Archive for ستمبر, 2009

Articles

بلیک واٹر پڑوس تک آگئی ‘ میں خوفزدہ نہیں‘ ڈاکٹر

In پاکستان on ستمبر 30, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

کراچی (انٹرویو۔ طارق حبیب)ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے کہ بلیک واٹر والے میرے پڑوس میں آچکے ہیں مگر میں ان سے نہیں ڈرتا۔حکمران بے حس ہیں میرے قتل پر صرف قوم سے معافی مانگیں گے۔ جلد بہت سے انکشافات کروں گا۔کوئٹہ پر حملے کی باتیں پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لئے کی جارہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار قوم کے ہیرو اور معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ٹیلی فون پر جسارت سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہاکہ وہ امریکا ، ڈرون حملوں اور بلیک واٹر سے نہیں ڈرتے ۔بلیک واٹر کے اہلکار ان کے پڑوس میں آگئے ہیں اورانہیں اور ان کے اہل خانہ کو خوفزدہ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں تاہم انہیں کسی بات کا ڈر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرانہیں قتل بھی کردیا گیا تو حکمران قوم سے معافی مانگنے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے جبکہ چار دن اخبارات میں خبریں شائع ہوں گی اور اس کے بعد معاملہ ختم ہوجائے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ اگر زندگی نے موقع دیا تو جلد عوام کے سامنے انتہائی اہم انکشافات کروں گا جس سے بہت سے چہرے بے نقاب ہونگے اور اہم معاملات منظر عام پر آئینگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر داخلہ رحمن ملک ضیاءالحق کے دور کی پیداوار ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ مشرف کا ٹرائل عوامی امنگوں کی ترجمانی ہوگا مگر حکمران ایسا نہیں کریں گے۔ لال مسجد اور اکبر بگٹی قتل کے حوالے سے مشرف کا ٹرائل ضرور ہونا چاہئے۔ انہوںنے انکشاف کیا کہ بلیک واٹر نے پہلے بھی پاکستان میں سیٹ اپ قائم کرنے کی کوشش کی تھی تاہم حساس اداروں نے یہ کوشش ناکام بنادی تھی اور اس نیٹ ورک کوتوڑ دیا تھا۔ تاہم امریکا نے ناکامی کے بعد کوئٹہ پر ڈرون حملوں کا شوشا چھوڑ کر حکمرانوں کو بلیک میل کرنا شروع کردیا جس سے بزدل حکمران امریکی بلیک میلنگ میں آگئے ۔ موجودہ حکومت بے بس ہے اور کچھ نہیں کرسکتی ۔ جسارت کی جانب سے کئے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کیری لوگر بل کے مضمرات صرف صدر زرداری کے علم میں تھے اور اس حوالے سے صدر کی جانب سے کسی ادارے کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ اس بل پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فرینڈز آف پاکستان کا راگ الاپنے والے پہلے خود پاکستان کے فرینڈز بن جائیں پھر کوئی دوسری بات کریں۔ ورنہ حالات بہتر نہیں ہونگے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر "روکھی سوکھی کھائیں گی، ایٹم بنائیں گی”کا نعرہ لگایا تھامگر آ ج کھانے کے لئے روکھی سوکھی بھی میسر نہیں ہے اور حکمران عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہاکہ امریکا کو ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کی فکر چھوڑ دینی چاہیے کیونکہ ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی محفوظ ہے ۔ امریکہ صرف بلیک میل کرنے کے لئے اس طرح کا پروپیگنڈا کرتا ہے ۔

Articles

”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

In پاکستان on ستمبر 30, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

انورغازی

 بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ بلیک واٹر کی موجودگی محض افواہ ہے۔ عوام ان افواہوں پر ہرگز کان نہ دھریں۔ اگر کسی کے پاس بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت ہیں تو وہ فراہم کرے۔ حکومت پاکستان سخت کارروائی کرے گی۔“ یہ الفاظ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے ہیں۔ چند روز قبل اسی قسم کے الفاظ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کہے تھے کہ بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر اس کی موجودگی کے کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ پیش کرے، ہم کارروائی کریں گے۔“ حیرت کی بات ہے حکومت پاکستان بار بار تردید کررہی ہے کہ بلیک واٹر کا وجود نہیں ہے لیکن پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ ”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے“ والی بات ہے۔ ہماری ریسرچ، تحقیق اور معلومات کے مطابق اس وقت بلیک واٹر کا نہ صرف وجود ہے بلکہ وہ پاکستان کو افغانستان اور عراق سمجھ کر بڑے منظم اور مربوط طریقے سے اپنا مشن آگے بڑھارہے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ افغانستان اور عراق کے بعد بلیک واٹر کا سب سے مضبوط گڑھ اب پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں بلیک واٹر کی سرگرمیوں کا آغاز بہت پہلے کیا جاچکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ نے 2007ء کو خبردار کیا تھا کہ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے لیکن ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلیک واٹر نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلیک واٹر کے آفسز اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہے۔ صرف اسلام آباد اور پشاور میں ہی اس کے 700 افراد موجود ہیں جن کی رہائش کے لیے 200 سے زائد گھر کرائے پر لیے گئے ہیں جس کی تصدیق امریکی سفیر بھی کرچکی ہیں۔ حکومت میں شامل اتحادی جماعت کے اہم ارکان کے ساتھ ان کی بات چیت ایک عرصے سے جاری ہے اور ان سے کرائے پر گھر لینے کے لیے بھاری رقوم کی پیشکشیں کی جارہی ہیں۔ مصدقہ رپورٹس ہیں کہ کراچی میں لسانی اور مذہبی فسادات کروانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے مختلف علاقوں میں 500 سے زائد امریکی موجود ہیں جن کو خفیہ طورپر ملک کے مختلف حصوں میں ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔ 19/ اگست کو اخبارات میں ہموی بکتر بند کے بارے میں رپورٹ چھپی۔ یہ گاڑیاں شہروں میں آپریشن کرنے کے لیے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں۔ یہ جدید اسلحے سے لیس ہوتی ہیں۔ یہ پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ 40 لاکھ روپے کی ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ کراچی میں بلیک واٹر کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہاں اس نے باقاعدہ اپنے دفاتر قائم کرلیے ہیں۔

جب سے محب وطن عوام اور دانشوروں نے واویلا شروع کیا ہے، بلیک واٹر نے اپنا نام تبدیل کرلیا ہے لیکن اب تک اس کا مونوگرام، طریقہ واردات اور لیٹر پیڈ تک وہی پرانا ہے۔ اس معنی میں یہ بات حسین حقانی، وزیراعظم کی درست ہے کہ اس وقت ”بلیک واٹر“ نام سے کسی تنظیم کا وجود نہیں، کیونکہ امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ کے مطابق ”بلیک واٹر“ نے افغانستان اور پاکستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے نام تبدیل کرلیے ہیں۔ اب یہ ایک امریکی نجی سیکیورٹی ایجنسی نہیں رہی بلکہ چار پانچ پرائیویٹ امریکی سیکیورٹی ایجنسیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ اب ان کی سرگرمیاں اور کارروائیاں بالکل اسی طرح ہیں جس طرح جب جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں یہودیوں کی بدنام زمانہ تنظیم ”فری میسن“ پر پاکستان میں پابندی عائد کی گئی۔ ان کے دفاتر سیل کردیے گئے۔ پشاور میں بڑی تعداد میں ان کے خلاف کارروائی ہوئی تو یہ پڑوسی ممالک میں جاچھپے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ نام بدل کر پھر سرگرم ہوگئے اور زیر زمین ان کی سرگرمیاں تاحال جاری وساری ہیں۔ پاکستان میں فری میسن کے کارکنوں کے نام پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسے کیسے سفید پوشوں کے نام آتے ہیں؟ ماسوائے ایک صدر کے امریکا کے تمام صدور فری میسن سے وابستہ رہے ہیں۔ پشاور میں آج جس جگہ درویش مسجد قائم ہے یہ کسی زمانے میں فری میسن کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں ان کا ٹمپلر تھا، لیکن سرکاری سطح پر جب پابندی لگی تو پھر اس کا زور نہ رہا۔ اس سے پہلے فری میسن کے کارکن بالکل اسی طرح دندناتے پھرتے تھے جس طرح آج بلیک واٹر کے اہلکار اسلام آباد جیسے حساس علاقے میں پھر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے سیکیورٹی اہلکاروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس سے زیادہ سنگین اور خطرناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ سیکٹر ای 7 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش کے قریب گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ سیکٹر ای 7 میں 2، ایف 6 میں 37، جی 6 میں 43، ایف 7 میں 47، ایف 8 میں 45، ایف 10 میں 20، ایف 11 میں 25 اور آئی 18 میں 9 اور دیگر سیکٹروں میں گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہی کے سیکٹر ایف 6، ایف 7 اور ایف 8 کے باشندوں کے مطابق یہاں بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ یہ اسلام آباد کی حساس ترین سڑکوں پر دندناتے پھررہے ہیں۔ اسلام آباد میں ایف آئی اے کے صدر دفتر کے قریب ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی میں سوار چار مسلح امریکی تھے جب پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں نے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا یہ بلیک واٹر سے منسلک ہیں۔لیکن پھر کچھ بھی نہیں ہوا۔

قارئین! میں صرف اسلام آباد خاص طورپر اس لیے ذکر کررہا ہوں کہ یہ پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ یہاں اہم ترین اداروں کے دفاتر ہیں۔ اہم ترین شخصیات رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پلانٹ ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی قیادت ہے۔ خاکم بدہن اگر وفاق بھی امریکا کی سیکیورٹی اہلکاروں کی مشکوک سرگرمیوں سے محفوظ نہیں تو پھر کون ہوگا؟ امریکا کا کسی آزاد جمہوری ملک پر اس حد تک کنٹرول اقوام متحدہ کے قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے جس طرح فری میسن پر پابندی لگائی گئی تھی اسی طرح جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے بلیک واٹر اور اس سے منسلکہ اداروں پر بھی پابندی عائد کرے تاکہ پاکستان اور اس کے باشندے محفوظ ہوسکیں۔ افسوس ناک خبریں یہ ہیں کہ ریٹائرڈ پاکستانی بیورو کریٹ، دانشور اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے افراد اس معرکے کے لیے بھرتی کرلیے گئے ہیں جو اس پلان کو عملی جامہ پہنانے میں دست وبازو بنیں گے۔ ایسے ماحول میں جب چاروں جانب سے مایوس یہ قوم جو کبھی ایک سمت دیکھتی ہے، کبھی دوسری سمت اور کبھی اسے منتخب سیاست دانوں کا خیال آتا ہے۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے اس بار جو میدان جنگ سجنے جارہا ہے اس میں ان بے سروسامان پاکستانی عوام کو شاید خود ہی اس سیلاب کے سامنے بند باندھنا پڑے گا۔

Articles

لیک واٹر کی سرگرمیاں اور ہماری چشم پوشی!

In پاکستان on ستمبر 30, 2009 منجانب ابو سعد

مختار احمد بٹ

 بلیک واٹر دنیا کی طاقتور امریکی سیکیورٹی کمپنی ہے جو 1997 میں قائم ہوئی تھی اس کا اصل نام بلیک واٹر یو ایس اے تھا اب اس کا نام XE-WORLD WIDEہے۔ یہ امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں CIA کے تعاون سے ایک ٹریننگ کیمپ چلاتی ہے جس میں سالانہ 40 ہزار آدمیوں کو جن میں غیر ملکی اور پولیس والے جن کا تعلق امریکا سے ہوتا ہے ان کو سیکیورٹی ٹریننگ دیتی ہے۔ اس سیکیورٹی کمپنی کی بنیاد ایک امریکی ارب پتی پرنس ایرک نے رکھی تھی اور اس کا معاون Al Clock تھا جس نے 6000 ایکڑ زمین خریدی اور وہاں ایک بڑا ٹریننگ سینٹر قائم کیا اس کا تنظیمی ڈھانچہ 9 ڈویژن پر مشتمل ہے امریکن اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی تین بڑی سیکیورٹی کمپنیوں میں سے یہ سب سے بڑی ہے اس کا 90 فیصد سرمایہ امریکی حکومت کو سیکیورٹی فراہم کرنے سے حاصل ہوتا ہے سابق صدربش کی ان کو آشیرواد حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ دو تہائی فیصد کنٹریکٹ بولی کے بغیر دیئے جاتے ۔ دنیا بھر میں 987 امریکی سیکیورٹی ٹھیکوں میں سے 788 بلیک واٹر کے پاس ہیں اس کمپنی کے پاس ڈالروں کے انبار لگے ہوئے ہیں ان کے اپنے جہاز، ہیلی کاپٹرز ہیں۔ جدید قسم کی ٹرانسپورٹ جن میں جدید قسم کے آلات نصب ہیں ان کے استعمال میں رہتے ہیں 2003 میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو بلیک واٹر بھی ان کے پیچھے آگئی 16 ستمبر 2007 کو جب 17 معصوم عراقیوں کو بلیک واٹر نے گولیوں سے بھون دیا تو اس کے نتیجے میں ان کی بڑی بدنامی ہوئی اور عراقی حکومت نے ان کا لائسنس کینسل کر دیا لیکن امریکی دباؤ کے نتیجے میں چند ہزار لوگوں کو ستمبر 2009 تک اجازت دی گئی۔ یاد رہے دنیا میں امریکہ کا سب سے بڑا سفارت خانہ عراق میں ہے اور اس کی سیکیورٹی بلیک واٹر کے سپرد ہے بدنامی سے بچنے کے لئے نیام نام XE ورلڈ وائڈ رکھا گیا تھا۔

ان چند بنیادی باتوں کے بعد اب ہم ان کی سرگرمیوں پر نظر ڈالتے ہیں ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ چند روز پہلے اسلام آباد میں یو ایس میرینز اور ایک پولیس افسر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی لیکن حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ میڈیا کے مطابق اب XE نے کھلے عام پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ جس ملک میں بھی جاتے ہیں وہاں سے ریٹائرڈ فوجی اور پولیس اور پیراملٹری فورس کے لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں اوران کو منہ مانگی تنخواہ دیتے ہیں پاکستان جہاں غربت اور بے روزگاری عروج پر ہے لوگ آسانی سے مل جاتے ہیں اور پھر ان کو ٹریننگ دے کر ان سے ہر قسم کا کام کرواتے ہیں کہیں مسئلہ ہو جائے تو ان کو چھڑا کر لے جاتے ہیں ان کو پشاور اور اسلام آباد میں دیکھا گیا ہے پچھلے دنوں سینیٹر بخاری کے بھتیجے کے ساتھ بھی سفارتی انیکلیو میں واقع پیش آیا جب امریکی اہل کاروں کی اس سے توتکار ہوئی ۔ بقول امریکہ کے چوں کہ پاکستانی فورسز اپنے وزراء کو اسلام میں تحفظ نہیں دے سکتی اس لئے اپنا بندوبست کر رہے ہیں۔ سابق صدر نے امریکہ کو اپنی سرزمین دی اڈے دیئے، ایئرروٹ دیا، لینڈ روٹ دیا، ہر قسم کی لاجسٹک سپورٹ دی، اس پر قوم نے بڑا شور مچایا پھر ڈرون حملے شروع ہوگئے ہم ابھی ڈرون حملوں کو رو رہے تھے جنہیں ہم نے تقدیر مبرم کے طور پر قبول کرلیا ہے اس لئے احتجاج میں وہ شدت نہیں رہی لیکن اب معاملہ بہت آگے نکل گیا ہے، بلیک واٹر کی آمد، سفارت خانہ کی توسیع کے لئے 18 ایکڑ زمین کی فروخت یہ سب کچھ کیا ہے اصل میں امریکہ اسلام آباد میں ایک فوجی بیس بنانا چاہتا ہے جس طرح انہوں نے عراق اور افغانستان میں اپنی بیس بنائی ہیں اب ان کا رخ پاکستان کی طرف ہو گیا ہے سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے سفارت خانہ کا کیا رول ہوتاہے ان کا رول دونوں ملکوں کے درمیان مختلف امور پر رابطہ کرنا ہوتا ہے منی فوجی اڈے تعمیر کرنا نہیں ہوتا۔ میڈیا میں کافی شور مچایا جا رہا ہے ٹاک شوز ہو رہے ہیں جماعت اسلامی کے امیر مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن حکومت مکمل طور پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اس کا پھر مطلب یہی نکلتا ہے کہ XE حکومت کی اجازت سے سرگرم ہے ہماری حکومت کو تو صرف ڈالر چاہئیں وہ ملتے رہیں باقی سب ٹھیک ہے ہماری پارلیمنٹ ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے ایسے موقعوں پر اپوزیشن کا کردار اہم بن جاتا ہے لیکن وہ کولیشن پارٹنر ہے اور منہ میں دانت ہی نہیں ہیں اس لئے وہ بول ہی نہیں سکتے۔ عوام کو اعتماد میں لینے کے بجائے وقفے وقفے سے مہنگائی کے انجکشن دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہ بھی نہ بول سکیں اور حکومت اپنی مان مانی کرتی رہے اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ پشاور یونیورسٹی ٹاؤن میں بلیک واٹر یعنی XE نے اپنا ہیڈ کوارٹر بھی قائم کیا ہوا ہے۔

تازہ اطلاعات کے مطابق XE اپنے پوشیدہ اپریشن کیلئے سرحد اور پنجاب سے اردو اور پنجابی بولنے والے لوگوں کو بھرتی کر رہی ہے ان لوگوں میں بیشتر ریٹائرڈ فوجی، پولیس، بیورو کریٹس اور کچھ میڈیا کے لوگوں کو ملازمتیں فراہم کی گئی ہیں۔ آپ ویب سائٹ secure blackwatersa.com پر جائیں تو آپ کو ملازمت حاصل کرنے کیلئے فارم سامنے آجاتا ہے۔ بعض حالتوں میں کمپنی کا نام چھپانے کیلئے پوسٹ بکس کا سہارا لیا جاتا ہے ملک کے مختلف شہروں میں زمین حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہاں تربیتی مراکز قائم کئے جائیں میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی چند لوگوں کے ساتھ تجارت کرنے آئی تھی اور ہندوستان پر قبضہ جما لیا تھا۔

پاکستان میں امریکہ کے سفیرنے (جو ہمارے کم اور امریکی مفادات کی نگرانی کرنے میں مشہور ہیں) ایک ماہ میں 360 امریکی ویزے بغیر سیکورٹی کلیئرنس کے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دیئے ہیں۔ اگر ہم نے اس پر دھیان نہ دیا تو یہ لوگ پورے پاکستان میں پھیل جائیں گے ۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہماری حکومت نے امریکہ کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں اور ہم یس سر یس سر کر رہے ہیں لیکن پاکستانی قوم یہ بات کبھی بھی گوارا نہیں کرے گی پاکستانی قوم پہلے ہی امریکہ کے رول کو پسند نہیں کرتی بہتر یہی ہو گا کہ حکومت اپنی پالیسی تبدیل کرے ورنہ عوام کا سمندر سب کچھ بہادے گا۔        

Articles

بریکنگ نیوز: حساس اداروں نے کراچی میں بلیک واٹر کی موجودگی اور ٹھکانوں کی رپورٹ پیش کردی

In پاکستان,دہشت گردی on ستمبر 29, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

بدنام زمانہ امریکی سیکورٹی ایجنسی کے اہلکاروں نے وزراءکاطریقہ اختیار کرتے ہوئے گاڑیاں استعمال کرنا شروع کردیں

بھرتی کیے جانے والے مقامی افراد کی تعداد60ہوگئی‘مقامی ہوٹل میں ایک فلور کی بکنگ سمیت کئی علاقوں میں بنگلے حاصل کرلیے

روزنامہ جسارت کراچی نے انتہائی باخبر (یونی کوڈ/گرافک ویو)کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حساس اداروںimage_thumb نے مرکزی حکومت کو بلیک واٹر کے ٹھکانوں کی رپورٹ بھیج دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق بدنام زمانہ امریکی سیکورٹی ایجنسی بلیک واٹر نے کراچی میں سرگرمیوں کے معاملات منظر عام پر آنے کے بعد تیزی سے ٹھکانے تبدیل کرنے شروع کردیے ہیں‘ بلیک واٹر کے اہلکاروں نے وزراءکا طریقہ اختیار کرتے ہوئے گاڑیاں استعمال کرنا شروع کردیں‘مقامی ہوٹل میں ایک فلور کی بکنگ سمیت دیگر علاقوں میں بھی بنگلے حاصل کرلیے گئے ‘ کراچی سے بھرتی کیے جانے والے افراد کی تعداد 60ہوگئی۔ ذرائع کے مطابق امریکی سیکورٹی ایجنسی بلیک واٹر کے اہلکاروں نے کراچی میں سرگرمیوں کے حوالے سے معاملات منظر عام پر آنے کے بعد تیزی سے ٹھکانے تبدیل کرنا شروع کردیے ہیںجبکہ حکومتی اتحادی جماعتوں کے افراد کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی باقاعدہ کام کرنے کے لیے رضامند کرلیا ہے۔ بلیک واٹر کے لیے کام کرنے والے مقامی افراد کی تعداد 60ہوگئی ہے جن میں 32سے زائد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ریٹائرڈ اہلکارہےں۔ حکومتی اتحادی جماعتوں کے اراکین بھی بھاری رقم کے عوض نہ صرف بلیک واٹر کو سہولیات فراہم کررہے ہیں بلکہ اس امریکی ایجنسی کے لیے باقاعدہ کام بھی کررہے ہیں۔

 ذرائع نے بتایا کہ بلیک واٹر نے جنرلز کالونی میں سابق صدر پاکستان اور سابق گورنر سندھ blackwater-2کے گھروں کے قریب واقع 7گھر کرائے پر حاصل کرلیے ہیںاور حکومتی سطح پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ان گھروں میں کورین اور جاپانی شہری رہائش پذیر ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ کے ڈی اے اسکیم ون میں واقع امریکی تعلیمی ادارہ میں 8گھر قائم ہیں جن میں سے ایک گھر میں امریکی قونصل خانہ کے ذمہ دار رہائش پذیر ہیں جبکہ دیگر 7گھر بلیک واٹر کے اہلکاروں اورامریکی میرینز کے استعمال میں دے دیے گئے ہیں۔ حساس ادارے کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے ایک مہنگے ترین ہوٹل میں امریکی قونصل خانے کے ذمہ دار کی ہدایت پر ہوٹل کا ساتواں فلور بک کرالیا گیا ہے اور اسے بلیک واٹر کے استعمال میں دے دیا گیا ہے ۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ بلیک واٹر کو ایک اور رہائش گاہ کارساز پر واقع مسلم لیگ ہاﺅس کے قریب فراہم کی گئی ہے جبکہ اس رہائش گاہ کی جانب جانے والے راستوں کو رکاوٹیں لگا کر بند کردیا گیا ہے ۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ بلیک واٹر کے اہلکاروں نے کراچی میں نقل و حرکت کے لیے BBاور BDنمبرز کی سیاہ شیشوں والی لینڈ کروزرز استعمال کرنا شروع کردی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اس نمبر کی گاڑیاں عام طور پر کراچی میں وزراءاور قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین استعمال کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان گاڑیوں کو روک کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ان کی تلاشی نہیں لیتے۔

Articles

رویت ہلال ‘مسئلہ کیا ہے؟

In پاکستان on ستمبر 25, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

اس سال بھی رویت ہلال کو متنازعہ بنادیا گیا اور اس پر ایک محاذ آرائی شروع ہوگئی ہے۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ صوبہ سرحد کی اے این پی کی حکومت نے اسے علاقائی اور مسلکی تنازع بنانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک خالص دینی مسئلہ کو اے این پی اچھال رہی ہے جو خود کو سیکولر کہتی ہے۔ اس کے وزراءکا دعوی ہے کہ سیکولرازم انسانیت کا مذہب ہے۔ تو کیا اسلام کا کوئی تعلق انسانیت سے نہیں ہی؟ ایوب خان کے دور حکومت کے بعدیہ بھی پہلی بارہورہا ہے کہ ایک صوبہ کی حکومت شرعی معاملہ میں کود پڑی ہے اور اے این پی کے وزراءعید کے بعد بھی پریس کانفرنسیں کرنے میں مصروف ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جب رویت ہلال کمیٹی کو ذمہ داری سونپی گئی ہے تو اس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ گزشتہ سال بھی کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے واضح کیا تھا کہ اگر قاضی کی طرف سے کوئی فیصلہ غلط ہو تو بھی اس کو تسلیم کرنا لازم ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اے این پی کے عزائم کچھ اور ہیں ور نہ یہ کہہ کرقومیت اور صوبائیت کو ہوا نہ دی جاتی کہ رویت ہلال کمیٹی صرف پنجاب کے لیے ہے اورپختونوں کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ وفاقی وزیر ریلوے اور اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے تمام حدیں ہی عبور کردیں۔انہوں نے فرمایا کہ” اتوارکا روزہ رکھنے والے ربوہ (قادیانیت) کے ساتھ ہیں، ہم مسلمان تبھی ہوسکتے ہیں جب مکہ ، مدینہ کے ساتھ عید منائیں“ حیرت ہے کہ غلام احمد بلور پاکستان کے عوام کی اکثریت کو غلام احمد قادیانی کے متعلقین سے جوڑرہے ہیں جبکہ خود صوبہ سرحد میں بھی بہت سے لوگوں نے اتوار کو روزہ رکھ کر پیر کے دن عید منائی، وہ اگر جائزہ لیں تو ممکن ہے کہ اے این پی ہی میں بہت سے ایسے لوگ نکل آئیں ۔ اس موقع پرجمعیت علماءاسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کرکے معاملہ کو دیوبندی، بریلوی تنازعہ بننے سے بچالیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر ہوتا ہے۔ رویت ہلال کمیٹی 1972ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس وقت قائم کی گئی تھی جب رویت ہلال کے معاملہ میں انتشار کی کیفیت تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے نہ کہ انہیں کمزور کیا جائے۔اے این پی کے رہنما مطالبہ کررہے ہیں کہ مفتی منیب الرحمن کی جگہ مولانا پوپلزئی کو کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائے اور یہ کہ مفتی منیب الرحمن جنرل پرویزمشرف کی باقیات ہیں۔ اب اس معاملہ میں سیاست بھی داخل ہوگئی ہے اور جواباً مفتی صاحب نے بھی کہا ہے کہ پرویزمشرف کی باقیات وہ نہیں بلکہ اے این پی ہے جس نے حدود آرڈیننس کے معاملہ میں پرویزمشرف کا ساتھ دیا تھا۔ اے این پی نے عید سے پہلے ہی یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ عید سعودی عرب کے ساتھ منائی جاہے اورمفتی غلام احمد بلور فرمارہے ہیں کہ مکہ، مدینہ کے ساتھ عید نہ منانے والے مسلمان ہی نہیں ہوسکتے۔ تو کیابراعظم پاک وہند کے مسلمان اب تک مسلمان ہی نہیں تھی؟ پھر صرف عید ہی کیوں، اذان نماز ، تراویح ، افطار ، شب قدر سب کچھ سعودی عرب کے ساتھ ہونا چاہیے جو ممکن نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے زمین کو سپاٹ نہیں گول بنایا ہے تو اس میں یقیناً کوئی حکمت ہے۔ چاند اور سورج بیک وقت پوری دنیا میں طلاع وغروب نہیں ہوتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی تنازعہ ہے ہی نہیں۔ ہم سے صرف اتنا کہا گیا ہے کہ چاند نظر آجائے تو روزہ رکھ لو اور دوسرا چاند نظر آئے تو عید کرلو۔اب جس علاقہ میں مستند شہادت رویت ہلال کی ہو وہاں عید کرلی جائے۔ یہ کوئی ضر وری نہیں کہ ملک بھر میں ایک ساتھ عید ہو۔ غیرمنقسم ہندوستان میں بھی دو دو عیدیں ہوجاتی تھیں۔ اتحاد، اتفاق، یکجہتی اور ایک قوم ہونے کے اظہار کے اور زیادہ بہتر طریقے ہیں، پہلے ان پر تو عمل کرلیا جائے۔ مناسب ہوتا کہ صوبہ سرحد کی حکمران اے این پی خود کو اس تنازع سے دور رکھتی، تاہم یہ تجویز ضرور قابل عمل ہے کہ آئندہ چاند دیکھنے کا اہتمام پشاور میں بھی کیا جائے اورشہادتیں خواہ مسجد قاسم علی خان میں موصول ہوں ان کی چھان بین کی جائے۔ یہ بات صحیح نہیں کہ مفتی منیب الرحمن کے چیئرمین بننے کے بعد سے ملک میں دو عیدیں ہورہی ہیں۔ یہ رویت ہلال کمیٹی بننے سے پہلے بھی ہوتا تھا اور مفتی پوپلزئی کو چیئرمین بنانے کے بعد بھی ہوسکتا ہے ۔ تحمل بردباری اور خوف خدا اس معاملہ میں نہایت ہی ضروری ہے اللہ تعالیٰ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔

Articles

پاکستانی بلاگرز کی مہم : ’’بلیک واٹراور امریکی میرینز کو نکالو‘ امریکا کو پیش قدمی سے رکو‘‘۔

In پاکستان,دہشت گردی on ستمبر 17, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

سوسائٹی میڈیا کا کردار

جس وقت ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت کی’ صدر‘ جنرل پرویز مشرف کےساتھ ڈیل کرنےمیں مصروف تھیں‘ سوسائٹی میڈیا ( بلاگرز) سول سوسائٹی ‘وکلاءاور چند سیاسی جماعتوں کےساتھ مل کر ایک ایسی تحریک چلارہا تھا جو عدلیہ کی آزادی پر منتج ہوئی ۔ یہ ایک تاریخی تحریک تھی جس کا سبق بھی تاریخی ہےیعنی اگر سوسائٹی کا پڑھا لکھا طبقہ کوئی تبدیلی لانےکی ٹھان لےتو پھر یہ تبدیلی لاکر رہتا ہے۔ ویسےبھی موجود ہ حکمرانوں کےہاتھوں اقتداراعلیٰ سےمحروم پاکستان ریاست کی تعریف پر پورا نہیں اُترتا بلکہ سیاسیات کی تعریف کی رو سےپاکستان ریاست نہیں بلکہ معاشرہ ہے‘ اس معاشرےکےارکان ‘ سول سوسائٹی اور کسی مالی لالچ و طمع سےماورا سوسائٹی میڈیا کےارکان ہی کوئی تبدیلی لاسکتےہیں یا پھر وہ سیاسی جماعتیں جو اقتدار پر براجماں ہونےسےزیادہ ملک کی بقا کی جنگ لڑنےمیں سنجیدہ ہوں۔ یہ جملہ معترضہ تھا۔ دوسری مثال گزشتہ دنوں ایک امریکی امیگریشن ایجنسی کی جانب سےبلوچستان کو ایک ریاست کےطور پر فارم میں شامل کرنےکا واقعہ ہے۔ بلوچستان کو سوسائٹی میڈیا خصوصاً ”یونین آف پیٹریاٹیک بلاگرز فار ساورن پاکستان “کی مہم کےنتیجےمیں اس فارم سے نکال دیا گیا۔ ان دونوں واقعات سےیہی سبق ملتا ہے اور یہ پیغام ہے ’’ملک کے نوجوان بلاگرو آگےآئو ! یہ تبدیلی آپ ہی لائیں گے۔ ۔سائبرس سپیس محاذ پر ملک کی حفاظت آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ واضح رہےکہ میرا مقصد سیاسی جماعتوں سےلوگوں کو بدظن کرنا نہیں بلکہ بتانا یہ مقصود ہےکہ آپ ان کےبغیر بھی کوئی تبدیلی لاسکتےہیں‘ آپ ان میں سےان پارٹیوں کےساتھ مل کر کچھ کرسکتےہیں جو واقعی مخلص ہیں۔

 بلیک واٹر کی موجودگی کےثبوت

حکومت اس دعویٰ کو غلط ثابت کرنےکےلیےسوائےبیان بازی کےکوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکی ہےکہ ملک میں بلیک واٹر کو منظم کیا جارہا ہےتاہم ہمارےپاس اپنےدعویٰ کےحق میں ثبوت ہیں جن کو قطعی طور پر جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ ایسا ایک ثبوت بلیک واٹر کی طرف سےاردواور پنجابی زبان پر عبور رکھنےوالوں کا بطور ایجنٹ بھرتی کرنا ہے۔ ظاہر سی بات ہےکہ اردو اور پنجابی بولنےوالوں کو چین یا ویت نام کےلیےبھرتی نہیں کیا جا رہا ہےبلکہ ان کوپاکستان میں ہی تعینات کیا جائےگا۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہےکہ بلیک واٹر پاکستان میں ہے۔ اس کےعلاوہ بھی بہت سارےثبوت ہیں۔ اب اگر حکومت نہیں مانتی تو نہ مانے‘ ہم مانتےہیں اور اس حوالےسےپورے پاکستانی معاشرےمیں آگاہی پھیلانےکو اپنا فرض سمجھتےہیں۔

ایک تازہ خبر یہ ہےکہ بلیک واٹر نےپشاور اور اسلام آباد میں منظم ہونےکےبعد اب کراچی میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کرلیا ہےاور اس مقصد کےلیے11بنگلےڈیفنس اور گلشن اقبال کےعلاقوں میں کرایہ پر حاصل کرلیےگئےہیں۔ ان میں سےایک بنگلہ ڈیفنس کےعلاقےخیابان شمشیر میں واقع ہے‘ جس کو بلیک واٹر کےریجنل ہیڈکوارٹر کےطور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کےعلاوہ 22افراد کو بھرتی کیا گیا ہے جن میں اکثریت قانون نافذ کرنےوالےاداروں کےسابق افسران ہیں۔

ہمارے یا ان کےسفیر ؟

بلاگز اور اخبارات میں اس مسئلہ پر خبر یں اور کالم چھپنے‘ خصوصاً ڈاکٹر شیرین مزاری کےکالموں کےبعد ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نےامریکیوں کی تھوڑی بہت نگرانی شروع کردی تھی اور چارٹڈ فلائٹس کا سلسلہ بھی کچھ وقت کےلیےروک گیا تھا۔ لیکن اب امریکی سفیر معاف کیجیےگا امریکا میں پاکستانی سفیر میدان میں آگئےہیں اور انہوں نےسیکرٹری خارجہ اور آئی ایس آئی کےچیف کو ایک خط کےذریعےخبردار کردیا ہےکہ وہ ایسا نہ کریں کیوں کہ اس کےپاکستان کےلیےکچھ اچھےنتائج نہیں نکلیں گی۔ کوئی حقانی صاحب کو بتائیں کہ جناب امریکا تو اپنےشہریوں کو پاکستان کا دورہ کرنےسےگریز کا مشورہ دیتا رہا ہے پھر آپ کی خصوصی اجازت سےسیکڑوں کی تعداد میں آنےوالےکون ہیں؟ ان کو پورےملک میں خونخوار امریکی قاتلوں کےٹولےبلیک واٹر کی سرگرمیوں پر تشویش سےآگاہ ہونا چاہیےلیکن ان کو زیادہ سروکار امریکی ناراضی سےہے۔

کرنا کیا چاہیے؟

کیا یہ صورت حال تشویش ناک نہیں ہے؟ کیا اس صورت حال میں ہماری کوئی ذمہ داری نہیں بنتی ؟ اگر ہاں تو پھر آئیں اور’’بلیک واٹراور امریکی میرینز کو نکالو‘ امریکا کو پیش قدمی سے رکو‘‘مہم کا حصہ بنیں ۔ اس سلسلےمیں درج ذیل کام کرنےکےہیں ۔ آپ مزید تجاویز دےسکتےہیں۔اور ان تجاویز کو ان میں شامل کرکےاپ ڈیٹ کیا جاتا رہےگا۔

 آپ اس سلسلےمیں انٹرنیٹ پر زیادہ سےزیادہ کمیونٹیاں بنائیں۔ اس سلسلےمیں میں عبداللہ رضا کی مثال دوں گا جنہوں نےفیس بک پر ایسی ہی ایک کمیونٹی بنائی ہے۔

 انہوں نےایک تجویز دی ہےجس سےاتفاق کرنا چاہیےکہ جو بلاگر کسی اسکول ‘ کالج یا ونیورسٹی میں زیر تعلیم ہےوہ وہاں کےنوٹس بورڈز پر پوسٹر آویزان کرےتاکہ عام طالب علم ان خونخوار کرایہ کےقاتلوں سےآگاہ ہوسکیں۔

 اسلام آباد میں امریکی سفارت خانےاور واشنگٹن میں پاکستانی سفارت      خانے( واضح رہےدونوں جگہ انہیں کےسفیر ہیں) کو زیادہ سےزیادہ تعداد میں ای میلز لکھ کر بدنام زمانہ بلیک واٹر سےمتعلق ثبوت بھیجیں اور مطالبہ کریں کہ بلیک واٹراور امریکی میرینز کو فی الفور پاکستان سےنکالاجائے۔ اس کےعلاوہ دیگر سفارت خانوں کو بھی ای میلز کر کےجمہوریت کےنام نہاد علمبردار امریکا کی کرتوتوں سےآگاہ کریں۔

 سیاسی جماعتوں کےقائدین ‘ ارکان سینٹ ‘ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو ای میلز اور خطوط لکھ کر شرم و غیرت دلائیں کہ وہ پاکستان کی خاطر اس مسئلےپر آواز اُٹھائیں۔ ان کو یقین دلایا جائےکہ کل امریکا تو ان کو حکومت نہیں دلا سکےگا البتہ پاکستانی معاشرہ بیدار ہورہا ہےاور وہ سب کو بغورنوٹ کررہا ہے‘ وہ ہرگز کسی ایسی سیاسی جماعت یا سیاست دان کو قبول نہیں کرےگا جو ملک کےخلاف سازشوں پر خاموش رہا ہو۔کیوں کہ خاموشی نیم رضامندی ہوتی ہے۔

 دانشوروں ‘ کالم نوسیوں اور ٹی وی شوز کےمیزبانوں کو خطوط لکھےجائیں۔

 آپ اپنےعلاقےمیں کم ازکم ایک بینر لگا کر آگاہی کا سبب بنیں۔

اپنےعلاقےکے100ایسےلوگوں کو بلیک واٹر سےمتعلق معلومات دیں جو انٹرنٹ تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔اگر اتنی تعدادتک رسائی ممکن نہ ہو تو کم ازکم 10لوگوں کو تفصیلات فراہم کریں تاکہ وہ مزید لوگوں کی آگاہی کا سبب بنیں۔

اس سلسلےمیں مزید تجاویز اس ای امیل ایڈرس پر بھیج دیں تاکہ انہیں دیگر ساتھی بلاگرز کےساتھ شیئر کیا جا سکے۔

upbspakistan@gmail.com

Articles

جناب الطاف حسین صاحب کے نام ختم نبوت کے رہنما مولانا اللہ وسایا کا کھلا خط

In Uncategorized on ستمبر 14, 2009 منجانب ابو سعد

مکرمی و محترمی ۔۔۔ روزنامہ ایکسپریس ملتان ۹ ستمبر ۹۰۰۲ءمیں ااپ کا انٹرویوشائع ہوا۔جو پوائنٹ بلینک ود لقمان میں اظہارخیال کرتے ہوئے آپ نے دیا مبشر لقمان مبینہ طور پر قادیانی لابی کا نفسِ ناطقہ لگتا ہے۔وہ آئے روز ایکسپریس چینل میں قادیانی جماعت کی حماےت میں قومی رہنماو¿ںسے کچھ نہ کچھ کہلوانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔۔ پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ستمبر ۴۷۹۱ءکو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔اس کی خوشی میں اگلے روز ۸ ستمبر کو پوری قوم سو سالہ قضیہ حل ہونے پر خوشیاں منا رہی تھی ۔ عین اسی دن ۸ ستمر ۹۰۰۲ءکو آپ کا انٹر ویو قادیانیوں کی حماےت میں لیا گیا۔جو اگلے روز ۹ ستمبر کو شائع ہوا۔ جناب بھٹو صاحب کے عہد اقتدار میں امت مسلمہ کو جو خوشی نصیب ہوئی۔ ٹھیک پینتیس سال بعد قادیانیوں نے بھٹو صاحب کی پارٹی کے اتحادی قائد سے بیان دلوا کر امتِ مسلمہ سے بزعمِ خود انتقام لے لیا ۔ ممکن ہے اس تاریخ کو انٹرویو اتفاقی واقعہ قرار دے دیا جائے۔لیکن جو لوگ قادیانی سانپوں کی زہر ناکیوں سے با خبر ہیں ان کو اس واقعہ کو اتفاقی قرار دینا مشکل اور بہت مشکل ہے۔
 جناب الطاف حسین صاحب ! آپ کے قادیانی حماےت میں بیان کے علیحدہ علیحدہ نمبرات لگا کر آپ سے چند گزارشات عرض کرنا ہیں ۔ خدا کرے کہ مزاجِ گرامی پر ناگوار نہ گزریں۔لیکن سودائی مرض بڑھ جائے تو میٹھی چیز بھی کڑوی لگتی ہے۔آپ نے اپنی کوثر و تسنیم سے دھلی زبان سے فرماےا
 ۱ :۔” ایم کیو ایم واحد تنظیم ہے جس کے قائد نے قادیانیوں کے امیرمرزا طاہر بیگ کے انتقال پر تعزےتی بیان دیا۔“
چشمِ بد دوریہ کارنامہ آپ ہی انجام دے سکتے ہیں۔یہ عزت آپ کے حصہ میں لکھی جانی تھی۔وہ قادیانی جس کے نفسِ ناطقہ ظفراللہ خان قادیانی نے قائد اعظم کا موجود ہونے کے باوجود جنازہ نہ پڑھا۔وہ اپنے کلفر میں اتنا پکا اور آپ کے رویہ میں یہ تفاوت کہ قائد اعظم کے نام کی مالا جپنے کے باوجود قادیانی گروہ کے چیف کے آنجہانی پوتے کی فوتگی کا درد لے کر آپ کا دل بے قرار ہو جاتا ہے۔اور تعزیتی بیان جب تک نہیں دے دیتے اس وقت تک وہ دل کا روگ درست نہیں ہوتا۔۔۔محترمی ۔۔! آپ کیوں بھول گئے کہ قائد ا عظم کی کابینہ میں شامل ہونے کے باوجود ظفراللہ خان نے جنازہ نہ پڑھا۔تو اخباری نمائندہ کے جواب میں ظفراللہ نے کہا ” کہ کافر حکومت کا مجھے مسلمان وزیر ےا مسلم حکومت کا کافر وزیر مجھے سمجھ لیں “
ظاہر ہے ظفراللہ خان خود کو کافر نہیں کہہ رہا تھابلکہ پوری حکومت کو کافر کہنا مقصود تھا۔بر ہمن(ظفراللہ) کی اس زناری اور مسلم (آپ) کی خواری سے اللہ مسلمانوں کو محفوظ فرمائیں۔
 ۲ :۔ آپ نے فرماےا ۔۔۔ ”مجھ پر کئی اخبارات نے ادارےے لکھے کہ میں نے کفر کیا ہے آج پھر میں وہ کفر دوبارہ کرنے جا رہا ہوں ۔ جس کا دل چاہے فتویٰ دے۔“
محترم ۔۔۔ راقم مسکین اس سے تو بے خبر ہے کہ آپ پر کس اخبار نے اداریہ لکھا اور کس نے فتویٰ دیا۔اگر قادیانیوں کے نزدیک اپنا نرخ بڑھوانا ہے تو جو چاہے فرمائیں بہر حال آپ کے دادا مولانا مفتی محمد رمضان مفتی آگرہ موجود نہیں ۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان سے بہ ایں الفاظ فتویٰ طلب کیا جاتا کہ کیا فرماتے ہیں مفتی آگرہ اپنے ہونہار پوتے کے متعلق جو بقائمی ہو ش وحواس رو بروہزاروں گواہان کہا ہے کہ ” میں وہ کفر دوبارہ کرنے جا رہا ہوں “۔ آےا یہ قور رضا با لکفر ہے ےا نہیں۔اور اگر رضا بالکفر ہے تو رضا با لکفر سے آدمی کافر ہو جاتا ہے ےا نہیں “ ۔۔۔ ظاہر ہے فقہاءنے رضا بالکفر کو کفر کہا ہے۔آپ کے دادا بھی یہی فتویٰ دیتے۔ نہ جانے ان کے خلاف آپ کا کیا ردِ عمل ہوتا۔

محترم ۔۔۔! بہت ہی منت سے درخواست ہے کہ آدمی ہزار غصے میں ہو ےا جذباتی ہو جائے ےا سینے کا درد اور منکرینِ ختمِ نبوت کی حماےت کا مروڑ کتنا ہی بے قرار کر دے کبھی بھول کربھی ایک دن ادنیٰ مسلمان کو بھی یہ نہیں کہنا چاہےے کہ میں کفر کرنے جا رہا ہوں ۔یہ حلم خداوندی کو چیلنج کرنے والی بات ہے۔اسلام ایسی نعمت کے کفران والی بات ہے۔
  اے کاش آنجناب اس پر توجہ فرمائیں
 ۳:۔ آپ نے فرماےا ” جو قادیانی پاکستان میں رہتے ہیں ان کو اپنے عقیدے اور مسلک کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہونی چاہےے“
قائدِ محترم ۔۔۔!
 ۱:©۔ مرزا قادیانی کا کہنا تھا کہ میں نبی اور رسول ہوں
۲:۔ سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا
۳:۔ مرزا قادیانی نے کہا محمد رسول اللہ والذین معہ اس وحی میں مجھے ( مرزا کو) محمد کہا گیا اور رسول بھی۔۔۔
۴:۔مرزا کے بیٹے نے کہا کہ مرزا قادیانی خود محمد رسول اللہ ہے جوقادیان میں دوبارہ بھیجا گیا
۵::۔ تمام قادیانی مرزا کی بیوی کو ام المومنین اور اس کے خاندان کو اہلِ بیت اطہاراور اس کی زوجہ کو سےدةالنساءکہتے ہیں۔
۶:۔ مرزا کے مرید نے مرزا کی موجودگی میں کہا اور مرزا سے داد و تحسین وصول کی کہ محمد پھر اتر آئے ہیں اور محمد ہم ہیں ۔اور آگے سے بڑھ کر ہیں ۔اپنی شان میں محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
۷:۔قادیانی عقیدہ ہے کہ مکہ مکرمہ مدینہ طیبہ حرمین شریفین کی طرح قادیان بھی ارض، حرم ہے۔
۸:۔ قادیانی عقیدہ ہے کہ مرزا کے دیکھنے والے قادیانی صحابہ کرام ہیں
۹:۔ ایک قادیانی نے خود رواےت کیا کہ میرے سامنے مرزا کے خاندان کے ایک فرد نے کہا کہ ابو بکر اور عمر ؓ کیا تھے۔ وہ تو مرزا غلام احمد کی جوتی کے تسمے کھولنے کے لائق نہ تھے
۰۱:۔ مرزا کا الہام کہ میری بیوی کو خدا نے خدیجہ ( الکبریٰ) کہا ہے۔
۱۱:۔ قادیانی عقیدہ ہے کہ تمام امت، محمدیہ جو مرزا کو نہیں مانتی یہ سب کافر ہیں
۲۱:۔ مرزا کا کہنا تھا کہ میرے مخالف جنگلوں کے خنزیر اور ان کی عورتیں کتیا ہیں
۳۱:، مرزا کا کہنا تھا کہ جو میرا مخالف ہے وہ جہنمی ہے
۴۱:۔ مرزا کاوجود خود محمد رسول اللہ کا وجود ہے
 محترمی ۔! قادیانی عقائدکے چودہ طبق سے ایک ایک نکتہ پیش کیا ہے اور عمداً کتابوں کے حوالے پیش نہیں کےے کہ ان تمام حوالہ جاتِ مرزائیت کو ہائی کورٹ کے ججز نے اپنے فیصلوں میں نقل کیا ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کہ کسی جج نے اپنے فیصلہ میں حوالہ غلط کوٹ کیا ہو اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی ویسے اگر کوئی قادیانی کسی بھی فورم پر چاہے ان حوالوںکو چیلنج کرے ہم ہزار بار ان کے چیلنج کو قبول کرنے کے لےے تیار ہیں ۔ایکسپریس چینل اور لقمان گفتگو میں اس کا اہتمام کرے تو ہم اس کے لےے بھی تیار ہیں۔ اب جناب الطاف حسین صاحب میری آپ سے درد مندانہ درخواست ہے کہ قادیانی گروہ مرزا کو محمد رسول اللہ کہے ۔ مرزا کی بیوی کو خدیجہ کہے۔ مرزا کے ماننے والے کو صحابی کہے مرزا کے منکرین کو جن میں آپ اور فقیر بھی شامل ہے۔ اور ہم تمام مسلمانوںکو کافر کہیں تو ان عقائد کی انہیں اسلامی مملکت میں عام اجازت ہونی چاہےے ۔۔۔؟ اور پھر ظلم یہ کہ قادیانی ان کفریہ عبارات و نظریات کو اسلام کے نام پر پیش کرتے ہیں کیا اس کی ان کو اجازت ہونی چاہےے۔۔۔´ کیا ایک آپ کا مخالف آپ کی پارٹی کے نام کو استعمال کر سکتا ہے ۔۔۔؟ متحدہ میں ایک شخص شامل نہیں مگر کیا وہ آپ کا ٹریڈ مارک استعمال کر سکتا ہے ۔۔۔؟ آپ کے علاوہ کوئی شخص ظل وبروز کی آڑ میں آپ کے نام و مقام کا مدعی سچا ہو سکتا ہے۔۔۔۔؟
فرضی طور پر ایک شخص اپنے آپ کو الطاف حسین کہہ کر آپ کی پارٹی آپ کی جائداد آپ کی اولاد پر وہی حقوق حاصل کر سکتا ہے جو آپ کو حاصل ہیں۔۔۔؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو پھر قادیانیوں کو کیوں اجازت دی جا سکتی ہے۔کہ وہ اسلام کے نام پر اپنے کفر اور جعل سازی کو جاری رکھیں ۔
محترمی ۔۔۔! میں آپ کی بات نہیں کرتا آپ اسے بد اخلاقی پر محمول کریں گے کیا ایک شخص جعلی طور پر کسی کو کہے کہ میں تمہارا باپ ہوں تو اس کو اس کی اجازت ہونا چاہےے۔۔؟اے کاش کم از کم محبوبِ رب العالمینﷺ کی عزت کو اپنے باپ کی عزت کے برابر ہی قرار دیا ہوتا ۔ افسوس آپ سے تو یہ بھی نہ ہوا۔
 ۴:۔ آپ نے فرماےا ” اگر پاکستان میں ایک ہندو کو اپنے عقیدہ کے مطابنق عبادت کا حق ہے تو قادیانیوں کو بھی وہ حق ملنا چاہےے“
محترمی ۔۔۔! یہاں آپ چوکڑئی بھول رہے ہیں ۔ قادیانیوں کی حماےت میں حقائق کاانکار آپ کے وقار میں ہر گز اضافہ نہیں کرے گا۔ ہندو آئینِ پاکستان کو مانتا ہے۔وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے عقیدہ کو ہندو ازم کے نام سے متعارف کراتا ہے۔آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں ۔ قادیانی خود کو مسلمان کہہ کر آئینِ پاکستان سے بغاوت کرتے ہیں ۔ آئین کو ماننے والا اور آئین سے بغاوت کرنے والا کیا دونوں برابر ہیں ۔۔۔؟
پھر ایک ہندو کہتا ہے کہ میں کرشن ےا رام کو ماننے والا ہندو ہوں اور حضورﷺ کو ماننے والے مسلمان ہیں‘ ایک سکھ کہتا ہے کہ میں بابا گرونانک کا پیرو سکھ ہوں اور محمد عربیﷺ کے پیرو کار مسلمان ہیں۔
ایک قادیانی کہتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے مسلمان ہیں اور امت محمدیہ جو مرزا کو نہیں مانتی وہ کافر ہیں ۔کیا یہ دونوں برابر ہیں۔۔۔؟قادیانیوں کو مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی کر کے مسلمانوں کے تشخص کو برباد کرنے کی وہی اجازت دے سکتا ہے جس کے نزدیک روشنی اور تاریکی دونوں برابر ہوں جس کے نزدیک کفر اور اسلام دونوں برابر ہوں اسے سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ کعبہ کوپاسبان مل گےے صنم خانہ سے تو سنا تھا لیکن آپ تو صنم خانہ کو پاسبان مل گےے کعبہ سے کی رواےت قائم کرنے چلے ہیں۔رک جائےے کہ یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔
 ۵؛۔آپ نے فرماےا ” کہ میں نے قادیانیت کا لٹریچر پڑھا ہے ۔ان کا بھی وہی کلمہ ہے جو ہمارا ہے“
محترمی یہی سوال جو آپ نے اٹھاےا ہے یہی مرزا قادیانی کے بیٹے اور آپ کے جگری دوست مرزا طاہر کے چچا سے کیا گیا تھا کہ تم نے اپنا نبی علیحدہ بناےا ہے تو کلمہ بھی علیحدہ بنالوتو مرزا کے بیٹے نے کہا کہ ہمیں علیحدہ کلمے کی ضرورت نہین اس کلمہ سے ہماری ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔کیوں کے محمد رسول اللہ کے مفہوم میں مرزا کے آنے کے بعد ایک اور نبی کی زیادتی ہوگئی۔مرزا قادیانی بھی محمد ہے اور رسول بھی تو محمد رسول اللہ کے کلمے میں مرزا بھی شامل ہے۔یہ کلمة الفصل میں حوا لہ ہے۔مرزا بشیر احمد مرزا کے بیٹے اور ان کے نام نہاد صحابی کی کتاب ہے۔آپ کا کہنا کہ ان کا کلمہ وہی جو ہمارا ہے “ اگر آپ کے نزدیک محمد رسول اللہ میں مرزا قادیانی شریک ہے آپ کو یہ کہنے کا حق ہے۔لیکن کوئی مسلمان جس طرح توحید میں شرک کے قائل نہیں رسالت یعنی محمد رسول اللہ کے مفہوم میں بھی شرک کے قائل نہیں ۔ پھر آپ کا یہ کہنا کہ قادیانیوں کا اور ہمارا کلمہ ایک ہے کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے۔۔۔؟
 ۶؛۔ آپ کا فرمانا کہ عبد السلام قادیانی کو نوبل پرائز ملا وہی عبدالسلام جس نے ایٹمی راز امریکہ کو دے کر پاکستان کا ناطقہ بند کرنے کی سعی نامشکور کی
۔اس کی وکالت آپ کریں تو اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ” سنا ہے کہ باغبان نے چمن بیچ ڈالا‘ ۔ نوبل یہودی تھا۔یہودی انعام سے یہودی ‘ قادیانی خوشی کے بعد آپ کی خوشی ۔ایک نئی تثلیث کا وجود ماننا پڑے گا۔
 ۷؛۔ آپ نے فرماےا کہ ہماری حکومت آگئی تو قادیانیوں کی عبادت گاہ بنواو¿ں گا“ اس نکتہ کا مفہوم لکھا ہے ( آپ نے تو ان کی عبادت گوہ کو مسجد کہا جو آئینِ پاکستان کے خلاف ہے لیکن آپ اس سے ماوراءہیں )

محترمی ۔! کبھی نہ بھولےے کہ آپ قادیانیوں کو مسلمانوں میں شامل کر سکیں گے قادیانی ایسی بوسیدہ اور شکستہ کشتی ہے کہ اسے بچانے والا بھی ڈوبے گا۔خدا گنجے کو ناخن نہ دے گا۔ہے شوق تو جی بسم ا للہ ۔۔۔ آپ ان کی حماےت مین کھڑے رہیںامت آپ کو ماےوس نہیں کرے گی جہاں چاہیں آواز دیں خدامِ ختم، نبوة کوآپ حاضر پائی گے۔
قبلہ یہ کیا ہوا کہ دوسرے دن صفائی دینی شروع کر دی کہ میرا دادا مفتی تھا میں ختمِ نبوة کا قائل ہوں۔میں مسلمان ہوں ۔ آپ کے اس بیان سے تو خوشی ہوئی کہ آپ کو احساس ہو گیا لیکن ڈنڈی نہ مارےے یہ سیاست نہیںایمان کا مسئلہ ہے اگر اس بیان میں مخلص ہیں تو منکرینِ ختمِ نبوة قادیانیوں کی حماےت حضور ﷺ کے دشمنوں سے ےاری سے دست بردار ہون ۔ آپ بھی لندن میں قادیانی قیادت بھی لندن میں ۔ دو قائدین کی درون خانہ رازداری و مجبوری اسے اپنی ذات تک رکھےے لاکھوں شیداےانِ اسلام و خدامِ ختمِ نبوة متحدہ کے ووٹروں کا اپنے مفادات کے لےے سودا کرنا ایک قائد کے شاےانِ شان نہیں۔ تلخ نوائی کی معافی
جان کی امان پاو¿ں تو عرض کروں پر اسے محمول فرما لیجےے چودہ سو سال قبل سےدنا حسانؓ نے حضور ﷺ کے مخالفین سے کہا تھا ” میری جان ‘ عزت سب کچھ حضور ﷺ کے نام پر قربان ۔اسی کو دہرا کر ختم کرتا ہوں
      شاےد کہ اتر جائے ترے دل مین میری بات

         مولانا اللہ وساےا

Articles

جامعہ الازہر کا فتویٰ، علمائے کرام کا الطاف حسین کے حق میں بیان سے اظہار لاتعلقی

In پاکستان on ستمبر 14, 2009 منجانب ابو سعد

عالم اسلام کی سب سے بڑی جامعہ الازہر کے مفتی شیخ محمد حسینی مخلوف نے ۳ صفحات پر مشتمل ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس کے مطابق قادیانی عقائد کو درست سمجھنے والے اسلام سے خارج ہیں۔ دوسری طرف چند دن قبل الطاف حسین کے حق میں علما کی طرف سے جاری بیان سے علما نے اظہار لاتعلقی کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ الطا ف حسین بد ترین قادینیت نوازی پر اللہ رب العزت اور قوم سے مشروط معافی مانگیں، وہ لفظی وضاحتوں اور سیاسی بیانات کے ذریعے عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکیں۔ عالمی تحفظ ختم نبوت کے رہنماوں نے کہا کہ ان سے منسوب بیان بعض مفادپرست عناصرنے جعل سازی کے ذریعے عالمی تحفظ ختم نبوت کی طرف منسوب کیا تھا جو جھوٹا اور من گھڑت ہے۔  ادھر جمعیت اتحاد علما نے ایک بیان میں کہا ہے کہ الطاف حسین قادیانیوں کے قائد بن جائیں۔ جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا کہ الطاف حسین کے خلاف آئین سے بغاوت کا مقدمہ درج ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مزید مفتیان کرام نے کہا ہے کہ اگر الطاف حسین نے توبہ اور تجدید ایمان نہ کیا تو اسلام سے خارج ہیں۔ یہ خبریں پڑھنے کے بعد آپ اپنا تبصرہ دیجیے کہ اگر الطاف حسین توبہ نہیں کرتے تو پھر خود ایم کیو ایم کے کارکنا ن کو کیا کرنا چاہیے۔

Articles

کیا الطاف حسین نے مرتدہوچکے ہیں؟

In پاکستان on ستمبر 13, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

ایکسپریس کو دیے گئے انٹرویو میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے قادیانیوں سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کے بعد علما ئے کرام کی رائے میں وہ مرتد ہوچکے ہیں۔ علمائے کرام اس کی کیا دلیل دیتے ہیں ۔ یہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ دوسری جانب قادیانیوں کے سربراہ مرزا مسرور نے قادیانیوں کی حمایت پر الطاف حسین کے لیے دعایہ کلمات کہے ہیں ۔ اس کی خبر پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ خبریں پڑھنے کے بعد اپنا تبصرہ اس پوسٹ کے ذیل میں دیجیے۔  شکریہ ۔ تلخابہ

Articles

قادیانیوں کے سیاسی عزائم

In پاکستان on ستمبر 13, 2009 منجانب ابو سعد Tagged:

سید ابوالاعلیٰ مودودی
دوسرے گروہوں کے کوئی ایسے سیاسی رجحانات نہیں ہیں جو ہمارے لیے کسی حیثیت سے خطرناک ہوں اور ہمیں مجبورکرتے ہوں کہ ہم فوراً ان کے مسئلے کو حل کرنے کی فکر کریں۔ لیکن قادیانیوں کے اندر بعض ایسے خطرناک سیاسی رجحانات پائے جاتے ہیں، جن سے کسی طرح آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
ان کو ابتدا سے یہ احساس رہا ہے کہ ایک نئی نبوت کا دعویٰ لے کر جو شخص یا گروہ اٹھے گا اُس کا کسی آزاد و بااختیار سوسائٹی کے اندر پنپنا مشکل ہے۔ وہ مسلم قوم کے مزاج سے واقف ہیں کہ وہ طبعاً ایسے دعووں سے متنفر ہے جو ماننے اور نہ ماننے والوں کے درمیان کفر و اسلام کی تفریق کرکے نظام دین کو اور اسلامی معاشرے کے نظام کو درہم برہم کرتے ہوں۔ وہ مسلمانوں کی تاریخ سے واقف ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے دور سے لے کر آج تک اس طرح کے مدعیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ جہاں حکومت مسلمانوں کے اپنے ہاتھ میں ہو تو وہاں نئی نئی نبوتوں کے چراح نہ کبھی جلنے دیے گئے ہیں اور نہ آئندہ کبھی امید کی جاسکتی ہے کہ جلنے دیے جائیں گے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ صرف ایک غیر مسلم حکومت ہی میں آدمی کو یہ آزادی مل سکتی ہے کہ حکومت کو اپنی وفاداری و خدمت گزاری کا پورا اطمینان دلانے کے بعد مذہب کے دائرے میں جو دعویٰ چاہے کرے اور مسلمانوں کے دین، ایمان اور معاشرے میں جیسے فتنے چاہے اٹھاتا رہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ اسلام کی حکومت پر کفر کی حکومت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کی شکارگاہ مسلمان قوم ہی ہے، کیونکہ وہ اسلام کے نام پر اپیل کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کے اسلحہ سے کام لیتے ہیں۔ لیکن ان کا مفاد یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمان قوم ایک کافر اقتدار کے پنجے میں بے بس ہوکر ان کی شکارگاہ بنی رہے اور یہ اس کافر اقتدار کے پکے وفادار بن کر اس کا شکار کرتے رہیں۔ ایک آزاد وخودمختار مسلمان قوم ان کے لیے بڑی سنگلاخ زمین ہے جسے وہ دل سے پسند نہیں کرتے اور نہ ہی کرسکتے ہیں۔
اس کے ثبوت میں مرزا غلام احمد صاحب اور ان کی جماعت کے بکثرت بیانات میں صرف چند کا نقل کردینا کافی ہے:
”بلکہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو نہ ہمارا مکہ میں گزارا ہوسکتا ہے اور نہ قسطنطنیہ میں۔ تو پھر کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم اس کے برخلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں۔“
(ملفوظات ِاحمدیہ۔ جلد اول 146)
”میں اپنے کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں نہ مدینہ میں‘ نہ روم میں‘ نہ شام میں‘ نہ ایران میں‘ نہ کابل میں۔ مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لیے دعا کرتا ہوں۔“
(تبلیغ رسالت مرزا غلام احمد صاحب۔ جلد ششم ص 69)
”یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سائے سے باہر نکل جاﺅ تو پھر تمہارا ٹھکانہ کہاں ہے۔ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے لے گی۔ ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کرنے کے لیے دانت پیس رہی ہے۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں تم کافر اور مرتد ٹھیر چکے ہو۔ تم اس خداداد نعمت کی قدر کرو اور تم یقیناً سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ نے سلطنت ِانگریز تمہاری بھلائی کے لیے اس ملک میں قائم کی ہے‘ اور اگر اس سلطنت پر کوئی آفت آئے تو وہ آفت تمہیں بھی نابود کردے گی…. ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سنو‘ انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل وجان سے اس سپر کی قدر کرو اور ہمارے مخالف جو مسلمان ہیں‘ ہزار ہا درجہ اُن سے انگریز بہتر ہیں کیونکہ وہ ہمیں واجب القتل نہیں سمجھتے۔ وہ تمہیں بے عزت نہیں کرنا چاہتے۔“
(اپنی جماعت کے لیے ضروری نصیحت۔ از: مرزا غلام احمد صاحب۔ مندرجہ تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ 123)
”ایرانی گورنمنٹ نے جو سلوک مرزا علی محمد باب بانی فرقہ بابیہ اور اس کے بے کس مریدوں کے ساتھ مذہبی اختلاف کی وجہ سے کیا اور جو ستم اس فرقے پر توڑے گئے وہ ان دانشمند لوگوں پر مخفی نہیں ہیں جو قوموں کی تاریخ پڑھنے کے عادی ہیں۔ اور پھر سلطنت ِترکی نے جو ایک یورپ کی سلطنت کہلاتی ہے‘ جو برتاﺅ بہاءاللہ بانی فرقہ بابیہ بہائیہ اور اس کے جلاوطن شدہ پیروﺅں سے 1863ءسے لے کر 1892ءتک پہلے قسطنطنیہ‘ پھر ایڈریا نوپل اور بعد ازاں مکہ کے جیل خانے میں کیا وہ بھی دنیا کے اہم واقعات پر اطلاع رکھنے والوں پر پوشیدہ نہیں ہے۔ دنیا میں تین ہی بڑی سلطنتیں کہلاتی ہیں۔ اور تینوں نے جو تنگ دلی اور تعصب کا نمونہ اس شائستگی کے زمانے میں دکھایا وہ احمدی قوم کو یقین دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ احمدیوں کی آزادی تاج برطانیہ کے ساتھ وابستہ ہے…. لہٰذا تمام سچے احمدی جو حضرت مرزا کو مامور من اللہ اور ایک مقدس انسان تصور کرتے ہیں بدون کسی خوشامد اور چاپلوسی کے دل سے یقین کرتے ہیں کہ برٹش گورنمنٹ ان کے لیے فضلِ ایزدی اور سایہ¿ رحمت ہے اور اس کی ہستی کو وہ اپنی ہستی خیال کرتے ہیں۔“
(الفضل13ستمبر1914ئ)
یہ عبارات اپنی زبان سے خود کہہ رہی ہیں کہ کفار کی غلامی جو مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے، مدعیانِ نبوت اور ان کے پیروﺅں کے لیے وہی عین رحمت اور فضلِ ایزدی ہے‘ کیونکہ اسی کے زیر سایہ ان لوگوں کو اسلام میں نئی نئی نبوتوں کے فتنے اٹھانے اور مسلم معاشرے کی قطع و برید کرنے کی آزادی حاصل ہوسکتی ہے‘ اور اس کے برعکس مسلمانوں کی اپنی آزاد حکومت جو مسلمانوں کے لیے ایک رحمت ہے، ان لوگوں کے لیے وہی ایک آفت ہے‘ کیونکہ بااختیار مسلمان بہرحال اپنے ہی دین کی تخریب اور اپنے ہی معاشرے کی قطع و برید کو بخوشی برداشت نہیں کرسکتے۔
پاکستان میں قادیانی ریاست
اس مستقل رجحان کے علاوہ اب ایک نیا رجحان قادیانی گروہ میں یہ ابھر رہا ہے کہ پاکستان کے اندر ایک قادیانی ریاست کی بِنا ڈالنا چاہتے ہیں۔ قیام پاکستان کو ابھی پورا ایک سال بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ 23 جولائی 1948ءکو قادیانی خلیفہ صاحب نے کوئٹہ میں ایک خطبہ دیا جو 13 اگست کے الفضل میں بایں الفاظ شائع ہوا ہے:
”برٹش بلوچستان، جو اب پاکی بلوچستان ہے، کی کل آبادی پانچ یا چھ لاکھ ہے۔ یہ آبادی اگرچہ دوسرے صوبوں کی آبادی سے کم ہے مگر بوجہ ایک یونٹ ہونے کے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا میں جیسے افراد کی قیمت ہوتی ہے یونٹ کی بھی قیمت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کی کانسٹی ٹیوشن ہے۔ وہاں اسٹیٹس سینیٹ کے لیے اپنے ممبر منتخب کرتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس اسٹیٹ کی آبادی دس کروڑ ہے یا ایک کروڑ ہے۔ سب اسٹیٹس کی طرف سے برابر ممبر لیے جاتے ہیں۔ غرض پاکی بلوچستان کی آبادی پانچ چھ لاکھ ہے اور اگر ریاستی بلوچستان کو ملا لیا جائے تو اس کی آبادی گیارہ لاکھ ہے لیکن چونکہ یہ ایک یونٹ ہے اس لیے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ زیادہ آبادی کو تو احمدی بنانا مشکل ہے لیکن تھوڑے آدمیوں کو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں۔ پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلد احمدی بنایا جاسکتا ہے…. یاد رکھو تبلیغ اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ہماری Base مضبوط نہ ہو۔ پہلے بیس مضبوط ہو تو پھر تبلیغ پھلیتی ہے۔ بس پہلے اپنی Base مضبوط کرلو۔ کسی نہ کسی جگہ اپنی Base بنا لو۔ کسی ملک میں ہی بنا لو…. اگر ہم سارے صوبے کو احمدی بنا لیں تو کم از کم ایک صوبہ تو ایسا ہوجائے گا جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے اور یہ بڑی آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔“
یہ تقریر کسی تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ دوسرے گروہ جن کی موجودگی کا حوالہ دے کر قادیانیوں کو برداشت کرنے کا ہمیں مشورہ دیا جاتا ہے کیا ان میں سے بھی کسی کے ایسے منصوبے ہیں؟ کیا ان میں سے بھی کوئی ایسا ہے جو اپنے مذہب کے لیے غیر مسلم اقتدار کو مفید سمجھتا ہو اور مسلم اقتدار قائم ہوتے ہی ریاست کے اندر اپنی ریاست بنانے کی فکر میں لگ گیا ہو؟ اگر نہیں ہے تو پھر ان کی مثال قادیانیوں پرکیوں چسپاں کی جاتی ہے؟

عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور مدعی نبوت کی تکفیر کے باب میں علماءامت کے اقوال

امام ابوحنیفہ

 ایک شخص نے امام ابوحنیفہ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں۔ اس پر امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ جو شخص اس سے علامات کا مطالبہ کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

۔ علامہ ابن حزم

”اور یقینا وحی کا سلسلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے منقطع ہوچکا ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ وحی نہیں ہوتی مگر ایک نبی کی طرف‘ اور اللہ عزوجل فرما چکا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں تم میں سے کسی کے باپ‘ مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم ہیں نبیوں کے۔“

 

 امام غزالی

امت نے اس لفظ (لانبی بعدی) سے بالاجماع یہ سمجھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتادیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کبھی نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ رسول۔ اور یہ کہ اس میں کسی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ جو شخص اس کی تاویل کرکے اسے خاص معنی کے ساتھ مخصوص کرے اس کا کلام مجنونانہ بکواس کی قسم سے ہے اور یہ تاویل اس پر تکفیر کا حکم لگانے میں مانع نہیں ہے‘ کیونکہ وہ اس نص کو جھٹلا رہا ہے جس کے متعلق تمام امت کا اجماع ہے کہ اس کی تاویل و تخصیص نہیں کی جا سکتی۔

قاضی عیاض

جو شخص خود اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرے یا جو نبوت کے اکتساب اور صفائی قلب کے ذریعے سے مرتبہ¿ نبوت تک پہنچ جانے کو جائز رکھے جیسا کہ فلسفی لوگ اور غالی متصوفین کہتے ہیں اور اسی طرح جو دعوے کرے کہ اس پر وحی آتی ہے اگرچہ نبی ہونے کا دعویٰ نہ کرے…. ایسے سب لوگ کافر ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں‘ کوئی نبی آپ کے بعد آنے والا نہیں اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں جنہیں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہے اور تمام امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر پر محمول ہے اور اس مفہوم و مراد میں تاویل و تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا ان تمام لوگوں کے کفر میں شک کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے، بربنائے اجماع بھی اور بربنائے نقل بھی…. اور اسی طرح وہ بھی کافر ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یا آپ کے بعد کسی کی نبوت کا قائل و مدعی ہو۔

علامہ شہرستانی

”اور اسی طرح جو کہے…. یا یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عیسیٰ بن مریم کے سوا کوئی نبی ہے تو اس کی تکفیر میں دو آدمیوں کے درمیان بھی اختلاف نہیں ہے۔“(الملل والنحل۔ جلد3۔صفحہ249)

علامہ ابن کثیر

ہر وہ شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مقام (نبوت) کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، مفتری، دجال، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے۔

علامہ ابن نجیم

گر آدمی یہ نہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ان باتوں میں سے ہے جن کا جاننا اور ماننا دین میں ضروری ہے۔
ملا علی قاری 1016ھ
”اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے باجماع امت۔“
(شرح فقہ اکبر۔ صفحہ202)

شیخ اسماعیل حقی

اہل سنت و الجماعة اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اب جو کوئی کہے کہ ہمارے نبی کے بعد کوئی نبی ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی کیونکہ اس نے نص کا انکار کیا۔ اسی طرح اس شخص کی تکفیر بھی کی جائے گی جو اس میں شک کرے۔ کیونکہ حجت نے حق کو باطل سے الگ کردیا ہے اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے اس کا دعویٰ باطل کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔

فتاویٰ عالمگیری

اگر آدمی یہ نہ جانے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں ہے۔ اور اگر کہے کہ میں رسول اللہ ہوں یا فارسی میں کہے کہ من پیغمبرم‘ اور اس کی مراد یہ ہو کہ وہ پیغام لانے والا ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔

علامہ آلوسی

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ان باتوں میں سے ہے جن کی کتاب اللہ نے تصریح کی اور سنت نے واشگاف بیان کیا اور امت نے اس پر اجماع کیا۔ لہٰذا اس کے خلاف دعویٰ کرنے والے کی تکفیر کی جائے گی اور اگر اصرار کرے گا تو قتل کیا جائے گا۔

 قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لیے علماءکی متفقہ تجویز

پاکستان کے سربر آوردہ علماءنے دستوری سفارشات میں جو ترمیمات پیش کی ہیں ان میں سے ایک ترمیم یہ بھی ہے کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے کر پنجاب سے مرکزی اسمبلی میں ان کے لیے ایک نشست مخصوص کردی جائے اور دوسرے علاقوں کے قادیانیوں کو بھی اس نشست کے لیے کھڑے ہونے اور ووٹ دینے کا حق دے دیا جائے۔ اس ترمیم کو علماءنے ان الفاظ کے ساتھ پیش کیا ہے۔
”یہ ایک نہایت ضروری ترمیم ہے جسے ہم پورے اصرار کے ساتھ پیش کرتے ہیں ملک کے دستور سازوں کے لیے یہ بات کسی طرح موزوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات اور مخصوص اجتماعی مسائل سے بے پروا ہو کر محض اپنے ذاتی نظریات کی بناءپر دستور بنانے لگیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کے جن علاقوں میں قادیانیوں کی بڑی تعداد مسلمانوں کے ساتھ ملی جلی ہے وہاں اس قادیانی مسئلے نے کس قدر نازک صورتحال پیدا کردی ہے ان کو پچھلے دور کے بیرونی حکمرانوں کی طرح نہ ہونا چاہیے جنہوں نے ہندو مسلم مسئلہ کی نزاکت کو اس وقت تک محسوس کرکے ہی نہ دیا جب تک متحدہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ دونوں قوموں کے فسادات سے خون آلود نہ ہوگیا۔ جو دستور ساز حضرات خود اس ملک کے رہنے والے ہیں ان کی یہ غلطی بڑی افسوسناک ہوگی کہ وہ جب تک پاکستان میں قادیانی مسلم تصادم کو آگ کی طرح بھڑکتے ہوئے نہ دیکھ لیں…. اس وقت تک انہیں اس بات کا یقین نہ آئے کہ یہاں ایک قادیانی مسلم مسئلہ موجود ہے جسے حل کرنے کی شدید ضرورت ہے اس مسئلہ کو جس چیز نے نزاکت کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے وہ یہ ہے کہ قادیانی ایک طرف مسلمان بن کر مسلمانوں میں گھستے بھی ہیں اور دوسری طرف عقائد، عبادات اور اجتماعی شیرازہ بندی میں مسلمانوں سے نہ صرف…. الگ ہیں بلکہ ان کے خلاف صف آراءبھی ہیں اور مذہبی طور پر تمام مسلمانوں کو اعلانیہ کافر قرار دیتے ہیں۔ اس خرابی کا علاج آج بھی یہی ہے اور پہلے بھی یہی تھا(جیسا کہ علامہ اقبال مرحوم نے اب سے بیس برس پہلے فرمایا تھا) کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے دیا جائے۔
علماءکے نام
مولانا مفتی محمد حسن صاحب……..خلیفہ حاجی ترنگ زئی
مولانا ابوالحسنات صاحب…….. مولانا اطہر علی صاحب
مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی…….. مولانا محمد اسماعیل صاحب
سید ابو الاعلیٰ مودودی…….. مولانا حبیب اللہ صاحب
مولانا شمس الحق صاحب…….. علامہ سید سلیمان ندوی
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب……..مولانا داﺅد غزنوی صاحب
مولانا خیر محمد صاحب……..مولانا احمد علی صاحب
مولانا احتشام الحق صاحب……..قاضی عبدالصمد صاحب سربازی
مولانا عبدالحامد قادری بدایوانی…. مولانا ابو جعفر محمد صالح صاحب
مولانا محمد ادریس صاحب…….. مولانا محمد اسماعیل صاحب
حاجی محمد امین صاحب…….. مولانا محمد صادق صاح