Articles

امریکا کے مقامی ’’سیکولر مجاہد‘‘۔

In میڈیا, پاکستان, دہشت گردی on نومبر 5, 2010 by ابو سعد Tagged: , , , , , ,

شاہنواز فاروقی
ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ مغربی ذہن ہرچیز کو طاقت کے نقطہ نظر سےدیکھتا ہے، یہاں تک کہ محبت کو بھی۔ اس سےاندازہ کیا جاسکتا ہےکہ مغربی ذہن جنگ کو کتنا ہولناک بناسکتا ہے…. بالخصوص امریکی ذہن۔ اس ذہن کے زیراثر اخبار کی شہ سرخی میزائل اور خبر کا متن بارودی سرنگوں سےبھرا ہوا میدان بن سکتا ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت 26 اکتوبر کےروزنامہ ڈان کراچی کےصفحہ اوّل پر شائع ہونےوالی خبر ہے۔
شہ سرخی کےساتھ شائع ہونے والی خبر بابا فرید گنج شکر کےمزار پر ہونے والے بم ھماکےسےمتعلق ہے۔ کہنے کو خبر ڈان کے رپورٹر نےفائل کی ہےلیکن خبر کی شہ سرخی اور متن پڑھ کر خیال آتا ہےکہ خبر امریکی فوج کےکسی سپاہی نےسپردِ قلم کی ہوگی۔
اس کا پہلا ثبوت خبر کی شہ سرخی ہے۔ خبر اہم تھی اور تمام اخبارات نے اسےصفحہ اوّل پر شائع کیا ،لیکن ڈان کےسوا کسی اخبار نےبھی اسےشہ سرخی کےساتھ شائع نہیں کیا۔ روزنامہ جنگ کراچی نےخبر کو پانچ کالمی سرخی کےساتھ شائع کیا۔ دی نیوز کراچی نے اسے تین کالمی سرخی کےساتھ رپورٹ کیا ہے۔ روزنامہ جسارت کراچی نےاسےچار کالمی سرخی کےلائق سمجھا۔ لیکن اس پر شہ سرخی صرف روزنامہ ڈان نےلگائی۔ حالانکہ انگریزی اخبارات بالخصوص ڈان اس طرح کی خبروں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اہم بات یہ ہےکہ ڈان خبر کو شہ سرخی کے ذریعے میزائل بنا کر نہیں رہ گیا، اس نے اپنے سنجیدہ مزاج کےبرعکس سرخی کےالفاظ بھی چیختے چنگھاڑتے منتخب کیے ہیں۔ ڈان کی شہ سرخی یہ تھی:
"Yet another shrine comes under attack”
اس سرخی کے ذریعے رپورٹر نے صرف واقعے کو رپورٹ نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے قاری کو یاد دلایا ہےکہ مزارات پر مسلسل حملے ہورہےہیں اور بابا فرید کےمزار پر حملہ اسی سلسلےکی تازہ ترین کڑی ہے۔ تجزیہ کیا جائےتو اس سرخی میں زرد صحافت کرنے والےاخبارات کی طرح کی سنسنی خیزی ہے اور کسی انگریزی اخبار کیا قومی نوعیت کے اردو اخبار سے بھی اس طرح کی سنسنی خیزی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
اس طرح کی خبر تحریر کرنے کا اصولی اور کلاسیکل طریقہ یہ ہےکہ خبر کا ایک جامع ابتدائیہ لکھا جائےجس میں خبر کےتمام اہم پہلوئوں کا احاطہ ہوجائے، اور پھر متن میں ابتدایئے کی تفصیلات دےدی جائیں۔ ڈان میں اکثر خبریں اسی طرح تحریر ہوتی ہیں، مگر زیر بحث خبر اس طریقےسے نہیں لکھی گئی۔ خبر کا ابتدائیہ ختم ہوا تو رپورٹر نے اپنےقارئین کو یاد دلانا ضروری سمجھاکہ یہ گزشتہ چار ماہ میں ہونے والا اس نوعیت کا تیسرا اور 2007ء سے اب تک ہونے والا پانچواں واقعہ ہے۔ رپورٹر چاہتا تو یہاں بات ختم کرکے ابتدایئےکی تفصیلات بیان کرتا، مگر اُس نےاس کےبعد مزارات پر ہونے والےتینوں حملوں کی تفصیلات تحریر کرڈالیں۔ بلاشبہ خبر میں اس طرح کی تفصیلات دی جاتی ہیں مگر خبر کے آخر میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خبر ”مثلثِ معکوس“ یا Inverted Pyramid کےاصول پر تحریر کی جاتی ہے۔ یعنی خبر کی سب سے اہم بات سب سے پہلےتحریر کی جاتی ہےاور پھر اہمیت کےاعتبار سےدوسری باتیں۔ لیکن ملک کےسب سےبڑی، سب سےاہم، سب سےسنجیدہ اخبار کا رپورٹر یہ خبر فائل کرتےہوئےخبر تحریر کرنےکےاصول کو یکسر بھول گیا۔ اِس سلسلےمیں اُس کی ساری دلچسپی یہ نظرآئی کہ اس کےقارئین خبر کی ابتداء ہی سے یہ باور کرلیں کہ دھماکا یقینا طالبان نےکیا ہےجو خون آشام ہیں، درندےہیں، مزارات کےدشمن ہیں، ان پر جانے والوں کو کافر سمجھتےہیں۔ تو کیا طالبان نے بم دھماکےکی ذمےداری قبول کی ہے؟ اس حوالےسے ڈان کے رپورٹر نےجو کچھ لکھا ہےاسے پڑھ کر بیک وقت رویا بھی جاسکتا ہےاور ہنسا بھی جاسکتا ہے۔ ڈان کےرپورٹر نےلکھا ہے:
"No one claimed responsibility for attack, but in the past Taliban militants have been blamed for such attacks.”
(ترجمہ) ”کسی نےحملےکی ذمےداری قبول نہیں کی تاہم ماضی میں طالبان کےجنگجوئوں پر اس طرح کےحملوں کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔“
تجزیہ کیا جائےتو ڈان کےرپورٹر نےالزام کو ”امر واقع“ کےانداز میں رپورٹ کرڈالا۔ پاکستان میں رائےعامہ کےدرجنوں رہنما کہہ رہےہیں کہ پاکستان میں جتنے بم دھماکے ہورہےہیں ان میں امریکا اور اس کےادارےملوث ہیں، مگر ہم نےڈان کی کسی خبر میں آج تک یہ نہیں پڑھا کہ ماضی میں اس طرح کے واقعات کا الزام امریکا پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔ ویسےخالص خبر یا Hard news میں کہیں بھی الزامات کا ذکر نہیں ہوتا۔ خبر میں الزام کا حوالہ آتا بھی ہےتو الزام لگانےوالےکا نام ساتھ لکھا جاتا ہے۔ ایسا اس لیےکیا جاتا ہےکہ الزام کا الزام اخبار کےبجائےالزام لگانےوالےکے سر جائے۔ لیکن ڈان کے رپورٹر کو طالبان سے ایسی نفرت ہےکہ اس نےیہ بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ ماضی میں طالبان پر بم دھماکےکرنےکا الزام کون عائد کرتا رہا ہے؟ اگر یہاں یہ فرض کرلیا جائےکہ رپورٹر کا اشارہ حکومت کی طرف ہوگا، تو حکومت کےالزامات کا یہ حال ہےکہ وزیر داخلہ رحمن ملک نےعبداللہ شاہ غازی کےمزار پر حملہ کرنےوالوں کےنام جاری کیےمگر ایک دن بعد ہی معلوم ہوگیا کہ دونوں خودکش بمبار ”زندہ “ ہیں۔
ڈان کے رپورٹر کو داد دینی چاہیےکہ اس نےخودساختہ مذہبی انتہا پسندوں یا طالبان کا تعاقب خبر کی آخری سطروں تک کیا۔ خبر کی آخری سطروں کا ترجمہ یہ ہے:
”کہا جاتا ہےکہ پاک پتن میں واقع (بابا فرید کا) مزار لاہور کے داتا دربار کےبعد ملک کا مقدس ترین مزار ہے۔“
یہاں سوال یہ ہےکہ ان سطروں میں ”داد کےقابل“ بات کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہےکہ خبر میں صوفیائےکرام کےمزارات کو Revered یعنی ”مقدس“ قرار دیا گیا ہے۔ یہ بجائےخود قابلِ اعتراض بات نہیں لیکن ڈان اپنے سیکولر کردار کےباعث مسلمانوں کےقبلہ اوّل کو بھی مقدس قرار نہیں دیتا۔ وہ فلسطینیوں کی جدوجہد کو قومی، سیاسی اور سیکولر جدوجہد باور کراتا رہا ہے، لیکن طالبان کےخلاف عوامی جذبات کو ابھارنے کےلیے اسے صوفیائےکرام کے مزارات میں بھی ”تقدس“ نظر آنےلگا ہے۔
امریکا نےخلیج کی پہلی جنگ ذرائع ابلاغ کی مدد سےلڑی اور جیتی تھی۔ وہ افغانستان کےخلاف جارحیت میں بھی ذرائع ابلاغ کی مدد سےکامیاب ہونا چاہتا ہے۔ لیکن ان دونوں مثالوں کا فرق یہ ہےکہ خلیج کی پہلی جنگ امریکا نے اپنےذرائع ابلاغ کی مدد سےجیتی تھی لیکن افغانستان کی جنگ میں مقامی ”سیکولر مجاہدوں“ کا کردار اہم ہے۔ مالکان اور صحافیوں کی صورت میں یہ سیکولر مجاہد اخبارات اور جرائد میں موجود ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی چینلوں میں موجود ہیں۔ امریکا کی طرح اس کےسیکولر مجاہدوں کو بھی معلوم ہےکہ امریکا افغانستان سے شکست کھا کر نکلےگا تو تاریخ بدل کر رہ جائےگی، چنانچہ وہ ایک ایک خبر اور ایک ایک تجزیے پہ جان لڑا رہےہیں۔

6 Responses to “امریکا کے مقامی ’’سیکولر مجاہد‘‘۔”

  1. يہ کہہ کر کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے اُس مفکر کم اور عيار زيادہ نے سب کو بيوقوف بنانے کی کوشش کی تھی ۔ کُليہ زيرِ استعمال مغرب ميں يہ ہے کہ طاقت کے نشے ميں سب جائز ہے

  2. سیکولر مجاہدین کا یہی تو کاز ھے۔کوئی نہ ملے طالبان پر الزام منڈھ دو

  3. ویسے مزارات پر حملوں سے مجھے لگ رہا ہے کہ شائد دشمن مختلف مکاتب فکر کو آپس میں لڑانے کی تیاری میں ہے۔

  4. ما شا ء اللہ۔ کافی وفاداری دکھائی ہے شاہنواز فاروقی صاحب نے دہشت گردوں سے!
    ڈان سیکیولر ہے تو کیا غیر سیکیولر اخباروں پر بھی تنقید کرتے تاکہ متوازن تجزیہ کیا جاسکتا لیکن چونکہ ان کا تشخص غیر سیکولر ہے لہذا ان کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔
    خدارا ادھوری صداقتوں کے خول سے باہر نکلیں۔
    طالبان اور امریکہ دونوں دہشت گردی کے کینسر ہیں۔
    آج خبر تو پڑھ ہی لی ہوگی کہ درہ آدم خیل میں ایک مسجد پر طالبانی دہشت گردوں نے معصوم مسلمانوں کو اپنے تئیں جہنم رسید کیا ہے اور کالعدم تحریک ظالمان پاکستان کے کمانڈر طارق گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ کیا کہتا ہے اب شاہنواز فاروقی صاحب کا تجزیہ اس ضمن میں۔
    ایک عدد Skewed تجزیہ اس پر بھی آوے ہی آوے !

  5. درہ آدم خیل مسجد میں خود کش دھماکہ :
    http://auraq.urdutech.com/2010/11/dara-adam-khail-taliban-suside-attack/

  6. بہت اعلیٰ تحریر ہے . خوب نشاندہی کی ہے . اس قسم کے لاتعداد حربے ہمیں روزانہ دکھائی دیتے ہیں. یہ سارا طوفان بدتمیزی اس لیے مچایا جا رہا ہے کہ لوگوں کو کسی بھی طرح دین سے بیزار کر دیا جاتے

Leave a reply to ھارون اعظم جواب منسوخ کریں