Posts Tagged ‘نعیم ایڈوکیٹ، الطاف حسین،ایم کیو ایم ، پاکستان ، ملزم ، مجرم ، عدالت ، قانون کی حکمرانی ، لاہور، کراچی ، جسقم’

Articles

ملزم ‘بےگناہ اور مجرم کا فیصلہ: وکیل بھی کسی سے پیچھے نہیں

In پاکستان,دہشت گردی on جنوری 28, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

اپنے پچھلے پوسٹ’’مقتول مجرم ہوتا ہے اور سیاسی کارکن معصوم‘‘میں‘ میں نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ جب کسی سیاسی جماعت یا مسلک کا کوئی رکن دہشت گردی کے کسی واقعہ میں پکڑا جاتا ہے تو وہ مسلک یا پارٹی تھانوں کے گھیرا کے ساتھ ساتھ دھمکیوں پر بھی اُتر آتی ہے‘ یہی چلن اب وکلا نے بھی اختیار کیا ہے۔ اگر کسی پر دہشت گردی یا قتل کا الزم لگا یا جاتاہے تو اس پر مقدمہ چلنا چاہیے‘ اگر بے گناہ ثابت ہوتا ہے‘ تو بری ہوجائے گا ‘اگر گناہ گار ہے تو سزا مل جائے گی ۔

لیکن لگتا ہے قانون کی حکمرانی کی بات کرنےوالے ہی اس کی پاسداری پر آمادہ نہیں۔ روزنامہ جسارت نے اس اہم موضوع پر آج کے ادارتی صفحے پر ’’شذرہ‘‘ لکھا ہے (گرافک ویو کے لیے یہاں کلک کریں) ۔ قارئین تلخابہ ضرور اس کو پڑھ لیں ‘خصوصا وہ دوست جو میرے پچھلے پوسٹ پر سخت ناراض ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وکلاءبرادری کاملزم کے لیے احتجاج

لاہورمیں گھریلو کام کرنے والی 12 سال کی ایک بچی شازیہ پراسرار حالات میں ہلاک ہوگئی۔ قتل کے الزام میں لاہورہائی کورٹ بارکے سابق صدر ایڈووکیٹ نعیم کو گرفتارکرلیا گیا جس کے گھرمیںیہ بچی کام کرتی تھی۔ ٹی وی چینلز پریہ سانحہ سامنے آنے اور عیسائی برادری کی طرف سے زبردست مظاہرہ کے بعد اعلیٰ حکام بھی متوجہ ہوئے۔ شازیہ کی ہلاکت کے فوراً بعد ایڈووکیٹ نعیم اور اس کے اہل خانہ روپوش ہوگئے تھے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق شازیہ پرجسمانی تشددکیاگیا تھا اور کئی دن سے اسے اپنے گھروالوں سے ملنے بھی نہیں دیاجارہاتھا۔ یہاں تک تو معاملہ بظاہرسیدھا سادا ہے لیکن اب حالات نے ایک نیا موڑلے لیاہے۔ لاہورکے وکلاءاپنے ہم پیشہ اور سابق صدر ہائی کورٹ بارکے حق میں احتجاج پر اترآئے ہیں۔ گزشتہ منگل کو ملزم کی عدالت میں پیشی پروکلاءنے اس کے حق میں نعرہ بازی کی اور اگلے دن یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا۔ موجودہ صدرہائی کورٹ بار کا کہناہے کہ ذرائع ابلاغ نے اس معاملہ کو غیرضروری طورپر اچھالاہے اور صرف یک طرفہ موقف پیش کیاہے۔ ان کے مطابق ملزم بے گناہ ہے۔ لیکن ایک طرف تو ملزم کا مع اہل خانہ روپوش ہوجانا اسے مشکوک ٹھیراتاہے دوسری طرف اسے اپنا موقف پیش کرنے سے کسی نے نہیں روکا۔ لیکن اب تک اس کی طرف سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ وکلاءعدلیہ کا ایک حصہ ہیں اور معاملہ عدالت میں پیش ہوچکاہے جہاں سے تین دن کا جسمانی ریمانڈ دیاگیاہے۔ مناسب تویہ تھا کہ مظاہرے‘ نعرے بازی اور یوم احتجاج منانے کے بجائے عدالت ہی میں مقدمہ لڑاجاتا اوراگرملزم بے گناہ ہے تو اس کی بریت کی کوشش کی جاتی۔ ملزم کی حمایت کرنے والے خود وکیل ہیں اور وہ یہ کام با آسانی کرسکتے ہیں۔ کسی غریب وبے وسیلہ ملزم کو بے گناہ ہونے کے باوجود وکیلوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے گھرکا سامان تک بیچنا پڑتاہے‘ نعیم کو تو یہ خدمات مفت میں حاصل ہوجائیںگی۔ لیکن صرف اس بنیاد پرکسی ملزم کا ساتھ دینا کہ وہ ہم پیشہ ہے‘ ناانصافی ہے۔ اس طرح تو کوئی بھی اپنے پیشے‘ برادری‘ قبیلے یا جماعت کی بنیاد پر حصول انصاف میں رکاوٹ بن سکتاہے جیساکہ ایک تجزیہ نگارنے 9 اپریل کو کراچی میں وکیلوں ہی کوزندہ جلادینے کا حوالہ دیاہے جب عدالت کا گھیراﺅ کرکے سماعت نہیں ہونے دی گئی تھی۔ آخر ایک جیتی جاگتی زندگی موت کی نیندسوئی ہے۔ اگر وہ کسی بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہے تو اس کا علاج کیوں نہ کروایا گیا۔ پوسٹم مارٹم کی رپورٹ ابھی سامنے نہیں آئی ہے اس سے بہت کچھ معلوم ہوسکے گا۔ اسی سانحہ کے حوالے سے ایک اورگھناﺅنی حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ ہدایت نامی ایک بے ہدایت شخص نے یہ کاروبار بنارکھا تھا کہ غریب والدین کو کم اجرت دے کر ان کے بچے حاصل کرکے امیرگھرانوں میں ملازم رکھواتا تھا اور ان سے بڑی رقم حاصل کرتاتھا۔ ایسا کاروبار اور بھی کئی لوگ کررہے ہوں گے۔ جو لوگ ایسے بچے حاصل کرتے ہیں وہ بھی مجرم ہیں۔ پولیس کی طرف سے یہ تاکید ہے کہ گھریلو ملازمین کے کوائف سے تھانے کو مطلع کیاجائے درحقیقت یہ غلامی کا ایک سلسلہ ہے اور ایسے بچوں پرمظالم کی کہیں داد‘ فریاد بھی نہیں ہوتی۔ گاﺅں‘ دیہات میں آئے دن زمینداروں کی نجی جیلوں سے ہاری‘ کسان‘ اوربھٹہ مالکان کے قبضہ سے مزدور برآمد کیے جارہے ہیں ۔ ایسے ظالموں کو سزادلوانے کے لیے وکلاءکو اپنا اخلاقی کردار اداکرنا چاہیے اور مجرموں کی وکالت سے گریز کرنا چاہیے۔ لیکن وکلاءتو یہ کہتے ہیں کہ انہیں صرف اپنی فیس سے غرض ہے خواہ کروڑوں میں ہو۔ کیا یہ غیراخلاقی اورغیراسلامی حرکت نہیں۔؟