Archive for جنوری 7th, 2010

Articles

مسعود جنجوعہ شہید کردیے گئے

In پاکستان on جنوری 7, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , ,

معروف کالم نویس حامد میر نے روزنامہ جنگ میں شائع اپنے آج کے کالم (میڈیا کا اصل امتحان) میں انکشاف کیا ہے کہ ہمارے اپنے ملک کی خفیہ (دہشت گرد) اداروں نے آمنہ مسعود کے شوہر مسعود جنجوعہ کو دوران حراست شہید کردیا ہے( انا للہ و انا الیہِ راجعون) اس کالم میں یہ بھی کہا گیا ہے اس وقت این آر او سے زیادہ جس مسئلے پر عوام کو عدلیہ کا ساتھ دینا چاہیے وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ ہے۔ ان لاپتا افراد میں اکثر بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جن کو دہشت گردی کی امریکی جنگ کے نام پاکستان کی خفیہ اداروں نے اُٹھایا ہے۔ آئیے سب مل کر عدلیہ کا ساتھ دے کر لاقانون خفیہ اداروں کو شکست دے کر اس ملک میں قانونی کی بالادستی کے کار خیر میں حصہ ڈالیں۔

 کالم ملاحظہ کریں۔

 میڈیا کا اصل امتحان ….قلم کمان …حامد میر

 سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال نے بالکل درست کہا کہ عدلیہ سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں البتہ اگر لاپتہ افراد جیسے مسائل حل نہ ہوئے تو جمہوریت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے یہ ریمارکس لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران دیئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لاپتہ افراد کا مقدمہ این آر او سے بڑا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال، جسٹس راجہ فیاض احمد اور جسٹس سائر علی پر مشتمل تین رکنی بنچ لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کررہا ہے۔
ان جج صاحبان کے ریمارکس پر بہت غور کی ضرورت ہے۔ میں بھی ذاتی طور پر لاپتہ افراد کے مقدمے کو این آر او سے بڑا مقدمہ سمجھا ہوں کیونکہ دراصل یہی وہ مقدمہ تھا جس کی وجہ سے خفیہ ادارے جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ناراض ہوئے اور انہوں نے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے کان بھرنے شروع کئے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی ڈانٹ ڈپٹ شروع کردی تھی کیونکہ وہ عدالت کو نہ تو لاپتہ افراد کے متعلق مکمل تفصیلات فراہم کرتے تھے اور جب یہ پتہ چل جاتا کہ کوئی لاپتہ شخص واقعی کسی مقدمے کے بغیر ان کی تحویل میں ہے اور عدالت اس کی رہائی کا حکم دیتی تو خفیہ ادارے اسے رہا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری جن لاپتہ افراد کی بازیابی کا حکم دے رہے تھے۔ ان میں سے اکثر کا تعلق بلوچستان سے تھا اور اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز اپنے معاملات میں سپریم کورٹ کی ”مداخلت“ سے قطعاً خوش نہ تھے۔ انہوں نے خود ذاتی طور پر جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ملاقات کی اور انہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کی لیکن چیف جسٹس نے اس اہم مقدمے کی سماعت جاری رکھی تو پھر ملٹری انٹیلی جنس نے دیگر خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر چیف جسٹس کے خلاف ایک مہم شروع کردی اور انہیں پرویز مشرف کے اقتدار کے لئے ایک خطرہ قرار دینا شروع کردیا۔ اسی مہم کے نتیجے میں 9مارچ 2007ء کو چیف جسٹس سے استعفیٰ لینے کی کوشش کی گئی اور ناکامی پر انہیں معزول کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 20جولائی 2007ء کو اپنے ہی چیف جسٹس کو ان کے عہدے پر بحال کردیا تو چیف جسٹس نے واپسی کے فوراً بعد لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع کردی۔
20جولائی2007ء کے بعد پاکستانی سیاست میں بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے۔ پرویز مشرف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر او کے نام پر ایک جعلی مفاہمت کی۔ اس این آر او کا مقصد وطن عزیز میں مفاہمت کی سیاست کو فروغ دینا نہیں بلکہ جسٹس افتخار کے خلاف محاذ میں پیپلزپارٹی کو ساتھ ملانا تھا۔ 5/اکتوبر 2007ء کو این آر او جاری ہوا اور 17/اکتوبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آگئیں۔ دوسری طرف لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت جاری تھی، خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی پریشانیاں پہلے سے زیادہ بڑھ چکی تھیں کیونکہ عدالت جن افراد کی بازیابی کا حکم دے رہی تھی ان میں سے بعض افراد ان اداروں کی تحویل میں تشدد سے مارے جاچکے تھے۔ خفیہ اداروں کے سربراہوں کو خدشہ تھا کہ اگر عدالت کو بتا دیا گیا کہ بعض لاپتہ افراد ان کی حراست میں جاں بحق ہوچکے ہیں تو چیف جسٹس ان اداروں کے افسران کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔ ملک قیوم ان دنوں اٹارنی جنرل تھے۔ انہوں نے خود کئی مرتبہ کوشش کی کہ خفیہ ادارے کم از کم آمنہ مسعود جنجوعہ کے شوہر اور چند لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کو عدالت میں پیش کردیں تاکہ یہ تاثر دور ہوکہ حکومت سپریم کورٹ سے تعاون نہیں کررہی۔ ملک قیوم نے سیکرٹری داخلہ کمال شاہ کے ساتھ مل کر دیواروں کے ساتھ بہت ٹکریں ماریں لیکن کسی کو رحم نہ آیا۔ آخر کار ایک دن ملک قیوم کو ایک طاقتور خفیہ ادارے کے ایک طاقتور افسر نے بلاکر کہا کہ جاؤ اور جاکر آمنہ مسعود جنجوعہ کو بتادو کہ اس کا شوہر دنیا میں نہیں رہا۔ یہ سن کر ملک قیوم کانپ گئے اور انہوں نے مذکورہ افسر سے کہا کہ حضور والا یہ بات مجھے تحریری طور پر لکھ کر دے دیں کیونکہ آمنہ مسعود جنجوعہ مجھ سے ثبوت مانگے گی اور اپنے شوہر کی لاش مانگے گی میں یہ سب کہاں سے لاؤں گا؟ طاقتور افسر نے ملک قیوم کی التجا کو نظر انداز کردیا لہٰذا ملک صاحب خاموش ہوگئے۔
ذرا یاد کیجئے! 20جولائی کے بعد سپریم کورٹ نے ایک باوردی صدر کو دوبارہ الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روکا تھا البتہ لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت جاری رکھی۔ 2نومبر 2007ء کو اس مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وارننگ دی تھی کہ اگر عدالت کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہوا تو پھر خفیہ اداروں کے سربراہوں کو عدالت میں طلب کیا جاسکتا ہے۔ اگلے دن 3نومبر 2007ء کو ایمرجنسی نافذ کرکے چیف جسٹس اور انکے ساتھیوں کو ان کی رہائش گاہوں پر نظربند کردیا گا۔ خاکسار نے یہ تمام تفصیل محض یہ ثابت کرنے کیلئے بیان کی ہے کہ 3نومبر 2007ء کو جمہوریت کا خاتمہ لاپتہ افراد کے مقدمے کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس دن معزول ہونیوالے جج صاحبان 16 مارچ 2009ء کو ایک عوامی لانگ مارچ کے نتیجے میں بحال ہوئے۔ بحالی کے بعد ان ججوں نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع کردی ہے لیکن خفیہ اداروں کے رویّے میں کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ ان خفیہ اداروں کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ پاکستان بدل چکا ہے۔ وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ معزول جج صاحبان آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بحال کروائے ہیں لہٰذا اس مہربانی کی وجہ سے سپریم کورٹ لاپتہ افراد کے مقدمے میں نرمی اختیار کرے گی۔ جسٹس جاوید اقبال کے ریمارکس کو خفیہ ادارے اپنے لئے وارننگ سمجھ لیں تو اچھا ہوگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ منتخب حکومت ان خفیہ اداروں کے سامنے بدستور بے بس ہے۔ 30دسمبر کو اس ملک کے چار صوبوں کے منتخب وزرائے اعلیٰ گوادر میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ایک مشترکہ اپیل بھی جاری کرچکے ہیں لیکن خود کو سویلیں حکومت سے زیادہ طاقتور سمجھنے والے چند مغرور انسانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور شاید اسی لئے جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ جمہوریت کو عدلیہ سے نہیں بلکہ لاپتہ افراد جیسے مسائل سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے طوفانی لہروں والے ایک خطرناک دریا کو اپنے الفاظ کے کوزے میں بند کردیا ہے۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کا ساتھ دینا ہے کیونکہ یہ ہم سب کا امتحان ہے۔ ہم سب این آر او کیس میں اچھل اچھل کر عدلیہ کی حمایت کا اعلان کرتے رہے ہیں کیونکہ مقابلے پر چند کرپٹ لیکن کمزور سیاست دان کھڑے ہوتے ہیں۔ لاپتہ افراد کا مقدمہ ہمارا اصل امتحان ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا مقابلہ بہت مضبوط خفیہ اداروں سے ہے اور اسی لئے جج صاحبان اسے این آر او سے بڑا مقدمہ قرار دے رہے ہیں۔ اس امتحان میں پورا اتر کر ہم چند کرپٹ سیاست دانوں کی طرف سے عدلیہ اور میڈیا پر جمہوریت کے خلاف سازش کرنے کے الزام کو واپس ان کے منہ پر مار سکتے ہیں۔