Archive for the ‘فوج’ Category

Articles

بے چارے ترجمان

In فوج,میڈیا,پاکستان on اگست 30, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , , , , ,

تحریر :علی خان
مصیبت تو ان بے چاروں کی ہے جن کے کاندھوں پر ترجمانی کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ پارٹی کے سربراہ کچھ بھی کہہ کر الگ جا کھڑے ہوتے ہیں جیسے محاورہ ہے کہ ”بھُس میں چنگی ڈال بی جمالو دور کھڑی۔“ چنگی میں غالباً چ کے نیچے زیر ہے اور یہ چنگاری کی نصفیر ہوسکتی ہے ورنہ پیش والی چنگی پر تو محصول وصول کیا جاتا ہے اور اب یہ چنگیاں جگہ جگہ لگی ہوئی ہیں، ہر آدمی اپنی زندگی کا محصول ادا کررہا ہے۔ لیکن بی جمالو بھی بھُس ہوگا تو اس میں چنگی ڈالے گی۔ اسے چھوڑیے کہ بی جمالو کون ہے، سب جانتے ہیں، مگر یہ بھُس کیا ہے؟ سوچیے۔
ترجمانوں پر بڑا ستم ہے، اور جب یہ ترجمانی بی بی فوزیہ وہاب کی طرف سے ہو تو اچھے خاصے کامیڈی سرکس کا مزہ آجاتا ہے۔ وضاحت کا بوجھ فیصل رضا عابدی پر بھی ڈال دیا جاتا ہے مگر وہ ہوشیار آدمی ہیں، جارحانہ انداز اختیار کرکے صاف بچ نکلتے ہیں۔ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر کا تو ایک ہی کام ہے کہ ہر خبر کی تردید کردی جائے خواہ وہ جوتا اُچھالنے کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو۔ موبائل پر ایک ایس ایم ایس ملا ہے کہ ایک رہنما نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ ان کی پریس کانفرنس مسجد میں ہوا کرے گی سبب اس کا یہ کہ وہاں لوگ جوتے اُتار کر داخل ہوتے ہیں۔ شاید یہ اعلان من گھڑت ہو ورنہ تو مسجدیں بھی خود کش حملہ آوروں سے محفوظ نہیں اور یہ جوتے سے زیادہ خطرناک ہے۔ پھر جن کو اپنے جوتوں کا تحفظ درکار ہوتا ہے وہ مسجد میں بھی جوتے بغل میں دبا کر داخل ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا، میاں جوتے اپنے سامنے رکھنے سے نماز نہیں ہوتی۔ جواب ملا جوتے پیچھے رکھنے سے جوتے نہیں رہتے۔ اس کا تجربہ سبھی کو ہوگا بشرطیکہ مسجد میں گئے ہوں۔ ایک شاعر نے کہا تھا کہ:
اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہوشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
برمنگھم کے ہال میں داخل ہونے والا پی پی کا کارکن شمیم خان بھی دیکھنے میں تو خضر صورت ہی لگا مگر اسے خود ننگے پاﺅں گھر جانا پڑا۔ سنا ہے کہ اس کے جوتے ضبط کرلیے گئے تھے۔ جوتا ولایتی تھا، ہدف دیسی،اس سانحہ پر بھی ترجمانوں نے کئی وضاحتیں کیں اور ہر وضاحت دوسری سے مختلف۔ لیکن لوگ امریکی صدر بش کے کلب میں شمولیت پر فخر کرتے پائے گئے ہیں۔
آج کل سب سے زیادہ مشکل میں متحدہ قومی موومنٹ کی پوری ٹیم ہے۔ بوجھ وہ آن گرا ہے کہ اٹھائے نہ بنے۔ ہمت کی داد نہ دینا نا انصافی ہوگی۔ ہمیں ایک ترجمان کا قصہ یاد آگیا۔ ایک بھائی کو شیخیاں مارنے کی عادت تھی۔ پہلے تو ایسے لوگ کم کم ہوتے تھے اور جو ہوتے تھے وہ میاں خوجی کی طرح افسانوی کردار بن جاتے تھے، اب ایسے لوگ سیاست میں آجاتے ہیں۔ تووہ صاحب اپنے شکار کے قصے سنا رہے تھے۔ کہنے لگے ایک ہرن پر اس طرح گولی چلائی کہ اس کے کُھر سے ہوتی ہوئی سر سے نکل گئی۔ سننے والے نے تعجب کا اظہار کیا تو مصاحب خاص نے ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ہرن اس وقت اپنے کُھر سے سر کھجا رہا تھا۔
اس وقت بہت سے لوگ اپنے کُھروں سے سر کھجا رہے ہیں۔ الطاف بھائی تو شوشا چھوڑ کر الگ جا کھڑے ہوئے۔ ان کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں آرہی لیکن متحدہ کا ہر نمایاں اور غیر نمایاں شخص وضاحتیں کرتا پھر رہا ہے۔ چینل والے بھی کسی نہ کسی کو پکڑ لیتے ہیں اور بال نہ ہو تو کھال اُتار رہے ہیں، دوسروں کے لیے اپنی کھال بچانا دشوار ہورہا ہے۔
ملک جس وقت سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا، الطاف بھائی نے اس پانی میں مارشل لا کی کشتی اتار دی۔ 22 اگست کو ”اپنی قوم“ سے خطاب کرتے ہوئے وہ فوج کو مارشل لا لگانے کی دعوت دے بیٹھے۔ پانی ساکت تو نہیں تھا لیکن بھائی نے جو بھاری پتھر پھینکا اس سے نئے بھنور اُٹھ رہے ہیں، نئے دائرے بن رہے ہیں اور ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ ان کے ترجمان رضا ہارون سے لے کر ڈاکٹر فاروق ستار تک اور حیدر عباس رضوی سے بابر غوری تک بھائی کے ایک ایک جملے اور نکتے کی تفسیر بیان کررہے ہیں، سمجھا رہے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں یہ ہے۔ لیکن بھائی کا خطاب ریکارڈ پر ہے جو بار بار بجایا جارہا ہے۔یہ ہز مسٹرز وائس ہے کہ انکار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ الطاف حسین نے واضح طور پر کہا ہے کہ محب وطن جرنیل اگر مارشل لا جیسا قدم اٹھائیں گے تو وہ اور پوری ایم کیو ایم ان کی حمایت کرے گی۔ یہ صاف صاف مارشل لا لگانے کی دعوت ہے۔ مگر ترجمان چونکہ، چنانچہ، اگر‘ مگر کررہے ہیں۔ الطاف بھائی کی پارٹی مرکز اور صوبہ سندھ میں اقتدار میں شریک ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ خود وزیراعظم یا الطاف بھائی کے دوست آصف علی زرداری ان سے براہ راست پوچھتے کہ اس پردہ زنگاری میںکون ہے اور اقتدار میں رہتے ہوئے جنرلوں کو مارشل لا لگانے کی دعوت دینے کا مقصد کیا ہے۔ مگر وزیر اعظم تو اس پر تعجب کا اظہار کرکے رہ گئے۔ قمر زمان کائرہ نے بھی کھل کر مذمت نہیں کی اور ایوان صدر میں خاموشی طاری ہے۔ بعض باتوں کا شافی و کافی جواب بے شک ”باشد خموشی“ ہوتا ہے مگر کبھی کبھی خاموشی نیم رضا کے مصداق بھی ہوتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ الطاف حسین نے بلا سوچے سمجھے ایک بات کہہ دی۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں خوب سوچ سمجھ کر اور اس کے نتائج کا جائزہ لے کر کہتے ہیں۔ خطاب سے پہلے کئی دن تک لکھ کراس کی مشق کرتے ہیں۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری سے یہ جملے منتخب کیے ہیں کہ ” محب وطن“ جرنیل آگے بڑھیں اور جاگیرداروں، وڈیروں کے خلاف مارشل لا جیسے اقدامات کریں۔ اس میں کئی نکات وضاحت طلب ہیں جن کی تفسیر ان کے حواریوں سے بھی نہیں بن پارہی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بدعنوان جرنیلوں کی مذمت کی اور صرف محب وطن جرنیلوں کو ہلا شیری دیا ہے۔ لیکن جو بھی جرنیل مارشل لا لگائے یا ماضی میں لگایا اُسے محب وطن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حب الوطنی یہ نہیں کہ ایم کیو ایم کی آنکھ بند کرکے پشت پناہی کی جائے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی تخلیق میں بھی فوج کا ہاتھ تھا۔ آئی ایس آئی کے ایک ڈی جی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایم کیو ایم، جئے سندھ تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی۔ لیکن پر، پرزے نکالتے ہی الطاف حسین نے سب سے پہلے جی ایم سید کے در پر حاضری دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بنگلہ دیش کی تاریخ نہیں دوہرائیں گے جب عوام نے پاک فوج کا ساتھ دیا اور فوج ان کو چھوڑ کر الگ ہوگئی۔ اب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ 1971ءمیں الطاف حسین گلیوں میں کھیلتے ہوں گے۔ بنگلہ دیش کی تاریخ سے ان کا کیا واسطہ۔ وہاں تو متحدہ پاکستان کے لیے البدر اور الشمس قربانیاں دے رہی تھی جو آج بھی الطاف بھائی کے نشانے پر ہے کہ حب الوطنی کا مظاہرہ کیوں کیا۔ بہرحال یہ ریکارڈ پر ہے کہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں فوج نے ایم کیو ایم بنوائی تاکہ کراچی سے محب وطن جماعتوں کا اثر، رسوخ ختم کیا جائے۔ پھر اسی فوج نے 1992ءمیں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا۔ الطاف حسین طویل عرصہ تک فوج کو بُرا، بھلا کہتے رہے۔ 1988ءکے انتخابات میں الطاف حسین نے فوج کے تعاون سے قائم ہونے والی بے نظیر حکومت سے اتحاد کیا اور اسی اشارے پر اتحاد سے باہر آکر نواز شریف سے تعاون کیا۔ وہ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ انہیں ایک ایجنسی نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا اور انہوں نے کامل اطاعت کا مظاہرہ کیا، غالباً وہ محب وطن جرنیل تھے۔ پھر متحدہ کو جنرل پرویز مشرف جیسے محب وطن مل گئے اور کہا جانے لگا کہ جنرل پرویز مشرف اسلام آباد میں متحدہ کے سیکٹر انچارج ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ”مارشل لا جیسے اقدامات“ کیا ہوتے ہیں؟ مارشل لا تو مارشل لا ہی ہوتا ہے۔ شاید الطاف حسین کے ذہن میں جنرل پرویز مشرف کے اقدامات تھے جنہوں نے اقتدار پر قبضہ تو کیا مگر مارشل لا کا اعلان نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو صدر منتخب کروانے کے بعد بھی آرمی چیف کی حیثیت سے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو گھر بھیج کر عملاً مارشل لا لگا دیا۔ الطاف نے کہا ہے کہ محب وطن جرنیل مارشل لا جیسا اقدام، جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف کریں۔ عجیب منطق ہے! متحدہ کی پوری ٹیم اس بات کا جواب نہیں دے پارہی کہ یہ مارشل لا جیسے اقدامات کیا ہوتے ہیں اور ایک سول حکومت کے ہوتے ہوئے فوج کیسے مارشل لائی اقدامات کرے گی؟ حیدر عباس رضوی مصر ہیں کہ الطاف بھائی نے مارشل لا کو دعوت نہیں دی، ایم کیو ایم جمہوریت پسند جماعت ہے مگر جاگیردارانہ جمہوریت کو جمہوریت نہیں سمجھتی۔ کیاخوب۔ اس کے باوجود وہ اس حکومت کا حصہ ہے جو متحدہ کے نزدیک جمہوری نہیں ہے۔ اس پر الطاف حسین ہی کا جملہ یاد آتا ہے جو وہ اکثر لہک لہک کر سناتے ہیں کہ ”میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو“۔ جب تک اقتدار کا میٹھا مل رہا ہے تب تک اس غیر جمہوری حکومت کا حصہ بننے میں کوئی ہرج نہیں۔
اس کی بھی کوئی وضاحت نہیں کہ محب وطن جنرلوں کی پہچان کیا ہے، فوج میں ان کی تعداد کتنی ہے اور باقی اگر محب وطن نہیں تو ان کا ردعمل کیا ہوگا۔ الطاف بھائی کے کاﺅ بوائز بڑی مشکل میں ہیں، الطاف حسین کے بیان سے لگتا ہے کہ ان کے مخاطب جنرل اشفاق پرویز کیانی ہیں جنہوں نے این آر او کی تشکیل میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے ضامن کا کردار ادا کیا۔ وہ این آر او جس کی وجہ سے متحدہ پر سیکڑوں فوجداری مقدمات ختم ہوگئے تھے۔ اب میاں نواز شریف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف سے کیے گئے خفیہ سمجھوتے کی وضاحت کریں جس کے تحت وہ سعودی عرب جاسکے۔ ضرور وضاحت طلب کرنی چاہیے لیکن جنرل پرویز مشرف نے جو این آر او جاری کیا تھا اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں متحدہ سب سے آگے تھی۔ الطاف حسین پر اب بھی مقدمات قائم ہیں، انہیں عدالت سے مفرور قرار دیا گیا۔ ان کے واپس نہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے اور یہ حقیقت بھی نظر میں رہے کہ الطاف حسین پر کئی مقدمات قائم ہونے کے باوجود وہ فوج کی مدد ہی سے ملک سے باہر گئے تھے۔ جہاں انہوں نے برطانوی شہریت حاصل کرکے اپنی منزل پالی اور کارکن کہتے رہ گئے کہ ہم کو منزل نہیں، رہنما چاہیے۔ کیا احمقانہ بات ہے۔ رہنما منزل کی طرف ہی تو رہنمائی کرتا ہے اور یہ رہنما سب کو چھوڑ چھاڑ کر برطانیہ کو اپنی منزل قرار دے کر بیٹھ رہا۔ اب مارشل لا لگانے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ الطاف بھائی نے جو کچھ کہا بالکل صحیح کہا اور ان کے ایک ایک لفظ کا دفاع کریں گے۔ الطاف بھائی نے اپنے کارکنوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے۔ ایسے کارکن بھی تھے جنہوں نے بھائی کے حکم پر نماز کی نیت توڑ دی تھی کہ اللہ کو تو بعد میں بھی منایا جاسکتا ہے، وہ بخش دینے والا ہے۔ ایک زمانے میں الطاف بھائی کی ولایت کا خوب چرچا ہوا تھا اور وہ شجر وحجر میں جلوہ گر ہورہے تھے۔ ایک مسجد کے سلیب پر ان کی شبیہہ نمودار ہوئی تو صحن سے وہ سلیب ہی اکھاڑ کر الطاف بھائی کے دروازے پر رکھ دیا گیا۔ جس کو ایسے معتقد میسر ہوں وہ ہواﺅں میں تو اُڑے گا۔ مگر اب ان کی ایسی کرامتوں کے چرچے بند ہوگئے ہیں۔ شاید کارکنوں کو بھی اندازہ ہوگیا ہے۔ تاہم پیر صاحب کے اشارے پر آج بھی کراچی میں بہت کچھ ہوجاتا ہے۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ الطاف حسین نے فوج کو مارشل لا لگانے کی دعوت کیوں دی ہے۔ یہ بے مقصد نہیں ہے۔ اس کا فوری فائدہ تو یہ ہوا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بار بار متحدہ کا جو نام آرہا تھا وہ اس نئی بحث کے سیلاب میں کنارے لگ گیا ہے۔ اب سب کی توجہ مارشل لا کے حوالے سے الطاف حسین کی دعوت پر مرکوز ہے۔ لیکن کیا صرف یہی ایک بات ہے؟ یہ بھی نظر میں رہے کہ الطاف حسین نے فوج کو مارشل لا لگانے کی دعوت لندن میں امریکی سفارت کار سے تین گھنٹے کی ملاقات کے بعد دی ہے۔ جنرل کیانی کو مارشل لا کی کھائی میں دھکیلنے کے مشورے کے پیچھے اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایک تجزیہ یہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث متحدہ کے کارکنوں پر فوج کی ایجنسیوں نے ہاتھ ڈالا ہے، پولیس اس کی جرات نہیں کرتی۔ تو یہ فوج کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ ہم پر ہاتھ نہ ڈالا جائے، ہم آپ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ مگر کیا فوج ان کا مشورہ قبول کرلے گی۔ ایسے حالات نہیں ہیں۔ خزانہ خالی ہے، ملک سیلاب کی آفت میں گھرا ہوا ہے، مستقبل معاشی اعتبار سے بحران میں مبتلا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ایسے میں فوج کبھی بھی مارشل لا کی گھنٹی اپنے گلے میں نہیں باندھے گی۔ اس کی خواہش یہی ہوگی کہ ان مسائل سے سول حکومت ہی نمٹے۔ الطاف بھائی کے مشورے پر فوج اس کھائی میں کودنے کو تیار نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج ہمیشہ سے اقتدار میں رہی ہے، کبھی آکے منظر عام پر، کبھی ہٹ کے منظر عام سے۔
اب اگر یہ کہا جائے کہ متحدہ ایسی حکومت سے الگ کیوں نہیں ہوجاتی جس پر جاگیرداروں کا قبضہ ہے اور جو جمہوری بھی نہیں تو جواب آئیں، بائیں، شائیں ہوتا ہے۔ بحث چل رہی ہے، تحاریک استحقاق اور تحاریک التوا جمع کرائی جاچکی ہیں۔ لوگ سیلاب میں ڈوب رہے ہیں، کھانے پینے کو، نہ رہنے کو۔ لیکن دانشوروں کو بحث کے لیے ایک اور عیاشی فراہم کردی گئی ہے۔ کیا ضرور ی ہے کہ ہر بات کا جواب دیا جائے؟ کسی کا شعر ہے:
تامرد سخن ناگفة باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
یعنی جب تک کوئی منہ نہ کھولے، اس کے عیب و ہنر پوشیدہ رہتے ہیں۔ الطاف بھائی میں خوبی یہ ہے کہ وہ سخن طرازی، سخن گستری سے گریز نہیں کرتے۔ اس طرح سب کچھ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ مگر پھر حواریوں کی مشکل آجاتی ہے کہ پردہ پوشی کیسے کی جائے، عیب کو ہنر کیوں کر ثابت کیا جائے۔ بہر حال لوگ مقابلہ تو خوب کررہے ہیں لیکن مارشل لا جیسے اقدامات کی وضاحت مشکل ہوگئی ہے۔ جولیس سیزر پر حملہ کرنے والوں میں اس کا قریبی دوست بروٹس بھی شامل تھا۔ جب اس نے بھی پیٹھ میں خنجر گھونپا تو جوبس سیزر نے بڑی حیرت سے کہا YOU TOO BRUTUS ۔ جنرل کیانی نے کیا کہا ہوگا، یہ ہماری سماعتوں تک نہیں پہنچ سکا۔

Articles

یا پیر دستگیر

In فوج,پاکستان on اگست 26, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , ,

بشکریہ روزنامہ اُمت کراچی

Articles

ایم کیو ایم : عوامی مینڈیٹ کی حقیقت

In فوج,پاکستان on اگست 26, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , , , , ,

برطانوی شہریت کے حامل قائد ِتحریک کے بیان کے بعد سے ٹی وی پروگراموں اور اخبارات کے صفحات پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ رکتا د کھائی نہیں دے رہا۔ ان ماہرانہ تجزیوں میں الطاف حسین کے بیان کے منظر، پس منظر، ٹائمنگ، اثرات، امکانات اور خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کیا الطاف حسین نے یہ بیان امریکا اور فوج کی آشیرواد سے دیا ہے؟ کیا ملک میں مارشل لا لگنے والا ہے؟ کیا یہ مارشل لا کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے؟ کیا تبدیلی کا وقت آچکا ہے؟ کیا الطاف حسین کو احساس ہوگیا ہے کہ اپنی من مانی کے لیے سیاسی سے زیادہ پرویزمشرف کے دور کی طرح فوجی حکومت ان کے لیے زیادہ بہتر ہے؟ یہ اور اسی طرح کے کئی اور سوالات اُٹھائے جارہے ہیں، ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے کو فوج کا ساتھی ہونے کا طعنہ دیا جارہا ہے۔ کچھ صحافی اور سیاست دان جرات ِاظہار کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے بپھرے رہنماﺅں سے یہ سوال بھی کرتے نظر آرہے ہیں کہ اگر 63 برسوں میں سیاست دانوں نے بدانتظامی اور بدعنوانی کی تاریخ رقم کی ہے تو فوجی مارشل لاﺅں نے بھی اس قوم کو آگے بڑھنے نہیں دیا، بلکہ امن و امان کی خراب صورت حال اور زرداری جیسے لوگوں کی حکومت بھی فوج کی دین ہے۔ یہ سب سوال اہم ہیں، لیکن اس ساری بحث کے دوران ایک اہم نکتے کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ برطانوی شہریت والے پاکستانی قائد ِتحریک کا جو بیان اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے اس کے مطابق انہوں نے ”محب وطن“ فوجی جرنیلوں کی طرف سے جاگیرداروں اور کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف مارشل لا جیسے اقدام کی حمایت کا اعلان کیا اور امریکا سے بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بجائے ”عوام“ کا ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ الطاف حسین کے بیان میں عوام سے مراد ”ایم کیو ایم“ والے ہیں۔ فوجی جرنیلوں سے فوجی اقدام اور امریکا سے اس کی حمایت کے مطالبے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ الطاف حسین اقتدار میں آنے کے لیے ان دونوں کی منظوری ناگزیر سمجھتے ہیں۔ اس کو راقم الحروف کی توضیح سمجھا جاسکتا ہے، اس لیے ہم یہاں چیخنے چلاّنے کے لیے مشہور ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کا وہ جملہ من وعن نقل کرتے ہیں جو انہوں نے ٹی وی پروگرام میں ادا کیا اور جس میں انہوں نے الطاف حسین کے اس نکتے کی تشریح کی ہے۔ انہوں نے پروگرام کے شریک مہمان احسن اقبال اور پروگرام کے میزبان سے پوچھا کہ آج تک کون سی حکومت فوج اور امریکا کی مرضی کے بغیر آئی ہے؟ انہوں نے سوال کیا کہ ”کیا پاکستان میں کوئی فوج اور امریکا کے بغیر انتخاب جیت سکتا ہے؟“ اور پھر خود ہی جواب دیا کہ نہیں۔ایم کیو ایم کی قیادت نے نہ صرف اس بات کا اعتراف کیا کہ ایم کیو ایم خود فوج اور امریکا کے بل بوتے پر انتخابات جیتتی آئی ہے بلکہ دیگر جماعتوں پر بھی الزام لگایا کہ اُن کا ووٹ بینک دراصل عوامی نہیں بلکہ فوج اور امریکا کی مرضی ہے۔ ووٹ بینک کے تذکرے پر ضمنی بات کرتے چلیں کہ سسی پلیجو کے حلقے کا ایک آدمی ٹی وی غالباً ”سی این بی سی“ پر گلہ کرتا پایا گیا کہ میں نے انہیں پورے تین ووٹ ڈالے ہیں لیکن آج حال یہ ہے کہ آٹے کے تینوں ٹرک وہ اپنے گھر لے گئیں اور ہمیں پوچھا تک نہیں۔ اس پر ساتھ کھڑے دوسرے شخص نے کہا کہ میں نے تو 5 ڈالے تھے جس کا اب مجھے افسوس ہے۔ سسی کے حلقے شاید عوام ہوں، لیکن کراچی میں یہ خدمت حمایتی یا عوام نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے کارکن انجام دیتے ہیں، اور پھر جہاں کُل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ہزار‘ بارہ سو ہوتی ہے وہاں بیلٹ باکسوں سے تین، چار ہزار ووٹ نکلتے ہیں۔جیسا کہ عرض کیا، کراچی کے ”ووٹ بینک“ کی مالک ایم کیو ایم کے قائد کے بیان کے بعد مارشل لا کے بارے میں تو بات ہورہی ہے لیکن کوئی اس اعتراف کے تناظر میں الیکشن کمیشن کے ادارے اور اس کے کردار پر بحث نہیں کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ الطاف حسین نے بیان دیا نہیں بلکہ اُن سے دلوایا گیا ہے تاکہ فوج کی طرف سے ممکنہ شب خون کے بارے میں رسک اسسمنٹ کیا جاسکے۔ معروف میزبان اور صحافی کامران خان کا اس موضوع پر اِسی وقت ہی سروے کرنا بھی معنی خیز اور اسی رسک اسسمنٹ مشق کا حصہ معلوم ہوتا ہے، اس لیے اس پر تمام سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار نہایت ضروری ہے تاکہ فوج کو پیغام مل سکے کہ اب کی بار اس کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم نہیں ہوں گی، لیکن اتنا ہی ضروری اس سوال کا جواب تلاش کرنا بھی ہے کہ اگر فوج اور امریکا ہی کو پارلیمنٹ تشکیل دینا ہے تو پھر جمہوریت اور انتخابات کا ڈراما ہی کیوں؟ کیوں نا اس ملک کی اصل حکمران فوج اور اس کا آقا امریکا فیصلہ کرلیں کہ کس کس کو پارلیمنٹ کا ممبر بننا ہے، کون وزیراعظم اور کون صدر کے منصب پر فائز ہوگا؟ پروگرام میں موجود احسن اقبال کا فرمانا تھا کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت بھی فوج کی نامزد کردہ ہے۔ حکومتیں تو ساری فوج کی نامزد کی ہوئی ہیں، لیکن احسن اقبال نوازشریف کی بڑے مینڈیٹ والی حکومت کو فوج اور امریکا کی نامزد کردہ حکومت نہیں کہیں گی، حالانکہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو یا مسلم لیگ ن یا ق کی…. سب کی پالیسیاں واشنگٹن کی خواہش کی عکاس رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے اعتراف کے بعد اُن لوگوں کے منہ بند ہوجانے چاہئیں جو جماعت اسلامی پر فوج اور امریکا سے تعلق کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ جماعت اسلامی کا ملک کی سب سے بڑی اسٹریٹ پاور ہونے کے باوجود انتخابی کامیابی حاصل نہ کرنا اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ جماعت اسلامی جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کے علاوہ فوجی کارپوریٹوکریسی کے عوام مخالف اقدامات کو ختم کرکے وطنِ عزیز کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی اسلامی معاشرہ بنانے کی خواہاں واحد محب وطن سیاسی جماعت ہے، اور اس کی خواہش کو نہ تو امریکا پورا ہوتا دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی ملکی دفاع کے اپنے اصل کام کو چھوڑ کر اقتدار پر براجمان ہونے کے خواہشمند فوجی جرنیلوں کو یہ منظور ہے۔ صدر زرداری نے دو دن کے توقف کے بعد زبان کھولی تو فرمایا کہ فوجی بغاوت کا خطرہ نہیں۔ اس کی وجہ ”اچھی نیت والے شخص“ کو قرار دیا، جو ان کے خیال میں حکومت گرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج کی کمان سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے ماتحتوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ باقاعدہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے دینے والے جمہوریت پسند جنرل پرویزکیانی نے الطاف حسین کے بیان کو کئی دن گزرنے کے باوجود ایک بیان جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی جس سے یہ ساری بحث ختم ہوجاتی؟ کیا آئی ایس پی آر کی خاموشی معنی خیز نہیں؟ کیا اس سے یہ تاثر درست ثابت نہیں ہوتا کہ اس وقت مارشل لا کی باتیں کرنے والے فوج ہی کی ترجمانی کررہے ہیں!الطاف حسین، پیر پگارا اور عمران خان اقتدار پانے کے لیے فوج کی ترجمانی کریں لیکن میڈیا کا فرض ہے کہ وہ سچ کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکا کی مرضی سے فوج کے کاندھوں پر سوار ہوکرآنے والوں کا اصل کردار عوام کے سامنے کھول کر رکھ دے تاکہ ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنے والوں کو شکست دے کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا جاسکے۔

Articles

شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

In فوج,حقوق انسانی,دہشت گردی on اگست 23, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

یہ مضمون "جسارت میگزین” کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے جس میں امریکی دلالوں کو ایکسپوز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مضمون کو گرافک ویو میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
………………………………………………………
 امریکی دوستی کے بھیانک نتائج
 سیلاب زدگان کی مدد میں امریکا رکاوٹ بن گیا
امریکیوں کو بچانے کے لیے جعفرآباد کو ڈبو دیا گیا
 شہباز ائر بیس پاکستانیوں کو بچانے کے لیے استعمال کرنے سے امریکیوں نے روک دیا

………………………………………………………

  سیلاب کی آمد کے ساتھ ہی قومی اخبارات میں شہ سرخیوںکے طور پر خبریں شائع ہونا شروع ہوگئی ہیں کہ امریکا سیلاب میں پھنسے ہوئے افراد کو نکالنے اور ان کی مالی مدد میں پیش پیش ہے۔ برسات میں تاریخی مقدار میں پانی برسنے کے بعد ڈالروں کی ’بارش‘ کرکے افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی وائسرائے رچرڈ ہالبروک نے یہ طنز کیا کہ امریکا دل کھول کر مدد کررہا ہے‘ پاکستان کے دوست ایران اور چین کہاں ہیں؟ یعنی دوستوں نے ساتھ چھوڑدیا لیکن امریکا تن تنہا پاکستانی متاثرینِ سیلاب کے غم میں گھلا جارہا ہے۔گزشتہ روز تقریباً تمام اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ امریکا سعودی عرب کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا مددگار ملک بن گیا ہے۔ جمعہ 20 اگست کو دیگر اخبارات کے علاوہ دائیں بازو کے علم بردار اخبارات نے بھی اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا کہ امریکا کیری لوگر بل کے علاوہ 700 ملین ڈالر پاکستان کو دے گا۔ یہ ’خوشخبری‘ کیری لوگر بل کے شریک خالق سینیٹر جان کیری نے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے ساتھ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سنائی۔ ان خبروں کو پڑھنے کے بعد قارئین کو یہ سمجھنے پر موردالزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا کہ صلیبی لشکر کا سرخیل امریکا پاکستان اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دوست ہے۔ جاپان پر ایٹم بم گرانے کی تاریخی دہشت گردی ہو یا شمالی کوریا کے خلاف ناجائز جنگ‘ عراق کے مسلمانوں کو خون میں نہلانے کا عمل ہو یا افغانستان پر ننگی جارحیت…. امریکی میڈیا وائٹ ہاﺅس کا ہمیشہ مددگار رہا ہے۔ اب جبکہ امریکا تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اور ذلت آمیز شکست افغانستان کے پہاڑوں میں اس کا شدت سے انتظار کررہی ہے، ایسے میں امریکا کے زیراثر دنیا بھر کا میڈیا اُس کے امیج کو بہتر بنانے کی کوشش آخر کیوں نہ کرے؟ خبروں کے سیلِ رواں میں غرق عوامی اذہان اِس وقت ذرائع ابلاغ کے سیلاب کی بڑی لہروں یعنی شہ سرخیوں کو ہی بہ مشکل ٹھیک طریقے سے دیکھ پارہے ہیں‘ اور یہ موجیں اتنی تیز ہےں کہ کم نمایاں چھوٹی چھوٹی خبروں میں بڑی خبر کو تلاش کرنے کے لیے وہ سنبھل نہیں پارہے ہیں۔ اور عوام الناس کی نظر کو کیا رونا…. اِدھر نیوز روم میں بیٹھے صحافی یا تو اپنی قیمت لگا چکے ہیں یا پھر اتنے نااہل ہیں کہ مخلص ہونے کے باوجود وہ ادراک کے معاملے میں عام آدمی کی صف میں ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دو چار دنوں کے دوران چند ایسی خبریں شائع ہوئیں جو اگرچہ اخبارات کے صفحات پر نمایاں جگہ پانے میں ناکام رہیں، تاہم خبریت اور وزن کے اعتبار سے ان دِنوں شائع ہونے والی سیکڑوں خبریں ان سے چھوٹی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ خبریں پاکستانیوں کی آنکھوں پر بندھی کالی پٹیاں کھول کر انہیں ان کی گمراہی کا احساس دلاتی نظر آتی ہیں۔ ایک بہت بڑی خبر معاصر انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے صفحہ آخر پر شائع ہوئی جس کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہیلتھ ریلیف آپریشن اس لیے شروع نہیں کیا جاسکا کہ جیکب آباد میں واقع شہباز ایئربیس امریکی کنٹرول میں ہے۔ اخبار کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ق) کی رکن ِسینیٹ سیمی یوسف صدیقی کے ایک سوال کے جواب میں ہیلتھ سیکریٹری خوشنود لاشاری نے انکشاف کیا کہ علاقے میں ہیلتھ ریلیف آپریشن اس لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہاں کا واحد ایئربیس امریکی کنٹرول میں ہے۔ ’ہیلتھ ایمرجنسی پریپرئیڈنیس اینڈ ریسپانس سینٹر‘ کے کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر جہانزیب اورکزئی نے بتایا کہ دور دراز علاقوں میں اس لیے ریلیف آپریشن شروع نہیں ہوسکا ہے کیوں کہ جیکب آباد سمیت کئی علاقوں کے قریب کوئی ایسی ہوائی پٹی نہیں جہاں طیارہ اترسکے۔ سینیٹر سیمی نے اجلاس کے بعد ڈان کے نمائندے کو بتایا کہ یہ انتہائی بدنصیبی ہے کہ امریکی شہباز ایئربیس سے ڈرون حملے کرسکتے ہیں لیکن حکومت ِپاکستان اپنے ہی ایئربیس کو ریلیف آپریشن کے لیے استعمال کرنے کے معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر ِصحت کو فوج سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ امریکیوں سے شہباز ایئربیس سے ریلیف آپریشن کی اجازت مانگیں۔ انہوں نے تاسف کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ”مجھے نہیں معلوم کہ وزارت صحت متعلقہ حکام خصوصاً پاک فوج کے سامنے یہ معاملہ اٹھانے میں کیوں ناکام رہی ہے؟“ پاکستانی عوام مطلع ہوں کہ شہباز ایئربیس جسے 4 سال قبل پاکستانی تاریخ کے بدترین فوجی سربراہ نے امریکا کو لیز پر دیا تھا‘ سیلاب زدگان کو فوری ہیلتھ ریلیف فراہم کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ شہباز ایئربیس امریکا میں واقع ہے یا پاکستان امریکا کی آئینی ریاست کا درجہ رکھتا ہے، بلکہ پاکستان ہی کے صوبہ سندھ کے ضلع جیکب آباد میں واقع ہے جہاں قرب و جوار کے لاکھوں لوگ ریلیف کے لیے اس کے محتاج ہےں۔ جی وہی پاکستان جو سنا ہے 14اگست 1947ءکو آزاد ہوا تھا۔ جیکب آباد میں شہباز ایئربیس کے صرف استعمال پر ہی پابندی نہیں ہے بلکہ 4 سال سے امریکیوں کے کنٹرول میں رہنے والے اس بیس کو بچانے کی خاطر بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کو سیلاب کی نذر کردیا گیا، جہاں ہزاروں افراد کو اپنے گھر چھوڑنے کی مہلت بھی نہ مل سکی۔ گزشتہ سیلابی ریلے نے شہباز ایئربیس کی طرف بڑھنا شروع کیا تو اسلام آباد سے آنے والی ہدایات پر جمائی بائی پاس کو توڑا گیا جس سے نصیرآباد اور جعفرآباد زیرآب آگئے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وفاقی وزیر اعجاز جاکھرانی کے مطالبے پر عسکری دستے اور مقامی انتظامیہ کے افسران سڑک توڑ کر پانی کا رخ موڑنے پر تیار نہیں تھے مگر بعد ازاں ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاﺅس سے ہدایت ملنے پر فوری طور پر سڑکیں توڑ کر پانی کا رخ بدل دیا گیا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے میں امریکی حکام کا اثر و رسوخ شامل ہے، کیوں کہ امریکی حکام نے پہلے اپنے طور پر پانی کا رخ موڑنے کی ہدایت جاری کی‘ جسے تسلیم کرنے سے انکار پر اسلام آباد سے مدد طلب کی گئی۔ دو روز قبل امریکی بیڑے کے کراچی آنے پر کراچی کے امریکی قونصل جنرل نے اپنے عسکری حکام کے ہمراہ بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا جو دراصل شہباز ایئربیس کو کسی ممکنہ خطرے سے بچانے کا راستہ تلاش کرنے کا سروے تھا۔ اس فضائی جائزے میں طے کرلیا گیا تھا کہ اگر پانی اس طرف آیا تو کس جگہ سے بند توڑنے کے لیے کہا جائے گا۔ اور یوں امریکی حکام کی وجہ سے بلوچستان کے ہزاروں شہریوں کو تباہی سے دوچار کردیا گیا۔ روزنامہ ڈان کی خبر شائع ہونے کے بعد پاکستان ایئرفورس نے چند صحافیوں کو ایئربیس کا دورہ کرایا اور بتایا کہ یہاں امریکیوں کا کنٹرول نہیں۔ ایئر برج کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ شہباز ایئربیس اور باقی ایئربیسز کے درمیان قائم کیا گیا ہے تاکہ ریلیف کے سامان کی ترسیل کے ساتھ جیکب آباد سے لوگوں کو نکالا جاسکے۔ پی اے ایف حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ شہباز ایئربیس پر چند امریکی موجود ہیں جو ایف سولہ فائٹرجیٹ کی تکنیکی معاونت پر مامور ہےں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحافیوں کو ایئربیس پر لے جانے کے بجائے قائمہ کمیٹی کے سامنے بقائمی ہوش و حواس بیان دینے والے سیکریٹری ہیلتھ سے کیوں نہ پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ بیان کس بنیاد پر دیا ہے؟ جس ملک میں جعلی کیمپوں کی کہانیاں منظرعام پر آرہی ہوں وہاں کوئی طے شدہ دورے میں دکھائے گئے منظر پر کیسے یقین کرسکتا ہے؟ پاکستان میں امریکی موجودگی پر گہری نظر رکھنے والے سوسائٹی میڈیا کے ارکان اس امکان کو رد کرنے پر تیار نہیں کہ اس دورے کا انتظام امریکی معاونت سے کرایا گیا ہو‘ تاکہ خبر کے نتیجے میں امریکا کے لیے پیدا ہونے والی نفرت اور پاکستانی حکومت اور فوج کے بارے میں منفی تاثر کو زائل کیا جاسکے۔ حکومت ِپاکستان اور عسکری قیادت نے لیز کی کبھی تردید نہیں کی ہے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ شہباز کے علاوہ شمسی ایئربیس امریکا کو لیز پر دیا جاچکا ہے۔ ارکانِ پارلیمان کی رگ ِ حمیت تو صرف اس بات پر پھڑک گئی تھی کہ شہباز ایئربیس ان مشکل حالات میں بھی ریلیف سرگرمیوں کے لیے استعمال کے لیے کیوں نہیں دیا جارہا۔ لیکن صحافیوں کو کرائے گئے دورے کے ذریعے امداد ی سرگرمیوں کی اجازت نہ دینے کے تاثر کو زائل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی دیا گیا ہے کہ مذکورہ ایئربیس لیز پر دیاہی نہیں گیا ہے جو واقعاتی طور پرغلط ہے۔ معاصر اخبار اُمت کے ذرائع کے مطابق شہباز اور شمسی دونوں ایئر بیسز پر پاکستانی حکام کو اندر داخل ہونے تک نہیں دیا جاتا۔پاکستانی فورسزپرصرف ان بیسز کے بیرونی تحفظ کی ذمہ داری ہے۔ بیس پرمکمل کنٹرول امریکیوں کا ہے‘وہ کسی بھی پاکستانی کو اندر جانے نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بیس کے گردو نواح کی تباہ حال آبادیوں میں ہزاروں افراد ہلاک اور بیمار ہورہے ہیں۔ سڑکیں نہ ہونے کے سبب ان تک پہنچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ایک رستہ باقی ہے کہ شہباز ایئربیس سے اُڑ کر ان کی مدد کی جائے‘ یہ راستہ بھی امریکا کی مخالفت کے سبب مسدود ہوچکا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کہتے ہیںکہ ”یہی وہ اڈہ ہے جہاں سے امریکیوں نے افغانستان پر56ہزار حملے کیے۔اب انہوں نے اس کے اندر بہت کچھ اور جمع کرلیا ہے۔ اسی طرح شمسی ایئربیس بھی ہے جہاں سے ڈرون اُڑتے ہیں۔ وہاں بھی امریکی پاکستانی اتھارٹیزکو جواب تک نہیں دیتے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ایسے میں وہ ان بیسز کو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کیوں استعمال ہونے دیں گے؟سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین جان محمد جمالی کے مطابق صحت کی قائمہ کمیٹی نے انہیںبتایا کہ شہباز ایئربیس امدادی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کرنے دیا جارہا ہے تو انہوں نے ہدایت کردی کہ اس معاملے کو سینیٹ میں لایا جائے تاکہ وزارتِ دفاع سے پوچھا جائے کہ کس معاہدے کے تحت یہ اڈہ امریکا کو دیا گیا ہے اور کیوں اسے پاکستانیوںکو بچانے کی خاطر استعمال نہیں کیا جاسکا ہے۔ 12اگست کو ایک ہزار میرینز اور 24ہیلی کاپٹروں کو امداد کی آڑ میں پاکستانی سرزمین پر اُتارا گیا۔اس ”امداد ی کھیپ“ کے پہنچنے پر ہمارے وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ ملک کو ایسی مزید عالمی مدد کی ضرورت ہے۔کراچی میں امریکی قونصل جنرل ولیم مارٹن نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان میں امریکی شپ اور میرین کی موجودگی اوباما اور امریکی لوگوں کی کمٹمنٹ کا مظہر ہے۔ یہ کمٹمنٹ اور دوستی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ذرائع کے مطابق اس وقت پاکستان میں بلیک واٹر اور امریکی فوجیوں کی تعداد11ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے ایئربیس پر قابض ہوکر اسے ا ستعمال کی اجازت نہ دینے والا‘ اپنے بیس کو بچانے کے لیے بلوچستان کو ڈبونے والاہمارا”دوست“ملک آخر 11ہزار فوجیوں کے ذریعے کیاکرنا چاہ رہا ہے؟ پاکستان کو بڑی امریکی دہشت گردی کا خطرہ ہے لیکن حکمران دوستی نبھا رہے ہیں۔ سینیٹر سیمی صدیقی کے خیال میں”بدقسمتی یہ ہے کہ بیس پاکستان کا ہے، اس کے ساتھ ہی پاکستانی ڈوب رہے ہیں ‘ ان کو بچانے کی خاطر ہمیں بیس استعمال کرنے کی اجازت امریکی نہیں دے رہے۔ یہ کس طرح کا معاہدہ ہے، کون نہیں جانتا! سنا ہے کہ اڈہ لیز پر دیا گیا ہے، مگر پھر بھی وہ ملکیت تو پاکستان کی ہے۔ پاکستانیوں کو بچانے کی خاطرکیوں استعمال نہیں ہوسکتا؟“ سیمی صاحبہ کتنی بھولی خاتون ہےں! جس ایئربیس کو پاکستانیوں کو مارنے کے لیے وقت کے میر جعفروں سے لیز پر لیا گیا ہے وہاں سے ان کو بچانے کے لیے کسی سرگرمی کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے!سیمی صاحبہ آپ نے درست کہا کہ یہ کیسی دوستی ہے۔اگر یہ دوستی ہے تو دشمنی کسے کہتے ہیں۔امریکی دوستی کی ایک بھیانک تاریخ ہے لیکن سیلاب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی اس تاریخ سے سبق سیکھنے پر تیار نہیں۔

Articles

پختونوں کی تذلیل…. اور میرا جانباز پنجابی سپاہی بھائی

In فوج,پاکستان,حقوق انسانی,دہشت گردی,طالبان on جولائی 27, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

جب میں اپنےساتھی کےساتھ مقبوضہ جامعہ کراچی میں داخل ہونےکےلیےسلور جوبلی گیٹ پر قائم چیک پوسٹ پر قابض رینجرز اہلکار کی جانب بڑھا تو اس نےاس حقیقت کےباوجود کہ میرے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا مجھےصرف اس لیےاندر جانےکا گرین سگنل دےدیا کہ ہم دونوں ایک ہی زبان بولتےتھے۔ اور میں نےیہ ’سہولت‘ حاصل کرنےسےصرف اس لیےانکار کردیا کیوں کہ اس نےمیرےاردو بولنےوالےساتھی کو میرےساتھ جانےکی اجازت نہیں دی‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ ہم دونوں ہی جامعہ کراچی کےطالب علم ہیں۔ مجھےزبان کی بنیاد پر اُمتِ محمدیہ کو تقسیم کرنےوالوں سےشدید نفرت ہے۔ باچا خان کےپیروں کاروں کی طرف سے اپنےکارکنوں کو سخت ہدایت تھی کہ اس پختون دشمن کےساتھ ہاتھ نہ ملایا جائے۔ لیکن پتا نہیں 18جولائی کو میرےزبان سےڈیرہ غازی خان کےعلاقےترنول میں ان پولیس والوں کےسامنےیہ الفاظ کیوں نکلےکہ” آپ لوگ پختونوں کی نسل کشی کےبعد اب ان کو ذلیل کرنےکا کوئی موقع بھی ہاتھ سےنہیں جانے رہے ہیں۔‘‘
تقریبا ً ایک دہائی قبل اپنے زمانہ طالب علمی میں اس روٹ کو استعمال کرتارہا۔ راستےمیں مسافروں کےساتھ ٹرانسپورٹ مافیا کی زیادتیاں ہمیشہ مجھےپریشان کیا کرتی تھیں۔ اس لیےمیں نےارادہ کیا کہ میں کافی عرصہ بعد سفر میں اکیلےہونےکا فائدہ اُٹھا کر روڈ کا انتخاب کروں اورمضر صحت کھانے پینےکےسامان اوراس کےبدلےبس والوں کےہاتھوں ’یرغمال ‘مسافروں سے زیادہ پیسوں کےحصول کو ایک فیچر کا موضوع بنائوں۔ مسافروں کےمسائل مجھےپریشان کرتی رہے تو میرے سفر کی ساتھی جان پرکنز کی کتاب اس سےبھی زیادہ پریشان کررہی تھی جس میں انہوں نےسی آئی اےاور معاشی غارت گروں کی وارداتوں پر سےپردہ اُٹھایا ہے۔ کتاب میں پاکستان کا تذکرہ نہ ہونےکےباوجود یہ پاکستان کےحالات پرکس طرح منطبق ہوتی ہےاس کا تذکرہ ایک الگ پوسٹ میں‘فی الحال واپس اپنےموضوع کی طرف۔
کوہاٹ ٹنل پر ایک باوردی نوجوان نےسب کےشناختی کارڈ جمع کیےاور پھر واپس کیےلیکن ایک بزرگ کےپاس کلر فوٹوکاپی تھی‘ نوجوان نے واپس کرنےسےانکار کردیا۔ بزرگ التجا کرتےرہےکہ راستےمیں کئی اور جگہ چیکنگ ہوگی۔ نوجوان نےکہا اُسےآرڈر ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہےجہاں آرڈرز تو جاری ہوتےہیں‘ لیکن اس کےساتھ ہدایات دیےجاتےہیں اور نہ ہی اطلاع کہ کوئی ایسا آرڈر پاس ہوا ہے!لہٰذا آپ کا تجربہ ہی ہدایات ہوتےہیں۔ لیکن پہلی دفعہ کا کیا جائے؟کیا بس اڈوں پر ایسےہدایات واضح طور پر آویزاں نہیں کرنےچاہئیں؟
شاید یہ واقعہ تھا جس نےمجھ سےآگےترنول‘ ڈیرہ غازی کےعلاقےمیں وہ جملہ کہلوایا جو میں شاید عام حالات میں کبھی نہ کہتا۔ ترنول پر بس رُک دی گئی۔ کارڈ جمع کیےگئےاور پھر حکم دیا گیا ۔ پیدل چلنا شروع کردو۔ یہ سرحد اور پنجاب کا بارڈر تھا لیکن مجھےیہ انڈیا پاکستان یا پاکستان افغان بارڈر لگا۔ جہاں لکڑیوں کےبیچ میں گزارا گیا۔ یہ ہزار میٹر سےزیادہ کا راستہ ہوگا۔ ترنول تھانےکےسامنےپہنچ کر وہاں بیٹھےپولیس والوں سےمیں نےکہا”یہ کیا ہے؟ یہ پیدل چلوانا سیکورٹی مسئلےکا حل تو نہیں ہے۔ آپ لوگ پختونوں کی نسل کشی کےبعد اب ان کو ذلیل کرنےکا کوئی موقع بھی ہاتھ سےنہیں جانےدے رہے ہیں‘‘۔
مجھےنہیں پتا کہ ذلیل ہونےکا باوجود مجھےیہ کہنےکا حق تھا یا نہیں لیکن اس پر میرےپنجابی بھائی پولیس والےنےجو کچھ کہا اس نےمجھےکچھ مزید کہنےپر مجبور کردیا۔ اس نےکہا کیا کریں تم دہشت گرد ہو۔ سارےچرسی کہاں ہوتےہیں؟ سرحد سے آتے ہیں چرس اور ہیروئین کہاں سےآتی ہے؟۔‘‘
میں سنتا رہا اور وہ کہتا چلا گیا”بےوقوف یہ کیمرےلگےہیں جس میں اہم دہشت گردوں کو پہچانتےہیں‘ چرسیوں اور ہیرونچیوں کا پتہ چلتا ہے۔‘‘
میں نےعرض کیا”جناب یہ کام تو 10میٹر میں بھی ہوسکتا ہے اس کےلیے1000میٹر کی پریڈ کیوں کراتےہو۔“ اس گستاخی پر اس نےمجھےہاتھ سےپکڑ کر دھکا دیا۔میں نےکہا یہ میرےسوال کا جواب نہیں ۔ مجھےدھکا دےکر کونساجواب دےرہےہیں؟ میں اس وقت جنوبی پنجاب میں تھا او ر میں نےاسےیاد دلایا کہ یہاں بھی طالبان ہیں لیکن آپ ان کےخلاف کچھ کرنےکو تیار نہیں۔اور پھر سرحد میں داخل ہوتےہوئے پنجاب سےآنےوالوں کو ایسا ذلیل نہیں کیا جاتا حالانکہ وزیر ستان میں پائےجانےوالے’پنجابی طالبان‘ پنجاب سےہی آئےہوں گے۔ میں نےمزید کہا کہ ”میں روز پڑھتا ہوں کہ سیکورٹی فورسز نے30،40اور 50شدت پسندوں کا مارا۔ یہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے۔ 99فیصد پختون امریکا مخالف ہیں۔ امریکی دشمنی کو ختم کرنےکےلیےتہمیں ایک ایک پختون کو مارنا ہوگا“…. میں وہاں سےبس کی جانب چل پڑا اور سوچتا رہا کہ میں کیا کیا کہہ گیا۔ شاید میں یہ سب کچھ نہ کہتا اگر مجھےمیرےسوال کا جواب ملتا یا صرف اتنا ہی کہہ دیا جاتا کہ ”تم میرےمسلمان پاکستانی بھائی ہو ‘ یہ تم نےکیسےبات کردی۔‘‘

Articles

ڈو مور میاں (افتخار) صاحب

In فوج,پاکستان,دہشت گردی on جولائی 26, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , , ,

میں صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین شاہ کے صاحبزادے کے قتل پر کچھ لکھنا چاہ رہا تھا لیکن آج کے اُمت اخبار میں تیمور کا بنایا کارٹوں دیکھ کر میں نے سوچا کہ اس پر کیا لکھوں ساری بات تو کارٹون میں بتادی گئی ہے۔

Articles

‘ناپاکستان‘

In فوج,پاکستان on جولائی 3, 2010 منجانب ابو سعد

دورِ حاضر کےاُستاد کا تقابل ماضی کےقابلِ تقلید اساتذہ سےکرتے ہوئے کسی نےایک شعر کہا تھا۔ اب اُس میں ترمیم کرکےاسےکچھ یوں کردیاگیا ہے؛۔

  

وہ بھی کیا دن تھےجب خدمتِ ”افواج“ کےعوض
دل چاہتا تھا ہدیہ سَر پیش کیجیے!۔
یہ شعر کسی حد تک پاکستانی فوج پر صادق آتا ہے، وہ ادارہ جس کا شمار کبھی متبرک اداروں میں ہوتا تھا، اور بڑی حد تک یہ اس کا حق بھی تھا کہ قومیں اپنےہیروز کو سلیوٹ کرتی ہیں۔ پاکستانی فوج کا دلیری، شجاعت اور بہادری میں ایک نام ہے۔ یہ شیروں کی فوج تھی۔ لیکن پھر ایک گیدڑ نےغرّاتےہوئےشیروں کےجتھےکو‘ جو کبھی جارحین سےنبرد آزما ہوتا تھا، جارحین کےلیےکرائےکی فوج بنادیا۔ ایک فون کال پر ڈھیر ہونےوالےجنرل پرویز کا حکم ماننا ڈسپلن کا تقاضا تھا۔ اگر فوج میں حکم عدولی اور بغاوتیں ہونےلگیں تو فوج، فوج نہیں ہجوم بن جائے۔
جارح قوتوں کےساتھ اتحاد ہی کیا کم تھا کہ پھر جنرل پرویز کی بزدلی کھل جانےکےبعد ’ڈومور“ کی رَٹ لگانےوالےامریکا نےوطن عزیز پرجانیں نچھاور کرنےوالی فوج کو اپنےہی عوام کےخلاف مصروف کرکےانوکھی مثال قائم کردی، جو یقینا ایک ڈراونےخواب کی طرح پاکستان کےماضی کا ایک برا قصہ بن گیا۔ رِٹ قائم کرنےکےلیےوطنِ عزیز کی جنت نظیر وادی سوات میں آپریشن شروع کرکےملکی تاریخ میں سب سےزیادہ افراد کو مہینوں کےلیےبےسروسامانی کی حالت میں اپنےہی وطن میںبےگھر کردیا گیا، اور اس بڑےانسانی المیےکےدوران جو دل دہلادینےوالےواقعات رونما ہوئےان کا دوہرانا اس لیےبھی ضروری نہیں کہ یہ سب کچھ بڑی حد تک رپورٹ ہوچکا ہے۔ قارئین کےعلم میں تو یہ باتیں بھی ہوں گی جو اُوپر بیان کی گئی ہیں، لیکن یہ تذکرہ برائےیاددہانی ہے۔ اصل موضوع تو یہ ہےکہ پاک فوج کےسابق سربراہ جنرل پرویزمشرف کی جانب سےامریکی جنگ کو پاکستانی جنگ بنانےکےبدلےمیں پاکستان اور خصوصاً فوج کےادارے کو کیا حاصل ہوا ہے؟ الزامات، الزامات اور مزید الزامات۔
مغربی خفیہ اداروں اور میڈیا کی طرف سے9برس طویل عرصےتک ان کا ساتھ دینےوالی فوج اور اس کےذیلی اداروں کےبارےمیں جو کچھ لکھا جارہا ہے، اسےدیکھ کر بچپن میں سنا ہواایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک امیرزادہ، امیر ہونےکےساتھ ساتھ لاڈلا بھی تھا۔ دو قدم چلتا تو تھک جاتا۔ گاڑیاں اُس زمانےمیں تھی نہیں، کوئی اور سواری بوجوہ دستیاب نہیں تھی۔ دوسرےگاوں جانا تھا‘ اس لیےایک غریب کو روکا اور حکم دیا کہ کندھےپر بٹھاکر دوسرےگائوں پہنچاو۔ غریب نےاس خیال سےکندھےپر امیر زادےکو بٹھالیا کہ خوش ہوکر انعام واکرام سےنوازےگا۔ گرتےپڑتےندی نالےعبور کیے۔ سردی کا موسم تھا‘ کہیں کپڑےبھیگ گئےتو کہیں کیچڑ نےکام دکھایا‘ کانٹےبھی چبھےاور تھکن سےتو برا حال ہوگیا…. لیکن غریب شخص اس آس میں جانب ِمنزل بڑھتا رہا کہ جلد محنت کا پھل ملنےوالا ہے۔ دوسرے گائوں پہنچ کر امیر زادےکو اُتارنےہی لگا تھا کہ حکم ہوا: ”جلدی اُتار‘ تُو نےتو میرےکولہوں میں درد کردیا۔ تجھےٹھیک سےبٹھانا اور چلنا بھی نہیں آتا۔ چل گنوار یہاں سےفوراً دفع ہو، آئندہ شکل بھی نہ دیکھوں۔“۔
پاکستانی فوج گزشتہ 9 برسوں سےامریکا کو کندھےپر بٹھاکر گھما رہی ہے۔ زیادہ دیر کندھےپر بیٹھ کر اب امریکا کےکولہےدُکھنےلگےہیں تو وہ قصوروار بٹھانےوالےکو ٹھیرا رہا ہے۔ افغانستان میں مجاہدین کےہاتھوں ذلت آمیز شکست سےدوچار ہونےکی وجہ اپنی کمزوری نہیں بلکہ کندھا پیش کرنےوالےکی ہےتو اس کےجرنیلوں کی حواس باختگی میں بھی پاکستان کا قصور…. پاکستان کےجوہری اثاثوں اور دیگر اہم مقامات تک رسائی نہ دینا بھی جرم۔ لندن اسکول آف اکنامکس کی رپورٹ نےپاک فوج کو افغان طالبان شوریٰ کا ممبر قرار دیا تو اب معروف برطانوی میگزین ’دی اکانومسٹ ‘ نےپاکستان کو ”ناپاکستان“ کہا ہےاور اس ’ناپاکی‘ کا ذمہ دارپاک فوج کو ٹھیرایا ہے۔
اپنے17جون2010ءکےشمارےمیں شائع مضمون
Land of the impure
یعنی ’ناپاکستان ‘میں میگزین نےتوپوں کا رُخ پاک فوج کی طرف کردیاہے اور پاکستان کو ناپاکستان بنانےکا ذمہ دارٹھیرایا ہے۔
میگزین کےمطابق پاک لوگوں کی سرزمین یعنی پاکستان کےنام سےجانے، جانےوالےاس ”ناپاکستان“ کےسب مسائل کی جڑاگر فوج نہیں ہےتو اکثر مسائل کےلیےضرور اُسےمورد الزام ٹھیرایا جاسکتا ہے۔
دی اکانومسٹ لکھتا ہے:”اپنےقیام کےساٹھ سال پورےکرنےوالا پاکستان جس کےمعنی ’پاک لوگوں کی سرزمین ‘ کےہیں تاحال ایک قوم بننےکی کوشش کررہا ہے“۔
آگےلکھتا ہے:”معاشی طور پر پسماندہ، سیاسی طور پرنابالغ اور مذہبی انتہاپسندوںکی دہشت، اس ملک کےپاس اگرجوہری ہتھیار نہ بھی ہوتےتب بھی اس کےموجودہ حالات ہر ایک کی پریشانی کےلیےکافی تھی۔ان مشکلات کےلیےزیادہ الزام فوج کو دینا ہوگا۔“۔
اور پھر مضمون کےمطابق یہ” الزام“ اس لیےدینا ہوگا کیوں کہ فوج نےملک کےکسی بھی ادارےسےزیادہ ’قومی یکجہتی‘ کو تقویت دی ہے۔ یعنی معروف برطانوی میگزین کےنزدیک جذبہ حب الوطنی کا ہونا نہ صرف بجائےخود پاکستان کےلیےنقصان دہ ہےبلکہ اس کےسارےمسائل کی جڑبھی یہی ہے۔
میگزین نےپاک فوج کےخلاف جو چارج شیٹ پیش کی ہےاس میں اول نمبر اس کا جمہوریت پر باربار شب خون مارنا نہیں بلکہ” مشرقی محاذ“پر بھارت کےخلاف عسکری مہم جوئی ہےجس نےسیکورٹی کو بڑھانےکے بجائے اس کو خطرےسےدوچار کیا ہے۔ مضمون کےمطابق”کوئی بھی مہم جوئی 1971ءسےزیادہ تباہ کن ثابت نہیں ہوئی ہےجو مشرقی پاکستان یعنی موجود ہ بنگلہ دیش کی علیحدگی پر منتج ہوئی“۔میگزین کےمطابق 1971ءکی پاک بھارت جنگ پاکستانی فوج کی طرف سےایڈونچرازم تھی اوراسی طرح1999ءکی کارگل جنگ بھی۔ ”پُرامن“بھارت کےسارےگناہ معاف کرکےمیگزین نےپاک فوج کو موردِ الزام ٹھیرایا ہےکہ وہ آج تک ”بھارتی خطری“ کےساتھ جڑی ہوئی ہےجبکہ بھارت کو پاکستان پر قبضہ کرنے کے بجائےاپنی معاشی ترقی کی فکر ہے۔ ایسا لگتا ہےکہ آئےدن پاک بھارت سرحد پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیز فائرنگ اور اس کےنتیجےمیں پاکستانی عوام اور فوجیوں کی شہادت کی خبریں اس معروف میگزین تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔
میگزین کےمطابق فوج کی طرف سےجہاداِزم کو اپنا اصل مقصدبنائے جانےسےریاست کا وجودخطرےسےدوچار ہواہے۔ یہ پالیسی ضیاالحق کی اسلامائزیشن پالیسی کا حصہ ہے‘جو آج تک جاری ہے۔ اس سلسلےمیں لندن اسکول آف اکنامکس کی رپورٹ کونقل کرتےہوئےلکھا گیا ہےکہ اگرچہ آئی ایس آئی اس بات کی سرکاری طور پر تردید کرتی ہےتاہم پاکستانی فوج کےبعض افسران نجی محفلوں میں تسلیم کرتےہیں کہ فوج کےکچھ ’’کارنرز“ طالبان کی مدد ضرور کرتےہیں۔
میگزین کےمطابق پرویز مشرف اور ان کےایک ساتھی نےایک دفعہ مذاق میں کہا تھا کہ وہ ان جہادیوں کو ان کےگلے(اصل لفظ کچھ اور ہے جو بوجوہ یہاں نہیں لکھا جارہا ہے)سےپکڑ لیں گے۔ لیکن آج پاکستانی طالبان کےنام سےپہچانےجانےوالےمجاہدین اپنےمیزبان (پاکستان)کی درگت بنارہےہیں۔اور خود فوج، حتیٰ کہ آئی ایس آئی ان کےزیر عتاب آئی ہوئی ہے۔اکانومسٹ لکھتا ہے؛”اب یہ حملےمصیبت زدہ علاقوں سےمعتدل اور خوشحال پنجاب کی طرف بڑھ رہےہیں،اب اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ کس نےکس کو گردن سےپکڑا ہے۔“۔
اس چارج شیٹ میں تیسرا نمبر پاکستانی فوج کی ریاست کےسیاسی اور انتظامی کاموں میں مداخلت کو دیا گیا ہے۔ فوج پر کرپشن کا الزام لگاتےہوئےمیگزین لکھتا ہےکہ”یہ تسلیم شدہ حقیقت ہےکہ پاکستان کےادارےابتدا سےکمزور تھےلیکن فوج کی مداخلت نےانہیں مزید کمزور کردیا ہے….فوج کےپاس اس وقت20بلین ڈالرز کا بزنس ایمپائر ہے‘ اور یہ غالباً ملک کےسب سےبڑےلینڈ ڈویلپرز ہیں کیوں کہ افسران کی وفاداری زمینی گرانٹ کےذریعےخریدی جاتی ہے۔“۔
صحافتی بددیانتی کی مثال قائم کرتےہوئےمیگزین نےیہ تو درست لکھا کہ کرپٹ سیاست دانوں کےساتھ ساتھ فوجی مداخلت نےجمہوریت کو کمزور کردیا ہےجس نےچند ہی انتخابات منعقد ہونےدیے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ امریکا کس حد تک انتخابات کےہونے، نہ ہونےاور ہونےکی صورت میں نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔
مضمون میں پاکستان کی سماجی اور معاشی پسماندگی کےلیےبھی فوج کو موردِ الزام ٹھیرایا گیا ہےجو وسائل پر قابض ہوکر ترقی کو روکتی رہی ہے۔ میگزین کےمطابق معاشی ضمن میں تعلیم یافتہ پاکستانیوں کا خیال ہےکہ ان کےملک کو اب تک ترکی یا ملائیشیا بن جانا چاہیےتھا، لیکن اس کےبرعکس یہ یو این ڈی کی ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکیٹرزکی رینکنگ میں یمن سےنیچےیعنی151 واں ملک ہے۔ جب کہ اسکول جانےوالےبچوں کی تعداد کےحوالےسےسوڈان سےبھی نیچےہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہےکہ ”حکومت تعلیم پر جتنا خرچ کرتی ہےاس سےکئی گنا فوج پر خرچ کرتی ہے۔“۔
یہ حقیقت ہےکہ پاکستانی فوج نےاپنی قوم کی نظروں میں قائم اپنےگولڈن امیج کو دائو پر لگا کر صلیبی اتحاد کا ساتھ دیا تھا۔لیکن بدلےمیں کیا ملا، ذلت و رسوائی! سنا ہےپرویز مشرف کےبعد آنےوالی فوجی قیادت کو اس کا احساس ہوچلا ہےاور اس نےاس ضمن میں کچھ منصوبہ بندی کی ہےاور کچھ اقدامات بھی ایسےکیےہیں جو امریکا سےرفتہ رفتہ دوری کی طرف اشارہ کرتےہیں۔ ہوسکتا ہےفوج کےلیےامریکا کو یکدم خداحافظ کہنا ”ممکن“ نہ ہو، لیکن اس نےکچھ باتیں ماننےسےانکار کردیا ہے۔ اس نےاِس سال کوئی نیا آپریشن شروع کرنےسےگریز کیا ہے۔ مزید برآں فوج نےغیر ملکیوں کی بلا روک ٹوک نقل وحرکت کو کنٹرول کرنےاور اہم مقامات سےان کو نکالنےکی بھی کوشش کی ہے۔ ہوسکتا ہےمغربی میڈیا میں فوج کےخلاف ہرزہ سرائی اسی کا ردعمل ہو۔ کیوں کہ پاکستانی میڈیا کےبرعکس مغرب کا میڈیا اپنی ریاستوں کی پشت پر کھڑا نظر آتا ہےاور ابلاغی جنگ بپا کرکےمیدان میں موجود سپاہیوں کا ساتھ دیتا ہے۔
ردعمل یقینی ہے، لیکن اگر فوج نےامریکی پالیسیوں سےدوری کا سفر شروع کردیا ہےتو اسےجاری رکھنےاور اس میں تیزی لانےمیں ہی بھلائی ہے۔ جو نو برس تک کندھےپر بیٹھ کر خوش نہیں ہوا وہ اگلی پانچ دہائیوں تک بھی کسی بات سےخوش نہیں ہوگا۔ لیکن پاکستانی عوام‘ جو کل خوش ہوکر سلیوٹ مارتےتھے‘ آج ناراض ہیں۔ریاست ِپاکستان اورفوج مغرب سےلڑائی مول لےکر تو باقی رہ سکتےہیں لیکن اپنی قوم کی ناراضی مول لےکرباقی نہیں رہ سکتی۔
…………٭٭٭…………
ہمارےحکمرانوں کا توموڈ نہیں لیکن کیا ہم وطن عزیز کےخلاف برطانوی جریدےکی ہرزہ سرائی کا جواب دینا پسند کریں گے؟ اگر ہاں تو کس طرح جواب دےسکتےہیں؟

Articles

افغانستان کی معدنی دولت پر منڈلاتے گدھ، معدنیات کی لوٹ مار میں افغان مزاحمت کار اصل رکاوٹ بن کر سامنے موجود ہیں

In فوج,پاکستان,بین الاقوامی تعلقات,طالبان on جون 21, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , ,

امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے گزشتہ دنوں ایک ’خبر‘ بریک کی جس کے مطابق افغانستان میں سونے‘ تانبے‘ کوبالٹ اور لیتھیم سمیت مختلف دھاتوں پر مشتمل 9 کھرب ڈالر مالیت کے معدنی وسائل دریافت ہوئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان معدنیات پر قبضے کے لیے امریکا نے سرگرمیاں تیز کردی ہیں‘ جبکہ مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ معدنی ذخائر کی دریافت سے افغانستان پر اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے امریکا اور چین میں کشمکش تیز ہوسکتی ہے، جبکہ بھارت بھی اس کشمکش کا حصہ بنے گا۔ دوسری جانب طالبان کی جانب سے مزاحمت شدید ہونے کا بھی امکان ہے۔ افغانستان کے معدنی وسائل عالمی جارح قوتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کے ہاتھوں لٹنے میں کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ ایک ناممکن بات کو ممکن بنائیں، اور وہ ناممکن بات ہے طالبان کی شدید مزاحمت کا تدارک۔ خبر کے مطابق افغانستان کے پہاڑوں اور ریگزاروں میں چھپی اس معدنی دولت کی نشاندہی امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون‘ امریکی جیالوجیکل سروے اور یو ایس ایڈ کے اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹیم نے کی‘ جس کی تصدیق افغان حکومت نے کردی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران تیار کیے گئے نقشوں کی بنیاد پر امریکا نے فضائی سروے کے ذریعے وسیع ذخائر کا سراغ لگایا ہے۔9 کھرب ڈالر مالیت کے ان معدنی وسائل کی مزید تقسیم بی بی سی نے کچھ اس طرح سے کی ہے کہ ان معدنیات میں لوہے کے420 ارب ڈالر‘ تانبے کے274 ارب ڈالر‘ نیوبیم کے81 ارب ڈالر‘ کوبالٹ کے 51 ارب ڈالر اور سونے کے25 ارب ڈالر کے ذخائر افغانستان میں پائے جاتے ہیں۔سی آئی اے کے ترجمان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2004ءمیں امریکی ماہرین کو کابل میں افغان جیالوجیکل سروے کے دفتر میں سوویت ماہرین کے تیار کردہ نقشے ملے‘ جن میں افغانستان میں معدنی ذخائر کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان نقشوں کی بنیاد پر امریکی بحریہ کے اورین تھری طیاروں پر خصوصی آلات نصب کرکے ان طیاروں کی افغانستان کے70 فیصد حصے پر پروازیں کرائی گئیں‘ جس سے حوصلہ افزا نتائج ملے۔2007ءمیں ایک بمبار طیارے پر آلات نصب کرکے مزید بہتر ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2007ءمیں پکی خبر بننے والی یہ اطلاع یا معلومات اُسی سال خبر کیوں نہیں بنائی گئیں؟ کیا اس کا مقصد صحیح وقت کا انتظار تھا یا پھر کوئی دوسری مجبوری؟اخبار کے مطابق افغان جنگ میں مشکل صورت حال سے دوچار ہونے کے باوجود امریکی حکام اور افغان حکومت معدنیات کے معاملے پر مذاکرات کے لیے متفق ہوگئے ہیں۔ کچھ لوگ اس جملے کو اس طرح سے پڑھنا پسند کریں گے: ”افغان عوام کا خون پینے والے اب ان کی معدنی دولت لوٹنے پر اس مشکل صورت حال میں بھی متفق ہوگئے ہیں۔“ کہیں یہی مشکل مجبوری تو نہیں؟ ہوسکتا ہے کہ چین کی طرف سے افغانستان میں معدنیات کی جانب پیش رفت نے امریکا کو ان معلومات کو ’جلد‘ خبر بنانے پر مجبور کیا ہو۔ لیکن چین کی طرف سے پیش رفت اس کی واحد وجہ نہیں ہوسکتی۔دراصل امریکا افغانستان میں اپنے اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ اور پینٹاگون کی یہ خواہش تھی کہ وہ طالبان کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑکر اُن کو ایک کمزور حریف ثابت کردیں تاکہ اپنی شرائط پر مذاکرات کیے جاسکیں یا پھر افغانستان سے اپنی باعزت واپسی کے لیے طالبان کو کم از کم مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے۔ لیکن یہ خواہش اب تک صرف خواہش ہی ثابت ہوئی ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق اِس وقت افغانستان میں اگر دن کے وقت امریکیوں یا افغان کٹھ پتلیوں کی حکومت ہوتی ہے تو رات کے وقت طالبان کی عمل داری قائم ہوجاتی ہے۔ جبکہ کچھ آزاد ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے بیشتر علاقوں پر عملاً طالبان کی حکومت ہے کیوں کہ سارے فیصلے وہی کرتے ہیں۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت امریکی منصوبے دھرے کے دھرے ہی رہ گئے ہیں اور امریکا اور اس کے افغان کٹھ پتلیوں کو اس بات کی جلدی ہے کہ اپنی فیصلہ کن شکست سے قبل افغان معدنیات کو ڈالرز میں بدل کر اپنے اکاﺅنٹس میں منتقل کرلیں۔ دسمبر2009ءمیں امریکی صدر بارک اوباما نے مزید30 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مرحلہ وار انخلاءکا آغاز جون2011ءمیں ہوگا۔ اس وقت افغانستان میں ایک امریکی فوجی پر سالانہ ایک ملین امریکی ڈالر کا خرچہ آتا ہے‘ اس طرح اس جنگ میں ایک لاکھ امریکی سپاہیوں پر اُٹھنے والے اخراجات 100بلین ڈالر کے لگ بھگ ہوں گے۔ دوسری طرف ’اے بی سی‘ اور ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے حالیہ سروے میں 53 فیصد امریکیوں نے افغانستان میں مزید جنگ لڑنے کے خلاف رائے دی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکی عوام کو کسی چیز کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا بھلے احساس نہ ہو‘ لیکن وہ اس بات کا حساب ضرور رکھتے ہیں کہ ان کی جیبوں سے ٹیکسوں کی مد میں نکلنے والی بڑی رقم مطلوبہ مقاصد کے حصول میں کامیاب ہورہی ہے یا نہیں؟ ’سی آئی اے‘ کے فنڈز سے چلنے والے ’نیویارک ٹائمز‘ کی طرف سے اس ’بڑی‘ خبر کو بریک کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ امریکی عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ افغان جنگ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے بلکہ اس جنگ پر اُٹھنے والے اخراجات افغانستان کی سخت چٹانوں اور پہاڑوں سے پورے کیے جاسکتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر جن پہاڑوں پر وہ افغان مجاہدین کے ہاتھوں بُری طرح پٹتے رہے ہیں ان کے نیچے دفن خزانے ان کی ڈوبی ہوئی رقم کی ’ریکوری‘ کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ ریکوری ہوپائے گی؟ اس کا انحصار طالبان کی مزاحمت ختم ہونے پر ہے‘ جس میں یقیناً وہ کامیاب نہیں ہوپائےں گے۔ اس وقت افغان عوام کو طالبان کا شکر گزار ہونا چاہیے جو ان کی معدنی دولت کی چوکیداری شدید مزاحمت کی صورت میں کررہے ہیں‘ ورنہ تو افغان کٹھ پتلی حکمران مال کیا افغان عوام کو بھی صلیبیوں کے ہاتھوں زندہ فروخت کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ یہ طالبان کی مزاحمت ہی ہے جس نے اس معدنی دولت پر نظر رکھنے والے کئی ’امیدواروں‘ کے ذہنوں میں شدید خدشات کو جنم دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معدنی دولت پر نظرجمانے والے بھارت کے نئی دہلی میں موجود ایک سابق سفارت کار سنتوش کمار کہتے ہیں کہ اس میدان میں مصروفِ عمل بھارتی کمپنیوں کو افغانستان کے حوالے سے چند خدشات بھی لاحق ہیں: ”ان کے لیے دو مسائل ہیں۔ پہلا سیکورٹی کا مسئلہ ہے جبکہ دوسرا مسئلہ ذرائع رسد کا ہے“۔ سیکورٹی کا مسئلہ یقیناً بڑا مسئلہ ہے۔سنتوش کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”بھارت ایک ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے۔ لہٰذا مختلف طرح کی معدنیات کی ضروریات میں روز بروز اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بھارت ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کے اہم ملکوں میں سے ایک ہے۔ ان ٹیکنالوجیز میں مثال کے طور پر فضائی اور خلائی ٹیکنالوجی میں نئی معدنیات اور دھاتوں کی نہ صرف ضرورت پڑتی ہے بلکہ ان دھاتوں کے استعمال کے حوالے سے اختراعات کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ چونکہ ریئر ارتھ میٹلز سمیت اس طرح کی معدنیات بھارت میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے یہ درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ بھارت کے پڑوسی ملکوں میں اگر کوئی ایسی دریافت ہوتی ہے تو وہ بہت زیادہ اہم ہے“۔ افغانستان کی معدنیات نہ صرف بھارت بلکہ کئی ممالک کے لیے اہم ہیں، اور یہ ممالک اس کوشش میں ہیں کہ کسی طریقے سے افغانستان کی معدنی دولت میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کیا جائے۔چین بھی افغانستان کی معدنیات میں دلچسپی لے رہا ہے، لیکن اس دلچسپی کو ’وسائل کی بھوک‘ کا نام دیا گیا۔ جبکہ امریکا جیسا خونیں بھیڑیا یہ سب کچھ ”انسان دوستی“ میں کررہا ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ معدنی وسائل کی خبر نشر کرنے کا مقصد ان کوششوں کو بھی روکنا تھا جو نیویارک ٹائمز کے الفاظ میں ’وسائل کے بھوکے چین‘ کی طرف سے ہورہی تھیں۔2008ءمیں چین کی سرکاری فرم ’ایم سی سی‘ نے کابل سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ لوگار میں واقع ایانک کے مقام پر ’کوپر‘ کی کان کے سلسلے میں حکومتِ افغانستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے لیے فرم نے 484 ملین پاﺅنڈز بطور پیشگی ادا کیے۔ ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق اس پروجیکٹ سے افغانستان کو 240 ملین پاﺅنڈز سالانہ کی آمدن ہوگی جبکہ 20 ہزار نوکریاں بھی اس پروجیکٹ سے میسر آجائیں گی۔ لیکن امریکا نے وزیر معدنیات محمد ابراہیم عادل پر اس معاہدے کے بدلے میں چین سے30 ملین ڈالر بطور رشوت لینے کا الزام لگا کر انہیں برطرف کروادیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں استعارے کے طور پر افغانستان میں وسیع معدنی ذخائر کے سبب اسے ”لیتھیم کا سعودی عرب“ کہہ کر افغان عوام کو گولی دینے کی کوشش کی گئی کہ ان معدنیات کی لوٹ مار سے ان کی قسمت بدل جائے گی اور وہ سعودیوں جیسے یا ان سے بھی زیادہ خوشحال ہوجائیں گے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے گزشتہ سال کے اواخر میں کہا تھا کہ امن قائم ہوجائے تو یہ معدنی ذخائر افغانستان کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل کردیں گے۔ جبکہ افغان وزارت صنعت و معدنیات کے ترجمان جاوید عمر کہتے ہیں کہ افغانستان میں قدرت کے یہ تحفے ملکی معیشت کو ترقی و کامرانی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔کیا افغانستان واقعی ترقی وکامرانی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا؟ اس تاثر کے درست یا غلط ہونے کے لیے اِسے مختلف تناظر سے دیکھنا ہوگا۔ کسی بھی ملک میں معدنی ذخائر کو صحیح انداز میں نکالنے کے لیے سب سے پہلے لاجسٹک سپورٹ یعنی سڑکوں ‘گاڑیوں‘ گاڑیوں کے فلنگ اسٹیشنوں، مرمت کی ورکشاپس اور ریلوے ٹریک وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔دوئم، بڑی مقدار میں بہتا پانی‘ جو دھاتوں کو صاف کرنے کے لیے درکار ہوتاہے۔ اورسوئم، مناسب اور قابلِ اعتبار بجلی کی مناسب مقدار۔ کیا یہ سب چیزیں افغانستان میں ہیں؟ ان بنیادی لوازمات کی فراہمی کے لیے کتنی رقم درکار ہوگی؟ سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں سے اکثر کا جواب یقیناً ’نہیں‘ میں ہے۔ان لوازمات کے علاوہ جو اہم چیز درکار ہوتی ہے وہ ہے اپنے عوام سے مخلص حکومت اور حکمران‘ جو ملک کے ذخائر کو عوام کی خوشحالی کا ذریعہ بنائیں اور ان سے حاصل ہونے والی رقوم امریکا اور یورپ میں موجود اپنے بینک اکاﺅنٹس میں منتقل نہ کریں۔ لیکن یہاں تو صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ کرزئی کی مرکزی حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں جبکہ انتظامی وفاقی اکائیوں کے نام پر عوام پر مسلط غنڈوں کو عوامی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں۔ امن وامان کی صورت حال خراب ترین ہے جبکہ امریکی فوجی سخت فرسٹریشن کا شکار ہوکر آئے روز معصوم افغانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ کرزئی حکومت کا کرپشن میں ملوث ہونا تو یقینی ہے ہی‘ اس میں کرپشن کو روکنے کی اہلیت بھی نہیں ہے۔اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معدنی وسائل ہی کسی ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں افریقی ملک نائیجیریا کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں تیل کی وافر دولت کے باوجود بدامنی اور غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔گیانا میں تیل کے ذخائر نے اس چھوٹے سے ملک کے صدر کو تو اُس کی سوچ سے زیادہ مالدار بنادیا لیکن عوام آج تک ابتر زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح کانگو کے عوام بھی آج بیشتر مغربی ممالک کے عوام سے زیادہ خوشحال ہونے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بولیویا لیتھیم سے مالامال ہے‘ لیکن یہ آج بھی لاطینی امریکا کا غریب ترین ملک ہے‘ دنیا بھر میں ہیرے (ڈائمنڈ) کے سب زیادہ ذخائر نمیبیا میں ہیں لیکن اس ملک کے عوام کی حالت قابل قدر نہیں ہے۔معدنی وسائل سے مالامال ان ممالک کا تجزیہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کسی ملک کی معدنیات عوام الناس کی فلاح و بہبود اور ان کے طرزِ زندگی کی بہتری کا ذریعہ بنتی ہیں یا اس سے ملک کی اشرافیہ اور ان کے بین الاقوامی غاصب دوست فائدہ اٹھاتے ہیں؟ یہ سوال خود اپنے اندر جواب رکھتا ہے جو ہمیں ’معدنی ذخائر سے مالامال افغانستان‘ کے اچانک نمودار ہونے کے اس سارے قصے کے پیچھے کارفرما عزائم کا پتا دیتا نظر آتا ہے۔ افغانستان کے پاس اگر وسیع معدنی ذخائر ہیں تو اس کے مسائل نائیجیریا‘ کانگو‘ بولیویا اور نمیبیا سے مختلف نہیں ہیں۔ اس بریکنگ نیوز کی تفصیلات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس سے افغانوں کو روزگار مہیا ہوگا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا روزگار ہوگا؟ کھربوں ڈالرز کے ذخائر کے مالک افغان عوام میں سے اگر چند لاکھ کو بھی روزگارکے نام پر مزدوری اور مشقت کی بھیک دے دی جائے تو کیا یہ ان کے دل جیتنے کی کوشش قرار دی جاسکتی ہے؟ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو‘ جن پر امریکا کی اجارہ داری ہے، ان ممالک سے محبت ہوتی ہے جہاں معدنی ذخائر تو وسیع پیمانے پر ہوں لیکن وہاں کے عوام اَن پڑھ ہوں تاکہ پروجیکٹس سے حاصل ہونے والی رقوم کا بڑا حصہ وہ اپنی ماہرانہ خدمات کے ’صلے‘ میں اپنے ملکوں میں لے جائیں۔افغان وزیر برائے معدنیات اور کان کنی وحید اللہ شاہرانی کے بقول ان معدنیات کو زمین سے نکالنے کے لیے حکومتی کوششیں اسی سال کے آخر تک شروع ہوجائیں گی۔ شاہرانی کے بقول افغان حکومت 25 جون کو لندن میں ایک روڈ شو کا اہتمام کررہی ہے، جس میں کان کنی کے شعبے میں اپنی مہارت اور وسائل کی نمائش کے لیے دنیا بھر کی 200 سے زائد کمپنیوں کو مدعو کیا جائے گا۔افغان حکام کی توقعات اپنی جگہ، لیکن افغان عوام کی حقیقی ترجمانی کرنے والے مزاحمت کار اپنی قومی دولت کو لندن کے روڈ شو میں نیلام نہیں ہونے دیں گے، جبکہ نیلامی سے حاصل ہونے والی تھوڑی بہت رقم افغان عوام کی فلاح و بہبود پر صرف ہونے کے بجائے کٹھ پتلی حکمرانوں کی جیبوں میں چلے جانے کا بھی سو فیصد امکان ہے۔اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ ابھی ان معدنیات سے مالامال علاقوں کی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے جن کا انکشاف نیویارک ٹائمز نے کیا ہے، تاہم یہ بات معلوم ہے کہ زیادہ تر معدنیات افغانستان کے اُن حصوں میں پائی جاتی ہیں جہاں عملاً مزاحمت کاروں کا کنٹرول ہے۔

Articles

واشنگٹن مذاکرات: کیا جنرل کیانی انگریزوں کے لیے افغانوں سے ابدالی کا بدلہ لینے پر آمادہ ہوئے?

In فوج,پاکستان,بین الاقوامی تعلقات on مارچ 27, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

تحریر :علی خان
زیر نظر عنوان تلخابہ کا ہے۔ صاحب مضمون نے اس کا عنوان "دیکھیے اس بھر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا” رکھا ہے۔

…………………………………………………………..

پاکستان اور امریکا کے تزویراتی (اسٹریٹجک) مذاکرات ختم ہوگئے۔ امریکا نے دامِ تزویر بچھا دیا۔ واشنگٹن میں تین دن تک خوب موج، میلے رہے اور اطلاعات کے مطابق ہمارے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے میلہ لوٹ لیا، باقی سول حکام موج کرتے رہ گئے۔ جانے ان مذاکرات کو اسٹریٹجی کا نام کیوں دیا گیا۔ لغت میں تو اس کا مطلب صف آرائی کی فوجی سائنس یا فن حرب ہے، حکمت عملی بھی ہے لیکن اس اصطلاح کا بنیادی تعلق فوج اور لڑائی بھڑائی سے ہے، شاید اسی لیے مذاکرات کی کمان جنرل صاحب کے ہاتھ میں رہی۔
ہمیں انگریزی کی اصلاحات استعمال کرنے کا بڑا شوق ہے، اس سے رعب بھی پڑتا ہے اور اپنی زبان کی کم مائیگی بھی عیاں ہوجاتی ہے۔ تزویر یا تزویراتی کہو تو لوگ کہتے ہیں یار اپنی زبان میں بات کرو، یہ تزویراتی کیا چیز ہے؟ ایک دیہاتی باہر رہ کر آیا، طبیعت خراب ہوئی اور واٹر، واٹر کہتا بے ہوش ہوگیا۔ دیہاتی بیوی نے بڑے افسوس سے کہا کہ حالت بگڑنے کے باوجود پانی تک نہ مانگا، جانے کیا کہہ رہے تھے۔ اسے چاہیے تھا کہ پہلے بیوی کو بھی واٹر کی تعلیم دے دیتا۔ اب تو اردو اخبارات کی کئی سرخیاں آدھی سے زیادہ انگریزی میں ہوتی ہیں اور ٹی وی چینلز پر جو اردو بولی جارہی ہے اسے سن کر تو کسی مزاحیہ پروگرام کا گمان ہوتا ہے۔
تو کیا یہ اسٹریٹجک مذاکرات بھی مزاحیہ پروگرام تھے؟ استغفر اللہ۔ تاہم صرف مذاکرات کہنے میں کیا ہرج تھا۔ امریکا سے مذاکرات تو برسوں سے ہوتے چلے آرہے ہیں جن میں اسٹریٹجی امریکا طے کرتا ہے۔ بقول کسے ”گداگروں کے پاس انتخاب کا حق نہیں ہوتا، جو دے اس کی بھی خیر اور جو نہ دے اس کی بھی خیر، ہم تودوسروں کو قائل کرتے ہیں کہ ”صدقہ دتیاں کہن مصیب آندی آندی ٹل جاندی اے“ اس طرح ہم دوسروں کی مصیبت خوشی خوشی اپنے سر لے لیتے ہیں۔ بلائیں لینا شاید اسی کو کہتے ہیں، مسلمانوں کے خلاف امریکی دہشت گردی کی جنگ ہم نے ازراہِ محبت و عقیدت اپنے سر لے ہی رکھی ہے۔ امریکا کا کوئی بھی حکمران پاکستان سے گزرتا ہے تو ہم اس کی خدمت میں اپنے بھائیوں کی لاشیں پیش کردیتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ امریکی ہوائی اڈوں پر ہمارے لیے رکھی گئی اسکریننگ مشینوں سے گزر کر جب ہمارے حکمران وہاں جاتے ہیں تو بھی اپنے پیچھے تحفے کا انتظام کر رکھتے ہیں۔ اب دیکھیے، گزشتہ جمعرات کو واشنگٹن میں ”اطمینان بخش“ مذاکرات کا اعلامیہ جاری ہونے سے پہلے ہم نے اپنے علاقہ اورکزئی کی بستی ماموزئی میں تبلیغی جماعت کے مرکز پر بمباری کرکے ۵۶ مسلمانوں کو شہید کردیا۔ غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جس جگہ کو نشانہ بنایا گیا وہ تبلیغی جماعت کا اہم مرکز ہے اور مرکز کے علاوہ مدرسہ اور مسجد پر بھی بمباری کی گئی۔ دعویٰ یہ کہ مرنے والے سب شدت پسند تھے اور ثبوت کوئی نہیں، جس کو چاہا شدت پسند قرار دے دیا گیا، اب کون ان لاشوں کے چیتھڑے جمع کرکے فیصلہ کرے اور اس فیصلے کو مانے گا بھی کون۔ یہ کام تو امریکا گزشتہ نوسال سے افغانستان اور عراق میں کررہا ہے۔ افغانستان میں جتنے ”انتہا پسند“ امریکا مار چکا ہے اس کے حساب سے تو اب وہاں سارے ہی ”ابتدا پسند“ رہ جانے چاہییں لیکن صورتحال یہ ہے کہ امریکا اور اس کے صلیبی حواریوں کو اپنی عزت بچانا مشکل ہورہی ہے۔ امریکا چاہ رہا ہے کہ پاک فوج اپنے علاقوں سے آگے بڑھ کر افغانستان میں بھی اس کی مدد کرے۔ امریکا کے باخبر اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی خبر ہے کہ ہمارے فوجی سربراہ ۶۵صفحات پر مشتمل تجاویز کی جو فہرست لے کر گئے ہیں اس میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکا امداد بڑھائے تو پاک فوج افغان طالبان سے بھی بھڑ جائے گی۔ ابھی تک اس خبر کی تردید نہیں ہوئی لیکن خدا نہ کرے ایسا ہوا تو وہی حشر ہوگا جو اب امریکا اور اس کے صلیبی حواریوں کا ہورہا ہے، اس سے پہلے سوویت یونین کا اور اس سے بھی پہلے برطانیہ کا ہوچکا ہے۔
خدارا، افغانستان اور افغانوں کی تھوڑی سی تاریخ ضرور پڑھ لیں۔ احمد شاہ ابدالی ہندوستان کے مسلمانوں کو مرہٹوں کی چیرہ دستیوں سے نجات دلانے کے لیے شاہ ولی اللہ کی درخواست پر افغانستان سے آیا تھا۔ اب کیا ہمارے ہاں سے کوئی ”ابدالی“ کوئی کیانی صلیبی حواریوں کو احمد شاہ ابدالی کی نسل سے بچانے کے لیے جائے گا؟
امریکا کی تو پوری کوشش ہے کہ وہ افغانستان میں جس شکنجے میں پھنس گیا ہے، پاکستان اس سے نجات دلائے لیکن اس کے لیے پاکستان کو خود اس شکنجے میں پیر پھنسانا ہوں گے۔ پاکستان امریکی دامِ تزویر میں پہلے ہی پھنسا ہوا ہے، اس سے نکلنے کے بجائے وہ اور پھنسنا چاہ رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ ”چوں قصا آید طبیب ابلہ شود“ اور یہاں تو دور دور تک کوئی طبیب نظر نہیں آرہا، ابلہ اور ابلیسی البتہ ہر جا نمایاں ہے۔
ہماری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ امریکا کو مزید کچھ لاشوں کا تحفہ دینا ہی تھا تو تبلیغی جماعت کے مرکز کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔ تبلیغی جماعت تو کسی کے لینے میں نہ دینے میں، اسے بے ضرر طریقہ پر اپنے اندازسے تبلیغ کرنے سے کام۔ تشدد، انتہا پسندی یا دہشت گردی تو دور، یہ تو ظلم کے مقابلہ میں با آواز بلند بھی کچھ نہیں کہتی، دل میں شاید برا جانتی ہو۔ یہودیوں کے تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن نے تبلیغی جماعت کو بالکل بے ضرر جانا ہے چنانچہ کبھی اس کے بارے میں کسی نے، حتیٰ کہ بھارت تک نے کچھ نہیں کہا۔ تبلیغی جماعت کا قبائلی علاقوں میں وجود تو امریکا اور پاک فوج کے لیے باعث رحمت ہے۔ اس جماعت کی تبلیغ اثر انداز ہوگئی تو طاغوت سے بزور قوت برسرپیکار افراد بھی ہتھیار رکھ کر چلّے پر چلے جائیں گے۔ مدرسوں اور مساجد پر تو ہمارے بہادر حملے کرتے ہی رہتے ہیں مگر ابھی تک تبلیغی مرکز کو چھوڑا ہوا تھا۔ ممکن ہے کہ اورکزئی ایجنسی کے ان ۵۶ مسلمانوں کی لاشوں کے تحفے کی خبر سن کر ہی محترم ہیلری کلنٹن اتنا کھلکھلا رہی ہوں اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کہہ رہے ہوں ” اے اپاں دا کم ہے“ (یہ ہمارا کام ہے) امریکی اور پاکستانی وزیر خارجہ میں ایسی قربت، ایسی یکجائی خطرے کی علامت ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ، جن کا نام اب یاد نہیں آرہا، صرف اتنا کہ جنگجو شہزادی یا بلیک کوئن کہلاتی تھیں، لکھتی ہیں کہ پاکستان کے ”پرنس چارمنگ“ وزیراعظم شوکت عزیز نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ انہیں ایک مسکراہٹ سے زیر کرلیں گے، ادھر بلیک بیوٹی کا دعویٰ کہ ”جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے“ یوں بھی شوکت عزیز کے نقش نگار یقیناً اچھے تھے لیکن چہرہ سپاٹ تھا، بے تاثر، جانے انہیں یہ غلط فہمی کیسے ہوگئی، ان کے مقابلہ میں تو آصف زرداری کہیں زیادہ ”چارمنگ“ ہیں، کس غضب کی مسکراہٹ ہے۔ کسی نامعقول نے ایس ایم ایس بھیجا ہے کہ ”آصف زرداری کی مسکراہٹ اوراداکارہ میرا کے آنسو دونوں خطرناک ہیں“۔ یہ رحمان ملک کیا کررہے ہیں جنہوں نے ایسے پیغامات بھیجنے والے کے لیے ۴۱سال کی قید تجویز کی تھی۔ وہ ذرا عدالتوں میں پیشی سے نمٹ لیں پھر ایسے لوگوں سے نمٹیں گے۔ جناب آصف زرداری نے اپنی مسکراہٹ کا جال امریکا کی ری پبلکن پارٹی کی نائب صدر کی امیدوار پر بھی پھینکا تھا اور معانقہ کی خواہش ظاہر کی تھی، مگر وہ ہار ہی گئیں۔ حافظہ کی خیر ہو، نام ان کا بھی یاد نہیں آرہا۔ ہارے ہوﺅں کو کون یاد رکھتا ہے۔ لیکن پاکستان میں تو جیتے ہوئے وزراءاتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ اکثر کے نام نہیں معلوم۔ چار، پانچ ہی ایسے ہیں جو اپنی کارکردگی یا ناکارکردگی کی وجہ سے تواتر سے سامنے آتے رہتے ہیں، کسی کا نام کیا لینا، یہ تو آپ کو بھی ازبر ہوں گے۔ ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے کہ ہمارے وزراءملک سے باہر ہی سہی، کھل کر مسکراتے تو ہیں، ہم نے باخبر ذرائع سے سنا ہے کہ جناب شاہ محمود قریشی، ہیلری کلنٹن سے قریبی ملاقات کے بعد یہ شعر گنگناتے ہوئے پائے گئے:
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض مت
پوچھ حوصلے دل ناکردہ کار کے
خدا کرے کہ گھر والوں نے یہ تصویریں نہ دیکھی ہوں ورنہ جوابدہی مشکل ہوجائے گی، بشرطیکہ عادی نہ ہوگئے ہوں۔
ہمارے جو وزراءاور دیگر سول حکام واشنگٹن گئے تھے ان کو یہ خبر ہی نہ تھی کہ امریکا سے کس موضوع پر بات ہونی ہے۔ ایک باخبر نے خبر دی کہ اس میں کسی آگہی کی ضرورت نہ تھی، مذاکرات حکمت عملی پر ہونے تھے اور حسب معمول حکمت امریکا کی، عملی ہماری۔ زیادہ باخبر تو امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نکلا جس کے پاس تمام نکات کی تفصیلات تھیں جو فوج نے مرتب کی تھیں۔ واشنگٹن سے تجزیہ کار شاہین صہبائی نے خبر دی ہے کہ اسٹریٹجک مذاکرات کی لگام جنرل کیانی نے سنبھالی ہوئی تھی۔ سول قیادت صرف اس میں دلچسپی رکھتی تھی کہ امریکا مزید کیا دے گا لیکن شرکاءکے تبصرے یہ ہیں کہ شراکت داری یعنی زیادہ سے زیادہ پیسے ملنے کے معاملے پر کچھ نہیں ہوگا۔ اور جہاں تک اسٹریٹجی یا حکمت عملی کا تعلق ہے تو دونوں ممالک کی فوج پہلے ہی اس پر اتفاق کرچکی ہے۔ سویلین قیادت نے مذاکرات کا ڈول اس لیے ڈالا تھا کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ سیاسی اسکور کیا جائے۔ امریکا نے پاکستان سے اپنی محبت ظاہر کرنے کے لیے واشنگٹن میلے کی اجازت دیدی۔ امریکا کو اس محبت کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ تو آئے دن اپنے ڈرونز بھیج کر محبتیں نچھاور کرتا رہتا ہے۔ پھر یہ بلیک واٹر عرف ”زی ورلڈ وائیڈ“ بھی اس کی شفقت اور تعلق خاطر کی مظہر ہے، سی آئی اے اس کے علاوہ۔ امریکی نمائندہ خصوصی رچرڈ ہالبروک کا اصرار تھا کہ فوج کی شمولیت کے بغیر کوئی بات نہیں ہوگی۔ خود پاکستان کے اندر بھی ”بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر“ پاک فوج کی ہمت کو داد دینی چاہیے کہ اس نے پاکستان کے ۲۶ سال میں سے ۳۳ سال براہ راست اپنی جان پر جھیلے ہیں اور باقی عرصہ بھی پس پردہ ”راعی“ کا کام کیا ہے۔ یہ بڑا مشکل کام تھا جو بڑی آسانی سے کرلیا گیا۔ سول حکومت کو اپنی اسٹریٹجی یا حکمت عملی پر چلانا اور یہ تاثر دینا کہ ملک میں فوجی حکومت نہیں جمہوریت ہے بڑی بات ہے۔ پیارے یہ ہمیں سے ہے، ہر کارے و ہر مَردے۔ عزیزم شاہین صہبائی نے تو واشنگٹن مذاکرات کا سارا کریڈٹ جنرل کیانی کو دے دیا کہ اس بارات کے اصلی دولہا وہی تھے۔ پاکستانی سفارتخانے میں یوم پاکستان کی تقریب کا اہتمام حسین حقانی نے کیا لیکن وہاں وزراءخارجہ و دفاع کی حیثیت ”شامل باجا“ کی سی تھی۔ بڑی خاموشی سے آگئے، ہٹو بچو کا کوئی شور نہیں مچا اور جب جنرل کیانی آئے تو سائرن بجنے لگے۔ کس شیر کی آمد تھی کہ رن کانپ رہا تھا۔ تمام کیمروں کا رخ اسی رخ روشن کی طرف تھا۔ امریکی و پاکستانی مرد و خواتین انہی پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ اپنے چوہدری احمد مختار ‘ جو بلحاظ منصب جنرل کیانی کے باس ہیں اور پیپلزپارٹی کے دیگر رہنماﺅں کی کیفیت یہ تھی کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔ سفیر پاکستان جناب حسین حقانی کا حال کئی بیویوں والے شوہر جیسا تھا۔ پاکستانی وفد میں شامل ایک رکن کا کہنا ہے کہ سفیر پاکستان کے پاﺅں دو کشتیوں میں ہیں اور ہاتھ تیسری کشتی میں ہے۔ یہ ان کا کمال ہے جس کی داد دینی چاہیے لیکن ہمیں یاد پڑتا ہے کہ حسین حقانی کے دو ہاتھ ہیں اور دونوں لمبے، موصوف رکن نے دوسرے ہاتھ کا ذکر نہیں کیا کہ وہ کہاں ہے۔ لگتا ہے جیب میں ہو، شاید اپنی ہی جیب میں۔ سول ارکان کی بے توقیری باعث تعجب نہیں۔ انہیں تو امریکا کو پیش کیے گئے ۶۵صفحات کے مندرجات کا علم بھی نہیں تھا۔ غیر فوجی عناصر کی خواہشات پر مبنی کوئی فہرست بھی نہیں تھی اور اس کی ضرورت بھی کیا ہے۔ اصل کام تو فوجی قیادت ہی کو کرنا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اہم شعبوں میں دیرپا ترقی کا روڈ میپ یا نقشہ امریکا تیار کررہا ہے۔ ہمارے سارے ہی نقشے امریکا کے تیار کردہ ہیں ان راستوں پر ہم بگٹٹ دوڑے چلے جارہے ہیں۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں۔ جناب شاہ محمود قریشی کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکا سے سول جوہری تعاون پر مذاکرات سے مطمئن ہیں لیکن اس پر مزید کوئی بات نہیں کریں گے۔ ان کا اطمینان اسی سے ظاہر ہے ورنہ ذرا سی بھی امید ہوتی تو وہ بڑھ چڑھ کر بیان کرتے۔ امریکا بار بار کہہ چکا ہے کہ سول جوہری ٹیکنالوجی جو بھارت کو دی گئی ہے، پاکستان کو نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہ ایک غیر ذمہ دار ملک ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے، ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات میں اس بار بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ شاید اسی لیے واشنگٹن روانگی سے پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر کے خلاف لاہور کی عدالت میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی تاکہ پوچھنے پر بتایا جاسکے کہ دیکھیے صاحب ہم تو اب بھی ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور معاملہ ایک بار پھر عدالت میں ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں رسمی طور پر پاک امریکا تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ ڈرون حملوں میں مزید تیزی آئے گی۔ پالیسیوں پر عمل کے لیے ایک اسٹیرنگ گروپ بنا دیا گیا۔ اب یہ لفظ اسٹیئرنگ پھر اٹک گیا۔ اس کا کیا ترجمہ کیا جائے؟ لغت میں تو اس کا مطلب خصّی بچھڑا ہے یا اپنی راہ لینا، جہاز چلانا وغیرہ۔ ان میں سے کونسا لفظ یہاں موزوں ہوگا۔ یقیناً پہلے والا نہیں، جہازی گروپ کہا جائے تو مشینی کتابت کی غلطی سے یہ جہادی گروپ بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ اپنی راہ لینے والی بات یہ ہے کہ امریکا بارہا پاکستان کو مشکلات میں ڈال کر اپنی راہ لے چکا ہے۔ تو کیا ترجمہ کیا جائے؟ ہمارے خیال میں تو ”بادنما“ مناسب رہے گا۔ جنرل کیانی کا کہنا ہے کہ اسٹریٹجک تعلقات عوامی تعلقات کے بغیر قائم نہیں ہوسکتے۔ شاید اسی لیے شاہ محمود قریشی عوامی تعلقات قائم کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ امریکا نے اپنے ہوائی اڈوں پر پاکستانیوں کے لیے اسکریننگ مشین بھی عوامی تعلقات کے فروغ کے لیے لگائی ہیں۔ پتا تو چلے کہ ان میں سے عوام کون ہے۔ جانے یہی سلوک پاکستانی وفد کے ساتھ بھی ہوا یا نہیں۔ نہیں ہوا تو امریکیوں کا یہ دعویٰ غلط کہ ان کے ملک میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے جمعرات کو سفارتخانے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکا کو پیشکش کی ہے کہ پاکستان کی توانائی اور معیشت کی ضروریات پوری کردی جائیں تو فوج عسکری سازوسامان سے دستبردار ہوجائے گی۔ اسی کے ساتھ جنرل کیانی نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان اور سوات میں پاک فوج کی کامیابیوں سے امریکی رویہ میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اس کامیابی کو آگے بڑھانے کے لیے امریکا فوجی سامان دینے سے گریز نہیں کرے گا بلکہ تُرنت دیدے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایران سے گیس پائپ لائن کا سمجھوتا طے پانے کے بعد امریکا پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں دلچسپی ظاہر کرے تاکہ ایران سے معاہدہ ختم کردیا جائے۔ بھارت کو بھی تو اسی طرح روکا گیا ہے۔ ان مذاکرات میں ایک بار پھر ایٹمی عدم پھیلاﺅ کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے جس کا ذکر اعلامیہ میں نہیں۔ امریکا اب بھی اس پر قائم ہے کہ پاکستان ایٹمی پھیلاﺅ کا مرتکب ہوا ہے۔ سول نیو کلیئر معاہدے کے حوالے سے ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ بھارت سے تو برسوں کے مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ طے پایا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق تو پاکستان امریکا کا قدیم ترین دوست ہے، بھارت تو سوویت یونین کے ”پالے“ میں تھا لیکن پاک امریکا تعلقات کو پالا مار گیا۔ بہر حال دیکھتے ہیں کہ اس بحر کی تہہ سے کیا اچھلتا ہے، حکمران تو بہت اچھل رہے ہیں کہ بڑی کامیابی ملی ہے۔ ایک ہفتہ واشنگٹن میں گزارنا بجائے خود ایک کامیابی ہے اور کچھ نہیں تو غلط سلط انگریزی بولنے والے امریکی ہمارے شاہ محمود قریشی کے لب و لہجہ سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔ کیا ٹکا کر اور جما کر انگریزی بولتے ہیں کہ مدعا پیچھے رہ جاتا ہے، سننے والا لہجے کے سحر میں گم ہوجاتا ہے۔ مسٹر بش نے تو ہمارے وزیراعظم کی انگریزی کا مذاق اڑانے کی کوشش کی تھی او رجب وہ تقریر کررہے تھے تو آنکھ مار کر مسکرا رہے تھے۔ جناب گیلانی کو چاہیے تھا کہ سرائیکی میں خطاب کرتے پھر دیکھتے کہ کون آنکھ مارتا ہے مگر ہماری اپنی زبان ہی کہاں ہے اور جو ہے وہ دوسروں کے منہ میں ہے یا دوسروں کی زبان اپنے منہ میں۔ پاکستان کو بھارت کی طرح سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی دینے میں امریکا کو خوف ہے کہ بھارت ناراض ہوجائے گا۔ اس وقت بھارت کو خوش رکھنا امریکا کی سب سے بڑی مجبوری ہے، اسرائیل کو راضی رکھنے سے بھی زیادہ‘ کیونکہ امریکا اسرائیل کا تحفظ کرتا ہے جیسا کہ جوبائیڈن نے کہا بھی ہے اور بھارت خود اس خطہ میں امریکی مفادات اور اسٹریٹجی کا تحفظ کررہا ہے۔ باقی رہا خان نیٹ ورک تو یہ محض ایک بہانہ ہے۔ پاک امریکا مذاکرات تو آئندہ بھی چلتے رہیں گے لیکن اسی اثناءمیں خود پاکستان میں ہونے والے اسٹریٹجک مذاکرات فی الحال غت ربود ہوگئے۔ میاں صاحب عین وقت پر ”نعلی موڑ“ مڑ گئے۔( یہ یوٹرن کا خود ساختہ ترجمہ ہے، گھوڑے کی نعل بھی تو U کی شکل کی ہوتی ہے) معاملات اچھے بھلے چل رہے تھے۔ اٹھارہویں ترمیم پر اتفاق ہوگیا تھا۔ رضا ربانی کمیٹی میں (ن) لیگ کے اسحاق ڈار بھی شامل تھے اور ہر بات پر متفق تھے۔ اٹھارہویں ترمیم کا بل جمعہ کو پارلیمنٹ میں پیش ہونا تھا او رجناب زرداری کو پارلیمنٹ کے اجلاس سے تیسری مرتبہ خطاب کرنے کا اعزاز حاصل ہونے والا تھا لیکن ”پکائی تھی کھیر ہوگیا دلیہ“ (ن) لیگ کو شاید یہی بات پسند نہیں آئی کہ آئینی ترمیم کا کریڈٹ پیپلز پارٹی لے جائے۔ سیاست میں عموماً یہی کوشش ہوتی ہے کہ ”بلائیں زلف جاناں کی اگر لیں گے تو ہم لیں گے“ اب ایسا لگتا ہے کہ اس انحراف پر ساری بلائیں (ن) لیگ پر نازل ہوں گی۔ کوئی بھی اس حرکت کی حمایت کرتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ شاید جلد ہی جواب مل جائے۔

Articles

’’گھٹ گئےلیڈر‘ بڑھ گئےسائے‘‘

In فوج,مذہب,پاکستان on مارچ 17, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

کاش پاکستانی عوام جن کوووٹ دیتےہیں ان میں کوئی لیڈر بن جاتا۔ ویسےعوام کو ووٹ ہی ان سیاستدانوں کو دینا چاہیےجو لیڈرز ہیں‘لیکن بدقسمتی سےایسا نہیں ہوتا۔ جس وقت میں یہ سطور ضبط تحریر لارہا ہوں ایکسپریس ٹی وی کےپروگرام ”آج کل“ میں ایک ایسا ہی بونا لیڈر نوجوانوں کو یہ تصور دےرہا ہےکہ وہی لیڈر ہیں۔ ہمیں گلہ رہتا ہے کہ وہ جن کا کام ملک کی چوکیداری ہے‘ وہ ایوان اقتدار میں آکر بیٹھ جاتےہیں لیکن اس میں قصور بھی تو ان بونےلیڈروں کا ہوتا ہیے۔ ابھی چند دن قبل جامعہ نعیمہ لاہور میں تقریر کرتے ہوئے ان کی زبان ’’پھسل“ گئی جس پر ان کا محاصرہ ہوا تو انہوں نے”طالبان “ سےمتعلق اپنےبیان کی ”وضاحت“ کےساتھ جاکر سرحدوں کی حفاظت کےلیےبنائی گئی فوج کےسپہ سالار کےقدموں پر گر پڑیے۔ میں ان کو بونا نہ کہوں تو کیا کہوں؟ شاید اسی دن کےلیےجگر مراد آبادی نےکہا تھا۔
جہل ِخرد نےدن یہ دکھائے
گھٹ گئےانسان بڑھ گئےسائے
آپ انسان کو حکمران پڑھ لیں۔
آج جب پورا پاکستان زرداری کی کرپشن کےپیچھےپڑا ہوا ہےجب کہ میں ”شریف بونا کمپنی“ کو زیادہ قابل گرفت سمجھتا ہوں کیوں کہ زرداری عوام سے مینڈیٹ لینےکےلیےجاتےہیں تو ان کو پتا ہوتا ہے۔ زرداری اور ان کی پارٹی کی کرپشن کسی سےڈھکی چھپی ہےاور نا ہی ان کےسیاسی نظریات۔ الفاظ شاید سخت ہیں لیکن کیا کریں ا س سےکم میں ان کی عکاسی نہیں ہوتی کہ یہ منافق ہیں اور ان کا قائد میاں محمد نواز شریف منافق اعظم۔ یہ ووٹ دائیں بازو کےنام پر لیتےہیں اور گرتےہیں ”امریکا کی چوکھٹ“ پر۔ کارگل جنگ کےدوران شہباز شریف کی امریکا یاترا کون بھولا ہے؟ طالبان اور ان کےنظریات ایک جیسےنہیں تو کہا کیوں؟ الیکشن مہم کےدوران عوام کو یہی باور کرایا جاتا ہےکہ ہم امریکی پالیسیوں کےخلاف ہیں۔ جامعہ نعیمہ میں طالبان اور اپنےنقطہ نظر کو بھی تو اسی تناظر میں قرار دیا تھا۔ شہباز شریف کےبیان پر بہت ساروں نےامریکی نمک خوار بن کر ”ردعمل “ ظاہر کیا لیکن سب سےدلچسپ ردعمل یا عمل نگہت اورکزئی کا رہا جنہوں نےدوپٹا پھینک دیا۔ نیویارک سےطیبہ ضیا ءچیمہ نےنوائےوقت میں رپورٹ کیا ہےکہ امریکی مسلم خواتین نےاس پر ردعمل ظاہر کرکےکہا کہ نگہت اوکرزئی نےاپنا نہیں بلکہ تمام مسلمان خواتین کا دوپٹہ اُتار پھینکا ہے۔ ان خواتین کا تعلق یقینا کسی تحریک طالبان غالباً تحریک طالبان امریکا سےہوگا۔ ایک ایسی خاتون نےطالبان بن کر کچھ ”مجرموں“ کی مرہم پٹی کردی تو اس کو قیدی 650بناکر بگرام جیل بھیج دیا۔ وہاں سےامریکا لےجاکر امریکی انصاف کا شاندار مظاہرہ کیا گیا۔ ختم نبوت کےطوفانی صاحب نےسوال کیا ہےکہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکا لےجانےوالےآخر زید زمان حامد کو کیوں نہیں اُٹھاتے۔ وہ بھی تو امریکا کےخلاف اور افغان طالبان کےحق میں بات کرتا ہے۔ ان کےبقول معاملہ سیدھا سادہ ہے۔ شہباز شریف کےبیان پر زبان تاسیر بھی بھڑک گئےتھے وہ سلمان تاثیر جوآدھےپاکستان(صوبہ پنجاب) کی جامعات کےچانسلر ہیں اور ان میں بیشتر میں زید حامد اب تک تقریر کرچکا ہے‘ جس میں ا”چھے“ اور”برے“ طالبان کےعلاوہ بھارتی اور امریکی دہشت گردی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان کی تقریروں پر ان کےمحسنوں کو بھی اعتراض نہیں حالانکہ ”دی نیوز“ کےابصار عالم کا خیال ہےکہ ان محسنوں نےان کےاوپر سےہاتھ اُٹھالیا ہے۔ بات سےبات نکلتی ہے لیکن ہم اصل موضوع پر آتےہیں کہ منافقت نہیں ہونی چاہیے‘ شہباز شریف کو اگر فوج کی این او سی لیکر اقتدار میں آنا یا روکنا ہےتو وہ عوامی منڈیٹ کےبھاشن دینا بند کردیں۔ جو ہیں اس کا اعتراف کرلیں۔ ورنہ منافقوں سے تو ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے زرداری ہی اچھےہیں کہ جیسےہیں ویسا ہی اپنےآپ کو پیش کرتےہیں۔