کراچی میں جاری لسانی فساد کو سمجھنے کے لیے شہر پر قابض دو دہشت پسند جماعتوں ایم کیو ایم اور اے این پی کے لیڈران کی گفتگو ہی کافی ہے ۔ میں پہلے ہی اس کے بارے میں افتخار بھائی کے بلاگ پر اظہار خیال کرچکا ہوں، یہاں سترہ جنوری کو شائع ہونے والے علی خان صاحب کا مضمون پیش خدمت ہے جو قارئین کو بتاتا ہے کہ اس شہر قائد پر کس آسیب کا سایہ ہے۔
………………….
رضی اختر شوق مرحوم ایک بار بہاولپور آئے، ڈپٹی کمشنر برلاس صاحب نرے سرکاری ملازم نہ تھے بلکہ اچھے شاعر اور اس سے زیادہ شاعر گر تھے۔ ان کی شاگردی سے خواتین نے زیادہ فیض پایا۔ بہرحال وہ جب تک بہاولپور کے حکمران رہے، باقاعدگی سے مشاعرے کرواتے رہے۔ رضی اختر شوق بھی گھومتے گھامتے آگئے، ان دنوں ان کی اس غزل کی بڑی دھوم تھی:
سنگ ہے، نازک دشنام ہے، رسوائی ہے
یہ ترے شہر کا انداز پذیرائی ہے!
لیکن مذکورہ محفل میں انہوں نے اپنے شہر کراچی کے حوالے سے ایک شعر سنایا:
کوئی اس شہر میں آسیب صدا دیتا ہے
جو دیا لے کے نکلتا ہوں، بجھا دیتا ہے
یہ اس دور کی بات ہے جب کراچی میں قتل و غارت گری عروج پر تھی اور بوری بند لاشوں کے کلچر کی ابتدا ہوئی تھی۔ رضی اختر نے آسیب کا نام لیے بغیر غزل کی زبان میں حقیقت بیان کردی۔ لیکن ہم تو اس شعر سے صرف اتنا ہی سمجھ پائے کہ حضرت کے گھر میں بہت سے دیے رکھے ہوئے تھے، پتا نہیں کسی نے دیے تھے یا وہ دیاگر تھے۔ اتنا تو سوچا ہوتا کہ جب دیا بجھنا ہی ہے تو ایک ہی دیے کو بار بار لے کر باہر نکلتے۔ اور مصرعہ یوں بھی ہوسکتا تھا کہ ”جب دیا لے کے نکلتا ہوں بجھا دیتا ہے۔
اس عرصہ میں بہت سے دیے بجھے، روشنیوں کے دشمن اب تک دیے بجھانے میں جی، جان سے لگے ہوئے ہیں لیکن وہ شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا، وہاں ایسے دیوانے بے شمار ہیں جو اپنے حصے کی شمع، اپنی جرا ¿ت کا دیا روشن کرنے میں مصروف ہیں اور روشنی کا فیصلہ ہواﺅں پر نہیں چھوڑ رکھا۔ بھلے کتنے ہی آسیب چنگھاڑتے پھر رہے ہوں، ہوائیں تندو تیز ہوں، شرار بولہبی شرر پر تلا ہوا ہو، اندھیر اور اندھیرا کیسا ہی گمبھیر ہو، کہیں نہ کہیں دیے تو روشن ہیں۔
ہمارے حکمران سیاسی مخالفین اور اپنی ذات پر تنقید کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنے، آنکھیں نوچنے، ٹانگیں توڑنے اور گردن اڑانے کی دھمکیاں تو دیتے ہیں، اپنی ذات کے حوالے سے سازشوں کا چرچا بھی خوب کرتے ہیں لیکن ان ہاتھوں کو توڑنے پر قادر نہیں جن ہاتھوں نے ایک عرصہ سے اس شہر خوباں کو شہر خرابہ بنا کر یہاں کا امن و امان مسل کر رکھ دیا ہے۔ ان آنکھوں کو نوچ پھینکنے کی کوئی فکر نہیں جو قومی سلامتی اور ہم آہنگی کو نظر لگا رہی ہیں، ان گِدھوں کو کوئی شکار نہیں کرتا جو مظلوموں کی لاشوں پر پل رہے ہیں۔ذرا کوئی حکمرانوں پر تنقید کردے یا ان کے حواریوں کی طرف انگلی اٹھا دے تو طیش میں آجاتے ہیں۔
شہر کراچی دسمبر کے سانحہ کے بعد سے اب تک سنبھل نہیں سکا ہے۔ جن کے گھروں سے لاشے اٹھے اور جن گھروں کے چولہے بجھ گئے وہ ہنوز سکتہ کے عالم میں ہیں۔ اس سانحہ عظیم کے بعد اس سے توجہ ہٹانے اور مجرموں کی پردہ پوشی کے لیے شہر میں ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ کا کھیل شروع ہوگیا۔ مجرموں کا تعین اب تک نہیں ہوسکا۔ ذمہ داران آئیں، بائیں، شائیں کررہے ہیں۔ بم دھماکا ہو یا آتش زنی، شہر بھر میں ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتیں ہوں یا لیاری میں آپریشن، کسی بھی بات کا واضح جواب نہیں مل رہا، مل بھی نہیں سکتا۔ چوروں، ڈاکوﺅں کی ریت ہے کہ ایک دوسرے کی مخبری نہیں کرتے۔ ایک کہاوت ہے کہ اپنے بھائی کو چور کون کہے۔ اور یہاں تو اعلان کیا جارہا ہے کہ فلاں فلاں ہمارا بھائی ہے، ہمارا بازو ہے، ہمارا اتحادی ہے۔ ایک بوکھلاہٹ یا کھسیاہٹ کا عالم طاری ہے۔ عجیب عجیب بیانات سامنے آرہے ہیں، جناب قائم علی شاہ چونکہ سندھ کے بڑے وزیر ہیں اس لیے ان کی بات بھی بڑی ہے۔ لیاری میں رینجرز نے آپریشن کیا جس پر لیاری کے ہزاروں افراد نے بہت بڑا جلوس نکال دیا۔ ایک بڑی شخصیت کا فرضی جنازہ اٹھا کر وزیراعلیٰ ہاﺅس کی سمت جارہے تھے لیکن وہ لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ لیاری میں سب ہمارے جیالے ہیں اور یہ علاقہ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے، وہ سب یہ ریلی دیکھ کر دبک گئے۔ یہ جو بڑے بڑے ہاﺅس ہیں، ان کی حفاظت پولیس کرتی ہے اور پولیس کا یہی کام ہے ان کی طرف کوئی بڑھے تو وہ خود اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا۔ سندھ کے بڑے وزیر کو کہنا پڑا کہ مجھے کیا پتا، آپریشن کا حکم کس نے دیا، میں تو انجان ہوں۔ یہ حقیقت بھی ہے وہ بیشتر معاملات سے انجان رہتے ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے کچھ دوستوں نے شرارتاً ہمیں بھنگ پلادی تھی تو ہم بھی پورا ایک دن انجان رہے، پتا ہی نہیں چلا، اطراف میں کیا ہورہا ہے۔ نشہ تو ہر ایک ہی برا ہے لیکن بھنگ کا نشہ گندا بھی ہے، اور اقتدار کا نشہ خطرناک۔ کبھی کبھی دو، تین نشے آپس میں مل کر دو آتشہ و سہ آتشہ ہوجاتے ہیں۔ بھنگ تو حافظہ معطل کردیتی ہے لیکن تکیوں اور مزاروںپر بڑی مقبول ہے۔ اس کے عقیدت مندوں میں سے کسی کا شعر ہے:
بنگِ (بھنگ) زدیم و سردو عالم شدآشکار
مارا ازیں گیاہِ ضعیف ایں گماں نہ بود
یعنی بھنگ پی کر دو عالم کے اسرار کھل جاتے ہیں، اس کمزور سی گھاس سے ایسا گماں کب تھا۔ یاد رہے کہ بھنگ کے حوالے سے ہمارے تمام اشارے خود اپنی ہی طرف ہیں گو کہ ایک ہی بار اس گیاہ ضعیف کے ہتھے چڑھے تھے۔ اب بڑے وزیر اگر شوکت ترین کو بار بار شوکت عزیز کہیں یا گوادر کے تفریحی دورے میں پنجاب کے بڑے وزیر کو بار بار شہاب شریف کہتے رہیں تو اس کا تعلق کسی اور چیز سے نہیں، عمر سے ہے۔ پینے والے تو اور بہت ہیں جو بہت کچھ پی جاتے ہیں ،خون تک۔
یہ جناب قائم علی شاہ کی سادگی ہے کہ انہوں نے کراچی میں کسی بھی قسم کے آپریشن سے برا ¿ت کا اعلان کردیا ۔ مخمصہ یہ ہے کہ کس کے خلاف آپریشن کیا جائے، سب آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ اگر یوم عاشور کے جلوس میں بم دھماکا خود کش حملہ قرار دیا جاسکتا تو ان الجھنوں سے نجات مل جاتی۔ شاید اسی لیے حادثہ کے چند منٹ کے اندر اندر لندن سے الطاف بھائی تک نے اسے خود کش حملہ اور طالبان کی کارروائی قرار دیا۔ جناب رحمن ملک نے اسلام آباد سے یہ اطلاع جاری کی۔ اب انہیں چاہیے کہ اپنے غلط اندازے اور تفتیش کو غلط رخ پر ڈالنے کی اس سوچی سمجھی کوشش پر معذرت تو کرلیں۔ ویسے ہمیں حیرت ہے کہ اس دھماکے کو خود کش حملہ باور کرانے میں کیا دشواری تھی؟ فوری طور پر تو حملہ آور کا سر اور دھڑ تک دریافت کرلیا گیا تھا اور ایک جوان کے لیے تمغہ شجاعت یا ستارہ جرا ¿ت کی سفارش بھی کردی گئی تھی کہ اس نے خودکش حملہ آور کو دبوچ کر زیادہ بڑی تباہی سے بچا لیا۔ اگر لندن سے اسلام آباد تک سب یکسو ہوجاتے کہ یہ خودکش حملہ ہی تھا تو کوئی کیا کرلیتا۔ لیکن اس کے بعد جو آگ کا کھیل کھیلا گیا یہ کس کا ”کارنامہ“ ہے؟ اس کا ابھی تعین نہیں ہوا کہ کس کو بلکہ کس کس کو مجرموں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ آگ لگانے اور لوٹ مار کرنے والوں کی تو تصویریں بھی موجود ہیں، یہ بھی آسانی کے بجائے دشواری بن گئی۔ تصویروں کے مطابق جو لوگ پکڑے گئے یا پکڑے جائیں گے ان کی وابستگیاں حسب منشا ثابت کرنا آسان نہ ہوگا۔
اس کا بھی حل ہمارے ذہین ترین وزیر جناب عبدالرحمن نے نکال لیا ہے، واضح رہے کہ ان کے نام کے ساتھ ملک لگا ہوا ہے، کچھ اور نہ سمجھا جائے۔ تو وفاقی وزیر داخلہ جناب رحمان ملک نے گزشتہ جمعرات کو قومی اسمبلی میں انکشاف کیا کہ عاشورہ کے جلوس میں بم دھماکا کالعدم لشکر جھنگوی نے کیا۔ چلیے، مان لیا، لیکن اس سے آگے موصوف نے مزید انکشاف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، جیش محمد اور القاعدہ نے مل کر ایک نیٹ ورک قائم کرلیا ہے جو دہشت گردی کی وارداتوں کے پیچھے ہے۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ آتش زنی اور لوٹ مار کے تیس ملزم گرفتار ہوئے ہیں جن کا تعلق مختلف گروہوں سے ہے، لوٹے گئے ہتھیار بھی ان سے برآمد کرلیے گئے ہیں۔ ان دہشت گردوں کا نشانہ متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم حقیقی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے کارکن بنے۔ اب گزشتہ تین دن سے کراچی میں کوئی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی۔ جناب وزیر داخلہ نے ”مجرموں“ کا دائرہ بڑا وسیع کردیا ہے اور اس میں کسی نہ کسی طرح طالبان اور القاعدہ کو بھی لے آئے ہیں۔یہ ان کی ضرورت بھی ہے، تاہم ایک سوال یہ ہے کہ لشکر جھنگوی، طالبان اور القاعدہ سے وابستہ تمام لوگ سنی ہیں۔ دھماکے تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد بولٹن مارکیٹ اور اس کے اطراف کی مارکیٹیں پھر لنڈا بازار کی جو دکانیں پھونکی گئیں وہ سب کی سب سنیوں کی ہیں اور لنڈا بازار تو بالخصوص پٹھانوں کا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان میں غلبہ پشتو بولنے والوں کا ہے اور وہ سب کٹر سنی ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ طالبان پٹھانوں کی دکانیں جلا کر انہیں معاشی طور پر فقیر کردیں اور لشکر جھنگوی سنیوں کی دکانیں جلا ڈالے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تاجر حضرات میں سے بیشتر تبلیغی جماعت سے متاثر ہیں اور خیر کے کاموں میں دل کھول کر چندہ دیتے رہے ہیں۔ یوم عاشور کے سانحہ سے پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ کراچی خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے اب تک اس لیے محفوظ ہے کہ یہاں سے طالبان یا جہادی تنظیموں کو چندہ ملتا ہے، تو کیا یہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف نہیں ہے؟
تصاویر سے ظاہر ہے کہ یہ شر پسند جو بھی تھے، کالے کپڑے پہن کر عاشورہ کے جلوس میں شامل ہوگئے تھے اور یہیں سے نکل کر لوٹ مار اور آتشزنی شروع کی۔ یہ لوگ آتش گیر مادہ سے لیس تھے۔ صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے ان تخریب کاروں کو پولیس کے ذریعہ نہ روکنے کی یہ عجیب دلیل پیش کی کہ یہ لوگ کالے کپڑوں میں ملبوس تھے ان پر فائرنگ کی جاتی تو پورے ملک میں فساد برپا ہوجاتا۔ یہ ایسی بات ہے جو حکمرانوں ہی کو سوجھ سکتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کالے کپڑے پہن کر ڈاکو، لٹیرے اور تخریب کار جو چاہیں کرتے پھریں، پولیس یا رینجرز انہیں نہیں روکیں گے۔ یہ جو شہر شہر گیس اور بجلی کی عدم دستیابی پر مظاہرے ہورہے ہیں جن پر پولیس ٹوٹی پڑ رہی ہے، ان مظاہرین کو چاہیے کہ کالے کپڑے پہن کر احتجاج کریں، محفوظ رہیں گے۔ اللہ خیر کرے ابھی تو چالیسویں کے جلوس نکلنے باقی ہیں۔
جناب رحمن ملک نے واقعات کو خاص رخ دینے کے لیے یہ بھی فرمایا تھا کہ بلدیہ ٹاﺅن اور شیرپاﺅ کالونی سے لوگوں کو اٹھا کر لے جایا جاتا ہے اور قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ بستیاں ان کے شعور یا لاشعور پر حاوی ہیں، کیوں؟ انہوں نے قومی اسمبلی میں بھی کہا کہ پاک کالونی، ملیر، بلدیہ ٹاﺅن اور شیرپاﺅ کالونی خطرناک ترین علاقے قرار دیے جاچکے ہیں۔ ان علاقوں میں گینگسٹر(گروہ بند بدمعاش) چھپے ہوئے ہیں۔ وہاں ہر قیمت پر کارروائی ہوگی۔ اگلی سانس میں فرمایا کہ ملیر میں کوئی آپریشن نہیں کیا گیا حالانکہ ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں نے شکوہ کیا تھا کہ ملیر میں آپریشن ہورہا ہے۔ ایک سوال یہ کہ ملیر میں آپریشن ہو تو پیپلز پارٹی کو اس پر اعتراض کیوں؟ وفاقی وزیر تو فرمارہے ہیں کہ یہ علاقہ گروہ بند بدمعاشوں کا گڑھ ہے۔ چلیے، ملیر اور لیاری تو آپریشن کے خطرے سے باہر ہوگئے۔ پاک کالونی پر اہل لیاری کی اجارہ داری ہے، وہ بھی بچ گیا۔ رہے بلدیہ ٹاﺅن اور شیرپاﺅ کالونی تو یہ اے این پی والے جانیں۔ کراچی میں اے این پی کے رہنما جناب شاہی سید صدر مملکت آصف زرداری سے ملے ہیں اور ملاقات کے سرور میں ڈوبے ہوئے ہیں، ان سے پوچھا گیا کہ کراچی کے مسائل اور پٹھانوں کے معاملات پر صدر سے کیا بات ہوئی تو انہوں نے فرمایا ”ہم تو صدر کو سلام کرنے گئے تھے، انہوں نے پہلی بار ملاقات کا شرف بخشا، ہم نے کسی مسئلہ پر بات نہیں کی“ ان کا انداز ایسا تھا جیسے گنگو تیلی راجا بھوج سے مل کر آیا ہو، اور بھاگ کھلنے پر نازاں ہوں،” مارا ازیں مرد قوی ایں گماں نہ بود“
جناب رحمن ملک کا تعلق حکومت سے ہے، دیگر بہت سے عہدیداروں اور مشیروں کی طرح پیپلز پارٹی سے نہیں۔ اور ستم یہ کہ کراچی ان کے لیے اور وہ کراچی کے لیے اجنبی ہیں۔ لیکن خود پیپلز پارٹی کے رہنما کراچی میں برسوں سے جاری ٹارگٹ کلنگ کے مجرموں کا نام لے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں طالبان اور القاعدہ کو بھی ملوث کیا ہے۔ وہ ایک عرصہ تک پاکستان سے باہر رہے اس لیے یہ یاد نہ رہا ہوگا کہ جب طالبان اور القاعدہ کا کسی نے نام بھی نہ سنا تھا تب سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے۔ کا آپریشن طالبان اور القاعدہ کے خلاف نہیں تھا اور پیپلز پارٹی ہی کے سابق وفاقی وزیر داخلہ اور رحمن ملک کے پیشرو جنرل فرحت اللہ بابر کراچی میں لشکر جھنگوی، طالبان پاکستان اور القاعدہ سے نبرد آزما نہ تھے۔ جناب الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام لشکر جھنگوی، طالبان یا القاعدہ پر نہیں لگایا۔ یہ ٹارگٹ کلنگ تو کب سے جاری ہے اور جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے کے مصداق کراچی کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کون کس کو مار رہا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ رحمن ملک مصلحتوں کے اسیر ہیں اور وہ ہی کیا جب جناب صدر خود سجدہ ریز ہوں تو وفاقی وزیر کس شمار، قطار میں۔
جب تک اصل مجرموں کی نشاندہی نہ ہوگی اور ان کے خلاف کارروائی نہ ہوگی تب تک شہر کراچی پر آسیب کے سائے منڈلاتے رہیں گے اور دیے بجھتے رہیں گے۔ اب تو پولیس افسران بھی اصل مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جن افسران نے مجرموں کے خلاف کارروائی کی تھی وہ اب منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں۔ ایک ایک کرکے سب مار دیے گئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد بھی نہیں چھوڑا گیا۔ وہ سب موت کے حقدار ٹھیرے، ڈیتھ وارنٹ جاری ہوچکا تھا جو اب تک منسوخ نہیں ہوا ہے۔
کراچی وقفہ وقفہ سے خون میں نہاتا رہے گا۔ رحمن ملک خوش ہیں کہ تین دن سے کوئی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی۔ لیکن یہ ”ملتے ہیں ایک وقفہ کے بعد“ کی صورتحال تو کتنی بار پیش آچکی ہے۔ مقصد تو دہشت بٹھانا اور یہ جتانا ہوتا ہے کہ شہر کس کے قبضہ میں ہے، کسی اور نے سر اٹھایا تو انجام یاد رہے۔ پس منظر میں بلدیاتی اجارہ داری بھی ہے۔ لوگ کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ یہ شہر صرف ہمارا ہے، ہم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ پیپلز پارٹی اتحادی ہوگی لیکن وہ کراچی اور حیدر آباد کی شہری حکومتوں کو بھول جائے۔ عوام کا حال یہ ہے کہ:
یہاں ہر شخص ہر پل حادثہ ہونے سے ڈرتا ہے
کھلونا ہے جو مٹی کا، فنا ہونے سے ڈرتا ہے
مرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ
بڑوں کی دیکھ کے دنیا، بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
اور صاحبو! ڈرتے تو ہم بھی ہیں، اس لیے تھوڑا لکھے تو بہت جانیے۔
جواب دیں