افسر شاہی کے احتساب کی بات تو کرتے ہیں مگر اپنے احتساب کے لئے قطعی طور پر تیار نہیں۔ صحافت میں ڈاکوﺅں، لٹیروں اور بلیک میلروں کو صحافتی برادری کا حصہ ہونے کی وجہ سے کوئی چھو نہیں سکتا، اور دن بدن ایسے لوگ صحافت میں اس انداز میں پھل پھول رہے ہیں جیسے کرپٹ سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو ہم ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ بحیثیت قوم ہماری عزت ِ نفس باقی رہی اور نہ ہی ملکی خودمختاری۔ امریکی ڈرون حملوں پر کوئی آواز اُٹھتی ہے اور نہ کوئی احتجاج ہوتا ہے۔ اس کو بے غیرتی نہ کہیں تو کیا کہیں!“ ……..٭٭٭……..
29 جولائی2010ءکو ”مارگلہ کا سانحہ“ کے عنوان سے انگریزی روزنامہ ’ڈان“ کے رپورٹرز منور عظیم، سید عرفان رضا اور محمد اصغر اپنی ایک مشترکہ نیوز رپورٹ میں لکھتے ہیں: ”اسپتال توجہ کا خصوصی مرکز تھے جہاں بے آسرا لواحقین اپنے پیاروں کی (خیریت کی) خبر سننے کے لیے سخت پریشانی کی حالت میں جمع تھے۔ بدقسمتی سے میڈیا اور حکومت کی طرف سے زندہ بچ جانے والوں کے بارے میں غلط معلومات نے لواحقین کے درد و کرب میں اضافہ کیا۔“ روزنامہ ”ڈان“ اپنی30 جولائی 2010ءکے اداریے میں لکھتا ہے: ”مارگلہ پہاڑیوں میں المناک حادثے کے بعد توجہ ٹی وی نیوز چینلز کی جانب سے حادثے کی فوری کوریج کی جانب مبذول ہوئی ہے۔ فوری اتفاق اس بات پر ہے کہ اُن سنگین اور دانستہ کی گئی غلطیوں کو نہیں دوہرایا گیا جو اس سے قبل بڑے حادثات کور کرتے ہوئے کی گئی تھیں، تاہم اب بھی بہتری کی کافی گنجائش ہے…. سانس پھولے رپورٹرز کا یہ کہنا کہ وہ حادثے کے مقام سے سب سے پہلے رپورٹ کرنے والے ہیں، غیر ضروری ہے۔“ اخبار لکھتا ہے کہ اسی طرح مسافروں کی باقیات سے بھرے باڈی بیگز کے قریبی کیمرہ شاٹ لینا بھی نامناسب تھا۔ اسی طرح غمزدہ لواحقین کے چہروں کو دکھانا بھی انتہائی درجے کی معیوب بات تھی۔ اخبار کے مطابق ٹی وی چینلز کی طرف سے بغیر تحقیق کے مسافروں کے زندہ بچ جانے کی خبر غیر ذمہ داری اور بنیادی صحافتی اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔

یہ مضمون فرائیڈے اسپیشل کراچی کے آج کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ گرافیک ویو میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ شکریہ

 

Articles

ہلاک ہونے والوں میں سے قاتل کون تھا؟ایم کیو ایم کے دہشت گردوں سے سوال

In دہشت گردی on اگست 4, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

ریاض سہیل‘بی بی سی اردو کراچی
کراچی کے بارے میں حکومت کی جانب سے کئی فیصلے ہوئے جن میں سے کسی پر بھی عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ کراچی میں پر تشدد واقعات، ہنگامہ آرائی اور خوف و ہراس میں غروب ہونے والا سورج منگل کو اسی ماحول میں طلوع ہوا۔ صبح کو تمام تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز بند رہے اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کے ساتھ نجی گاڑیاں بھی نہ ہونے کے برابر رہیں۔
ماہ رمضان کی آمد اور سکولوں کی موسم گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد گزشتہ روز بازاروں اور مارکیٹوں میں گہماگہمی تھی۔ مگر آج ہر جگہ ویرانی نظر آئی۔ شہر کے دل کے نام سے پہچانے جانے والے علاقے ایمپریس مارکیٹ میں کچھ پریشان تو کچھ خوفزدہ دکانداروں سے ملاقات ہوئی۔
ان دکانداروں کا کہنا تھا کہ اچانک دو تین لڑکے آتے ہیں اور فائرنگ کر کے چلے جاتے ہیں حالانکہ ان کی دکانیں پہلے سے بند ہیں۔
ان میں اکثر ریڑھی لگانے اور مزدوری کرنے والے تھے جن کو یہ فکر تھی کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو ان کا گذارہ کیسے ہوگا۔
پاکستان کے دیگر علاقوں میں اقتصادی سرگرمیاں محدود ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی شہر کا رخ کرتی ہے۔ جس وجہ سے اس شہر کی آبادی غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پونے دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں چالیس لاکھ پشتون بھی شامل ہیں۔
دو بندر گاہوں کے ساتھ مرکزی بینک، کئی ملکی اور غیر ملکی مالیاتی اداروں اور کمپنیوں کے ہیڈ آفیس یہاں موجود ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملکی خزانے میں ساٹھ فیصد آمدن اسی شہر سے جاتی ہے۔
لانڈھی میں ایک پیٹرول پمپ کو جلانے کے بعد مرکزی شہر کے تمام پیٹرول پمپ اور سی این جی اسٹیشن قناطیں لگا کر بند کردیئے گئے تھے جس کے باعث نجی گاڑیوں کے مالکان اور ٹیکسی ڈرائیوروں کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
زینب مارکیٹ کے قریب ایک پریشان حال ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ پورا شہر بند اور سواری نایاب ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ان حالات میں وہ کیوں گھر سے نکلے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ خوف انہیں بھی آتا ہے مگر کیا کریں پیٹ کے لیے تو نکلنا پڑتا ہے۔
پچھلے ہفتے شہر میں پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کے بعد یکم جنوری سے جولائی تک ہلاکتوں کی جوڈیشل انکوائری، شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کے لیے سفارشات کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے اور رینجرز کا گشت بڑھانے اور چوکیاں قائم کرنے جیسے کئی فیصلے ہوئے جن میں سے کسی پر بھی عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر، ان کے محافظ اور عوامی نیشنل پارٹی کے دو کارکنوں کے علاوہ ہلاک ہونے والے کون ہیں؟ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ عام لوگ تھے۔ اس سے قبل بھی دو ہزار سات سے لے کر گزشتہ ہفتے تک ان پرتشدد واقعات کا نشانہ عام لوگ ہی بنے جن کے مقدمات اور تفتیش نامعلوم وجوہات کے بنا پر بند کر دی گئی۔
شام کو ایک ایس ایم ایس آیا ہے جس میں پوچھا گیا کہ ہلاک آخر ہلاک ہونے والے پچاس افراد میں سے رکن صوبائی اسمبلی کا قاتل کون تھا؟